کارخانہ قدرت
جاوید بسام
۔۔۔۔۔
آبادی سے دور پہاڑوں کے اس پار جنگل میں جہاں چھوٹے بڑے بے شمار ٹیلے اور درخت ہیں۔ سردیوں کی ایک سہانی صبح افق سے سورج نے سر نکالا، ہر سو نیم اجالا پھیل گیا۔ رات کا اندھیرا دور ہوا تو ہر چیز جیسے انگڑائی لے کر بیدار ہوگئی۔ درخت ہوا سے جھومنے لگے۔ ان پر موجود چڑیاں جو طلوع آفتاب سے پہلے ہی چہچہا کر اﷲ کی حمد و ثناءمیں مشغول تھیں۔ ادھر ادھر اڑنے اور خوشی کے گیت گانے لگیں۔ مختلف چوپائے بھی خوراک کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ گلرنگ تتلیاں بھی پھولوں پر منڈلا رہی تھیں اور جا بجا حشرات الارض بھی رینگتے نظر آرہے تھے گویا ہر کوئی نئے دن کو خوش آمدید کہہ رہا تھا۔
گزشتہ رات ہلکی بارش ہوئی تھی جس سے ٹیلوں پر نئی گھاس اگ آئی تھی۔ ایک ٹیلے پر جو درختوں میں گھرا تھا، سبز گھاس پر اوس کے باریک قطرے موتیوں کی طرح چمک رہے تھے۔ کچھ دیر ہی گزری تھی کہ ٹڈوں کی ایک ٹولی کہیں سے اڑتی ہوئی وہاں آپہنچی۔ سبز گھاس نے انہیں خوب لبھایا اور وہ سب ٹیلے پر اتر گئے۔ فوراً ہی انہوں نے گھاس کھانی شروع کر دی۔ ان کی بڑی ابھری ہوئی آنکھوں میں قوس و قزح کے رنگ جھلک رہے تھے۔ وہ اپنا پیٹ بھر رہے تھے اور اﷲ کا شکر ادا کررہے تھے، جس نے ان کے لیے یہ دستر خوان سجایا، قریب کے درختوں پر چند گرگٹ بھی شاخوں پر رینگ رہے تھے۔ انہوں نے جو اتنے قریب ٹڈوں کو براجمان پایا تو ان کی بھوک بھی چمک اٹھی، وہ آہستگی سے رینگتے ہوئے ٹیلے پر چلے آئے، پہلے وہ صبر سے انتظار کرتے جیسے ہی کوئی ٹڈا ان کے قریب آتا وہ اپنی بجلی کی تیزی سے آگے لپکتے اور پل بھر میں انہیں پکڑ لیتے۔ کچھ دیر منہ میں لیے رکھتے۔ پھر آہستہ آہستہ نگل لیتے۔ انہوں نے بھی صبح صبح پیٹ بھر کر ناشتہ کیا اور خدا کا شکر ادا کیا۔
آسمان کی بلندی پر عقابوں کا ایک جوڑا بھی محو پرواز تھا۔ انہوں نے جو زمین پر کچھ ہلچل محسوس کی تو وہ کچھ نیچے چلے آئے، موٹے تازے گرگٹوں کو دیکھ کر ان کے منہ میں پانی بھر آیا۔وہ پر سکیڑے مہارت سے غوطے لگاتے اور اپنے مضبوط پنجوں میں انہیں دبائے لیے اڑتے۔ پھر کسی درخت کی شاخ پر بیٹھ کر اپنی خم دار تیز چونچ سے انہیں ٹھونگے لگاتے۔ پھر کھا جاتے۔ غرض انہوں نے بھی اپنا پیٹ بھرا اور بلندیوں پر اڑ گئے۔
کچھ دور چند کھیت بھی تھے۔ صبح ہی صبح بہت سے چوہوں نے وہاں یلغار کرد ی۔ وہ بہت تیزی سے اناج کے دانے اپنے معدے میں اتار رہے تھے۔ ایسا لگتا تھا بہت جلدی میں ہیں۔ جتنا کھا رہے تھے اس سے زیادہ خراب کررہے تھے لیکن وہ اس سے بے خبر تھے کہ چند دشمن ان کی تاک میں بھی لگے ہیں۔ ایک چتکبرا موٹا سانپ بل کھاتا تیزی سے ان کی طرف رینگ رہا تھا۔ جب تک چوہے اس کی موجودگی سے آگاہ ہوتے وہ پھرتی سے ایک چوہے پر جھپٹا اور اسے منہ میں دبا لیا۔ زہر کے اثر سے چوہا فوراً بے سدھ ہوگیا۔ البتہ سانپ نے اسے دھیرے دھیرے بہت دیر میں نگلا اور جدھر سے آیا تھا۔ واپس ادھر پلٹ گیا۔
ابھی وہ کچھ دور ہی گیا تھا کہ جھاڑیوں میں سے بہت سے نیولوں نے نکل کر اسے گھیر لیا۔ سانپ نے مدافعت شروع کی وہ بار بار ان پر حملہ آور ہوتا لیکن وہ اپنی پھرتی کی بدولت ہر بار بچ جاتے۔ ساتھ ہی وہ سانپ کو زخمی بھی کر دیتے۔ بہت دیر تک یہ لڑائی چلتی رہی۔ آخر کار نیولے فتح یاب ہوئے اور انہوں نے سانپ کے گوشت کی دعوت اڑائی۔ غرض یہاں بھی اﷲ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کے زندہ رہنے کے لیے بہترین انتظام کر رکھا تھا۔
سائنسی اصطلاح میں اس سارے عمل کو غذائی زنجیر کہتے ہیں۔ قدری ماحول میں اکثر ایک جاندار دوسرے کو اور دوسرا تیسرے کو غذا کے طور پر کھاتا ہے۔ اس طرح مختلف جانداروں کے مابین یہ چکر ہمیشہ چلتا رہتا ہے۔ غذائی زنجیر کے ذریعے خوراک پودوں سے جانوروں تک اور پھر ایک جانور سے دوسرے جانور تک سلسلے وار منتقل ہوتی رہتی ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کسی بھی غذائی زنجیر کے سرے پر جاندار چھوٹے مگر لاتعداد ہوتے ہیں اور آخری سرے پر بڑے مگر تعداد میں کم ہوتے ہیں۔ غذائی زنجیر کو یوں بیان کیا جا سکتا ہے۔
گھاس…. ٹڈے …. گرگٹ…. عقاب
اناج کے دانے…. چوہے…. سانپ…. نیولے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ عمل ازل سے اسی طرح جاری ہے ۔ نہ دنیا سے گھاس ختم ہوتی ہے نہ ٹڈے کم پڑتے ہیں اور نہ ہی گرگٹ ناپید ہوتے ہیں۔ اسی طرح نہ اناج کے دانوں کا کال پڑتا ہے اور نہ چوہوں کی نسل کو کوئی خطرہ ہے اور نہ ہی سانپ کسی پریشانی میں مبتلا ہوتے ہیں۔
بھلا بتائیں کیوں ؟ دراصل اس نظام کو چلانے والی ذات ایسی قادر مطلق ہے کہ اس کی حکمرانی ایک ایک ذرہ پر قائم ہے۔ ہر چیز اس کے حکم کی محتاج ہے اور اس کے حسن انتظام میں ذرا برابر بھی کوئی خامی نہیں۔ لہٰذا یہ سلسلہ یونہی چلا آرہا ہے اور جب تک وہ چاہے گا چلتا رہے گا۔
٭….٭….٭