skip to Main Content

۷ ۔ مدینہ کی اسلامی سلطنت

نظرزیدی

۔۔۔۔۔۔۔

رسول اللہ صلی علیہ وسلم یہ ارادہ کر کے مدینہ آئے تھے کہ اب ساری زندگی اسی شہر میں رہیں گے اورہجرت کر کے آنے والے عام مسلمانوں نے بھی ہمیشہ کے لیے اسی شہر کو اپنا وطن بنا لیا تھا۔
اللہ کے لیے اپنا گھر بار اور اپنا وطن چھوڑ کر آنے والے مسلمانوں میں زیادہ ایسے تھے جن کا سارا مال اسباب مکہ کے کافروں نے چھین لیا تھا اس لیے یہ بات بہت ضروری تھی کہ ان کے رہنے سہنے کا انتظام کیا جائے۔
مسجد بن کر تیار ہو گئی ‘ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ضروری کام کی طرف دھیان دیا اور اس سلسلے میں ایسا اچھا انتظام فرمایا کہ پوری تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی ۔آپؐنے ایک ایک مہاجر کو ایک ایک انصاری کا بھائی بنا دیا اور اس رشتے کی وجہ سے وہ سگے بھائیوں سے بھی زیادہ ایک دوسرے کے ہمدرد اور بھلا چاہنے والے بن گئے۔
انصار ان مسلمانوں کو کہا جاتا ہے جنہوں نے ہجرت کر کے آنے والے مسلمانوں کو اپنامہمان بنا یا تھا۔ عربی زبان میں انصار ی مدد کرنے والے کو کہتے ہیں ۔ناصر کی جمع انصار ہے‘ یعنی مدد کرنے والا ایک ہو تو ناصر اور زیادہ ہو ں ‘تو انصارکہیں گے ۔
انصار اور مہا جرین کے درمیان یوں بھائی چارہ قائم کرنے کو اسلامی تاریخ میں مواخاۃکا سلسلہ قائم کرنا کہا گیا ہے۔مسلمانوں کے درمیان قائم ہونے والا یہ رشتہ کیسا مضبوط تھا اس کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ انصار نے اپنے مہاجر بھائیوں کو اپنے کاروبار اور اپنی جائیداد تک میں ساجھی بنا لیا ۔جس کے پاس دو گھر تھے‘اس نے ایک گھر اپنے مہاجر بھائی کو دے دیا اور اگر کسی کے پاس گھر کا سامان نہ تھا تو اپنا آدھا سامان بانٹ کر اپنے دینی بھائی کے حوالے کر دیا ۔کچھ انصاری امیر تھے انہوں نے کئی کئی مکان مہاجروں کو دے دئیے ۔
اس سلسلے میں ایک مثال تو بہت ہی شاندار ہے ۔ایک انصاری حضرت سعدؓ بن ربیع نے اپنے مہاجر بھائی حضرت عبدالرحمٰنؓ بن عوف سے کہا :’’بھائی میرے پاس دو گھر ہیں ‘ان میں سے ایک تم لے لو ‘میرے پاس جو سامان ہے اس میں سے بھی آدھا تمہارا ہے‘اس کے علاوہ اپنی دو بیویوں میں سے ایک کو طلاق دیے دیتا ہوں ‘اس سے تم نکاح کر لو ۔‘‘
دوسری طرف مہاجر بھی ایسی غیرت والے تھے کہ انہوں نے بہت مجبوری کی حالت ہی میں اپنے انصاری بھائی سے مدد لی ‘ورنہ مدینہ آتے ہی محنت مزدوری اور کاروبار شروع کر کے اپنی روزی کمانے لگے اور ایسا کیوں نہ کرتے ‘وہ سچے مسلمان جو تھے ۔
حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کے بارے میں بیان کیا گیا ہے کہ انہوں نے حضرت سعد بن ربیع کا شکریہ ادا کر کے کہا:’’بھائی تمہارا مال اسباب تمہیں مبارک ہو ۔میرے لیے تو یہی کافی ہے کہ تم مجھے مدینہ کے بازار میں پہنچادو ۔‘‘
حضرت سعد بن ربیع ؓ اپنے دینی بھائی کے کہنے کے مطابق انہیں بازار میں لے گئے ۔انہوں نے گھی فروخت کرنے کا کاروبار شروع کر دیا اور تھوڑے ہی دنوں میں خوب امیر ہو گئے ۔انہی کی طرح دوسرے مسلمانوں نے بھی کاروبارشروع کر دیا اورسب اطمینان سے رہنے لگے ۔
بڑے رتبے کے مسلمانوں میں رسول اللہ ﷺنے حضرت ابو بکرصدیق ؓ کو حضرت خارجہؓ بن زیدؓ خزرجی کا بھائی بنا دیا ۔حضرت عمرؓ کو حضرت عتبانؓ بن مالک خزرجی کا ۔حضرت عثمانؓ کوحضرت اوسؓ بن ثابت منذر کا اور حضرت بلالؓ کو حضرت ابو عبداللہؓ بن عبدالرحمن کا بھائی بنا دیا ۔
حضرت علیؓ کو رسولﷺ نے اپنا بھائی بنایا اور ان کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا :’’اے علیؓ تم دنیا اور آخرت میں میرے بھائی ہو ۔‘‘
یہودیوں کے ساتھ سمجھوتہ
جس زمانے میں حضور ﷺ مدینہ آئے ‘اس شہر میں یہودیوں کا بہت زور تھا ۔زمینوں کے مالک بھی زیادہ تر وہی تھے ۔تجارت بھی انہی کے ہاتھ میں تھی ۔بازاروں اور منڈیوں میں انہی کی دکانیں زیادہ تھیں اور وہی ہر قسم کا کاروبار کر رہے تھے ۔
پیارے بچوں کو معلوم ہوگا مشہور پیغمبر حضرت موسیٰ ؑ کی امت کے لوگوں کو یہودی کہا جاتا ہے ۔حضرت موسیٰ ؑ پر جو کتاب نازل ہوئی تھی اس کا نام تورات ہے ۔اس آسمانی کتاب میں اللہ تعالیٰ نے بھلائی اور نیکی کی باتیں بتا دی تھیں اور حکم دیا تھا کہ سب انہی حکموں کو مانیں جو تورات میں لکھے ہوئے ہیں ۔
یہودی کچھ دن تو اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلتے رہے اور اس وجہ سے اللہ پاک نے انہیں بہت بڑی سلطنت کا مالک بنا دیا ‘لیکن پھر انہوں نے نیکی کا راستہ چھوڑ کر برائی کو اپنا لیا اور ایسے برے بن گئے کہ اللہ ان سے ناراض ہو گیا اور انہیں دوسری قوموں کا غلام بنا دیا ۔ان کی سلطنت چھن گئی اور ساری شان مٹ گئی ۔
مدینہ میں جو یہودی آباد تھے وہ بھی اپنے مذہب کی اچھی باتوں کو چھوڑچکے تھے ۔انہوں نے برائی کا راستہ اپنا لیا تھا ‘یہاں تک کہ اپنی مذہبی کتاب میں بہت سی باتیں اپنی طرف سے شامل کر لی تھیں ۔
مدینہ میں یہودیوں کے تین بڑے قبیلے تھے :بنو قینقاع، بنو قریظہ اور بنو نضیر، آباد ۔بہت سی دوسری برائیوں کے علاوہ ان میں ایک بہت بڑی برائی یہ بھی پیدا ہو گئی تھی کہ وہ اپنے آپ کو بہت عزت والا اور دوسروں کو بہت کم درجے کا خیال کرتے تھے ‘ان کا عقیدہ تھا یہودی کیسا برا بن جائے جنت میں جائے گا اور ان کے سوا کوئی جنت میں نہ جا سکے گا۔
یہودیوں کو بنی اسرائیل بھی کہا جاتا ہے ۔ہمارے زمانے میں فلسطین کی یہودی ریاست اسرائیل کا نام اسی وجہ سے اسرائیل رکھاگیا ۔
یہودی اپنے آپ کو مشہور پیغمبر حضرت یعقوب ؑ کی اولاد بتاتے ہیں ۔حضرت یعقوب ؑ کا ایک نام اسرائیل بھی تھا ۔اسی نام کی مناسبت سے یہودی بنی اسرائیل کہلاتے ہیں ۔یہودی انہیں اس لیے کہا جاتا ہے کہ حضرت یعقوب ؑ کے بیٹے کا نام یہودہ تھا۔اسی نام کی مناسبت سے وہ یہودی کہلانے لگے۔
اللہ کی آخری کتاب قرآن مجید میں یہودیوں کے بارے میں بہت سی باتیں بیان کی گئی ہیں اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ انہوں نے حضرت موسیٰ ؑ کا بتایا ہوا طریقہ چھوڑ کر برائی اور گناہ کا راستہ اختیار کر لیا تھا اور اسی وجہ سے انہیں ذلیل کر دیا گیا تھا ۔
حضور ﷺ نے مدینہ کے یہودیوں کی ساری برائیوں کے باو جود یہ کوشش کی کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ امن چین سے رہیں اور اچھے ہمسایوں کی طرح زندگی گزاریں ۔چنانچہ آپؐ نے یہودی سرداروں کو بلا کر ان کے ساتھ دوستی کا ایک معاہدہ کیا۔اس معاہدے کومیثاقِ مدینہ کہا جاتا ہے۔ اس سمجھوتے میں جو شرطیں طے ہوئیں وہ یہ ہیں:
۱۔ یہودی اور مسلمان ان قوموں کے مقابلے میں ایک قوم مانے جائیں گے جن سے دوستی کا سمجھوتہ نہیں ہے۔
۲۔ مسلمان اور یہودی اپنے اپنے مذہب پر آزادی سے عمل کریں گے اور مذہب کے علاوہ دوسری باتوں میں ایک جماعت سمجھے جائیں گے۔
۳۔ کسی کو قتل کر دئیے جانے کی صورت میں مسلمان قتل ہونے والے یہودی کا اور یہودی قتل ہونے والے مسلمان کا خون بہا(وہ رقم جو قتل ہونے والے کے رشتہ داروں کو دی جاتی ہے)ادا کریں گے۔
۴۔ ظالموں اور برائی کے راستہ پر چلنے والوں کا مقابلہ مسلمان اور یہودی مل کر کریں گے۔اس بات پر غور نہ کیا جائے گا کہ ظالم مسلمان ہے یا یہود ی۔
۵۔ قتل ہونے والے کے رشتہ دار اگر خون بہا لینے پر راضی ہو جائیں ‘ تو بدلے میں قاتل کو قتل نہ کیا جائے گا ۔
۶۔ ہر مسلمان کسی غیر مسلم کو پناہ دے سکے گا اور اگر ایک مسلمان صلح کر لے گا ‘ تو وہ سب مسلمانوں کی طرف سے صلح سمجھی جائے گی۔
۷۔ اگر کسی دشمن سے مسلمانوں کی لڑائی ہو گی ‘تو یہودی ‘مسلمانوں کا ساتھ دیں گے اور ان کے دشمن سے لڑیں گے ۔
۸۔ باہر کے کسی دشمن سے لڑائی ہونے کی صورت میںیہودی اور مسلمان ایک دوسرے کی مدد کریں گے اور ایک دوسرے کا بھلا چاہیں گے۔
۹۔ کوئی یہودی مکہ کے قریش کو پناہ نہیں دے گا اور نہ مسلمانوں کے مقابلے میں ان کی حمایت کرے گا۔ یہودی ‘ مکہ کے قریش کے دوستوں کی مدد بھی نہیں کریں گے۔
۱۱۔اگر کوئی دشمن مدینہ پر حملہ کرے گا ‘ تو مسلمان اور یہودی مل کر اس کا مقابلہ کریں گے اور اگر صلح ہو جائے ‘تو دونوں کی طرف سے صلح سمجھی جائے گی۔
۱۲۔ اگر کوئی یہودی مسلمان ہو جائے ‘ تو وہ درجے میں مسلمانوں کے برابر ہو جائے گا اور مسلمانوں کے لیے ضروری ہو گا کہ اس کے دشمن سے مقابلہ کریں ۔
۱۳۔ اگر کوئی شخص جرم کرے گا تو اس کے بدلے میں اس کے حلیف (جس کے ساتھ دوستی کا سمجھوتہ ہو) کو مجرم نہیں سمجھا جائے گا‘یعنی سزا جرم کرنے والے ہی کو دی جائے گی۔
۱۴۔ سب مسلمان اس سمجھوتے کو مانتے ہیں اور اس پر عمل کریں گے۔
۱۵۔ اگر مسلمانوں اور یہودیوں میں کسی بات پر جھگڑا ہو گا ‘تو اس کا فیصلہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ہو گا۔
اس معاہدے سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علی وسلم نے سچے دل سے یہ کوشش فرمائی تھی کہ مدینہ کے سب باشندے پیار و محبت اور امن و چین سے رہیں اور پوری آزادی کے ساتھ اپنے مذہب کی اچھی باتوں پر عمل کرتے رہیں ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سمجھوتہ یہودیوں سے ڈر کر نہ کیا تھا‘بلکہ اس لیے کیا تھا کہ اسلام کا تو پیغام ہی سب کے ساتھ انصاف کرنا اور امن قائم کرنا ہے۔
یہ معاہدہ اس بات کا پکا ثبوت تھا کہ مذہب اسلام امن اور انصاف کا مذہب ہے۔وہ صرف اس وجہ سے کسی کا مخالف نہیں بنتا کہ وہ کسی اور طریقے پر چلنے والاہے۔اس کی جنگ تو صرف برائیوں سے ہے اور یہ بات آپ بھی بالکل آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ برائی سے نفرت کرنا اور برائیوں کو مٹانا بہت ضروری بات ہے۔
مثال کے طور پر اگر کسی بستی میں کوئی ایسا آدمی رہتا ہو جو لوگوں کی چیزیں چرا لیتا ہو۔بیگنا ہوں کو ستاتا ہو اور اپنے جیسے برے لوگوں کو بلا بلا کر اپنے گھر میں بٹھاتاہو‘تو اس بستی کے رہنے والوں کو اس وقت تک آرام اور اطمینان نہیں مل سکتا جب تک اس برے آدمی کو برائیوں سے روک نہ دیا جائے۔ہمارا مذہب ایسا کرنے کو ضروری بتاتا ہے۔اگر کوئی مسلمان برائیوں کو مٹانے اور نیکی کو ترقی دینے کی کوشش نہ کرے تو اس سے اللہ تعالیٰ ناراض ہو جائیں گے۔
مکہ کے کافروں کی شرارتیں
مکہ کے کافروں کے ظلم سے بچنے کے لیے مسلمانوں نے یہ شہر ہی چھوڑدیا تھا اور وہاں سے سینکڑوں کیلومیٹر دور مدینہ میں آباد ہو گئے تھے ۔اس شہر کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے یہ سمجھ دی کہ انہوں نے اسلام کی سچائی کا اندازہ کر لیا اور مسلمانوں کی تعداد روز بروز بڑھنے لگی ۔انصار قبیلوں اوس اور خزرج کے علاوہ بہت سے یہودی بھی مسلمان ہو گئے ۔ان میں یہودیوں کے بہت بڑے عالم عبداللہؓ بن سلام بھی تھے۔
اگر مکہ کے کافروں میں معمولی سی عقل بھی ہوتی ‘تو اب مسلمانوں کو پریشان نہ کرتے‘ لیکن انہوں نے یہ اچھا طریقہ اختیار نہ کیا‘ بلکہ اس کوشش میں لگ گئے کہ مسلمان مدینہ میں امن چین سے نہ رہ سکیں ۔
اس سلسلے میں انہوں نے ایک خطرناک فیصلہ یہ کیا کہ مدینہ پر حملہ کر کے سب مسلمانوں کو قتل کر دیا جائے اور مدینہ پر چڑھائی کرنے کے لیے فوجی تیاری بھی کرنے لگے۔جب کوئی قافلہ تجارت کا سامان لے کر جاتا تو اس کے نفع کا کچھ حصہ لڑائی کا سامان تیار کرنے کے لیے الگ کر دیتے۔
جنگ بدر
مکہ کے کافروں نے اس طرح جب لڑائی کی خوب تیاری کر لی‘ تو رمضان سن ۲ ہجری میں غرور بھرے نعرے لگاتے ‘ ہتھیار چمکاتے ہوئے مدینہ کی طرف روانہ ہو گئے۔
سن ہجری اس دن سے شروع ہوتا ہے جس دن رسول اللہ ﷺنے مکہ سے مدینہ ہجرت کی تھی ۔اب یہ اسلامی سن کہلاتا ہے ۔اور اس کی تاریخوں کا حساب چاند کے نکلنے اور مہینہ پورا کر کے ڈوبنے سے ہوتا ہے۔
رسول ﷺ کو جب یہ بات معلوم ہوئی کہ مکہ کے کافر مدینہ پر حملہ کر نے کے لیے روانہ ہوگئے ہیں ‘تو آپ ﷺ نے بھی جنگ کی تیاری شروع کر دی اور رمضان کی ۱۳تاریخ کو کافروں سے مقابلہ کرنے کے لیے مدینہ سے نکلے ۔آپ ﷺ کے ساتھیوں کی کل تعداد تین سو تیرہ تھی ۔ان میں ۱۶مہاجر اور باقی انصار تھے ۔ان کے پاس پورے ہتھیار بھی نہ تھے ۔اللہ کے ان سپاہیوں کے پاس لڑائی کا معمولی سامان تھا۔اس کا اندازہ صرف اس بات سے کیا جاتا ہے کہ تین سو تیرہ مجاہدوں کی سواری کے لیے کل ستر اونٹ اور دو گھوڑے تھے ۔
دوسری طرف کافروں کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ تھی اور وہ خوب تیاری کر کے مسلمانوں سے لڑنے آئے تھے ۔مکہ میں جتنے بھی بہادر تھے سبھی ان کے ساتھ آئے تھے ‘لیکن ان کے پاس جو چیز نہ تھی وہ ایمان کی دولت اور اللہ کی مدد نہ تھی۔
ادھر مسلمانوں کے پاس سب سے بڑی دولت اور سب سے بڑی طاقت اللہ تعالیٰ پر بھروسہ اور اس کی طرف سے مدد کی امید ہی تھی ۔یہ بات صرف نظر آرہی تھی کہ کافر بہت زیادہ طاقتور ہیں ‘لیکن مسلمانوں کے دل میں ان کا ذرا سا بھی خوف نہ تھا اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت پر پورا پورا بھروسہ تھا اور وہ یہ جانتے تھے کہ ان کے دشمن ظالم اور بے انصاف ہیں اور یہ ارادہ کر کے آئے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ کو قتل کر دیں ۔مسلمانوں کو تباہ کر دیں اور اللہ کے سچے دین اسلام کو مٹا دیں ۔
اللہ تعالیٰ کی رحمت پر پورا بھروسہ کرنے کے ساتھ رسول ﷺ نے اللہ کے حکم کے مطابق کافروں سے لڑائی کی پوری پوری تیاری بھی کی تھی ۔اس سلسلے میں سب سے پہلی بات تو حضور ﷺ نے یہ کی کہ اپنی چھوٹی سی فوج کے تین جھنڈے تیار کئے۔پہلا جھنڈا مہاجرین کے لیے ‘یہ جھنڈا آپ ﷺ نے حضرت مصعبؓ بن عمیر کو دیا۔دوسرا جھنڈا انصار کے قبیلے خزرج کے لیے ۔یہ جھنڈا حضرت حبابؓ بن منذر کو دیا اور تیسرا جھنڈا انصار کے قبیلے اوس کے لیے ‘یہ جھنڈا حضرت سعدؓ بن معاذ کے سپرد فرمایا۔
اس کے بعد کافروں سے مقابلہ کرنے کے لیے روانہ ہوئے اور ایک مقام ‘بدر میں رک گئے ۔ بدر ایک چشمے کا نام ہے جو مدینہ سے شمال مشرق کی طرف ۸۰ میل کے فاصلے پر ہے ۔بیان کیا جاتا ہے یہ نام قبلہ بنو ضمرہ کے ایک شخص بدر کے نام پر رکھاگیا تھا جو یہاں سب سے پہلے آباد ہوا تھا ۔ اس زمانے میں ذیقعدہ کے مہینے میں یہاں میلہ بھی لگا کرتا تھا جو آٹھ دن جاری رہتا تھا۔
دوسری طرف سے کافرو ں کی فوج بھی اس میدان تک پہنچ چکی تھی ۔رسول ﷺ نے اپنے ایک صحابی حضرت حبابؓ بن منذر کے مشورے سے اسلامی لشکر کو اس میدان کے ایسے حصے میں ٹھہرایاجہاں پانی قریب ہی تھا ۔آپ ﷺ نے یہاں تالاب بنوا کر پانی اکٹھا کرالیا ۔
رمضان کی ۱۷ تاریخ کو جمعہ کے د ن دونوں فوجیں لڑنے کے لیے آمنے سامنے کھڑی ہوئیں ۔رسول ﷺ نے ساری رات اللہ کی عبادت میں گزاری اور فتح پانے کے لیے دعائیں مانگتے رہے ۔جنگ کے میدان میں آکر بھی آپ ﷺ نے سب سے پہلے اپنے رب سے دعا مانگی ‘فرمایا:
’’اے اللہ یہ قریش غرور میں بھرے ہوئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تیرے ساتھ جنگ کریں اور تیرے رسول ﷺکو جھٹلائیں ۔اے اللہ اپنا وعدہ پورا فرما ‘ اے اللہ اگر تیرے ماننے والوں کی یہ چھوٹی سی جماعت مٹ گئی تو پھر آسمان کے نیچے تیری عبادت کرنے والا کوئی باقی نہیں رہے گا ۔‘‘
مسلمانوں کے لیے یہ بڑا ہی نازک وقت تھا ۔کہتے ہیں کہ حضور ﷺ جس وقت دعا مانگ رہے تھے آپﷺکی ایسی حالت تھی کہ چادر مبارک بار بار کاندھوں سے ڈھلک جاتی تھی جسے حضرت ابو بکر صدیق ؓ ٹھیک کرتے تھے ۔
دوسری طرف کافروں کا یہ حال تھا کہ غرور بھرے نعرے لگا رہے تھے اور شیخی بگھار رہے تھے کہ آج ایک مسلمان کو بھی زندہ نہ چھوڑیں گے ‘لیکن جب لڑائی شروع ہوئی ‘تو ان کی ساری شیخی خاک میں مل گئی۔ ان کے وہ بہادر جنہیں اپنی طاقت پر بہت گھمنڈتھا‘قتل ہو گئے اور جو بچے وہ بہت ذلت کے ساتھ لڑائی کے میدان سے بھاگنے لگے ۔اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ پورا کیا اور مسلمان جیت گئے۔
مسلما ن بچوں کی بہادری
مسلمان اور کافروں کے درمیا ن یہ پہلی لڑائی تھی جس میں مسلمانوں نے اپنے سے کئی گنا زیادہ کافروں کو شکست دی ۔اس لڑائی میں بڑی عمر کے مسلمانوں نے جو ہمت اور بہادری دکھائی اس کا اندازہ تو اسی بات سے ہو جاتا ہے کہ دشمنوں کی کئی گنا بڑی فوج کو ہرادیا اور ان کے بڑے بڑے بہادروں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا ۔
اس کے علاوہ ایک خاص بات یہ ہوئی کہ مسلمان بچوں نے بھی خوب بہادری دکھائی ۔کافروں کے سب سے بڑ ے سردار اور اسلام کے سب سے بڑے دشمن ابوجہل کو دو مسلمان بچوں نے ہی قتل کیا۔
یہ واقعہ مشہور صحابی حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ نے بیان کیاہے ۔وہ فرماتے ہیں :’’میں ایک جگہ کھڑا تھا کہ دو انصاری بچے میرے پاس آئے اور مجھ سے کہا :’’چچا کیا آپ ابو جہل کو جانتے ہیں ؟وہ کہاں ہیں ؟‘‘میں نے ان سے پوچھا :’’تم کیوں پوچھتے ہو۔تم کیا کرو گے ؟‘‘ان میں سے ایک نے کہا :’’وہ رسول ﷺکا دشمن ہے ۔ہم اسے قتل کریں گے۔‘‘ان کی یہ بات سن کر میں بہت حیران ہوا۔اتفاق سے اسی وقت ابو جہل مجھے نظر آگیا اور میں نے بچوں کو بتایا وہ ہے ابوجہل ۔یہ سن کر وہ دونوں اس پر جھپٹے اور دیکھتے ہی دیکھتے اسے زخمی کرکے گھوڑے سے گرا دیا ۔
ان بچوں میں سے ایک کا نام معاذؓ بن عمرواور دوسرے کا نام معوذؓ بن عمرو تھا۔
اسی طرح تاریخ میں ایک اور مسلمان بچے کی بہادری کا حال بیان کیا گیا ہے۔اس کا نام عمیرؓبن ابی وقاص تھا ۔یہ اتناکم عمر تھا کہ جب رسول ﷺمجاہدوں کو فوجی قاعدے کے مطابق سیدھی قطاروں میں کھڑا کر رہے تھے ‘تو عمیرؓ کو قطار سے باہر نکال دیا اور فرمایا :’’تم ابھی کم عمر ہو لڑائی میں حصہ لینے کے قابل نہیں ہو۔‘‘
بہادر عمیرؓ کو اللہ کے دشمنوں سے لڑنے کا اتنا شوق تھا کہ جب حضرت رسول ﷺ نے انہیں لڑائی سے روک دیا ‘تو ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے ‘اور ان کا یہ شوق دیکھ کر حضور ﷺ نے انہیں جہاد میں حصہ لینے کی اجازت دے دی۔لڑنے کی اجازت ملنے کے بعد وہ بہت بہادری سے لڑنے لگے اور لڑتے لڑتے شہید ہو گئے۔
غیب سے مدد
اسلامی تاریخ میں اس جنگ کو غزوہ بدر کانام دیا گیا۔غزوہ ان جنگوں کو کہا جاتا ہے جن میں نبی پاک ﷺ نے خود حصہ لیا تھا ۔
غزوہ بدر کے بارے میں یہ بات بھی بیان کی جاتی ہے کہ جب مسلمان یہ ارادہ کر کے جنگ کے میدان میں آگئے کہ اللہ کے دشمنوں کو ختم کر دیں گے یا اس کو شش میں خود شہید ہوجائیں گے ‘تو اللہ تعالیٰ نے غیب سے انکی مدد فرمائی اور فرشتوں کو ان کی مدد کرنے کے لیے بھیجا جنہوں نے ان کے ساتھ مل کرکافروں کو قتل کیا۔
قرآن مجید میں اس واقعے کا ذکر کیا گیا ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’اور اللہ بدر کی لڑائی میں تمہاری مدد کر چکا ہے اور تم کمزور تھے۔پس اللہ سے ڈرو تا کہ تم(اس کا)شکر کرو۔(اے نبی ﷺ)جب تم مسلمانوں سے کہتے تھے کیا تمہارے لیے کافی نہیں کہ تمہارا رب تمہاری مدد کرے؟تین ہزار فرشتے آسمان سے اترنے والے بھیجے ‘بلکہ اگر تم صبر کرو اور نیک بن کر رہو اور وہ تم پر ایک دم سے آپہنچیں ‘تو تمہارا رب پانچ ہزار فرشتے نشان لگے ہوئے گھوڑوں پر مددکے لیے بھیجے گا اور اس چیز کو اللہ نے تمہارے دل کی خوشی کے لیے کیا ہے اور تا کہ اس سے تمہارے دلوں کا اطمینان حاصل ہو اور مدد تو صرف اللہ ہی کی طرف سے ہے جو زبردست حکمت والا ہے ۔تا کہ بعض کافروں کو ہلاک کرے یا انہیں ذلیل کرے ‘پھر وہ ناکام ہو کر لوٹ جائیں ۔‘‘(سورۃآل عمران ‘آیات نمبر ۱۲۳تا ۱۲۷)
قرآن مجید میں ایک اور جگہ فرمایا:
’’جب تیرے رب نے فرشتوں کو حکم دیاکہ میں تمہارے ساتھ ہوں ‘تم مسلمانوں کے دل مضبوط رکھومیں کافروں کے دلوں میں خوف پیدا کر دوں گا ۔سو (کافروں )کی گردنوں پر مارو اور ان (کے بدن )کی پور پور پر مارو۔اس لیے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے مخالف ہیں اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسولﷺکا مخالف ہو تو(اسے)اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔‘‘(سورۃ الانفال۔آیات نمبر ۱۲اور۱۳)
اللہ تعالیٰ کی سچی کتاب قرآن مجید کی ان آیتوں سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے واقعی آسمان سے فرشتے بھیج کر جنگ بدر میں لڑنے والے مسلمانوں کی مدد فرمائی اور اسی بات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی مدد کرنے کے لیے آسمان سے فرشتے اس لیے اتارے گئے کہ وہ ظلم اور بے انصافی کو مٹانے کے لیے ظالموں اور بے انصافوں سے لڑرہے تھے اور اس اچھے مقصد کے لیے انہوں نے اپنا سب کچھ قربان کر دینے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
اللہ کا وعدہ ہے کہ جو کوئی بھی نیکی پھیلا نے ‘برائیوں کو مٹانے اور کافروں یعنی اللہ کو نہ ماننے والوں کا زور توڑنے کے لئے کوشش کرے گا‘اللہ پاک اسی طرح غیب سے اس کی مدد فرمائے گا جس طرح جنگ بدر میں لڑنے والے مسلمانوں کی مدد فرمائی تھی ۔
جو اللہ کو نہیں مانتے وہ تو مسلمانوں کی مدد کے لیے آسمان سے فرشتے اترنے کی بات کو جھٹلائیں گے ‘لیکن ایک سچے مسلمان کو اس بات میں ذرا بھی شک نہیں ہو سکتاکہ اللہ تعالیٰ اپنے ایماندار بندوں کی مدد ضرور کرتا ہے اور یہ بات اس کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں کہ آسمان سے فرشتے بھیج دے۔
غیبی امداد کے سلسلے میں جنگ بدر کا ایک یہ واقعہ بھی ہے کہ جب لڑائی شروع ہوئی ‘تو رسول ﷺ نے اپنی مٹھی میں کنکریاں بھر کر کافروں کی طرف پھینکیں جو کافروں کو بندوق کی گولیوں کی طرح لگیں ۔ان کی آنکھوں کی روشنی جاتی رہی اور وہ ڈر کر میدان سے بھاگنے لگے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس واقعے کا بھی ذکر کیا ہے ۔فرمایا:’’(اے ہمارے رسول ﷺ )تم نے انہیں (کافروں کو)قتل نہیں کیا‘بلکہ اللہ نے انہیں قتل کیا اور تم نے مٹھی بھر (کنکریاں )نہیں پھینکیں ‘بلکہ اللہ نے پھینکی تھیں او ر اس لیے کہ ایمان والوں پر اپنی طرف سے خوب احسان کرے ‘بے شک اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔(سورۃالانفال آیت نمبر۱۷)
اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے رسول ﷺ اور آپ ﷺکے ساتھیوں کو غیب سے جو امداد دی اس کا حال بہت سے صحابیوں ‘یعنی رسول ﷺ اللہ کے دوستوں نے بھی بیان کیا ہے جو اس لڑائی میں شریک تھے۔
حضرت ابوداؤدمزنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ۔’’میں کسی کافر پر حملہ کرتا تھا‘تو اس کا سر یوں کٹ کر دور جا گر تا تھا جیسے پہلے سے کٹا ہواہو۔‘‘
اسی طرح ایک اور صحابی حضرت سہلؓ بن حنیف کا بیان ہے ۔’’اگر ہم کافروں کی طرف اشارہ بھی کر دیتے تھے ‘تو ان کے سر کٹ کر دور جا گرتے تھے۔‘‘ان دونوں باتوں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ فرشتے مسلمانوں کی مدد کر رہے تھے ۔
کافروں کا انجام
مکہ سے آنے والے کافروں کو پکا یقین تھا کہ اس لڑائی میں وہی جیت جائیں گے اور سب مسلمانوں کا خاتمہ کر دیں گے ‘لیکن بات بالکل الٹی ہوئی ‘لڑائی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے بہت سے سردار جن میں ابوجہل بھی تھا، قتل ہو گئے اور انہیں ذلت کے ساتھ میدان سے بھاگنا پڑا۔
مسلمان گنتی میں کافروں سے بہت کم تھے ‘لیکن اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت سے انہوں نے کافروں کو ہرا دیا اور ان کا نقصان بھی کم ہوا ۔مسلمان صرف چودہ شہید ہوئے جن میں چھ مہاجر اور آٹھ انصار تھے ۔دوسری طرف ستر کافر مارے گئے ‘اور اتنوں ہی کو مسلمانوں نے قیدی بنا لیا۔
جنگ احد
جنگ بدر میں کافروں کوجوذلت اٹھانی پڑی تھی اور ان کاجس قدر نقصان ہواتھا ،اس سے یہ بات ثابت ہوگئی تھی کہ وہ حق پر نہیں اور اللہ مسلمانوں کے ساتھ ہے۔ اگر ان میں ذرا بھی عقل ہوتی‘تو پھر کوئی شکایت نہ کرتے ‘لیکن انہیں تو شیطان نے سیدھے راستے سے ایسا بھٹکا دیا تھا کہ انہوں نے اس شکست سے کچھ بھی سبق حاصل نہ کیا۔
مکہ جاتے ہی پھر لڑائی کی تیاریاں شروع کردیں ۔تجارت میں جو نفع حاصل ہوتا ‘اس کا ایک حصہ لڑائی کی تیاری کے لیے الگ کر دیتے۔
اس بار انہوں نے مکہ کے آس پاس رہنے والے قبیلوں کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا اور اس طرح ایک بڑی فوج بن کر ۳ شوال ۳ ہجری کو مکہ سے مدینہ کی طرف روانہ ہوئے ۔ان کی تعداد تین ہزار تھی۔ان میں دو سو گھوڑے اور ساتھ سو ایسے لڑاکا نوجوان تھے ‘جنہوں نے زرہ ‘یعنی لوہے کی کڑیوں سے بنے ہوئے کرتے پہن رکھے تھے ۔اونٹ تو ان کے پاس ہزاروں کی تعداد میں تھے۔
اس بار ان کافروں نے بہت سی عورتوں کو بھی ساتھ لیا تھا جو شعر گاگا کر جوش دلا رہی تھیں ۔
جن دنوں کافر لڑائی کی تیاری کر رہے تھے حضور ﷺ کے چچا حضرت عباس بن عبدالمطلب مکہ میں ہی تھے ۔وہ اگر چہ مسلمان نہ ہوئے تھے‘لیکن ان کے دل میں اسلام کی محبت پیدا ہو چکی تھی‘چنانچہ اس محبت ہی کی وجہ سے انہوں نے اپنے ایک آدمی کو مدینہ بھیج کر رسول ﷺ تک یہ خبر پہنچا دی کہ مکہ کے کافر پھرمدینہ پر حملہ کرنے والے ہیں ۔
رسول ﷺکو پہلے ہی سے بات معلوم تھی کہ مکہ کے کافر لڑائی کی تیاریوں میں لگے ہوئے ہیں ۔ادھر آپ ﷺ بھی کافروں سے لڑنے کی تیاری کر رہے تھے ۔جب یہ خبرملی کہ کافروں کی فوج مکہ سے روانہ ہوگئی ہے ‘توآپ ﷺنے صحابہ کو بلا کر ان سے مشورہ کیا کہ کافروں کا مقابلہ کس طرح کیا جائے ۔کچھ صحابہ کی رائے یہ تھی کہ شہر مدینہ کے اندر رہ کر ہی کافروں کا مقابلہ کرنا چاہیے ۔کچھ یہ کہتے تھے کہ شہر سے باہر نکل کر کھلے میدان میں کافروں کا مقابلہ کر نا ٹھیک رہے گا۔
یہ بحث ہو رہی تھی کہ رسول ﷺاٹھ کر اپنے حجرے میں تشریف لے گئے اور زرہ پہن کر پاہر تشریف لائے ۔یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ آپ ﷺ شہر سے باہر نکل کر کھلے میدان میں کافروں سے مقابلہ کرنا چاہتے ہیں ۔
۱۳ شوال سن ۳ ہجری کی جمعہ کی نماز پڑھ کر حضور ﷺ نے جنگ بدر کی طرح اس جنگ کے لئے بھی تین جھنڈے تیار کئے۔مہاجرین کا جھنڈا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ‘انصار کے قبیلے اوس کا جھنڈاحضرت اسید بن حضیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اور خزرج کا جھنڈا حضرت حباب بن منذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیا۔
جو مسلمان مکہ کے کافروں سے لڑنے کے لیے تیار ہوئے ان کی تعداد ایک ہزار تھی ۔گویا اس جنگ میں بھی کافروں کی تعداد مسلمانوں سے دو ہزار زیادہ تھی اور پہلے کی طرح ان کے پاس لڑائی کا سامان بھی بہت اچھا تھا۔
تعداد میں کم ہونے کے علاوہ اس بار مسلمانوں کوبہت نقصان پہنچانے والی ایک بات یہ تھی کہ کچھ ایسے لوگ بھی لشکر میں شامل ہو گئے تھے جوسچے دل سے مسلمان نہ ہوئے تھے‘بلکہ دنیا کے کچھ فائدے حاصل کرنے کے لیے ظاہری طور پر مسلمان بن گئے تھے ۔ایسے لوگوں کو منافق کہا جاتا ہے اور ان کے بارے میں اللہ نے قرآن مجید میں یہ بات بتائی ہے کہ انہیں قیامت کے دن کافروں سے بھی زیادہ سزا ملے گی۔انہیں دوزخ سے کبھی نہ نکالا جائے گا۔
مسلمانوں کے ساتھ جو منافق تھے ‘ان میں ایک شخص عبداللہ بن اُبی تھا ۔مسلمانوں کے مدینہ آنے سے پہلے وہ اس شہر کا ایک بڑا آدمی مانا جاتا تھا ‘لیکن جب مسلمان یہاں آئے‘تو اس کی پہلی سی شان باقی نہ رہی اور یہ اندازہ کر کے مسلمان ہو گیا کہ مسلمانوں کی برادری میں شامل ہو کر دنیا کے بہت سے فائدے حاصل ہو ں گے۔
جنگ احد کے موقع پر اس نے یہ حرکت کی کہ جب اسلامی لشکر کافروں سے لڑنے کے لیے گیا تو اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر الگ ہوگیا ۔بہانا یہ بنایا کہ جنگ کے سلسلے میں میری بات نہیں مانی گئی۔وہ یہ چاہتاتھا کہ حملہ کرنے والی فوج کا مقابلہ شہر کے اندر رہ کر کیا جائے ۔
تین سو آدمیوں کے یوں الگ ہو جانے سے ایک تو اسلامی لشکر کی طاقت کم ہوئی‘دوسرے یہ خطرہ بھی پیدا ہوا کہ مسلمانوں کے دل ٹوٹ جائیں گے ‘شاید اس نے بھی یہ حرکت یہی سوچ کر کی تھی ‘لیکن اللہ کے فضل سے ایسی کوئی بات نہ ہوئی ۔اس کے الگ ہوجانے کی مسلمانوں نے بالکل پروا نہ کی ۔پروا کرتے بھی کیوں ‘انہیں تو سب سے زیادہ بھروسہ اللہ تعالیٰ پر تھا ۔
بہادر مسلمان بچے
جنگ بدر کی طرح اس جنگ میں بھی مسلمان بچوں نے بہت بہادری دکھائی ۔کتنے ہی بچوں نے یہ کوشش کی کہ انہیں جنگ میں حصہ لینے کی اجازت مل جائے‘لیکن رسول ﷺ نے کم عمر ہونے کی وجہ سے انہیں روک دیا ‘پھر بھی دو بچے سمرہؓ بن جندب اور رافعؓ بن خدیج نے جنگ میں حصہ لینے کی اجازت لے ہی لی۔ان دونوں کو رسول ﷺ نے اس وجہ سے اجازت دے دی کہ وہ تیر چلانے میں بہت ماہر تھے۔
رسول ﷺ جمعہ کے دن رات کے وقت کافروں کی فوج سے مقابلہ کرنے کے لیے روانہ ہوئے ۔آپ ﷺ کے ساتھ صرف سات سو مجاہد تھے ۔جنگ بدر کے مجاہد وں کی طرح لڑائی کا سازوسامان ان کے پاس بھی بالکل معمولی تھا۔گھوڑے تو ان کے پاس کل دو ہی تھے ‘لیکن پہلے کی طرح اس یقین سے سب کے دل مضبوط تھے کہ ہم سچائی کی حفاظت کے لیے ان لوگوں سے لڑیں گے جو ظالم اور بے انصاف ہیں ۔اس یقین کے علاوہ تمام مجاہدین کو یہ امید بھی تھی کہ اللہ تعالیٰ غیب سے ہماری مدد کرے گا۔ اس بار رسول ﷺ احد نامی پہاڑ کے قریب رکے ۔یہ پہاڑ مدینہ شہر سے تین ساڑھے تین میل کے فاصلے پر شمال کی طرف ہے اور اسے احد نام اس وجہ سے دیا گیا ہے کہ آس پا س کے دوسرے پہاڑوں سے یہ الگ تھلگ اور اکیلا نظر آتا ہے ۔عربی زبان میں احد اکیلے کو کہتے ہیں ۔
رسول ﷺ نے اپنے لشکر کو اس پہاڑ کے قریب اس طرح ٹھہرایا کہ پہاڑ لشکر کی پشت کی طرف اور مدینہ سامنے تھے ۔اس پہاڑ میں ایک درہ ‘یعنی قدرتی راستہ ہے۔اس درے کی وجہ سے یہ خطرہ تھا کہ اگر کافر چکر کاٹ کر پہاڑ کے دوسری طرف پہنچ جائیں تو اس درے سے گزر کر مسلمانوں کے لشکر تک پہنچ سکتے ہیں او ر حملہ کر کے نقصان پہنچا سکتے تھے ۔
اس خطرے سے بچنے کے لیے حضور ﷺ نے یہ انتظام کیا کہ تیر چلانے والے پچاس مجاہدوں کو اس درے پر پہرہ دینے کے لیے مقرر کر دیا اور حکم دیا کہ لڑائی کچھ بھی رنگ اختیار کرے تم اپنی جگہ نہ چھوڑنا ۔حضرت عبداللہ بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان پچاس تیر اندازوں کا سر دار بنایا گیا ۔
سات سو مسلمانوں کے مقابلے میں تین ہزار کافروں کی فوج تھی‘لیکن جب جنگ شروع ہوئی تو مسلمان ‘کافروں کو دباتے چلے گئے ۔جو کافر بھی لڑنے کے لیے آیا مسلمانوں نے اس کا خاتمہ کر دیا۔یہاں تک کہ کافر لڑائی کے میدان سے بھاگنے لگے۔
ایک غلطی
جب کافروں نے میدان سے بھاگنا شروع کیا۔تو درے پر پہرہ دینے والے تیر اندازوں نے یہ خیال کیا کہ کافر ہار گئے اور لڑائی ختم ہوگئی ۔یہ خیال کر کے انہوں نے اپنی جگہ چھوڑ دی اور بھاگنے والے کافروں کا چھوڑا ہوا سامان اکٹھا کرنے لگے۔حضرت عبداللہ بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انہیں بہت روکا ‘لیکن تھوڑے ہی تیر انداز وں نے ان کا حکم مانا ۔حضرت عبداللہؓ نے اپنی جگہ نہ چھوڑی اور کافروں سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے ۔
جنگ احد میں خالد بن ولید کافر سواروں کے ایک دستے کے سردارتھے۔وہ اس وقت تک مسلمان نہ ہوئے تھے اور اپنے ساتھی کافروں کی طرح مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانا چاہتے تھے ‘انہوں نے یہ جو دیکھا کہ مسلمان تیر انداز پہاڑ کے درے سے ہٹ گئے ہیں ‘تو وہ چکر کاٹ کر دوسری طرف پہنچ گئے اور درے سے گزر کر مسلمانوں پر حملہ کر دیا ۔حضرت عبداللہ بن جبیر اور ان کے ساتھیوں نے جنہوں نے ان کا حکم ما نا تھا کافروں کو روکنے کی کوشش کی ‘لیکن کامیاب نہ ہوئے۔
اچانک حملے سے مسلمان گھبرا گئے اور میدان چھوڑ کر بھاگنے لگے اور یوں لڑائی کا رنگ بدل گیا ۔بھاگنے والے کافر رک گئے اور مسلمانوں کو قتل کرنے لگے۔
درے سے ہٹ جانے والے تیر اندازوں کی غلطی کی وجہ سے ایک بہت بڑا نقصان یہ ہوا کہ رسول ﷺ بھی زخمی ہو گئے ۔آپﷺ کو ایک زخم ابن قمہ نامی کافر کی تلوار سے لگا۔اس نے تلوار ماری تو خود (لوہے کی ٹوپی جو لڑائی میں پہنی جاتی ہے)کی کڑیاں مبارک چہرے میں گڑ گئیں ۔دوسرا زخم عتبہ بن ابی وقاص کے پھینکے ہوئے پتھر سے لگا اور آپ کا ایک دانت شہید ہو گیا ۔ایک اور روایت کے مطابق آپ ﷺ کے دو دانت شہید ہو ئے ۔
اب اس لڑائی میں مسلمانوں کے ہار جانے کا اندیشہ پیدا ہوگیا تھا ‘لیکن پھر مسلمانوں نے اپنی بگڑی ہوئے حالت کو سنبھال لیا ا ور کافر انہیں مکمل طور پر شکست نہ دے سکے ۔مسلمان ایک بار پھر مقابلہ کرنے لگے ‘تو وہ لڑائی کے میدان سے بھاگ گئے ۔اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں یہ خوف پیدا کر دیا کہ مسلمانوں کی مدد کے لیے مدینہ سے فوج آرہی ہے۔
ابو سفیان نے بھاگتے بھاگتے یہ شیخی بگھاری کہ ہم اگلے سال اسی موسم میں پھر حملہ کریں گے ۔
رسول ﷺ نے کچھ صحابہ کو یہ دیکھنے کے لیے ان کی پیچھے بھیجا کہ میدان جنگ سے بھاگ کر کافر مدینہ پر حملہ کرنے کا ارادہ تو نہیں رکھتے اور جب اس طرف سے اطمینان ہو گیا تو حضور ﷺ بھی لڑائی کے میدان سے لوٹ آئے ۔
اس جنگ میں ستر اور اسی کے درمیان مسلمان شہید ہوئے ۔ جو کافر قتل ہوئے ان کی تعداد تئیس یا چو بیس تھی۔شہید ہونے والے مسلمانوں میں عرب کے مشہور بہادر اور حضور ﷺ کے چچا حضرت حمزہؓ بن عبدالمطلب بھی تھے ۔
مسلمانوں کو یہ بھاری نقصان صرف اس وجہ سے اٹھانا پڑا کہ درے پر پہرہ دینے والے تیر اندازوں نے رسول ﷺ کی نصیحت بھلا دی تھی۔اس واقعے سے ہمیں آج بھی یہ سبق ملتا ہے کہ جو فوج اپنے سالار کا حکم نہیں مانتی وہ جیتی ہوئی لڑائی ہار جاتی ہے ۔اسی طرح جو لوگ اپنے نبی ﷺ کی نصیحتوں پر عمل نہیں کرتے ‘ انہیں کامیابی حاصل نہیں ہو تی ۔
کچھ رنج بھرے واقعات
جنگ احد میں جو نقصان ہوا تھا ا س کی وجہ سے تمام مسلمان بہت رنجیدہ تھے۔اس جنگ کے بعد کچھ اور رنج بھرے واقعات ہوئے۔کافروں کی دھوکہ بازی کی وجہ سے بہت سے ایسے مسلمان شہید ہو گئے جنہوں نے بہت شوق سے قر آن پاک حفظ کیا تھا اور دین کی باتیں سیکھی تھیں ۔ان مسلمانوں کا شہید کر دیا جانا ایسا نقصان تھا جس کا رسو ل ﷺ کو بہت ہی رنج ہوا ۔
صفر ۴ ہجری میں علاقہ نجد کے کچھ سردار رسول ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یہ درخواست کی کہ ہمارے ساتھ کچھ ایسے آدمی بھیج دیجئے جو ہمارے علاقے کے لو گوں کو مسلمان ہونے کا طریقہ بتائیں اور دین کی باتیں سکھائیں ۔
حضور ﷺ نے ان کی درخواست مان لی اور ان کے ساتھ ستر صحابہ کو بھیج دیا۔یہ صحابہ تو یہ سوچ کر ان کے ساتھ گئے تھے کہ اللہ کے بندوں کو سچے دین اسلام کی باتیں سکھائیں گے ‘لیکن انہیں ساتھ لے جانے والوں کا ارادہ کچھ اور ہی تھا۔انہوں نے کئی قبیلوں کے آدمیوں کو اکٹھا کر رکھا تھا اور ان سے کہا تھا جب ہم مسلمانوں کو اپنے ساتھ لائیں تو حملہ کر کے انہیں قتل کر دینا ‘چنانچہ جب صحابہؓ ان کے ٹھکانے پر پہنچ گئے ‘تو اپنے آدمیوں کو اشارہ کردیا اور انہوں نے مسلمانوں کو چاروں طرف سے گھیر کر شہید کر دیا ۔
ان ستر مسلمانوں نے حملہ کرنے والے کافروں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا‘لیکن کافر تعدا د میں اتنے زیادہ تھے کہ مسلمان اپنی جانیں نہ بچا سکے۔سب اللہ کے دین پر قربان ہو گئے ۔
اسی طرح قبیلہ بنو ہزیل کے کچھ سردار صرف دھوکہ دینے کے لیے مسلمان ہوگئے اور انہوں نے بھی رسول ﷺ سے درخواست کی کہ دین کی باتیں سکھانے کے لیے کچھ آدمیوں کو ہمار ے ساتھ بھیج دیجئے ۔حضور ﷺ نے دس صحابہؓ کو ان کے ساتھ بھیج دیا۔نجد کے کافروں کی طرح بنی ہزیل نے بھی دھوکہ کیا۔دو سو آدمیوں نے ان دس مسلمانوں کو گھیر لیا اور آٹھ کو شہید کر دیا ۔ان میں سے دو ،حضرت خبیبؓ بن عدی اور حضرت زیدؓ بن الدثنہ ایک ٹیلے پر چڑھ کر اپنی جانیں بچانے میں کامیاب ہوگئے اور کافروں نے یہ وعدہ کر کے انہیں بھی گرفتار کر لیا کہ نیچے اتر آؤ گے ‘تو بالکل نقصان نہ پہنچائیں گے ۔اس زمانے میں کافر عرب بھی وعدہ کر لیتے تھے ‘تو ضرور پورا کرتے تھے ‘لیکن بنو ہزیل اپنے وعدے سے پھر گئے ۔دونوں کو قریش مکہ کے ہاتھ فروخت کر دیا اور انہوں نے ان دونوں کو بہت بیدردی سے شہید کر دیا۔
یہودیوں کی شرارت
مدینہ کے یہودیوں میں کچھ ایسے بھی تھے جن کے دل میں کچھ نہ کچھ ایمان تھا۔انہیں تو اس بات پر فوراًیقین آگیا کہ حضور ﷺ واقعی اللہ کے پیغمبر ہیں اور مسلمان ہو گئے ‘لیکن جو اپنے مذہب کو بھی با لکل چھوڑ چکے تھے اور برائی کی زندگی گزار رہے تھے وہ مسلمانوں کی دشمنی میں اور برے بن گئے اور اس تاک میں رہنے لگے کہ موقع ملے تو انہیں کوئی نقصان پہنچا ئیں ۔
احد کی جنگ میں کافروں کے مقابلے میں مسلمانوں کو زیادہ نقصان پہنچا تھا۔اس سے ان شریر یہودیوں نے یہ اندازہ لگایا کہ مسلمان اب مکہ کے قریش کا مقابلہ نہ کر سکیں گے اور قریش نے اگر پھر حملہ کیا تو سارے مسلمانوں کا خاتمہ کر دیں گے ۔
اتفاق ایسا ہوا کہ جنگ احد کے کچھ ہی دن بعد دوستی کے اس سمجھوتے کی آزمائش کا موقع پیدا ہو گیا جو مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان ہوا تھا ۔ہوا یہ کہ ایک مسلمان حضرت عمیر بن امیہ ضمری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے غلطی سے قبیلہ بنو عامر کے دو آدمیوں کو قتل کر دیا۔ حضرت عمیر رضی اللہ عنہ ان صحابہ میں شامل تھے جنہیں رسول ﷺ نے دین سکھانے کے لیے کافروں کے ساتھ بھیجا تھا۔وہ کسی طرح اپنی جان بچانے میں کامیاب ہو گئے تھے ۔وہ جب مدینہ کی طرف آرہے تھے تو راستے میں انہیں بنو عامر کے د و آدمی مل گئے اور غصے میں انہوں نے ان دونوں کو قتل کر دیا۔اس قبیلے سے رسول ﷺ نے امن کا سمجھوتہ کیا تھا۔اس کے سردار کو اپنے دو آدمیوں کے قتل ہونے کا حال معلوم ہوا تو اس نے رسول ﷺ سے کہا ،ان دونوں آدمیوں کا خون بہا ادا کیا جائے اور رسول ﷺ نے یہ بات مان لی۔
اس زمانے میں کوئی آدمی قتل کر دیا جا تاتھا‘تو اس کے قا تل ‘یعنی قتل کرنے والے سے بدلہ لینے کے دو طریقے تھے۔ایک تویہ کہ قاتل کو قتل کر دیا جاتا تھا۔دوسرا یہ کہ قاتل ‘مقتول ‘یعنی قتل ہونے والے کے رشتہ دار وں کو روپیہ دے دیتا تھا‘اسے خون بہا یا دیت کہتے تھے ۔
میثاق مدینہ ‘یعنی مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان ہونے والے سمجھوتے میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ اگر کسی کا خون بہا دینا پڑے گا ‘تو یہ روپیہ مسلمان اور یہودی دونوں فریق مل کر ادا کریں گے ‘چنانچہ اس سمجھوتے کے مطابق حضرت رسول ﷺ نے یہودیوں کے قبیلے بنو نضیر سے کہا کہ وہ خون بہا ادا کرنے کے لیے اپنے حصے کا روپیہ دے دیں ۔
یہودیوں نے ظاہری طور پر یہ بات مان لی ‘لیکن آپس میں یہ مشورہ کیاکہ جب رسول ﷺ روپیہ لینے کے لیے آئیں ‘ تو چھت کے اوپر سے بھاری پتھر گر ا کر آپ ﷺ کو شہید کر دیا جائے ۔اپنے اس برے ارادے پر عمل کرنے کے لیے انہوں نے سارا انتظام بھی کر لیا ۔رسول ﷺ کو ایک خاص جگہ بیٹھنے کو کہا اور اپنے ایک آدمی عمرو بن جحاش کو چھت پر چڑھا دیا کہ وہ آپ پر پتھر گرا دے ‘لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ ﷺ کو یہودیوں کے اس برے ارادے کے بارے میں بتا دیا اور آپؐ اس جگہ سے اٹھ گئے جس جگہ بٹھا کر یہودی اوپر سے پتھر گرا نا چاہتے تھے ۔
یہودیوں کا یہ گناہ ظاہر ہو گیا ‘تو حضور ﷺ نے ان کے محلے پر حملہ کرنے کا حکم دے دیا اور مسلمانوں نے انھیں چاروں طرف سے گھیر کیا ۔تقریباََ پندرہ دن تو یہودی بہت اکڑ دکھاتے رہے ‘لیکن پھر ان کی سمجھ میں یہ بات آگئی کہ ہم نے غلطی کی ہے اور ہم مسلمانوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے تو رسول ﷺ سے درخواست کی کہ ہمیں مدینہ سے چلے جانے کی اجازت دے دی جائے۔
حضور ﷺ نے انہیں مدینہ سے چلے جانے کی اجازت دے دی اور حکم دیا کہ وہ ہتھیار اپنے ساتھ نہ لے جائیں اور گھر بار کا سامان بھی صرف اتنا اپنے ساتھ لے جائیں جو ایک اونٹ پر لادا جا سکتا ہے۔یہودیوں نے ایسا ہی کیا اور ان میں سے کچھ خیبر میں جا کر آباد ہو گئے اور کچھ ملک شام چلے گئے ۔
بنو نضیر کی طرح یہودیوں کے دوسرے قبیلوں نے بھی مسلمانوں کو ستانا شروع کر دیا ۔ان کی دشمنی کی اصل وجہ یہ تھی کہ رسول ﷺ کے مدینہ منورہ میں تشریف لے آنے سے ان کی چودھراہٹ ختم ہو گئی تھی اور وہ پہلے کی طرح کمزوروں کو ستا بھی نہ سکتے تھے ۔نہ روپیہ سود پر دے کر غریبوں کو لوٹ سکتے تھے ۔
رسول ﷺ کے تشریف لانے سے پہلے حالت یہ تھی کہ اوس اور خزرج دونوں قبیلے آپس میں لڑتے رہتے تھے ‘آپس کی اس لڑائی نے ان دونوں ہی کو اتنا کمزور کر دیا تھا کہ وہ یہودیوں کی بے انصافی اور ظلم کے خلاف آواز بھی نہ نکال سکتے تھے ۔یہودی ان کے ساتھ برے سے برا سلوک کرتے تھے اور اپنی کمزوری کی وجہ سے وہ ان کا ہر ظلم چپ چاپ سہتے تھے ۔
یہ دونوں قبیلے مسلمان ہو گئے تو اسلام کی برکت سے ان کی کمزوری دور ہو گئی اور یہودیوں کے لیے انہیں نا حق ستانے اور ان کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کا کوئی موقع نہ رہا اور اس وجہ سے وہ اس کوشش میں لگ گئے کہ مسلمانوں کی جو حکومت قائم ہو گئی ہے اور انہوں نے جو طاقت حاصل کر لی ہے اس کا خاتمہ ہو جائے اور پہلے کی طرح انہیں لوٹنے لگیں ۔
دوستی کا معاہدہ توڑنے کے علاوہ یہودیوں نے ایک حرکت یہ کی کہ مکہ کے قریش سے گٹھ جوڑ کر لیا اور انہیں یقین دلایا کہ اگر تم لوگ اب مدینہ پر حملہ کرو ‘توہم تمہارا ساتھ دیں گے ۔
بیان کیا جاتا ہے کہ یہودیوں کے تین سردار سلام بن الحقیق ‘حی بن اخطب اور کنانہ بن الربیع مکہ جا کر ابو سفیان سے ملے اور اس بات پر زور دیا کہ جتنی جلدی ہو سکے مدینہ پر حملہ کر کے مسلمانوں کا خاتمہ کر دو ۔
مکہ کے کافر تو پہلے سے ہی لڑائی کی تیاریوں میں لگے ہوئے تھے۔ان یہودی سرداروں کے آنے سے ان کی ہمت اور بڑھی اور انہوں نے اور بھی زور و شور سے مدینہ پر حملہ کر نے کی تیاری شروع کر دی ۔لڑائی کا سامان اکٹھا کرنے کے علاوہ انہوں نے اس بار یہ کوشش بھی کی کہ مکہ شہر کے آس پاس جو قبیلے رہتے ہیں انہیں بھی اپنے ساتھ ملا لیں اور پھر سب مل کر مدینہ پر حملہ کریں ۔اس کوشش میں انہیں کامیابی بھی حاصل ہوئی اور قبیلہ غطفان ‘بنو اسد ‘بنوسلیم اور بنو سعد ان کے ساتھ مل گئے ۔یہودیوں نے پہلے ہی یہ وعدہ کر لیا تھا کہ اگر تم مدینہ پر چڑھائی کر دو گے ‘تو ہم تمہارا ساتھ دیں گے۔
جنگ احزاب
مکہ کے کافروں نے جب اس طرح خوب تیاری کر لی تو شوال سن ۵ ہجری میں ایک بہت بڑا لشکر تیار کر کے مدینہ کی طرف روانہ ہو گئے ،ایک روایت کے مطابق اس لشکر کی تعداد دس ہزار اور ایک اورروایت کے مطابق چوبیس ہزار تھی ۔ابو سفیان اس کا سردار تھا۔
رسول ﷺ کو بھی کافروں کی تیاریوں کی خبریں ملتی رہتی تھیں ۔جب آپ ﷺ کو یہ معلوم ہوا کہ کافروں کا لشکر مدینہ کی طرف روانہ ہونے والا ہے ‘تو آپ ﷺ نے صحابہ کو اکٹھا کر کے جنگ کے بارے میں مشورہ کیا اور اس بار یہ فیصلہ ہوا کہ شہر کے اندر رہ کر کافروں سے مقابلہ کیا جائے ۔
اس وقت مدینہ شہر کا نقشہ کچھ یوں تھا کہ اس کے تین پہلو پہاڑیوں ‘باغوں اور مضبوط مکانوں کی وجہ سے محفوظ تھے ‘دشمن کی فوج آسانی سے شہر کے اندر نہ آ سکتی تھی‘البتہ ایک طرف کوئی رکاوٹ نہ تھی ‘دشمن کی فوج بالکل آسانی سے شہر کے اندر داخل ہو سکتی تھی ۔
جب اس حصے کی حفاظت پر بات ہوئی تورسول ﷺ کے ایک صحابی حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مشورہ دیا کہ اس طرف خوب گہری اور خوب چوڑی خندق کھود لی جائے۔انہوں نے کہا میرے وطن ایران میں شہروں کی حفاظت کا ایک طریقہ یہ بھی ہے ۔ خندق کی وجہ سے دشمن فوج کے گھوڑے اور لڑنے والے سپاہی آسانی سے داخل نہیں ہو سکتے ۔
ایران کا ایک نام فارس بھی ہے ۔حضرت سلمانؓ فارس ہی کے رہنے والے تھے ‘اسی لیے انہیں سلمانؓ فارسی کہا جاتا ہے۔ان کی یہ بات سب کو پسند آئی اور حضور ؓ نے جلدی سے جلدی خندق تیار کرنے کا حکم دے دیا۔آپ ﷺ نے خندق کھودنے کا انتظام اس طرح کیا کہ دس دس آدمیوں کی ٹولیاں بنا کر ان سے فرمایا ہر ٹولی چالیس ہاتھ لمبی خندق تیار کرے اور تمام صحابہؓ نے اس فیصلے کے مطابق کام شروع کر دیا ۔اس خندق کی کل لمبائی پانچ ہزار ہاتھ ۔چوڑائی نو ہاتھ سے کچھ اوپر او رگہرائی سات ہاتھ سے دس ہاتھ تھی‘اس زمانے میں چیزیں ہاتھ سے ناپی جاتی تھیں اور انگلیوں کی پوروں سے لے کر کہنی تک ایک ہاتھ مانا جاتا تھا ۔
تین ہزار صحابہؓ نے یہ کام بیس دن میں مکمل کیا اور اس حالت میں کہ انہیں روکھی سوکھی روٹی بھی پیٹ بھر کر نہ ملتی تھی ‘بلکہ کئی کئی وقت فاقہ کرنا پڑتا تھا۔بیان کیا جاتا ہے کہ بھوک کی وجہ سے پیٹ کمر سے لگ جاتا تھا تو صحابہؓ اپنے پیٹوں پر پتھر باندھ لیتے تھے۔خود حضور ﷺ کا بھی یہی حال تھا۔ایک دن ایک صحابی نے اپنے پیٹ پر بندھا ہواپتھر دکھایا ‘تو حضور ﷺ نے دکھایا کہ آپ ﷺ کے پیٹ پر دو پتھر بندھے ہوئے ہیں ۔
بھوک پیاس میں صحابہؓ کا ساتھ دینے کے علاوہ حضور ﷺ نے سب کے ساتھ خندق کھودنے کا کام بھی کیا‘ بلکہ یہ کام آپ ﷺنے دوسروں سے زیادہ کیا۔جب کوئی مشکل پیش آتی تھی اسے حضور ﷺ ہی دور فرماتے تھے ایک بار ایسا ہوا کہ ایک بہت بڑا پتھر درمیان میں آگیا ۔صحابہؓ نے وہ پتھر توڑنے کی بہت کوشش کی‘لیکن کامیابی نہ ہوئی ۔مجبور ہو کر انہوں نے یہ بات حضور ﷺکو بتائی اور یہ پتھر خودحضور ﷺہی نے توڑا۔آپ ﷺ نے بسم اللہ پڑھ کر تین دفعہ کدال ماری تو پتھر ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا ۔اس موقع پر آپ ﷺ نے صحابہؓ کو یہ خبر سنائی کہ کچھ ہی دن بعد مسلمان ایران فتح کر لیں گے ۔
یہ زمانہ مسلمانوں کے لیے بہت ہی پریشانی کا تھا ۔یہودیوں اور مکہ کے کافروں کے علاوہ عیسائی بھی مسلمانوں کے مخالف بن گئے تھے ۔اور ان کے کئی قبیلے اس فوج میں شامل تھے جو مدینہ پر حملہ کرنے کے لیے روانہ ہوئی تھی ۔ گویا پورا عرب مسلمانوں کا دشمن بن گیا تھا ۔کافروں کی بہت بڑی فوج کے مقابلے میں لڑنے کے قابل مسلمانوں کی تعداد کل تین ہزار تھی۔رسول ﷺ نے کافروں سے لڑنے کے لیے انہی کو تیار کیا اور خندق کے مختلف حصوں پر مجاہدوں کو مقرر کر دیا کہ اگر کافر خندق پار کرنے کی کوشش کریں تو انہیں روکیں ۔
کافروں کی ٹڈی دل فوج نے مدینہ کو گھیر لیا اور ان کے مشہور بہادر کوشش کرنے لگے کہ خندق پار کر کے دوسری طرف پہنچ جائیں ‘لیکن اس کوشش میں کامیاب نہ ہوئے ۔وہ خندق کے پا س آکر تیر برساتے اور شرمندہ ہو کر لوٹ جاتے ۔تقریباََایک مہینہ اسی طرح گزر گیا۔آخر ایک دن کافروں کی فوج کے چار شہسوار ایک ایسی جگہ سے خندق پار کرنے میں کامیاب ہوگئے جو کسی قدر کم چوڑی تھی ۔جن سواروں نے خندق پار کی ان کے نام یہ ہیں :عمرو بن عبدود ‘نوفل بن مغیرہ ‘ضرار اور جبیرہ ۔ان میں عمرو بن عبدود اتنا بہادر تھا کہ اسے ایک ہزار سواروں کے برابر سمجھا جاتا تھا۔
خندق کے اس طرف آکر اس نے غرور بھری آواز میں کہا ۔’’کون ہے جو میرے مقابلے پر آئے ؟‘‘
اس کی یہ بات سن کر حضرت علیؓ مقابلہ کرنے کے لیے میدان میں آئے ۔عمروبن عبدود نے کہا:بھتیجے ‘کیوں اپنی جان کے دشمن بنے ہوئے ہو‘تمہارے باپ ابو طالب نے مجھ پر احسان کیا تھا اس لیے میں تم سے لڑنا نہیں چاہتا ۔حضرت علیؓ نے فرمایا ‘لیکن میں تجھ سے لڑنا چاہتا ہوں ‘کیو نکہ تو اللہ کا دشمن ہے ۔
یہ سن کر عمر و بن عبدود غصے میں بھر گیا اور حضرت علیؓ پر حملہ کیا۔دونوں کچھ دیر لڑتے رہے اور پھر حضرت علیؓ نے ایسے پھرتی اور طاقت سے حملہ کیا کہ تلوار کے ایک ہی وار سے عمرو کا خاتمہ کر دیا ۔
اپنے اتنے بڑے بہادرکا یہ انجام دیکھ کر باقی تینوں سواروں نے بھاگنے کی کوشش کی ۔ان میں سے نوفل بن مغیرہ بھی مارا گیا ۔باقی دونوں بھاگنے میں کامیاب ہو گئے ۔اس کے بعد کسی کو ہمت نہ ہوئی کہ خندق پار کر کے مسلمانوں پر حملہ کرتا ۔
کافروں پر مسلمانوں کا رعب بیٹھ جانے کے علاوہ غیب سے یہ مدد ہوئی کہ کافروں میں پھوٹ پڑ گئی ۔اس کے علاوہ ایک دن ایسی زور کی آندھی اٹھی کہ کافروں کے خیمے اکھڑ گئے ۔ان کے جانور، رسے توڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے اور سارا سامان بکھر گیا۔اس خوفناک آندھی کی وجہ سے جب ان کی یہ حالت ہوئی تو وہ سمجھے یہ طوفان ضرور مسلمانوں کی بد دعاؤں کی وجہ سے آیا ہے ۔انہوں نے اپنا بچا کھچا سامان سمیٹا اور بھاگ کھڑے ہوئے ۔دوسرے دن مسلمانوں نے دیکھا کہ کافر جا چکے تھے۔
آندھیاں اور طوفان آتے رہتے ہیں ‘لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ آندھی واقعی رسول ﷺ کی مدد کے لیے چلائی تھی۔قرآن مجید میں اس کا ذکر کیا گیا ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’اے ایمان والو‘اللہ کے احسان کو یاد کرو جو تم پر ہوا ‘جب تم پر کئی لشکر چڑھ آئے ۔پھر ہم نے ان پر آندھی بھیجی اور وہ لشکر بھیجا جسے تم نے نہیں دیکھا اور جو تم کر رہے تھے اللہ دیکھ رہا تھا۔‘‘(سورہ الاحزاب آیت نمبر ۹)
اور اسی سورہ میں ایک اور جگہ فرمایا:
’’اور اللہ نے کافروں کو غصے میں بھرا ہوا لوٹایا ۔ ان کے کچھ بھی ہاتھ نہ آیا ۔اور اللہ نے مسلمانوں کی لڑائی اپنے ذمے لے لی اور اللہ طاقتور غالب ہے ۔اور جن اہل کتا ب (یہودیوں اور عیسائیوں )نے ان کی مدد کی تھی انہیں ان کے قلعوں سے نیچے اتار دیا اور ان کے دلوں میں خوف پیدا کر دیا۔کچھ کو تم قتل کرنے لگے اور ان کو قیدی بنا لیا ۔اور ان کی زمین اور ان کے گھروں اور انکے مال کا تمہیں مالک بنا دیا اور ا س زمین کا جس پرتم نے قدم نہیں رکھا تھا اور اللہ ہر چیز کر سکتا ہے ۔‘‘(ّسورہ الاحزاب‘آیات نمبر ۲۵تا۲۷)
قرآن مجید کی ان آیتوں سے صاف طور پر یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس جنگ میں مسلمانوں کو جو کامیابی حاصل ہوئی وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی سے حاصل ہوئی ۔اس سے پہلے جنگ بدر اور جنگ احد میں بھی اسی طرح مسلمانوں کو غیب سے مدد ملی تھی ۔ان دونوں جنگوں میں بھی مسلمانوں کی تعداد کافروں سے بالکل کم تھی ۔مسلمانوں کے پاس لڑائی کا پورا سامان بھی نہ تھا ‘لیکن جب لڑائی ہوئی تو مسلمان جیت گئے اور کافر ہار گئے ۔اور یہ اس لیے ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی مدد فرمائی ۔
اس بات سے ہمیں یہ سبق ملتاہے کہ جو لوگ اللہ پر پکابھروسہ کریں اور وہ حق اور انصاف پر بھی ہوں ‘تو اللہ تعالیٰ غیب سے ان کی مدد کرتا ہے ۔ہاں اس سلسلے میں ایک یہ بات بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی کوششوں میں کسر نہ چھوڑیں جیسا کہ ہمارے حضور ﷺ نے کیا ۔جنگ کی تیاری بھی کی اور خود جنگ میں حصہ بھی لیا ۔ہمیں چاہیے کہ حضور ﷺ کے طریقے کو اپنائیں ۔ایساکریں تو ہمیں بھی کوئی نہ ہرا سکے گا ‘چاہے دشمنوں کی تعداد اور طاقت کتنی بھی زیادہ کیوں نہ ہو۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top