مومن
صہیب جمال
۔۔۔۔۔
صرف ایک بات سے دو بچوں کے درمیان فرق آگیا۔ بہت بڑا فرق…
۔۔۔۔۔
کیپٹن سریش کو اپنے بیٹے موہن کے کمرے سے اس کے چیخنے کی آواز آئی۔ وہ تیزی سے اس کے کمرے کی طرف لپکا تو موہن اپنی میز پر کھڑا کانپ رہا تھا۔ ایک چوہا تیزی سے بستر کے نیچے سے دروازے سے باہر بھاگ گیا۔ ’’تم…تم اس چھوٹے سے چوہے سے ڈرگئے… ایک فوجی کے بیٹے ہوکر…!!‘‘ کیپٹن سریش نے غصے میں اپنے بیٹے کو کہا۔ ’’ایک تم ہو…اور… اور ایک وہ تھا‘‘۔ کیپٹن سریش نے کمرے سے نکلتے ہوئے کہا۔
کیپٹن سریش کچھ دنوں پہلے کشمیر سے اپنی ڈیوٹی ختم کرکے بمبئی آیا تھا۔ اس کے خیال میں وہ بہت خوش قسمت فوجی تھا جو چھ مہینے کے تھوڑے ہی عرصے میں وطن واپس آگیا تھا۔ ورنہ وہاں ڈیوٹی کرتے کرتے فوجیوں کو سالوں تک لگ جاتے ہیں یا وہ وہیں کشمیریوں کی گولیوں سے مرجاتے ہیں، ورنہ زخمی ہوکر ہی واپس جانا ممکن ہوتا ہے۔ کیپٹن سریش کو اپنے بیٹے سے بے پناہ محبت تھی اور اسے کشمیر میں بھی اس کی محبت ہی واپسی کی خواہش پر اُبھارتی تھی۔ جب وہ ایئرپورٹ پر اس سے ملا تھا تو دونوں نے وہاں کھڑے کھڑے ہی چھٹیاں گزارنے کا پروگرام بنالیا تھا۔ کیپٹن سریش نے کبھی اپنے بیٹے کو مارا تو درکنار ڈانٹا بھی نہیں تھا۔ لیکن آج اس نے ڈیوٹی سے آنے کے بعد پہلی بار اسے بری طرح ڈانٹا تھا۔
موہن کافی دیر تک میز پر بیٹھے بیٹھے ہی روتا رہا۔ اس نے سوچا کہ آخر…اتنی سی بات پر پتا جی نے مجھے کیوں ڈانٹا اور یہ کیوں کہا کہ ایک تم ہو اور ایک ’’وہ‘‘ تھا۔
دوسرے دن کھانے کی میز پر سب گم صم بیٹھے تھے۔
’’کیا ہوا…!؟ آج دونوں باپ بیٹے خاموش کیوں بیٹھے ہیں؟‘‘ موہن کی ماں نے خاموشی کو توڑا۔
’’کل والی بات پر…‘‘ موہن نے جواب دیا۔
’’ویسے آپ نے اتنی سی بات پر…‘‘
’’اتنی سی بات…؟ یہ اتنی سی بات نہیں تھی۔ اگر تم بھی میری جگہ ہوتیں تو تم بھی اس طرح غصے میں آجاتیں‘‘۔ کیپٹن سریش نے بات مکمل ہونے سے پہلے ہی جواب دیا۔
’’آخر اس کی کوئی وجہ تو ہوگی؟ ورنہ بظاہر تو یہ چھوٹی سی بات ہے‘‘۔ موہن کی ماں نے سوال کیا۔
’’سننا چاہتے ہو؟ تو سنو…! کشمیر کے ایک نواحی ضلع پلوامہ میں میری ڈیوٹی تھی تو ہمارے مخبر نے ہمیں اطلاع دی کہ ایک دس گیارہ سال کا بچہ، اچھا خاصا کھانا لے کر جنگل کی طرف جاتا ہے، لیکن وہ جنگل کی طرف جاکر غائب ہوجاتا ہے۔ ہم نے اپنے مخبر کو کہا کہ تم اس کا پیچھا کرو…لیکن…دو تین دن مزید پیچھا کرنے پر بھی مخبر کو یہ پتہ نہ لگ سکا کہ وہ بچہ کہاں جاتا ہے۔ آخر ہم نے اس بچے کو راستے سے گرفتار کرلیا اس کا نام مومن تھا۔ اس بچے نے پہلے تو خاموشی اختیار کی، پھر اس نے بتایا کہ یہ کھانا وہ جنگل میں چھپے ہوئے مجاہدین کو پہنچاتا ہے۔ لیکن وہ یہ نہیں بتائے گا کہ مجاہدین کہاں چھپے ہوئے ہیں۔ کیونکہ اس کی ماں نے کہا تھا کہ جان دے دینا لیکن مجاہدین کا ٹھکانہ نہیں بتانا۔ مجبوراً ہمیں تشدد کی راہ اختیار کرنی پڑی۔ ہم نے اس بچے پر طرح طرح کے ظلم ڈھائے۔ کبھی اُلٹا لٹکائے رکھا، کبھی ڈنڈوں سے پیر کے تلوں پر مارا، کبھی سگریٹ سے اس کے جسم پر زخم لگائے…لیکن… سوائے اس کے چیخنے کے اس کی کوئی اور آواز نہ نکلتی تھی۔ آخر تنگ آکر میں نے حکم دیا کہ آٹھ دس چوہے اس کے کمرے میں ڈال دو۔ دراصل ہمارے پاس کچھ آدم خور چوہے ہیں جو کہ کسی سے راز اُگلوانے کا ہمارے لئے آخری حربہ ہوتا ہے۔ جب قیدی کو وہ چوہے نوچتے ہیں تو وہ سب کچھ بتانے پر تیار ہوجاتا ہے اور ہم مخصوص قسم کے لباس پہن کر ان چوہوں کو دوبارہ پکڑ لیتے ہیں۔ جب اس بچے کے کمرے میں چوہوں کو ڈالا گیا تو ہمیں کسی قسم کی چیخنے کی آواز نہیں آئی۔ پانچ دس منٹ بعد جب دروازہ کھولا تو چھ سات چوہے مرے پڑے تھے اور ایک چوہا کونے میں بیٹھا کانپ رہا تھا۔ بالکل اسی طرح جس طرح تم چوہے سے ڈر کر میز پر کھڑے کانپ رہے تھے…بالکل اسی چوہے کی طرح…‘‘کیپٹن سریش نے غصیلی آواز میں موہن کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ موہن کی گردن شرمندگی سے نیچے جھک گئی۔ جو بہت غور سے اپنے پتا جی کی باتیں سُن رہا تھا۔
کیپٹن سریش نے پھر بات شروع کی۔’’اور وہ لڑکا مومن کبھی اس کی دم پکڑ کر کھینچتا، کبھی اس کو زور سے لات مارتا۔ میں اپنی جگہ حیران و پریشان کھڑا تھا۔ میرے پاس سب کچھ ہوتے ہوئے بھی کچھ نہیں تھا جس سے میں اس بہادر بچے کو شکست دے سکتا۔ شاید…(شاید کہہ کر کیپٹن سریش نے لمبا سانس لیا)۔ شاید اس کی موت کے بعد بھی میں اسے شکست نہ دے سکا۔‘‘
’’کیا… کیا آپ نے اس بچے کو ماردیا؟‘‘ موہن کی ماں نے منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے حیرت سے کہا۔
’’پتاجی! آپ نے اسے کیوں ماردیا…؟‘‘ موہن نے انتہائی افسوس سے کہا۔
’’یہ میری ڈیوٹی میں شامل تھا۔‘‘ کیپٹن سریش نے شرمندگی سے کہا۔
’’جب موہن چوہے سے ڈرا تو مجھے یہ خیال آیا کہ… ان مجاہدین کے چھوٹے چھوٹے بچے بھی کتنے بلند حوصلہ ہیں۔ جو ہماری گولی کا جواب پتھر سے دیتے ہیں۔ ہمارے بچے چوہے، چھپکلیوں سے ڈر جاتے ہیں اور وہ شیر کی دھاڑ کو بھی… بلی کی میائوں سمجھ کر جنگلوں میں زندگی گزارتے ہیں۔ آخر…آخر… موہن اور مومن کی عمر میں کوئی خاص فرق تو نہیں…ایک ہی عمر کے تو ہیں دونوں…مومن کی عمر موہن کے برابر ہی تھی۔ وہی دو ہاتھ، وہی دو پائوں، وہی ایک جیسی صلاحیتیں…آخر…آخر! کیا فرق ہے دونوں میں؟‘‘ کیپٹن سریش کے لہجے میں مایوسی اور شرمندگی نمایاں تھی۔
کافی دیر تک ماحول میں سکوت رہا۔ اس خاموشی کو موہن نے توڑا۔
’’پتاجی! فرق ہے… بہت بڑا فرق ہے…’’م‘‘ اور ’’ہ‘‘ کا… اس کے نام کے بیچ میں ’’م‘‘ آتا ہے یعنی ’’مسلمان‘‘ اور میرے نام کے بیچ میں ’’ہ‘‘ آتا ہے یعنی ’’ہندو‘‘۔ یقینایہ سب سے بڑا فرق ہے۔‘‘