خواہشوں والا غبارہ
کہانی: The Wishing Balloon
مصنفہ: Enid Blyton
مترجم: محمد الیاس نواز
۔۔۔۔۔
ایک دن،چِک چِک نامی بونے کو پیلے رنگ کا ایک غبارہ ملا جس کی ڈوری جھاڑی میں اٹکی ہوئی تھی۔وہ بڑا خوش ہوا کیونکہ یہ خواہشوں والا غبارہ تھا اور شاید کسی جادوگرنی سے اڑگیا تھا۔اس نے سوچا کہ اب تو ضرور اس سے کچھ مزے مزے کی خواہشیں پوری کروں گا۔
وہ غبارہ لیے گھر کی طرف چل پڑا۔ذرا ہی آگے گیا تھا کہ اس کی ملاقات اپنے دوست ٹم ٹم سے ہوگئی۔ اس نے سوچا کہ چونکہ ٹم ٹم کو یہ اندازہ نہیں ہے کہ یہ جادوئی غبارہ ہے، توکیوں نہ ٹم ٹم کے سامنے ذرا بڑائی کا اظہار کیا جائے ۔
’’سنوٹم ٹم!‘‘ اس نے کہا۔’’ کیا بات ہے، تمہیں ٹھنڈ لگ رہی ہے؟‘‘
’’ کاش سورج نکل آئے۔‘‘ ٹم ٹم نے کپکپاتے ہوئے کہا۔’’ مجھے سردی لگ رہی ہے۔‘‘
’’تمہاری خاطر سورج بھی نکال لیتے ہیں۔‘‘ چِک چِک نے شیخی بگھاری اور پھر کہا۔’’ کاش سورج نکل آئے۔‘‘اس کی خواہش فوراً پوری ہوگئی اور سورج پوری آب و تاب سے چمکنے لگا۔ ٹم ٹم حیرت سے منہ پھاڑے چِک چِک کی طرف دیکھنے لگا۔
’’اوہ! یعنی آج صبح تمہاری خواہشیں پوری ہو رہی ہیں؟‘‘ اس نے کہا۔’’ کوئی اور خواہش کرو چِک چِک !‘‘
’’کاش مجھے چاکلیٹوں کا اور تمہیںٹافیوں کا تھیلا مل جائے۔‘‘چِک چِک نے جیسے ہی کہا ،اس کے ہاتھ میں بڑی بڑی چاکلیٹوں کا ایک پھولا ہوا تھیلا آگیا اور ٹم ٹم کے ہاتھ میں بھی ٹافیوں کا ایک چھوٹا تھیلا آگیا۔ٹم ٹم کو اس سے مایوسی ہوئی کیونکہ وہ بھی چاکلیٹ ہی کھانا چاہتا تھا۔
’’ تم بہت ہی مطلبی ہو۔‘‘ اس نے کہا۔’’ مجھے بھی چاکلیٹ چاہیے۔‘‘
’’تمہیں وہی چیز ملے گی جس چیز کی خواہش میں تمہارے لیے کروں گا۔‘‘ چِک چِک نے ناراضی سے کہا۔’’اب میں کچھ اور مانگتا ہوں۔ کاش مجھے اپنے لیے سرخ رنگ کی ایک نئی اور عمدہ کار اور تمہارے لیے نیلے رنگ کی سائیکل مل جائے۔‘‘
اچانک اس کے پاس چمکتی ہوئی ایک نئی سرخ کار نمودار ہوئی اور ٹم ٹم کے پاس ایک نئی سائیکل کھڑی نظر آئی۔چِک چِک جلدی سے اپنی نئی کار میں بیٹھا اور فخریہ انداز میں ہارن بجانے لگا۔مگر ٹم ٹم نے اپنی سائیکل کو گھسیٹ کر زمین پر پھینک دیا ۔
’’ تم بہت ہی مطلبی اور خود غرض ہو۔‘‘ وہ چِک چِک کی طرف چلایا۔’’تم جتنی اچھی چیزیں اپنے لیے مانگتے ہو، اتنی اچھی میرے لیے نہیں مانگ سکتے؟میرے لیے بھی ایک کار مانگو!‘‘
’’نہیں!‘‘ چِک چِک بولا۔’’ سائیکل چاہیے تو لے سکتے ہو۔‘‘
’’مجھے یہ نہیں چاہیے!‘‘ ٹم ٹم نے کہا،اور سائیکل کے پہیے کو اس زور سے ٹھوکر ماری کہ وہ ٹوٹ گیا۔
’’ارے تم دفع ہو جائو…! بد صورت اور ناشکرے بونے!‘‘چِک چِک غصے سے چلایا۔’’ میں تو کہتا ہوں تم کانٹوں بھری جھاڑیوں کے بستر پر جا پڑو…!‘‘
بے چارہ ٹم ٹم اگلے ہی لمحے کانٹوں بھری جھاڑی میں پھنسا ہوا تھا اور ایسے چلا رہا تھا جیسے جھاڑی کے پتے اسے ڈنک مار رہے ہوں ۔ وہ چھلانگ لگا کر جھاڑیوں سے نکلا اورپاس آکر چِک چِک کے گال پر تھپڑ جڑ دیا۔چِک چِک نے غصے میں گاڑی سے چھلانگ لگائی اور ٹم ٹم کی ناک پر مکا دے مارا۔ پھر وہ چھوٹے شیروں کی طرح ایسے لڑے کہ دیکھنے والے خوف کھانے لگے۔اسی لڑائی کے دوران ہوا کا ایک جھونکا آیا اور خواہشوں والا پیلا غبارہ ہوا میں تیرنے لگا۔تھوڑا آگے جا کر وہ کانٹوں والی ایک جھاڑی میں اٹکا اور’’ٹھاہ‘‘ کی آواز کے ساتھ پھٹ گیا۔ اس طرح یہ معاملہ یہیں ختم ہوگیا۔چِک چِک نے آواز سن کر ادھر ادھر دیکھا۔آہ ، اس کا پیارا سا خواہشوں والا غبارہ!
وہ رونے لگا۔پھر اس نے ٹم ٹم کو ساری بات بتائی تو دونوں احمق بونے ایک ساتھ بیٹھ کر رونے لگے۔کار، سائیکل، ٹافیاں اور چاکلیٹ…غبارے کے پھٹتے ہی سب کچھ غائب ہوگیا۔اب ان کے پاس کچھ بھی نہ تھا۔
’’کاش ہم نے جھگڑا نہ کیا ہوتا!‘‘ چِک چِک روتے ہوئے بولا۔’’شاید ہمیں پھرکسی دن کوئی خواہشوں والاغبارہ مل جائے…اور شاید اس وقت ہم زیادہ سمجھ دار ہوں…‘‘
مجھے ڈر ہے کہ اب انہیں کبھی کوئی غبارہ نہ مل سکے گا…آپ کیا کہتے ہیں؟

