۱۵ ۔ معاہدۂ حدیبیہٖ
محمد حمید شاہد
۔۔۔۔۔۔۔۔
وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَالَسَّیِّءَۃُ اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَ بَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ
اے نبی نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو۔تم دیکھوگے کہ تمھارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے۔(حٰم السجدہ۳۴)
بے ضرر قافلہ
وہ خوشی خوشی جو مدینہ سے نکلتے ہیں تویہ انگشت بد نداں ہو جاتے ہیں!
’’عجب آزاد لوگ ہیں یہ بھی۔ مکہ کا کون فرد ہے جو ان کے خون کا پیاسا نہیں۔لیکن پھر بھی ہنسی خوشی موت کے کنوئیں کی جانب رواں ہیں۔نہ جسموں پر زرہ ہے نہ خود، نہ ہاتھوں میں نیزے ہیں نہ ڈھال۔ بس رواج کے مطابق ایک ایک تلوار ہے اور وہ بھی نیام بند۔ سمجھا یا تو بہت تھا مگر ہماری بات ان کی سمجھ میں نہ آئی۔ کہا یہ بھی تھا کہ سنو تم قریشی سرداروں کے زندہ رہتے ہوئے مکہ کیسے جاؤ گے؟تو جواباً کہنے لگے رسولؐخدا قریش سے زیادہ طاقتور ہیں اور جب ہم نے کہا کہ تمھاری عقل ماری گئی ہے ذرا لوٹ کر آنا تب دیکھیں گے تو بھی ان دیوانوں پر اثر نہ ہوا۔‘‘
ادھر مدینہ میں منافقین یہ سوچ رہے ہیں اور ادھر محمدؐ اپنے چودہ سو ساتھیوں کے ہمراہ مقام ذوالحلیفہ پہنچ چکے ہیں۔ یہیں پر ساتھ لائے ہوئے ستر اونٹوں کی گردنوں میں لوہے کے نعل لگا دیے جاتے ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ قربانی کے جانور ہیں۔ایک ایک مجاہد کا چہرہ فرط مسرت سے دمک رہا ہے۔بلالؓ کی خوشی بھی دیدنی ہے۔اس دن کے لیے تو انھوں نے رو رو کر دعائیں مانگیں۔وطن کی یاد ایک پھانس بن کر کلیجے میں ہر وقت کھٹکتی رہتی۔حالانکہ مکہ کے معاشرہ میں بلالؓکی حیثیت ایک غلام سے زیادہ نہ تھی۔ مکہ میں جب بلالؓ نے اپنا سینہ نور حق سے منور کیا تو اہل قریش نے ستم کی انتہا کر دی تھی۔ تپتی ریت اور جلتے سنگریزوں اور دہکتے انگاروں پر لٹایا گیا۔ گلے میں رسی ڈال کر گلیوں میں گھسیٹا گیا، کبھی گائے کی کھال لپیٹ کر دھوپ میں کھڑا کر دیا جاتا۔مگر مدینہ میں آکر ظلم وستم کی بستی مکہ کو دیکھنے کی خواہش جوں جوں زیادہ ہوتی جارہی تھی، بلالؓ راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر اور رو رو کر یہ رجز پڑھا کرتے:
الا لیث شعری ہل اُبتین لیلۃً
بوادِ و حولی اذخرٌ و جلیلٌ
دہل اردَنُ یومًا مباہ مجنۃ
و ہل یبدون لی مشامہ و طفیل
’’آہ!کیا پھر کبھی وہ دن آسکتا ہے کہ میں مکہ کی وادی میں ایک رات بسر کروں اورمیرے پاس اذخر اوخلیل ہوں۔اور کیا وہ دن بھی ہو گا کہ میں مجنہ کے چشموں پر اتروں اور شامہ وطفیل مجھ کو دکھائی دیں۔‘‘
اور پھر اپنے محبوب قائد محمدؐ (صلی اللہ علیہ وسلم)سے ایک سہانی صبح یہ سنا کہ
’’ان شاء اللہ خانہ کعبہ میں تم ضرور داخل ہو گے اور اس وقت تمھیں کوئی خطرہ نہ ہو گا۔‘‘
بلالؓ اور دوسرے مجاہدین کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ سبھی جھٹ پٹ تیار ہوئے اور مکہ کی جانب نکل کھڑے ہوئے!
ذوالحلیفہ کے مقام پر اونٹ نشان زدہ کرنے کے بعد مجاہدین بڑھتے بڑھتے عضان پہنچ جاتے ہیں۔ مجاہدین کی نظریں مسلسل مکہ کی راہ پر پڑ رہی ہیں۔بس تھوڑا ہی فاصلہ باقی رہ گیا ہے۔پھر مکہ کی درو دیوار آنکھوں کے سامنے ہوں گے پھر خدا کے مقدس گھر بیت اللہ کا طواف کیا جائے گا۔ان گلیوں کو بھی دیکھیں گے جن میں محمدؐ (صلی اللہ علیہ وسلم)نے نور حق پھیلایا،طعنے سنے،پتھر کھائے،اور ستم سہے،ان مکانوں کو دیکھیں گے جس سے ماضی کی یادیں وابستہ ہیں۔یہ سوچ سوچ کو نہال ہو رہے ہیں دفعتاًدور مکہ کی جانب سے غبار اُٹھتی ہوئی نظر آتی ہے جو آہستہ آہستہ مجاہدین کی جانب بڑھی چلی آرہی ہے۔غبار کا دامن تار ہوتا ہے تو ایک سر پٹ گھوڑا دوڑاتا سوار نظر آتا ہے۔سوار قریب پہنچتا ہے۔ لوگ پہنچاتے ہیں کہ یہ بُسرا۱بن ابو سفیان کعئی ہے محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرتا ہے:
’’یا رسولؐؒ ؒ اللہ آپؐ کی آمد کی اطلاع قریش کو مل چکی ہے عورتیں اور بچے تک لڑنے کے لیے نکل آئے ہیں۔کچھ نو جوان چیتے کی کھال میں ملبوس ہیں۔ انھوں نے عہد کر رکھا ہے کہ آپؐ کو ہر گز داخل نہ ہونے دیں گے ذی طویٰ میں آکر ڈیرے ڈال دیے گئے ہیں۔خالد بن ولید سواروں کا سپہ سالار ہے انھیں پہلے ہی کراع غمیم بھیج دیا گیا ہے۔‘‘
محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) یہ سنتے ہیں تو چہرے پر کرب کے آثار ہو یدا ہو جاتے ہیں اور پھر فرماتے ہیں۔
’’حیف برقریش!اُنھیں جنگیں کھا گئیں۔مگر پھر بھی نہ سمجھے، کیا نقصان تھا اگر وہ مجھے عرب پر چھوڑ دیتے۔اگر عرب مجھے ختم کر دیتے تو قریش کا مقصد پورا ہو جاتا اور اگر مجھے غلبہ حاصل ہو جاتا تو وہ جوق در جوق اسلام میں داخل ہوتے اور اگر اسلام میں داخل نہ ہونا ہوتا تو جب تک قوت ہوتی جنگ کرتے۔پھر قریش کس زعم میں ہیں۔واللہ۔میں اُس مقصد کہ جس کے لیے مجھے مبعوث کیا گیا ہے برابر اس وقت تک جہاد کرتا رہو ں گا جب تک اللہ تعالیٰ اسے غالب نہیں کر دیتا یا میں خود ختم نہیں ہو جاتا۔‘‘
آہ!قریش دشمنی میں کتنے اندھے ہو چکے ہیں کعبتہ اللہ ہر قبیلے اور فرد کے لیے کھلا ہے لیکن اگر پابندی ہے تو صرف محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)اور ان کے ساتھیوں پر ،پھر ستم یہ کہ اہل قریش ایسے مہینوں میں اپنی تلواروں کی پیاس مجاہدین اسلام کے خون سے بجھانا چاہتے ہیں کہ جو مسلمان اور خود مشرکین کے نزدیک واجب الاحترام اور امن کے مہینے ہیں۔محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) مدینہ سے صرف کعبتہ اللہ کی زیارت کی نیت سے نکلے ہیں اور نہیں چاہتے کہ جنگ کے شعلے بھڑک اُٹھیں چنانچہ فرماتے ہیں:
’’کون ہے جو مجھے اس راستہ کے علاوہ کہ جس پر قریشی ہیں کسی دوسرے راستے سے لے چلے۔‘‘
ایک مجا۲ہد جو صحرائی راستوں سے خوب واقف ہے آگے بڑھ کر عرض کرتا ہے:
انا یا رسول اللّٰہ
’’یا رسولؐاللہ میں حاضر ہوں۔‘‘
پھر اس مجاہد کے پیچھے مسلمانوں کا قافلہ راہ بدل کر حدیبیہ کے مقام پر پہنچتا ہے محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)ایک اونٹنی پر سوار چلے آ رہے ہیں حدیبیہ پہنچ کر اونٹنی بیٹھ جاتی ہے اور بیٹھی بھی یوں کہ اُٹھنے کا نام نہیں لے رہی۔سبھی حیران ہیں اونٹنی آخر کیوں بیٹھ گئی۔کہ محمدؐ فرماتے ہیں:
’’یہ تھکاوٹ کی وجہ سے نہیں بیٹھی۔اللہ کے حکم سے بیٹھی ہے اللہ کی مرضی یہی ہے کہ ہم یہاں رُک جائیں۔‘‘
دور دور تک پانی کا نشان نہیں مجاہدین اور جانور سبھی پیاس سے بے حال ہیں نزدیک ایک کنواں تو موجود ہے مگر اس میں پانی کی ایک بوند بھی نہیں یہ دیکھ کر محمدؐ (صلی اللہ علیہ وسلم) اپنے ایک ساتھی کو تیر عنایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اسے کنویں کے وسط میں نصب کر دو!‘‘
حکم کی تعمیل کی جاتی ہے تو کنویں سے پانی جوش مار کر اُبل پڑتا ہے۔مجاہدین سیر ہو کر پانی پی چکتے ہیں تو جانوروں کو بھی پانی پلایا جاتا ہے۔محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)اطمینان سے تشریف فرما ہو جاتے ہیں تو بدیل ابن ورقا خزاعی اپنے ساتھیوں کے ساتھ خدمت اقدس میں حاضر ہو کر عرض کر تا ہے:
’’یارسولؐاللہ آپ کس مقصد کے لیے تشریف لائے ہیں۔‘‘
محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) جواباًفرماتے ہیں :
’’ہم قتال کے ارادے سے نہیں آئے بلکہ صرف کعبتہ اللہ کی زیارت کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
بدیل بن ورقا خزاعی یہ سن کر مکہ واپس پلٹ جاتا ہے۔
انکار
عجب اضطراب چہار سو پھیلا ہو ا ہے۔ایک ایک فرد بد حواس اور پریشان ہے۔سردار ان قریش بھی مخمصے میں پڑے ہیں۔’’انھیں روکا بھی نہیں جا سکتا کہ حرم کی زیارت کو آئے ہیں جنگ بھی نہیں کی جا سکتی کہ حرام مہینوں کی حرمت پامال ہوتی ہے۔اگر داخل ہوں تو اہل قریش کی موت ہے۔ آج زائرین کعبہ بن کر داخل ہو گئے تو مطلب یہ ہے کہ مکہ کا دروازہ ان پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کھل گیا۔اور پھر سارا عرب یہ بھی کہے گا قریش نے ان کی قوت سے ڈر کر راستہ کھول دیا۔‘‘کہ اسی اثنا میں بدیل ابن ورقا خزاعی اہل قریش کے پاس پہنچ جاتا ہے۔اور کہتا ہے:
’’سنو اے قریش!محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)اور ان کے ساتھیوں کو زیارت کعبہ سے منع مت کرو!ان کا مقصد صرف زیارت ہے اور اس سے انھیں روکنا بری بات ہے۔‘‘
اہل قریش جو پہلے ہی جلے بھنے بیٹھے ہیں یہ سنتے ہیں تو بدیل ابن ورقا خزاعی پر خوب بگڑتے ہیں اور اسے سخت سست کہتے ہیں۔پھر اہل قریش مکرزابن حفص کو بھیجتے ہیں۔مکرز کو بھی محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)وہی جواب دیتے ہیں۔جو بدیل کو دیا تھا۔مکرز کے بعد جلیس ابن علقمہ کو مجاہدین کی جانب روانہ کیا جاتا ہے۔محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) جو جلیس کو آتا ہوا دیکھتے ہیں تو فرماتے ہیں:
’’یہ عبادت گزار قوم کا فرد ہے قربانی کے اونٹ اس کے سامنے سے گزارو تاکہ یہ دیکھ سکے۔‘‘
جلیس ایسے اونٹوں کو دیکھتا ہے جن کی گردنوں میں قربانی کے نشان موجود ہیں اور وہ شدت بھوک سے ایک دوسرے کے بدن کے بال نوچ کر کھا رہے ہیں۔ تو اس کی آنکھوں میں آنسو اُمڈ آتے ہیں کسی سے ملا قات کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتا اور واپس مکہ پلٹ کر اہل قریش سے کہتا ہے:
’’تم ستم سے باز آجاؤ اور مکہ کا دروازہ محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)اور ان کے ساتھیوں پر کھول دو تاکہ وہ قربانی کر سکیں۔‘‘
سرداران قریش یہ سنتے ہیں تو ان کا خون کھولنے لگتا ہے۔جلیس پر بگڑتے ہوئے کہتے ہیں:
’’خاموش رہ جلیس!تو تو بالکل اعرابی نکلا۔‘‘
اہل قریش کی یہ بات سن کر جلیس بھی طیش میں آجاتا ہے اور کہتا ہے:
’’اے اہل قریش!واللہ ہمارا تمھارا اس بات پر تو معاہدہ نہ تھا کہ جو شخص کعبتہ اللہ کی زیارت کرنے آئے گا۔اسے روکیں گے۔قسم اس کی جس کے قبضہ میں جلیس کی جان ہے یا تو محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)اور ان کے ساتھیوں کو طواف کعبہ کرنے دو۔ورنہ میں تم سے اپنا قبیلہ لے کر علیحدہ ہوتا ہوں۔‘‘
یہ سنتے ہی قریش کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں۔ منت سماجت سے جلیس کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے بعد عروہ بن ثقفی کو سفیر بنا کر محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)کے پاس بھیجتے ہیں۔اور جب وہ واپس پلٹا ہے تو حیرت سے یہ بتلاتا ہے:
’’میری آنکھوں نے دربار نجاشی دیکھا اور قیصر وکسریٰ کی شان بھی لیکن دربار محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)کا تو رنگ ہی کچھ اور ہے۔جتنے معزز محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) اپنے اصحاب میں ہیں اتنا معزز کوئی بھی اپنی قوم میں نہیں۔وہ وضو کرتے ہیں تو پانی کا قطرہ تک زمین پر گرنے نہیں دیا جاتا۔ لعاب دہن پھینکنا چاہتے ہیں تو صحابہ آگے بڑھ کر اپنے ہاتھوں اور چہروں میں مل لیتے ہیں ۔محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھی کسی صورت بھی اس کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتے۔اب تمھاری مرضی جو رائے قائم کرو۔‘‘
قریش کے پیامی آکر پلٹتے جاتے ہیں۔مگر بات ذرہ برابر بھی آگے نہیں بڑھ رہی۔ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) اپنا نقطہ نظر قریش پر واضح کرنے کے لیے خراش بن اُمیہ خزاعی کو اپنا اونٹ دے کر روانہ کرتے ہیں۔خراش جونہی اہل قریش کے پاس پہنچتے ہیں تو مشرکین کا خون کھولنے لگتا ہے۔ چہار جانب سے خراش پر پل پڑتے ہیں۔ اونٹ کو تہہ تیغ کرنے کے بعد خراش کا کام بھی تمام کرنا چاہتے ہیں کہ ’’چند بڑے‘‘آڑے آجاتے ہیں۔خراش واپس محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس پلٹ آتے ہیں۔ابھی اس صدمہ کا اثر زائل نہیں ہوتا کہ قریش کے چالیس آدمی مسلمانوں پر حملہ آور ہو جاتے ہیں مگر سب کے سب مجاہدین کے ہاتھوں گرفتار ہو جاتے ہیں۔حملہ آوروں کو محمد(صلی اللہ وعلیہ وسلم)کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) سبھی کو معاف کر دیتے ہیں کیونکہ اصل مقصد قتال نہیں بلکہ طواف کعبہ ہے۔پھر عثمانؓ بن عفان کو نمائندہ بنا کر اہل قریش کے پاس روانہ فرماتے ہیں۔عثمانؓ اہل قریش تک محمدؐ کا پیغام پہنچاتے ہیں تو قریش جواب دیتے ہیں کہ:
’’اگر تم چاہوتو بیت اللہ کا طواف کر لو لیکن محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) کو اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔‘‘
عثمانؓ یہ سنتے ہیں تو فرماتے ہیں۔
’’واللہ میں تو اس وقت تک طواف نہ کروں گا جب تک رسولؐاللہ طواف نہ کر لیں۔‘‘
اہل قریش کہتے ہیں:
’’یہ تم پر منحصر ہے لیکن تم جان لو کہ تم اب ہمارے قیدی ہو!اور واپس نہیں جا سکتے۔‘‘
معاہدہ
عثمانؓ شہید کر دیے گئے!
ہاں عثمانؓ شہید کر دیے گئے، جس تک یہ خبر پہنچتی ہے تڑپ اٹھتا ہے ہر ایک غم وغصے سے بے قابو ہوا جا رہا ہے محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) کو بھی یہ خبر سن کر شدید رنج ہوتا ہے فرماتے ہیں:
’’عثمانؓ کے خون کا بدلہ لینا فرض ہے۔‘‘
پہلے صلح کے پیامی آجارہے تھے، مگر اب صورتحال اس خبر کے بعد یکدم بدل گئی ہے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) ببول کے درخت کے نیچے تشریف فرما ہیں اور مجاہدین آآ کر اس بات کا عہد کر رہے ہیں کہ :
’’عثمانؓ کا بدلہ لینے کے لیے اپنی جان تک لڑا دیں گے۔‘‘
ادھر جب قریش تک مجاہدین کے جوش وخروش کی اطلاع پہنچتی ہے تو سہیل۳ بن عمرو کو صلح کے لیے بھیجتے ہیں۔اس لمحے یہ اطلاع بھی موصول ہو جاتی ہے کہ عثمانؓ بخریت ہیں اور جلد اپنے ساتھیوں سے آملیں گے۔یہ مژدہ جانفزا سن کر مجاہدین کو کچھ سکون ہوتا ہے۔سہیل بن عمرو کو آتے دیکھ کر محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) فرماتے ہیں:
’’مسلمانو!تمھارا کام اللہ نے آسان کر دیا۔‘‘
دیر تک صلح کی بات چیت چلتی ہے بالآخر فیصلہ طے پا جاتا ہے۔تو علیؓکو معاہدہ رقم کرنے کے لیے بلایا جاتا ہے۔علیؓتشریف لاتے ہیں تو محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) فرماتے ہیں:
’’لکھو!بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
لیکن سہیل بول پڑتا ہے۔
’’یہ نہیں بلکہ’’بِاسمک اللّٰہُم والے وہی پرانے الفاظ لکھو جو ہم پہلے لکھا کرتے تھے۔‘‘
محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)فرماتے ہیں’’اچھا‘‘بِاسْمک اللّٰہم ہی لکھو‘‘!
علیؓ تعمیل کرتے ہیں تو محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)فرماتے ہیں لکھو!یہ وہ معاہدہ ہے جس پر محمدؐ رسولؐاللہ اور سہیل بن عمرو نے صلح کی۔‘‘ایک مرتبہ پھر سہیل بن عمرو تڑپ اُٹھتا ہے اور کہتا ہے:
’’اگر ہم آپ کو اللہ کا رسولؐمانتے تو جنگ کی کیوں ضرورت پیش آتی یہاں تو صرف آپ کا نام اور ولدیت ہونی چاہیے۔‘‘
محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) سہیل کا یہ موقف سنتے ہیں تو فرماتے ہیں۔
’’اگرچہ تم انکاری ہو!لیکن خدا کی قسم میں اللہ کا رسول ؐہوں!‘‘
سہیل بن عمرو کی گستاخانہ باتوں سے علیؓ کے دل پر بہت چوٹ لگتی ہے۔قلم کانپ جاتا ہے محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)کمال فراخدلی سے یہ کہتے ہیں کہ جیسے یہ کہتا ہے ویسے ہی لکھ دو۔تو علیؓرسولؐاللہ کے الفاظ مٹانے سے معذوری کا اظہار کرتے ہیں محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)خود قلم پکڑ کر رسولؐاللہ کے الفاظ مٹا دیتے ہیں پھر دستاویز لکھ دی جاتی ہے۔
* فریقین دس سال تک کے لیے جنگ بندی اور صلح رکھیں گے اور اس عرصہ میں لوگ امن کی زندگی بسر کریں گے۔
* محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) اور ان کے ساتھی اس سال واپس پلٹ جائیں گے اور اگلے سال زیارت کعبہ کے لیے آئیں گے۔اور صرف تین روز مکہ میں قیام کریں گے۔ہمراہ ہتھیار نہیں لائیں گے۔صرف رواج کے مطابق نیام بند تلواریں ہوں گی۔
* قریش کا کوئی آدمی اگر ولی کی اجازت کے بغیر محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس آئے تو محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)اسے قریش کے حوالے کر دیں گے۔لیکن اگر محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) کا کوئی آدمی قریش کے پاس آیا تو اسے واپس نہیں کیا جائے گا۔
بظاہر یہ شرائط مسلمانوں کے خلاف ہیں۔اس لیے سبھی مجاہدین افسردہ ہو جاتے ہیں۔دل بجھ جاتے ہیں۔آہ کتنے سندر سپنے دیکھے تھے مجاہدین نے مکہ چلنے کے!طواف کعبہ کی حسرت لے کر یہاں تک پہنچے مگر اب تو مکہ میں داخل ہوئے بغیر ہی واپس مدینہ پلٹنا پڑ رہا ہے۔
تعمیل
وہ بیڑیاں گھسیٹتا گھسیٹتا مجاہدین کے سامنے آگرتا ہے۔پھٹے کپڑے بکھرے بال،جسم پر تشدد کے نشان، زخموں سے چوراور بیڑیاں پہنے ۔ابو جندلؓ ۴؎ پر مجاہدین کی جب نظر پڑتی ہیں۔تو سبھی تڑپ اُٹھتے ہیں۔محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)بھی اس ستم رسیدہ جانثار کا حال دیکھ چکے ہیں۔ابو جندلؓ کا باپ سہیل بن عمرو محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس بیٹھا صلح کے معاہدہ پر گفتگو کر رہا ہے۔اب جو اپنے بیٹے کو یہاں دیکھتا ہے تو آنکھوں میں خون اُتر آتا ہے۔ابو جندلؓکو گریبان سے پکڑ کر چہرے پر طمانچے برسانے لگتا ہے۔پھر محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) سے مخاطب ہو کر کہتا ہے:
’’محمدؐ!معاہدہ میرے اور آپ کے درمیان طے ہو چکااس لیے اسے واپس لوٹنا پڑے گا۔‘‘
محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)مضطرب ہوتے ہیں جی نہیں چاہتا کہ ابو جندلؓکو ایک مرتبہ پھر ظلم کی بھٹی میں جھونک دیا جائے۔کوشش یہی فرماتے ہیں کہ سہیل بن عمرو کسی طرح مان جائے۔مگر وہ نہیں مانتا تو آپ معاہدہ کے مطابق ابو جندلؓکو واپس کر دیتے ہیں۔سہیل بن عمرو ابو جندلؓکو گھسیٹ کر لے جانا چاہتا ہے تو ابوجندلؓچیخ چیخ کر کہنے لگتے ہیں:
’’مسلمانو!کیا مجھے سابقہ حالت میں دیکھنا چاہتے ہو میں نے تو اسلام قبول کر لیا ہے پھر مجھے کافروں کے حوالے کیوں کر رہے ہو۔‘‘
مجاہدین یہ منظر دیکھتے ہیں تو سبھی کا خون کھول اُٹھتا ہے۔محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)بھی اس مجاہد کی اس حالت پر رنجیدہ ہو جاتے ہیں بڑے درد سے فرماتے ہیں:
’’ابوجندلؓصبراور ضبط سے کام لو خدا تمھارے لیے اور دوسرے مظلوموں کے لیے کوئی راہ نکالے گا۔اب صلح ہو چکی ہم ان لوگوں سے بدعہدی نہیں کرسکتے۔‘‘
پھر محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)قربانی کرتے ہیں۔بال اترواتے ہیں اور دوسروں کو بھی ایسا کرنے کا حکم دیتے ہیں۔سبھی مجاہدین ٹوٹے دلوں کے ساتھ حکم محمدؐ کی تعمیل کرتے ہیں۔
فتح مبین
بجھے بجھے دل،اُترے اُترے چہرے اور بوجھل بوجھل قدموں کے ساتھ سبھی مدینہ کی جانب پلٹ جا رہے ہیں دفعتاًمحمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کی جانب وحی آتی ہے۔
وحی کا سلسلہ منقطع ہوتا ہے تو محمدؐاپنے پژمردہ ساتھیوں کو فرمان الٰہی سناتے ہیں:
’’ہم نے آپ کو فتح مبین عطا کی۔تاکہ اللہ تعالیٰ آپ کی سب اگلی پچھلی خطائیں معاف کر دے اور سیدھی راہ پر چلنے کی ہدایت دے۔‘‘
عمرؓحیرت سے پوچھتے ہیں۔کیا یہ واقعی فتح مبین ہے؟
محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) فرماتے ہیں۔ہاں یہ فتح مبین ہے۔پھر واقعات کی سلسلہ وار کڑیاں اللہ اور اس کے رسولؐکے کیے کو سچ کر دکھاتی ہیں۔امن کے معاہدہ کی وجہ سے جنگ کا خطرہ کم از کم دس سال کے لیے ٹل چکا ہے۔ اس لیے مسلمانوں کی ساری توجہ دعوت دین کی طرف مبذول ہو چکی ہے۔اسلام تیزی سے پھیلنے لگتا ہے ۔مسلمین مدینہ اور مشرکین مکہ کے درمیان میل جول کے راستے کھل جاتے ہیں اور اہل مکہ مدینہ آکر مسلمانوں کے رہن سہن اور کردار سے بے حد متاثر ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اہل مکہ کے دل میں اسلام نے جگہ بنانا شروع کر دی ہے۔الغرض صلح حدیبیہ کے بعد دو برس میں اتنی تعداد میں لوگ دعوت حق کو اپناتے ہیں جتنے گذشتہ اٹھارہ اُنیس سالوں میں قریب نہ آسکے۔
پھر اس صلح کا یہ بھی فائدہ ہوتا ہے کہ اگلے سال دوہزار افراد جب طواف کعبہ کے لیے مکہ پہنچتے ہیں تو مجاہدین کے کردار سے اہالیان مکہ کے دلوں پر ایک رُعب قائم ہو جاتا ہے۔
قریش مکہ کی جانب سے مطمئن ہو کر مسلمانوں کو اپنے ثانوی دشمنوں سے نمٹنے کا موقع مل جاتا ہے۔یہودی عرصہ دراز سے مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے چلے آ رہے ہیں۔جنگ احزاب کے شعلے بھی انہی یہودیوں کی کارستانیوں سے بھڑکے تھے اور اب بھی مدینہ پر حملہ کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔چنانچہ محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) اپنے ساتھیوں کو خیبر کی جانب کوچ کا حکم دیتے ہیں کیونکہ خیبر ہی یہود کی سرگرمیوں کا اڈا ہے۔مسلم فوج خیبر والوں کے سامنے اچانک نمودار ہوتی ہے تو وہ دہشت زدہ ہو کر قلعوں میں پناہ گزین ہو جاتے ہیں۔لیکن مجاہدین کے عزم کے سامنے بھلا وہ کیسے ٹھہر سکتے۔بالآخر بیس۲۰روز کے مسلسل محاصرے کے بعد شیر خدا حضرت علیؓ کے ہاتھوں خیبر فتح ہو جاتا ہے۔
جب حواس بحال ہوئے
ستم سہتے سہتے پیمانہ صبر چھلک پڑتا ہے تو ابو بصیر چپکے سے سوئے مدینہ چل دیتے ہیں مگر جونہی مدینہ پہنچتے ہیں۔قریش مکہ کے دو نمائندے دربار محمدؐمیں پہنچ کر ابو بصیر کی واپسی کا مطالبہ کرتے ہیں۔صلح حدیبیہ میں یہی طے ہوا تھا کہ مکہ کا جو بھی فرد اپنے ولی کی اجازت کے بغیر مدینہ آئے گا اسے واپس کر دیا جائے گاکتنا نازک معاملہ ہے۔ابو بصیر ایمان کی دولت سے مالا مال ہیں اور اُنھیں واپس جو روجفاکی بستی مکہ میں بھیجنے کو جی نہیں چاہتا لیکن معاہدہ ہو چکا ہے اس لیے محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) ابو بصیر سے فرماتے ہیں۔
’’ابوبصیر!ہم نے اس قوم سے جو معاہدہ کیا ہے تم اس سے آگاہ ہو۔ہمارے دین میں وعدہ خلافی جائز نہیں۔اللہ تعالی تمھارے لیے اور تمھارے دوسرے کمزور ساتھیوں کے لیے آسانی کی کوئی راہ پیدا کر دے گا اور کوئی نہ کوئی راستہ نکالے گا۔اس لیے تم اپنی قوم کے پاس واپس پلٹ جاؤ۔‘‘
ابو بصیر محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) کی بات سنتے ہوئے حیرت سے پوچھتے ہیں:
’’یا رسول ؐاللہ!کیا آپ مجھے دوبارہ مشرکوں کے حوالے کر رہے ہیں جو میرے دین کو تباہ کر دیں گے؟‘‘
محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) ابو بصیر کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ابو بصیر! تم جاؤ خدا وند کریم جلد ہی تمھارے اور تمھارے دوسرے کمزور ساتھیوں کے لیے آسانی کا کوئی راستہ نکالے گا۔‘‘
ابو بصیر یہ سن کر حکم محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)کی تعمیل میں قریش کے دونوں نمائندوں کے ساتھ واپس مکہ کی جانب چل پڑتے ہیں۔جب مقام ذوالحلیفہ پہنچتے ہیں تو ابو بصیر کا ذہن ایک منصوبہ بناتا ہے اور فوراً اس منصوبے کو تکمیل تک پہنچانے کے لیے قریش کے دو نمائندوں میں سے ایک کو قتل کر دیتے ہیں۔یہ منظر دیکھ کر دوسرا بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔ابو بصیر وہاں سے مدینہ پہنچتے ہیں اور محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں۔اتنے میں قریش کا بچ نکلنے والا نمائندہ حاضر ہو کر عرض کرتا ہے:
’’یا رسولؐاللہ!ابو بصیر نے میرے ساتھی کو قتل کر دیا ہے۔‘‘
یہ بات سن کر ابو بصیر فوراً عرض کرتے ہیں:
’’یا رسولؐاللہ!آپ کی ذمہ داری تکمیل کو پہنچی اور اللہ کی جانب سے جو کچھ آپؐکے ذمہ تھا آپؐنے پورا کیا اور میں اپنے دین کے معاملے میں فتنے میں پڑنے سے بچ گیا۔‘‘
پھر ابو بصیر وہاں سے سیدھے ساحل سمندر کی جانب نکل جاتے ہیں اور یہیں پڑاؤ ڈال دیتے ہیں۔مکہ میں ظلم وستم کی چکی میں پسنے والے مجاہدین کو جب یہ خبر پہنچتی ہے تو وہ بھی جان بچا کر آہستہ آہستہ ابو بصیر کے پاس آنا شروع ہو جاتے ہیں۔اب اہل قریش کا جو بھی تجارتی قافلہ اس جانب سے گزرتا ہے اس پر یہ مجاہدین شب خون مار کر مال غنیمت پر قبضہ کر لیتے ہیں۔پھر یہ مسلسل مستقل صورت اختیار کر جاتا ہے تو معاہدہ کی اس شق سے خود کفار مکہ تنگ آکر محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)سے التجا کرتے ہیں کہ :
’’ہم اپنی شرط سے باز آئے۔آپ ساحل پر موجود مسلمانوں کو مدینہ بلا لیجیے۔‘‘
محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) ستم پہ ستم سہنے والے مجاہدین کو مدینہ بلا لیتے ہیں۔مسلمان کہ جو کل حیران تھے کہ یہ کیسا معاہدہ ہے جس میں اہل قریش کی برتری تسلیم کی جا رہی ہے اب پکار اُٹھتے ہیں۔
’’واقعی صلح حدیبیہ فتح مبین ہے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حاشیہ:
۱۔ نام بُسر باپ کا نام سفیان بن عمرو اپنے قبیلے کے معزز اور مقتدر شخص ہیں۔حضورؐ نے جب شرفا اور عمائد کے پاس دعوت کے خطوط بھیجے تو ایک تحریر بُسر کے نام بھی بھیجی۔ان کا دل عناد اور سر کشی سے پاک تھا۔صرف تحریر کی دیر تھی چنانچہ اس دعوت پر ۴ہجری میں مشرف با سلام ہوئے۔اس سال حضورؐ کے ساتھ عمرہ کے لیے نکلے اس کے بعد اس سفر کے تمام مراحل بیعت رضوان اور صلح حدیبیہ وغیرہ میں شریک رہے۔
۲۔ نام بدیل،باپ کا نام ورقا بن عمرو تھا ان کا قبیلہ بنی خزاعہ صلح حدیبیہ کے زمانے میں مسلمانوں کا حلیف تھا جن اسباب کی بنا پر حضورؐ نے مکہ پر حملہ کیا ان میں سے ایک سبب بدیل کے قبیلہ کی حمایت بھی تھا۔فتح مکہ کے بعد بدیل مشرف باسلام ہوئے۔قبول اسلام کے وقت بدیل کی عمر ۹۷سال تھی۔فتح مکہ کے بعد حنین،طائف اور تبوک تمام غزوات میں شریک رہے حجتہ الوادع میں بھی ہمر کاب تھے۔اور منیٰ میں اعلان کرتے پھرتے تھے کہ حضورؐ نے آج کے روز سے منع فرمایا ہے حضورؐ کی زندگی میں ہی وفات پائی۔
۳۔ یہ ابو جندل کے والد تھے۔جنگ بدر میں بحالت کفر گرفتار ہوئے۔یہی صلح حدیبیہ میں حاضر ہوئے بعد میں اسلام قبول کر لیا اور حضورؐ کی رحلت کے بعد جب لوگوں نے مکہ میں اختلاف کیا اور جس کو مرتد ہونا تھا وہ مرتد ہوا۔تو اس وقت سہیل بن عمروخطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور لوگوں کو تسلی وتشفی دی۔اور اس ارتدادو اختلاف سے لوگوں کو روکا ۱۸ ہجری میں ’’طاعون‘‘میں ان کا انتقال ہوا یہ بھی کہا جاتا ہے کہ’’یرموک‘‘میں شہید ہوئے۔
۴۔ سہیل بن عمرو کے صاحبزادے ہیں مکہ میں اسلام لائے باپ نے اسلام قبول کرنے کی وجہ سے بیڑیاں پہنادیں۔حضرت عمرؓکے دور میں وفات پائی۔