skip to Main Content

ٹائم نہیں ہے

کہانی: She Couldn’t be Bothered
مصنفہ: Enid Blyton
مترجمہ: گل رعنا صدیقی
۔۔۔۔۔

کیا آپ ایسے لوگوں سے واقف ہیں جو کوئی کام مکمل کرنے کی زحمت نہیں کرتے؟ وہ جب گھر میں داخل ہوتے ہیں تو دروازہ بند نہیں کرتے، وہ کبھی اپنے گندے جوتے پائیدان پر صاف نہیں کرتے، کوئی چیز تلاش کرنے کے دوران اگر کچھ اور نیچے گر جائے تو وہ اُسے اٹھانے کی زحمت نہیں کرتے۔ اگر آپ ایسے کسی شخص سے واقف نہیں تو صوفی سے ملیے۔
”میرے پاس ٹائم نہیں ہے۔“یہ اُس کا پسندیدہ جملہ تھا جسے وہ دن میں درجنوں باردہراتی۔
ایک دن صوفی نے اپنی دوستوں کو چائے پر بلایا۔ صوفی نے طے کیا تھا کہ وہ چائے کے بعد دکان والا کھیل کھیلیں گے۔ اس مقصد کے لیے اُس نے ایک پیکٹ ٹافی، آلو کے چپس، بسکٹ اورچاکلیٹس خریدی تھیں۔ یہ سب سامان اُس نے اپنے کمرے کی میز پر سجا دیا اور ساتھ میں کھلونا تر از واور نقلی سکے بھی رکھ دیئے۔
”بہت مزہ آئے گا۔ پہلے میں دکان دار بن کر چیزیں بیچوں گی پھر میری سب سہیلیاں باری باری دکان دار بن سکتے ہیں۔“ اُس نے سوچا۔
”کھیل ختم ہونے کے بعد ہم انھیں مل کر کھا لیں گے۔“
صوفی کی سہیلیوں نے جب اُس کی سجائی ہوئی دُکان دیکھی تو بہت خوش ہوئیں۔ وہ فوری طور پر کھیل شروع کرنا چاہتی تھیں لیکن صوفی کی امی نے آواز دے کر کہا:
”صوفی! پہلے اپنی سہیلیوں کو چائے پر بلا لو، پھر کھیلنا۔“اور صوفی اپنی سہیلیوں کو لے کر کھانے کے کمرے میں آگئی۔
”صوفی! تم شاید باہر کا دروازہ کھلا چھوڑ آئی ہو۔ وہاں سے تیز ہوا آرہی ہے۔“ اُس کی امی نے کہا۔
”نہیں امی! مجھے یقین ہے کہ میں نے دروازہ بند کر دیا تھا۔ میں اب اُٹھ کر دیکھنے نہیں جارہی۔“ صوفی نے حسب معمول ٹالا۔
”تو پھر شاید تم اپنے کمرے کی کھڑکی کھول کر آئی ہوگی۔ آخر اتنی تیز ہوا کہیں سے تو آرہی ہے۔“ اس کی امی نے کہا۔”ذرا جا کر دیکھ آؤ۔“
”امی! میں نے کھڑ کی بند کر دی تھیں۔ میرے پاس اتنا ٹائم نہیں ہے کہ میں بار بار جا کردیکھتی رہوں۔“ صوفی نے بہت دھرمی سے کہا اور سینڈ وچ کھانے میں مصروف ہو گئی۔ صوفی کی امی خاموش ہو گئیں۔ وہ اُسے مہمانوں کے سامنے ڈانٹنا نہیں چاہتی تھیں۔
لیکن جیسا کہ آپ لوگ انداز ہ لگا سکتے ہیں، صوفی حسب معمول نہ صرف باہر کا دروازہ بند کرنا بھول گئی تھی بلکہ اپنے کمرے کی کھڑکی بھی کھلی چھوڑ آئی تھی۔
اب ہوا کیا کہ دو چڑیا ئیں کھڑکی کھلی دیکھ کر کمرے کے اندر آ گئیں۔ میز پر رکھے بسکٹ دیکھ کر وہ پھدک کر میز پر چڑھ گئیں اور بسکٹوں پر چونچیں مارنے لگیں۔ اُن کا شور سن کر اُن کی بہت سی ساتھی چڑیا ئیں اُڑ کر کھڑکی کے راستے اندر آ گئیں اور بسکٹوں کی دعوت اُڑانے لگیں۔ چڑیاؤں کے چہچہانے کی آواز صوفی کی بلی کے کانوں تک پہنچی تو وہ بھی کمرے کی کھڑ کی سے کود کر اندر آگئی۔ بلی نے چڑیوں پر جھپٹا مارنے کے لیے میز پر چھلانگ لگائی اور میز پر رکھی تمام چیزیں زمین پر گرادیں۔ چڑیا ئیں خوف زدہ ہو کر کمرے کے اندر گول گول چکر کاٹنے لگیں کیوں کہ انھیں ڈر کے مارے کمرے سے باہر نکلنے کا راستہ نہیں نظر آرہا تھا۔ بلی نے چاکلیٹس دیکھیں تواُن پر ٹوٹ پڑی۔
ادھر صوفی کے پالتو کتے نے یہ سب شور وغل سنا تو وہ چکر کاٹ کر گھر کے سامنے والے دروازے پر آیا۔ وہ باغیچے میں رہتا تھا اور اُسے گھر کے اندر آنے کی اجازت نہیں تھی۔ لیکن آج بیرونی درواز و چوپٹ کھلا دیکھ کر وہ خوشی خوشی اندر گھس گیا۔
صوفی کے کمرے میں بلی کو دیکھ کر وہ اس پر حملہ آور ہوا۔ بلی نے کتے سے بچنے کے لیے وال کلاک پر چھلانگ لگا دی۔ وہ اوپر چڑھ کر بیٹھنا چاہتی تھی لیکن وال کلاک سمیت نیچے آگری۔ اتنے میں کتے کو زمین پر بکھری مزے دار چیزیں نظر آگئیں اور وہ تھوڑی دیر کے لیے بلی کو بھول کر جلدی جلدی ٹافی، چپس اور بسکٹ نگلنے لگا۔ بلی میز پر بیٹھ کر غرانے لگی۔
چڑیا ئیں ابھی تک دیوانہ وار کمرے میں گول گول چکر کاٹ رہی تھیں۔ اتنے میں صوفی اور اُس کی امی شور و غل سن کر دوڑتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئیں۔ صوفی کمرے کا منظر دیکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ اُس کا تمام سامان بکھرا پڑا تھا۔ کھانے کی تمام چیزیں بلی اور کتا ہڑپ کر چکے تھے۔ اُس کی امی نے ٹوٹے ہوئے وال کلاک کو دیکھ کر سر پکڑ لیا۔
”تم نے کمرے کی کھڑکی کھلی چھوڑ دی تھی صوفی!“وہ غصے میں چلائیں۔”اور کتا گھر کے اندر کیسے آیا؟ تم نے یقینا باہر کا دروازہ بھی کھلا چھوڑ دیا ہو گا۔“
”اوہ امی! مجھے مت ڈانٹیں، میرے سارے بسکٹ، ٹافی اور چاکلیٹ ان لوگوں نے کھالیے۔“صوفی نے سسکیاں لیتے ہوئے کہا۔
”کیوں نہ ڈانٹوں؟ دیکھو! تمھاری لا پروائی کی وجہ سے آج کتنا نقصان ہوا ہے! اب تم اپنی پاکٹ منی سے اس وال کلاک کی قیمت ادا کرو گی۔“ امی نے کہا اور کھڑکی کے پٹ پورے کھول کر چڑیاؤں کو باہر اڑادیا۔ بلی کو اُس کی باسکٹ میں اور کتے کو باغیچے میں واپس بھیج دیا گیا۔
اب دُکان والا کھیل کھیلنا ممکن نہیں تھا لہٰذا سب بچے گھر جلدی چلے گئے۔ صوفی کو کئی ماہ تک اپنے جیب خرچ سے وال کلاک کے پیسے کٹوانے ہوں گے۔ مجھے امید ہے کہ آئندہ صوفی کو اتنا ٹائم ضرور مل جائے گا کہ وہ اپنے کام درست طریقے سے انجام دے سکے!!

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top