خدا کی مصلحت
ایران کی کہانی
رضوانہ سید علی
۔۔۔۔۔
ایران کے شہر مشہد کے نواحی گاؤں میں ایک بوڑھا کسان ”افضل مشہدی“ رہتا تھا۔ اس کے دو بچے تھے۔ ایک بیٹی ”زینب“ اور بیٹا ”زرتاج“۔ افضل نے ایک گائے پال رکھی تھی۔ گائے بہت موٹی تازی اور خوبصورت تھی اور ڈھیر سارا دودھ دیتی تھی۔ افضل گھر کی ضرورت کا دودھ رکھ کر باقی گاؤں کے لوگوں میں مفت بانٹ دیتا تھا، کیونکہ اسے دودھ بیچنا پسند نہیں تھا۔ سارا دن گاؤں بھر کے بچے افضل کے گھر دودھ لینے کے لئے آتے رہتے۔ گائے کا ایک بہت پیارا گل گوتھنا سا بچھڑا بھی تھا۔ افضل اور اسکے سب گھر والوں کو اپنی گائے سے بہت پیار تھا اور وہ سب اسکی بہت ٹہل سیوا کرتے تھے، البتہ گائے کچھ غصیلی سی تھی۔ خاص طور پر اس وقت اسے بہت غصہ آتا جب افضل اس کا دودھ دوہنے لگتا۔ اچھی بھلی کھر لی میں منہ ڈالے چارہ کھارہی ہوتی پر جونہی افضل کو بالٹی لئے اپنی طرف آتا دیکھتی اسے غصہ آ جاتا۔ در اصل وہ سمجھتی تھی کہ دودھ پہ صرف بچھڑ ے کا حق ہے۔لہٰذا وہ افضل کو دو دھ نہیں دو ہنے دیتی تھی اور سر گھما گھما کراسے اپنے نو کیلے سینگ چبھونے کی کوشش کرتی تھی۔ کئی مرتبہ افضل کو خراشیں بھی لگ چکی تھیں۔ افضل کو بھی اب غصہ آنے لگا تھا۔
”افو ہ! کسی دن میں اسکے بڑے بڑے نوکیلے سینگ کاٹ ڈالوں گا۔اتنی خوبصورت گائے کے اتنے نوکیلے سینگ بنانے کیا ضروری تھے۔ اللہ میاں جی؟“
ایک دن اس نے جھنجلا کر کہا۔”مجھے بعض باتیں بالکل سمجھ میں نہیں آتیں۔ آخر پھول کے ساتھ کا نٹا کیوں ہوتا ہے؟ شہد کے ساتھ موم کی کیا تک ہے؟ اور اب اس گائے کو ہی دیکھو۔ کیسی پیاری اور کتنی مفید ہے پر اللہ میاں نے اسکے سینگ لگا دیئے۔ اگر یہ نہ ہوتے تو یہ کتنی بے ضرر ہوتی۔“
”زرتاج کے بابا! ہر کام میں خدا کی کوئی مصلحت ہوتی ہے۔ ہم عا جز بندے اس کی حکمت نہیں سمجھ سکتے۔“اس کی بیوی اسے سمجھاتی۔
”لوبھلا ان سینگوں میں کیا مصلحت اور کیسی حکمت؟ کیا یہ کہ جب بھی میں دودھ دو ہنے لگوں۔ یہ مجھے سینگ چبھوئے؟ تم بھی کمال کرتی ہو۔“ افضل اور جھنجلا جا تا۔
ایک روز جب اسے گائے کا ایک سینگ کچھ زیادہ ہی چبھ گیاتو اس نے پکافیصلہ کرلیا کہ وہ ان سینگوں کو ہی کاٹ ڈالے گا تا کہ نہ ر ہے بانس اور نہ بجے بانسری، مگر وہ جب بھی سینگ کا ٹنے لگتا کوئی نہ کوئی اور ایسا کام نکل آتا کہ یہ کام بیچ میں ہی رہ جاتا۔
ایک روز زینب اسکول سے آئی اور کھانا وانا کھا کر گائے اور بچھڑے کو ٹہلانے لے گئی۔ ان کے گاؤں کے قریب دریا بہتا تھا اور آگے گھنا جنگل تھا۔ زینب دریا کے کنارے کنارے ہی گائے کو ٹہلاتی تھی اور گھنے جنگل میں نہیں جاتی تھی کیونکہ اس کے بابا نے سمجھا دیا تھا کہ جنگل میں پھاڑ کھانے والے درندے بھی ہوتے ہیں اور اس میں راستہ بھٹکنے کا بھی ڈر ہوتا ہے۔
اس روز گائے اور بچھڑ اگھاس چر نے لگے اور زینب دریا کنارے کی زرخیز مٹی جمع کرنے گی تا کہ گھر کی کیاریوں میں ڈال سکے۔ گائے اپنے بچے کے ساتھ آ گے ہی آگے بڑھی چلی جارہی تھی۔ زینب نے دیکھاتو اسے آواز یں دیتی اسکے پیچھے لپکی لیکن اب دیر ہو چکی تھی۔ گائے جنگل میں داخل ہو چکی تھی۔
زینب ہانپتی کا نپتی اس کے قریب پہنچی اور اس کی رسی کھینچ کر اس کو واپس موڑنے لگی لیکن گائے ایک دم ساکت ہوگئی۔ اس کے کان کھڑے تھے اور دم تیزی سے ہل رہی تھی۔ زینب کو کسی خطرے کا احساس ہوا۔ اس نے کان لگا کر سنا تو گھنی جھاڑیوں میں سے ایسی آواز سنائی دی جیسے کوئی جانور دبے پاؤں چل رہا ہو۔ زینب نے ادھر ادھر دیکھا اور بھاگ کر قریبی درخت پہ چڑھ گئی۔ بچھڑ ابھی اسکے پیچھے بھاگا اور درخت کے تنے سے لگ کر کھڑا ہو گیا۔ گائے بھی اس کے پیچھے لپکی آئی اور اپنے بچے کے آ گے ڈھال بن کر کھڑی ہوگئی۔
ان کی چھٹی حس نے انہیں بروقت خبر دار کر دیا تھا۔ کیونکہ اس وقت جھاڑیوں میں سے ایک موٹا تازہ قد آور بھیڑ یا برآمد ہوا۔ اسے دیکھتے ہی گائے نے اپناسر جھکایا اور اگلے پیروں سے زمین کھودنے لگی۔ اپنے بچے کی حفاظت کے لئے وہ پوری طرح تیارتھی۔ بھیڑیئے نے چھلانگ لگائی لیکن گائے نے اسے اپنے سینگوں پر لے لیا۔ بھیڑ یا ان سے ٹکرا کر پیچھے جا گر امگر پھر اٹھ کر جھپٹا لیکن پھر سینگ کھا کر پیچھے کو گرا۔ بھیڑ یا سخت طیش میں تھاوہ کبھی بچھڑے کو قابو کرنا چاہتا تھا اور کبھی اونچی چھلانگ لگا کر زینب تک پہنچنا چاہتا تھا مگرگائے کے سینگوں کے سامنے اسکی کوئی پیش نہیں چل رہی تھی۔ یہاں تک کہ ایک مرتبہ تو نوکیلا سینگ اس کے سینے میں یوں اترا کہ وہ ایک ہولناک چیخ مار کر جھاڑیوں میں جا گرا۔ زینب خوف کے مارے درخت سے چمٹ گئی۔ اسکے منہ سے گھٹی گھٹی چیخیں نکل رہی تھیں۔ بچھڑ بھی ممیار ہا تھا۔ بھیڑ یے نے پلٹا کھایا اور ایک اور حملے کے لئے تیار ہو گیا۔ اب وہ پہلے سے بھی زیادہ خونخوار نظر آ رہا تھا۔ اچا نک بہت سے لوگ لمبے لمبے ڈنڈے سنبھالے بھاگتے ہوئے آئے۔ یہ سب کسان تھے جو قریبی کھیتوں میں کام کررہے تھے۔ انہیں دیکھتے ہی بھیڑ یا جھاڑیوں میں روپوش ہو گیا۔
کسانوں نے اپنے بانسوں سے جھاڑیوں کو ہلایا مگر بھیڑ یا اندر ہی اندر بھاگنے میں کامیاب رہا۔ زینب درخت سے اتر آئی مگر وہ خوفزدہ نظروں سے جھاڑیوں کو دیکھ رہی تھی۔ بھیڑیے کی سرخ آنکھیں، سفیدنوکیلے دانت اور خوفناک غراہٹ ابھی تک اسے ڈرار ہی تھی۔ لیکن گائے پر سکون ہو چکی تھی اور اپنے بچے کو پیار سے سہلا رہی تھی۔
کسانوں نے زینب اوراسکے مویشیوں کو بحفاظت گھر تک پہنچا دیا۔ شام کو افضل مشہدی نے پورے گاؤں میں نقل (ایرانی مٹھائی) تقسیم کئے۔
اور پھر اس نے بھی گائے کے سینگوں کو کاٹنے کا ارادہ نہ کیا۔ اب وہ کسی چیز کو بے مقصد نہیں سمجھتا تھا کیونکہ وہ جان گیا تھا کہ اللہ نے کوئی چیز بے مقصد نہیں بنائی۔ اسکے ہر کام میں اسکی کوئی مصلحت پوشیدہ ہے۔ اگر گائے کے سینگ نہ ہوتے تو کسانوں کے پہنچنے سے پہلے بھیڑ یا بچھڑے یا زینب میں سے ایک کواٹھا لے جاتا۔