مفلس کون
کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔
پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا:
”جانتے ہو کہ تم میں مفلس کون ہے؟“صحابہ نے عرض کیا:”مفلس ہمارے ہاں وہ شخص ہے جس کے پاس نہ تو مال و دولت ہو، نہ کوئی اور سامان۔“ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت کا مفلس وہ شخص ہے جو قیامت میں اپنی نماز، روزہ اور زکوٰۃ کے ساتھ اللہ کے سامنے حاضر ہوگا، ساتھ ہی اس نے دنیا میں کسی کو گالی دی ہو گی، کسی پر تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال کھایا ہو گا یا کسی کوقتل کیا ہو گا، کسی کو ناحق مارا ہو گا۔ ان تمام مظلوموں میں اس کی نیکیاں بانٹ دی جائیں گی، پھر اگر اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں اور مظلوموں کے حقوق ابھی باقی ہوں گے تو ان کے گناہ اس شخص کے حساب میں ڈال دیے جائیں گے اور پھر اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔“ (مسلم)
آپ اکثر سنتے ہوں گے، کسی غریب آدمی کا ذکر کیا جائے تو کہا جاتا ہے کہ اس کے پاس رہنے کے لیے ڈھنگ کا مکان نہیں ہے، اپنی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ بے حد مفلسی کی زندگی گزار رہا ہے۔ اس دنیا میں عام طور پر مفلس ایسے ہی شخص کو کہا جاتا ہے، لیکن اللہ کی نظر میں ”مفلس“ کے معنی مختلف ہیں۔ اس کی تشریح، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے کہ اصل مفلس وہ ہے جو نیکیاں لے کر قیامت کے روز آئے گا لیکن اس کے ساتھ اس نے دنیا میں دوسرے انسانوں کو تکالیف دی ہوں گی۔ اس لیے اس کی نیکیاں ان انسانوں میں تقسیم کر دی جائیں گی۔ اگر اس کی نیکیاں کافی نہ ہوں گی اور اس کے ظلم سے متاثر ہونے والے اب بھی باقی ہوں گے تو ان مظلوموں کے گناہ، اس شخص کے نامہ اعمال میں شامل کر دیے جائیں گے۔
آپ جانتے ہیں کہ اس دنیا میں کوئی بھی شے خریدنے کے لیے، رقم کی ضرورت پڑتی ہے۔ کسی زمانے میں تو مال کے بدلے مال حاصل کرنے کا نظام رائج تھا۔ کسی کو گندم کی ضرورت ہوتی اور اس کے پاس چاول ہوتے تو وہ اپنے چاول دے کر کسی سے گندم حاصل کر لیتا۔ پھر تبادلے کا یہ نظام ختم ہو گیا اور اس کی جگہ کرنسی نے لے لی۔ آج دنیا میں تقریباً ہر ملک کی اپنی کرنسی رائج ہے، اور اشیاء کی خریداری کے لیے اس ملک میں رائج کرنسی کی ادائیگی کرنی پڑتی ہے۔ جس کے پاس زیادہ رقم ہو، وہ زیادہ دولت مند سمجھا جاتا ہے۔
آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ دنیا کی یہ زندگی مختصر ہے۔ ہر انسان کو موت کا مزہ چکھنا ہے، پھر ایک خاص مدت کے بعد تمام انسانوں کو دوبارہ زندہ کر دیا جائے گا۔ پھر تمام انسانوں کو اپنے ان اعمال کا حساب دینا ہو گا، جو وہ دنیا میں کرتے رہے۔ جس مسلمان کی نیکیاں زیادہ ہوں گی، اسے جنت میں داخل کر دیا جائے گا۔ جس مسلمان کے گناہ زیادہ ہوں گے، اسے جہنم کی سزا ملے گی۔ اس سے ظاہر ہوا کہ قیامت کے روز نہ روپیہ کام آئے گا، نہ ڈالر، نہ کوئی اور کرنسی اور نہ کوئی مال و اسباب۔ اس دن تو نیکی کا سکہ چلے گا۔ جس کے پاس نیکیاں زیادہ ہوں گی، وہ دولت مند کہلائے گا اور جس کی نیکیاں کم ہوں گی، وہ ”مفلس“ کہلائے گا۔
اس کے ساتھ ساتھ ایک اہم بات یہ ہے کہ دنیا میں اگر ہم کسی کو تکلیف دیتے ہیں تو یہ گناہ ہمارے حساب میں لکھ دیا جاتا ہے۔ اب جب تک وہ شخص ہمیں معاف نہیں کرے گا، جسے ہم نے تکلیف دی تھی، تو یہ گناہ ہمارے حساب میں لکھا رہے گا۔ دنیا کی زندگی میں ایسا اکثر ہوتا ہے کہ کوئی شخص کسی کو گالی دے دیتا ہے۔ کسی پر جھوٹا الزام لگا دیتا ہے۔ کسی کی چیز پر زبردستی قبضہ کر لیتا ہے۔ کسی کی بے عزتی کر دیتا ہے۔ کسی کو بلا وجہ یا اپنی غلط خواہشات کو پورا کرنے کے لیے قتل یا زخمی کر دیتا ہے۔ ان تمام صورتوں میں ظلم کرنے والے کے گناہ بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ یہ گناہ اس وقت تک معاف نہیں ہوتے جب تک کہ وہ افراد معاف نہ کردیں جن پر ظلم ہوا تھا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں دوسروں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور آخرت کے دن مفلسوں میں شامل ہونے سے محفوظ رکھے۔ آمین