محبوب ؐ خدا کی محبوبؓ
کلیم چغتائی
…..
رات آدھی سے زیادہ گزر چکی تھی۔
سنسان اور خاموش صحرا میں اونٹوں کا ایک قافلہ سفر کر رہا تھا۔ اچانک قافلے کی رفتار کم ہوگئی اور آہستہ آہستہ تمام اونٹ رُک گئے۔ معلوم ہوا کہ اُم المومنین رضی اللہ عنہا کا ہار کھو گیا ہے۔ ہار کی تلاش شروع ہوگئی۔ رات کی تاریکی میں یہ کام بڑا مشکل تھا۔ کچھ دیر میں صبح کی روشنی نمایاں ہونے لگی۔ قافلے والے پریشان ہوگئے۔ نمازِ فجر کا وقت قریب تھا۔ یہاں صحرا میں وضو کے لیے پانی کہاں ملے گا۔
یہ کوئی معمولی قافلہ نہ تھا۔ اس میں اللہ کے پیارے رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سفر فرما رہے تھے اور بہت سے صحابہ کرام بھی قافلے میں شامل تھے۔ سب کو فکر تھی کہ وضو کے لیے پانی اگر کچھ دیر نہ ملا تو سورج نکل آئے گا اور سب کی نمازِ فجر قضا ہوجائے گی۔
اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر مسلمانوں کی مشکل آسان فرمائی۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام وحی لے کر تشریف لائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر سورۃ النساء کی تیسری آیت نازل ہوئی۔جس میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اجازت عطا فرما دی کہ اگر بیماری کی وجہ سے یا سفر میں پانی نہ ملنے کی وجہ سے مشکل ہو تو وضو یا غسل کے بجائے پاک مٹی سے تیمم کیا جاسکتا ہے۔
قافلے میں شامل تمام لوگوں نے تیمم کرکے نمازِ فجر ادا کی۔ پھر قافلہ روانہ ہوا۔ اُم المومنین رضی اللہ عنہا کا اُونٹ اٹھا تو اس کے نیچے وہ ہار مل گیا جو کھو گیا تھا۔ اس موقع پر صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے کہ اُم المومنین رضی اللہ عنہا کا ہار کھونا کتنا مبارک ثابت ہوا کہ اللہ نے مسلمانوں کو تیمم کی عظیم سہولت عطا فرما دی۔
یہ ہار حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا تھا۔ اللہ کے پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ، جن کی ذات پاک، تمام مسلمان خواتین کے لیے بہترین نمونہ ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات تمام مسلمانوں کی مائیں ہیں۔ اس لیے ان کو اُمت کی مائیں (اُمہات المومنین) کہا جاتا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی اُم المومنین کہلاتی ہیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نہایت قریبی ساتھی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صاحب زادی ہیں۔ آپ کی والدہ محترمہ کا نام ام رومان تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ولادت مکہ مکرمہ میں ہوئی۔ آپ رضی اللہ عنہا کو بچپن میں دو کھیل پسند تھے۔ گڑیاسے کھیلنا اور جھولا جھولنا۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنی سہیلیوں کے ساتھ کھیل رہی ہوتیں اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آتے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنی گڑیاں چھپا لیتیں اور آپ کی سہیلیاں اِدھر اُدھر چھپ جاتیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی سہیلیوں کو تلاش فرماتے اور اُنھیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ کھیلنے کے لیے کہتے۔
ہجرت سے تین سال پہلے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا انتقال ہوگیا۔ ان کے انتقال کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح پہلے حضرت سودہ رضی اللہ عنہا اور پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہوا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نکاح کے وقت کم عمر تھیں۔ آپ 10 نبوی میں اپنے نکاح کے بعد تین سال تک اپنی والدہ ہی کے پاس رہیں۔
اللہ کے حکم سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت فرمائی۔ مدینہ پہنچ کر کچھ عرصے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ کو مکہ مکرمہ بھیجا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل خانہ کو مدینہ منورہ لے آئیں۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی ایک صحابی کو مکہ مکرمہ روانہ کیا۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ بن ابی بکر اپنی والدہ اور دونوں بہنوں،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت اسمارضی اللہ عنہا کو لے کر مدینہ منورہ پہنچ گئے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا مدینہ منورہ میں تقریباً آٹھ ماہ اپنی والدہ کے ساتھ رہیں۔ اس دوران میں آپ بیمار ہوگئیں۔ جب آپ کو اللہ نے صحت دی تو آپ کے والد حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ نے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ اب میری بیٹی عائشہ رضی اللہ عنہا کی رخصتی ہوجانی چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس مہر ادا کرنے کے لیے رقم نہیں ہے۔ شادی کے بعد شوہر کے لیے لازمی ہوتا ہے کہ وہ اپنی بیوی کو مہر کی رقم ادا کرے۔ مہر کی رقم شادی سے پہلے طے کرلی جاتی ہے۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میری دولت قبول فرمائیں یہ سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے رقم لے کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکا مہر ادا کردیا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے نکاح اور رخصتی کی تقریبات دونوں بہت سادگی سے ہوئیں۔ مکہ میں آپ کا نکاح شوال کے مہینے میں ہوا اور مدینہ آکر رخصتی بھی شوال ہی میں ہوئی۔ آپ کی شادی کی وجہ سے کئی غلط رسموں کا خاتمہ ہوگیا۔ عرب میں شوال کے مہینے میں شادی کو منحوس سمجھا جاتا تھا کیوں کہ کسی زمانے میں شوال کے مہینے میں ایک وبائی بیماری (طاعون) پھیل گئی تھی۔ اس کے علاوہ عرب میں منھ بولے بھائی کی لڑکی سے نکاح کو غلط سمجھتے تھے۔ حضرت ابو بکرصدیقؓ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے منھ بولے بھائی تھے۔ حضرت عائشہؓ کی شادی سے یہ غلط رَسمیں ختم ہوگئیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا شادی کے بعد مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی مشرقی جانب بنے ہوئے چھوٹے کمرے میں رہنے لگیں۔ اس کمرے کی دیواریں مٹی کی تھیں اور چھت کھجور کے پتوں اور ٹہنیوں سے بنائی گئی تھی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح عبادت کرنے کی کوشش کرتی تھیں۔ آپ رضی اللہ عنہا راتوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ادا فرماتیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روزے رکھتیں۔ رمضان المبارک میں اپنے گھر ہی میں اعتکاف فرماتی تھیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب مسجد نبوی میں صحابہ کرامؓ کو تعلیم دے رہے ہوتے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے گھر میں رہتے ہوئے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کو غور سے سنتیں اور یاد کرلیتیں۔ کوئی بات سمجھ میں نہ آتی تو بعد میں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لیتیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی شادی جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی تو، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے چار بیٹیوں میں سے تین کی شادی ہوچکی تھی۔ پھر سب سے چھوٹی صاحب زادی حضرت فاطمۃ الزہرارضی اللہ عنہاکی شادی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ہوئی۔ اس موقع پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے ہاتھ سے سارا انتظام کیا۔ مکان کو صاف ستھرا بنایا۔ بستر لگایا۔ کھجور کی چھال سے تکیے بنائے اور دعوت کی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیاتِ پاک کے آخری دن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہی کے حُجرے میں بسر فرمائے۔ وہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا اور اسی جگہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سپرد خاک کیا گیا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بہت عبادت گزار، رحم دل، سنجیدہ اور بڑے دل کی مالک تھیں۔ سادگی کا یہ عالم تھا کہ مہینے کے لیے لباس کا صرف ایک جوڑا پاس رکھتیں۔ آپ کو جو رقم وصول ہوتی اُسے فوراً محتاجوں میں تقسیم فرمادیتیں۔ کبھی کبھی آپ رضی اللہ عنہا نے ایک لاکھ درہم تک ایک دن میں محتاجوں میں بانٹ دیے۔ آپ رضی اللہ عنہا نے بہت سے بچوں کو گود لے کر اُن کی پرورش کی۔ کئی یتیم بچوں کا خرچ برداشت کیا۔ کئی لڑکیوں کی شادیاں کیں۔ آپ رضی اللہ عنہا نے سڑسٹھ غلاموں کو آزاد فرمایا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہابہت علم رکھنے والی خاتون تھیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین ان سے علمی مسائل پوچھا کرتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے2210احادیث روایت فرمائی ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہا احادیث کی تشریح بھی فرمایا کرتی تھیں۔ آپ فقہ کے مسائل سے بھی پوری طرح واقف تھیں۔ لوگ آپ سے علم حاصل کرنے کے لیے دور دور سے آتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہا اپنے حجرے میں پردے میں رہ کر لوگوں کے سوالوں کے جواب دیتی تھیں۔ آپ کے اہم شاگردوں کی تعداد دو سو کے قریب ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا تعلیم کے ساتھ تربیت کا بھی خاص خیال رکھتی تھیں اور لوگوں کی سیرت اور کردار کو بہتر بنانے کی کوشش کرتی تھیں۔ آپ رضی اللہ عنہا کی یادداشت بہت اچھی تھی۔ آپ رضی اللہ عنہا عرب کی تاریخ کی ماہر تھیں۔ بہت اچھی تقریر کرتی تھیں۔ آپ رضی اللہ عنہا کو شعر و شاعری سے بھی دل چسپی تھی اور طب سے بھی واقفیت تھی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا انتقال رمضان المبارک 58 ہجری میں ہوا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک کو بہت قریب سے دیکھا۔ آپ کا حافظہ بہت اچھا تھا اس لیے آپ رضی اللہ عنہا ہی کے ذریعے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق، عادات اور تعلیمات دوسرے مسلمانوں تک پہنچیں۔ اللہ تعالیٰ آپ رضی اللہ عنہا پر لاکھوں رحمتیں نازل فرمائے۔
٭……٭