میرا بڑا ہوکر کیا بنوں گا؟
ڈاکٹر رﺅف پاریکھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب ہم چھوٹے تھے تو اکثر بیٹھ کر سوچا کرتے تھے کہ ”بڑا ہو کر میں کیا بنوں گا؟“ کبھی خیال آتا کہ پائلٹ بن جائیں۔ خوب مزے سے جہاز اُڑایا کریں گے۔ کبھی لندن پہنچ گئے تو کبھی پیرس۔ ہاں بھئی، کبھی کبھی لاہور بھی ہو آیا کریں گے۔ سنا ہے وہاں کا چڑیا گھر دیکھنے کے قابل ہے۔ دل چاہا تو جہاز کو ہوا میں اُلٹے سیدھے غوطے بھی کھلائیں گے۔ سب مسافروں سے کہہ دیں گے کہ بھئی، سیٹ پر جم کر بیٹھنا۔ جھٹکے سے باہر جا پڑے تو ہمارا ذمہ نہیں اور راستے میں اُتر گئے تو ٹکٹ کے پیسے واپس نہیں ملیں گے۔
لیکن ایک دن سنا کہ ایک جہاز گر کر تباہ ہوگیا۔ سب لوگ مرگئے، مسافر بھی اور پائلٹ بھی۔ فوراً کان پکڑلیے۔ پائلٹ بننے سے توبہ کرلی اور خدا کا شکر ادا کیا کہ ابھی پائلٹ بنے نہیں تھے۔ اگر بن چکے ہوتے تو پھر ڈاکٹر بننے میں بڑی مشکل پیش آتی۔ آپ ہی بتائیے کہ ہم جہاز میں بیٹھے دوا دیتے کیسے لگتے؟ بہت بُرے۔ ہے ناں؟“
دراصل ہم نے فوراً ہی ڈاکٹر بننے کا ارادہ کرلیا تھا۔ ڈاکٹر بھی کون سا؟ سرجن، جی ہاں چیر پھاڑ کرنے والا۔ ہم نے سوچ لیا تھا کہ دن رات آپریشن کیا کریں گے، دنادن، اس کا ہاتھ جوڑ دیا، اس کی ٹانگ کاٹ دی۔ اس کا پیٹ پھاڑ دیا۔ مطلب یہ کہ علاج کے لیے اور پھر جوڑ دیا، سی لیا اور ہاں، یہ جو ہماری چھوٹی بہن ہے نا، شریر سی، ببلی…. اس نے اپنی شرارتوں سے ہمارا ناک میں دم کر رکھا ہے۔ اس کی تو ناک کاٹ کر پیٹ پر لگادیں گے۔ بھوتنی کہیں کی۔ پھر تو پوری چڑیل لگے گی لیکن انہی دنوں ہمیں ایک عزیز کو دیکھنے ہسپتال جانا پڑا۔ ان کے سر پر چھوٹی سی پٹی بندھی ہوئی تھی جسے دیکھ کر ہم بہت ڈرے۔ ڈاکٹر صاحب نے ہمارے سامنے ہی ان کے بازو پر انجکشن لگانا شروع کیا۔ اس خوف ناک اور دہشت ناک منظر کو دیکھ کر ہماری گھگی بندھ گئی اور ہم چیخ مار کر کمرے سے باہر دوڑ پڑے۔ اپنی اس بہادری سے متاثر ہو کر ہم نے ڈاکٹر نہ بننے کا فیصلہ کرلیا۔
”ہم کیا بنیں؟“ یہ مسئلہ ہمیں بہت تنگ کررہا تھا۔ آخر ایک دن ہم اپنے لنگوٹیے یار ٹلو میاں کے پاس پہنچے تاکہ ان سے کچھ مشورہ لیں۔ وہ اس وقت سر نیچے، ٹانگیں اوپر کیے کھڑے تھے۔ یہ ورزش کی کوئی قسم تھی جو ان کے خیال میں دماغ کے لیے بہت مفید ہے۔ البتہ اُنھوں نے ہمیں یہ ورزش کرنے سے منع کردیا، کیوں کہ ان کے خیال میں ہماری کھوپڑی میں دماغ بالکل نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دماغ نہ رکھنے والوں کو یہ ورزش نہیں کرنی چاہیے ورنہ ان کی کھوپڑی کا سارا بھوسا ناک کے راستے جھڑجائے گا۔
ہم نے جاتے ہی ان سے پوچھا: ”یار، یہ بتاﺅ تم بڑے ہو کر کیا بنوگے؟“
اُنھوں نے جوب دیا: ”میں بڑا ہو کر مریض بنوں گا اور ڈاکٹروں کی خدمت کروں گا۔“
”بھائی صاحب! سر کے بل کھڑے ہونے کی وجہ سے شاید آپ کو دنیا کی ہر چیز اُلٹی نظر آرہی ہے۔ اسی لیے اُلٹی بات کہہ گئے۔“ ہم نے کہا۔
”نہیں، میں نے بالکل صحیح کہا ہے۔ آج کل مریضوں کو ڈاکٹروں کی خدمت کرنی پڑتی ہے۔“ یہ کہہ کر وہ سیدھے کھڑے ہوگئے۔ ”مگر یہ تمھیں اچانک کچھ بننے کا خیال کیسے آگیا؟“
”بس یار، کل میں ہسپتال گیا تھا۔ وہاں ڈاکٹر صاحب کو دیکھا کہ مریضوں کے زخموں پر پٹیاں باندھ رہے ہیں اور سوئی لگارہے ہیں۔ مجھے بہت ڈر لگا اور میں نے فیصلہ کرلیا کہ مجھے ڈاکٹر نہیں بننا۔ تب سے میں اسی فکر میں ہوں کہ ڈاکٹر نہیں تو پھر اور کیا بنوں؟“
”تم حجام بن جاﺅ۔“ ٹلو میاں سنجیدگی سے بولے۔
”کیا مطلب؟“ ہم نے غصے سے کہا۔
”بھئی، جب تم پڑھوگے لکھوگے نہیں، ہوائی جہاز سے ڈروگے، انجکشن لگانے سے ڈروگے تو پھر اور کیا بنوگے؟ حجامت کا کام ایسا ہے کہ…. مگر نہیں یار، ٹھہرو، مجھے خیال آیا کہ تم حجام بھی نہیں بن سکتے کیوں کہ تمھیں ڈر لگے گا کہ کہیں کسی کے بال کاٹتے ہوئے اس کا کان نہ کاٹ دو۔“ ٹلو میاں نے کہا۔
”دیکھو، ٹلو! میں تم سے اپنے مستقبل کے بارے میں نہایت اہم مشورہ کرنے آیا ہوں اور تم اسے مذاق میں ٹال رہے ہو۔ کتنے افسوس کی بات ہے۔“
”اماں یار، تم تو خواہ مخواہ سنجیدہ ہوجاتے ہو۔ لو بھئی، صحیح صحیح مشورہ دے رہا ہوں۔ کان کھول کر سن لو۔ انسان کو وہی کچھ کرنا چاہیے جس کی اس میں صلاحیت ہو۔ اسے وہ کام کرنا چاہیے جس میں اسے لطف آئے۔ اس طرح کام کام نہیں رہتا، ایک دلچسپ مشغلہ بن جاتا ہے۔“
ہم نے ان کی بات غور سے سنی اور پھر پوچھا: ”اچھا تو پھر تم کیا بنو گے؟“
”میں؟…. میں تو…. اصل میں، وہ کیا کہتے ہیں میں تو وہ بنوں گا، وہ جو ہوتا ہے نا۔“
یہ کہہ کر ٹلو میاں خاموش ہوگئے، ہم سمجھ گئے کہ ابھی تک وہ بھی یہ فیصلہ نہیں کرسکے کہ انھیں بڑا ہو کر کیا بننا ہے۔ اسی لیے آئیں بائیں شائیں کررہے ہیں۔
بس اس دن ہم دونوں سر جوڑ کر بیٹھے کہ ہمیں کیا بننا ہے اور آج تک یہی سوچ رہے ہیں، یعنی بڑے ہونے کے بعد بھی۔
پیارے ساتھیو، آپ نے تو فیصلہ کرلیا ہے نا کہ آپ کو بڑے ہو کر کیا بننا ہے؟ آپ بڑے ہو کر جو بننا چاہتے ہیں اس کے لیے خوب اچھی طرح سوچ بچار کرنے کے بعد پکا فیصلہ کرلیں۔ پھر خوب پڑھیں، محنت کریں اور ہاں، سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ سے مدد مانگیں۔
اچھا تو پھر، آپ کیا بنیں گے؟ سائنس دان؟ انجینئر؟ استاد؟ اخبار نویس؟ یا کسی رسالے کے ایڈیٹر؟ شاید آپ میں سے کوئی ادیب بھی بن جائے اور کوئی نہ کوئی تو ایسا ہوگا جو صدر یا وزیر اعظم بنے گا۔
ہاں تو بچو! کیا خیال ہے؟
٭….٭