skip to Main Content

ہیرا پھیری

کہانی:The Wrong Letter
مصنف:Alan MacDonald
مترجم: عاطف حسین شاہ
۔۔۔۔۔۔

صبح کا وقت تھا، ایک ڈاکیہ ایلم روڈ کی جانب آیا۔ اُس کے دستی تھیلے میں خط کے دو لفافے موجود تھے۔ اُن لفافوں پر ایک جیسے پتے درج تھے۔ اُن کی عبارت کچھ یوں تھی:
مس پی جونز مس ایف جونز
10ایلم روڈ 79ایلم روڈ
بلٹن بلٹن
ایلم روڈ پر ’جونز‘ سے نسبت رکھنے والی دو لڑکیاں تھیں۔ ایک کا نام پیپا جونز تھا، اُسے گھڑسواری کا جنون تھا۔ وہ مکان نمبر دس میں رہتی تھی۔ فلو جونز مکان نمبر اُناسی میں رہائش پذیر تھی۔ اُسے فٹ بال کھیلنے کا جنون تھا۔
اُس دن، ڈاکیے کا چشمہ ٹوٹ گیا۔ چشمے کے بنا اُسے واضح دکھائی نہ دیا اور اُس نے دو خط غلط مقامات پر پہنچا دیے۔
گھڑ سواری کی شوقین پیپا، اصطبل پر موجود تھی۔ اُس کی ایک پیاری سی گھوڑی تھی۔ پیپا اُسے بلوزم کہہ کر پکارتی تھی۔ جب ڈاکیہ گھر پہنچا تو اُس وقت پیپا نے بلوزم کے آگے جَو رکھے تھے۔ بلوزم مزے سے جو کھا رہی تھی۔ پیپا نے بلوزم کی ناک پر ایک بوسہ دیا۔ اتنے میں پیپا کے ابو نے اُسے دروازے کی اوٹ سے پکارا:
”پیپا! تمہارے لیے ایک خط آیا ہے۔“
فٹ بال کی دیوانی فلو، باغ میں موجود تھی۔ فلو ’ریڈلینڈ روورز‘ کے لیے کھیلتی تھی۔ اُس نے معمول کے مطابق ’روورز‘ کی کٹ پہن رکھی تھی۔ وہ فٹ بال کو اُچھالتے ہوئے بلی کے پاس سے گزری اور جھولے کے گرد چکر کاٹنے لگی۔ پھر اُس نے فٹ بال کو زوردار ٹھوکر لگائی۔ فٹ بال سیدھا کالے رنگ کے دروازے سے جا ٹکرایا۔ فلو چیخی:
”گول!“
”فلو!“ اُسے امی نے آواز دی۔ ”شور بند کرو اور اندر آؤ میرے پاس! تمہارے لیے ایک خط آیا ہے۔“
فلو نے لفافہ چاک کرنے کے بعد خط پڑھنا شروع کیا:
”پیاری مس جونز!
ٍ بروز ہفتہ، چیسٹ نٹ کے مقام پر ایک مقابلہ ہے۔ امید ہے تم ضرور آؤ گی۔“
خط کی عبارت پڑھتے ہی فلو خوشی سے چہک اُٹھی،”واہ! مزا آئے گا۔ میں ہفتے کو فائنل کپ کھیلوں گی۔ ’ریڈلینڈ روورز‘ ضرور جیتے گی۔
ایلم روڈ کے مکان نمبر دس میں، پیپا بھی ایک خط پڑھ رہی تھی:
”پیاری مس جونز!
بروز ہفتہ، ریڈلینڈ پارک میں ایک مقابلہ ہے۔ امید ہے تم ضرور آؤ گی۔“
”زبردست!میں اِس جونئیر کپ میں بلوزم کی سواری کروں گی۔ ہم ضرور جیتیں گے۔“ پیپا بولی۔
پیپا اور فلو بڑی بے صبری سے ہفتے کے دن کا انتظار کر رہی تھیں۔ وہ اِس بات سے غافل رہیں کہ اُنھیں غلط خط ملا ہے۔ پھر وہ دونوں غلط مقام پر چلی گئیں۔
ہفتے کی صبح پیپا بلوزم پر سوار ہو کر ریڈلینڈ پارک جا رہی تھی کہ راستے میں اُسے فلو دکھائی دی۔ فلو نے سرخ اور سفید رنگ کی فٹ بال کٹ پہن رکھی تھی، وہ چیسٹ نٹ فیلڈجا رہی تھی۔ پیپا نے اُسے گھورا۔
”ذرا سوچو تو، فٹ بال جیسا احمقانہ کھیل کھیلنے کے لیے اس طرح تیار ہوتے ہیں!“ پیپا بڑبرائی۔
پیپا نے کالے رنگ کی ہیٹ اور اسی رنگ کے لمبے بوٹ پہن رکھے تھے۔ فلو نے اُسے گھورا۔
”ذرا سوچو تو، ایک بے کار اور بوڑھی گھوڑی کی سواری کے لیے کوئی ایسے تیار ہوتا ہے بھلا!“ فلو بھی بڑبڑائی۔
پیپا ریڈلینڈ پارک میں پہنچ گئی۔ اُسے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ وہاں ایک بھی گھوڑی موجود نہیں تھی۔ وہ دیکھ رہی تھی کہ ریڈ لینڈ روورز کی ٹیم ایک فٹ بال کے ساتھ کھیلنے میں مگن تھی۔
”معاف کیجیے گا! کودنے کے لیے باڑیں کہاں ہیں؟“ پیپا نے پوچھا۔
روورز کی ٹیم ہنسنے لگی۔
”اِدھر فٹ بال کا میچ ہو رہا ہے، گھوڑیوں کا یہاں کیا کام؟“ ٹیم کا ایک رکن طنز بھرے لہجے میں بولا۔
روورز ٹیم کا کپتان پیپا کے پاس آیا۔
”کیا تم نے فلو جونز کو کہیں دیکھا ہے؟ وہ ابھی تک نہیں پہنچی۔ ہمارا ایک کھلاڑی کم ہے۔“
”میں کسی فلو نامی لڑکی کو نہیں جانتی۔ میرا نام پیپا جونز ہے۔“ پیپا نے بتایا۔
”اچھا! تو پھر تمھیں ہمارے ساتھ کھیلنا ہو گا۔ جلدی سے تیار ہو جاؤ، کھیل شروع ہونے میں بس پانچ منٹ باقی ہیں۔“
پیپا خوف زدہ ہو گئی۔ وہ فٹ بال نہیں کھیلنا چاہتی تھی۔ وہ تو جونئیر کپ میں اپنی بلوزم کی سواری کرنے کے لیے آئی تھی۔ اُس نے روورز ٹیم کو وضاحت دینے کی کوشش کی مگر اُس کی ایک نہ سنی گئی۔ وہ اُسے دھکیلتے ہوئے لباس تبدیل کرنے والے کمرے تک لے گئے۔ اُنھوں نے پیپا کو فٹ بال کھیلنے والے بوٹ اور ایک شرٹ دی۔ شرٹ کی لمبائی اس قدر تھی کہ وہ پیپا کے گھٹنوں تک آگئی اور بوٹ پاؤں میں چبھنے لگے۔ جب پیپا بھاگی تو اُسے تسموں کی وجہ سے دشواری ہوئی۔
سب قطار میں کھڑے ہوئے، اتنے میں ریفری کی سیٹی فضا میں گونجی اور کھیل شروع ہو گیا۔ فٹ بال تیزی سے گھومتا ہوا پیپا کی جانب آیا۔
”ہائے! میں اِس کے ساتھ کروں تو کیا کروں؟“ وہ چلائی۔
”اِسے ٹھوکر لگا کر خود سے دُور بھیجو!“ روورز ٹیم کا کپتان زور سے بولا۔
پیپا نے فٹ بال کو ٹھوکر لگائی۔ ”اوئی ماں! میرے پاؤں کا پنجہ!“ وہ چیخی۔ فٹ بال بلیو ٹیم کی جانب چلا گیا۔ پیپا نے اُسے واپس حاصل کرنے کی کوشش کی مگر وہ تسموں کی وجہ سے لڑکھڑائی اور عدم توازن کی وجہ سے کیچڑ پر جا گری۔
”یہ سب کچھ غلط ہے!“ پیپا درد بھری آواز میں بولی۔ ”میں غلط جگہ پر آ گئی۔“
فلو بھی غلط مقام پر جا چکی تھی۔ وہ چیسٹ نٹ فیلڈ میں موجود تھی لیکن وہاں کپ فائنل نہیں تھا۔ فلو نے دیکھا، کچھ گھوڑیاں سست روی سے چل رہی تھیں جن پر لڑکیاں سوار تھیں۔
”یہ سب کیا ہے؟“ فلو نے لال رنگ کی ہیٹ پہنے ایک آدمی سے پوچھا۔
”یہ جونئیر شو ہے۔ میں بطور منصف یہاں موجود ہوں،میرا نام ٹروٹر ہے۔ تمھارا کیا نام ہے؟“
”فلو جونز، میں یہاں فٹ بال کھیلنے آئی ہوں۔“
مسٹر ٹروٹر ایک فہرست دیکھنے میں مگن تھا جس پر کھلاڑیوں کے نام درج تھے، اسی لیے وہ فلو کی بات سن نہیں پایا۔
”اوہ ہاں! مل گیا تمھارا نام،مس جونز۔ تمھارے پھلانگنے کی باری تئیسویں نمبر پر ہے۔“
”پھلانگنا …… میں ……؟“ فلو کا چہرہ زرد پڑ گیا۔ ”لیکن میں کیسے…… میرے پاس تو گھوڑی بھی نہیں ہے!“
مسٹر ٹروٹر نے قہقہہ لگایا۔ ”پیاری جونز! تم اپنی گھوڑی کے بنا آ گئی ہو، پھر تو ہمیں ہی کچھ بندوبست کرنا ہو گا۔“
پانچ منٹوں بعد فلو کالے رنگ کے ایک بڑے گھوڑے پر سوار ہو چکی تھی۔ فلو کے سوار ہوتے ہی گھوڑے نے نتھنے پھلائے اور پھر ہلکی چال چلنے لگا۔
”اس کا نام تھنڈر ہے، تمھیں اسے دکھانا ہو گا کہ باس کون ہے!“ مسٹر ٹروٹر نے کہا۔ فلو نے تھنڈر کی جانب دیکھا اور دیکھتے ہی اُسے یقین ہو گیا کہ تھنڈر اُس کا باس ہے۔
”میں نہیں جانتی کہ سواری کیسے کرتے ہیں!“ فلو نے کہا۔ ”ضرور کچھ گڑبڑ ہو گئی ہے۔“
”کچھ نہیں ہو گا، تمھارے لیے نیک خواہشات!“ مسٹر ٹروٹر نے یہ کہتے ہوئے تھنڈر کی کمر پر تھپکی دی۔ تھنڈر سر پٹ بھاگ پڑا۔ فلو نے اُسے سختی سے پکڑ رکھا تھا۔ باڑیں بہت اونچی دکھائی دے رہی تھیں۔ فلو چھلانگ لگا کر نیچے اُترنا چاہتی تھی لیکن تھنڈر کہاں رکنے والا تھا۔
اتنے میں لاؤڈ اسپیکر گونج اُٹھا:
”اور اگلی گھڑ سوار ہیں …… تھنڈر پر مس پیپا جونز!!!“ ہجوم تالیاں پیٹنے لگا۔
”لیکن میرا نام پیپا نہیں ہے!“ فلو چلائی، ”کوئی مجھے نیچے اُتارے!“
بہت دیر ہو چکی تھی۔ تھنڈر پہلی باڑ پھلانگنے کے لیے دوڑ رہا تھا۔ فلو نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ اُسے یقین ہو چلا تھا کہ وہ باڑ سے ٹکرا جائیں گے۔ عین وقت پر تھنڈر اُچھلا تھا۔ پھر وہ ایک جھٹکے کے ساتھ زمین پر اُترے۔ اِس دوران فلو کا ہیٹ (ٹوپی) پھسل کر اُس کی آنکھوں کے سامنے آ گیا۔ اب فلو کو کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا کہ وہ کہاں جا رہے ہیں۔
تھنڈر نے ایک بار پھر ہوا میں تیرتے ہوئے باڑ عبور کی۔ اُس کے بعد وہ پھر اُچھلا لیکن فلو کاٹھی پر سے پھسل گئی۔ وہ گرتے گرتے بچی اور تھنڈر کی گردن کے ساتھ لٹک گئی۔
”گھڑ سواری کا یہ عجیب طریقہ ہے بھئی!“ مسٹر ٹروٹر حیرانی سے بولا۔
تھنڈر بدستور سرپٹ بھاگتا رہا،یوں اگلی تین مزید باڑیں پار کر لی گئیں۔ اب وہ آخری باڑ کی جانب بڑھ رہے تھے، یہ اینٹوں سے بنی ایک بلند دیوار تھی۔ تھنڈر نے اُڑان بھری۔
”بچاؤووو!“ فلو ہوا میں اُڑتے ہوئے چلائی۔
پھر وہ دھم سے زمین پر گرے۔ نرم گھاس نے فلو کو اپنی آغوش میں لے لیا۔
مکھیوں کی طرح بھنبھناتے ہوئے سب اُس کے گرد جمع ہو گئے۔ کچھ لوگوں نے اُسے اُٹھایا اور اُس کی پیٹھ پر تھپکی دی۔
”تم ٹھیک تو ہو؟“
”شاباش، کمال کر دیا!“
”کیا ہی عمدہ گھڑ سواری کی ہے!“
”کیا ہوا؟“ فلو نے سنبھلتے ہوئے پوچھا۔
”تم جیت چکی ہو۔ تم نے تمام باڑیں تیز ترین رفتار سے عبور کی ہیں۔“ مسٹر ٹروٹر بولے۔
تھنڈر کی گردن کے پاس گلاب کے جیسا ایک بیج لگایا اور فلو کو سلور کپ تھمایا گیا۔
”اِس سال جونئیر کپ کی فاتح پیپا جونز ہے۔“ مس ٹروٹر بلند آواز سے بولے۔
”میرا اصل نام فلو جونز ہے۔“ فلو خوشی سے مسکرانے لگی۔
دوسری جانب کپ فائنل میں، پیپا بھی مشکلات کا سامنا کر رہی تھیں۔ اُس کی ٹانگیں زخمی ہو چکی تھیں۔ وہ کیچڑ سے لت پت تھی اور بوٹ تو اُس کی جان نکالنے کے درپے تھے۔ میچ ختم ہونے میں دو منٹ باقی تھے۔ اب تک کا سکور 2-2 تھا یعنی مقابلہ برابر جا رہا تھا لیکن پیپا کو کیا غم تھا! وہ تو بس اس انتظار میں تھی کہ کب کھیل ختم ہو تا کہ وہ گھر جا سکے۔
بلیو ٹیم کے گول کیپر نے فٹ بال کو ہوا میں اچھالا۔ گیند اچھلتا کودتا سیدھا پیپا کے پاس پہنچ گیا۔اُسے فٹ بال کی یہ شرارت ذرا نہ بھائی تھی۔
”پرے دفع ہو!“ وہ چلائی اور شدید نفرت سے فٹ بال کو زور دار ٹھوکر لگائی۔ اگلا منظر حیران کر دینے والا تھا۔ فٹ بال ہوا میں اڑتا ہوا بلیو ٹیم کے گول کی جانب لپکا۔ گول کیپر نے پھرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈائیو لگائی لیکن اتنی دیر میں گیند گول کے جال سے ٹکرا چکا تھا۔
”گول!!!“روورز کی ٹیم نے آسمان سر پر اُٹھا لیا۔
”واہ! کیا گول کیا!“
اسی لمحے اختتامی سیٹی بجنے لگی۔ پیپا میچ کی بہترین کھلاڑی قرار پائی تھی۔ اُس کی ٹیم نے اُسے کندھوں پر سوار کر لیا اور ناچتے ہوئے خوشی منانے لگے۔ ہر کوئی اُس کی پیٹھ پر تھپکی دینے کا خواہش مند تھا۔ پیپا نے روورز کی ٹیم کو جونئیر کپ جتوا دیا تھا۔
کھیل ختم ہونے کے بعد پیپا بلوزم پر سوار ہو کر گھر کی جانب چل دی۔ جب وہ ایلم روڈ پر جا رہی تھی تو اُس کے پاس سے فلو گزری۔ دونوں کے قدم وہیں جم گئے۔ اُنھوں نے ایک دوسرے کو گھورتے ہوئے دیکھا۔ دونوں ہی کیچڑ سے لت پت تھیں اور سلور کپ بھی دونوں نے اُٹھا رکھے تھے۔
”کیا تمہارا نام پیپا جونز ہے؟“ فلو نے پوچھا۔
پیپا نے اثبات میں سر ہلایا۔ ”یقیناتم فلو جونز ہو۔“
پھر دونوں کو ساری صورت حال سمجھ میں آ گئی۔
”مجھے تمہارا خط مل گیا تھا۔ میں تو گھڑ سواری کرنے گئی تھی۔“ فلو بولی۔
”اور تمہارا خط مجھے مل گیا۔ میں فٹ بال میچ کھیلنے گئی تھی۔“ پیپا بولی۔ پھر دونوں کی ہنسی چھوٹ گئی۔
”فٹ بال کھیلنے کا طریقہ آ جائے تو یہ ایک پر لطف کھیل ہے۔“ پیپا مسکراتے ہوئے بولی۔
”ہاں! اور گھوڑی کی سواری بھی بہت دل چسپ کھیل ہے۔“ فلو نے اپنے احساسات کا اظہار کیا۔
اُس کے بعد فلو اور پیپا گہری سہیلیاں بن گئیں۔ اُن کی پسند بھی ملنے لگی۔ ایک ہفتے کو فلو نے پیپا کے ساتھ گھڑ سواری کی جب کہ دوسرے ہفتے پیپا نے فلو کے ساتھ مل کر فٹ بال کھیلا۔
ڈاکیہ اب بھی اُن دونوں کے لیے خط لاتا ہے مگر اب اُس نے نیا چشمہ بنوا لیا ہے۔
٭٭٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top