skip to Main Content
مابہ کا سفر

مابہ کا سفر

فریال یاور

………………………………………

حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ محبت تھی۔

ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کو مسلمان الخیر کا خطاب دیا۔

………………………………………

ایک ٹھنڈا نیم تاریک کمرا ہے۔ جہاں چراغ کی روشنی ٹمٹمارہی ہے۔ اس ٹمٹماتے چراغ کے ساتھ ہی ایک شخص کی زندگی کا چراغ بھی گل ہونے کو ہے۔ قریب ہی اس کا خدمت گزار’ ’مابہ‘‘ بے چین کھڑا ہے۔ یہ وہی مابہ ہے جو کچھ عرصہ پہلے مشہور زمین دار اور آتش کدے کے نگران بوذخشان کا اکلوتابیٹا تھا اور بوزخشان اپنے اس اکلوتے بیٹے پر جان چھڑکتا تھا۔ مابہ ایک دن عیسائیوں کے طریقہ عبادت سے متاثر ہو کر آتش پرستی سے تائب ہوگیا اور عیسائیت اختیار کرلی ۔کچھ عرصہ بعد عیسائیت کے مرکز ارضی شام پہنچا۔ جہاں اپنے اس راہب آقاکی خدمت میں رہنے لگا۔ 
آج مابہ بے چین ہے کہ اب راہ حق کے لیے اس کی رہنمائی کون کرے گا۔ ایسے میں درویش نے اکھڑی ہوئی سانس میں مابہ کو مخاطب کیا اور کہا:’’اے حق کے متلاشی بیٹے! میں اس وقت تمہیں کیا مشورہ دوں کہ اس دنیا میں مجھے کوئی ایسا شخص نظر نہیں آرہا جس کے پاس میں تجھے بھیجوں۔ البتہ اب اس آخری نبی الزماں کا ظہور ہونے والا ہے۔ جو صحراے عرب سے اٹھ کر دین حنیف کو زندہ کرے گا۔ اس کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت ہوگی۔ وہ ہدیۂ قبول کرلے گا لیکن صدقے کو اپنے لیے حرام سمجھے گا۔ اگر تم اس پاک نبی کا زمانہ پاؤ تو اس کی خدمت میں ضرور حاضر ہونا۔‘‘ 
یہ کہہ کر اس درویش نے آخری ہچکی لی اور ہمیشہ کے لئے آنکھیں بند کر لیں۔ اب مابہ ہر وقت اسی جستجو میں رہتا تھا کہ کوئی قافلہ اسے ملے تو اس کے ساتھ اس سرزمین پر پہنچ جائے جہاں اس آخری نبی کا ظہور ہونے والا ہے۔ آخر ایک دن مابہ کی مراد بر آئی۔ مابہ کو معلوم ہوا کہ ایک قافلہ عرب جانے والا ہے۔ مابہ اس قبیلے کے رئیس سے ملا اور اس سے التجا کی کہ اس سے گائے اوربکریاں لے لے اور اسے اپنے ساتھ سر زمین عرب لے چلے۔ رئیس رضا مند ہوگیا۔ جب قافلہ وادی ذی القریٰ پہنچا تو قافلے والوں کی نیت بدل گئی اور مابہ کو غلام بنا کرایک یہودی کے ہاتھوں بیچ دیا۔ وہ یہودی مابہ کو اپنے ساتھ یثرب لے گیا۔ جہاں مابہ نے کھجوروں کے جھنڈ دیکھے تواسے یقین ہوگیا کہ جس نبی آخری الزماں کا ذکر راہب نے کیا تھا۔ وہ اسی کھجوروں والی سر زمین کو مشرف فرمائیں گے۔
آخر ایک دن وہ ساعت مبارک بھی آہی گئی۔ جس کا مابہ کو بے چینی سے انتظار تھا۔ مابہ اپنے یہودی آقا کے باغ میں ایک کھجور کے پیڑ پر چڑھا کھجوریں توڑ رہا تھا۔ آقا نیچے بیٹھا تھا۔ اتنے میں ایک یہودی شہرسے بھاگتا ہوا آیا اورکہنے لگا: ’’خدا بنو قیلہ کو غارت کرے۔ سب کے سب قبامیں ایک ایسے شخص کے پاس بھاگے جارہے ہیں جو خود کو نبی کہتا ہے اور مکہ سے آیا ہے اورلوگوں نے اس کے دعوے پر یقین کرلیا ہے۔‘‘
مابہ کے کانوں تک جب یہ باتیں پہنچیں تو صبرانتہا کو پہنچ گیا۔ جسم پرکپکپی طاری ہوگئی۔ بدحواس ہو کر درخت سے اترا اورآنے والے یہودی سے بے تحاشہ پوچھا: ’’تم کیا کہہ رہے تھے پھربیان کرنا۔‘‘ اس کا یہودی آقا اپنے غلام کے تجسس پر ناراض ہوگیا اور ایک زور دار تمانچا مابہ کو رسید کیا۔لیکن۔۔۔! چند دنوں بعد مابہ کو پھرموقع ملا۔ وہ کچھ کھانے کی چیزیں ساتھ لے کر بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا اور صدقہ بتا کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیں۔ لیکن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے خود وہ چیزیں نہ کھائیں بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ میں بانٹ دیں۔ دوسرے دن مابہ نے پھر کچھ کھانے کی چیزیں خریدیں اورہدیہ کہہ کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدیہ قبول کرلیا۔ مابہ کو یقین ہوگیا کہ صدقہ نہ لینے والے اورہدیہ قبول کرنے والے یہی آخری نبی الزماں ہیں۔ لیکن ابھی ایک نشانی اور باقی تھی یعنی مہر نبوت کا مشاہدہ۔۔۔ مابہ کو ابھی یقین نہیں ہوا تھا۔ یہاں تک کہ خود حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مابہ کی دلی کیفیت جان لی اوراپنی پشت مبارک سے کپڑا ہٹادیا۔ مابہ نے بے اختیار مہرمبارک کو چوم لیا اورآنکھوں سے بے اختیارآنسو بہنے لگے۔ 
حق کے متلاشی یہ نیک مرد ’’حضرت سلمان الخیر فارسی‘‘ کے نام سے تاریخ میں مشہور ہوئے۔ لیکن سلمان فارسی اب تک غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے اورکسی طرح چھٹکارا نہ ہوا تھا۔ ایک دن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ’’سلمان تم اپنے آقا سے اپنی قیمت طے کروالو اور اپنی خلاصی کروالو۔ ‘‘
سلمان نے یہودی آقا سے اپنی قیمت طے کروائی تو اس نے چالیس اوقیہ سونا اور تین سو پودے لگانے کا مطالبہ کیا۔ صحابہ رضی اللہ عنہ نے ملکر تین سو پودے جمع کیے جنہیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں سے لگایا۔ اسی دوران حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوایک غزوہ میں چالیس اوقیہ سونا ملا۔ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو دے دیا اور یوں وہ آزاد ہوگئے۔
حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ محبت تھی۔ وہ اپنے وقت کا بیشتر حصہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گزارا کرتے تھے اور زیادہ سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے فیض یاب ہوا کرتے۔ خود حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت سلمان رضی اللہ عنہ پر شفقت کا یہ عالم تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مجوسی النسل ہونے کے باوجود اپنے اہل بیت میں شامل کرلیا تھا۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے زہد و تقویٰ کا یہ عالم تھا کہ ساری عمر فقیرانہ وضع سے گزار دی اورخوف آخرت کا یہ عالم تھا کہ خود بھی خوف میں رہتے اورلوگوں کوبھی اس کی یاد دلاتے رہتے تھے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہی فرمایا تھا کہ ’’اللہ تعالیٰ نے مجھے چار آدمیوں کے ساتھ محبت رکھنے کا حکم دیا ہے اوراللہ بھی ان سے محبت رکھتا ہے ،پوچھا گیا ۔’’وہ کون؟‘‘۔۔۔ فرمایا۔ ’’علی رضی اللہ عنہ، مقدادرضی اللہ عنہ، سلمان رضی اللہ عنہ اور ابوذر رضی اللہ عنہ۔‘‘
ؓ۵ ہجری میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو غزوہ احزاب (خندق) کے موقع پر خندق کھودنے کا مشورہ آپ رضی اللہ عنہ نے ہی دیا تھا جسے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند فرمایا۔ آپ رضی اللہ عنہ احدو بدر کے علاوہ (کیونکہ اس وقت آزاد نہیں ہوئے تھے) تمام غزاوت میں شریک رہے۔ ان کا شوق شہادت دیکھ کر ایک مرتبہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ’’جنت تین آدمیوں کا اشتیاق رکھتی ہے۔ علی رضی اللہ عنہ ،عمار رضی اللہ عنہ اور سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا۔‘‘ایک اور موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کو مسلمان الخیر کا خطاب دیا۔
حق کے متلاشی اس مرد مجاہد نے ۳۵ ہجری میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں وفات پائی۔
*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top