لایا نہ کوئی اس مساوات کا جواب
طالب ہاشمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱)
۴۱ نبوت میں رسول ِپاکﷺ مکہ سے ہجرت فرما کر قبا پہنچے تو آپﷺ نے مدینہ (جس کا نا م اس وقت یثرب تھا)میں داخل ہونے سے پہلے قبا میں چند دن قیام فرمایا ۔اس دوران میں آپ ﷺ نے وہاں ایک مسجد کی بنیاد رکھی جو ”مسجدِقبا“کے نام سے مشہور ہوئی ۔اس کا ذکر قرآن کی سورة توبہ کی آیت ۸۲ میں اس طرح آیا ہے:
ترجمہ:”وہ مسجد جس کی بنیا د پہلے ہی دن (شروع ہی میں)پرہیز گاری پرر کھی گئی ہے،اس بات کی زیادہ حق دار ہے کہ آپ اس
میں نماز کے لئے کھڑے ہوں۔اس میں ایسے لوگ ہیں جن کو صفائی بہت پسند ہے اور اللہ صاف رہنے والوں سے محبت
کرتا ہے“
اس مسجد کی تعمیر میں رسولِ پاک ﷺ نے اپنے صحابہؓ کے ساتھ مل کر پورا حصہ لیا۔آپﷺ مزدوروں کی طرح پتھر اٹھا اٹھا کر لاتے تھے۔بھاری پتھر اٹھاتے وقت کمر مبارک جھک جاتی اور آپ تھک جاتے لیکن برابر کام کئے جاتے تھے۔صحابہ کرام ؓ عرض کرتے:
”یارسول اللہﷺ ! ہمارے ماں باپ آپ پرقربان آپ کیوں تکلیف فرماتے ہیں،یہ کام ہم خود کرلیں گے۔“
رسول ِپاک ﷺ اپنے پیارے ساتھیوں کا دل رکھنے کی خاطر ہاتھ کا پتھر چھوڑ دیتے لیکن پھر کوئی دوسرا وزنی پتھر اٹھا لیتے۔جب تک مسجد کی تعمیر مکمل نہ ہو گئی آپ دوسرے لوگوں کی طرح برابر کام کرتے رہے۔
(۲)
رسول ِپاک ﷺ قباءسے یثرب تشریف لائے تویہ شہر مدینتہ النبی ﷺ (یعنی نبی ﷺ کا شہر )بن گیا۔کچھ عرصہ بعد آپﷺ نے یہاں بھی اس پاک مسجد کی تعمیر کا آغاز فرمایا جسے مسجد نبوی ﷺکہا جاتا ہے۔اس کے معمار وں اور مزدوروں میں خود رسولِ پاک ﷺ بھی شامل ہو گئے۔آپ پتھر اور گارا ڈھوتے ہوئے پسینے میں شرابور اور گردوغبار میں اٹ جاتے۔صحابہ کرام آپ کو اس طرح مشقت کرتے دیکھ کر بار بار التجا کرتے کہ” یارسول اللہ !ہم غلاموں کے ہوتے ہوئے آ پ تکلیف نہ فرمائیں“ لیکن حضور ﷺ ان کے جواب میں مسکرا دیتے ،ان کو دعائیں دیتے اور برابر کام میں مصروف رہتے یہاں تک کہ چند ماہ میں مسجد کی تعمیر مکمل ہوگئی۔
(۳)
رسولِ پاک ﷺ اور مکہ کے کافروں کے درمیان سب سے پہلی لڑائی بدر کے میدان میں رمضان ۲ہجری میں ہوئی۔آپﷺ مدینہ سے بدر کے لئے روانہ ہوئے تو آپ کے ساتھ تین سو سے کچھ اوپر(۳۱۳یا ۷۱۳)اصحاب تھے اور سواری کے لئے صرف ستر اونٹ تھے۔اس لئے تین تین آدمیوں کو ایک ایک اونٹ سواری کے لئے ملا جس پر وہ باری باری سوار ہوتے تھے۔ایک اونٹ رسولِ پاکﷺ حضرت علیؓ اور حضرت مرثد ؓ بن ابی مرثد کے حصے میں آیا۔حضور ﷺ بھی اپنی باری سے اونٹ پر سوار ہوتے اور پھر پیدل چلنے والوں کے ساتھ شریک ہو جاتے۔آپﷺ کے دونوں ساتھیوںنے عرض کیا،یارسول اللہ !آپ اونٹ پر سوار رہیے ،پیدل چلنے کی تکلیف نہ فرمائیے۔آپﷺ نے فرمایا:”نہیں،میں تم سے کم پیدل نہیں چل سکتا اور نہ تم سے کم ثواب کا محتاج ہوں۔مجھے یہ پسند نہیں کہ تم پیدل چلو اور میں سوار ہوں۔“
(۴)
ایک دفعہ رسول پاک ﷺ چند صحابہ کے ساتھ سفر کر رہے تھے۔ایک جگہ اس قافلے نے تھوڑی دیر کے لئے قیام کیا تاکہ کھانا کھایا جائے۔کھانا پکانے کے لئے سب اصحاب نے ایک ایک کام اپنے ذمہ لے لیا۔کسی نے آٹا گوند ھنے کی خدمت اپنے ذمہ لی،کسی نے پانی لانے کی ،کسی نے آگ جلانے کی،کسی نے روٹیاں پکانے کی۔رسولِ پاکﷺنے قریبی جنگل سے لکڑیاں لانے کی خدمت اپنے ذمہ لیں ۔صحابہ ؓ نے عرض فرمایا :”مجھے یہ پسند نہیں کہ تم لوگ کام کرو اور میں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھا رہوں ،مجھے اپنے حصہ کا کام کرنا چاہئے۔“
(۵)
۵ہجری میں خندق کی لڑائی پیش آئی۔اس میں عرب کے سارے کافروں (مکہ کے قریش اور خیبر کے یہودیوں وغیرہ)نے ایکا کر کے مدینہ منورہ پر چڑھائی کردی تھی۔رسولِ پاکﷺ کے فیصلہ کے مطابق مسلمانوں نے ساڑھے تین میل لمبی،پانچ سے نو گز تک چوڑی اور پانچ سے سات گز تک گہری خندق کھودکر شہر کی حفاظت کی۔زمین کئی جگہ سے سخت پتھریلی تھی اورخندق کھودنا مشکل کام تھا لیکن تین ہزار مجاہدوں (صحابہؓ)نے اس کے کھودنے میں اپنی جانیں لڑ ا دیں اور دن رات ایک کر دیے۔رسولِ پاکﷺ نے بھی اس سخت مشقت والے کام میں شروع سے اخیر تک حصہ لیا۔آپﷺ صحابہ کے ساتھ مل کر نہ صرف مٹی کھودتے بلکہ اسے اٹھا کر باہر بھی پھینکتے ۔یہ کام کرتے ہوئے آپ کا سینہ مبارک اور شکم مبارک مٹی سے چھپ جاتے لیکن آپ برابر کام جاری رکھتے تھے۔صحابہ نے بار بار التجا کی کہ آپ تکلیف نہ فرمائیں ہم سارا کام خود ہی کر لیں گے لیکن آپ کھدائی مکمل ہونے تک صحابہ کے ساتھ سارے کاموں میں شریک رہے۔کھدائی کی مشقت کے علاوہ رسول ِ پاکﷺ نے دوسرے مسلمانوں کی طرح فاقوں کی مصیبت بھی نہایت صبر اور حوصلے کے ساتھ جھیلی کیونکہ خوراک کم پڑ گئی تھی۔یہ خندق اور مسلمانوں کی ہمت تھی کہ حملہ کرنے والے کافر شہر میں داخل نہ ہو سکے اور بیس اکیس دن کے بعد آندھی کے خوفناک طوفان نے انہیں برے حال میں بھاگنے پر مجبور کردیا۔
(۶)
حضرت عقبہ بن عامر ؓ کے ایک پیارے ساتھی اور خادم تھے۔انھوں نے حضور اکرم ﷺ کی سواری اونٹنی کی مہار تھامنے (سواری کھینچنے)کی خدمت کا ذمہ لے رکھاتھا ۔ایک دفعہ کسی سفر میں رسول ِپاک ﷺ کی سواری کھینچ رہے تھے کہ کچھ فاصلہ کرنے کے بعد حضورﷺ نے سواری بٹھا دی اور ان سے فرمایا:”عقبہ!اب تم سوارہو لو۔شاید آپﷺ نے محسوس فرمایا تھا کہ وہ تھک گئے ہیں۔حضرت عقبہ ؓنے سواری پر بیٹھنا بے ادبی سمجھا اور عرض کیا،یا رسول اللہ!میری کیا مجال کہ آپ کی سواری پر بیٹھوں ،آپ نے دوبارا حکم دیا،انھوں نے اپنی بات دہرائی لیکن آپ نے اتنا اصرار کیا کہ انہیں آپ کا حکم ماننا پڑا۔اب دنیا کے سامنے یہ حیران کردینے والا نظارا تھا کہ خادم سوار ہے اور آقا ﷺ سواری کھینچ رہے ہیں۔