skip to Main Content

۷ ۔ البراق

سید محمد اسمٰعیل

۔۔۔۔۔۔۔۔

چودہ سو سال پہلے کی بات ہے جب نہ راکٹ تھے اور نہ مصنوعی سیّارے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے مجھ سے وہ کام لیا جو نہ راکٹ،نہ مصنوعی سیّارہ اور نہ کوئی اور تیز رفتار جہاز کر سکتاہے ۔
میں براق ہوں ۔میرے متعلق عجیب و غریب باتیں آپ نے سُنی ہوں گی ۔میری شکل و صورت اور اوصاف کے متعلق مختلف لوگوں کا مختلف خیال ہے ۔مگر حق یہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہوں جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا۔ وہ ہر چیز سے پاک ہے اور ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ۔
میری کہانی کچھ اس طرح ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ مجھ پر سوار ہوکر آسمانوں کی سیر کو گئے اور اس سفر میں عجیب و غریب واقعات پیش آئے اور ایسی باتیں ہوئیں جو انسان کی سوچ سے بالاتر ہیں ۔مگر جو کچھ بھی ہوا وہ سراسر حقیقت تھی۔
یہ بات اُس وقت کی ہے جب وحی کو نازل ہوئے ابھی بارہ سال ہوئے تھے اور ان سالوں میں رسولِ اکرمﷺ پر کفار نے بہت سختیاں کیں ۔اسی دوران آپﷺ کے چچا ابو طالب اور آپﷺ کی زوجہ مُطہرہ حضرت خدیجہؓ انتقال فرماگئیں اور آپﷺ کے حکم پر بہت سے مسلمان ہجرت کر کے مدینہ چلے گئے اور اُن ہی دنوں آپﷺ طائف کے سفر سے لوٹے جس میںآپﷺ کوکوئی کامیابی نہ ہوئی ۔ مگر ان سب حالات کے باوجودد پیارے نبی ﷺ دین کی دعوت دیتے رہتے اور اللہ کی مددطلب کرتے رہے اور ہر حال میں صبروشکر پر قائم رہے ۔
میری کہانی اس واقعے کے متعلق ہے جب میرے ساتھ رسولِ اکرم ﷺ کاا سراء اور معراج کا واقعہ پیش آیا ۔یہ بات ستائیس رجب کی رات کی ہے ۔اس رات حضرت جبرئیل ؑ رسولِ اکرم ﷺ کے گھر گئے اور انھیں خانۂ کعبہ لے کر آئے ۔میں ان کا انتظار کر رہا تھا ۔خانۂ کعبہ میں حضرت جبرئیل نے پیارے رسولﷺ کے قلب کو زم زم کے پانی سے غسل دیا اور اللہ کے حکم سے آپﷺ کے قلب میں حکمت و ایمان بھر دیا۔
پھرحضرت جبرئیل ؑ نے پیارے نبی کو مجھ پر سوار کرایا ۔پھر ہم اور جبرئیل برق رفتاری سے بیت المقدس پہنچ گئے ۔راستے میں مکے سے کچھ دور ہمیں ایک قافلہ ملا جن کی اونٹنی ان سے علیٰحد ہ ہو گئی تھی ۔پیارے نبی ﷺ نے قافلے والوں کو وہ جگہ بتا دی جہاں پر اونٹنی موجود تھی ۔پھر ہمارا گزر دوسرے قافلے پر ہوا جن کے اونٹ بِدک رہے تھے جن میں سے ایک اونٹ کی پنڈلی ٹوٹ گئی تھی ۔ایک اور قافلہ ملا جس کے آگے آگے ایک اونٹ چل رہا تھا ۔جس پر دو کالی چادریں پڑی تھیں ۔رات میں ہمیں بہت سی چیزیں نظر آئیں جن کے متعلق پیارے نبی ﷺ سوال کرتے تھے اور حضرت جبرئیل جواب دیتے جاتے تھے۔
راستے میں ایک دو شیزہ ملی جو نہایت حسین وجمیل تھی اور بہت خوبصورت کپڑے پہنے ہوئے تھی ۔ اس نے پیارے نبیﷺ کو دیکھتے ہی اپنی طرف بلایا لیکن ہمارے پیارے نبی ﷺ نے کوئی توجہ نہ کی ۔ جبرئیل نے کہا اے نبی ﷺ یہ دراصل دنیاہے جسے آپﷺ کے لئے آراستہ کیا گیا تھا ۔حضور ﷺ نے فرمایا کہ مجھے دنیا سے کوئی غرض نہیں اور جب ہم یثرب پہنچے تو حضرت جبرئیل ؑ نے کہا کہ یہ وہ شہر ہے جہاں آپ ہجرت کر کے آئیں گے۔ جس کانام مدینہ منورہ ہو جائے گا اور اس شہر میں آپ وفات پائیں گے ۔
ہم کچھ ایسے لوگوں کے پاس سے گزرے جو فصل اُگاتے تھے اور کاٹتے تھے ۔وہ جیسے ہی پہلی فصل کاٹ پاتے دوسری فصل کاٹنے کے لئے نکل آتی تھی ۔پیارے نبی ﷺ نے جبرئیل ؑ سے سوال کیا یہ کیا ہے ؟حضرت جبرئیل ؑ نے جواب دیا دراصل یہ لوگ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے ہیں جن کی ہر نیکی سات سو گُنا بڑھ رہی ہے ۔اس کے بعد ہم نے بے نمازی اور زکوٰۃ نہ دینے والوں کو عذاب میں مبتلا دیکھا ۔
ایک وقت ہوا کا ایک جھونکا آیا جس کے ساتھ عطر کی مانند خوشبو فضا میں پھیل گئی۔ اس کے بعد ہم نے ایک اور آواز سُنی جس کے متعلق پیارے نبی ﷺ نے حضرت جبرئیل ؑ سے پو چھا کہ یہ کیا ہے ؟ جواب ملا کہ یہ جنّت بول رہی ہے ۔کہتی ہے :
’’اے ہمارے رَب مجھے وہ نعمتیں عطا کر جس کا تونے وعدہ فرمایا ہے (صالح لوگ )
کیونکہ ہمارے پاس وسیع عمارتیں ہیں ۔جن میں طرح طرح کی آسائشیں ہیں ۔مثلاً
ریشم کے کپڑے ہیں ۔سونے اور چاندی کے برتن ہیں ۔دودھ ،شہد اور پانی کی پاک
شفاف نہریں ہیں ۔پس اے میرے رب اب مجھے اپنے بر گزیدہ بندوں سے بھر دے
۔جس کا تو نے وعدہ کیا ہے ۔‘‘
ہمارا گزرایک دوسری وادی سے ہوا جہاں ہمیں بہت ہی ناگوار آواز سنائی دی ۔پیارے نبیﷺ کے سوال پر حضرت جبرئیل نے کہا کہ یہ دوزخ کی آواز ہے ۔یہ کہہ رہی ہے کہ :
’’اے میرے رب مجھے وہ عطا کر (یعنی تیرے نافرمان بندے ) جس کا تونے وعدہ کیا
ہے کیونکہ ان کی سزا کے لئے میرے پاس انتہا کی گرمی ہے ،آگ ہے ،پاؤں میں ڈالنے
کے لئے اَن گنت بیڑیاں اور گلے میں ڈالنے کے لئے طوق ۔پس اے میرے رب مجھے
اپنے نافرمان بندوں سے بھر دے ۔جن کا تونے وعدہ کیا ہے ۔‘‘
بیت المقدس تک ہمارا سفر پلک جھپکنے میں طے ہوا ۔پیارے نبی ﷺ میری پیٹھ سے نیچے اترے ۔مجھے ایک ٹیلے کے ساتھ باندھ دیا گیا ۔وہ ٹیلہ ابھی تک بیت المقدس کے قریب ہے ۔اس پر اونچا گنبد تعمیر کیا گیا ہے ۔ اس گنبد کو قبۃ الصخرہ (ٹیلہ یا چٹان کا گنبد )کہتے ہیں ۔مجھے ٹیلے کے پاس چھوڑ کر نبی کریم ﷺ مسجدِ اقصیٰ میں داخل ہوئے ۔جہاں تمام انبیاء و رسول آپﷺ کا انتظار کر رہے تھے ۔آپ ﷺ نے ان سب کو نماز پڑھائی ۔
بیت المقدس کے سفر کو ’’اسراء‘‘کہتے ہیں ۔نماز سے فارغ ہونے کے بعد پیارے نبیﷺ حضرت جبرئیل کے ساتھ میرے پاس آئے اور پھر ہمارا دوسرا سفر شروع ہوا۔یہ سفر آسمانوں کی طرف تھا جسے معراج کہتے ہیں ۔
جب رسول اکرم ﷺ پہلے آسمان پر پہنچے تو حضرت آدم ؑ نے آپﷺ کو خوش آمدید کہا۔دوسرے آسمان پر آپﷺ کی ملاقات حضرت عیسیٰ ، حضرت یحیےٰ ؑ اور حضرت ذکریا ؑ سے ہوئی ۔تیسرے آسمان پر ہمارے نبی ﷺ حضرت یوسف ؑ سے ملے ۔چوتھے آسمان پر حضرت ادریسؑ ،پانچویں پر حضرت ہارون ؑ اور چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ سے آپﷺ کی ملاقات ہوئی ۔ساتویں آسمان پر آپﷺ کا استقبال حضرت ابراہیم ؑ نے کیا ۔
اِس کے بعد نبی اکرم ﷺکو اللہ عزوجل نے ’’سدرۃالمنتہیٰ تک‘‘اپنے حضور بلوایا۔جہاں آپ ﷺنے شکرانے کے طور پر اللہ کو سجدہ کیا ۔شکر اِس بات کا تھا کہ یہ وہ مقام ہے جہاں تک اس سے پہلے کوئی نبی نہیں پہنچا تھا۔یہی وہ موقع ہے جہاں پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر پانچ نمازیں فرض کیں ۔
اس کے بعد نبیﷺ واپس ہوئے ۔انبیاء اکرام علیہم السلام سے اجازت لی اور مجھ پر سوار ہوئے اور خانہ کعبہ کی طرف ہم واپس روانہ ہوئے۔ خانہ کعبہ پہنچ کر آپﷺ نے مجھے رخصت کیا اور اپنے گھر کی طرف چلے گئے ۔
دوسرے روز آپﷺ خانہ کعبہ تشریف لائے اور وہاں موجود لوگوں کو اِس سفر کا واقعہ سنایا مگر کفار نے آپﷺ پر یقین نہ کیا۔کافروں کا سردار ابو جہل کہتا تھا ۔’’لو سُن لو، ہم تو پورے ایک ماہ میں بیت المقدس پہنچتے ہیں اور واپسی کے سفر میں بھی ایک ماہ لگتا ہے ۔مگر محمّد ﷺ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ایک ہی رات میں بیت المقدس جا کر واپس آ گئے۔یہ بحث جاری تھی کہ حضرت ابو بکرؓ تشریف لائے اور پیارے نبیﷺ کے قریب بیٹھ گئے ۔کفّار نے یہ مطالبہ کیا کہ اگر نبی ﷺ سچّے ہیں تو بتائیں کہ مسجد اقصٰی کیسی ہے ؟دراصل کفّار کو یہ گمان تھا نبیﷺ مسجد اقصیٰ کے بارے میں نہ بتا سکیں گے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ نبیﷺ اس سے پہلے کبھی وہاں نہیں گئے تھے ۔پیارے نبی ﷺ نے مسجداقصیٰ کے بارے میں ایک ایک چیز بڑی ترتیب سے بتانی شروع کی ۔ایسا لگتا تھا کہ مسجدِ اقصیٰ ان کے سامنے ہو اور ایک ایک چیز کو دیکھ دیکھ کر بڑی تفصیل سے بیان کر رہے ہوں ۔
یہ تفصیل سُن کر کفّار ششدرہ گئے ۔حضرت ابو بکرؓ نے نعرہ بلند کیا کہ اے نبیﷺآپﷺ نے جو کچھ کہا ہے ۔سچ کہا ہے ۔اس تفصیل کے علاوہ پیارے نبیﷺ نے ان قافلے والوں کے حالات بھی بتائے جوانھیں راستے میں ملے تھے ۔تھوڑے دنوں بعد وہ قافلے والے مدینے واپس ہوئے ۔کفّار کو پتہ چلا ۔نبی ﷺ نے جو باتیں قافلے ،اس کے اونٹ اور اونٹنیوں کے متعلق بتائی تھیں ۔وہ حرف بحرف درست تھیں ۔کفّار سے اب کچھ نہ بن پڑا کہ وہ کیسے ہمارے نبی ﷺ کو جھٹلائیں ۔وہ اپنا سا مُنہ لے کر رہ گئے ۔حضرت ابوبکرؓ خوشی سے اعلان کرتے جاتے تھے ۔اے پیارے نبی ﷺ آپ نے سچ کہا ہے ۔ اے پیارے نبی ﷺ آپ نے سچ کہا ہے اور اسی وجہ سے رسولِ اکرم ﷺ نے حضرت ابو بکرؓ کو صدیق کا خطاب دیا ،اس دن سے آج تک حضرت ابو بکرؓ کو صدیق کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔
یہ ہے میری یعنی براق کی وہ سچّی کہانی جو اسراء اور معراج کے نام سے مشہور ہے ۔یہ سفر جو ہم نے کیا نہ راکٹ کے بس میں ہے نہ مصنوعی سیّارے کے اور یہ سفر اس صدی میں نہیں ہوا بلکہ آج سے چودہ سو سال قبل ہوا۔
اللہ عِزّوجل نے اس سفر کے متعلق قرآن شریف میں یوں ارشاد فرمایا ہے :(ترجمہ)
’’پاک ہے وہ ذات جو ایک رات لے گئی اپنے بندے یعنی محمد صلی اللہ علیہ
وسلم کو مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک جس کے ماحول کواس نے با برکت بنایا ہے تا کہ
وہ اپنے بندے کو اپنی نشانیاں دکھلائے ۔
حقیقت میں وہی ذات یعنی اللہ عِزّوجل دیکھنے اور سننے والاہے ۔‘‘
( سورۃبنی اسرائیل ،آیت :۱ )

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top