کتابوں کا خمیر
طالب ہاشمی
۔۔۔۔۔
عباسیوں کے زمانہ حکومت میں اصمعی دین کے ایک بڑے عالم اور عربی زبان کے مشہور ادیب گزرے ہیں۔ ان کا پورا نام ابوسعید عبد الملک بن قریب اصمعی تھا۔ وہ 122 ہجری میں پیدا ہوئے اور 213 ہجری میں فوت ہوئے۔ شروع شروع میں وہ بہت غریب تھے لیکن اپنے علم کی بدولت انہوں نے اتنا بلند مقام حاصل کیا اور اتنی دولت کمائی کہ لوگ ان پر رشک کرتے تھے۔ الاصمعی رحمۃ اللہ علیہ نے بچپن میں اپنی غریبی، علم حاصل کرنے کے شوق اور ترقی پانے کا حال خود بیان کیا ہے۔ آئیے یہ دلچسپ کہانی ان کی اپنی زبان سے سنیے۔
’’میں لڑکپن میں بصرہ شہر میں تعلیم پاتا تھا۔ اس زمانے میں غریبی کے سبب میں نہایت تنگ اور پر یشان رہتا تھا۔ کھانے کو کبھی کچھ مل جاتا تھا اور کبھی فاقہ کرنا پڑتا تھا لیکن پڑھنے لکھنے کا مجھے بڑا شوق تھا۔ ہر روز صبح ہوتے ہی اپنے پھٹے پرانے کپڑے پہن کر سبق کے لیے گھر سے چل پڑتا تھا۔ میں جس گلی میں رہتا تھا اس میں ایک سبزی بیچنے والے کی دکا ن تھی۔
جب، میں صبح کو اس کی دکان کے سامنے سے گزرتا تو وہ مجھ سے پوچھا کرتا کہ،’ میاں تم صبح ہی صبح کہاں جاتے ہو؟ ‘میں کہتا، ’ حدیث کے فلاں عالم سے سبق پڑھنے۔ ‘پھر جب شام کو واپس آتا تو وہ پوچھتا، ’تم کہاں سے آئے ہو؟ ‘میں کہتا، ’عربی زبان کے فلاں ادیب کے پاس سے آیا ہوں ۔‘میری باتیں سن کر وہ ہنسا کرتا اور کہا کرتاتھا ،’میاں تم کیوں اپنی عمر بے فائدہ ضائع کر رہے ہو۔ اگر میری صلاح مانو تو کوئی ایسا ہنر یا پیشہ سیکھ لو جس سے تمہیں روزی مل جائے۔ تمہارے یہی دن سیکھنے سکھانے کے ہیں۔ کتابوں میں تم خواہ مخواہ اپنا مغز کھپاتے ہو۔ اگرتم ان سب کتابوں کو ایک بڑے کونڈے میں ڈالو اور اوپر سے ایک گھڑا پانی کا چھوڑ دو تو ان سے اتنا خمیر بھی نہیں اٹھ سکتا کہ تم ایک روٹی ہی پکالو، میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر تم اپنی ساری کتا بیں مجھے ایک روٹی کے بدلے میں دو تو میں کبھی ان کا لینا قبول نہیں کروں گا۔‘
یہ اور اسی قسم کی باتیں وہ مجھ سے کہا کرتا تھا اور میں اس کے روز روز کے طعنوں اور دل دکھانے والی باتوں سے تنگ آگیا تھا۔ مجبور ہو کر میں نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ ہر روز بہت سویرے اٹھتا اور اندھیرے ہی میں گھر سے نکل جاتا ،اسی طرح رات کو بہت دیر سے گھر واپس آتا تا کہ اس سبزی فروش کے طعنے نہ سننے پڑیں۔ اس زمانے میں مجھے علم حاصل کرنے کا اس قدر شوق تھا کہ کوئی علم ،فن ایسا نہیں تھا جس کا سبق لینے کے لیے میں کسی اُستاد کے پاس نہ جاتا ہوں اور میری غریبی اور تنگ دستی کا یہ حال تھا کہ گھر کی اینٹیں اکھاڑا کھاڑ کر بیچتا اور جو کچھ ملتا اسی پر گزر کرتا تھا۔ اپنے شوق اور محنت سے میں نے چند سالوں میں اتنا علم حاصل کر لیا کہ لوگ مجھ کو کچھ سمجھنے لگے یہاں تک کہ میرے استادوں یا علم کی قدر کرنے والے بعض لوگوں کے ذریعے شہر کے حاکم کو بھی میرے علم کا حال معلوم ہو گیا۔
ایک دن کھانے کو کچھ نہ تھا اور میں گھر کا دروازہ بند کر کے پریشان اور مغموم بیٹھا ہوا تھا کہ یکایک کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ میں نے اٹھ کر دروازہ کھولا تو دیکھا کہ ایک آدمی عمدہ لباس پہنے کھڑا ہے۔ میں نے پوچھا ،’آپ کون ہیں اور کس غرض سے آئے ہیں؟‘
اس نے کہا ،’میں بصرہ کے امیر محمد بن سلیمان کا خادم ہوں۔ انہوں نے مجھے آپ کو بلانے کے لیے بھیجا ہے۔‘
میں نے کہا،’میں نہ امیر سے واقف ہوں نہ وہ مجھ سے واقف اور پھر آپ میری حالت دیکھ رہے ہیں۔ ان پھٹے پرانے کپڑوں میں امیر کی خدمت میں کیسے حاضر ہو سکتا ہوں؟‘
میری بات سن کر وہ واپس چلا گیا۔ تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ وہ دوبارہ آیا اور کپڑوں کے چند قیمتی جوڑے میرے سامنے لا رکھے جن پر ایک ہزار شرفیوں کی تھیلی رکھی ہوئی تھی۔ پھر کہنے لگا ،’امیر نے فرمایا ہے کہ نہا دھو کر اور کپڑے بدل کر فورا ًمیرے پاس آؤ ہمیں ایک ضروری بات کہنی ہے اور ان اشرفیوں کو اپنی ضرورتوں پر خرچ کرو۔‘
میں نے نہا دھو کر کپڑے تبدیل کیے اور امیر کے خادم کے ساتھ چل پڑا۔ جب میں امیر کے پاس پہنچا تو سلام کر کے اس کا شکر یہ ادا کیا۔ امیر بہت مہربانی سے پیش آیا اور کہنے لگا:
’امیر المومنین ہارون الرشید کے بیٹے شہزادہ محمد امین کے لیے ایک اتالیق کی ضرورت ہے۔ اس کام کے لیے میں نے تم کو چنا ہے۔ اگر تم یہ خدمت کرنے کے لیے تیار ہو تو میں تم کو خلیفہ کے پاس بغداد بھیج دیتا ہوں۔‘
میں نے کہا،’میں اس خدمت کو خوشی سے قبول کرتا ہوں۔‘‘
امیر نے کہا،’تو پھر گھر جا کر سفر کی تیاری کرو اور ہر حال میں صبح تک تیار ہو کر میرے پاس پہنچ جاؤ ۔‘
میں نے کہا،’میں آج ہی تیاری کر کے صبح آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاؤں گا۔ ‘یہ کہہ کر میں اپنے گھر آگیا۔
دوسرے دن صبح سویرے میں نے ضروری کتا بیں ساتھ لیں اور اپنا گھر ایک رشتہ دار بوڑھی عورت کے سپرد کر کے امیر کی خدمت میں حاضر ہو گیا۔ امیر نے خلیفہ کے نام ایک خط میرے سپر د کیا اور پھر اپنا ایک آدمی میرے ساتھ کر دیا۔ وہ مجھے دریا کے کنارے تک پہنچا نے آیا جہاں ایک عمدہ کشتی میرے لیے تیار کھڑی تھی۔ میں کشتی میں سوار ہو کر بغداد کی طرف روانہ ہوا۔ وہاں پہنچ کر میں نے ایک دن آرام کیا۔ دوسرے دن عمدہ لباس پہن کے دربار میں حاضر ہوا اور سلام کر کے بصرہ کے امیر کا خط جس میں اس نے میرا حال درج کیا تھا، خلیفہ کی خدمت میں پیش کیا۔ خلیفہ نے اس خط کو پڑھ کر میری طرف دیکھا اور پوچھا:
’کیا تمہارا نام عبد الملک بن قریب الاصمعی ہے؟‘
میں نے کہا ،’جی ہاں حضور! اس خادم ہی کو عبد الملک بن قریب الاصمعی کہتے ہیں۔‘
خلیفہ نے کہا،’ میں اپنے جگر کے ٹکڑے محمد امین کو تعلیم کے لیے تمہارے سپر د کرنا چاہتا ہوں، تمہارا فرض ہے کہ خیر خواہی کا حق ادا کرو اور اس کو ہر مضمون کی تعلیم دو لیکن کوئی ایسی بات نہ سکھانا جس سے اس کے دین اور عقیدے میں کسی قسم کی خرابی پیدا ہو کیونکہ شاید ایک دن وہ مسلمانوں کا خلیفہ بنے اور اس کے نام کے ساتھ امیر المومنین لکھا جائے۔‘
میں نے کہا،’ امیر المومنین! میں آپ کے حکم کو دل و جان سے بجالاؤں گا۔‘
تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ شہزادہ محمد امین بھی دربار میں آگیا۔ خلیفہ نے اس کو میرے سامنے کر کے فرمایا،’ یہ تمہارے استاد ہیں۔‘‘
اس وقت دربار میں موجود امیروں نے شہزادے کے سر پر ہزاروں اشرفیاں نچھاور کیں۔ یہ سب مجھے دے دی گئیں۔ اب خلیفہ نے حکم دیا کہ شہزادہ محمدامین اور اس کے استاد کے لیے ایک عالیشان محل خالی کر دیا جائے جس میں ہر قسم کا سامان رکھا جائے اور بہت سے ملازم میری خدمت کے لیے مقرر کیے جائیں۔ پھر خلیفہ نے مجھ سے مخاطب ہو کر فرمایا:
’میں دو ہزار اشرفیاں ماہوار تمہاری تنخواہ مقرر کرتا ہوں اور تمہارے لیے کھانا ہر روز شاہی باورچی خانے میں خاص میرے لیے تیار کیے ہوئے کھانے میں سے پہنچا کرے گا۔‘‘
میں نے خلیفہ کا شکر یہ ادا کیا اور پھر اس کو دعائیں دیتا ہو ادر بار سے نکل گیا۔
شہزادہ محمد امین کے اتالیق ہونے کی وجہ سے خلیفہ میری بہت عزت کرتا تھا۔ اگر میں کسی کی سفارش کرتا تو وہ ہمیشہ اس کو منظور کر لیا کرتا تھا۔ لوگ مجھ کو اکثر قیمتی تحفے بھیجتے رہتے تھے۔ تنخواہ اور اس طریقے سے جو روپیہ مجھے وصول ہوتا تھا میں اس کو بصرہ بھیج دیتا تھا جہاں میرے دوست میرے لیے کوئی نہ کوئی جائیداد خرید لیتے تھے۔ اس کے کے علاوہ بصرہ میں ایک شاندار مکان بھی میں نے اپنے لیے تیار کرالیا۔
میں کئی سال تک شہزادہ محمد امین کو بڑی محنت سے تعلیم دیتا رہا یہاں تک کہ وہ سارے مضمونوں میں طاق ہو گیا۔ میں نے ایک دفعہ اس کو خلیفہ کے سامنے پیش کیا۔ اس نے ہر علم اور فن میں بیٹے کا امتحان لیا اور اس سے طرح طرح کے سوال کئے۔ شہزادے نے ہر سوال کا تسلی بخش جواب دیا اس پر خلیفہ بہت خوش ہوا اور مجھ سے فرمایا کہ تم نے محمد امین کونہایت عمد ہ تعلیم دی ہے ۔ا ب تم ا سکو چند خطبے یاد کردو۔ میں چند عمدہ خطبے شہزادے کو یاد کرا دیے۔جب جمعے کا دن آیا تو شہزادے نے جامع مسجد میں خلیفہ کے سامنے بڑے اچھے طریقے سے خطبہ پڑھا اور نماز جمعہ کی امامت کی۔ تمام وزیروں اور امیروں نے خلیفہ کو مبارکباد دی اور پھر مجھے بے شمار تحفے دیے اور ہزاروں اشرفیاں انعام میں دیں۔ اس طرح میرے پاس ایک بڑا خزانہ جمع ہو گیا اس کے بعد خلیفہ نے مجھ سے مخاطب ہو کر فرمایا،’ تم نے اپنا فرض بڑی خوبی سے ادا کیا۔ اب تمہارا حق ہے کہ جو چاہتے ہو مجھ سے مانگو ،اس وقت جو مانگو گے تمہیں مل جائے گا۔‘
میں نے عرض کیا،’امیر المومنین کے اقبال سے میری سب خواہشیں پوری ہو گئیں۔ اب صرف یہ خواہش ہے، کہ آپ مجھے چند دن کے لیے بصرہ جانے کی اجازت دیں اور امیر بصرہ کو یہ حکم بھیجیں کہ بصرہ کے تمام لوگ میرا استقبال کریں۔‘
خلیفہ نے اسی وقت امیر بصرہ کے نام اس قسم کا فرمان لکھوا کر بھیج دیا اور مجھے بصرہ جانے کی اجازت دے دی۔ جب میں بغداد سے چلنے لگا تو اشرفیوں کے بہت توڑے مجھے انعام کے طور پر دیے اور بہت سے اعلیٰ قسم کے گھوڑے ملازم اور قیمتی کپڑے بھی عطا کیے۔ میں خلیفہ کو دعائیں دیتا ہوا بصرہ کی طرف روانہ ہو گیا۔
جب میں بصرہ پہنچا تو سارا شہر میرے استقبال کے لیے موجود تھا، ان میں بصرہ کا امیر بھی تھا۔ میرا پرانا مکان اب ایک شاندار محل کی صورت اختیار کر گیا تھا۔ جب میں اس کے دروازے پر پہنچا تو میری نظر اس سبزی فروش پر پڑی جو مجھے ہر روز طعنے دیا کرتا تھا کہ وہ میری شان و شوکت کو دیکھ کر حیران ہورہا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا ،’کہو بھائی کیا حال ہے؟‘ اس نے بھی شرماتے شرماتے میرا حال پوچھا۔ میں نے کہا،’ تمہارے کہنے کے بعد میں نے اپنی سب کتابوں کو ایک کونڈے میں ڈال کر اوپر سے پانی کی مشکیں ڈالنی شروع کیں۔ ان سے جو خمیر اٹھا اس کو تم اب دیکھ رہے ہو اور یہ اس خمیرہ کا باعث ہے کہ اتنی روٹیاں پک کر تیار ہوئیں۔‘
سبزی فروش نے مجھ سے معافی چاہی اور کہا کہ ،’میری وہ باتیں کم عقلی کی وجہ سے تھیں۔ اب معلوم ہو گیا کہ علم کا پھل دیر میں لگتا ہے لیکن لگتا ضرور ہے اور اس کے بڑے فائدے ہوتے ہیں۔ ‘میں نے اس سبزی فروش سے مہربانی کا سلوک کیا اور چند دن کے لیے اپنی جائیداد کا انتظام اس کے سپر د کر دیا۔