بابرکت بچہ
فریال یاور
…………………..
حلیمہ اپنے ننھے بچے کو گود میں لیے پریشان بیٹھی ہے۔ بچہ مسلسل روئے جارہا ہے۔ حلیمہ ہر طرح سے اپنے ننھے بچے کو بہلارہی تھی مگر وہ چپ نہیں ہورہا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بچے کو کوئی تکلیف ہے۔ قریب ہی حلیمہ کا شوہر حارث بھی پریشان نظر آرہا ہے۔ حلیمہ ایک نیک اور رحم دل عورت تھی۔ اس کا شوہر حارث بھی ایک محنتی اور ایماندار شخص تھا۔ یہ لوگ ایک چھوٹے سے خوب صورت گاؤں میں رہتے تھے۔ مگر بہت غریب تھے۔ محنت مزدوری کرکے جو کچھ حاصل ہوتاصبر شکر کرکے گزارہ کرلیتے۔ کچھ عرصہ سے بارش نہیں ہونے کی وجہ سے درخت اور پودے سوکھ گئے تھے۔ جانور بھی پانی سے محروم تھے۔ ایسے میں نہ انہیں خود کھانے کو مل رہا تھا اور نہ ہی ان کے جانوروں کو۔
اس وقت بھی حلیمہ اور حارث کے پریشان ہونے کی وجہ یہ تھی کہ ننھا عبداللہ بھوک کی وجہ سے مسلسل روئے جارہا تھا۔ گھر میں جو اونٹنی تھی۔ بھوکی ہونے کی وجہ سے اس سے بھی ایک بوند دودھ حاصل نہیں ہوسکتا تھا۔ حارث کو پریشان دیکھ کر حلیمہ نے کہا: ’’فکر نہ کرو۔ صبح ہم لوگ شہر جائیں گے اور کچھ نہ کچھ بندوبست ہو ہی جائے گا۔‘‘
وہاں کی روایت کے مطابق دراصل گاؤں کی خواتین شہر جاتیں اور ایک ایک بچے کو گود لے لیتیں اور اسے اپنے ساتھ گاؤں لے آتی تھیں تاکہ گاؤں کی خالص غذا اور تازہ آب و ہوا میں پرورش کے ساتھ بچہ اپنی زبان پر بھی مہارت حاصل کرلے۔ اگلی صبح سویرے ہی حلیمہ نے سفر کے لیے اپنا سامان لیا اور ننھے عبداللہ کو گود میں لے کر اپنی سرمئی رنگ کی گدھی پر سوار ہوگئیں۔ دس خواتین اور مردوں پر مشتمل یہ قافلہ شہر کی طرف روانہ ہوا۔ حلیمہ کی گدھی بھوکی ہونے کی وجہ سے لاغر ہوگئی تھی اور اتنا آہستہ چل رہی تھی کہ قافلے والے کافی آگے نکل جاتے اور رک کر حلیمہ کے آنے کا انتظار کرتے۔ حلیمہ اور حارث بہت خاموشی سے سفر کررہے تھے۔ اسی طرح سفر کرتے ہوئے وہ لوگ شہر پہنچ گئے۔ ہر کسی کی خواہش تھی کہ وہ کسی بڑے گھرانے کے بچے کو گود لے۔ مگر ہوا یوں کہ پہلے پہنچ جانے کی وجہ سے ساتھی عورتوں نے اپنے اپنے مطلب کے گھر تلاش کرلیے۔ حلیمہ کے پہنچتے پہنچتے صرف ایک بچہ رہ گیا تھا۔
وہ ایک یتیم بچہ تھا۔ جسے تمام ساتھی خواتین نے نظر انداز کردیا۔ کیوں کہ بچے کا باپ وفات پاچکا تھا۔ بوڑھے دادا عمر کے اس حصے میں تھے۔ جب زیادہ زندہ رہنے کی امید نہیں تھی اور جہاں تک والدہ کا تعلق تھا تو وہ بھی کچھ زیادہ مالدار نہیں تھیں۔ اس بچے کی وراثت میں بھی کوئی بہت مال و دولت نہ تھا۔ غرض کہ ایک طرف ایک غریب ترین بچہ تھا اور دوسری طرف غریب ترین دائی۔
تمام عورتوں کو بچے مل گئے اور روانگی کی تیاریاں ہونے لگیں۔ ایسے میں حلیمہ نے اپنے شوہر سے مشورہ کیا کہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ بچہ لیے بغیر واپس جانا اچھا نہیں لگتا۔ اس لیے میں اس یتیم بچے کو ہی لے آتی ہوں۔ شوہر نے جواب دیا: ’’جیسا چاہو کرو۔ کیا معلوم اللہ اس کے ذریعے ہی ہم پر رحمت نازل کردے۔‘‘ حلیمہ اسی وقت واپس بچے کے دادا کے پاس گئیں اور ان سے بچے کو مانگا۔ دادا نے بچے کی والدہ کے پاس حلیمہ کو بھیج دیا۔ حلیمہ نے جو بچے کو دیکھا تو وہ عام بچوں سے زیادہ خوب صورت تھا۔ انہوں نے بچے کو گود میں لے کر اسے پیار کیا اور گود میں لیے اسے اپنی سواری کے پاس آگئیں اور واپسی کا سفر شروع کیا۔ ابھی کچھ ہی دور چلے تھے کہ ساتھی عورتوں کی آواز آئی: ’’ذرا آہستہ چلو۔ ہمارا بھی خیال کرو۔ اے حلیمہ کیا یہ وہی سواری نہیں۔ جس پر تم شہر آئی تھیں اور جسے ایک قدم چلنا بھی مشکل لگ رہا تھا۔‘‘
یوں یہ لوگ اپنے علاقہ بنی سعد میں واپس پہنچے۔ حلیمہ کے شوہر نے جب اپنی اونٹنی کو دیکھا تو اس کے تھن دودھ سے بھرے ہیں۔ انہوں نے اس کا دودھ دوہا۔ اسے خود بھی پیا۔ حلیمہ کو بھی پلایا اور حلیمہ کے بچے اور اس یتیم بچے کو بھی۔ اس کے بعد تمام جانوروں کو چرنے کے لیے میدان میں چھوڑ دیا گیا مگر بارش نہ ہونے کی وجہ سے ہر جگہ سوکھی پڑی تھی۔ نہ ہی کہیں سبزہ تھا اور نہ ہی پانی کی ایک بوند۔ جانوروں کو ٹھیک طرح چارہ نہ ملنے کی وجہ سے بے چارے لاغر ہورہے تھے۔ان میں سے کوئی بھی ایک قطرہ دودھ نہیں دے رہا تھا۔۔۔ مگر یہ کیا۔ لوگوں نے حیرت سے دیکھا کہ حارث کی بکریاں بھی انہی جانوروں کے ساتھ گئی تھیں اور انہی میدانوں میں گئی تھیں۔ جہاں دوسرے جانور گئے تھے لیکن دوسرے جانوروں کے برعکس ان بکریوں کے تھن دودھ سے بھرے ہوئے تھے۔ پیٹ چارے اور پانی سے۔ یہ ایک دن نہیں ہوا۔ دوسرے دن بھی یہی ہوا۔ آخر تیسرے دن لوگ ایک دوسرے سے بول پڑے کہ تم اپنے جانوروں کو اسی جگہ کیوں نہیں چرانے لے جاتے ہو۔ جہاں حلیمہ اور حارث کے جانور جاتے ہیں۔ مگر انہیں یہ نہیں معلوم تھا کہ یہ چراگاہ کا کمال ہے یا کسی اور کی برکت۔ یہ برکت کوئی ایک دن کی بات نہ تھی۔ بلکہ روزانہ کا معمول تھا۔ دودھ میں برکت اور رزق کی فراوانی۔ بچہ عام بچوں کی نسبت اچھی صحت اور مضبوط جسم کا تھا۔ نو ماہ میں ہی بہت صاف گفتگو کرنے لگا تھا۔
جب دو سال مکمل ہوئے تو بچے کو وہاں کے قاعدے کے مطابق حلیمہ اور حارث اس کی والدہ کے پاس لے گئے اور خواہش ظاہر کی کہ یہ بچہ کچھ عرصہ اور ہمارے پاس رہے تاکہ شہر کی بیماریوں اور وباؤں سے محفوظ رہ سکے۔ دراصل دونوں میاں بیوی بچے سے محبت تو کرتے ہی تھے۔ ساتھ ہی اپنی ساری خوشحالی کا سبب اس بچے کو سمجھتے تھے۔ بچے کی والدہ پہلے تو راضی نہیں ہوئیں مگر برابر اصرار کرنے پر راضی ہوہی گئیں۔ وہ دونوں بچے کو واپس اپنے قبیلہ بنی سعد میں لے آئے۔ مگر کچھ ایسا واقعہ پیش آیا کہ حارث اور حلیمہ ایک دم گھبراگئے ۔انہوں نے فیصلہ کیا کہ بچے کو جتنی جلدی ممکن ہو۔ اس کی والدہ کے پاس پہنچادیا جائے۔ بچے کو ماں کے پاس لائے تو حلیمہ نے بہانہ کرکے بچے کو والدہ کو واپس کرنا چاہا لیکن انہیں اس بہانے سے تسلی نہ ہوئی اور اصل وجہ حلیمہ کو بتانی ہی پڑی۔
اب بچہ اپنی ماں، چچاؤں اور پھوپھیوں کے درمیان رہ رہا تھا۔ چند سال بعد والدہ کا سایہ اٹھ گیا۔ اب دادا اس کا اور بھی زیادہ خیال رکھنے لگے اور ان کی محبت پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گئی مگر دادا دن بہ دن کمزور ہورہے تھے اور ضعیفی بھی بڑھ گئی تھی اور یوں ایک دن دادا بھی اپنے لاڈلے پوتے کو چھوڑ کر اپنے رب کی طرف چلے گئے۔ اب اس معصوم بچے کو اس کے چچا جان اپنے بچوں سے بھی زیادہ محبت سے پرورش کرنے لگے۔ چچا جان کی آمدنی بہت تھوڑی تھی۔ وہ بکریاں پال کر گزراوقات کرتے تھے۔ ننھے بچے کو بکریوں کی نگرانی کے لیے ساتھ لے جاتے اور یوں ننھا بچہ اب نو سال کا ہوگیا۔
ایک دن سوداگروں کا ایک قافلہ شام جارہا تھا۔ چچا اور ان کا یہ معصوم بھتیجا بھی اس قافلے کے ساتھ چلے گئے۔ راستے میں جہاں قافلے کے لوگ کچھ دیر آرام کیا کرتے تھے۔ ٹھیک اسی جگہ ایک عیسائی عبادت گاہ تھی۔ جہاں ایک عیسائی عبادت گاہ کا نگراں جسے ’’راہب‘‘ کہتے ہیں رہتا تھا۔ جو ان تمام دستاویزات کا محافظ بھی ہوتا تھا جو نسل در نسل اس عبادت گاہ میں چلی آرہی تھی۔ یہ راہب بھی ان دستاویزات اور ان میں بیان کی گئی باتوں سے بخوبی واقف تھا۔ اب جو یہ قافلہ جس میں یہ دونوں چچا بھتیجے تھے۔ عبادت گاہ سے ذرا فاصلے پر آکر ٹھہرا تو راہب نے قافلے پر ایک نظر ڈالی اور ایک دم ہی چونک پڑا۔ کیوں کہ جب وہ دور سے قافلے کو آتا دیکھ رہا تھا تو اسے بادل کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا اس قافلے کے اوپر سایہ کیا ہوا نظر آیا تھا۔ اس نے اسے محض ایک اتفاق سمجھا مگر اب قافلہ بالکل رک چکا تھا اور مختلف درختوں کے سائے میں قافلے کے لوگ آرام کررہے تھے۔ ایسے ہی ایک درخت کے اوپر یہ بادل کا ٹکڑا بھی ٹھہر گیا تھا۔ یہ دیکھ کر راہب جو پہلے بڑی دلچسپی سے قافلے کو آتا دیکھ رہا تھا۔ اب ایک دم ہی چونک گیا اور پھر اس عیسائی راہب کے تجسس نے مزید زور پکڑا جو اس کے ذہن میں ایک تجویز بھی دے گیا۔
راہب نے قافلے والوں کو کھانے کی دعوت دی اور کہلوایا: ’’میری خواہش ہے کہ تم میں سے ہر ایک جوان، بوڑھا، غلام یا آزاد میرے یہاں کھانے کے لیے آئے۔‘‘ سب قافلے والے دعوت میں شرکت کے لیے عیسائی راہب کے یہاں پہنچے۔ جیسے جیسے لوگ عبادت گاہ کے اندر داخل ہورہے تھے۔ عیسائی راہب ہر ایک چہرے کو غور سے دیکھتا لیکن جو بات وہ ان لوگوں میں تلاش کررہا تھا وہ اسے نہیں مل رہی تھی۔ غالباً ’’تمام لوگ نہیں آئے۔‘‘ راہب کو خیال آیا: ’’میں نے کہا تھا کسی کو چھوڑ کر مت آنا۔‘‘ راہب نے قافلہ والوں سے کہا۔
’’ ایسا کوئی بھی نہیں ہے جسے ہم نے پیچھے چھوڑا ہو۔ سواے ایک لڑکے کے جو ہم میں سب سے چھوٹا ہے۔‘‘ قافلے والوں نے جواب دیا۔ اس کے ساتھ اس طرح کا سلوک نہ کرو اور اسے بلاؤ اس کا یہاں آنا ضروری ہے۔‘‘ راہب نے قدرے ناراضی سے کہا۔ جس پر قافلے والوں کو شرمندگی کا احساس ہوا اور وہ لڑکے کو دعوت میں بلا لائے۔ لڑکے کے چہرے پر ایک نظر ڈال کر ہی راہب کو اپنی تلاش مل گئی۔ کھانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ راہب لڑکے کے چہرے کا جائزہ لیتا رہا۔ کھانے کا سلسلہ ختم ہوا تو راہب کم عمر مہمان کے پاس بیٹھ گیا اورمختلف سوالات کرتا رہا۔ نو عمر لڑکا بڑے مناسب اور صاف گوئی سے جوابات دیتا رہا اور کسی قسم کی جھجک محسوس نہ کی۔ اس نے اس کی عبا کاندھے سے اتار کر پیٹھ دیکھنے کی خواہش کی۔ اسے بچے کی باتوں سے یقین تو آگیا تھا مگر مطمئن ہونا چاہتا تھا۔ بچے کی پیٹھ پر نشان دیکھنے کے بعد راہب نے اس کے چچا سے سوال کیا:’’ بچے سے تمہارا کیا رشتہ ہے؟‘‘
چچا نے چوں کہ اپنی اولاد سے بھی بڑھ کر اس کی پرورش کی تھی۔ اس لیے جواب دیا: ’’یہ میرا بیٹا ہے۔‘‘
’’یہ تمہارا بیٹا نہیں ہے۔‘‘ راہب نے پورے یقین سے کہا۔
’’یہ ممکن ہی نہیں کہ اس کا باپ زندہ ہو‘‘۔
’’یہ میرے بھائی کا بیٹا ہے۔‘‘ چچا نے جواب دیا۔
’’پھر اس کا باپ کہاں گیا۔‘‘ راہب نے ایک اور سوال چچا سے کیا۔
’’وہ انتقال فرماگئے تھے۔ جب اس کی پیدائش نہیں ہوئی تھی۔‘‘
’’یہ بالکل سچ ہے۔‘‘ راہب نے فوراً تصدیق کی۔ ’’اپنے بھائی کے بیٹے کو فوراً اپنے ملک لے جاؤ اور یہودیوں سے بچا کر رکھو۔ میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر وہ اسے دیکھ لیں اور جو کچھ میرے علم میں ہے۔ وہ بھی جان جائیں تو اس کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ تمہارے بھائی کے اس بیٹے کے لیے قدرت نے اپنے خزانے میں بڑی عظمتیں سنبھال کر رکھی ہوئی ہیں۔‘‘ راہب نے اپنی تعلیمات کے مطابق صاف صاف چچا جان کو ہر بات بتائی۔
پھر وہ وقت بھی آیا۔ جب اس لڑکے کو اللہ نے اپنے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت سے منتخب کیا۔ جی ہاں۔۔۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پیارے نبی۔ جنہوں نے اپنی تمام زندگی اس فرض کو انجام دینے میں لگادی۔ جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے انہیں بھیجا تھا اور اب یہ ذمہ داری ہمارے کاندھوں پر موجود ہے۔
*۔۔۔*