امرود بادشاہ
مائل خیرآبادی
۔۔۔۔۔
’’ہاں بھئی آج کون سی کہانی ہو گی؟‘‘ امی جان نے آتے ہی ہم سب سے پوچھا اور اکبر شاید سوچے ہوئے بیٹھا تھا، بولا ۔’’آج میں وہ کہانی سناؤں گا جس میں ہے کہ ایک شخص نے سورج کو نگل لیا تھا۔‘‘
’’ ہش، ایسی جھوٹی کہانی!‘‘ امی جان سے کہا۔
راشد بولا ۔’’اچھا تو ملتا نہ ڈاکو کی کہانی سناؤں؟‘‘
ساتھ ہی فاطمہ باجی بیٹھی تھیں کہنے لگیں۔’’ نہیں، الہ دین کا چراغ والی…‘‘ اور پھر سب اپنی اپنی پسند کی کہانی کانام لینے لگے۔ سعیدہ بی ابھی تک چپ تھیں وہ اٹھیں اور بولیں۔ ’’امی جان امرود بادشاہ کی کہانی سناؤ۔‘‘
امرود بادشاہ کا نام ہم نے پہلی مرتبہ سنا تھا۔ سعیدہ سے پوچھا گیا۔ ’’بھئی، یہ امرود بادشاہ کون تھا؟‘‘ امی جان نے سعیدہ کی طرف دیکھا اور فرمایا کہ اچھا آج سعیدہ بی کہانی سنائیں گی۔ اجازت پا کرسعیدہ بی امرود بادشاہ کی کہانی اس طرح سنانے لگیں:
’’ دیکھیے نا امی جان وہ ایک بادشاہ تھا نا، چار پانچ ہزار برس پہلے۔جی ہاں، چار پانچ ہزار برس پہلے، اس زمانے میں اس کی ٹکر کا کوئی بادشاہ نہ تھا۔ لاؤ لشکر فوج، سپاہی اور پیادے سب اس کے پاس تھے، لوگ اس سے ڈرتے تھے، وہ بادشاہ بڑا متکبر تھا۔ جی ہاں، ایسا متکبر امی جان کہ بس کیا کہوں۔ تو بہ تو بہ وہ اپنے آپ کو خدا کہتا تھا۔ جی ہاں خدا …‘‘
سعیدہ بی ذرا سانس لینے کے لیے رکیں تو ہم نے پوچھا کہ کیااسی کا نام امرود بادشاہ تھا…؟
’’ارے ہاں، میں اس کا نام تو بتانا بھول ہی گئی۔ جی ہاں، اس کا نام امرود بادشاہ تھا۔‘‘
’’کیا وہ امرود کھاتا تھا؟‘‘ ہم سب نے پھر پوچھا۔
’’ نہیں، یہ اس کا نام ہی تھا۔‘‘
’’اچھا تو پھر کیا ہوا؟‘‘
’’پھر یہ ہوا کہ ڈر کے مارے لوگوں نے اسے خدا مان لیا۔ اللہ میاں کے ایک بہت بڑے نبی اس زمانے میں موجود تھے، کیا نام تھا ان کا؟‘‘ سعیدہ بی سوچنے لگیں اور پھر خود ہی پوچھنے لگیں کہ امی جان اسمٰعیل بھائی کے ابا جان کا نام کیا ہے؟ ‘‘
’’ابراہیم۔‘‘
’’جی ہاں۔ جی ہاں۔ ان کا نام تھا ابراہیم، حضرت ابراہیم ،امی جان نے ٹھیک سے نام لیا۔
تو ابراہیم علیہ السلام نے امرود بادشاہ کو خدا ماننے سے انکار کر دیا۔ جب اللہ کے نبی نے اس کو خدا نہ مانا تو وہ بہت خفا ہوا اور اپنے دربار میں طلب کیا۔ سپاہی ابراہیم علیہ السلام کو پکڑ کر لے گئے۔ تو بہ تو بہ اس کا تکبر تو دیکھیے وہ اللہ کے نبی سے جھگڑنے لگا اور پوچھا کہ:
’ تمہارا خدا کیا کرتا ہے؟‘
’میرا خدا مارتا اور زندہ کرتا ہے۔ ‘ابراہیم علیہ السلام نے جواب دیا۔ امرود بادشاہ نے کہا:
’یہ تو میں بھی کر سکتا ہوں ۔‘اور یہ کہہ کر امرود بادشاہ نے جیل سے دو قیدی بلائے، ایک کو قتل کر دیا، دوسرے کو چھوڑ دیا اور کہنے لگا۔’دیکھو، ہے نا میرے بس میں موت اور زندگی ،جسے چاہوںمار ڈالوں اور جسے چاہوں زندہ رکھوں۔‘
ابراہیم علیہ السلام نے یہ سنا تو بولے۔’میرا رب تو مشرق سے سورج نکالتا ہے اور مغرب میں لے جاتا ہے، اگر تو خدا ہے تو مغرب سے سورج نکال اور مشرق کی طرف لے جا۔‘
جب یہ سنا تو امرود بادشاہ بھوت بن کر رہ گیا۔‘‘
’’بھوت! ‘‘ہم سب ہنسنے لگے۔ ’’بھوت کیسے بن گیا؟‘‘
اب سعیدہ بی بھی خاموش ہو گئیں ، وہ جواب نہ دے سکیں تو امی جان نے کہا کہ’’ بھئی سعیدہ نے کہانی سچی اور مزے دار سنائی مگر ان کوبادشاہ کا نام یاد نہ رہا۔ دراصل وہ بادشاہ نمرود تھا۔ ‘‘
’’جی ہاں، جی ہاں۔ ‘‘سعیدہ بی بولیں۔ ’’جی ہاں نمرود بادشاہ۔اس کا نام نمرود بادشاہ ہی تو تھا۔‘‘
’’اور سنو! سعیدہ بی!تم نے جو کہا کہ وہ بھوت بن کر رہ گیا۔ تو وہ لفظ بھوت نہیں ہے تم نے جس سے یہ کہانی سنی اس نے کہا ہو گا کہ نمرود بادشاہ مبہوت ہو کر رہ گیا اور تم مبہوت کو بھوت سمجھیں۔‘‘
’’ امی جان مبہوت کے معنی کیا ہے۔‘‘ ہم سب نے پوچھا۔
’’مبہوت کے معنی ہیں ہکا بکا ہو کر رہ جانا، اس کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا ،وہ کوئی جواب نہ دے سکا، اس کی سمجھ بے کارسی ہو گئی۔ سمجھے سب!؟‘‘
’’جی ہاں، سمجھے ہم۔ ‘‘
سعیدہ بی نے کہانی تو پرانی سنائی لیکن واہ ری ان کی بھول مزہ دے گئی، ان کی بھول اہا کیا مزے دار ہے، امرودبادشاہ کی کہانی واہ واہ!
سعیدہ بی خوش ہو رہی تھیں ۔اس کے بعد ہم جا جا کر اپنے اپنے بستروں میں گھس گئے۔