موچی بن گیا کھوجی
سعید لخت
……………………..
شہر بغداد کے محلہ جیلان میں ایک موچی رہتا تھا۔نام تھا حارث بن وارث۔بہت صابر اور شاکر آدمی تھالیکن اس کی بیوی سدرہ بہت بے صبری اور نا شکری تھی۔ہر وقت اپنے میاں کو طعنے دیتی رہتی کہ تم نکمے ہو، کاہل ہو،اتنے تھوڑے پیسے کماتے ہو کہ بہت مشکل سے گزارا ہوتا ہے۔یہ پیشہ چھوڑ کر کوئی اورپیشہ اپناؤ کہ کچھ پیسے تو ملیں۔
ایک دن سدرہ نے بہت چخ چخ کی تو حارث بولا’’تم ہی بتاؤمیں کیا کروں؟‘‘
’’ایسا کرو نجومی بن جاؤ‘‘۔سدرہ بولی’’کل میں بازار گئی تو وہاں مجھے حاتم نجومی کی بیوی مل گئی۔ایمان سے کیا ٹھاٹ تھے اس کے۔میں تو حیران رہ گئی۔ آگے پیچھے دودو نوکر تھے اس کے۔کپڑے ایسے پہنے تھے کہ میں نے کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھے ہوں گے۔اس نے ایک دوکان سے پانچ ہزار کا ایک قالین خریدا۔ہمیں تو پانچ روپے کی دری بھی نصیب نہیں۔دیکھو حارث!میری مانو تو تم بھی نجومی بن جاؤ۔‘‘
’’اری نیک بخت!‘‘حارث بولا’’مجھے علم نجوم کی الف بے کا بھی پتا نہیں۔میں نجومی کیسے بن سکتا ہوں؟‘‘
’’جب وہ حاتم کا بچہ نجومی بن سکتا ہے تو تم کیوں نہیں بن سکتے؟‘‘سدرہ تنک کر بولی’’بس میں نے کہہ دیا،کل سے تم موچی نہیں نجومی ہو گے۔‘‘
حارث نے بیوی کو سمجھانے کی بہت کوشش کی لیکن وہ بھی اپنے ضد کی پکی تھی۔کسی طرح نہ مانی۔آخر میاں کو بیوی کے سامنے ہٹھیار ڈالنے پڑے۔
دوسرے دن صبح حارث نے چوغاپہنا،کمر میں پٹکا باندھا،سر پر عمامہ(صافہ)رکھااور بازار جا کر ایک بند دوکان کے تھڑے پر بیٹھ گیا۔’’آئیے صاحبان!آئیے،غیب کا حال معلوم کیجئے۔میں آپ کے ستاروں کی چال بدل کر آ پ کی ہر مشکل آسان کر سکتا ہوں۔آیئے آئیے مت شرمائیے!مت گھبرائیے،بہت پہنچا ہوا نجومی ہوں۔‘‘
آن کی آن میں اس کے گردلوگوں کا مجمع لگ گیا۔اس مجمع میں بغداد کاایک مشہور جوہری بھی تھا۔وہ لوگوں کی بھیڑ کو چیرتا پھاڑتا حارث کے پاس آیااور بولا’’یا شیخ!میں ایک جوہری ہوں،بادشاہ سلامت نے مجھے اپنا تاج پالش کرنے کیلئے دیا تھا۔اس کا ایک ہیرا غائب ہو گیا ہے۔اگر وہ ہیرا نہ ملا تو میں بے موت مارا جاؤں گا۔‘‘
’’ہوں۔۔۔!‘‘حارث آسمان کی طرف دیکھ کر بولا’’تمہارا ستارہ گردش میں ہے۔اسے گردش سے نکالنے میں ایک گھنٹہ لگے گا۔اب تم جاؤ ایک گھنٹے بعد آنا۔‘‘
کہنے کوتو اس نے کہہ دیا مگر دل میں گھبرا رہا تھا کہ ہیرے کے چور کا پتا کیسے چلاؤں گا؟میرے تو فرشتوں کو بھی معلوم نہیں کہ چور کون ہے اور ہیرا کہاں ہے؟اس نے ایک ٹھنڈی سانس بھری اوربولا اری سدرہ!تو نے اپنے شوہر کو کس مصیبت میں پھنسا دیاہے؟‘‘
اتفا ق کی بات اس مجمع میں جوہری کی بیوی بھی موجود تھی اور اتفاق کی بات کہ اس کا نام بھی سدرہ تھا۔حارث کی یہ بات سن کر وہ سمجھی کہ نجومی کو معلوم ہو گیا ہے کہ ہیرا میں نے چرایاہے۔وہ تھر تھر کانپتی ہوئی آگے بڑھی اور حارث کے چوغے کا دامن پکڑ کو بولی:’’یا شیخ مجھے معاف کر دیجئے!میں اس جوہری کی بیوی ہوں۔میں نے ہیرا چرانے کی نیت سے نہیں لیا تھا۔میں صرف اسے دیکھنا چاہتی تھی۔اب سمجھ میں نہیں آتا کہ اسے کیسے واپس کروں؟‘‘
حارث نے کہا’’جو لوگ اپنے گناہوں کا اقرار کر کے سچے دل سے توبہ کرتے ہیں،خدا انہیں معاف کر دیتا ہے۔اب تم فوراً گھر جاؤ اور وہ ہیرا چپکے سے اپنے خاوند کے چوغے کی جیب میں ڈال دو۔‘‘
ایک گھنٹے بعد جوہری واپس آیا تو حارث نے کہا’’تمہارے ستارے کی چال کچھ بگڑی ہوئی تھی۔اب میں نے ٹھیک کر دی ہے۔تم گھر جاؤ۔ہیرا تمہارے چوغے کی جیب میں ہے۔‘‘
جوہری الٹے قدموں گھر گیا اور چوغے کی جیب ٹٹولی تو ہیرا اس میں موجود تھا۔وہ خوشی سے پھولے نہ سمایا۔اس نے ایک تھیلی میں سونے کی اشرفیاں بھریں اور حارث کے پاس آکر بولا’’یا شیخ آپ تو سچ مچ بہت پہنچے ہوئے نجومی ہیں۔ہیرا میرے چوغے کی جیب میں پڑا تھا۔لیجئے میری طرف سے یہ حقیر نذرانہ قبول کیجئے۔‘‘اس نے اشرفیوں کی تھیلی حارث کے ہاتھوں میں تھما دی۔
حارث نے گھر آکر تھیلی سدرہ کو دی اور بولا’’لو یہ اشرفیاں۔اب مجھ سے یہ کام مت کروانا۔آج تو میں بچ گیا۔روز روز نہیں بچوں گا۔‘‘سدرہ اشرفیاں دیکھ کر پاگل ہو گئی۔اس نے حارث کی بات سنی ان سنی کر دی اور اشرفیاں گننے لگی۔
دوسرے دن ناشتے کے بعد حارث دوکان پر جانے لگا تو سدرہ نے کہا’’کدھر چلے؟اب تم حارث موچی نہیں بلکہ بغداد کے مشہور نجومی حارث بن وارث ہو۔بازار جاؤ اور لوگوں کو بیوقوف بنا کر ان کی جیبیں خالی کراؤ۔‘‘
’’زبردست کا ٹھینگا سر پر‘‘طاقتور کی بات ماننا پڑتی ہے۔حارث نے چوغا پہنا،کمر میں پٹکا باندھا،سر پر عمامہ رکھااور بازار جا کر ایک بند دوکان کے تھڑے پر بیٹھ گیا۔آہستہ آہستہ لوگ جمع ہونے لگے۔کوئی کچھ پوچھتا تو کوئی کچھ۔حارث یوں ہی اٹکل پچو جواب دے کر ان سے پیسے اینٹھ لیتا۔شام کو گھر واپس آیا تو اس کی جیب بھری ہوئی تھی۔
ایک صبح کو وہ بازار جانے کی تیاری کر رہا تھا کہ کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔باہر نکلا تو دیکھا کہ دو سپاہی کھڑے ہیں۔انہوں نے ادب سے سلام کیا اور بولے’’بادشاہ سلامت نے آ پکو یاد فرمایا ہے۔ابھی اسی وقت ہمارے ساتھ چلئے۔‘‘
حارث شاہی محل میں پہنچا تو وہاں بادشاہ اور وزیروں کے علاوہ شہر کا کوتوال بھی موجود تھا۔وہ دل میں ڈرا کہ خدا خیر کرے۔کہیں بادشاہ کو معلوم تو نہیں ہو گیا کہ میں اصلی نجومی نہیں ہوں اور لوگوں کو بیوقوف بنا کر پیسے بٹورتا ہوں۔اس نے جھک کر بادشاہ کو تین فرشی سلام کئے اور ہاتھ باندھ کر سر جھکا کر کھڑا ہو گیا۔
بادشاہ بولا؛’’پرسوں رات ہمارے خزانے سے ہیرے جواہرات کے ۴۰ صندوق غائب ہو گئے ہیں۔پولیس چوروں کا سراغ لگانے میں ناکام رہی ہے۔ہم نے سناہے کہ تم بہت اچھے نجومی ہو۔اگر تم نے چوروں کا پتا چلا لیا تو ہم تمہیں منہ مانگا انعام دیں گے۔‘‘
حارث بولا’’عالی جاہ!یہ کسی ایک چور کاکام نہیں۔یہ چالیس چوروں کا کام ہے۔اس کا کھوج لگا نے میں چالیس دن لگیں گے۔‘‘
’’ٹھیک ہے ہم تمہیں چالیس دن دیتے ہیں۔لیکن اگر تم نے چالیس دن میں ان چوروں کا سراغ نہ لگایا تو تمہاری کھال کھنچوا کر بھس بھروادیں گے۔‘‘
حارث گرتا پڑتا گھر آیا اورسدرہ سے بولا’’جلدی کرو اور بوریا بستر باندھ کر یہاں سے نکل چلو۔‘‘
’’کہاں چلیں؟‘‘سدرہ نے پوچھا۔
’’تمہاری اماں کے گھر‘‘حارث نے جواب دیا۔
’’میری اماں کو مرے دس سال ہو گئے۔‘‘سدرہ بولی’’مگر میں پوچھوں ہوں،یہ ایکا ایکی بوریا بستر گول کرنے کی کیوں سوجھی تمہیں؟‘‘
حارث نے کہا’’چوروں نے بادشاہ کے خزانے سے ہیرے جواہرات کے ۴۰ صندوق چرا لئے ہیں اور اس نے مجھے ان کا کھوج لگانے کاحکم دیا ہے۔میں نے چالیس دن کی مہلت مانگی ہے۔اگر چالیس میں دن کے اندر چوروں کو نہ پکڑوا سکا تو بادشاہ میری کھال کھنچوا کر اس میں بھوسا بھروا دے گا۔‘‘
’’ہم کہیں نہیں جائیں گے۔‘‘سدرہ نے کہا’’ڈرو مت ،چالیس دن بہت ہوتے ہیں،ہو سکتا ہے چور پکڑے جائیں،ہو سکتا ہے بادشاہ مر جائے۔‘‘
حارث بولا’’اوراگران باتوں میں سے کوئی بات نہ ہوئی تو؟‘‘
’’تو پھر ہم چالیسویں دن یہاں سے بھاگ جائیں گے۔عراق کے شہر بصرہ میں میری ایک خالہ رہتی ہیں،وہ ہمیں پناہ دے دیں گی‘‘سدرہ نے کہا۔
’’لیکن ہمیں یہ کیسے پتا چلے گا کہ کتنے دن گزر گئے ہیں؟‘‘حارث نے کہا’’نہ مجھے لکھنا آتا ہے نہ تمہیں۔‘‘
’’ہوں۔۔۔!‘‘سدرہ سوچ میں پڑ گئی،پھر بولی’’میں روز شام کو مرتبان میں ایک کنکری ڈال دیا کروں گی۔اس طرح معلوم ہو تا رہے گا کہ اتنے دن گزر گئے ہیں۔‘‘
جن چوروں نے شاہی خزانے میں چوری کی تھی،ان کا ایک ساتھی شاہی محل کی جاسوسی کرتا تھا۔اس نے اپنے سردار کو بتایا کہ بادشاہ نے بغداد کے ایک نجومی کو ہمارا کھوج لگانے پر مقرر کیا ہے۔یہ شخص نجوم کا بہت بڑاعالم ہے ،اس نے بادشاہ کو ہماری صحیح تعداد بتا دی ہے اور وعدہ کیا ہے کہ چالیس دن کے اندر وہ ہمیں پکڑوا دے گا۔‘‘
سردار بولا:ارے بیوقوف!چوروں کی تعداد تو ایک بچہ بھی بتا سکتا ہے۔ظاہرہے چالیس صندوق تو چالیس آدمی ہی اٹھا ئیں گے۔بس اس نے بتا دیا کہ یہ چالیس چوروں کا کام ہے۔لیکن یہ نجومی بہت چالاک معلوم ہوتا ہے۔ہمیں اس کی نگرانی کرنی چاہئے،تم آج شام اس کے گھر جانااور معلوم کرنا کہ وہ کیا کرنا چاہتا ہے؟‘‘
اسی شام وہ چور حارث کے گھر کے پاس پہنچا تو اسے کھڑ کی میں سے باتوں کی آواز آئی۔وہ کان لگا کر سننے لگا۔اسی وقت سدرہ نے مرتبان میں ایک کنکری ڈالی اور حارث زور سے بولا’’چالیس میں سے ایک گیا۔‘‘ یہ سن کر چور کی سٹی گم ہو گئی۔بھاگا بھاگا اپنے اڈے پر گیااور سردار سے بولا’’سچ مچ وہ بہت پہنچا ہوا نجومی ہے۔جوں ہی میں نے اس کی کھڑکی میں کان لگائے۔اس نے کہا’’چا لیس میں سے ایک گیا۔‘‘
سردار نے کنکھیوں سے اپنے ساتھیوں کو دیکھا،وہ خوف سے کانپ رہے تھے۔سرادر ان کی ہمت بندھانے کے لئے زبردستی مسکرایا اور بولا’’تم نے غلط سنا ہوگا،کل دو آدمی جائیں اور نجومی کی کھڑکی سے کان لگا کر اس کی باتیں سنیں۔‘‘دوسرے دن شام کو دونوں چور چھپتے چھپاتے حارث کے گھر کے پاس پہنچے اور کھڑ کی سے کان لگا کر کھڑے ہوگئے۔اسی وقت سدرہ نے دوسری کنکری مرتبان میں ڈالی اور حارث زور سے بولا’’دو۔۔۔..اب اڑتیس رہ گئے۔‘‘
دونوں چور سر پر پاؤں رکھ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔انہوں نے سردار کو بتایا کہ یہ نجومی واقعی غیب کا علم جانتا ہے۔ہم اس کی کھڑکی کے پاس پہنچے تو اسے معلوم ہو گیا کہ ہم دو ہیں۔‘‘
سردار نے غصے سے پیر پٹخے اور چلاکر بولا’’تم دونوں ہی بدھو ہو۔کل تین آدمی جائیں اور کان کھول کر دھیان سے سنیں۔‘‘
تیسرے دن تین چور گئے،چو تھے دن چار،پانچویں دن پانچ اور انتالیسویں دن تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔سدرہ روز مرتبان میں ایک کنکری ڈالتی۔حارث زورسے کنکریوں کی تعداد بتاتااور چور سمجھتے کہ وہ ان کی تعداد بتا رہا ہے۔وہ ڈر کر بھاگ جاتے۔
چالیسویں دن شام کوسردار اپنے تمام ساتھیوں کے ساتھ حارث کے گھر پہنچا اور کھڑکی سے کان لگا کرکھڑا ہو گیا۔اسی وقت سدرہ نے مرتبان میں آخری کنکری ڈالی اور حارث زور سے بولا’’چالیس پورے ہو گئے،سدرہ رسیاں لاؤ۔‘‘
حارث نے رسیاں سامان باندھنے کے لئے منگوائی تھیں۔سدرہ رسیاں لانے کے لئے اٹھنا ہی چاہتی تھی کہ دروازے پر زور سے دستک ہوئی۔حارث نے دروازہ کھولا تو اتنے سارے لوگوں کو دیکھ کر ڈر گیا۔وہ سمجھا کہ بادشاہ نے اسے پکڑنے کے لئے فوج بھیجی ہے۔وہ کچھ کہنا چاہتا تھا کہ چوروں کا سردار اس کے قدموں میں گر پڑا اور گڑگڑا کر بولا:
’’شاہی خزانے میں چوری ہم نے کی تھی۔بادشاہ کو نہ بتائیں۔وہ ہمارا زن بچہ کولہو میں پلوا دے گا۔ہم آپ کا گھر سونے چاندی سے بھر دیں گے۔‘‘
حارث غصے میں بولا:’’بے ایمانو!تمہارا خیال تھا کہ تمہارے اس جرم کا کسی کو پتا نہ چلے گا۔ارے ہم سے تو دنیا کا کوئی بھید چھپاہوا نہیں ہے۔اب تمہاری خیریت اسی میں ہے کہ چوری کا سارا مال بادشاہ کو واپس کر دو۔‘‘
سردار نے کہا:’’لیکن حضور! ہم بادشاہ کے پاس جائیں گے تو وہ ہمیں قید خانے میں ڈال دے گا۔بلکہ ہو سکتا ہے وہ ہمارے سر قلم کروادے۔‘‘
حارث بولا:’’تو تم ایسا کرو۔سورج نکلنے سے پہلے پہلے تمام صندوق بادشاہ کے محل کی مشرقی دیوار کے پاس دفن کر دواور وعدہ کرو کہ آئندہ کبھی چوری نہیں کرو گے۔میں بادشاہ کو تمہارے بارے میں کچھ نہیں بتاؤں گا۔‘‘
’’حضورنے جیسا کہاویسا ہی ہوگا‘‘سردار نے کہا اور اپنے ساتھیوں کو لیکر چلا گیا۔دوسرے دن صبح باد شاہ کے سپاہی حارث کے گھر آئے اوراسے گھوڑے پر بٹھا کر شاہی محل لے گئے۔بادشاہ نے پوچھا:’’ہمیں امید ہے تم نے چوروں کا کھوج لگا لیا ہوگااور ہمارا خزانہ مل گیا ہوگا۔‘‘
’’آپ کا خیال درست ہے عالی جاہ!‘‘ حارث بولا’’لیکن حضور یہ فرمائیں کہ حضور کے نزدیک دونوں چیزوں میں سے کون سی چیز زیادہ اہم ہے۔خزانہ یا چور؟میں ان میں سے صرف ایک چیز حضور کے حوالے کر سکتا ہوں۔دونوں چیزیں دینے سے ستاروں نے منع کر دیا ہے۔‘‘
’’ہمیں خزانہ چاہئے۔چوروں سے پھر کبھی نمٹ لیں گے۔‘‘بادشاہ نے کہا۔
’’تو پھرحضور میرے ساتھ تشریف لائیں۔‘‘حارث بولا۔بادشاہ، وزیر اعظم اور سپاہی حارث کے ساتھ چل پڑے۔وہ انہیں شاہی محل کی مشرقی دیوار کے پاس لے گیا اور سپاہیوں سے کہا کہ زمین کھودیں۔انہوں نے زمین تو اس میں سے چالیس صندوق نکلے۔بادشاہ خوش ہو کر بولا’’حارث!تم تو کمال کے آدمی ہو۔ہم آج سے تمہیں شاہی نجومی مقرر کرتے ہیں۔‘‘
حارث ہاتھ جوڑ کر بولا’’میرے ستاروں نے مجھ سے کہاہے کہ اب تم نجومی کا پیشہ چھوڑ دواور موچی بن جاؤ۔اسی میں تمہاری بھلائی ہے۔‘‘
بادشاہ نے حارث کو غور سے دیکھا اور بولا’’ویسے تم شکل سے موچی لگتے ہو کوئی بات نہیں،ہم تمہیں شاہی موچی مقرر کرتے ہیں۔ہم شاہی خاندان جوتے بنایا کروگے۔‘‘