میں کچھوا نہیں ہوں!
کہانی:Do Hurry up Dinah!
مصنفہ: Enid Blyton
مترجمہ: گل رعنا صدیقی
۔۔۔۔۔
یہ کہانی ایک چھوٹی سی لڑکی دینا کی ہے۔ وہ ایک خوب صورت، خوش اخلاق اور نرم مزاج لڑکی تھی مگر افسوس کہ وہ بے حدسست تھی۔
اس بات کا اندازہ صبح اُس کی اسکول کی تیاری سے لگایا جا سکتا تھا۔ وہ ایک موزہ تلاش کرنے میں تقریباً پانچ منٹ لگاتی۔ پھر پانچ منٹ اُس موزے کو پہننے میں لگاتی تھی، پھر مزید پانچ منٹ موزے اُتارنے میں صرف کرتی تھی کیوں کہ اُس نے اُلٹے موزے پہن لیے ہوتے تھے۔ جب تک وہ تیار ہو کر نیچے آتی، باقی سب لوگ ناشتے سے فارغ ہو چکے ہوتے۔
ناشتہ کرتے ہوئے وہ اتنی ہی سستی کا مظاہرہ کرتی۔ آپ اسے دلیا کھاتے ہوئے دیکھیں تو یقینا ہنس پڑیں گے۔ وہ کچھ دیر تک تو خاموشی سے بیٹھی اپنی پلیٹ کو گھورتی رہتی۔ پھر وہ بہت احتیاط کے ساتھ آہستہ آہستہ دودھ ڈالتی اور پھر اپنی پلیٹ کو گھورنے لگتی۔ کچھ دیر بعد وہ دلیے میں آہستگی سے چینی ڈالتی اور پھر بہت دیر تک دلیے کو چمچے سے گول گول چلاتی رہتی۔
کافی دیر بعد وہ دلیا کھانا شروع کرتی۔ ناشتہ کرنے میں اُس کو آدھا گھنٹہ لگ جاتا تھا۔ اسی لیے وہ اسکول سے ہمیشہ لیٹ ہو جاتی۔ اسی طرح جب وہ اسکول پہنچتی تو دیر تک اپنا بستہ، ٹفن اور پانی کی بوتل ڈیسک پر رکھنے میں مصروف رہتی۔ پھر آہستہ آہستہ اپنے بستے سے اپنی کتاب، کاپی، پنسل اور ربڑ نکالتی رہتی۔ جب تک دینا اپنا کام شروع کرنے کے لیے تیار ہوتی سبق مکمل ہو چکا ہوتا۔
اُس کے اُستاد ا سے کچھوا کہتے تھے:
”دینا تمھیں تو ایک کچھوا پیدا ہونا چاہیے تھا۔“
اُس کی ٹیچر کہتیں:
”تم ایک سست، بوڑھے کچھوے کی زندگی گزار کر بہت خوش رہتیں۔“
”ہاں!“ دینا نے کہا۔
”میری خواہش ہے کہ میں کچھوؤں کی بستی میں رہوں۔ مجھے اس بات سے نفرت ہے کہ سب لوگ مجھ سے کہتے رہیں۔ جلدی کرو دینا! جلدی کرود ینا!! میں کچھوؤں کے ساتھ رہنا پسند کروں گی۔ مجھے یقین ہے کہ وہ مجھے دوسرے لوگوں کی طرح جلدی جلدی کام کرنے کو نہیں کہتے رہیں گے۔“
اب اتفاق کی بات ہے کہ یہ قبولیت کا لمحہ تھا اور دینا کے یہ کہتے ہی اُس کی خواہش پوری ہوگئی۔ اس کو اچانک اپنے اردگرد کی ہر چیز سیاہ رنگ کی نظر آنے لگی۔ اُس نے کسی چیز کو مضبوطی سے پکڑ لیا کیوں کہ اُس کا سر چکرا رہا تھا۔ آہستہ آہستہ سیاہی چھٹ گئی اور دینا نے حیرت سے اپنی پلکیں جھپکائیں۔ وہ ایک بہت عجیب و غریب نظارہ دیکھ رہی تھی۔ وہ اپنے اسکول میں نہیں تھی بلکہ ایک چھوٹے سے قصبے کی سڑک پر کھڑی ہوئی تھی۔ جس چیز کو اُس نے پکڑا ہوا تھا وہ اب غصے سے ہل رہی تھی۔
”مجھے جانے دو!“ ایک گہری اور دھیمی آواز سنائی دی۔
”آخر مسئلہ کیا ہے؟ میں کہتا ہوں، مجھے چھوڑ و!“
دینا کواحساس ہوا کہ اُس نے جو چیز پکڑی ہوئی ہے، وہ اصل میں بہت بڑا کچھوا تھا۔ اُس کے اپنے قد کے برابر! دینا حیرت سے اُسے گھورنے لگی۔
”تم کون ہو؟“اس نے پوچھا۔
”میں مسٹر رینگو ہوں۔ اب کیا تم مجھے چھوڑو گی؟“ کچھوے نے بے صبری سے کہا۔ دینانے اُسے چھوڑ دیا۔
”میں کہاں ہوں؟“ اس نے پوچھا۔
”کچھوؤں کے قصبے میں۔“ کچھوے نے کہا۔”میں تمھیں جانتا ہوں! تم وہ ننھی لڑکی ہو جو اسکول میں کچھوے کے نام سے مشہور ہے۔ تمھاری خواہش تھی کہ تم یہاں آکر رہو۔ سو یہ خواہش پوری ہوگئی۔ اب تم میرے ساتھ میرے گھر چلو۔ میری بیوی تمھاری دیکھ بھال کرے گی۔ ننھی لڑکی! آجاؤ۔“
”مگر میں اپنے گھر جانا چاہتی ہوں۔“ دینا نے پریشان ہو کر کہا۔
”یہ تو اب نہیں ہو سکتا۔ تم یہاں آگئی ہو اور اب تمھیں یہیں رہنا پڑے گا۔“ مسٹر رینگو نے کہا۔
”تمھیں تو خوش ہونا چاہیے کہ تمھاری خواہش پوری ہوگئی۔ اُف مالک! اتنا تیز تو مت چلو!میں تمھارا ساتھ نہیں دے سکتا۔“
دینا ہرگز تیز نہیں چل رہی تھی، وہ ہمیشہ کی سست رفتار تھی مگر بوڑھا کچھوا ایک منٹ میں ایک انچ کھسک رہا تھا۔
”ذ را جلدی چلو!“ آخر دینا سے رہا نہیں گیا۔ ”میں تمھاری طرح آہستہ نہیں چل سکتی۔“
”میری پیاری بچی! تم اپنے اسکول میں کچھوے کے نام سے مشہور تھیں۔ اس لیے تمھیں بہت سست ہونا چاہیے۔“مسٹر رینگو نے گویا تنبیہ کی۔”لو! آخر ہم گھر پہنچ ہی گئے۔ بیگم دروازے پر کھڑی ہیں۔“
یہ سب کچھ دینا کے لیے بہت حیران کن تھا مگر بیگم رینگو اسے دیکھ کر بالکل حیران نہیں ہوئیں۔
”یہ بچی ہمارے قصبے میں رہنے کے لیے آئی ہے۔“ مسٹر رینگو نے کہا۔ ”اسے رہنے کے لیے کسی جگہ کی ضرورت تھی اس لیے میں اسے اپنے گھر لے آیا۔“
”خوش آمدید!“ بیگم رینگو آہستہ آہستہ آگے آئیں اور اسے اندر لے آئیں۔ اب دینا بیٹھ کر بیگم رینگو کو میز پوش لگاتے ہوئے دیکھنے لگی۔ میز پوش دراز سے نکالنے میں انہیں ایک طویل عرصہ لگا۔ اس سے بھی زیادہ دیر کپڑے کو جھاڑنے میں لگ گئی اور میز پر کپڑا بچھانے میں تو ایک عمر گزر گئی۔ پھر وہ میز پر چھری، کانٹے اور چمچے سجانے لگیں۔ اس میں ان کو نصف گھنٹہ لگ گیا۔ غریب دینا کے پیٹ میں چو ہے دوڑ نے لگے۔
میں پلیٹیں اور گلاس میز پر لا دیتی ہوں۔“ اُس نے بے صبری سے کہا اور اچھل کر کھڑی ہو گئی۔ وہ جلدی جلدی میز پر پلیٹیں اور گلاس رکھنے لگی۔ بیگم رینگو نے اُسے غصے سے گھورا۔
”اب خدا کے واسطے۔“ انہوں نے کہا۔”اتنی بھاگ دوڑ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کچھوؤں کے یہ طور طریقے نہیں ہوتے۔ جلدی جلدی کام کرنے سے سانس پھول جاتی ہے اور منہ لال ہو جاتا ہے۔“
”میں کچھوا نہیں ہوں۔“ دینا نے احتجاج کیا۔
”جب تم کچھ عر صے اس قصبے میں رہو گی تو جلد ہی کچھوا بن جاؤ گی۔“ مسٹر رینگو نے کہا جواس سارے عرصے میں اپنا ایک جوتا اتار کر ایک سلیپر پہننے میں کامیاب ہوئے تھے۔
”تمھارے سارے بال گر جائیں گے اور تم ہماری طرح گنجی ہو جاؤ گی۔ تمھاری گردن جھریوں بھری ہو جائے گی اور تمھارے اوپر ایک خوب صورت سخت خول آجائے گا۔“
دینا نے مایوسی سے اُسے گھورا:”لیکن میں کچھوا نہیں بننا چاہتی۔ مجھے آپ لوگوں کے حلیے بہت مضحکہ خیز معلوم ہوتے ہیں۔“
مسٹر اور مسز رینگو نے اُسے شدید غصے سے گھورا۔
”بد تمیز ننھی لڑکی!“ بیگم رینگو نے کہا۔”جاؤ اور جا کر اپنے ہاتھ دھو کر آؤ۔ مسٹر رینگو پہلے تمھیں اپنے ہاتھ دھو کر دکھائیں گے۔ تا کہ تمھیں پتہ چلے کہ یہاں پانی کیسے استعمال کیا جاتا ہے۔“
مسٹر رینگو کو باتھ روم تک جانے میں پانچ منٹ لگ گئے۔ ہاتھ دھونے اور خشک کرنے میں مزید پندرہ منٹ لگے اور اُس وقت تک بیگم رینگو حقیقتاً کھانا میز پر لگانے میں کامیاب ہو چکی تھیں۔ دینا کا بھوک سے برا حال تھا۔ اُس نے اتنی تیزی سے ہاتھ دھوئے کہ اس سے پہلے اُس نے کبھی اپنی زندگی میں اتنی پھرتی کا مظاہرہ نہیں کیا تھا۔
مسٹر اور مسز رینگو نے ایک طویل عرصہ سوپ پینے میں لگا دیا۔ جتنی دیر میں انھوں نے اپنا نصف پیالہ ختم کیا۔ دینا کو اپنا سوپ ختم کیسے زمانے گزر گئے تھے اور اب وہ بیٹھی انتظار کر رہی تھی کہ کب اُن لوگوں کا سوپ ختم ہو اور کھانے کا مرحلہ شروع ہو۔ بھوک کے مارے وہ بے چینی سے پہلو بدل رہی تھی۔ دونوں کچھوے غصے میں آگئے۔
”کس قدر بے صبری بچی ہے۔ اس طرح پہلو کیوں بدل رہی ہو؟ خدا کے لیے، آہستہ روی سیکھو۔ تم ہمارے ساتھ آکر رہنا چاہتی تھیں۔ اب صبر کرو اور ہر کام احتیاط اور آہستگی سے کرو۔“ مسٹر رینگو نے کہا۔
دو پہر کا کھانا شام چار بجے ختم ہوا۔
”تقر یبا شام کی چائے کا وقت ہو چلا ہے۔“ دینا نے سوچا۔”یہ سب بہت پریشان کن ہے۔ واقعی اب مجھے سمجھ آیا ہے کہ دوسرے لوگ مجھ سے کتنی کوفت کھاتے ہوں گے۔ میں اسکول اور گھر کے کاموں میں اتنی سست روی کا مظاہرہ کرتی تھی۔ وہ لوگ بھی اتنا ہی غصہ اور بے چینی محسوس کرتے ہوں گے جتنا کہ میں اس وقت محسوس کر رہی ہوں۔“
”جب میں تیار ہو جاؤں گی تو تمھیں باہر سیر پر لے جاؤں گی۔“بیگم رینگو نے اس کے خیالات کا سلسلہ توڑا۔”قریبی بازار میں ایک سرکس آیا ہوا ہے۔ میرا خیال ہے کہ تم وہ دیکھنا پسند کرو گی۔“
”اوہ ہاں! کیوں نہیں۔“ دینا خوشی سے چلائی۔”اوہ! جلدی کریں بیگم رینگو! مجھے یقین ہے کہ جتنی دیر میں آپ اپنی شال اوڑھیں گی اور ہیٹ لگا ئیں گی سرکس کا وقت ختم ہو چکا ہو گا۔“
”ہمارے قصبے میں یہ کوئی نہیں کہتا کہ جلدی کرو۔“ مسٹر رینگو نے دخل دیا۔”ہم ہر کام بہت سوچ سمجھ کر آرام سے کرتے ہیں۔ سست ہونا بہت اچھی بات ہے۔ ہم کبھی نہیں بھاگتے، کبھی کوئی کام تیزی سے نہیں کرتے۔ تمھیں بہت زیادہ سستی کی عادت ڈالنی ہو گی میری بچی!“
جب تک بیگم رینگو نے جوتے پہنے، شال اوڑھی اور ہیٹ لگایا، شام کے چھ بج چکے تھے۔ دینا نے سوچا کہ اس نے اپنی زندگی میں اس سے زیادہ سست رفتار اور کوئی نہیں دیکھا ہو گا۔ تیار ہونے کے دوران بھی بیگم رینگو بار بار بیٹھ جاتی تھیں اور خلا میں گھورنے لگتی تھیں۔
”خوابوں کی دُنیا سے باہر آجائیں! ذرا جلدی کریں۔“دینا چلائی اور پھر اُسے یاد آیا کہ یہی جملہ خود اس سے بہت سے لوگ غصے اور بے صبری سے کہتے رہتے تھے۔
”میں بھی کتنی سست اور بے زار کر دینے والی لڑکی تھی۔“ اس نے شرمندگی سے سوچا۔ ”میں جلدی جلدی کام کرنا پسند نہیں کرتی تھی مگر اس قدرسست رفتاری سے کام کرنا تو اور بھی برا ہے۔“
جب وہ دونوں بازار پہنچیں تو سرکس تقریباً ختم ہو چکا تھا۔ گول گھومنے والا جھولا آخری چکر لینے کے لیے شروع ہونے ہی والا تھا۔ دینا مایوسی سے رونے کے قریب ہو گئی۔ وہ جلدی سے کاٹھ کے ایک گھوڑے پر سوار ہوگئی۔ جھولا بہت آہستگی سے گول گول گھومنے لگا۔ دینا نے اپنے ارد گرد اور جھولے کے نیچے کھڑے ہوئے چھوٹے بڑے رینگنے والے کچھوؤں کو دیکھا جو بہت سنجیدہ اور سست نظر آرہے تھے اور یہ منظر اُس کے لیے نا قابل برداشت ہو گیا۔
”اوہ! میری خواہش ہے کہ میں اپنے گھر واپس لوٹ جاؤں۔“ وہ چلائی۔”میں کبھی اتنی سستی کا مظاہرہ نہیں کروں گی کہ مجھے یہاں آکر رہنا پڑے،کبھی نہیں۔“
جھولے کا گھوڑا جس پر دینا بیٹھی ہوئی تھی، اچانک اُونچی آواز میں ہنہنایا اور دینا حیرت کے مارے گرتے گرتے بچی۔ جھولا ایک دم بہت تیز ہو گیا۔ پھر وہ جھٹکا کھا کر رک گیا۔ دینا نے حیرت سے اپنی آنکھیں ملیں۔ وہ اب کچھوؤں کی بستی میں نہیں تھی بلکہ اپنے گھر کے دروازے پر کھڑی تھی۔ وہ دوڑتی ہوئی گھر کے اندر داخل ہوگئی اور تیزی سے کچن کا رُخ کیا۔
اُس کی امی کھانا پکا رہی تھیں۔اُسے بھاگ کر آتے دیکھ کر حیران رہ گئیں:
”تم اسکول سے آگئیں؟ خیریت تو ہے۔ میں نے تمھیں آج پہلی بار دوڑتے ہوئے دیکھاہے۔“
”میں کچھوؤں کے قصبے میں چلی گئی تھی۔ امی! شکر ہے کہ میں وہاں سے واپس آگئی۔“ دینا نے خوش ہو کر کہا۔ اُس کی امی نے کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں پلکیں جھپکائیں۔
”میں اب کبھی کسی کو موقع نہیں دوں گی کہ وہ مجھے کچھوا کہے۔‘‘دینا نے کہا اور اپنے عمل سے اس بات کو پورا کر دکھایا۔
کیا آپ بھی کسی ایسے بچے کو جانتے ہیں جسے کچھوؤں کی بستی میں بھیجنے کی ضرورت ہو؟