skip to Main Content

چوری

کہانی: The Burglary
مصنف: Arnold Bennett
مترجمہ: گل رعنا صدیقی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سر جی کی بیگم نے ایک بار پھر کہا: ”اگر یہ پورٹریٹ مزید کچھ عرصہ یہاں لگا رہا تو میں اسے دیکھ دیکھ کر پاگل ہو جاؤں گی۔ اسے دیکھ کر میری بھوک پیاس ہی اڑ جاتی ہے۔“ ان کا اشارہ میز کے عین سامنے والی دیوار پر لگے ایک بڑے سے پورٹریٹ کی جانب تھا۔
سرجی نے اس بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ بیگم سرجی کو یہ پورٹریٹ سخت ناپسند تھا۔ صرف انھیں ہی کیا، پورے قصبے میں یہ پورٹریٹ کسی کو بھی پسند نہیں تھا لیکن اس کو انگلستان کے مشہور ترین مصور کریسیج نے پینٹ کیا تھا اور اس کی بنائی ہوئی پینٹنگز کی قیمت کسی بھی طرح ہزار پاؤنڈز سے کم نہیں ہوتی تھی۔
سرجی اپنے قصبے کے سب سے کامیاب اور تجربہ کار تاجر تھے۔ ان کی برتن بنانے والی فیکٹری انگلستان کی سب سے بڑی فیکٹریز میں سے ایک تھی اور یہاں کی بنائی ہوئی پلیٹیں اور چائے کے برتن پوری دنیا میں فروخت ہوتے تھے۔ سر جی بے حد امیر تھے کیونکہ وہ اپنے برتن بہت مہنگے داموں فروخت کرتے اور اپنے کارکنان کو بہت کم تنخواہ دیتے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ سرجی کو شہرت حاصل کرنے اور اہم نظر آنے کا بہت شوق تھا لہٰذا وہ اپنی آمدنی سے کبھی کبھار قصبے کے اسکولوں اور اسپتالوں کے لیے چندہ دیا کرتے تھے۔ قصبے کے لوگ اکثر سرجی کی کنجوسی اور دوغلے پن کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ لیکن اسکے ساتھ ہی وہ چندہ دینے پر سرجی کا شکریہ بھی ادا کرنا چاہتے تھے۔ انھوں نے سرجی کو ان کی خدمات کے صلے میں بطور تحفہ ایک پورٹریٹ دینا چاہا۔ سو مشہور مصور کریسیج نے سرجی کا ایک پورٹریٹ بنایا جس کے بارے میں لوگوں کا خیال تھا کہ یہ تصویر حقیقت کی درست عکاسی کرتی ہے۔
ایک اخبار کے مطابق: ”یہ ایک چھوٹے سے قصبے کے سب سے کامیاب اور امیر تاجر کی تصویر ہے جو بہت ذہانت سے پینٹ کی گئی ہے۔ چونکہ مسٹر سرجی کو دوسروں سے زیادہ اہم نظر آنے کا بہت شوق ہے لہٰذا مصور نے اس تصویر میں سرجی کو شاہی محل کے ایک نواب کے طور پر پیش کیا ہے۔“
یہ پورٹریٹ دراصل سرجی کی دوغلی شخصیت پر ایک طنز تھا۔ تصویر میں مصور نے سرجی کے بھنچے بھنچے ہونٹ اور ماتھے پر تیوریوں کو خوب واضح کیا تھا جس کی وجہ سے تصویر اور بدصورت نظر آتی تھی۔ قصبے میں جس نے بھی اس تصویر کو دیکھا، اس کے چہرے پر بیساختہ مسکراہٹ آ گئی۔ کچھ تو منہ دبا کے ہنسے بھی لیکن سرجی کو مجبوراً نہ صرف وہ تصویر بطور تحفہ قبول کرنی پڑی بلکہ اس ”عزت افزائی“ کا شکریہ بھی ادا کرنا پڑا۔ اب یہ پورٹریٹ ان کے گھر میں ایک دیوار پر آویزاں تھا۔ اور سولہ ماہ بعد ہی سرجی کی بیگم اس تصویر سے شدید بیزار ہو گئیں۔
”احمقانہ باتیں مت کرو بیگم! تم جانتی ہو کہ یہ پورٹریٹ مجھے پورے قصبے کی طرف سے بطور تحفہ ملا ہے۔ میں اسے اتار کر نہ کہیں کونے کھدرے میں ڈال سکتا ہوں اور نہ اسے بیچ سکتا ہوں۔ مجھے یہ پورٹریٹ اپنی جان سے زیادہ عزیز ہے۔“
سرجی نے اپنی بیگم سے کہا اور بالکل جھوٹ کہا کیونکہ سرجی کو اس تصویر سے شدید نفرت تھی۔ ان کے ذہن میں اس تصویر سے پیچھا چھڑانے کا ایک خفیہ منصوبہ پرورش پا رہا تھا۔
”کیا آپ آج صبح قصبے جائیں گے؟“ بیگم سرجی نے پوچھا۔ ان کی حویلی قصبے سے باہر بنی ہوئی تھی۔
”ہاں! آج مجھے عدالت جانا ہے۔“ سرجی نے جواب دیا۔
وہ قصبے کی عدالت کے مجسٹریٹ تھے۔ قصبے کے سفر کے دوران وہ اپنے منصوبے پر غور کرتے رہے۔ یہ ایک خطرناک منصوبہ تھا لیکن صرف اسی طریقے کے ذریعے وہ اس تصویر سے ہمیشہ کے لیے جان چھڑا سکتے تھے۔
آج کے دن قصبے کی پولیس نے سرجی پر بہت تاؤ کھایا۔ عدالت میں پولیس نے ایک شخص کا کیس پیش کیا تھا جو ان کے مطابق منجھا ہوا چور تھا۔ وہ اسے کم از کم پانچ سال کے لیے جیل بھجوانا چاہتے تھے۔ مگر سرجی نے ان کے دلائل سے اتفاق نہیں کیا اور ان کی طرف سے پیش کیے گئے ثبوتوں کی دھجیاں اڑا دیں۔ پولیس نے جرم ثابت کرنے کی اپنی سی کوشش کی لیکن سرجی نے ”ناکافی شواہد“ کی بنیاد پر اس چور ولیم اسمتھ کو باعزت بری کرنے کا فیصلہ سنا دیا۔ عدالت سے باہر نکلنے سے پہلے سرجی نے ولیم کو اپنے دفتر میں طلب کیا۔
”اسمتھ! آج تمہاری قسمت نے تمہارا بہت ساتھ دیا کہ تم یوں بچ نکلے۔“ سرجی نے بات کا آغاز کیا۔ اسمتھ ایک دبلا پتلا چھوٹے سے قد کا آدمی تھا جس کے بال الجھے ہوئے اور کپڑے میلے کچیلے تھے۔
”جی ہاں۔ میں واقعی خوش قسمت ہوں۔ لیکن آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں؟“
”میرا خیال ہے کہ میں تمہاری مدد کر سکتا ہوں۔“ سرجی نے محتاط لہجے میں کہا۔
”میرا نہیں خیال کہ مجھے اس وقت کسی قسم کی مدد کی ضرورت ہے۔ لیکن ہاں، اگر کوئی پیسوں کا معاملہ ہے تو میں کبھی انکار نہیں کروں گا۔“ اسمتھ نے جواب دیا۔
”بیٹھ جاؤ۔“ سرجی نے کہا۔
ولیم اسمتھ سرجی کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا۔ ”جی؟“ اس نے سوالیہ لہجے میں پوچھا۔
”میں چاہتا ہوں کہ تم میرے گھر سے ایک چیز چرا لو لیکن تمہیں اس چوری کی کوئی سزا نہیں ملے گی۔“
یہ سن کر اسمتھ حیران رہ گیا۔ ”جی کیا کہا؟“
”قصبے سے باہر میری حویلی ہے۔ اس حویلی میں کھانے کے کمرے میں میرا ایک پورٹریٹ لگا ہوا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ چوری ہو جائے۔“
”چوری ہو جائے؟“ ولیم اسمتھ نے دہرایا۔
”ہاں۔“
”آپ مجھے یہ کام کرنے کے کتنے پیسے دیں گے؟“
”تمہیں پیسے دوں؟ لیکن کس بات کے بھئی؟ وہ کریسیج کا بنایا ہوا پورٹریٹ ہے۔ تمہیں امریکا میں اس پورٹریٹ کے دو ہزار ڈالر تک مل سکتے ہیں۔“
اسمتھ نے چند لمحے سوچا اور پھر کہنے لگا: ”ٹھیک ہے۔ میں یہ کام صرف آپ کی خاطر بغیر معاوضے کے کروں گا کیونکہ آج آپ نے مجھے جیل جانے سے بچایا ہے۔“
”تم یہ کام کب کرو گے؟ آج رات؟“سرجی نے بیتابی سے پوچھا۔
”نہیں۔ آج رات میں بہت مصروف ہوں۔“ اسمتھ نے جواب دیا۔
”تو پھر کل رات؟“
”میں کل بھی بہت مصروف رہوں گا۔“
”اوہ! تم تو خاصی مصروف شخصیت ہو بھئی!“ سرجی نے کہا۔
”وہ تو میں واقعی ہوں۔ آپ کا کام میں پرسوں کر سکتا ہوں۔“
”لیکن پرسوں تو چاند رات ہے۔“ سرجی نے اعتراض کیا۔
”ہاں۔ میں یہ کام یا تو چاند رات کو کر سکتا ہوں یا عید کی رات کو، عید کے اگلے دن سے میں پھر بہت مصروف ہو جاؤں گا۔“
”مجھے امید ہے کہ تمہاری یہ مصروفیت ہمارے قصبے میں نہیں ہو گی؟“ سرجی نے چبھتے ہوئے لہجے میں کہا اور ولیم اسمتھ نے ایک قہقہہ لگایا۔
”نہیں! اس قصبے میں اب کوئی ایسی قیمتی چیز نہیں بچی ہے جو مجھے مصروف رکھ سکے۔“
یوں دونوں میں چاند رات پر اتفاق ہو گیا۔
”اب میں تمہیں ذرا اپنی حویلی کا نقشہ سمجھا دوں تاکہ تمہیں اندر داخل ہونے اور کھانے کے کمرے تک پہنچنے میں کوئی مشکل پیش نہ آئے۔۔۔“ سرجی کی بات سن کر ولیم اسمتھ نے دوبارہ قہقہہ لگایا۔
”مجھے حویلی کا نقشہ آپ سمجھائیں گے؟ کیا آپ نے مجھے اتنا ہی احمق سمجھا ہوا ہے؟ میں ایک کاروباری آدمی ہوں اور اس حویلی کو آپ سے بھی زیادہ اچھی طرح جانتا ہوں۔“
عید سے ایک روز پہلے جب سرجی گھر لوٹے تو انھوں نے دیکھا کہ ان کی بیگم سامان باندھ رہی ہیں۔ ان دونوں کو یہ عید اپنے بیٹے کے ساتھ اس کے نئے گھرمیں گزارنی تھی جو دوسرے قصبے میں رہتا تھا۔ سرجی نے فوری طور پر تو اپنی بیگم سے کچھ نہیں کہا لیکن شام کی چائے پیتے ہوئے اچانک کہنے لگے: ”میں آج قصبے سے باہر نہیں جا سکوں گا۔ مجھے کچھ ضروری کام نمٹانے ہیں۔“
“ اوہ سرجی! آپ یہ بات مجھے پہلے نہیں بتا سکتے تھے؟ میں نے تو جانے کے لیے سارا سامان بھی باندھ لیا۔“ ان کی بیگم نے ناراض ہو کر کہا۔
سرجی نے اس سوال کا جواب دینے کے بجائے کہا:
”میں کل صبح آ جاؤں گا۔ تم آج ہی چلی جاؤ۔“
”لیکن میں نے تو آج کچھ بھی نہیں پکایا اور تمام ملازم بھی عید کی چھٹیوں پر جا چکے ہیں۔ آپ رات کو کیا کھائیں گے؟ فریج میں صرف تھوڑی سی باسی سبزی پڑی ہے۔ اگر آپ کہیں تو میں بھی آج رک جاتی ہوں۔ کل اکھٹے ہی چلے جائیں گے!“
”نہیں۔ میں وہی سبزی کھا لوں گا۔ میری فکر نہ کرو۔ تم جاؤ۔“ سرجی نے جلدی سے کہا۔
بیگم کو بیٹے کے گھر روانہ کرنے کے بعد سرجی نے کھانے کے کمرے میں بیٹھ کر باسی سبزی کھائی۔ پورٹریٹ ان کی نظروں کے سامنے تھا۔ وہ حویلی میں بالکل اکیلے تھے اور یہ اچھا ہی ہوا۔ اگر حویلی میں کوئی ایک بھی ملازم ہوتا تو وہ آج رات ولیم اسمتھ کی کارروائی میں خلل ڈال سکتا تھا۔ تاہم سرجی کچھ گھبرائے ہوئے بھی تھے۔ شاید ایک چور کو خود اپنے گھر میں دعوت دینا ایک خطرناک منصوبہ تھا۔ انھوں نے ایک نظر پھر اپنے پورٹریٹ پر ڈالی جو سونے کے بڑے سے فریم میں جڑا ہوا تھا۔
”کیا وہ اس کا فریم بھی لے جائے گا؟“ انھوں نے ہاتھ ملتے ہوئے سوچا، ”کاش وہ یہ فریم نہ لے جائے۔ یہ بہت قیمتی فریم ہے۔ میرے کام آئے گا۔“ ان کا لالچ سے بھرا دل گویا ڈوبنے لگا پھر انھوں نے خود کو تسلی دینی شروع کی۔
”نہیں۔ وہ فریم نہیں لے جائے گا۔ وہ بہت دبلا پتلا سا آدمی ہے اور یہ فریم بہت بھاری ہے۔ ہاں، البتہ اگر وہ اپنے ساتھ کسی ساتھی کو لایا تو شاید وہ مل کے یہ فریم بھی لے جائیں۔ خیر! تصویر سے نجات حاصل کرنے کے لیے کچھ تو قربانی دینی ہی پڑے گی۔“ سرجی نے سوچا۔ ”الوداع“ سرجی میز سے اٹھتے ہوئے اپنے پورٹریٹ سے مخاطب ہوئے۔ پھر انھوں نے ولیم اسمتھ کے لیے کمرے کی ایک کھڑکی کھول دی اور خود اپنے کمرے میں چلے گئے۔
ان کو نیند نہیں آ رہی تھی۔ وہ خاموشی سے گھر میں کسی ہلچل کے منتظر تھے۔ رات کو تقریباً دو بجے کے قریب کچھ آوازیں سنائی دیں پھر سناٹا چھا گیا۔ کچھ دیر بعد دوبارہ کھٹر پٹر کی آوازیں آنے لگیں۔ اسمتھ اپنے کام میں مصروف ہے۔ قصبے کا سب سے مصروف آدمی!!! سرجی یہ سوچ کر دل ہی دل میں مسکرائے۔ پھر وہ خاموشی سے اپنے بستر سے نکلے اور دبے قدموں چلتے ہوئے اپنے کمرے کی کھڑکی تک آئے۔ انھوں نے دیکھا۔ دو آدمی ایک بڑی سی چوکور چیز اٹھا کے گھر سے باہر نکل رہے تھے۔ تو اسمتھ اپنے دوست کے ساتھ آیا تھا اور وہ پورٹریٹ کے ساتھ فریم بھی لے گیا ہے! سرجی نے ٹھنڈی سانس بھری۔ وہ دوبارہ اپنے بستر میں گھس گئے۔ اس بار ان کو نیند آ گئی۔ صبح جب وہ اپنے کمرے سے باہر نکل کر کھانے کے کمرے میں آئے تو انھوں نے دیکھا۔
تصویر کمرے کے فرش پر پڑی تھی اور اس پر بڑے بڑے حروف میں لکھا ہوا تھا۔ ”یہ تصویر میرے کسی کام کی نہیں ہے۔“
تصویر کا سنہری فریم غائب تھا۔ صرف فریم ہی نہیں، سونے اور چاندی سے بنے ہوئے گھر کے تمام برتن بھی غائب تھے۔ سرجی کو تحفے کی ناقدری بہت مہنگی پڑی تھی!!!

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top