skip to Main Content

عنبراور عیار بونا

امریکہ کی کہانی

رضوانہ سید علی
۔۔۔۔۔
”امی! بس اب بہت جلدی ہم امیر ہونے والے ہیں۔“عنبر نے ناشتے کی میز پر اعلان کیا۔
”وہ کیسے؟“ امی نے تو س پہ مکھن لگاتے ہوئے پوچھا۔
”ایسے کہ میں بہت جلد اس عیار بونے کو تلاش کرلوں گا جو ایک بہت بڑے خزانے کا راز جانتا ہے مگر کسی کو اسکی ہوانہیں لگنے دیتا۔“
”ہوں! لگتا ہے کہ رات کو تم نے دادی ماں سے اسکی کہانی سنی ہے۔“ امی نے کہا۔
”جی ماما! آپ کو بھی اس کہانی کا پتا ہے نا؟“
”ہاں میں بھی بچپن سے یہ کہانی سنتی آئی ہوں۔“
”اوہ ماما! کیا آپ نے بھی اسے تلاش کرنے کی کوشش کی۔“
بے کار بات۔ کہانیاں صرف کہانیاں ہوتی ہیں۔“
”نہیں ماما۔ دادی اماں نے مجھے بتایا ہے کہ یہ چالاک بالشتیا ہمارے علاقے میں پایا جا تا ہے۔ لکڑ ہاروں اور کسانوں نے اسے دیکھا ہے۔ وہ پریوں کے جوتے تیار کرتا ہے اور اکثر کسی درخت کے نیچے بیٹھا کام کرتا دکھائی دیتا ہے اور ہر کسی کے ہاتھ نہیں آ تا۔“
”بری بات بیٹا! کہانیوں کو بس کہانیاں سمجھنا چاہیے۔ تم پہلے پڑھائی پر توجہ دو اور پھر فارغ وقت میں کھیتوں میں میرا ہاتھ بٹایا کرو۔“
”نہیں ماما! یہ مشکل کام مجھ سے نہیں ہوسکتا۔ میں تو بس پر یوں کے موچی کو ڈھونڈوں گا اور پھر اس سے خزانے کا پتہ معلوم کروں گا تا کہ ہم امیر ہو جائیں اور پھر میری پیاری ماما کواتنی محنت نہ کرنی پڑے۔“ عنبرمچل کر بولا۔
”اچھا اچھا۔ مجھے معلوم ہے کہ تم وہ لڑ کے ہو جو باتوں سے نہیں سمجھ سکتے۔ تم پہ عملی نصیحت ہی کارگر ہوسکتی ہے۔ جو جی چاہے کرو۔ مجھے بہت کام کرنے ہیں۔“
ماما برتن سمیٹنے لگیں اور عنبر با ہر بھاگ گیا۔ وہ ایک کالے امریکی خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ اسکے ابو نہیں تھے۔ وہ اپنی امی کا اکلوتا بیٹا تھا۔ ان کا ایک چھوٹا سافارم ہاؤس تھا۔ اسکی امی گھر بھی سنبھالتی تھیں اور کھیت بھی۔ ایک پرانا ملازم اس کام میں ان کی مد دکر تا تھا۔ عنبر کی دادی اماں ان کے ساتھ رہتی تھیں۔ وہ بہت بوڑھی ہو چکی تھیں۔ اب کام کاج ان کے بس کی بات نہ تھی، زیادہ تر عبادت میں مصروف رہتیں۔عنبران سے بہت پیار کرتا تھا۔ وہ رات کو ان کے ساتھ سوتا تھا اور سونے سے پہلے ان سے کہانی ضرور سنتا تھا۔ ان کو بھی اس قدر کہانیاں آتی تھیں کہ ہر رات وہ ایک نئی کہانی سناتی تھیں۔
کل رات انہوں نے عنبر کو ایک عجیب کہانی سنائی۔ یہ ایک شریر بونے کی کہانی تھی۔ بونا کیا تھا، اچھا خاصا بھتناتھا۔ یہ پر یوں کے جو تے تیار کرتا تھا۔ روز کسی نئی جگہ اپنا ٹھکانا بناتا۔ کبھی کسی ہری بھری چراگاہ میں، تو کبھی کسی پھولدار جھاڑی کے نیچے اور کبھی گھنے جنگل میں اونچے درختوں تلے، بس روز نئی جگہ بیٹھ کرکام کرتا۔ لوگ اسکی تلاش میں رہتے تھے۔ کیونکہ اسکو ایک ایسے خزانے کا اتہ پتہ معلوم تھا جو کسی بڑے صندوق میں تھا اور زمین کی گہرائیوں میں کہیں دفن تھا۔
کئی مرتبہ لوگوں نے اسے دیکھا اور اس سے دفینے کا اتہ پتہ پوچھنے کی کوشش کی مگر وہ تو پلک جھپکتے میں کہیں غائب ہو جاتا اور لوگ اسے ڈھونڈتے ہی رہ جاتے۔
دادی اماں تو کہانی سنا کرسوگئیں لیکن عنبر کی آنکھوں سے تو نیند ہی اڑ گئی۔ وہ سوچنے لگا کہ اگر وہ عیار ہونا میرے ہاتھ لگ جائے تو کتنا مزہ آئے۔ میں تو اسے فرار ہونے کا موقع ہی نہ دوں گا اور پھر اس سے دفینے کا پتہ معلوم کر کے رہوں گا۔ اگر وہ خزانہ میرے ہاتھ لگ گیا تو ہم کتنے امیر ہو جائیں گے۔ ہم ایک شاندار مکان میں رہیں گے اور میری امی کواتنی محنت نہیں کرنی پڑے گی…… یہی سب کچھ سوچتے سوچتے وہ نجانے کب سو ہی گیا۔
اس روز سے اس کو بس ایک ہی لگن تھی کہ وہ کسی نہ کسی طرح اس بونے کوڈھونڈ نکالے۔ اسکول سے چھٹیاں تھیں۔ وہ روز نا شتے کے بعد گھر سے نکل جاتا اور سارادن باغوں میں،جنگلوں میں،ندی کنارے، چراگا ہوں کے آس پاس ایسی جگہوں پر منڈلاتا پھرتا جہاں اس بونے کے پائے جانے کاامکان تھا۔
کئی ہفتے گزر گئے۔ ایک دن دوپہر کے وقت وہ تھک ہار کر ایک چھوٹے سے ٹیلے پہ بیٹھا ادھر ادھر دیکھ رہا تھا تو اچا نک اسے ہلکی ہلکی ٹھک ٹھک کی آواز سنائی دی۔ پہلے وہ سمجھا کہ یہ کھٹ بڑھئی کی کھٹ کھٹ ہے مگر پھر اسے ایک بار یک سی آواز سنائی دی۔ کوئی گارہا تھا۔
”پہلے بنا ؤایڑی اور پھر بناؤ پنچہ۔لو جوتا تیار ہے،لو جوتا تیار ہے۔
”ٹھک ٹھک ٹھک۔۔ ٹھک ٹھک ٹھک۔لو جوتا تیار ہے۔ آہا جوتا تیار ہے۔“
اب عنبر کو یقین ہو گیا کہ پر یوں کامو چی کہیں آس پاس ہی ہے۔ وہ دبے پاؤں آواز کے تعاقب میں بڑھا۔ آواز گھنے برگد کے پیچھے سے سنائی دے رہی تھی۔عنبر نے دونوں ہاتھ زمین پہ ٹیکے اور گھٹنوں کے بل زمین پر رینگنے لگا۔ درخت کے قریب پہنچ کر اس نے چپکے سے جھانکا۔ افوہ!واقعی وہاں پر ایک بونابیٹھا تھا۔ سبز رنگ کی لمبی سی ٹوپی اور بھورا کوٹ پہنے، اسکی ناک لمبوتری تھی اور تھوڑی نوکدار۔ شکل سے ہی کافی عیار دکھائی دے رہاتھا۔ اس کا چھوٹا ساجھَولا سامنے رکھا تھا اوروہ ایک گول پتھر پہ چمڑا رکھے بڑی مہارت سے ایک چھوٹے سے سلیپر میں کیلیں ٹھو نک رہا تھا اور ساتھ ساتھ گانا بھی گار ہاتھا۔
”ہیلو! میرے پیارے بونے! کیسے ہو؟“ عنبر نے چہک کر کہا مگر بونے نے ایسا تاثر دیا، جیسے کچھ نہ سن رہا ہو۔
”انجان نہ بنو۔ آج تم مجھ سے نہیں بچ سکتے، تمہیں دفینے کا پتہ بتانا ہوگا۔“ عنبر نے غصے سے کہا۔
”ٹھہر وذرادم لو۔ دیکھتے نہیں میں آخری کیل ٹھونک رہاہوں۔“ بونے نے بہت سکون سے کہا۔”اوہ!ہاتھ سے چھوٹ گئی۔اب ذرا تم ہی دیکھو کہاں گری ہے۔“
عنبر نے اپنی آنکھ بونے پہ ہی رکھی اور ہاتھوں سے کیل ٹٹولنے لگا۔ جوں ہی اسکی انگلیاں کسی کنکر سے ٹکرائیں،اسکی نظر چوک گئی اور عیار بونے نے فوراً مٹھی میں مٹی لے کر اسکی آنکھوں میں جھونک دی۔ عنبر آ نکھیں ملتارہ گیا اور بونا غائب ہو گیا۔
اب تو عنبر کی جھلا ہٹ دیکھنے کے لائق تھی۔ بار بار سوچتا کہ بس ایک دفعہ اور میرے ہتھے چڑھے یہ چالاک بالشتیا۔ بس پھر نہ بچ پائے گا۔ اور کئی دن کی سرتوڑ کوشش کے بعد ایک مرتبہ پھر اس نے بونے کو پالیا۔ وہ ایک گھنے جنگل میں کسی پری کی نازک سی چپل تیار کر رہا تھا۔ عنبر بہت ہوشیاری سے عین اسکے سر پہ جا پہنچا اور اسے یوں دبوچ لیا جیسے عقاب فاختہ کود بوچتا ہے۔
”ہوں …… اس روز تو تم نے میری آنکھوں میں دھول جھونک دی تھی پراب تم اس وقت تک مجھ سے نہیں چھوٹ سکتے جب تک دفینے کا پتہ نہ بتاد و۔“ عنبر نے ہنس کر کہا۔
واقعی اب فرار کی کوئی راہ نہ تھی۔ مجبوراًبو نے نے ایک درخت کی طرف اشارہ کر دیا۔
”جھوٹ بول رہے ہو۔“ عنبر نے بے یقینی سے کہا۔
”ہم انسان نہیں ہیں جو جھوٹ بولتے پھر یں۔ اتفاق ہے کہ تم نے مجھے عین اسی جگہ پکڑ لیا جہاں دفینہ موجود ہے۔“ بونے نے غصے سے کہا۔
”لیکن تم غچہ دینے میں ماہر ہو۔“
”ہاں اسی حد تک کہ کسی کے ہاتھ نہ آ سکوں۔ اب تم نے پکڑ ہی لیا ہے۔ اس لئے بتارہا ہوں کہ وہ جو سامنے والا پیڑ ہے نا؟ بس اس کے نیچے دفینہ موجود ہے۔“
”چلو میں یقین کر لیتا ہوں۔“عنبر نے اسے زمین پر اتارتے ہوئے کہا۔
بونا جلدی جلدی اپنا سامان سمیٹنے لگا۔ عنبر نے سوچا کہ گھر جا کر بیلچہ لاتا ہوں پر جانے سے پہلے درخت پر کوئی نشان لگا نا ضروری ہے۔ کچھ دیر سوچ کر عنبر نے اپنے گلے میں بند ھاز رد سکارف کھولا اور درخت کے تنے پہ مضبوطی سے باندھ دیا اور گھر چلا گیا۔
وہ ضروری سامان کے ساتھ جب واپس لوٹا، جہاں وہ دفینے والا درخت موجود تھا تو یہ دیکھ کر سر پیٹ کر رہ گیا کہ جنگل میں دور دور تک بے شمار درختوں کے گرد ویسے ہی سکارف لپٹے تھے جیسا کہ عنبر نے اس خاص درخت کے گرد لپیٹا تھا۔ اس کا سر چکرا گیا۔ وہ یہ فیصلہ کرنے سے قاصر تھا کہ خود اس کا سکارف کون سا ہے۔ عیار بونا اسے جل دینے میں کامیاب رہاتھا۔
اور پھر عنبر اپنی امی کے سامنے بیٹھا آ نسو بہار ہا تھا۔ اس نے مان لیا کہ اس کی تمام چھٹیاں ایک لا حاصل مشقت میں صرف ہو گئیں۔ اتنی محنت اگر وہ کھیتوں میں کرتا تو ایک بہتر ین فصل پالیتا اور پڑھائی میں کرتاتو اول نمبر پر آتا۔
امی نے اسے پیار کیا۔ اسکے آنسو پونچھے اور اسے تسلی دی کہ اگر اس نے خود بخود یہ جان لیا ہے کہ ہواؤں کے پیچھے بھا گنا لا حاصل ہوتا ہے تو پھر یہ وقت رائیگاں نہیں گیا۔
واقعی عنبر نے خیالوں اور کہانیوں کا تعاقب چھوڑ دیا اور ایک پر محنتی بچہ بن گیا جسکے گا ؤں بھر میں چرچے تھے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top