جرم کی سزا
ایران کے مشہور بادشاہ عمر ولیث کا ایک غلام موقع پاکر بھاگ گیا لیکن فوراً ہی گرفتار کرکے واپس لایا گیا۔ اس زمانے میں یہ دستور تھا کہ بھگوڑے غلام کو پکڑے جانے کے بعد قتل کردیا جاتا تھا۔ بادشاہ نے اسے قتل کردینے کا حکم دیا تو بندہ مسکین نے اپنا سر عمر ولیث کے آگے زمین پر رکھ دیا اور کہا: ’’عالم پناہ! میں نے حضور کا نمک کھایا ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ آپ قیامت کے دن خدا کی عدالت میں میرے قتل کے جرم میں ملزم بنے کھڑے ہوں۔ مؤدبانہ گزارش ہے کہ اگر آپ نے غلام کو قتل ہی کرنا ہے تو پہلے اس کا شرعی جواز پیدا کرلیں۔‘‘
’’وہ شرعی جواز کیا ہوسکتا ہے؟‘‘ بادشاہ نے پوچھا۔
اُس غلام کی بادشاہ کے وزیر سے پہلے لاگ ڈانٹ چلی آتی تھی لہٰذا وہ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بولا: ’’میں بادشاہ کے وزیر کو قتل کردوں پھر اس کے قصاص میں آپ مجھ کو قتل کروادیں۔ اس طرح میرا خون آپ کی گردن پر نہ ہوگا۔‘‘
بادشاہ یہ سن کر بے اختیار ہنسنے لگا اور وزیر سے پوچھا: ’’اب کیا مصلحت دیکھتے ہو تم؟‘‘
وزیر نے عرض کیا: ’’بادشاہ سلامت! واسطے خدا کے اس شوخ چشم کو آزاد کریں ورنہ یہ مجھے کسی بلا میں گرفتار کرادے گا۔‘‘
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں دو باتیں سمجھائی ہیں، اول تو جرأت اور ہوش مندی کے فائدے کی طرف اشارہ کیا ہے کہ انتہائی خوف کی حالت میں بھی حواس بحال رہیں تو مصیبت سر سے ٹل جاتی ہے۔ دوم یہ کہ دشمن ہر لحاظ سے بُری شے ہے۔ حتیٰ کے ادنیٰ ترین غلام کو بھی دشمن نہ بناؤ ورنہ وقت آنے پر تمھاری جان لے کر رہے گا۔