skip to Main Content
جو ڈیوڈ پر گزری!

جو ڈیوڈ پر گزری!

ناول: David Copperfield
مصنف: Charles Dickens 
مترجم: محمد الیاس نواز

کردار:

ڈیوڈ کاپر فیلڈ: آپ بیتی بیان کرنے والا لڑکا
پگوٹی: گھریلو ملازمہ اور کاپر فیلڈ کی آیا
کلارا: ڈیوڈکاپر فیلڈ کی والدہ
مسٹرمردسٹون: ڈیوڈ کا سوتیلا باپ
مس مردسٹون: مسٹر مردسٹون کی بہن
مسٹر پگوٹی: پگوٹی کا بھائی
ہام: پگوٹی کا یتیم بھتیجا
املی: پگوٹی کی یتیم بھتیجی
مسز گومج: ایک غریب بیوہ
مسٹر میل: سالم ہاؤس اسکول کے استاد
مسٹر کریکل: سالم ہاؤس اسکول کا مالک
بیگم کریکل: مسٹر کریکل کی اہلیہ
ٹومی ٹریڈ لس: سالم ہاؤس اسکول کا ایک طالب علم
جے۔اسٹریٹ فورتھ: سالم ہاؤس اسکول کا سب سے پرانا لڑکا
مسٹر قونین: مشروبات کے کارخانے’مردسٹون اینڈ گرمبی‘ کا منتظم
مسٹر میکابر: ڈیوڈ کا مالک مکان، ایک بدحال شخص
بیگم میکابر: مسٹر میکابر کی اہلیہ
مس بیٹسی ٹروٹ وُڈ: ڈیوڈ کاپرفیلڈ کی خالہ
جینٹ: مس بیٹسی ٹروٹ وڈ کی ملازمہ
مسٹر وِک فیلڈ: مس بیٹسی ٹروٹ وڈ کا وکیل
ایگنیس: مسٹر وک فیلڈ کی بیٹی
اریاہ ہیپ: مسٹر وک فیلڈ کا  منشی
بیگم ہیپ: اریاہ ہیپ کی والدہ
مس روزا ڈرٹلے: اسٹریٹ فورتھ کی منگیتر
بیگم اسٹریٹ فورتھ: اسٹریٹ فورتھ کی والدہ
مسٹر سپنلا: وکیلوں کی کمپنی’سپنلا اینڈ جارکنز‘ کے مالک
مسٹر واٹر بروک: مسٹر وک فیلڈ کے دوست
بیگم واٹر بروک: مسٹر واٹر بروک کی اہلیہ
مسٹر ٹریڈلیس: ڈیوڈکاپر فیلڈ کاپرانا دوست
ڈورا سپنلا: مسٹر سپنلا کی بیٹی
مس کلاریسا: ڈورا کی خالہ
مس لوینیا: ڈورا کی خالہ

۱۔ناخوش گوار بچپن
مجھے اپنی زندگی کے جو ابتدائی افراد یاد ہیں، وہ میری والدہ اور ہماری گھریلو ملازمہ پگوٹی ہیں۔میںنے اپنے والد کو نہیں دیکھا کیوں کہ وہ میرے پیدا ہونے سے پہلے ہی انتقال کر چکے تھے۔
میری والدہ دل کش بالوں والی ایک خوب صورت ڈیل ڈول کی خاتون تھیں جبکہ پگوٹی ایک بے ڈھنگے جسم کی مالک تھی۔ اس کے بازو بہت سخت تھے اور گال سیبوں کی طرح لال۔بعض اوقات مجھے حیرت ہوتی کہ پرندے انہیں کھانے کی کوشش کیوں نہیں کرتے۔
مجھے ابھی تک اپنا گھر یاد ہے۔آرام گاہ کی کھڑکیاں تازہ ہوا کے لیے کھلی رہتی تھیں۔وہاں ایک باغچہ بھی تھاجس کے گرد ایک اونچی باڑ لگی ہوئی تھی۔مجھے پھل دار درخت اور تتلیوں کو دیکھنا بھی یاد ہے۔وہاں کے درختوں کے پھل جتنے میٹھے تھے، میری معلومات کے مطابق آس پاس کے کسی اور باغ کے درختوں کے نہیں تھے۔سردیوں کی شام میں بعض اوقات ہم بیٹھک کی انگیٹھی کے سامنے بیٹھ کر کھیل کھیلا کرتے تھے۔مجھے یاد ہے کہ میری والدہ پھولی ہوئی سانس کے ساتھ کرسی پر آرام کرنے بیٹھتیں تو بالوں کے سروں کو انگلیوں میں بل دیتی رہتیں۔میں جانتا ہوں کہ انہیں اپنی دل کشی پر کتنا ناز تھا۔
ایک رات میں اور پگوٹی آگ کے پاس اکیلے بیٹھے باتیں کررہے تھے کہ گھنٹی بجی۔ہم دونوں دروازے کی طرف بڑھے ۔ وہاں میری والدہ کھڑی تھیں اور معمول سے زیادہ پیاری لگ رہی تھیں۔ان کے ساتھ ایک معزز شخص بھی کھڑا تھا۔
میری والدہ نے جھک کر مجھے اپنی بانہوں میں اٹھا لیا اورپیار کیا۔معزز شخص نے بھی میرے سر پر ہاتھ پھیرا،مگر پتا نہیں کیوں مجھے اس کا یہ عمل پسند نہ آیا،خاص طور پر اس کا مجھے ہاتھ لگانا۔
میری والدہ نے ہمارے گھر آنے پر معزز شخص کا شکریہ ادا کیا۔پھر پگوٹی نے دروازہ بند کردیا اور ہم سب بیٹھک میں آکر بیٹھ گئے۔
پھررفتہ رفتہ ہم معزز شخص کو دیکھنے کے عادی ہوگئے مگر مجھے وہ بالکل پسند نہیں تھا۔اس کا نام ’مرد سٹون‘ تھا۔
تقریباً دو ماہ بعد ایک شام ،میںاور پگوٹی ایک ساتھ بیٹھک میں بیٹھے تھے۔میری والدہ اب بھی گھر سے باہر تھیں۔اچانک پگوٹی بولی۔”ڈیوی!تم میرے ساتھ یارماﺅتھ چلنا پسند کرو گے؟میں دو ہفتے کے لیے اپنے بھائی کے گھر رہنے جا رہی ہوں۔وہاں سمندر،جہاز، کشتیاں، ساحل اور مچھیرے ہیں ….اور تمہارے ساتھ کھیلنے کے لیے میرا بھتیجا’ہام‘ بھی تو ہے۔“میں نے جواب دیا کہ یہ تو بہت ہی زبردست تفریح ہو جائے گی۔ اور جلد ہی وہ دن بھی آگیا جس دن ہم نے یار ماﺅتھ کے لیے نکلنا تھا۔ہم نے صبح ناشتے کے فوراً بعد کسانوں کے چھکڑے میں سفر کرنا تھا۔
جیسے ہی ہم جانے لگے ،میری والدہ دروازے سے دوڑتی ہوئی آئیں اور رکنے کے لیے آواز دی تاکہ مجھے پیار کر سکیں۔وہ آکر مجھے چومنے لگیں اور میں اور والدہ دونوںرونے لگے۔
ہم انہیں باغچے کے دروازے پر کھڑا چھوڑ کر چل پڑے۔تب میں نے مسٹر مردسٹون کو سڑک کے ساتھ ساتھ اپنے گھر کی طرف جاتے دیکھا۔میں نے چھکڑے کی ایک طرف سے پیچھے مڑکر دیکھا۔اس نے میری و الدہ سے کوئی بات کی اور ان کے رونے پر غصہ کرنے لگا۔ مجھے والدہ کے معاملے میں اس کی اس مداخلت پرتعجب ہوا اور پگوٹی بھی حیرت زدہ نظر آنے لگی۔

۔۔۔۔۔

میں بے حد تھکا ہوا تو تھا مگر بہت خوش بھی تھا۔جب ہم یارماﺅتھ پہنچے تو پگوٹی کا بھتیجا پہلے سے ہمارا منتظر تھا۔ہام بڑے جثے کا ایک مضبوط آدمی تھا۔اس کا قد چھ فٹ تھامگر اس کا نو جوان چہرہ اسے لڑکا بنادیتا تھا۔ہام مجھے اپنی پیٹھ پر اٹھا کر گھرکی طرف چل پڑا۔تھوڑی دیر بعد ہم ایک نیچے اور بالکل سیدھے قطعہ زمین پر آگئے۔ہام بولا۔”ہمارا گھر یہاں ہے ،مسٹر ڈیوی!“
میری نظر جہاں تک جاسکتی تھی،میں نے چاروں طرف دیکھا مگر وہاں کوئی گھرنہیں تھا۔پھر تھوڑی ہی دور مجھے ایک سیاہ رنگ کی پرانی کشتی نظر آئی جسے کھینچ کر خشکی پر لے آیا گیا تھا۔ اس کی چھت میں لوہے کاایک پائپ چمنی کے طور پرلگادیا گیا تھا۔
چمنی سے نکلتے دھویں سے لگتا تھا کہ یہ کافی گرم اور آرام دہ جگہ ہے۔”کیا یہی ہے؟“میں نے کہا،”یہ تو جہاز کی طرح کی چیز نہیں ہے؟“
”یہی ہے مسٹر ڈیوی۔“ ہام نے جواب دیا۔
اصلی کشتی میں رہنے کا خیال میرے لیے بڑا خوش کن تھا۔وہاں ایک طرف دروازہ اورایک چھوٹی سی کھڑکی تھی۔مجھے تو رہنے کے لیے یہ ایک اچھی جگہ لگی۔
ایک افسردہ چہرے والی خاتون اورایک بہت خوب صورت چھوٹی سی لڑکی دروازے پر بیٹھی ہمارا انتظار کر رہی تھیں۔پھر وہ چھوٹی سی لڑکی بھاگ کر چھپ گئی۔ اس کا نام’املی‘تھا۔
تھوڑی دیر بعد جب ہم رات کا کھاناکھا رہے تھے،ایک شخص اندر آیا۔اس کے خوش گوار چہرے پر لمبے اور بے ترتیب بال بکھرے ہوئے تھے۔یہ پگوٹی کے بھائی’مسٹر پگوٹی‘تھے۔
بعد میں پگوٹی نے مجھے بتایا کہ ہام اور املی آپس میں چچا زاد ہیںاور مسٹر پگوٹی ان دونوںکے چچا۔پہلے ہام کے والدین کا انتقال ہوا اور پھر املی کے،یوں مسٹر پگوٹی نے ان کو گود لے لیا۔افسردہ چہرے والی خاتون مسٹر پگوٹی کے شراکت دار کی بیوہ تھی۔ ماہی گیری والی کشتی میں شراکت داراس کا شوہر ایک سمندری طوفان میں کشتی سے گر کر ڈوب گیا تھا۔یہی وجہ تھی کہ اب’مسزگومج‘ایک بہت غریب خاتون تھی اور مسٹر پگوٹی اب اس کا بھی خیال رکھتے تھے۔
اُس رات جب میں سونے گیا تو سمندر کی طرف سے طوفانی ہواﺅں کی آوازیں اور ساحل سے ٹکراتی لہروں کا شور سنائی دینے لگا مگر مجھے یہ سوچ کر اطمینان ہوا کہ مسٹر پگوٹی ہم سب کا خیال رکھنے کے لیے موجود ہیں۔
اگلی صبح بہت روشن تھی اور دھوپ نکلی ہوئی تھی۔میں بستر سے نکل کر املی کے ساتھ ساحل سے سیپیاں چننے چلا گیا۔
”میرا خیال ہے تمہیں کشتی رانی کا شوق ہے؟“میں نے املی سے کہا۔
”نہیں۔“املی نے سر کھجاتے ہوئے کہا،”مجھے سمندر سے خوف آتا ہے۔“
”خوف!“میں نے دلیری کے ساتھ سمندر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا،”مجھے تو نہیں آتا۔“
”اوہ،مگر یہ بہت ظالم ہے۔“املی بولی،”میں نے اپنے گھر سے بڑی کشتی اس میں تباہ ہوتے دیکھی ہے۔“
املی ایک بہت اچھی لڑکی تھی۔ہم سارا دن ساحل پر چلتے اور کھیلتے رہتے اور شام کو انگیٹھی کے سامنے بیٹھ کر ایک دوسرے کو کہانیاں سناتے ۔
بالآخر وہ دن بھی آگیا جب ہم وہ جگہ چھوڑ کر واپس آگئے اور جب میں واپس گھر پہنچا تو عظیم تبدیلیاں آئی ہوئی تھیں۔میری والدہ نے مسٹر مردسٹون سے شادی کرلی تھی اور اب وہ میرا سوتیلا باپ تھا۔
اگرچہ مردسٹون میری والدہ کو بہت چاہتا تھا مگر وہ ایک ہمدرد انسان بالکل نہیں تھا۔”ڈیوڈ!“اس نے ایک دن مجھ سے کہا،”اگر میرا گھوڑا یا کتا بھی میرے نا فرمان ہوجائیں تو میں انہیں بھی ضرور ماروں گا۔میں ان کی سخت پٹائی کروں گا۔میں اپنے دل میں سوچتا ہوں کہ میں انہیں ہرا دوں گا اور اپنے عزم سے انہیں فرماں بردار بنا لوں گا۔“میں سمجھ گیا کہ اگر میں نے مسٹرمر دسٹون کو ناراض کیا تو وہ مجھے مارے گا۔
اس کے بعد جلدہی ایک شام مسٹر مردسٹون کی بڑی بہن’مس مرد سٹون‘آگئی۔وہ ا پنے بھائی کی طرح ایک سیاہ بالوں والی مگر بھینگی خاتون تھی۔وہ ہمارے گھر کی دیکھ بھال میں میری والدہ کی مدد کرنے آئی تھی اوراب اس نے ہمیشہ کے لیے ہمارے ساتھ ہی رہنا تھا۔

۔۔۔۔۔

ایک دن مسٹر اور مس مرد سٹون مجھے دور کسی اسکول میں بھیجنے کی باتیں کر رہے تھے۔انہوں نے اپنے منصوبے پر میری والدہ کو آمادہ کیا۔اس دوران میں گھر پر ہی سبق پڑھنے لگا۔
وہ سبق میں کبھی نہیں بھول سکتا۔مجھے ان کاوہ سلوک آج بھی یاد ہے۔میری والدہ مجھے پڑھانا چاہتی تھیں مگر حقیقت میں سبق مسٹر مردسٹون اور اس کی بہن کی طرف سے دیے جاتے تھے۔وہ لوگ ہمیشہ وہیں موجود رہتے تھے۔وہ اپنی مصروفیت کا دکھاوا کرتے مگر حقیقت یہ تھی کہ ہر وقت دخل اندازی کا بہانا تلاش کرتے رہتے اوردونوں مل کر کوشش کرتے کہ کسی طرح مجھے اتنا خوف زدہ کردیں کہ میں سیکھنے کی ہر کوشش چھوڑدوں۔
جیساکہ معمول تھا،روزانہ شام کو میں اپنی کتابوں میں سے چند اسباق پڑھتااور روزانہ صبح ناشتے کے بعد میں اپنی والدہ کے ہاتھ میں کتابیں پکڑا کر یاد کیے ہوئے اسباق سنانے لگتا۔مگر میںبغیر غلطیاں کیے نہ سنا سکتا۔ پہلی غلطی پر مسٹر مردسٹون نے مجھے دیکھا۔اگلی غلطی پر مس مردسٹون نے گھورا۔مزید غلطیوں پر میرا چہرہ شرمندگی کے مارے لال ہو گیا اور میں چپ ہو گیا۔میری والدہ میری کوئی مدد نہ کر سکیں بلکہ جرأت کرکے نہایت نرمی کے ساتھ انہوں نے صرف اتنا کہا”اوہ،ڈیوی ڈیوی!“
”کلارا!“مسٹر مردسٹون بولا،”اب لڑکے کو سنبھالو اور اسے سبق یاد ہو یا نہ ہو، دونوں صورتوں میں صرف اتنا مت کہو،”اوہ، ڈیوی ڈیوی!“
”اورجبکہ اسے یاد نہیں ہے۔“مس مردسٹون نے انتہائی بھونڈے انداز میں مداخلت کی۔
ایک صبح جب میں معمول کے مطابق بیٹھک میں بیٹھا ہوا تھا۔میں نے اپنی والدہ کو بے چین اور مس مرد سٹون کو انہیں گھورتے دیکھا جبکہ مسٹر مردسٹون ایک پتلی سی چھڑی کے سرے پر کچھ باندھ رہا تھا۔
”میں تمہیں بتاﺅں کلارا۔“مسٹرمردسٹون بولا،”میں جب بچہ تھا تو اپنے آپ کو بھی مارا کرتا تھا۔“
میں نے برے انداز میں سبق سنانے کی ابتدا کی اور پھر جب غلطی پر غلطی ہوئی تو یہ مزید خراب ہوتا گیا۔میں مزید خوف زدہ ہو گیا کہ مردسٹون نے جو کچھ کہا تھا وہ میرے پلے نہیں پڑسکا تھا۔بالآخر میری والدہ رونے لگیں۔
”کلارا!!“مسٹر مردسٹون نے خبردار کیا۔
پھر میں نے اسے اپنی بہن کو اشارہ کرتے دیکھا تھا۔وہ چھڑی ہاتھ میں لے کر کھڑا ہو گیا۔
“ڈیوڈ،تم اور میں اوپر چلتے ہیں بچے!!“
وہ مجھے ساتھ لے کر آہستہ آہستہ میرے کمرے کی طرف سیڑھیاں چڑھنے لگا۔اچانک اس نے میرا سر اپنے بازو میں دبایا اور جتنی زور سے ہو سکتا تھا چھڑی سے مارنا شروع کردیا۔اسی لمحے میںنے اس کا وہی ہاتھ جس سے اس نے میرا منہ دبارکھا تھا۔دانتوں میں دبایا اور کاٹ لیا۔
پھر اس نے مجھے اتنا مارا کہ لگتا تھا قتل کر ڈالے گا۔اسی وقت میں نے اپنی والدہ اور پگوٹی کی سسکیاں سنیں۔پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور دروازہ بند کرکے چلا گیا۔
میں پانچ دن تک اسی قید خانے میں پڑا رہا اور اس عرصے میں سارا وقت سوائے مس مردسٹون کے کسی کو نہیں دیکھ پایا۔
پانچویں رات شور سے میری آنکھ کھل گئی۔میں خوف زدہ ہو کر بستر سے اٹھ بیٹھا۔تب مجھے محسوس ہوا کہ دروازے کی دوسری طرف سے کوئی میرا نام پکار رہا ہے۔میں اٹھا اور تاریکی میں دروازے کے قریب جا کر سرگوشی میں پوچھا۔”پگوٹی ہو؟“
”ہاں، میرے انمول ڈیوی!“اس نے جواب دیا۔
”والدہ کیسی ہیں مہربان پگوٹی؟وہ تو مجھ سے بہت ناراض ہوں گی؟“
میں دروازے کی دوسری طرف سے پگوٹی کی ہلکی ہلکی سسکیاں سن رہا تھا۔اس نے جواب دیا۔”نہیں،اتنی بھی نہیں۔“
”وہ میرے ساتھ کیا کرنے جا رہے ہیں،مہربان پگوٹی؟“
”اسکول،سالم ہاﺅس لندن کے قریب۔“پگوٹی کا جواب تھا۔”کل۔“
پھر اس نے سرگوشی کی۔”پیارے ڈیوی!میں تم سے کچھ کہنا چاہتی ہوں۔میں نہیں جانتی کہ اب کیاہونے والا ہے مگر تم مجھے مت بھلانا ۔میں تمہاری والدہ کا اسی وفاداری کے ساتھ خیال رکھوں گی جس طرح تمہارا رکھتی آئی ہوں۔“
”بہت شکریہ مہربان پگوٹی،بے حد شکریہ۔“
صبح مس مردسٹون آئی اور مجھے اسکول کے بارے میں بتانے لگی مگر میرے لیے اب یہ کوئی حیران کن خبر نہیں تھی جیساکہ وہ سوچ رہی تھی۔وہ مجھے کہہ گئی کہ کپڑے بدل کر ناشتے کے لیے نیچے آجاﺅں۔
بیٹھک میں میری والدہ سرخ آنکھیں لیے انتہائی غم زدہ حالت میں بیٹھی تھیں۔ وہ لوگ میری والدہ کو یقین دلانے کی کوشش کر رہے تھے کہ میں ایک بدتمیز بچہ ہوںجبکہ میری ماں کو میرے خراب ہونے سے زیادہ مجھے کھودینے کا افسوس تھا۔اس بات نے مجھے بھی بہت افسردہ کر دیا تھا۔

۔۔۔۔۔

۲۔گھر سے باہر
جلد ہی ایک بگھی دروازے پر آکر رکی۔میری نگاہیں پگوٹی کو تلاش کر رہی تھیں مگر مجھے نہ تو پگوٹی نظر آئی اور نہ ہی مسٹر مرد سٹون۔
جیسے ہی میرا سامان بگھی میں رکھا گیا،میری والدہ نے مجھے گلے سے لگایا اور بولیں،”خداحافظ ڈیوی….میری دعا ہے کہ اسکول تمہارے لیے اچھا ثابت ہو….میں نے تمہیں معاف کیا میرے پیارے بچے….خدا تمہاری نگہبانی کرے گا۔“
”کلارا!!“مس مردسٹون نے خبردار کیا۔
مس مردسٹون میرے ساتھ بگھی تک آئی اورمیں سوار ہوگیا، پھر ہم گھر سے چل پڑے۔تھوڑی ہی دیرمیں میرارومال مکمل طور پرآنسوﺅں سے بھیگ چکا تھا۔
تقریباً آدھا میل چل کراچانک بگھی رک گئی۔
میں اس وقت حیران رہ گیا جب پگوٹی بگھی میں چڑھ آئی اور دونوں بازوﺅں میں مجھے زور سے بھینچ لیا۔پھر اس نے کچھ کیک نکال کر میری جیب میں بھر دیے مگر منہ سے ایک لفظ نہ نکال سکی۔پھر اس نے ایک بٹوہ نکال کر میرے ہاتھ میں تھمایا اورآخری بار مجھے اپنے بازوﺅں میں بھینچ کربگھی سے اتری اور تیزی سے غائب ہو گئی۔
بٹوے میں تین چمک دار نقرئی سکے تھے اور پگوٹی نے انہیں صاف کرنے کے لیے اتنا رگڑا تھا کہ وہ چمک اٹھے تھے۔مگر اس بٹوے میں ایک چیز اور بھی ایسی تھی جو میرے لیے بہت بیش بہا تھی….یعنی مزید دو سکے جو دوسرے سکوں سے بڑے تھے اور کاغذ کے ایک ٹکڑے میں لپٹے ہوئے تھے۔کاغذ کے ٹکڑے پر میری والدہ کے ہاتھ سے یہ الفاظ لکھے ہوئے تھے۔”ڈیوی کے لیے….میری محبت کے ساتھ۔“
بگھی یارماﺅتھ جا کر رکی۔عجلت میں تھوڑا سا کھانا کھانے کے بعد مجھے ایک بڑی بگھی میں بٹھادیا گیا اورلندن کی طرف میرا سفر شروع ہو گیا۔جب میں نے دور سے لندن کو دیکھاتو میرا جوش اور تجسس بڑھ گیا۔ہم رفتہ رفتہ قریب ہو تے جا رہے تھے اور بالآخر ہماری بگھی ایک چھوٹے سے ہوٹل کے سامنے جا کر رک گئی۔
بگھی سے اتر کردفتر کی طرف جاتے ہوئے میں اپنے آپ کو بہت اکیلا محسوس کر رہا تھا۔نہ تو کوئی مجھ سے ملنے آیا اور نہ ہی کوئی ایسا شخص نظر آیا جو یہ بتا سکتا کہ میرے ساتھ آگے کیا ہوگا۔میں دفتر میں جا کرنیچے بیٹھ گیا اور یہ سوچنے لگا کہ شایدمردسٹون مجھے لندن میں کھودینا چاہتا ہے۔اوراگر میں گھر واپس چلا جاﺅں تو کیا ہوگا؟کیا پگوٹی کے ساتھ کوئی اور بھی میرا خیر مقدم کرے گا؟
مگر پھر کالے سوٹ میںایک پتلا اور لمبا جوان آدمی اندر داخل ہوااوراس نے کلرک کے ساتھ سرگوشی کی۔میں نے دیکھا کہ اس کا سوٹ ٹانگوں اور بازوﺅں سے خاصا چھوٹا تھا۔
”تم نئے لڑکے ہو؟“ اس نے مجھ سے سوال کیا۔
میرا خیال تھا کہ میں ہوں تو ضرور مگر مجھے کچھ سمجھ نہ آیا کہ کیا کہوں۔
”میں سالم ہاﺅس اسکول کے اساتذہ میں سے ایک ہوں۔“اس نے کہا،”میرا نام مسٹر میل ہے۔“
”براہ کرم جناب!“میں نے کہا،”یہ بتائیے کہ کیا اسکول یہاں سے دور ہے؟“
”تقریباً چھ میل کے فاصلے پر ہے۔ہم بگھی سے جائیں گے۔“
سالم ہاﺅس چوکور اینٹوں سے بنی ایک عمارت تھی جو سنسان نظر آتی تھی۔وہاں اتنا سناٹا تھا کہ لگتا تھاسارے لڑکے باہر گئے ہوئے ہیں۔تاہم مسٹر میل نے مجھے بتایا کہ یہ چھٹیوں کے دن ہیں اور تمام لڑکے گھروں کو چلے گئے ہیں۔انہیں حیرت ہوئی کہ مجھے چھٹیوں کے بارے میں معلوم نہیں تھا۔اسکول کے مالک مسٹر کریکل اپنی اہلیہ اور بیٹی کے ساتھ ساحل پر گئے ہوئے تھے۔میں نے یہ اندازہ لگایا کہ میرے برے رویے کی سزا کے طور پر مجھے چھٹی کے دنوں میں اسکول بھیج دیا گیاہے اور چار ہفتوں تک نہ تو کوئی بچہ یہاں آئے گا اور نہ ہی کوئی سبق ہوگا۔
مسٹر میل نے مجھے ساتھ لیا اور کلاس روم میں جاکر اکیلا چھوڑ دیا۔میرے ذہن میں آیا کہ یہ ایک سنسان اور افسردہ کردینے والی جگہ ہے۔میں ٹکٹکی باندھ کر ڈیسکوں کی لمبی قطاروں اور لکھنے کی مشق کرانے والی پرانی کتابوں کو دیکھنے لگا جو گندے فرش پر پڑی تھیں۔پھر میں چلتا ہوا لمبے کمرے کے دوسرے سرے پر پہنچا اور اچانک میری نظر ڈیسک پر پڑے گتے کے ایک ٹکڑے پر پڑی جس پر لکھا تھا۔”خیال رکھیے،یہ کاٹتا ہے۔“
میرے ذہن میں خیال آیا کہ یہاں کمرے میں ضرور کوئی بڑا کتا ہے۔میں خوف زدہ ہو کر ڈیسک پر چڑھ گیا۔
مسٹر میل جب واپس آئے تو انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ میں یہاں کیوں کھڑا ہوں۔
”گستاخی معاف جناب۔“میں نے کہا،”میں کتے کو دیکھ رہا ہوں۔“
”کتا؟“وہ بولے،”کون سا کتا؟“
”وہی جو کاٹتا ہے۔“
”نہیں کاپر فیلڈ۔“وہ مایوسی سے بولے،”اس احتیاط کا اشارہ کتے کی طرف نہیں بلکہ لڑکے کی طرف ہے۔میں یہ احتیاط تمہاری پیٹھ پر لگادوں گا ،کاپر فیلڈ!….میں اس کے لیے معذرت خواہ ہوں مگرمیں یہ ضرور کروں گا۔“
انہوں نے مجھے ڈیسک سے اتار ااور میرے کندھوں کے ساتھ وہ گتا لٹکا دیا۔اب میں جہاں بھی جاتا اسے پہنے رکھتا۔
میں نے کتنے مصائب کا سامنا کیا، یہ کوئی نہیں جانتا۔لوگ خواہ مجھے دیکھ رہے ہوتے یا نہ دیکھ رہے ہوتے۔میرے ذہن میں یہی تصور ہوتا کہ کچھ لوگ اس گتے کے ٹکڑے کوپڑھ رہے ہیں۔جلد ہی اسکول میںپینتالیس بچے موجودہوں گے اور میں تصور کرتا جیسے وہ سب مختلف آوازوں میں رو رہے ہوںاور کہہ رہے ہوں۔”خیال رکھیے ،یہ کاٹتا ہے۔“
تقریباً ایک ماہ بعد مسٹر کریکل واپس آئے۔اس شام مجھے حکم ملا کہ رات کو بستر میں جانے سے پہلے ان کے کمرے میں حاضری دوں۔جب میں نے انہیں دیکھا تو بہت خوف زدہ ہو گیا۔
مسٹر کریکل ایک معزز آدمی تھے جن کے ہاتھ میں ہمیشہ چابیوں کا گچھا رہتا اور اس کے ساتھ لگی زنجیرمیں گھڑی لٹکتی رہتی۔جب میں ان کے کمرے میں گیا تووہ ایک بڑی سی کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے جس کے ساتھ ایک بڑی سی مشروب کی بوتل اور گلاس رکھے ہوئے تھے۔وہ اپنے سرخ چہرے کی وجہ سے بہت غصیلے نظر آتے تھے۔ان کی چھوٹی چھوٹی آنکھیں اندر دھنسی ہوئی تھیں۔ ان کی ناک چھوٹی سی اور تھوڑی موٹی سی تھی۔ان کے بال اوپر سے غائب تھے اور دونوں طرف سے سنورے ہوئے تھے جو ہمیشہ گیلے نظر آتے تھے۔تاہم مسٹر کریکل کے بارے میں ایک چیز یہ تھی کہ میں ان کے وجود سے کچھ زیادہ ہی خوف زدہ تھا….ان کی آواز زیادہ اونچی نہیں تھی اس لیے انہوں نے محض سرگوشی میں بات کی۔
دراصل مسٹر کریکل مجھے یہ بتانا چاہتے تھے کہ وہ بھی میرے سوتیلے باپ مسٹر مردسٹون کی طرح ارادے کے ایک پکے آدمی ہیں اور وہ مجھے فرماں بردار بنا کر رہیں گے۔
”جب میں تمہیں کوئی کام کرنے کا کہوں تو لازم ہے کہ اسے یقینی بناﺅ۔“انہوں نے میرا کان پکڑ کر زورسے کھینچتے ہوئے سر گوشی کی۔
میں بہت خوف زدہ تھا مگر میں نے ایک بہت اہم بات ان سے کہی،”مہربانی ہوگی جناب۔“میں نے لرزتی آواز کے ساتھ کہا، ”مہربانی کرکے بچوں کے واپس آنے سے پہلے میری پشت سے یہ گتے کا ٹکڑا ہٹوا دیجیے۔میں معذرت خواہ ہوں جناب مگردر حقیقت یہ بڑا ہی برا سلوک ہے۔“
مسٹر کریکل نے اپنی کرسی سے چھلانگ لگائی اور میں بھاگ کھڑا ہوا اور اس وقت تک نہ رکا جب تک اپنی آرام گاہ میں نہ پہنچ گیا۔میں خوف کے مارے دو گھنٹے تک اپنے بستر میں گھسا کانپتارہا۔
خوش قسمتی سے جو پہلا لڑکا واپس آیا وہ اس احتیاطی تختی کوایک مزاحیہ چیز سمجھا۔اس کا نام’ٹومی ٹریڈلس‘ تھا۔اس نے یہ کہہ کر مجھے دوسرے سب لڑکوں سے متعارف کرایا کہ”یہاں دیکھو،یہ ایک دلچسپ کھیل ہے۔“
کچھ لڑکوں نے مجھے کتا فرض کرکے ہلکی سی چھڑی لگائی اور بولے،”آرام سے بیٹھ جاﺅ لڑکے۔“ پہلے پہل تو مجھے بالکل اچھا نہ لگا لیکن پھر میں نے دیکھا کہ یہ دوستانہ انداز میںکھیل کھیل رہے ہیں۔میںنے سوچا کہ یہ احتیاطی گتا اتنا برا نہیں ہے جتنی میں توقع کر رہا تھا۔
اسکول کا سب سے پرانا لڑکا’جےاسٹریٹ فورتھ‘تھا۔وہ مجھ سے چھ سال بڑا تھا اور میرا بڑا ہمدرد تھا۔اس نے میرے سات شلنگ سے پھل،مشروب اور کیک خریدنے میں میری مدد کی جو ہم نے آدھی رات کو اپنی آرام گاہ میں بیٹھ کر کھائے۔لڑکے کھا پی کر بڑے خوش ہوئے اور کھانے کے دوران انہوں نے مجھے اسکول کے بارے میں بہت سی چیزیں بتائیں۔

۔۔۔۔۔

اگلے دن سے اسباق شروع ہوگئے مگر اچانک آوازوں کی گونج اس وقت تھم گئی جب مسٹر کریکل کمرے میں داخل ہوئے۔
”لڑکو!اب….“انہوں نے سرگوشی کی۔”یہ نئی شرط ہے کہ محتاط رہو اور تمیز سے بات کرواور میں تمہیں مشورہ دوں گا کہ اپنے اسباق میں سخت محنت کرو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو میں سخت سزا دینے میں ضرور محنت کروں گا اور بالکل نہیں ہچکچاﺅں گا….میں تمہارے جسموںپر ایسے نشان لگاﺅںگاجوتم کبھی نہیں مٹا سکو گے…. اور اب تم سب لوگ اپنا کام شروع کرو۔“
جب یہ خوف ناک تقریر ختم ہوئی تو مسٹر کریکل میری ڈیسک پر آئے اور کہنے لگے کہ وہ جانتے ہیں کہ میں کاٹنے میں مشہور ہوں حالاں کہ وہ خود کاٹ کھانے میں مشہور تھے۔وہ مجھے چھڑی دکھاتے ہوئے بولے،”یہ اسی طرح تیز نہیں ہے جیسے دانت تیز ہوتے ہیں؟یہ دانت کی طرح نہیں کاٹ لیتی؟“ ہر سوال کے بعد وہ مجھے ایک ضرب لگاتے اور جلد ہی میرا چہرہ آنسوﺅں سے بھر چکا تھا۔
اسٹریٹ فورتھ اس حوالے سے ایک کارآمد دوست تھا کہ وہ مجھے بچانے کی پوری کوشش کرتا تھامگروہ اس وقت کچھ نہ کر سکا اور مجھے مسٹر کریکل سے نہ بچا سکا۔مسٹر کریکل میرے لیے بہت ظالم ثابت ہوا تھا مگربہرحال اس کے ظلم کا ایک فائدہ ضرور ہوا تھا۔وہ ہمیشہ میرے پیچھے چلتے ہوئے مجھے مارنا فرض سمجھتا تھا اور میری پشت پر لگی گتے کی تختی مجھے بچا لیتی تھی،یہی وجہ تھی کہ اس نے جلد ہی وہ گتا اتروا لیا جو مجھے بعد میں کہیں نظر نہ آیا۔
مسٹر میل کے ساتھ تعلق میرے لیے بہت مددگار ثابت ہوا۔وہ مجھے پسند کرتے تھے مگر مجھے ان کے ساتھ اسٹریٹ فورتھ کا برا رویہ دیکھ کر بہت افسوس ہوتا۔
ہفتے والے دن مسٹر میل بے چارے پڑھا رہے تھے مگر کمرے میں بے حد شور تھا۔ہر طرف لڑکے ہنس رہے تھے،گا رہے تھے، بول رہے تھے، ناچ رہے تھے، چلا رہے تھے،چل رہے تھے اور مذاق کر رہے تھے۔
”خاموش!“مسٹر میل کھڑے ہو کر چلائے،”تم لوگ اتنا شور کیوں مچا رہے ہو؟….مجھ میں مزید برداشت نہیں ہے….میں تم لوگوں سے بے حد ناراض ہوں….تم لوگوں کو اندازہ بھی ہے کہ تم لوگ میرے ساتھ کتنا غلط کر رہے ہو؟“
تمام لڑکے خاموش ہو گئے۔ان میں سے کچھ حیرت زدہ تھے،کچھ نیم خوف زدہ اور شاید کچھ شرمندہ بھی۔
اسٹریٹ فورتھ طویل کمرے کے دوسرے سرے پر کھڑا تھا۔وہ جیبوں میں ہاتھ ڈالے، دیوار سے ٹیک لگائے کھڑامسٹر میل کو دیکھ رہا تھااور مسٹر میل کے خیال میں وہ سیٹی بجا رہا تھا۔
”خاموش ہو جاﺅ،مسٹر اسٹریٹ فورتھ۔“ مسٹر میل بولے۔
”آپ خود خاموش ہو جائیے۔“اسٹریٹ فورتھ بولا،”اور مجھے حکم دینے کی ضرورت نہیں۔“
”بیٹھ جاﺅ۔“مسٹر میل نے کہا۔
”آپ خود بیٹھ جائیے۔“ اسٹریٹ فورتھ بولا۔
لڑکوں میں سے کچھ ہنسنے لگے اور کچھ تالیاں بجانے لگے مگر مسٹر میل نے فوراً قابو پانے کی کوشش کی اور جلد ہی وہ سب دوبارہ خاموش ہو گئے۔
”اگر تمہارا خیال ہے اسٹریٹ فورتھ کہ تم ایک چہیتے کی حیثیت سے اپنی طاقت استعمال کرکے ایک معزز شخص کے ساتھ بد اخلاقی کر سکتے ہو….“
”ایک معزز شخص!….مجھے تو یہاں کوئی معزز شخص نظر نہیں آرہا!“ اسٹریٹ فورتھ بات کاٹتے ہوئے بولا۔
ٹریڈلس چلایا،”شرم کرو، جےاسٹریٹ فورتھ!….یہ بہت ہی بری بات ہے۔“
مسٹر میل نے ٹریڈلس سے کہا کہ تم بھی خاموش رہو اور اپنی بات جاری رکھی۔”کسی ایسے شخص کے ساتھ بدتمیزی کرنا جس کی زندگی مشکلات سے دوچارہو اور اس نے کبھی تمہیں تکلیف بھی نہ دی ہو،تمہاری بے شرمی اور گھٹیا پن کو ظاہر کرتا ہے۔مسٹر اسٹریٹ فورتھ! تم بیٹھ جاﺅ یا چاہو تو کھڑے رہو۔جیسے تمہاری مرضی۔“
”ایک منٹ رکیے!“اسٹریٹ فورتھ چلتا ہوا سامنے آکھڑا ہوا۔”میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں مسٹر میل کہ آپ نے مجھے گھٹیا اور بے شرم کہا حالانکہ آپ خود ایک بے حیا بھکاری ہیں۔“
پھر اچانک پوری جماعت ایسے خاموش اور ساکت ہوگئی جیسے سانپ سونگھ گیا ہو۔دراصل مسٹر کریکل اندر داخل ہوئے تھے۔
مسٹر کریکل بہت غصے میں تھے۔انہوں نے مسٹر میل سے کہا کہ جماعت آپ کے قابو سے باہر ہو چکی ہے۔آپ ان کو قابو میں نہیں رکھ پا رہے۔انہوں نے کہا کہ وہ نہیں چاہتے کہ مسٹر میل اسکول میں مزید کام کریں اور انہیں چھوڑنے کو کہہ دیا۔اس کے بعد انہوں نے ٹومی ٹریڈلس کو چھڑی سے مارا کیونکہ وہ مسٹر میل کے استعفےٰ پر رونے لگا تھا۔
چند دن بعد میری سال گرہ آگئی۔اساتذہ میں سے ایک نے مجھے کہا کہ مسٹر کریکل کے پاس جاﺅ۔میں یہ سوچ کر خوشی خوشی چلا گیا کہ پگوٹی نے مجھے کچھ بھیجا ہوگا مگر جب میں نے مسٹر کریکل اوران کی اہلیہ کو ان کے کمرے میں اپنا انتظار کرتے پایا تو میں سمجھ گیا کہ معاملہ کچھ گڑ بڑ ہے۔
بیگم کریکل غمگین لہجے میں مجھ سے مخاطب ہوئیں۔انہوں نے کہا کہ وہ مجھے میری والدہ کے بارے میں کچھ بناتا چاہتی ہیں۔پھر مجھے بتایا گیا کہ میری والدہ بے چاری انتقال کر گئی ہیں۔مجھ پر تو جیسے غم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ہوں۔مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں۔مجھے محسوس ہوا کہ اب میں بھری دنیا میں مکمل طور پر تنہا ہو گیا ہوں۔
بیگم کریکل نے مجھ سے بہت ہمدردی کی اور سارا دن میرا خیال رکھا۔میں اس وقت تک مسلسل روتا رہا جب تک اتنا نہ تھک گیا کہ نیند آنے لگ گئی۔
اگلے دن دوپہر کے وقت میں سالم ہاﺅس سے نکلا اور پھر کبھی لوٹ کر نہ گیا۔

۔۔۔۔۔

۳۔کام کی شروعات
میری والدہ کے کفن دفن کے بعد مس مردسٹون نے پہلا کام یہ کیا کہ پگوٹی کو نکال دیا۔اسے چھوڑنے کے لیے ایک ماہ کا وقت دیا گیاتھا۔پگوٹی نے کہا کہ وہ دو ہفتے اپنے بھائی کے گھر یارماﺅتھ جا کر رکے گی۔اس نے مس مردسٹون سے مجھے بھی ساتھ لے جانے کی اجازت مانگی۔
”اوہ“مس مردسٹون بولی،”میرا خیال ہے کہ میرے بھائی کو اس بات پر کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہیے….اس لیے لڑکا جا سکتا ہے۔“
یارماﺅتھ میں مسٹر پگوٹی اور ہام ہمارے منتظر تھے۔جلد ہی ہمیں مسٹر پگوٹی کا گھر نظر آگیا۔وہی منظر تھا۔مسز گومج پہلے کی طرح دروازے پر ہماری منتظر تھیں مگر اس بار املی نظر نہ آئی۔مسٹر پگوٹی نے بتایا کہ وہ اسکول گئی ہوئی ہے۔
میں جانتا تھا کہ وہ کون سے راستے سے واپس آئے گی۔اس لیے میں اس سے ملنے کے لیے آہستہ آہستہ اس راستے پر چل پڑا۔
تھوڑا سا فاصلہ طے کیا تھا کہ وہ آتی ہوئی نظر آئی۔میں نے اس کی گہری نیلی آنکھوں سے ہی اسے پہچان لیا۔میں نے سوچا کہ میں اس کے ساتھ کھیل کھیلتا ہوں کہ جیسے میں اسے جانتا ہی نہیں۔میں تھوڑاسا فاصلہ رکھ کر اس کے پاس سے گزرامگر ننھی املی نے ذرا بھی دھیان نہ دیا۔اس نے مجھے ایک عام سے انداز میں دیکھا اور ہنستی ہوئی چلی گئی۔
ظاہر ہے،میں بھی اس کے پیچھے چل پڑا اور جھونپڑے کے بالکل قریب پہنچ کر میں نے اسے پکڑ لیا۔
”اوہو۔یہ تم ہو؟“ننھی املی بولی۔
”اوہ۔تم جانتی تھیں کہ وہ کون تھا۔“میں نے کہا۔
”اور تم نہیں جانتے تھے کہ میں کون تھی؟“املی بولی۔
پھر وہ ہنسنے لگی اور بولی کہ اب میں بالکل چھوٹی بچی تو نہیں۔پتا نہیں کیوں مجھے اب اس کے رویے میں وہ دوستی،ہمدردی اور خوش اخلاقی نظر نہ آئی جو میں نے اس کے علاوہ کسی اور میں نہ دیکھی تھی۔
چائے پینے کے بعد ہم انگیٹھی کے پاس بیٹھے تو میں نے اسے سالم ہاﺅس کے بارے میں بتایااور خاص طور پر اسٹریٹ فورتھ کا بھی ذکر کیا۔
”وہ بہت وجیہ ہے۔“میں نے کہا،”اوربہت بڑے دل کا مالک،اعلیٰ خاندان کا ایک نفیس نوجوان ہے ۔ میں اس سے زیادہ کسی کی تعریف نہیں کر سکتا۔“
میں محبت سے اسٹریٹ فورتھ کا ذکر کررہا تھا مگر جب میں نے املی کا چہرہ دیکھا تو وہ پوری توجہ سے سن رہی تھی۔اس کی نیلی آنکھیں جواہرات کی طرح چمک رہی تھیں اور اس کے گال سرخ ہو رہے تھے۔میں رک گیا اور حیرت سے اسے دیکھنے لگا جبکہ باقی سب بھی اسے دیکھ کر ہنسنے لگے۔
”املی میری طرح ہے۔“پگوٹی بولی۔”اور یہ بھی جوان مسٹر اسٹریٹ فورتھ کو دیکھنا چاہتی ہے۔“
املی نے شرم کے مارے اپنا چہرہ چھپا لیا۔تھوڑی دیر بعد چہرہ اوپر اٹھا یا اور دیکھا کہ ہم سب ابھی تک اسے ہی دیکھ رہے تھے۔ وہ فوراً اٹھ کر بھاگ گئی اور اس وقت تک واپس نہ آئی جب تک سونے کا وقت نہ ہو گیا۔
وقت گزرنے کا پتا ہی نہ چلا اور وہ دن بھی آگیا جب میں اپنے بے سکون گھر میں واپس آگیا مگر اس بار پگوٹی کے بغیر۔

۔۔۔۔۔

ایک دن صبح ناشتے کے بعد میں اپنے کمرے کی طرف جا ہی رہا تھا کہ مسٹر مردسٹون نے مجھے رکنے کو کہا۔اس کا دوست ’مسٹر قونین‘ بھی وہیں ٹھہرا ہوا تھااور اس وقت جیبوں میں ہاتھ ڈالے کھڑکی سے باہر کھڑا دیکھ رہا تھا۔
”ڈیوڈ!“مسٹر مردسٹون بولا۔”نوجون لوگوں کو ہر وقت کاہلی کے ساتھ گھر پر نہیں بیٹھے رہنا چاہیے۔تعلیم بہت مہنگی ہے اور میں امیر آدمی نہیں ہوں۔میں مزید تمہیں اسکول نہیں بھیج سکتا۔تم اپنی زندگی کی ضروریات اور ذمہ داریاںخود اٹھانا سیکھو اور جتنی جلدی ہو سکے کام کرنا شروع کردو۔“
مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ میں اپنی بے یار ومددگارزندگی کا سفر پہلے ہی شروع کر چکا تھا۔
”تم نے مجھے’مردسٹون اینڈ گرمبی‘کمپنی کے مشروبات کا ذکر کرتے سنا ہوگا….مسٹر قونین یہاں موجود ہیں،یہی اس کاروبار کا انتظام دیکھتے ہیں….وہاں ان کے پاس لڑکوں کی ایک بڑی تعداد کام کرتی ہے….ان کا مشورہ ہے کہ تم بھی ان میں شامل ہو جاﺅ،لہٰذا تم مسٹر قونین کے ساتھ لندن جا رہے ہو ڈیوی!…. تاکہ دنیا میں اپنا مقام بنانے کی شروعات کر سکو۔“

۔۔۔۔۔

مردسٹون اینڈ گرمبی دریا کے بالکل کنارے پرواقع تھی ۔ ایک بہت عجیب سی عمارت تھی ۔پانی کی لہریں عمارت سے ٹکراتیں اور جب واپس جاتیں تو کیچڑ چھوڑ جاتیں۔ مجھے سڑے ہوئے بدبودار فرش اور سیڑھیوں پر آوازیں نکالتے اور کھرچتے بڑے بڑے سرمئی چوہے آج بھی اچھی طرح یاد ہیں۔عمارت تقریباً ویران تھی۔
میرا کام یہ تھا کہ خالی بوتلوں کو اوپر اٹھا کر روشنی کے سامنے جانچتا اور اگر کسی بوتل میں کوئی خرابی ہوتی تو اسے الگ کر دیتا تاکہ وہ دوبارہ استعمال نہ ہو نے پائے۔دوسرا کام تھا بوتلوں کو دھونا….اور جب جانچ کا کام نہ ہوتا تو بھری ہوئی بوتلوں پر ڈھکن لگاتا اور انہیں ڈبوں میں رکھتا۔یہ کام میرے ساتھ دوتین اورلڑکوں کے بھی کرتے تھے۔
تعلیم یا فتہ اور معزز آدمی بننے کی میری ساری امیدیں ٹوٹ چکی تھیں اور میں اپنے حالات کی وجہ سے مایوسی کا شکارتھا۔

۔۔۔۔۔

پہلے دن ساڑھے بارہ بجے مسٹر قونین نے اپنے دفتر کی کھڑکی کھٹکھٹا کر مجھے اندر آنے کا اشارہ کیا۔اندر درمیانی عمر کا ایک موٹا آدمی کتھئی کوٹ کے ساتھ کالے رنگ کا پاجامہ اورساتھ کالے ہی رنگ کے جوتے پہنے بیٹھا تھا۔اس کا بڑا اور انڈے کی شکل کا سر بغیر بالوں کے چمک رہا تھا۔اس کا منہ کافی بڑا تھااور اس کے کپڑے پرانے بہت اوربے ڈھنگے تھے۔
”یہ مسٹر میکابر ہیں۔“مسٹر قونین نے مجھ سے کہا۔”مسٹر مردسٹون، مسٹرمیکابر کو جانتے ہیں۔انہوں نے ان کوخط لکھا ہے اوراب یہ تمہیں رہنے کے لیے کمرہ دیں گے۔“
پھر مسٹر قونین نے مجھے ہفتے میں چھ شلنگ معاوضے پرباقاعدہ نوکری پر رکھا جو بعد میں سات شلنگ ہوگیا۔رات آٹھ بجے مسٹر میکابر دوبارہ آئے۔میں نے ہاتھ منہ دھوئے اور پھر ہم گھر کو چل پڑے۔میرا خیال ہے کہ میں اسے ہمارا گھر بھی کہہ سکتاہوں کیونکہ اس وقت ہم دونوں ساتھ ہی تھے۔
گھر سے بھی اسی طرح غربت جھلک رہی تھی جیسی اس کے مالک کے حلیے سے جھلک رہی تھی، مگر اس کے مالک نے اسے ایک باعزت گھر بنانے کی پوری کوشش کر رکھی تھی۔
مسٹر میکابر نے مجھے بیگم میکابر سے متعارف کرایا جو ایک پتلی سی کمزور خاتون تھیں اور اب جوان بھی نہیں رہی تھیں۔انہوں نے گود میں ایک بچہ اٹھایا ہوا تھا۔
وہاں تین بچے اور بھی تھے۔چار سال کاایک بچہ،تین سال کی ایک بچی اور ایک بچہ اور۔
بیگم میکابر سیڑھیاں چڑھ کر مجھے کمرہ دکھانے کے لئے آئیں۔کمرہ گھر کی چھت پر تھا اور اس میں بہت ہی معمولی سا فرنیچر تھا۔ سیڑھیاں چڑھنے کے بعد وہ بیٹھ کر ہانپنے لگیں۔
”شادی سے پہلے میں تصور بھی نہیں کر سکتی تھی کہ مجھے کمرے کرائے پر دینے پڑیں گے،مگر مسٹر میکابر آج کل مشکلات کا شکار ہیں اور تم خود سمجھ سکتے ہو….کہ میری اپنی خواہشات اور احساسات کی اہمیت بعد میں ہے۔“وہ بولیں۔
میں نے کہا،”جی بیگم میکابر۔“
”مسٹر میکابر پر جن لوگوں کی رقم قرض ہے،اگر وہ انہیں وقت پر ادا نہیں کرتے تو انہیں اس عمل کے نقصانات ضرور اٹھانے پڑیں گے….خون کبھی پتھر سے جاری نہیں ہو سکتا اور موجودہ حالات میں مسٹر میکابر سے بھی کوئی پیسا نہیں مل سکتا۔
یہاں آنے والے سارے لوگ وہ ہیں جنہیں میں دیکھتی اورسنتی ہوں کہ مسٹر میکابر نے پیسے دینے ہیں۔وہ سارا وقت یہاں کے چکر لگانے میں خرچ کرتے ہیں اور ان میں سے کچھ تو غضب ناک ہو کر باتیں بھی سناتے ہیں۔“
اس گھر میں اور اسی خاندان کے ساتھ میں اپنا فارغ وقت گزارتا تھا۔میں اپنا ناشتہ خود لاتا تھا….تھوڑا سا دودھ اوربہت ہی تھوڑی سی ڈبل روٹی جبکہ میرا عشائیہ بھی تھوڑی سی ڈبل روٹی کے ساتھ پنیر پر مشتمل ہوتا۔
اگرچہ میکابرگھرانے کے افراد مجھ پر مہربان تھے مگر میری زندگی اب بھی خوش گوار نہیں تھی۔میں صبح سے رات تک بدتہذیب آدمیوں اور لڑکوں کے ساتھ ایک غریب اور گندے بچے کی حیثیت سے کام کرتا۔میرے سارے پیسے کھانے پر خرچ ہو جاتے مگر اس کے باوجود اب تک پیٹ بھر کے کھانا نصیب نہ ہو سکا۔میں گلیوں میں گھومتا رہتا تھا اور شاید اسی طرح میں ایک چور بھی بن جاتا کیونکہ نہ تو میری دیکھ بھال کرنے والا کوئی تھا اور نہ ہی کوئی مدد کرنے والا۔میں نے اپنی بد نصیبی کو چھپائے رکھا اور کسی پر ظاہر نہ ہونے دیا،حتیٰ کہ میں نے پگوٹی کو جو خط لکھے، ان میں بھی کسی چیز کا ذکر نہ کیا۔
میں سمجھتا تھا کہ میری زندگی ناامیدیوں میں گھری ہوئی ہے اور میری تنہائیوں اور اس نوکری کی ذلتوں سے نجات کا کوئی راستہ نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔

مسٹر میکابر کی مشکلات نے مجھے اور زیادہ افسرہ کر رکھا تھا۔ایک شام بیگم میکابر مجھ سے چپکے سے مخاطب ہوئیں:
”ڈیوڈ کاپر فیلڈ!میں تمہیں ایک ہمدرد سمجھ کر بتا رہی ہوں کہ مسٹر میکابر کی مشکلات بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں۔“وہ بولیں۔”ایک پنیر کے ٹکڑے کے علاوہ گھر میں کھانے کو کچھ نہیں ہے۔“
بالآخر مسٹر میکابر جب بہت زیادہ مقروض ہو گئے تو ایک صبح سویرے ان کو گرفتار کرکے قید خانے میں ڈال دیا گیا۔اگلی اتوار کو میں ان سے ملنے کے لیے گیا۔وہ باہر ہی میرا انتظار کر رہے تھے اور پھر ہم ان کے کمرے میں چلے گئے۔ہم دونوں کافی دیر تک روتے رہے۔ انہوں نے مجھے بہت سنجیدگی سے نصیحت کی کہ میں ان کی زندگی سے سبق سیکھوں۔پھر انہوں نے کھانا خریدنے کے لیے مجھ سے ایک شلنگ ادھار لیا۔مسٹر میکابر نے خصوصی قانون کے تحت قید خانے سے رہائی کی درخواست دے رکھی تھی اور بیگم میکابر کو امید تھی کہ وہ چھ ہفتے میں رہا ہوجائیں گے۔
”اور پھر….“مسٹر میکابر بولے۔”مجھے کوئی شک نہیں کہ میرے پاس بے تحاشا دولت ہوگی ….اور وقت نے پلٹا کھایا تومکمل طورپر ایک نئی زندگی کی شروعات ہوگی۔“ان کا مطلب تھا کہ انہیں خوش نصیبی کے لوٹ آنے کی کچھ امید تھی۔
مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ آخرمسٹر میکابر رہا ہو گئے۔میں نے بیگم میکابر سے کہا،”بیگم میکابر! میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ اب جبکہ مسٹر میکابر مشکلات سے باہر نکل آئے ہیں تواب آپ لوگ کیاکرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟“
”میرا خاندان سمجھتا ہے کہ مسٹر میکابر بہت باصلاحیت انسان ہیں۔ان کا یہ خیال ہے کہ یہ تھوڑا سا اثر و رسوخ استعمال کر کے سرکاری نوکری حاصل کر سکتے ہیں۔“بیگم میکابر نے کہا۔وہ ہمیشہ’میرا خاندان‘ کے الفاظ استعمال کرتیں اور ان کے لہجے سے بھی یہ تاثر ملتا کہ وہ لوگوں کو کتنی زیادہ اہمیت دیتی ہیں۔
”میرے خاندان کا خیال ہے کہ مسٹر میکابر پلے ماﺅتھ چلے جائیں۔وہ کسی بھی کام کے لیے ایک سازگار اور موزوںترین جگہ ہے۔“
”اور آپ بھی ساتھ ہی جائیں گی،بیگم میکابر؟“
بیگم میکابر جواب دیتے ہوئے رونے لگیں:
”میں مسٹر میکابر کواکیلا نہیں چھوڑوں گی۔اگرچہ شروع میں انہوں نے مجھ سے اپنی مشکلات کو چھپایامگر میں انہیں اکیلا چھوڑوں گی؟….نہیں۔“بیگم میکابر روتی رہیں،”میں یہ نہیں کر سکتی۔“

۔۔۔۔۔

میں میکابر گھرانے کے چھوڑ جانے اور ایک بار پھر نئے لوگوں کے ساتھ رہنے پر مجبور ہونے کے بارے میں سوچنے لگا۔مجھے احساس ہونے لگا کہ میکابر گھرانے کی دوستی کے بغیر میری زندگی میں پھر سے اکیلا پن اور ناامیدی رہ جائے گی۔میں جانتا تھا کہ میری صورت حال اس وقت تک نہیں بدل سکتی جب تک میں خود اس سے فرار کا ارادہ نہیں کر لیتا۔
جب میکابر خاندان روانہ ہونے لگا تو ہم سب ہی بچھڑنے کا غم محسوس کررہے تھے۔
”میں وہ وقت کبھی یاد نہیں کروں گی ڈیوڈ کاپر فیلڈ….جب مسٹر میکابر مشکلات کا شکار تھے اور تمہارے بارے میں کچھ نہیں سوچ سکے۔“بیگم میکابر بولیں،”تم ہمارے لیے ایک عظیم دوست رہے ہو۔“
میں نے کہا کہ مجھے ان کے جانے کا بہت افسوس ہے۔
”میرے عزیز نو جوان دوست!“مسٹر میکابر بولے،”میں ایک ایسا آدمی ہوں جس کے پاس زندگی کے کچھ تجربات ہیں اور جب تک میرے دن پھر نہیں جاتے جوکہ مجھے امید ہے کہ جلد پھریں گے،میں تمہیں صرف چندمشورے ہی دے سکتا ہوں مگر میرے مشوروں کی بہت اہمیت ہے۔اگر مجھے یہ مشورے ملے ہوتے تو میں اس طرح مشکلات کا شکار کبھی نہ ہوا ہوتا….میری نصیحت ہے کہ جو کام آج کر سکو، اسے کل پر کبھی نہ چھوڑناکاپر فیلڈ….اور میرے مشورے کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ تنخواہ بیس پاﺅنڈ اور خرچ انیس پاﺅنڈ….خوش حالی۔تنخواہ بیس پاﺅنڈ،خرچ اکیس پاﺅنڈ….بربادی۔“
اگلی صبح میں سارے خاندان سے ملا اور افسردگی سے بگھی کو جاتے دیکھتا رہا۔
”ڈیوڈ کاپر فیلڈ!“بیگم میکابر جانے سے پہلے بولیں،”سلامت رہو۔تم نے جو کچھ ہمارے لیے کیا،ہم کبھی نہیں بھلا سکتے۔“
”کاپر فیلڈ!“مسٹر میکابر بولے،”خدا حافظ۔میری دعا ہے کہ تمہیں دولت اور خوشیاں ملیں۔اگر میرے حالات بدلے، جوکہ مجھے امید ہے جلد بدلیں گے تو میں تمہاری مدد کرکے خوشی محسوس کروں گا۔“
بگھی چل پڑی اور وہ میری طرف بہت سے رومال لہرانے لگے جبکہ میںانہیں بڑی مشکل سے جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔ ایک منٹ بعد بگھی غائب ہو گئی اور میں مردسٹون اینڈ گرمبی میں ایک تھکے ہوئے دن کا آغاز کرنے چل پڑا۔
تاہم زیادہ دن تک میرا وہاں کام کرنے کا ارادہ نہیں تھا۔میں وہاں سے بھاگ جانے کا ارادہ کر چکا تھا۔میں نے کسی بھی صورت بھری دنیا میں اپنی واحد رشتے دارخاتون کے پاس جانے کا ارادہ کرلیا تھا۔میں اپنی خالہ ’مس بیٹسی ٹروٹ وڈ‘ کے پاس جا کر اپنے دکھ بیان کرنا چاہتا تھا۔پگوٹی نے مجھے بتایا تھا کہ مس ٹروٹ وڈ نے ڈووَر کے کہیں قریب ایک چھوٹا سا چھونپڑا لیا ہوا ہے۔
میں نے ہفتے کی رات کا انتظار کیا اور پھر اپنے منصوبے کے مطابق بھاگ کھڑا ہوا۔

۔۔۔۔۔

۴۔میری خالہ
اگرچہ میں نے سوچا تو یہ تھا کہ میں ڈوور تک کا سارا سفر پیدل ہی کروں گا مگرحقیقت یہ ہے کہ میں پہلے ہی اپنی جدوجہد سے تھکا ہوا تھا،یہی وجہ تھی کہ لندن سے نکلتے ہی مجھے آرام کے لیے رکنا پڑا۔یہ دس بجے کا وقت تھا۔رات اندھیری ضرور تھی مگر ٹھنڈی نہیں تھی اور موسم اچھا تھا۔
میں نے اپنے سابقہ اسکول کی دیوار کی اوٹ میں رات بسر کرنے کا منصوبہ بنایا۔میں نے سوچا کہ اس طرح مجھے تنہائی کا احسا س نہیں ہوگا اور لڑکوں کے قریب ہونے سے مجھے اطمینان بھی رہے گا بشرطیکہ انہیں پتا نہ چلے کہ میں یہاں ہوں۔
کچھ مشکلات کے بعد میں سالم ہاﺅس کو ڈھونڈنے میں کامیاب ہوگیا اوروہ مخصوص جگہ بھی جہاں میں نے سونے کا منصوبہ بنایا تھا۔میںوہاں جا کر لیٹ گیا مگر میں تنہائی کا وہ احساس نہیں بھلا سکتا جو پہلی بار بغیر چھت کے کھلے آسمان تلے لیٹنے سے ہواتھا۔
دھوپ کی حدت اور سالم ہاﺅس کی صبح بجنے والی گھنٹی کی آواز سے میں جاگ اٹھا۔اس وقت جبکہ مسٹر کریکل کے لڑکے اٹھ رہے تھے ، میں دوری اختیار کرتے ہوئے ڈوور جاتی سڑک پر آگیا۔ اتوار کے اس دن ،میں تیئس میل تک چلتا رہا۔آخر کار راستہ چھوڑکر تھکا ہاراگھاس پر لیٹ گیا اور نیند کی آغوش میں چلا گیا۔
جب آنکھ کھلی تو صبح ہو چکی تھی۔میں نے اپنے آپ کو درختوں کے درمیان پگڈنڈی پر پڑا پایا جن پر پکے ہوئے لال سیب لٹک رہے تھے۔میں نے سوچا کہ مضافاتی علاقے تو بہت خوب صورت ہیں اور فیصلہ کیا کہ آنے والی رات بھی میں درختوں کے نیچے ہی گزاروں گا۔
اگلے بیس میل بھی میں اسی سڑک کے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔میری ٹانگیں اکڑ چکی تھیں اور کمزور ہو چکی تھیںاور میرے پیروں پر چھالے پڑ چکے تھے،تب بالآخر میںایک مرتبہ پھر درختوں کے نیچے پڑ کر سو گیا۔اگلے دن ڈوور کے قریب سمندر کنارے ایک کشادہ پہاڑی علاقے میں پہنچااور آخر کار چھ دن چلنے کے بعد ڈوور پہنچ گیا۔
سب سے پہلے میں نے ملاحوں سے اپنی خالہ کے بارے میں پوچھا مگر کوئی معلومات نہ مل سکی۔کسی نے میرے سوالوںکا سنجیدگی سے جواب نہ دیا۔تمام دکان داروںکو یقین تھا کہ میں بھکاری ہوں،یہی وجہ تھی کہ میرے کچھ کہنے سے پہلے ہی وہ مجھے وہاں سے بھگا دیتے۔ میںنے لندن سے یہاں تک کے سفر میں کہیں بھی اتنا اکیلا پن اور رنج محسوس نہیںکیا تھا جتنا اب یہاں آکر ہو رہا تھا۔میں بھوکا، پیاسا اور تھکا ہوا تھا مگر وہ لوگ ابھی تک میرا مذاق اڑا رہے تھے اور کہانیاں تراش رہے تھے۔
میں ایک بند دکان کی سیڑھیوں پر بیٹھا تھا کہ میری نظر ایک ڈرائیور پرپڑی جو رحم دل لگتا تھا۔میں نے اس سے پوچھنے کا فیصلہ کیا۔
”ٹروٹ وڈ۔“وہ بولا،”میںنے یہ نام کہیں دیکھا تو ہے۔یہ ایک بزرگ خاتون ہیں؟“
”ہاں۔“میںنے کہا،”خاصی بزرگ۔“
”وہاں اوپر کی طرف چلتے جاﺅ،جب تک کہ تمہیں سمندر کے سامنے کچھ گھر نظر نہ آجائیں۔“اس نے پہاڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
ایک لمبا راستہ طے کرنے کے بعد مجھے گھر نظر آنے لگے۔میں نے قریب ہی چھوٹی سی دکان پرجا کر پوچھا کہ اگر وہ مجھے مس ٹروٹ وڈ کے بارے میں بتا سکیں کہ وہ کہاں رہتی ہیں۔میں دکان دار سے بات کر رہا تھا جو ایک جوان خاتون کے لیے چاول تول رہا تھا۔مگر جوان خاتون اس طرح تیزی مڑی جیسے میں نے اس سے سوال کیا ہو،اور بولی،”مس ٹروٹ وڈ؟“تم ان سے کیوں ملنا چاہتے ہو ،لڑکے؟“وہ مجھ سے اس لیے پوچھ رہی تھی کیوں کہ وہ میری خالہ کی ملازمہ تھی۔
”میں ان سے ضروری بات کرنا چاہتا ہوں۔مہربانی ہوگی مس۔“میںنے کہا۔
جوان خاتون نے چاول اپنی چھوٹی سی ٹوکری میں ڈالے اور دکان سے نکل آئی۔اس نے مجھ سے کہا کہ اگر یہ جاننا چاہتے ہو کہ مس ٹروٹ وڈ کہاں رہتی ہیں تو میرے پیچھے پیچھے آﺅ۔جلد ہی ہم صاف ستھرے چھوٹے سے جھونپڑے کے پاس پہنچے جس کے سامنے ایک چھوٹا سا چوکور باغچہ تھا جو پھولوں سے بھرا ہوا تھا۔
”یہ ہے مس ٹروٹ وڈ کا گھر۔“ملازمہ بولی،”اب تم جانو۔“پھر وہ یہ ظاہر کرتی ہوئی اندر چلی گئی جیسے میرے یہاں آنے میں اس کا کوئی لینا دینا نہ ہو۔

۔۔۔۔۔

ایک خاتون گھر سے باہر آئیں اور میں نے فوراً انہیں پہچان لیا کہ وہ مس بیٹسی ہیں۔وہ بالکل میری والدہ جیسی تھیں اورمیرے ان کو پہچان لینے کی وجہ بھی یہی تھی۔
”پرے ہو جاﺅ!“مس بیٹسی سر کھجاتے ہوئے بولیں،”پرے ہو جاﺅ….!میں کسی لڑکے کو یہاں نہیں دیکھنا چاہتی۔مجھے اس بات پر کوئی حیرت نہ ہوئی کہ میری خالی میری طرف دیکھنا بھی نہیں چاہتیں کیوں کہ میرے کپڑے خوف ناک حد تک میلے، پھٹے ہوئے اور بے ڈھنگے ہو چکے تھے۔میرے بالوں نے کئی دنوں سے کنگھی دیکھی تک نہ تھی اور میں سر سے پاﺅں تک سڑکوں کی گرد سے اٹا ہوا تھا۔
مجھ میں ہمت تو نہیں تھی مگرمیر ی مجبوری بہت بڑی تھی۔میں آہستہ سے باغچے میں گیا، ان کے ساتھ جا کر بیٹھ گیااور انہیں انگلی سے چھوا:
”آپ کی مہربانی مس ٹروٹ وڈ۔“میںنے بات شروع کیا۔
انہوں نے کھڑے ہو کر میری طرف دیکھا۔
”آپ کی مہربانی ہوگی خالہ!میں آپ کا بھانجا ہوں۔“
”اچھا!“میری خالہ نے کہا اور ایک دم باغچے کی راہ داری پر بیٹھ گئیں۔
”میں ڈیوڈ کاپرفیلڈ ہوں….بلنڈرسٹون سے۔“
میں وضاحت کرنے لگا کہ میں یہاں کیوں آیا ہوں مگر میں زیادہ دیر تک اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا اور میری آنکھوں سے آنسو پھوٹ پڑے۔میری خالی نے جلدی سے مجھے ساتھ لیا اور بیٹھک میں لے آئیںاورآتے ہی پہلا کام یہ کیا کہ گھنٹی بجائی۔
”جینٹ!“میر ی خالہ نے آواز دی اور جب ان کی ملازمہ آئی تو انہوں نے کہا،”اوپر جا کر نہانے کے لیے پانی گرم کردو۔“
جینٹ نے قدرے حیرانی سے میری طرف دیکھا اور چلی گئی۔میری خالہ اوپر نیچے ٹہلتی رہیں۔وہ ایک دراز قد خاتون تھیں مگر ان کے چہرے کے نقوش اوران کا انداز کافی تند تھا اور ان کی شخصیت قابل اطمینان حد تک خوش گوار نہیں تھی۔ان کی آنکھیں چمک دار اور بال سرمئی تھے۔
کمرہ بالکل میری خالہ کی طرح صاف ستھرا تھا۔مضبوط فرنیچر پر بہترین پالش کی گئی تھی اور اسے اچھی طرح صاف کیا گیا تھا۔میری خالہ نے ایک بلی اور دو سدھائے ہوئے پرندے بھی پال رکھے تھے۔پاس ہی ایک کٹورا خشک پھول کی پتیوں سے بھرا ہوا رکھا تھااوربرتنوں کی ایک اونچی الماری جس کے شیشے کے دروازوں کے پیچھے ہر قسم کے برتن اور بوتلیں نظر آرہی تھیں۔
جب میں نہا چکا تو میری خالہ اور جینٹ نے مجھے ایک قمیص اور دو پاجامے دیے جو انہوں نے پڑوسیوں سے لیے تھے۔مجھے بہت تھکاوٹ اور کمزوری محسوس ہو رہی تھی اور تھوڑی دیر میں،میں کرسی پر ہی سو گیا۔
جب میں جاگا تو مجھے ایسا لگا کہ جیسے میں خواب دیکھ رہا تھااور میری خالہ میرے چہرے پر آتے بالوں کو کنگھی سے سنوار رہی تھیں اور مجھے ایسا لگا کہ میں نے ”پیارا بچہ“اور”بے چارا لڑکا“کے الفاظ بھی سنے تھے۔
میرے جاگنے کے تھوڑی دیر بعد ہم نے عشائیہ کیا۔ابھی تک میری خالہ نے میری زندگی کے بارے میں کوئی سوال نہیں کیا تھا۔مگر اب ایک ایک کرکے کافی سوالات پوچھنے کے بعد انہوں نے یہ معلوم کرلیا کہ کیا کچھ ہوا ہے۔جب میں نے انہیں اپنی والدہ اور پگوٹی کے بارے میں بتانا شروع کیا تو آنسوﺅں کا ایک سمندر تھا جو بہنا شروع ہو گیا تھااور میں مزید کوئی بات نہ کر سکا۔میں نے میز پر ہی سر رکھ کر اپنا چہرہ اپنے ہاتھوں سے چھپا لیا۔
”اگر بستر تیار ہے۔“میری خالہ نے جینٹ سے کہا،”تو ہم اسے اوپر لے چلتے ہیں۔“
صبح جب میں سیڑھیوں سے نیچے اتراتو میری خالہ ناشتے کی میز پر بیٹھی تھیں۔وہ بہت سنجیدہ نظر آرہی تھیںاورانہوں نے بتایا کہ انہوں نے مردسٹون کو تمام تفصیلات لکھ دی ہیں۔میں بہت خوف زدہ ہوگیا اور میں نے اپنی خالہ سے کہا کہ مجھے اس کے پاس دوبارہ رہنے کے لیے جانا پڑے گا۔
”مجھے نہیں معلوم۔“مس بیٹسی بولیں،” دیکھتے ہیں۔“
ایک ہفتے بعد مسٹر اور مس مردسٹون میری خالہ کے جھونپڑے میں آئے اور انہوں نے میری خالہ کو میرے بارے میں بہت سی من گھڑت باتیں بتائیں۔انہوں نے کہا کہ میں غصے کا تیز ہوں،انہوں نے یہ بھی کہا کہ چونکہ میں ایک نا شکرا انسان ہوں،اس لیے انہوں نے یہ سب کیااور یہ کہ میرا رویہ بھکاریوں جیسا ہے۔وہ مجھے اپنے ساتھ لے جانے کے لیے آئے تھے۔اور انہوں نے کہا کہ اگرمیں نہیں جانا چاہتا تو وہ پھرکبھی بھی مجھے اپنے گھر نہیں آنے دیں گے۔
پھر میری خالی نے مردسٹون سے کہاکہ انہوں نے جو بھی میرے بارے میں کہا،ان میں سے کسی بات پر بھی انہیں یقین نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ وہ اپنے گھر کے ساتھ ہی میرے لیے گھر بنائیں گی۔اس کے بعد مسٹر اور مس مردسٹون بغیر کوئی بات کیے جھونپڑے سے نکل گئے۔

۔۔۔۔۔

جلد ہی میری اور خالہ کی اچھی ذہنی ہم آہنگی ہو گئی اور وقت بہت خوش گوار گزرنے لگا۔
”ڈیوڈ!“ ایک شام وہ مجھ سے مخاطب ہوئیں،”ہمیں ضرور تمہاری تعلیم پر توجہ دینی چاہیے۔تم کنٹر بری کے اسکول میں جانا پسند کرو گے؟“
میں نے جواب دیا کہ میں ضرورپسند کروں گا۔کنٹربری زیادہ دور نہیں تھا اور اس طرح میں اپنی خالہ کے قریب ہی رہتا۔
اگلے دن ہم کنٹر بری گئے۔ پہلے ہم خالہ کے وکیل ’مسٹر وِک فیلڈ‘ کے دفتر میں رکے۔میری خالہ نے ان سے کہا کہ وہ کوئی ایسا اسکول تجویز کریں جہاں کی پڑھائی اچھی ہو اور سلوک بھی اچھا کیا جاتا ہو۔تھوڑی دیر کے تبادلہ خیال کے بعد وہ خالہ کو ساتھ لے کر اسکول دکھانے چل پڑے جو ان کے خیال میں مناسب تھا۔میں مسٹر وک فیلڈ کے دفترمیں ہی ان کا انتظار کرنے لگا۔
انتظار کرتے ہوئے میری نظر ساتھ والے چھوٹے دفتر پر پڑی جہاں ایک لال بالوں والا دبلا پتلا جوان آدمی بیٹھا کام کررہا تھا۔ پہلے میرا خیال تھاکہ اس نے مجھے نہیں دیکھا مگر جلد ہی مجھے اندازہ ہو گیا کہ اس نے مجھے دیکھا ہے۔مجھے بے چینی ہونے لگی کیوں کہ ہر چند منٹ کے بعد وہ چپکے سے ایک منٹ تک مسلسل مجھے گھورتا۔اس دوران ظاہری طور پر اس کا قلم چلتا رہتا۔
بالآخر میری خالہ اور مسٹر وک فیلڈ واپس آگئے۔میری خالہ کو اسکول پسند آگیا تھا۔انہوں نے فیصلہ کیا کہ میں دن میں اسکول جایا کروں گا اور میری رہائش مسٹر وک فیلڈ کے ساتھ ہوگی۔”میرے ساتھ آئیے میری چھوٹی سی خادمہ سے ملیے۔“مسٹر وک فیلڈ نے ہم سے کہا۔
ہم سیڑھیاں چڑھ کر اندھیرے کمرے میں پہنچے۔ کمرے کی تمام کھڑکیوں کے ساتھ لکڑی کی کرسیاں لگی ہوئی تھیں۔کمرے میں بہت سے عجیب کونے بنے ہوئے تھے اور ہر کونے میں ایک میز،کرسی اور ایک کتابوں کی الماری لگی ہوئی تھی۔مسٹر وک فیلڈ نے آرام سے دروازہ کھٹکھٹایا۔ میری ہم عمر ایک لڑکی جلدی سے آئی اور اس نے ان کا ہاتھ چوم لیا۔اس کا چہرہ روشن اور مطمئن تھا اور اس کے مزاج میں سکون اور ٹھہراﺅ تھا،جسے میں ابھی تک نہیں بھول پایا اور نہ ہی بھول پاﺅں گا۔“
”یہ ہے میری ننھی خادمہ،میری بیٹی ایگنیس۔“مسٹر وک فیلڈ نے کہا۔میں نے سنا کہ کس طرح انہوں نے یہ کہا اور پھر اس کا ہاتھ تھام لیا ۔ میں نے اس وقت یہ اندازہ لگایا کہ یہ ان کی زندگی کی خوش نصیبی ہے۔
میری خالہ نے مجھے کہاکہ مسٹر وک فیلڈ کے ذریعے میری زندگی کی ہر ضرورت کا انتظام ہو جائے گا۔پھر انہوں نے بہت محبت سے مجھے چند نصیحتوں سے نوازا۔
وہ بولیں،”ڈیوڈ! ہمیشہ ہر کام اچھا کرو جیسا کہ میں جانتی ہوں کہ تم کر سکتے ہو….اپنے اور میرے فائدے کے لیے ….کسی بھی کام کو حقیر مت سمجھو….کبھی خیانت نہ کرو اور کبھی ظلم نہ کرو…. اگر تم ان تین چیزوں سے اجتناب کرو گے تو میرا خیال ہے کہ تم بہت کچھ بہتر کر لو گے۔“
میں نے ان سے وعدہ کیا کہ میں ان کی نصیحتیں ہمیشہ یاد رکھوں گا۔پھر انہوں نے مجھے پیار کیا اور باہر نکل گئیں۔
مسٹر وک فیلڈ نے اپنے معمول کے مطابق پانچ بجے عشائیہ کیا۔اگرچہ میز صرف ہم دوافراد کے لیے لگی ہوئی تھی مگر ایگنیس اپنے والد کے سامنے کرسی ڈال کر بیٹھ گئی۔میرا خیال ہے کہ اگر وہ وہاں نہ ہوتی تو مسٹر وک فیلڈ کچھ کھاتے بھی نہیں۔
عشائیے کے بعد میں لڑکھڑاتے ہوئے انداز میں سیڑھیاں اترا ۔ میں نے دیکھا کہ لال بالوں والا جوان آدمی دفتر بند کر رہا ہے۔ میرا مزاج یہ تھا کہ میں ہر کسی کو اپنا دوست سمجھتا تھا، یہی وجہ تھی کہ میں اس کے پاس گیا اور اس سے گفتگو کی۔اس نے مجھے اپنا نام ’اریاہ ہیپ‘ بتایا۔جب و ہ جانے لگا تو ہم نے ہاتھ ملایا مگر کیا ہی ٹھنڈا اور نم ہاتھ تھا۔مجھے اس کا ہاتھ بھی اسی طرح عجیب لگا جیسے وہ خود عجیب نظر آتا تھا۔ میں نے حرارت پیدا کرنے کے لیے اپنے ہاتھ آپس میں رگڑے۔ اس کے ہاتھ واقعی بڑے ناگوار تھے اور اس کے بعد جب میں کمرے میں پہنچا تو مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس وقت بھی مجھے ٹھنڈ اور نمی صاف طور پر محسوس ہو رہی تھی۔

۔۔۔۔۔

۵۔معمولی شخص
اگلی صبح ناشتے کے بعد میں نے دوبارہ اسکول کی شروعات کی۔مسٹر وک فیلڈ نے مجھے اسکول کے مالک اور ہیڈ ماسٹر ڈاکٹر اسٹرانگ سے متعارف کرایا۔
ڈاکٹر اسٹرانگ مجھے اپنے ساتھ عمارت کے پرسکون حصے کے ایک ہال میں بنے کلاس روم میں لائے۔جب ہم وہاں پہنچے تو تقریباً پچیس لڑکے کام کر رہے تھے۔وہ سب ڈاکٹر اسٹرانگ کو صبح بخیر کہنے کے لئے کھڑے ہوگئے اور جب مجھے اور مسٹر وک فیلڈ کو دیکھا تو کھڑے ہی رہے۔
”ایک نیا لڑکا….ڈیوڈ کاپر فیلڈ۔“ڈاکٹر اسٹرانگ نے کہا۔
کلاس کا سب سے بڑا لڑکا اپنی جگہ سے باہر نکلا اور مجھے خوش آمدید کہا۔اس نے مجھے میری ڈیسک دکھائی اور مجھے لڑکوں سے متعارف کرایا۔
چوں کہ میں زیادہ عرصہ لڑکوں کے ساتھ نہیں رہا تھا ، اس لیے یہ ماحول مجھے بہت غیر مانوس محسوس ہونے لگا۔جب مردسٹون اور گرمبی میں تھا، اس وقت بھی میں کسی کھیل کود میں حصہ نہیں لیتا تھا،اور جو تھوڑا بہت آتا تھا اب تک تو وہ بھی بھول چکا تھا۔یہاں آ کر مجھے اندازہ ہوا کہ میں تو کچھ بھی نہیں جانتا اور اسکول کے سب سے چھوٹے درجے میں ڈال دیا گیا ہوں۔
اسکول کی چھٹی کے بعد میں مسٹر وک فیلڈ کے گھر آ گیا۔یہاں واقعی دوستانہ ماحول تھا جس سے میری ساری پریشانیاں غائب ہوگئی تھیں۔ایگنیس اپنے والد کے ساتھ بیٹھک میں بیٹھی تھی۔وہ مجھ سے ملی اور خوشگوار انداز میں مسکراتے ہوئے پوچھنے لگی کہ مجھے اسکول پسند آیا کہ نہیں۔میں نے اس سے کہا کہ میرا خیال ہے کچھ وقت گزرنے کے بعد وہ مجھے بہت پسند آئے گا لیکن فی الحال تو مجھے بہت عجیب لگ رہا ہے۔ مسٹر وک فیلڈ نے مجھے کہا کہ میں ڈاکٹر اسٹرانگ کے ساتھ بہت خوش رہوں گا کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ڈاکٹر ایک انتہائی مہربان انسان ہے۔
عشائیے کے بعد ہم دوبارہ بیٹھک میں آگئے۔ایگنیس کام کے ساتھ ساتھ مسٹر وک فیلڈ سے باتیں بھی کرتی رہی۔پھر اس نے میرے ساتھ چند کھیل کھیلے اور میری اسکول کی کتابیں دیکھیں۔پھر وہ بستر پر چلی گئی اور مسٹر وک فیلڈ نے مجھ سے کہا:
”تم ہمارے ساتھ رہنا پسند کرو گے ڈیوڈ…. یا کہیں اور جانا پسند کرو گے؟“
”میں یہیں رہنا پسند کروں گا۔“میں نے جلدی سے کہا۔
”تم ایک بہترین لڑکے ہو اور میرے اور ایگنیس دونوں کے دوست ہوں۔تم اپنی خوشی سے جب تک چاہو یہاں رہو ۔“
انہوں نے مجھے کہا کہ میں شام میں کسی بھی وقت اتر کر ان کے کمرے میں آ سکتا ہوں،ان کے ساتھ بیٹھ سکتا ہوں اور ان کی کتابوں کا مطالعہ کرسکتا ہوں۔میں نے ان کے خیال رکھنے کا شکریہ ادا کیا۔
بعد میں، میں سیڑھیاں اترا تو میں نے چھوٹے دفتر کی بتی جلتی دیکھی۔مجھے اریاہ کے بارے میں دلچسپی محسوس ہوئی اور میں فوراً اریاہ کے پاس چلا گیا۔اریاہ ایک موٹی اور بڑی سی کتاب پوری توجہ کے ساتھ پڑھ رہا تھا ۔وہ جس سطر کو پڑھتا، اس کی پتلی سی انگلی ساتھ ساتھ چلتی۔
”آپ رات گئے تک کام کر رہے ہیں ا ریاہ؟“میں نے کہا۔
”ہاں مسٹر کاپر فیلڈ۔“اریاہ نے کہا۔
میں نے دیکھا کہ وہ عام لوگوں کی طرح نہیں مسکرا تا بلکہ صرف منہ چوڑا کر لیتا ہے تاکہ مسکرانے کا تاثر دے سکے ۔
”میں قانون کے بارے میں اپنی معلومات کو بہتر کر رہا ہوں،مسٹر کاپر فیلڈ۔“ اریاہ بولا۔
”میرے خیال میں آپ ضرور ایک اچھے وکیل ہیں؟“میں نے کہا۔
”مسٹر کاپر فیلڈ….میں؟“اریاہ بولا۔”اوہ نہیں نہیں….میں ایک بہت معمولی انسان ہوں، مسٹر کاپر فیلڈ….میں ایک بہت ہی غریب اور ادنیٰ انسان ہوں۔“
میں نے ابھی اریاہ کے نم ہاتھوں کے بارے میں سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ دونوں ہاتھوں کو آپس میں رگڑ نے لگا جیسے انہیں گرم اور خشک کرنے کی کوشش کر رہا ہو۔کئی باراس نے چپکے سے ہاتھوں کو رومال سے بھی صاف کیا۔
”میں جانتا ہوں کہ میں ایک معمولی آدمی ہوں۔“اریاہ بولا۔”میری والدہ بھی ایک غریب اور ادنیٰ خاتون ہیں،اس لئے وہ بھی میری طرح ایک معمولی انسان ہی ہیں،اور ہم ایک معمولی گھر میں رہتے ہیں مسٹر کاپر فیلڈ….لیکن پھر بھی ہمارے پاس شکر ادا کرنے کی بہت سی بڑی وجوہات ہیں ۔“
میں نے اریاہ سے پوچھا کہ وہ کتنے عرصے سے مسٹر وک فیلڈ کے پاس کام کر رہا ہے۔
”میں ان کے پاس تقریباً چار سال سے کام کر رہا ہوں مسٹر کاپر فیلڈ۔“اریاہ بولا۔”اپنے والد کی وفات والے سال ہی سے…. اور مسٹر وک فیلڈ کی اپنے اوپر مہربانی کا بہت شکر گزار ہوں۔“
”شاید تم آگے چل کر مسٹر وک فیلڈ کے کاروبار میں شراکت دار بن جاؤ اور پھر یہ کاروبار ’وک فیلڈ اینڈ ہیپ‘کے نام سے جانا جائے۔“
”اوہ، نہیں مسٹر کاپر فیلڈ۔“اریاہ نے جواب دیا۔”میں تو اس حوالے سے بہت معمولی آدمی ہوں اور مسٹر وک فیلڈ ایک نفیس آدمی ہیں مسٹر کاپر فیلڈ….اور تمہاری خالہ بھی انتہائی اچھی خاتون ہیں مسٹر کاپر فیلڈ….“
جب وہ بولتا توسانپ کی طرح عجیب طریقے سے بل کھانے لگتا۔یہ بہت ہی مکروہ انداز تھا۔میں بالکل بھی نہ سن پاتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے کیونکہ میری ساری توجہ اس کے جسم کی انگڑائیوں پر ہوتی۔
”انتہائی اچھی خاتون، مسٹر کاپر فیلڈ۔“اریاہ ہیپ بولا۔”وہ مس ایگنیس کی بہت تعریف کرتی ہیں….ہے ناں مسٹر کاپر فیلڈ؟“
”مجھے یقین ہے کہ ہر شخص ہی اس کی تعریف کرتا ہے۔“میں نے جواب دیا۔
”اوہ شکریہ،مسٹر کاپر فیلڈ….آپ کی اس رائے کا۔“اس نے کہا۔”یہ بالکل سچ ہے….اگرچہ میں ایک معمولی آدمی ہوں ….مگر میں جانتا ہوں کہ یہ بالکل سچ ہے….اوہ شکریہ مسٹر کاپر فیلڈ۔“
وہ خوشی میں اس قدر جذباتی ہوگیا کہ اپنے اسٹول پر بیٹھے بیٹھے بل کھانے لگا۔”والدہ میرے جلد گھر پہنچنے کا انتظار کر رہی ہوں گی۔“ وہ بولا۔ ”اگرچہ ہم بہت معمولی لوگ ہیں مسٹر کاپر فیلڈ،مگر ہم ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں….ممکن ہے آپ بھی کبھی دوپہر کے بعد ہمارے غریب خانے پر آئیں اور ایک پیالی چائے پی سکیں ….ماں بھی اسی طرح فخر محسوس کرے گی جیسے میں….“
میں نے کہا کہ مجھے تمہارے ہاں آ کر خوشی ہو گی ۔
آخر رات تک کے لئے اس نے دفتر سے جانے کی تیاری پکڑ لی۔اس نے بتی بجھا کر میری طرف ہاتھ لہرایا۔اندھیرے میں اس کا لہراتا ہوا ہاتھ مچھلی کی طرح محسوس ہورہا تھا۔پھر اریاہ نے چھوٹی سڑک کی طرف والا دروازہ کھولا اور باہر نکل گیا ۔

۔۔۔۔۔

میں آہستہ آہستہ اسکول میں نئے آنے والے ساتھیوں کے ساتھ گھل مل کر خوشی محسوس کرنے لگا۔میں نے سخت محنت شروع کر دی اور جلد ہی مجھے مرد سٹون اینڈ گرمبی میں گزرا اپنا وقت ایک برے خواب کی طرح لگنے لگا۔مجھے ایسا محسوس ہونے لگا جیسے میں ڈاکٹر اسٹرانگ کے اسکول میں ایک لمبے عرصے سے پڑھ رہا ہوں۔یہ ایک بہتر اسکول تھا اور مسٹر کریکل کے اسکول سے اسی طرح مختلف تھا جیسے اچھائی اور برائی کا فرق۔قصبے کے تمام لوگ اس اسکول کے لڑکوں کے بارے میں اچھی رائے رکھتے تھے، اور ہم بھی کوئی ایسا کام نہیں کرتے تھے جس سے ڈاکٹر اسٹرانگ ہم سے ناراض ہوتے۔کچھ پرانے لڑکے ان کے گھر پر ہی رہتے تھے اور میں نے اندازہ لگایا کہ ڈاکٹر اسٹرانگ پورے اسکول کو عبادت سمجھ کر چلا رہے تھے ۔ وہ دنیا کے سب سے مہربان انسان تھے۔
جمعرات کی صبح جب میں اسکول کے لیے نکلا تو اریاہ مجھے سڑک پر مل گیا۔اس نے مجھے اپنے اور اپنی والدہ کے ساتھ چائے پینے کا وعدہ یاد دلایا اور بولا:
”میرا خیال ہے تم اپنے وعدے کی پاسداری نہیں کرنا چاہتے ،مسٹر کاپر فیلڈ…. میرا خیال ہے کہ تمہارے سامنے ہماری اتنی بھی حیثیت نہیں کہ تم ہماری طرف چکر لگاؤ۔“
میں تو حقیقت میں ابھی یہ فیصلہ بھی نہیں کر پایا تھا کہ میں اریاہ کو پسند بھی کرتا ہوں کہ نہیں ،تاہم میں یہ ہرگز نہیں چاہتا تھا کہ وہ میرے بارے میں یہ خیال کرے کہ میں مغرور ہوں۔میں نے کہاکہ میں تو صرف تمہارے بلاوے کا انتظار کر رہا ہوں۔
”اوہ،اگر بات ہماری حیثیت کی نہیں ہے تو پھر بالکل ٹھیک ہے مسٹر کاپر فیلڈ….تم آج شام آ سکتے ہو؟“ار یاہ بولا۔
میں نے کہا کہ میں مسٹر وک فیلڈ سے ذکر کروں گا اور اگر انہوں نے کہا تو میں خوشی سے حاضر ہو جاؤں گا۔چنانچہ شام چھ بجے میں نے اریاہ سے کہا کہ میں تیار ہوں۔
”والدہ بہت فخر محسوس کریں گی۔“اس نے میرے ساتھ ہی دفتر سے نکلتے ہوئے کہا۔”وہ ضرور فخر محسوس کریں گی اگر فخر کرنے میں کوئی برائی نہ ہوئی ، مسٹر کاپر فیلڈ۔“
”کیا آپ آج کل زیادہ قانون پڑھ رہے ہیں ؟“میں نے پوچھا۔
”اوہ مسٹر کاپر فیلڈ ! میرے مطالعے کو پڑھائی نہیں کہا جاسکتا….قانون کی کتابوں کو میں شام میں بعض اوقات صرف گھنٹہ دو گھنٹے پڑھتا ہوں۔“
ہم ایک چھوٹے سے گھر تک پہنچے جس کا دروازہ کھلا ہوا۔اندر داخل ہوکر ہم ایک نیچی چھت والے کمرے میں آگئے جہاں ہماری ملاقات بیگم ہیپ سے ہوئی جو بالکل اریاہ کی طرح تھیں، بس قد میں ذرا کم تھیں۔
”ہم آج کے دن کو ہمیشہ یاد رکھیں گے اریاہ،جب مسٹر کا پرفیلڈ ہماری طرف آئے ۔“بیگم ہیپ چائے بناتے ہوئے بولیں۔
”میں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ آپ فخر محسوس کریں گی ماں۔“ اریاہ بولا۔
”کاش مسٹر ہیپ زندہ ہوتے۔“بیگم ہیپ بولیں۔”مجھے پتا ہے کہ وہ مسٹر کاپر فیلڈ سے مل کر بہت خوش ہوتے۔“
جب وہ ایسی باتیں کر رہے تھے تو مجھے بے چینی محسوس ہو رہی تھی مگر میں جانتا تھا کہ میرے ساتھ ایک باعزت مہمان جیسا سلوک کیا جارہا ہے۔
میرا ار یاہ تو لمبے عرصے سے اس دن کا انتظار کر رہا تھا جناب۔“بیگم ہیپ بولیں۔”اسے خدشہ تھا کہ تم نہیں آؤ گے کیونکہ ہم بہت کم حیثیت ہیں اور مجھے بھی یہی خدشہ تھا۔مگر ہم کم حیثیت تھے،کم حیثیت ہیں اور کم حیثیت ہی رہیں گے۔“بیگم ہیپ بولیں۔
ہم ایک چھوٹی سی میز کے سامنے بیٹھے تھے۔بیگم ہیپ آہستہ آہستہ میرے قریب آتی جا رہی تھیں جبکہ اریاہ آہستہ آہستہ دور کھسکتا جا رہا تھا۔
وہ احترام کے ساتھ مجھے پیش کی گئی چیزیں کھانے کا کہتے رہے۔اسی وقت انہوں نے خالاؤں کے بارے میں بات شروع کر دی تو میں نے ان کو اپنی خالہ کے بارے میں بتایا۔پھر انہوں نے ماؤں کے بارے میں گفتگو شروع کردی اور میں نے ان کو اپنی والدہ کے بارے میں بتایا۔پھر بیگم ہیپ باپوں کے بارے میں بات کرنے لگیں اور میں انہیں اپنے والد کے بارے میں بتانے لگا ،مگر میں اچانک بتاتے بتاتے رک گیا کیونکہ میری خالہ نے مجھے نصیحت کی تھی کہ اس معاملے پر خاموش رہوں۔
میرے پاس اریاہ اور بیگم ہیپ سے جان چھڑانے کا کوئی موقع نہیں تھا۔وہ مجھے اس موضوع پر گفتگو کرنے کے لئے مائل کرتے رہے جس پر میں بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔وہ دونوں مل کر میرے بارے میں ہر چیز کا کھوج لگانے کی کوشش کر رہے تھے۔
جب میرے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی ان کی ضرورت پوری ہوگئی تو وہ مسٹر وک فیلڈ اور ایگنیس کے بارے میں تبادلہ خیال کرنے لگے۔ انہوں نے بہت سی چیزوں کے بارے میں بہت سی باتیں کیں جو مجھے ایک لفظ سمجھ نہ آئیں۔سب سے پہلے انہوں نے مسٹر وک فیلڈ کی شرافت پر گفتگو کی۔ پھر انہوں نے اس پر تبادلہ خیال کیا کہ میں نے ایگنیس کی کتنی تعریف کی۔ پھر وہ اس بات پر حیرت کا اظہار کرتے رہے کہ مسٹر وک فیلڈ کا کاروبار کتنا بڑا ہے اور وہ کتنے امیر آدمی ہیں۔ہر بار میں انہیں ایسی باتیں بتانے لگا جو مجھے انہیں نہیں بتانی چاہیے تھیں۔

۔۔۔۔۔

مجھے خواہش ہونے لگی کہ کاش کسی طرح میں یہاں سے نکل جاؤں۔اچانک سڑک پر چلتا ہوا ایک راہ گیر مکان کے کھلے ہوئے دروازے کے پاس سے گزرا،پھر واپس مڑا اور زور دار آواز میں پکارا۔”کاپر فیلڈ !“ یہ مسٹر میکابر تھے۔
انہیں دیکھ کر مجھے بڑی خوشی ہوئی اور میں نے محبت سے ہاتھ لہرائے۔ میرے پاس مسٹر میکابر کو اریاہ ہیپ اور اس کی والدہ سے متعارف کرائے بغیر کوئی چارہ نہیں تھا۔
مسٹر میکابر مجھے اپنے ہوٹل لے آئے۔وہاں بیگم میکابر ایک چھوٹے سے پلنگ پر لیٹی ہوئی تھیں۔
بیگم میکابر نے مجھے بتایا کہ مسٹر میکابر پلے ماﺅتھ میں کوئی کام نہ کر سکے۔ان کے رشتے داروں کا خیال تھا کہ انہیں تجارت شروع کر دینی چاہیے مگر ان کے پاس کوئی سرمایہ نہیں تھا۔وہ کنٹربری اس امید پر آگئے تھے کہ شاید یہاں حالات کچھ بہتر ہوجائیں۔
کچھ دن بعد میں نے ان کے ساتھ عشائیہ کیا اور یہ سن کر حیران رہ گیا کہ مسٹر میکابر اور اریاہ ہیپ کی دوستی ہوگئی ہے۔
”اور میں تمہیں بتاؤں میرے عزیز کاپر فیلڈ !کہ نوجوان ہیپ ایک دن بہت اہم وکیل بن جائے گا۔“مسٹر میکابر بولے۔ ”اگر میں اسے اس وقت جانتا ہوتا جب میں بہت بڑی مشکلات کا شکار تھا تو میں بہتر انداز میں ان مشکلات کا سامنا کر سکتا تھا۔“
یہ تبصرہ میری سمجھ میں نہ آیا لیکن میں نے یہ پوچھنابھی پسند نہ کیا کہ اس کا کیا مطلب ہے۔
ہم نے بہت پرتکلف عشائیہ کیامگر اس دوران انہوں نے کنٹربری چھوڑنے کا کوئی ذکر نہ کیا۔اگلے دن مجھے یہ سن کر شدید حیرت ہوئی کہ پورا خاندان لندن جا چکا ہے۔

۔۔۔۔۔

۶۔پرانے دوست
تین سال بعد جب میں نے اسکول کی تعلیم مکمل کرکے اسکول چھوڑا تو میری زندگی میں کوئی افسردگی نہیں تھی۔زندگی ایک عظیم پریوں کی کہانی جیسی تھی اور میں نے اسے پڑھ کر لطف اٹھانا شروع کیا تھا۔
میری خالہ نے میرے مستقبل کے بارے میں کئی بار مجھ سے تبادلہ خیال کیا اور ان کے اس سوال کا کہ تم کیا کرنا پسند کرو گے؟ اطمینان بخش جواب تلاش کرنے میں میں نے سال سے زیادہ لگا دیا۔انہوں نے مجھے کئی بار اس بارے میں سوچنے کو کہا مگر میں کوئی فیصلہ نہ کر سکا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے۔اسکول چھوڑنے کے بعد سردیوں کی ایک صبح میری خالہ نے مجھ سے کہا۔”ڈیوڈ!میرا خیال ہے کہ ایک چھوٹی سی تبدیلی تمہیں یہ فیصلہ کرنے میں مدد دے گی کہ تمہیں کیا کرنا چاہیے….تمہیں تھوڑا سا گھومناپھرنا چاہیے اور کہیں جا کر رہنا چاہیے….تم اس سادہ سے نام والی عجیب عورت کے پاس جانا پسند کرو گے؟“ان کا اشارہ پگوٹی کی طرف تھا۔
”میں کسی بھی دوسرے کام سے زیادہ یہی کام کرنا پسند کروں گا۔“
”اوہ۔“میری خالہ بولیں۔”یہ تو خوش قسمتی ہے….میں بھی یہی پسند کروں گی اور میں تمہیں سفر پر اکیلا بھیجوں گی تاکہ تم خود اپنا خیال رکھنا سیکھو اور اپنے فیصلے خود کرنا شروع کرو۔“
جب ہم جدا ہونے لگے تو میری خالہ نے مجھے چند اچھی نصیحتیں کیں اور بہت پیار کیا۔انہوں نے مشورہ دیا کہ میں چند دن کے لیے لندن میں قیام کروں یا پھر واپسی پر سفولک میں رک جاؤ ں۔حقیقت یہ ہے کہ تین ہفتے یا ایک مہینے کے لئے مجھے یہ اجازت مل چکی تھی کہ جو مجھے پسند ہو،وہی کرو ں۔
میں سب سے پہلے کنٹربری گیا تاکہ ایگنیس اور مسٹر وک فیلڈ کو الوداع کہہ سکوں۔ایگنیس مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئی اور مجھے بتانے لگی کہ جب سے میں یہاں سے گیاہوں،گھر کتنا بدل گیا ہے۔پھر وہ فکرمند نظر آنے لگی اور بولی۔”ڈیوڈ! ایک ایسی بات ہے جو میں تمہیں بتانا چاہتی ہوں اوراگر ابھی نہ بتائی تو ہو سکتاہے ایک لمبے عرصے تک مجھے بتانے کا موقع نہ ملے….تم نے میرے والد میں تبدیلی محسوس کی؟“
میں نے ایک تبدیلی دیکھ لی تھی۔ایگنیس میرے چہرے کی طرف دیکھنے لگی جس سے میں سمجھ گیا کہ اس کا کیا مطلب ہے۔پھر فوراً اس نے نظریں نیچی کرلیں اور اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔”مجھے بتاؤ کہ ان میں یہ تبدیلی کیسے آئی؟“اس نے کہا۔
”میرا نہیں خیال کہ ان کی حالت اچھی ہے۔وہ اکثر فکر مند نظر آتے ہیں۔ان کے ہاتھ لرزنے لگے ہیں۔ان کی گفتگو الجھی ہوئی ہے اور ان کی آنکھیں پھٹی پھٹی ہیں….اور میں نے یہ بھی محسوس کیا ہے کہ انہیں اکثر کسی کاروباری معاملے سے نمٹنے کے لیے بلایا جاتا ہے۔“میں نے کہا۔
”اریاہ کے ذریعے!“ایگنیس بولی۔
”ہاں۔“میں نے جواب دیا۔
جلد ہی میں لندن کے لئے نکل گیا۔ میںاس سفر کا موازنہ اپنے لندن سے ڈوور کے سفر سے کر رہا تھا۔اب میرے پاس اچھی تعلیم تھی،اچھا لباس تھا اور جیب میں اچھی خاصی رقم تھی۔میں وہ ساری جگہیں بھی دیکھ رہا تھا جہاں جہاں میں اپنے لمبے سفر میں سویا تھا۔بلآخر لندن سے چند میل پہلے ہم سالم ہاؤس کے پاس سے گزرے۔میرا دل کر رہا تھا کہ میں یہیں رک جاؤ ں اور مسٹر کریکل کی چھڑی کو پکڑ لو ں اور تمام لڑکوں کو اسکول سے آزاد کر دوں جو پرندوں کی طرح پنجرے میں قید نظر آتے تھے۔

۔۔۔۔۔

لندن پہنچ کر میں ایک ہوٹل میں رکا ۔رات کے کھانے کے بعد میں تھوڑی دیر آگ کے پاس بیٹھ گیا اور پھر سونے کے لئے اٹھ کھڑا ہوا۔ جب میں جانے لگا تو کسی ایسے شخص کے پاس سے گزرا جس کا چہرہ جانا پہچانا تھا۔ میں مڑا،واپس آیا اور دوبارہ دیکھا۔وہ مجھے نہیں پہچان سکا تھا مگر میں نے اسے ایک ہی نظر میں پہچان لیا تھا۔یہ اسٹریٹ فورتھ تھا۔
ہم ایک دوسرے کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ہم نے شام کو بیٹھ کر ایک دوسرے کو اپنی زندگیوں کے اس عرصے کے بارے میں بتایا جو ہم نے سالم ہاؤس سے جانے کے بعد گزارا تھا۔پھر اسٹریٹ فورتھ نے مجھے دعوت دی کہ میں اس کے گھر پر ایک دو دن آ کرر کو ں اور میں نے خوشی سے اس کی دعوت قبول کرلی۔
جب ہم اس کے گھر پہنچے تو اسٹریٹ فورتھ نے مجھے اپنی والدہ اور ایک دوسری خاتون سے متعارف کرایا،اس دوسری خاتون کا نام ’ڈرٹلے‘ بتایا گیا مگر اسٹریٹ فورتھ اور اس کی والدہ دونوں اس کو’ روزا‘ کہہ کر بلاتے تھے۔میں نے اندازہ لگایا کہ وہ لمبے عرصے سے بیگم اسٹریٹ فورتھ کے ساتھ تھی اور انہی کے ساتھ رہ رہی تھی۔
روزا ڈر ٹلے ایک چھوٹے قد کی سانولی خاتون تھی جو بہت خوشگوار نظر نہیں آتی تھی۔مجھے اس کے بارے میں تجسس ہونے لگا ۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کے ساتھ واقعی کچھ غیر معمولی پیش آیا تھا۔اس کے ہونٹ پر ایک زخم کا نشان تھا جو برسوں پہلے بھر چکا تھا۔ بعد میں مجھے بتایا گیا کہ یہ زخم اسٹریٹ فورتھ کی وجہ سے تھا۔جب یہ دونوں بچے تھے تو اِس نے اُسے چھری ماری تھی جسے اس نے آج تک معاف نہیں کیا تھا۔میز کی دوسری طرف اگرچہ مشکل سے ہی سہی مگر پھر بھی اوپر والے ہونٹ کے اوپری حصے میں وہ نشان اب بھی نظر آ رہا تھا۔میں نے دل میں اندازہ لگایا کہ وہ تیس سال کی خاتون ہے اور اب وہ شادی کرنا پسند کرے گی۔
بیگم اسٹریٹ فور تھ مجھ سے میرے سفولک جانے کے منصوبے کے بارے میں بات کرنے لگیں۔میں نے کہا کہ اگر اسٹریٹ فورتھ بھی میرے ساتھ چل سکے تو مجھے بہت خوشی ہوگی۔ میں نے انہیں پگوٹیوں کے بارے میں اور ان کے کشتی والے گھر کے بارے میں بتایا۔ اسٹریٹ فورتھ نے کہا کہ اس کے خیال میں ایسے لوگوں سے ملنے کے لیے کیا جانے والا سفر ایک شان دار سفر ہوگا۔

۔۔۔۔۔

ہم نے بیگم اسٹریٹ فورتھ اور مس ڈرٹلے کو خدا حافظ کہا اور ایک ساتھ یار ماﺅتھ کو چل پڑے۔
”تمہارا کب کا ارادہ ہے ….مجھے پگوٹیوں سے ملوانے کا؟“اسٹریٹ فورتھ بولا۔یہ اگلی صبح کی بات ہے جب ہم اپنے ہوٹل میں قدرے دیر سے ناشتہ کر رہے تھے۔
”میرا خیال ہے کہ آج شام کا وقت بہتر رہے گا جب وہ سارے آگ کے گرد بیٹھے ہوں گے….میں انہیں خبردار نہیں کرنا چاہتا کہ ہم یہاں ہیں۔“میں نے کہا۔”ہم ضرور انہیں حیران کریں گے۔“
”یقینا….اگر ہم انہیں حیران نہ کریں تو مزا ہی نہیں آئے گا۔“ اسٹریٹ فورتھ بولا۔ ”میرا خیال ہے کہ تمہیں بچپن میں پرورش کرنے والی خاتون کو دیکھنے کی تمنا ہے؟“
”اوہ ہاں۔“میں نے کہا۔”مجھے سب سے زیادہ پگوٹی سے ملنے کی چاہت ہے۔“شام آٹھ بجے ہم اٹھ کھڑے ہوئے اور ٹھنڈی ریت پر ایک ساتھ مسٹر پگوٹی کی پرانی کشتی کی طرف چل پڑے۔
”یہ ایک بیابیان قسم کی جگہ ہے اسٹریٹ فورتھ….ہے کہ نہیں؟“
”یہ جگہ اندھیرے میں بہت خطرناک لگتی ہے۔“ وہ بولا۔”اور سمندر کی دھاڑیں ایسی ہیں جیسے بھوکے جانور ہمیں ہڑپ کر جانا چاہتے ہوں….مجھے اس طرف روشنی نظر آرہی ہے۔“
”یہی وہ کشتی ہے۔“میں نے کہا۔
ہم نے مزید کوئی بات نہ کی۔روشنی کی طرف چلتے رہے اور خاموشی سے دروازے تک پہنچ گئے۔میں نے دروازے پر اپنا ہاتھ رکھا اور اسٹریٹ فورتھ کو سرگوشی میں اپنے قریب آنے کو کہا اور اندر چلا گیا۔
میں پگوٹی خاندان کے درمیان کھڑا تھا۔وہ بہت حیران ہوئے اور حیرت سے مجھے تکنے لگے۔میں نے مسٹر پگوٹی کا ہاتھ تھام لیا۔ پھر ہام چلایا:
”نوجوان ڈیوی! ….ارے یہ تو نوجوان ڈیوی ہے۔“
جلد ہی ہم ایک دوسرے سے ہاتھ ملا رہے تھے۔مسٹر پگوٹی ہمیں دیکھ کر اتنے خوش تھے کہ انہیں سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا کریں اور میں بھی بار بار ہاتھ لہرا کر خوشی سے قہقہے لگا رہا تھا۔
پھر پگوٹی اندر آئی۔پہلے پہل تو وہ مجھے نہیں پہچانی۔وہ ایک قدم پیچھے ہٹی اور اس کے ہاتھوں کے اشاروں سے لگ رہا تھا کہ وہ خوف زدہ ہے اور مجھے باہر نکالنا چاہتی ہے۔
”پگوٹی!! “میں نے نم آنکھوں کے ساتھ پکارا۔
”میرا پیارا بچہ!“ وہ بولی اور مجھے اپنے سینے سے لگا لیا اور ہم دونوں جذبات سے رونے لگے۔
اس شام نہ میں کھل کررو پایا اور نہ ہی زیادہ ہنس پایا جیسا کہ میں چاہتا تھا۔پھر میں نے ان سب سے اسٹریٹ فورتھ کو متعارف کرایا۔میں نے اپنے پچھلے چکر پر انہیں اس کے بارے میں بہت کچھ بتا دیا تھا۔مسٹر پگوٹی اچانک پکارنے لگے۔”املی!!میری بچی،ادھر آؤ،ادھر آؤ….یہاں وہی معزز لڑکا آیا ہے جس کے بارے میں تم نے سنا تھا، املی…. یہ ڈیوی کے ساتھ تمہیں دیکھنے آیا ہے….جناب! یہ ہے ہماری ننھی املی۔“انہوں نے دھیمی آواز میں اسٹریٹ فورتھ سے گفتگو جاری رکھی۔”اس گھر کو کوئی اتنا خوش گوار اور خوش باش نہیں بنا سکتا ، جتنا اکیلی املی نے بنایا ہوا ہے۔یہ میری بچی نہیں ہے….میرا اپنا کوئی بچہ نہیں ہے مگر میں اس سے اتنا ہی پیار کرتا ہوں جتنا اگر میرا اپنا بچہ ہوتا تو میں اس سے کرتا۔تم سمجھ سکتے ہو کہ میں اپنے بچے سے بھی اس سے زیادہ پیار نہیں کر سکتا تھا۔“
”میں سمجھ سکتا ہوں۔“اسٹریٹ فورتھ بولا۔
”میں جانتا ہوں جناب کہ آپ سمجھ دار ہیں۔“ مسٹر پگوٹی نے جواب دیا۔”اور بہت شکریہ….مگر کوئی بھی یہ نہیں سمجھ سکتا کہ میرے نزدیک املی کی کتنی اہمیت ہے۔“

۔۔۔۔۔

مسٹر پگوٹی نے اپنے ہاتھ کی انگلیوں سے اپنے بالوں کو کنگھا کر کے پیچھے کیا ،پھر وہ بات کرنے کے لیے اپنا ایک ہاتھ گھٹنے پر رکھ کر جھکے۔
”یہاں وہ شخص بھی کھڑا ہے جو املی کو اس وقت سے جانتا ہے جب اس کا باپ ڈوب گیا تھا۔وہ ایک حسین شخص تھااور دیکھنے میں میری ہی طرح کھرد را لگتا تھا کیونکہ وہ بھی سارا دن باہر ہی کام کرتا تھا مگر وہ دیانت دار لوگوں میں سے تھا اور ایک مہربان شخص تھا۔“مجھے لگا کہ میں نے اس وقت ہام کو اس طرح مسکراتے نہیں دیکھا جیسے وہ مسکرایا کرتا تھا۔
”اور اس شخص نے کیا کیا؟اس نے فیصلہ کیا کہ وہ ہماری ننھی املی کا خیال رکھے گا۔“مسٹر پگوٹی بولے۔پھر مسٹر پگوٹی نے ایک ہاتھ میرے گھٹنے پر رکھا اور دوسرا اسٹریٹ فور تھ کے گھٹنے پر، پھر ہم سے بولے۔”ایک شام اچانک املی اپنا کام چھوڑ کر اس کا ہاتھ پکڑے میرے پاس آئی۔اس شخص نے اس کا ہاتھ اوپر اٹھا کر مجھ سے کہا۔” دیکھئے! یہ میری ننھی سی دلہن بنے گی۔“اور یہ مسکراتی ہوئی بولی۔”ہاں چچاجان!“
ہام بڑی مشکل سے بولا۔”یہ میرے لیے بہت اہم ہے، معزز افراد!….بلکہ میرے لیے یہی وہ سب کچھ ہے جو میں چاہتا ہوں اور میں زیادہ سے زیادہ یہی کہہ سکتا ہوں کہ میں اس کا ہمیشہ خیال رکھوں گا۔“میں افسردگی کی کیفیت میں ننھی املی اور ہام کی کوئی مدد نہیں کر سکتا تھا مگر چند منٹوں بعد ہی ہم دوبارہ سے خوش باش ہوگئے تھے۔
تقریباً آدھی رات کا وقت تھا جب ہم واپسی کے لیے نکلے۔ہم خوشی خوشی جدا ہوئے۔وہ سب دروازے کے اردگرد مجمع لگائے کھڑے تھے۔میں نے جاتے ہوئے ننھی املی کی نیلی آنکھیں دیکھیں اور نرم آواز سنی جب وہ کہہ رہی تھی ۔”خیال سے جانا ۔“
”یہ ایک بہت خوب صورت بچی ہے۔“اسٹریٹ فورتھ میرے گلے میں بازو ڈالتے ہوئے بولا۔”ہم اس وقت کتنے خوش نصیب ہیں کہ ہم نے ان کی خوشی اور شادی کے ارادے کے بارے میں سنا۔ میں نے اتنے خوش باش لوگ پہلے نہیں دیکھے ….مگر وہ نوجوان لڑکا، اس لڑکی کے مقابلے میں احمق اور بیوقوف نہیں ہے؟“
وہاں تو وہ ہام اور باقی سب کے ساتھ بہت خوش تھا چنانچہ یہ غیر دوستانہ تبصرہ سن کر مجھے شدید جھٹکا لگا۔
مگر اگلے ہی لمحے وہ خوشی سے ایک گیت گنگنا رہا تھا جو اسے مسٹر پگوٹی نے سکھایا تھا اور ہم تیزی سے واپس ہوٹل کی طرف چل پڑے ۔
اسٹریٹ فورتھ اور میں دو ہفتے تک وہاں ٹھہرے رہے۔پھر ایک صبح جب ہم ناشتہ کر رہے تھے، مجھے میری خالہ کا خط ملا۔وہ ایک ہفتے کے لیے لندن میں رکنے آرہی تھیں تاکہ مجھ سے مل بھی لیں اور میرے مستقبل کے بارے میں بھی کوئی بندوبست کریں۔ ہم نے اسی دن پگوٹیوں کو الوداع کہہ کر لندن جانے کا فیصلہ کیا۔جب ہمارا سفر ختم ہوا تو اسٹریٹ فورتھ اپنے گھر چلا گیا جبکہ میں اپنی خالہ کے ہوٹل چلا گیا جہاں وہ میری منتظر تھیں۔

۔۔۔۔۔

میری خالہ نے فیصلہ کیا کہ میں ایک وکیل کی حیثیت سے کام کا آغاز کروں اور پھر مجھ سے پوچھا کہ ان کے اس منصوبے کے بارے میں میرا کیا خیال ہے۔
”مجھے یہ بہت پسند آیا ہے۔“میں نے کہا۔
اگلے دن ہم وکیلوں کی ایک کمپنی ’سپنلا اینڈ جارکنز‘ کے دفتر جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔دفتر شہر کے ہنگاموں سے ہٹ کر ایک پرسکون سڑک پر واقع تھا ۔ میری خالہ نے مجھے ’مسٹر سپنلا‘ سے متعارف کرایا اور جلد ہی طے پایا کہ میں اگلے دن سے ہی دفتر آنا شروع کروں گا اور ایک مہینے تک آزمائشی طور پر کام کروں گا۔اگر کام مجھے پسند آتا ہے تو میں مزید یہاں رکوں گا اور ایک وکیل کے طور پر پڑھائی کا آغاز کروں گا۔
ہم دفتر سے نکلے اور پھر آپس میں گفتگو کرنے لگے کہ میری رہائش کہاں ہو گئی۔میری خالہ نے اخبار میں کچھ کمروں کا اشتہار دیکھا تھا جن سے دریا کا نظارہ کیا جاسکتا تھا۔چنانچہ ہم انہیں دیکھنے چل پڑے۔کمرے گھر کی چھت پر بنے ہوئے تھے جن کی کھڑکیوں سے بالکل سامنے دریا نظر آتا تھا ،اخبار کے اشتہار کے عین مطابق۔میں وہ جگہ دیکھ کر بہت خوش ہوا۔میری خالہ نے گھر کی مالکن سے کرایہ طے کرلیا اور اگلے دن میں اپنے نئے گھر میں منتقل ہوگیا۔

۔۔۔۔۔

۷۔نئے ساتھی
میرے لیے یہ کمرے بہت ہی عمدہ تھے۔دو دن اور دو راتیں یہاں رہنے کے بعد مجھے ایسا لگا جیسے میں یہاں پچھلے ایک سال سے رہ رہا ہوں۔
تیسرے دن صبح سویرے میں بیگم اسٹریٹ فورتھ کی طرف چکر لگانے چلا گیا۔وہ مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئیں اور کہنے لگیں کہ جیمز چھٹی کا دن گزارنے اپنے یونیورسٹی کے دوستوں میں سے کسی کی طرف گیا ہوا ہے۔مس ڈرٹلے کو ہمارے یار ماﺅتھ کے سفر کی ساری تفصیل سننے میں دلچسپی تھی۔
اگلی صبح مجھے ایگنیس وک فیلڈ کا خط ملا۔اس نے محض اتنا لکھا تھا۔”عزیز ڈیوڈ ! میں اپنے والد کے دوست ’مسٹر واٹر بروک‘ کے گھر ٹھہری ہوئی ہوں جو ہال برن کے الائی محلے میں واقع ہے۔میرے یہاں قیام کے دوران ، کسی ایسے وقت چکر لگاؤ جو تمہارے لیے بہتر ہو۔تمہاری مخلص ایگنیس۔“
اسی دن ساڑھے تین بجے میں دفترسے نکلا اور آدھے گھنٹے بعد مسٹر واٹر بروک کے گھر پہنچ گیا۔ملازم مجھے ایک چھوٹی سی بیٹھک میں لے آیا جہاں ایگنیس کچھ سلائی کرنے میں مصروف تھی۔
”بیٹھ جاؤ۔“ایگنس نے خوشی سے مسکراتے ہوئے کہا۔پھر اس نے مجھ سے پوچھا کہ میں نے اریاہ کو دیکھا ہے؟
”اریاہ ہیپ؟“میں نے پوچھا۔”نہیں،کیا وہ لندن میں ہی ہے؟“
” وہ سیڑھیوں سے نیچے بنے دفتر میں روزانہ آتا ہے۔“ایگنیس نے جواب دیا۔”میرا خیال ہے کہ وہ والد کے ساتھ کاروبار میں شراکت دار بننے جارہا ہے۔“
”کیا؟….اریاہ؟….اس معمولی شخص نے یہ حیثیت کیسے حاصل کرلی؟“میں چلااٹھا۔”تمہیں اپنے والد کو ایسا نہیں کرنے دینا چاہیے….تم ضرور انہیں روکو جب کہ تم ایسا کر سکتی ہو!“
اس نے چند لمحوں کی خاموشی کے بعد جواب دیا۔”اریاہ والد صاحب کے لیے بہت کارآمد ہے….وہ ایک منجھا ہوا آدمی ہے اور ہر چیز کو دیکھ لیتا ہے….اس نے والد صاحب کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھایا ہے اور اب والد صاحب اس سے خوفزدہ ہیں۔“
اس نے مزید بھی کچھ باتیں کہیں جس سے اندازہ ہوا کہ اسے آگے چل کر بدترین واقعات پیش آنے کا خدشہ تھا۔میں اس کے خیالات اس کے چہرے پر واضح طور پر دیکھ رہا تھا مگر خاموش رہا۔
”وہ والد پر بہت غالب آگیا ہے۔“ایگنیس بولی۔”وہ کہتے ہیں کہ اس کی اتنی اہمیت نہیں ہے مگر مجھے خوف ہے کہ وہ والد صاحب کے اختیارات کو جتنا ممکن ہو سکتا ہے، غلط استعمال کر رہا ہے۔“
میں نے کہا کہ وہ ایک کتا ہے اور یہ کہتے ہوئے مجھے تسکین مل رہی تھی۔
”والد بہت فکر مند ہیں۔“ایگنیس رونے لگی۔”مگر وہ اریاہ کو شراکت دار بنانے پر ایک طرف تو سکون محسوس کر رہے ہیں مگر ساتھ ہی دوسری طرف شرمندگی بھی محسوس کر رہے ہیں۔“
”اور تم کیا سوچتی ہو، ایگنیس؟“
”میں نے جو درست سمجھا وہی کیا ڈیوڈ۔“اس نے جواب دیا۔”میں نے سوچا کہ والد کا سکون سب سے زیادہ اہم ہے اور اس کے مقابلے میں یہ قربانی زیادہ بڑی نہیں ہے۔لہٰذا میں نے ایسا کرنے میں نے ان کی حوصلہ افزائی کی۔میں نے کہا کہ اس سے انہیں کچھ مدد مل جائے گی اور وہ کچھ فکروں سے آزاد ہو جائیں گے۔اوہ ڈیوڈ۔“وہ رونے لگی۔”مجھے تقریبا ًایسا محسوس ہونے لگا ہے جیسے میں نے ان کے ساتھ دشمنی کی ہے۔“
اس سے پہلے میں نے ایگنیس کو نہ توکبھی روتے ہوئے دیکھا تھااور نہ غمگین دیکھا تھا۔یہی وجہ تھی کہ مجھے بہت افسوس ہوا اور میں بیوقوفانہ انداز میں صرف اتنا کہہ سکا۔”برائے مہربانی مت روؤ ایگنیس…. مت کرو میری عزیز بہن!“
اس کی افسردگی دور ہوگئی اور وہ دوبارہ پرسکون ہوگئی۔
”جب میرے پاس موقع ہے ڈیوڈ….تو میں چاہتی ہوں کہ تم سے یہ بات بھی کرلوں۔اریاہ کے ساتھ دوستانہ رویہ رکھو اور اس کے ساتھ بات چیت کرنے سے گریز مت کرو۔ میرے اور والد کے بارے میں سوچو۔“
ایگنیس کو مزید کچھ کہنے کا موقع نہ ملا اور بیگم واٹر بروک جو ایک دراز قد خاتون تھیں، اندر آئیں۔ان کا اندر آنے کا انداز ایسا تھا جیسے وہ کسی کشتی میں سفر کر رہی ہو ں۔انہوں نے کہا کہ میں نے ایگنیس کی تم سے دوستانہ انداز میں گفتگو سن لی ہے اور انہوں نے اگلے دن مجھے رات کے کھانے کی دعوت دی۔ میں نے دعوت قبول کر لی اور وہاں سے رخصت ہوگیا۔

۔۔۔۔۔

اگلے دن میں الائی محلے میں عشائیے کے لیے گیا تو اریاہ مجھے وہاں ملا ۔اس نے سیاہ سوٹ پہن رکھا تھا۔
وہاں اور بھی مہمان تھے مگر مجھے ان میں سے خاص اس میں دلچسپی تھی جو اندر آیا اور اس کا تعارف ’مسٹر ٹریڈلیس‘ کے نام سے کرایا گیا ۔
میں مسٹر واٹر بروک کی طرف مڑا اور انہیں بتایا ہے کہ مسٹر ٹریڈ لیس میرا پرانا دوست ہے۔انہوں نے جواب دیا کہ ٹریڈ لیس آج کل قانون پڑھ رہاہے اور بعض اوقات ان کے لیے بھی کچھ کام کرتا ہے۔
پھر مجھے ایگنیس سے گفتگو کرکے خوشی ہوئی اور میں نے ٹریڈلیس کو بھی اس سے ملوایا۔
ٹریڈ لیس ایک مہینے کے لئے کہیں جارہا تھا اور ا سے صبح نکلنا تھا ، اسی لیے وہ جلدی چلا گیا۔ تاہم ہم نے اپنے اپنے پتوں کا تبادلہ کیا اور وعدہ کیا کہ اس کی واپسی پر ہم پھر ملیں گے۔ ہم دونوں بڑی چاہت سے اس کی واپسی کے منتظر تھے۔ٹریڈ لیس کو یہ سننے میں بڑی دلچسپی تھی کہ میں اسٹریٹ فورتھ کو جانتا ہوں اور ایسا لگتا تھا کہ وہ اسے بہت پسند کرتا ہے۔
میں ایگنیس سے بات کرنے اور اس کا گیت سننے کے لئے رک گیا۔اگرچہ میں اریاہ سے دوستانہ انداز میں بالکل نہیں ملنا چاہتا تھا مگر ایگنیس کی وہ درخواست یاد آگئی جو اس نے مجھ سے کی تھی۔جب سب لوگ چلے گئے تو میں اس سے بات کرنے اس کے پاس گیا۔
”تم نے کچھ سن ہی لیا ہوگا میرا خیال ہے….میری نئی حیثیت کے بارے میں،مسٹر کاپر فیلڈ؟“اریاہ نے کہا۔
”ہاں۔“میں نے کہا۔”مس وک فیلڈ نے مجھے سرسری سا بتایا ہے۔“
”مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ مس ایگنیس کو میرے بارے میں معلوم ہے…. اوہ،مسٹر وک فیلڈ کیا ہی اچھے انسان ہیں،مسٹر کاپر فیلڈ۔ مگر وہ کتنے بیوقوف تھے۔“
”مسٹر وک فیلڈ کا مرتبہ تمہارے اور میرے سے بہت زیادہ ہے اور پھر بھی تم کہہ رہے ہو کہ وہ کتنے بیوقوف تھے، مسٹر ہیپ؟“میں نے کہا۔
”اوہ، بے حد بے وقوف،مسٹر کاپر فیلڈ۔“اریاہ نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا۔”کوئی اور ہوتا تو اس نے مسٹر وک فیلڈ کو مکمل طور پر تباہ کر دیا ہوتا….یہاں بہت نقصان، شرمندگی اور بہت کچھ ہو گیا ہوتا ….مسٹر وک فیلڈ یہ سب کچھ جانتے ہیں….مگر میں نے ہمیشہ ایمان داری کے ساتھ ان کی خدمت کی ہے اور اب انہوں نے مجھے یہ حیثیت دی ہے جس کی شاید ہی میں کبھی امید کر سکتا تھا۔میں ان کا بہت شکر گزار رہوں گا۔“

۔۔۔۔۔

مجھے یاد ہے کہ میں اس وقت کتنا خوف زدہ ہوا تھا جب میں نے اس کے چہرے سے اندازہ لگایا تھا کہ وہ مزید کچھ کہنے کی تیاری کر رہا ہے۔
”مس ایگنیس آج رات بہت حسین نہیں لگ رہی تھیں،تمہارا کیا خیال ہے مسٹر کاپر فیلڈ؟“
”میرا خیال ہے کہ وہ ہر طرح سے اچھی لگ رہی تھیں جیسا کہ وہ ہمیشہ لگتی ہیں ۔جبھی سب اس کے ارد گرد منڈلا رہے تھے۔“میں نے جواب دیا۔
”اوہ شکریہ،شکریہ،مسٹر کاپر فیلڈ ….یہی حقیقت ہے۔“ وہ چلایا۔”جیسے میں معمولی ہوں اسی طرح میری والدہ بھی معمولی ہیں۔ میں کئی سالوں سے خفیہ طور پر مس ایگنیس کو پسند کرتا ہوں….تمہیں اپنے راز بتانے میں مجھے کوئی مسئلہ نہیں مسٹر کاپر فیلڈ….اوہ مسٹر فیلڈ! میں اس زمین کو بھی پسند کرتا ہوں جس پرمس ایگنیس چلتی ہیں ۔“
میرا دل چاہا کہ کوئی بڑی سی چیز اٹھا کر اس کے سر پر دے ماروں مگر میں نے اس کی طرف دیکھا اور مجھے ایگنیس کی التجا یاد آگئی ۔ میں نے اپنے آپ کو پرسکون رکھنے کی پوری کوشش کی۔میں نے اس سے پوچھا کہ آیا ایگنیس کو بھی اس کے احساسات کا علم ہے؟
”اوہ نہیں مسٹر کاپر فیلڈ ۔“اس نے جواب دیا۔”اوہ نہیں….مجھے امید ہے کہ جب وہ دیکھیں گی کہ میں ان کے والد کے لیے کتنا کارآمد ہوں اور جب وہ دیکھیں گی کہ میں نے کاروبار کے انتظامات کیسے سنبھالے ہیں تو وہ بہت متاثر ہوں گی….میرا خیال ہے کہ پھر وہ مجھ پر مہربان ہوں گی۔
فی الحال جلدی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔تم جانتے ہو مسٹر کاپر فیلڈ۔“اریاہ نے اپنے گئے گزرے اخلاق کے ساتھ بات جاری رکھی۔”میری ایگنس ابھی بہت کم عمر ہے….میرے پاس اسے یہ بتانے کے لیے کافی وقت ہے کہ میرے کیا احساسات ہیں….اس تھوڑی دیر کی گفتگو کے لیے میں تمہارا بہت شکر گزار ہوں۔“
اس نے خدا حافظ کہنے کے لئے میرا ہاتھ پکڑ کر دبایا۔اس کے ہاتھ اب بھی ناخوشگوار طور پر ٹھنڈے اور نم تھے۔
اریاہ مجھے دوبارہ اس دن تک نظر نہ آیا جس دن ایگنیس لندن سے جا رہی تھی۔میں اسے الوداع کہنے کے لیے گیا تو اریاہ بھی وہاں موجود تھا۔ وہ بھی اسی وقت کنٹربری کے سفر پر جا رہا تھا۔

۔۔۔۔۔

ایک دن جب میں سپنلا اینڈ جا رکنز میں کام کر رہا تھا۔مسٹر سپنلا نے مجھے بتایا کہ جلد ہی ان کی بیٹی تعلیم مکمل کرکے پیرس سے واپس آ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر میں آنے والے ہفتے کے دن ان کے گھر رکنے آجاؤں تو وہ بہت ممنون ہوں گے۔
ہفتے والے د ن مسٹر سپنلا نے جب میرا تعارف ’ڈورا سپنلا‘ سے کرایا تو مجھے لگا کہ میں ایک خوبرو نوجوان خاتون کو دیکھ رہا ہوں ۔ مجھے لگا کہ ڈورا ایک بہت اچھی لڑکی ہے۔اس صورتحال میں نہ تومیں کچھ سوچ سکا، نہ اپنے آپ کو روک سکا اور نہ ہی اس سے کوئی ایک بھی لفظ بول سکا۔ میں جانتا تھا کہ میں اس سے بہت متاثر ہوا ہوں۔
پھر میں یہ سن کر بہت حیران ہوا جب کوئی کہہ رہا تھاکہ میں نے مسٹر کاپر فیلڈ کو پہلے دیکھا ہے۔اس آواز کو میں بہت اچھی طرح پہچانتا تھا۔یہ مس مرد اسٹون تھی۔
”مسٹر کاپر فیلڈ اور میں ایک دوسرے کو پہلے سے اچھی طرح جانتے ہیں۔“مس مرد سٹون بولی۔”اس وقت سے جب وہ ایک بچہ تھا ۔“
”بدقسمتی سے میری بیٹی ماں سے محروم ہے۔“مسٹر سپنلا نے مجھ سے کہا۔”مس مرد سٹون اس پر بہت مہربان ہیں اور ایک دوست کی حیثیت سے اس کی رہنمائی بھی کرتی ہیں۔“
مگر میری زیادہ تر توجہ ڈورا کی طرف رہی اور مجھے نہیں یاد کہ ڈورا کے علاوہ عشائیے میں کون کون تھا اور کھانے میں کون کون سے پکوان تھے۔ میں اس کے ساتھ بیٹھا اس سے گفتگو کرتا رہا۔اس کی آواز بہت دھیمی اور دلکش، اس کی مسکراہٹ بہت خوب صورت اور اس کے انداز بہت نفیس تھے۔وہ خاصی کم عمر تھی اور میرے خیال میں اسی کم عمری نے اسے مزید خوب صورت بنا دیا تھا اور مجھے اس کا دل فریب گیت بھی یاد ہے۔

۔۔۔۔۔

ٹریڈ لیس لندن کے قدرے غریب علاقے میں رہتا تھا۔جب میں اس سے ملنے گیا تو مجھ پر انکشاف ہوا کہ وہ میرے پرانے دوست خاندان یعنی میکابروں کے ساتھ رہ رہا ہے۔ہم ایک دوسرے سے دوبارہ مل کر بہت خوش بھی ہوئے اور حیران بھی۔میں نے میکابروں اور ٹریڈ لیس کو اپنی طرف آنے کا کہا۔پھر ایک شام وہ میری طرف آئے ۔ ہم نے بہترین کھانا کھایا اور ہنسی خوشی ایک ساتھ وقت گزارا۔
ان کے جانے کے بعد میں اپنے خالی کمرے میں انگیٹھی کے پاس بیٹھ کر اپنی زندگی کے بارے میں سوچنے لگا ۔میرے آدھے خیالات خوش کن تھے اور آدھے غم زدہ۔ٹریڈ لیس وکیل بننے کے لئے پڑھائی میں سخت محنت کر رہا تھا مگر وہ بہت غریب تھا۔میکابر گھرانا ابھی تک مشکلات میں تھا مگر ہمیشہ کی طرح پرامید تھا کہ جلد ہی حالات بدلیں گے…. اور پھر میں یار ماﺅتھ میں قیام پذیر بچپن میں پرورش کرنے والی خاتون اور اس کے خاندان کے بارے میں سوچنے لگا۔
ابھی میں ان کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ اچانک میرے کانوں میں تیزی سے سیڑھیاں چڑھتے کسی کے قدموں کی آواز آئی۔یہ اسٹریٹ فورتھ تھا۔
”اوہ، ڈیوڈ۔“اسٹریٹ فورتھ نے ہنستے ہوئے گرم جوشی سے ہاتھ ملایا۔”میں ابھی ابھی یار ماﺅتھ سے آیا ہوں۔“
”کیا تم نے وہاں زیادہ عرصہ قیام کیا؟“
”نہیں صرف ایک دو ہفتے۔“
”سنو اسٹریٹ فورتھ،میں اپنی پرورش کرنے والی بزرگ خاتون سے ملنے یار ماﺅتھ جانے کا سوچ رہا تھا۔ وہ مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوگی اور اسے اطمینان ہوگا۔پگوٹی کی طرف جانے میں اتنا سفر بھی نہیں ہے۔اس نے میرے لیے بہت کچھ کیا ہے۔مجھے یقین ہے کہ تم مجھ سے متفق ہو گے….ہے کہ نہیں؟“
اسٹریٹ فورتھ بیٹھ گیا۔اس نے میرے سوال پر غور کیا اور پھر دھیمی آواز میں جواب دیا۔”اچھا،اگر تمہاری خواہش ہے تو جاﺅ،مگر یہ کسی بھی نقصان کا باعث ہو سکتا ہے….میں تو آج رات اپنی والدہ کے گھر جا رہا ہوں….کیا تم کل یار ماﺅتھ جانے کا ارادہ کر رہے ہو؟“
”ہاں،ارادہ تو یہی ہے۔“
”چند دن مت جاؤ ڈیوڈ….میرے ساتھ گھر چلو اور جب تک رک سکو ہمارے ساتھ رکو۔آجاﺅ۔کیونکہ ہم دوبارہ کبھی نہیں مل سکیں گے۔“
میں نے اس کا بہت شکریہ ادا کیا اور وہ اپنا کوٹ اٹھا کر گھر کی طرف چل پڑا۔

۔۔۔۔۔

۸۔املی کا اغوا
میں نے مسٹرسپنلا کو بتایا کہ میں دو چار دن کے لیے کہیں جانا چاہتا ہوں۔چونکہ اس وقت تک مجھے تنخواہ نہیں دی جارہی تھی اس لئے اجازت ملنا کوئی مشکل معاملہ نہیں تھا۔
بیگم اسٹریٹ فورتھ مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئیں اور ان سے زیادہ روزا ڈرٹلے،اگرچہ مجھے نہیں معلوم تھا کہ اس کی وجہ کیا ہے۔مس ڈر ٹلے خاص طور پر مجھے غور سے دیکھ رہی تھی۔میں نے اس کا مشاہدہ اس وقت کیا جب ایک گھنٹے کے لئے میں گھر میں اکیلا رہ گیا تھا ۔
شام کو ہم چاروں چہل قدمی کے لیے باہر گئے۔جب اسٹریٹ فورتھ اور اس کی والدہ ہم سے اتنے آگے نکل گئے کہ انہیں ہماری باتیں سنائی نہیں دے سکتی تھیں،ڈرٹلے نے اپنے پتلے سے ہاتھ سے میرا بازو پکڑ کر مجھے پیچھے کو کھینچ لیا ۔پھر وہ مڑی اور سیدھی میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دیکھنے لگی۔مجھے اس کے چہرے پر پرانے زخم کا نشان واضح نظر آنے لگا۔یہ زخم واقعی بہت بری طرح لگا تھا۔زخم کے اس نشان کے ساتھ اس کی لال آنکھوں نے مجھے تقریباً خوف زدہ کردیا تھا۔”یہ کیا چاہتا؟“
یہ کہتے ہوئے وہ اتنے غصے میں تھی کہ لگتا تھا آگ میں جل رہی ہے۔
”یہ غصے میں ہے ، محبت میں مبتلا ہے یا مغرور ہوگیا ہے….یہ کس احساس کا شکار ہے؟“
”مس ڈرٹلے۔“میں نے جواب دیا۔”میں اسٹریٹ فورتھ کے رویے میں تبدیلی کی کوئی وجہ بھلا کیسے بتا سکتا ہوں۔میں تو خود پہلی بار یہاں آیا ہوں۔مشکل سے تو میں آپ کی بات کا مطلب سمجھ پایا ہوں۔“
”تم اس گفتگو کے بارے میں کسی کو مت بتانا۔“اس نے جلدی سے درشت لہجے میں کہا اور مزید کوئی بات کئے بغیر آگے بڑھ گئی۔
یہاں مس ڈرٹلے کے بارے میں ایک اور بات ہے جو میں بتانا کبھی نہیں بھولوں گا۔روزا ڈر ٹلے اصل میں اسٹریٹ فورتھ کی منگیتر تھی اور بیگم اسٹریٹ فورتھ کی خدمت کے لیے ان کے ساتھ ہی رہ رہی تھی۔
رات کو جب ہم آگ کے پاس بیٹھے تو اس طرح قہقہے لگا کر باتیں کرنے لگے جیسے ہمارا بچپن لوٹ آیا ہو۔ پھر روزا ڈر ٹلے اٹھ کر جانے لگی۔
”مت جاؤ۔“اسٹریٹ فورتھ نے کہا۔وہ اصل میں سونے جا رہی تھی ۔”میری پیاری روزا مت جاؤ۔مہربانی کرکے ایک بار پھر ہمیں اپنا گیت سناؤں۔“
اس نے اپنے تمام تر احساسات کے ساتھ وحشت ناک انداز میں گانا شروع کیا۔اس کی دھیمی آواز اور موسیقی اس کے احساسات اور خیالات کی ترجمانی کر رہے تھے۔مجھے ایسا لگا جیسے میں کوئی خواب دیکھ رہا ہوں۔ایک لمحے بعد اسٹریٹ فورتھ اٹھا اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا۔” دیکھو روزا۔“مگر روزا نے ایک وحشی حیوان کی طرح اسے دھکا دے کر اپنے سے دور ہٹایا اور کمرے سے باہر دوڑ گئی۔
”روزا کے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟“بیگم اسٹریٹ فورتھ نے اندر آتے ہوئے پوچھا۔
”تھوڑی دیر اس کا رویہ اچھا رہا ہے نا ماں….اب لازم ہے کہ اس نے سب کچھ الٹ ہی کرنا ہے۔“اسٹریٹ فورتھ نے جواب دیا۔
روزا واپس نہ آئی۔ جو کچھ ہوا تھا اس پر اسٹریٹ فورتھ ہنسنے لگا اور مجھ سے پوچھنے لگا کہ میں نے کبھی اس طرح کسی کو غضب ناک اور غصے میں دیکھا ہے۔
میں نے اس سے پوچھا کہ کیا وہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ اچانک وہ اس طرح کیوں بپھر گئی۔
”بالکل بھی نہیں۔“وہ بولا۔” اس کی ہر شخص اور ہر چیز پر نظر ہے اور یہ بہت ہی خطرناک ہے…. اچھا شب بخیر۔“
”شب بخیر! میرے عزیز دوست اسٹریٹ فورتھ ۔“میں نے کہا۔”میں صبح سویرے تمہارے جاگنے سے پہلے چلا جاؤں گا۔ شب بخیر۔“
وہ مجھے جانے دینے پر تیار نہیں تھا۔
”ڈیوڈ،اگر کسی وجہ سے ہم آپس میں جدا ہو جائیں تو میرے بارے میں نرم رویہ رکھ کر سوچنا۔“
”میں ہمیشہ ایسا ہی کروں گا اسٹریٹ فورتھ۔“میں نے کہا۔”میں ہمیشہ سے تم سے محبت کرتا ہوں اور تمہیں عزیز رکھتا ہوں۔“
”شب بخیر ڈیوڈ اور خدا حافظ۔“
ہم ہاتھ ملا کر الگ ہوگئے۔صبح میں نے اس کے کمرے میں جھانکا مگر وہ اسی طرح سر کے نیچے بازو رکھ کر سو رہا تھا،جیسے میں اسے اسکول میں سوتے دیکھا کرتا تھا،اور اس طرح میںصبح سویرے کی خاموشی میں اسے سوتا چھوڑ آیا۔

۔۔۔۔۔

دو دن بعد شام کے وقت میں یار ماﺅتھ آگیا اور دس بجے پگوٹی کے گھر کی طرف چل پڑا۔طوفانی رات تھی اور شدید بارش برس رہی تھی۔جب میں وہاں پہنچا تو میں نے گھر کے اندر ایک بتی روشن دیکھی۔
”تم نے خوشی اور حیرت میں مبتلا کر دیا مسٹر ڈیوڈ۔“مسٹر پگوٹی نے کہا۔ان کے چہرے پر خوشی تھی اور انہوں نے کہا۔”بیٹھیے جناب بیٹھیے۔“
واقعی گھر بہت پرسکون لگ رہا تھا۔آگ پوری طرح روشن تھی۔پگو ٹی اپنی پرانی کرسی پر ایسے جمی بیٹھی تھی جیسے اس پر سے کبھی نہیں اٹھے گی۔مسز گومج کمرے کے ایک کونے میں بیٹھی تھی البتہ املی وہاں موجود نہیں تھی۔
”پگوٹی، بزرگ خاتون آپ کیسی ہیں؟“میں نے اس کا ہاتھ چومتے ہوئے کہا۔
اسی وقت مسٹر پگوٹی گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے ۔ انہوں نے موم بتی اٹھائی اور کھڑکی کے ساتھ دیوار میں بنے طاقچے میں رکھ دی۔
”اب تو گھر جگمگا اٹھاہے….یہ ہمارا معمول ہے….“وہ خوشی خوشی بولے۔”کیا تم حیران ہو رہے ہو کہ موم بتی یہاں کیوں؟ یہ ہماری ننھی املی کے لئے ہے….میں وضاحت کرتا ہوں…. جب وہ آرہی ہوتی ہے، اگر میں اس وقت یہاں ہوتا ہوں تو موم بتی اٹھا کر کھڑکی کے ساتھ رکھ دیتا ہوں۔“ایک زبردست قہقہے کے ساتھ انھوں نے بات جاری رکھی۔”اس سے دو کام ہوجاتے ہیں۔ ایک تو گھر کی سمت کا پتا چلتا ہے اور دوسرا یہ کہ املی سمجھ جاتی ہے میرے چچا وہاں ہیں کیوں کہ اگر میں یہاں موجود نہ ہوﺅں تو ظاہر ہے میں یہاں موم بتی نہیں رکھ سکتا۔“
”آپ ایک بچے ہیں ۔“وہ بہت ہی محبت اور شفقت سے انہیں کہتی تھی۔
”میرے جیسا بہت بڑا آدمی؟ میں ایک بچے کی طرح نظر آتا ہوں؟“مسٹر پگوٹی نے اس خیال پر زور سے ہنستے ہوئے کہا۔”شاید لگتا ہوگا مگر میں دیکھتا نہیں،مجھے پروا نہیں۔میں جانتا ہوں کہ جب اس کی شادی ہو جائے گی، میں تب بھی موم بتی کھڑکی کے پاس رکھ کر خود انگیٹھی کے سامنے یہ بہانا کر کے بیٹھ جاؤں گا کہ وہ آرہی ہے ….مگر ابھی تو وہ یہیں ہے۔“
اتنے میں ہام اندر داخل ہوا مگر وہ اکیلا تھا۔اس نے بارش سے بچنے کے لیے سر پر بڑا سا ہیٹ رکھا ہوا تھا جسے کھینچ کر منہ کی طرف جھکایا ہوا تھا۔
”املی کہاں ہے؟“مسٹر پگوٹی نے پوچھا۔
ہام نے اچانک مجھے کمرے میں بیٹھے ہوئے دیکھا تو سر ہلا کر اس طرح کا اشارہ کیا جیسے کہہ رہا ہو کہ املی باہر ہے۔
”مسٹر ڈیوڈ!تم ایک منٹ کے لئے باہر آؤ گے؟باہر آﺅ اور دیکھو کہ میں اور املی تمہیں کیا دکھاتے ہیں۔“ اس نے کہا۔
ہم باہر چلے گئے۔جیسے ہی ہم دروازے سے باہر نکلے، میں نے دیکھا کہ اس کا چہرہ سفید پڑ گیاہے۔
”ہام معاملہ ہے کیا ؟“
”مسٹر ڈیوی! “پھر جو وہ رویا ہے…. اسے میں بیان نہیں کر سکتا۔وہ بہت غمزدہ تھا ۔ میں ہام کو دیکھ رہا تھا مگر کچھ سوچ سمجھ نہیں پا رہا تھا۔
”ہام! بھلے انسان،مہربانی کرکے مجھے بتاؤ تو سہی کہ معاملہ ہے کیا؟“
”مسٹر ڈیوی وی….میرے مستقبل کی امید….وہ ایک جس کے لیے میں جان دے دیتا….وہ اغوا ہوگئی!“
”اغوا!“
مجھے آج بھی یاد ہے کہ جب اس نے مڑ کر اپنا چہرہ آسمان کی طرف اٹھایا تو اس کے چہرے پر کتنے بھیانک تاثرات تھے۔میں وہ منظر کبھی نہیں بھول سکتا۔
”تم ایک پڑھے لکھے شخص ہو۔“وہ تیزی سے بولا۔”میں تمہیں کیسے بتاؤں مسٹر ڈیوی۔“
میں نے دروازے کو ہلتے دیکھا۔مسٹر پگوٹی میری اور ہام کی ساری باتیں سن چکے تھے۔میں مسٹر پگوٹی کا چہرہ نہیں بھول سکتا۔مجھے ان کا رونا یاد ہے۔میرے ہاتھ میں کاغذ کا وہ ٹکڑا تھا جو ہام نے مجھے دیا تھا۔مسٹر پگوٹی کے بال بکھرے ہوئے تھے۔ان کے ہونٹ سفید ہو چکے تھے۔اور وہ میری طرف دیکھ رہے تھے۔
”ا سے پڑھو۔“وہ بولے۔”برائے مہربانی آہستہ….مجھے نہیں معلوم کہ میں کچھ سمجھ بھی سکتا ہوں کہ نہیں۔“
خاموشی کے عالم میں میں نے بڑی مشکل سے وہ خط پڑھا جو ہام کے نام لکھا گیا تھااور کچھ اس طرح تھا:
”تم لوگ ہمیشہ سے اس سے بہت زیادہ محبت کرتے آئے ہو اور اس وقت سے کرتے آئے ہو جب اسے اچھا برا سوچنے کی تمیز بھی نہیں تھی۔جب تم لوگ یہ خط پڑھو گے تو یہ دور جا چکی ہو گی۔“
”یہ دور جا چکی ہو گی۔“مسٹر پگوٹی نے دہرایا ۔”رکو! املی دور….اوہ!“
”جب یہ اپنا پیارا گھر چھوڑ رہی ہے،پیارا گھر….ہاں پیارا گھر….صبح کے وقت….اب یہ کبھی واپس نہیں آئے گی ۔…. میں نے آپ لوگوں کے ساتھ بہت خوفناک زیادتی کی اور مجھے معلوم ہے کہ آپ لوگ مجھے کبھی معاف نہیں کریں گے۔میں یہ لکھتے ہوئے بہت شرمندہ ہوں ۔
یہ تصور کرنے کی کوشش کیجئے کہ جب یہ چھوٹی تھی تب ہی مر گئی تھی اور اب کہیں دفن ہوچکی ہے۔“
میرے پڑھ لینے کے بعد کافی دیرمسٹر پگوٹی ساکت کھڑے مجھے دیکھتے رہے ۔انہوں نے ذرا بھی حرکت نہ کی حالانکہ میں نے بھی ان سے بات کی پھر ہام نے بھی بات کرنے کی کوشش کی مگر کوئی فرق نہ پڑا۔
بالآخر آہستہ آہستہ وہ کمرے میں ادھر ادھر دیکھنے لگے۔پھر بہت ہی آہستہ آواز میں بولے۔”وہ شخص کون ہے؟“
ہام نے میری طرف دیکھا اور مجھے اچانک جھٹکا لگا ۔ میں اپنے اندر شدید کمزوری محسوس کرنے لگا۔
”تمہیں کسی پر شبہ ہے کہ وہ کون ہے؟“
میں بیٹھ گیا مگر مجھ میں صحیح طرح دیکھنے اور سننے کی طاقت نہ رہی۔
ہام بولا ۔”تھوڑی دیر کے لئے ایک معزز شخص نے گھر کے ارد گرد کا چکر لگایا اور وہ بھی بے وقت ۔“ہام تھوڑا سا ہچکچایا مگر پھر بات جاری رکھتے ہوئے بولا۔”گزشتہ شب وہ املی کے ساتھ بات کرتے پایا گیا ۔ہم سمجھے کہ وہ جا چکا ہے مگر وہ چھپا ہوا تھا۔“
میری حالت یہ تھی کہ اگر کوئی یہ بھی کہتا کہ گھر مجھ پر گرنے والا ہے تو بھی مجھ میں حرکت کرنے کی سکت نہیں تھی۔
”پھر اجنبی کو آج صبح نیچے قصبے میں دیکھا گیا۔وہ سفر کے انتظامات کر رہا تھا اور املی اس کے پاس تھی۔یہ وہی شخص تھا۔“
”اوہ! مجھے اس کا نام بتانے کی ضرورت نہیں۔“
”مسٹر ڈیوی۔“ہام عجیب آواز میں رونے لگا۔”اس میں تمہاری کوئی غلطی نہیں مگر اس کا نام اسٹریٹ فورتھ ہے۔وہ ایک گھٹیا انسان ہے!“
مسٹر پگوٹی نہ رو رہے تھے اور نہ ہی ہل رہے تھے۔ اچانک ایسا لگا جیسے وہ نیند سے جاگ اٹھے ہوں اور انہوں نے کوئی فیصلہ کرلیا ہو۔”میں اپنی غریب لڑکی کو ڈھونڈوں گا اور اسے واپس لاؤں گا۔“وہ بولے۔
انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں کل لندن جانا چاہوں گا۔میں نے انہیں بتایا کہ میں جانے کے لیے ہر وقت تیار ہوں۔
”تو پھر میں کل ہی تمہارے ساتھ جاؤں گا مسٹر کاپر فیلڈ۔“انہوں نے جواب دیا۔”اگر تمہیں برا نہ لگے۔“

۔۔۔۔۔

لندن پہنچنے کے بعد ہم سب سے پہلے کر ائے کے لیے کمروں کی تلاش میں لگ گئے تاکہ مسٹر پگوٹی آرام کر سکیں۔خوش قسمتی سے سے مجھ سے دو گلیاں ہی آگے ایک کمرہ مل گیا۔
انہوں نے مجھ سے کہا کہ وہ سب سے پہلے بیگم اسٹریٹ فورتھ سے ملنا چاہتے ہیں ۔ میں نے اسی رات انہیں لکھا اور اسٹریٹ فورتھ نے جو کچھ کیا تھا،وہ جتنی شائستگی اور تہذیب سے بتا سکتا تھا ،انہیں بتایا اور اس جرم میں اپنا حصہ بھی بیان کیا۔میں نے یہ بھی کہا کہ ہم کل دوپہر دو بجے کے بعد ان سے ملنے آ سکیں گے۔
طے شدہ وقت پر ہم ان کے دروازے پر تھے۔بیگم اسٹریٹ فورتھ گھر پر ہی موجود تھیں۔روزا ڈر ٹلے خاموشی سے کمرے کے دوسرے کونے سے آکر ان کی کرسی کے پیچھے کھڑی ہو گئی۔مجھے فوراً اندازہ ہوگیا کہ بیگم اسٹریٹ فورتھ خود اسٹریٹ سے وہ سب کچھ سن چکی ہیں جو اس نے کیا تھا۔
”برائے مہربانی اسے پڑھیے، بیگم اسٹریٹ فورتھ۔“مسٹر پگوٹی نے خط نکالتے ہوئے کہا۔”یہ آپ کے لڑکے کی لکھائی ہے۔“
انہوں نے ا سے پڑھا اور پرسکون اور مغرورانہ انداز میں انہیں واپس کر دیا۔”مجھے بتائیے کہ میں کیا کر سکتی ہو ں۔“
”آپ مجھے میری اس بچی کے بدلے رقم کی پیشکش کر رہی ہیں جو برباد ہو چکی ہے ؟“
اب ایک لمحے میں ان کا رویہ تبدیل ہوگیا اور وہ غصے میں نظر آنے لگیں۔
”میری زندگی کا واحد مقصد میرے بیٹے کی خوشی ہے ۔“وہ بولیں۔”اب اچانک وہ ایک معمولی لڑکی کو اغوا کرکے ڈر کے مارے بھاگ گیا ہے اور مجھے چھوڑ گیا ہے! آپ کا کیا خیال ہے کہ یہ میرے لئے صدمہ نہیں ہے؟“
روزا ڈر ٹلے انہیں تسلی دینے کی کوشش کرنے لگی مگر انھیں کسی طرح تسلی نہیں ہو رہی تھی۔
پھر ہم وہاں سے چلے آئے۔مسٹر پگوٹی سوچوں میں گم آہستہ آہستہ پہاڑی سے اتر رہے تھے۔انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ آج رات ہی اپنا سفر شروع کرنے کا سوچ رہے ہیں۔میں نے ان سے پوچھا کہ وہ کہاں جانے کا سوچ رہے ہیں۔انہوں نے صرف اتنا جواب دیا۔”میں جا رہا ہوں جناب….میں اپنی بچی کو ڈھونڈنے جا رہا ہوں۔“

۔۔۔۔۔

۹۔ہیپ کی حرکتیں
مسٹر اسپنلا نے مجھے بتایا کہ ایک ہفتے بعد ڈورا کی سال گرہ ہے۔وہ چاہتے تھے کہ اس دن میں بھی ان کے ساتھ تفریحی مقام پر چلو ں ۔
میرا خیال ہے کہ اس دعوت کی تیاری میں میں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔میں صبح چھ بجے ہی اپنے نئے چمچماتے جوتے پہن کر ڈورا کے لیے پھول خریدنے نکل کھڑا ہوا،اور دس بجے میں ایک بہترین سر مئی گھوڑے پر سوار مسٹر اسپنلا کے گھر کی طرف جا رہا تھا۔
وہاں پہنچ کر میں غیر آرام دہ جوتوں کے ساتھ چلتا ہوا باغ سے گزر کر ڈورا تک پہنچا۔وہ آسمانی نیلے رنگ کا لباس پہنے ایک درخت کے نیچے بیٹھی تھی اور اپنے اردگرد پھولوں اور پرندوں سے اس نے کیا ہی خوب صورت منظر بنایا ہوا تھا۔
”اوہ،شکریہ مسٹر کاپر فیلڈ! ….کیا ہی پیارے پھول ہیں! “ڈورا بولی۔”تمہیں یہ سن کر خوشی ہوگی کہ مس مرد سٹون یہاں نہیں ہے….یہ خبر اچھی ہے نا؟“
میں نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ یہ اس کے لیے بھی اچھی خبر ہے۔پھر میں نے اور اضافہ کیا کہ جو خبر اس کے لیے اچھی ہے وہ میرے لیے بھی اچھی ہے۔مسٹر اسپنلا گھر سے باہر آئے اور پھر ہم تفریحی مقام کی طرف جانے کے لئے تیار ہوگئے۔
میں اس سفر سے زیادہ کبھی کسی سفر سے نہ تو لطف اندوز ہوا اور نہ ہی ہو سکوں گا۔حالانکہ دھول مٹی بہت زیادہ تھی۔مجھے یہ بھی نہیں یاد کہ ہم کہاں گئے تھے بس اتنا یاد ہے کہ پہاڑی پر ایک سرسبز جگہ تھی جس پر نرم گھاس اور گہرے سایوں والے درختوں نے ایک حیران کن نظارہ بنا رکھا تھا۔میں خوشی کے مارے دیوانہ ہو رہا تھا۔ ڈورا نے جب گیت سنایا تو سب نے اس کی تعریف کی مگر مجھے ایسا لگا جیسے اس نے صرف مجھے سنایا ہو۔شام کو ہم نے چائے پی اور اس شام میں اتنا خوش تھا جیسے میری زندگی ہمیشہ سے ہی ایسی خوش وخرم گزرتی آئی ہو۔
میں اس وقت تک بہت خوش باش رہا جب دعوت اختتام کو پہنچی اور سب جانے لگے مگر صرف میں تھا جو اسپنلا گھرانے کے افراد کے ساتھ ان کے گھر جا رہا تھا کیونکہ مسٹر اسپنلا نے مجھ سے کہا تھا کہ لندن جانے سے پہلے کچھ دیر آرام کرلوں اور پھر ان کے ساتھ کھانا کھا کر چلا جاؤں۔

۔۔۔۔۔

ایک شام جب میں دفتر سے واپس آ رہا تھا تو میرے گھر کا سامنے کا دروازہ کھلا ہوا تھا اور اندر سے آوازیں آ رہی تھیں۔
میں اندر داخل ہوا اور پگو ٹی کو اپنی خالہ کے ساتھ دیکھ کر بہت حیران ہوا۔وہ سامان کے انبار پر بیٹھی چائے پی رہی تھیں جو انہیں پگوٹی نے بنا کر دی تھی۔
میری خالہ کے پاس کچھ بری خبریں تھی جو انہوں نے مجھے سنائیں۔”میں تباہ ہوگئی میرے پیارے بچے۔“وہ بولیں۔ ان کا مکان دریا میں گر گیا تھا اور میرے لئے اس سے بری خبر نہیں ہو سکتی تھی۔
پھر انہوں نے مجھے بہت پرسکون ہوکر بتایا کہ ان کی ساری جمع پونجی بھی جا چکی اور اب وہاں سوائے جھونپڑے کے اور کچھ باقی نہیں بچا اور باقی بچی کھچی ساری چیزیں وہ اپنے ساتھ لے آئی تھیں۔انھوں نے مجھے بتایا کہ پگوٹی ان سے درخواست کر رہی ہے کہ وہ اس سے کچھ ر قم لے لیں مگر یقینا وہ اس بارے میں سوچیں گی بھی نہیں۔
میری خالہ کو اندازہ ہوگیا تھا کہ میں ڈورا سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔وہ کچھ زیادہ خوش نظر نہیں آرہی تھیں اور ہم دونوں کو ’بے چارے ننھے بچے‘ کہہ کر پکار رہی تھیں۔
”میں جانتا ہوں کہ ہم ابھی کم عمر ہیں اور زندگی کے بارے میں ہمارا تجربہ بھی بہت کم ہے خالہ!“ میں نے وضاحت کی۔”لیکن اگر ڈورا راضی نہ ہوئی تو میں کبھی بھی ایسا نہیں چاہوں گا اور خاموش ہو جاؤں گا۔“
”ڈیوڈ!“ میری خالہ افسردہ مسکراہٹ کے ساتھ بولیں۔”تم نابینا ہو! نا بینا ہو! نابینا ہو!“
میں وجہ جانے بغیر بہت ناخوش تھا کہ آخر کیوں؟مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے مجھ سے کوئی چیز کھو گئی ہو اور میں بہت فکرمند تھا۔
رات بہت لمبی لگ رہی تھی۔میری خالہ سونے کے لئے چلی تو گئیں مگر وہ رات بھر آرام نہ کرسکیں ۔میں نے کئی بار ان کے آس پاس ٹہلنے کی آہٹ سنی۔بالآخر میں نے خود بھی سونے کی کوشش ترک کر کے کھڑکی سے دیکھا تو سورج اگنا شروع ہوچکا تھا۔
میں نے جلدی سے کپڑے بدلے اور پگوٹی سے یہ کہہ کر کہ مس ٹروٹ وڈ کا خیال رکھے،میں چہل قدمی کے لئے جا رہا ہوں، باہر نکل گیا۔میں تصور میں اپنی خالہ کی بے چا رگی کو دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔

۔۔۔۔۔

اس کے بعد جلد ہی میری ملاقات ایگنیس سے دوبارہ ہوئی۔وہ اپنے والد….اور اریاہ ہیپ کے ساتھ لندن آئی تھی۔میں اسے اپنی خالہ سے ملانے اپنے گھر لے آیا۔
میری خالہ ایگنیس کو دیکھ کر بہت خوش ہوئیں اور نہایت گرم جوشی سے ہمارا خیر مقدم کیا۔ہم نے خالہ کے نقصانات پر گفتگو کی۔میں نے اسے بتایا کہ میں اسپنلا اینڈ جا رکنز میں کام کے ساتھ کوئی اضافی نوکری تلاش کرنے کا سوچ رہا ہوں۔ایگنیس نے مجھے بتایا کہ ہمارے اسکول کے ہیڈ ماسٹر ڈاکٹر اسٹرانگ آج کل لندن ہی میں ہیں اور کسی سیکریٹری کی تلاش میں ہیں۔میں فوراً بیٹھ کر انہیں لکھنے لگا۔
جب میں لکھ رہا تھا،ایگنیس میری کمرے کی صفائی کر رہی تھی اور ساتھ ساتھ ہر کونے کی ترتیب بھی درست کر رہی تھی۔میں نے اسے دیکھا اور پھر سوچنے لگا کہ وہ اپنے مزاج کے ٹھہراؤ کی وجہ سے کتنی پرسکون لگتی ہے۔پھر اسی وقت دروازے پر دستک ہوئی۔
ایگنیس کے چہرے کا رنگ اچانک اڑ گیا اور وہ بولی۔”میرا خیال ہے والد آئے ہیں۔“
میں نے دروازہ کھولا تو مسٹر وک فیلڈ اندر داخل ہوئے اور ان کے پیچھے اریاہ ہیپ بھی اندر داخل ہوا۔میں نے مسٹر وک فیلڈ کو کافی عرصے سے نہیں دیکھا تھا اور اب ان کی موجودگی نے مجھے ہلا کر رکھ دیا تھا۔ان کا چہرہ لال ہو رہا تھا اور وہ کافی بوڑھے اور بیمار نظر آرہے تھے۔ان کے ہاتھ بھی کپکپا رہے تھے مگر ایک چیز ایسی تھی جس نے ہر چیز سے زیادہ مجھے ہلا دیا تھا اور وہ یہ کہ وہ واضح طور پر پورے کے پورے اریاہ ہیپ کے قابو میں تھے۔وہ قابل احترام، مہربان اور معزز شخص اریاہ جیسے گھٹیا اور ٹیڑھے انسان کی فرماں برداری کر رہا تھا۔
ایگنیس نے انہیں آہستہ سے کہا۔”ابو! یہ مس ٹروٹ وڈ اور ڈیوڈ ہیں،جنہیں ہم نے کافی عرصے سے نہیں دیکھا ۔“اور پھر مسٹر وک فیلڈ نے میری خالہ اور مجھ سے ہاتھ ملایا۔میں نے اریاہ کو اپنے مکروہ انداز میں مسکراتے دیکھا۔ایگنیس نے بھی اسے دیکھا اور اس سے دور ہٹ گئی۔
اس نے اپنے مخصوص انداز میں سانپ کی طرح بل کھا کر انگڑائی لی تو میری خالہ بڑی ناراض ہوئیں۔وہ ترچھی آواز میں بولیں۔ ”وہ کیا کر رہا ہے؟….اس طرح بل مت کھاؤ جناب!…. اگر تم ایک کیڑا ہو تو ضرور ایسا ہی کرو لیکن اگر انسان ہو تو اپنے وجود پر قابو رکھو جناب!“
مسٹر ہیپ میری خالہ کی تندوتیز تقریر سے خاصا دہشت زدہ ہو گیا۔ پھر وہ مجھ سے اتنی دھیمی آواز میں گفتگو کرنے لگا کہ میری خالہ نہ سن سکیں۔
”میں جانتا ہوں کہ مس ٹروٹ وڈ کا غصہ بہت خراب ہے مگر وہ ایک بہترین خاتون ہیں۔“وہ بولا۔”میں صرف یہ کہنے کے لئے آیا ہوں کہ موجودہ صورتحال میں ہم کیا خدمت کر سکتے ہیں….والدہ یامیں یاوک فیلڈ اور ہیپ دونوں….کسی بھی قسم کی مدد کرکے خوشی محسوس کریں گے….ہمارے لائق کوئی بھی خدمت ہوتو بتائیے۔“
”جو کچھ اریاہ نے کہا، میں اس سے مکمل اتفاق کرتا ہوں۔“مسٹر وک فیلڈنے ڈھیلی آواز کے ساتھ فرماں بردارانہ انداز میں کہا۔
”ان کا اعتماد ہی اصل میں میری خدمات کا صلہ ہے مسٹر کاپر فیلڈ۔“میں نے دوبارہ اس کے عجیب چہرے پر غلیظ مسکراہٹ دیکھی اور یہ بھی کہ وہ مجھے کس طرح دیکھ رہا تھا۔

۔۔۔۔۔

اگلے دن میں ڈاکٹر اسٹرانگ سے ملنے گیا۔وہ مجھے اپنا سیکریٹری رکھنے کو تیارہوگئے۔انہوں نے فراخدلانہ طور پر مجھے اچھی تنخواہ کی پیشکش کی ۔میں جانتا تھا کہ ان حالات میں یہ میرے اور میری خالہ کے لیے بہت مددگار ہوگی۔ہم نے فیصلہ کیا کہ میں اگلے ہی دن صبح سات بجے سے کام شروع کر دوں گا۔ ہمارے منصوبے اطمینان بخش طریقے سے آگے بڑھ رہے تھے۔ہم ڈاکٹر اسٹرانگ کے گھر گئے اور انہوں نے گھر واپس آنے سے پہلے چائے سے ہماری تواضح کی۔
مجھے یوں لگا جیسے میں نے نئی زندگی شروع کی ہو۔میں مزید کچھ بہتر کرنا چاہتا تھا اور میں نے یہ جاننے کا فیصلہ کیا کہ آیا ٹریڈلیس میری مدد کر سکتا ہے کہ نہیں۔میں نے سنا تھا ا ہم اور کامیاب لوگوں نے اپنی جوانی میں اخبارات کے لئے رپورٹروں کی حیثیت سے کام کیا تھا۔ٹریڈ لیس نے مجھے بتایا کہ اس کام کے لئے جو مہارت چاہیے وہ مجھ میں نہیں ہے ۔یہ تیزرفتاری سے لکھنے کا ایک مخصوص طریقہ تھا۔وہ بولا کہ یہ اسی طرح مشکل ہے جس طرح چھ مختلف غیر ملکی زبانیں سیکھنا۔
”میرے عزیز ٹریڈ لیس،میں تمہارا بہت شکر گزار ہوں۔“میں نے کہا۔”میں کل ہی سے سیکھناشروع کر دوں گا۔میں ایک کتاب خریدوں گا جس میں اس فن کو سیکھنے کی بہترین منصوبہ بندی ہوگی….ٹریڈ لیس!میرے پیارے دوست!میں اسے سیکھ لوں گا۔“
ٹریڈ لیس بہت حیران ہوا مگر وہ نہیں جانتا تھا کہ میں اپنی خالہ کے سامنے اپنے آپ کو ایک ذمہ دار انسان ثابت کرنا چاہتا تھا اور سنجیدگی کے ساتھ یہ بتانا چاہتا تھا کہ میں ڈورا سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔
”مجھے اندازہ نہیں تھا کہ تم ایک ایسے پرعزم کردار کے مالک ہوں،کاپر فیلڈ۔“وہ بولا۔
پھر اچانک اس نے اپنی جیب سے خط نکالا اور کہنے لگا۔”اس معاملے میں،میں مسٹر میکابر کو بالکل بھول ہی گیا۔“
یہ خط مسٹر میکابر کی طرف سے میرے نام تھا اور اس میں انہوں نے لکھا تھا کہ ان کا گھرانا لندن چھوڑنے والا ہے۔وہ ایک چھوٹے سے قصبے میں رہنے جا رہے ہیں۔انہوں نے مجھے اور ٹریڈ لیس کو دعوت دی تھی کہ اس شام ان کے ساتھ عشائیہ کریں۔
ٹریڈ لیس اور میں فوراً چل پڑے۔
جب ہم میکا بروں کے پاس پہنچے تو ہم نے دیکھا کہ خاندان کا سارا سامان باندھا جا چکا۔ میں نے بے تابی سے بیگم میکا برسے اس اچانک فیصلے کے بارے میں پوچھا۔
”میں جانتی ہوں میرے پیارے مسٹر کاپر فیلڈ کہ ہوسکتا ہے کہ ہم ایک ایسے قصبے میں جاکر اپنی قربانی دے رہے ہوں جہاں زندگی کا نظام بہت سست رفتار ہو ….مگر یقینامسٹر کاپر فیلڈ !…. اگر یہ میرے لئے قربانی ہے تو مسٹر میکابر جیسے با صلاحیت انسان کے لئے یہ کہیں زیادہ بڑی قربانی ہے۔“بیگم میکابر بولیں۔
”اوہ! آپ لوگ کون سے قصبے کی طرف جا رہے ہیں؟“میں نے پوچھا۔
مسٹر میکابر ہم سب کو ایک ایسے بڑے جگ سے مشروب پیش کر رہے تھے جو اس مقصد کے لیے نہیں بنایا گیا تھا۔مشروب کا ذائقہ ایسا تھا جیسے چائے اور کافی کو ملا کر بنایا گیا ہو۔اب انہوں نے جواب دیا۔” میرے عزیز کاپر فیلڈ!ہم کنٹربری جا رہے ہیں….میں نے اپنے دوست ہیپ کے ساتھ مل کر یہ فیصلہ کیا ہے کہ میں اس کے ذاتی منشی کے طور پر اس کی مدد اور خدمت کروں گا۔“
میں ٹکٹکی باندھے مسٹر میکابر کو دیکھتا رہا اور وہ میری شدید حیرت کودیکھ کر لطف اندوز ہوتے رہے۔

۔۔۔۔۔

۱۰۔ڈورا سے شادی
میرے نئے معمولات کو شروع ہوئے ابھی ایک ہفتہ بھی نہیں ہوا تھا۔ میں اس مشکل صورت حال میں خالہ کے سامنے اپنے آپ کو کارآمد ثابت کرنے کے لیے پر عزم تھا۔میں وہ وقت بھی نہیں بھلا سکتا جب میں نے ایک رپورٹر بننے کا فیصلہ کیا۔ٹریڈلیس نے مجھے مشورہ دیا کہ اگر میں رپورٹر کی طرح لکھنا چاہتا ہوں تو اس سے سبق لیا کروں۔ میں نے اس کا مشورہ قبول کر لیا اور ایک لمبے عرصے تک ڈاکٹر اسٹرانگ کے کام سے گھر آنے کے بعد روزانہ رات کو ہم مل کر کام کرتے۔
ایک بہترین مشق کے نتیجے کے میں میں جلد ہی تیزی سے لکھنا سیکھ گیا جیسے ٹریڈ لیس نے مجھے زبانی اسباق میں سکھایا تھا مگر میں نے اس کام کے لیے حقیقتاً بہت محنت کی تھی۔
ایک دن جب میں دفتر پہنچا تو مسٹر اسپنلا کو غصے میں دروازے پر ہی کھڑے پایا۔ہمیشہ کی طرح دوستانہ انداز میں صبح بخیر کہنے کے بجائے انہوں نے شائستگی کے ساتھ مجھے اپنے ہم راہ ایک کافی شاپ چلنے کی درخواست کی۔
کافی شاپ پہنچنے پر جب میں نے دیکھا کہ مس مردسٹون وہاں ہمارا انتظار کر رہی ہے تو میں سمجھ گیا کہ ضرور کوئی خاص بات ہے۔
مس مرد سٹون نے اپنا بیگ کھولا اور خوب صورت نیلی ڈوری میں بندھا خطوط کا ایک پلندہ نکالا۔یہ ڈورا کا رشتہ مانگنے کے لیے میری طرف سے لکھے گئے خطوط تھے۔
میں نے وضاحت کرنے کی کوشش کی مگر مسٹر سپنلا نے مداخلت کی۔”تم دونوں ابھی کم عمر ہو۔“وہ بولے۔”ہم مزید اس طرح کی بیوقوفیاں نہیں چاہتے ….اور مہربانی کرکے یہ سارے خطوط مجھے دے دو مرد سٹون…. تاکہ میں انہیں آگ میں ڈال سکوں۔“
”مگر محترم میں آپ کی اس بات سے اتفاق نہیں کر سکتا۔“
”یہ تمہارا مسئلہ ہے مسٹر کاپر فیلڈ۔“
اس کے بعد انہوں نے مجھ سے کہا کہ وہ اپنی بیٹی کی خوشیوں کے حوالے سے کوئی کسر نہیں چھوڑنا چاہتے اور چونکہ ان کا خاندان ایک کھاتا پیتا خاندان ہے، اس لیے وہ اپنی بیٹی کا رشتہ کسی امیر اور اچھے عہدے پر فائز شخص سے کریں گے۔
میں اس رات مایوسی کے ساتھ بستر پر جا لیٹا۔
ہفتے کی صبح میں مایوسی کے ساتھ ہی اٹھا اور مایوسی کے ساتھ ہی سیدھا دفتر کی طرف نکل کھڑا ہوا۔جب میں دفتر پہنچا تو سارے کلرک وہاں پہلے سے موجود تھے مگر کوئی کلرک کسی قسم کا کوئی کام نہیں کر رہا تھا۔
”یہ بڑی افسوسناک خبر ہے مسٹر کاپر فیلڈ….“میں جیسے ہی داخل ہوا چیف کلرک مجھ سے بولا۔پھر اس نے مجھے بتایا کہ کل شام مسٹر سپنلاکام سے گھر جاتے ہوئے انتقال کر گئے۔وہ اکیلے سفر کر رہے تھے اور بگھی سے نیچے گر پڑے تھے۔جب ان کے ملازم نے انہیں تلاش کیا تو وہ تھوڑی دیر پہلے ہی انتقال کر چکے تھے۔
میں اس قدر حیران ہوا کہ ایک لفظ بھی نہ بول سکا۔

۔۔۔۔۔

ڈورا کی دو خالائیں تھیں جو پُتنے میں رہتی تھیں۔ان کا خیال تھا کہ وہ ڈورا کو اپنے ساتھ لے جائیں اور وہ ان کے ساتھ ہی رہے۔ اس کے پاس جانے کے لئے کوئی اور جگہ تھی بھی نہیں اور اس کے پاس اپنی کوئی ذاتی رقم بھی نہیں تھی۔مسٹر سپنل…. ایسا لگتا تھا کہ انتقال سے پہلے وہ غریب ہو چکے تھے۔
اس کی خالاﺅں نے مجھے اپنی طرف چکر لگانے کا لکھا۔ میں نے جوابی خط میں ان کو دعوت قبول کرنے کا لکھا اور یہ بھی لکھا کہ میں ڈورا سے کیوں شادی کرنا چاہتا ہوں۔پھر وہ اہم ترین دن آیا جب میں نے ٹریڈلیس کو ساتھ لیا اور ہم پتنے کی طرف چل پڑے۔
ہمیں ایک صاف ستھرے اور پرسکون کمرے میں لے جایا گیا۔دو چھوٹے قد کی خشک مزاج بزرگ خواتین وہاں بیٹھی ہمارا انتظار کر رہی تھیں۔میں نے اندازہ لگایا کہ ایک بہن دوسری سے چھ یا آٹھ سال بڑی ہے۔چھوٹی بہن بڑی کے تابع فرمان نظر آتی تھی۔ ایک بہن کے ہاتھ میں میرا خط تھا جبکہ دوسری بہن ہاتھ باندھے بیٹھی تھی۔
جس بہن کے ہاتھ میں میرا خط تھا،اس نے بات شروع کی۔”مسٹر کاپر فیلڈ!…. میری بہن ’کلاریسا‘ اور مجھے یقین ہے کہ تم اچھے اور دیانت دارانہ کردار کے مالک ایک معزز نوجوان ہو۔“ وہ بولیں۔
”اب تم میری بہن ’لوینیا‘ اور مجھ سے شادی کے بارے میں بات کرو گے۔“مس کلاریسا بولیں۔”میری بہن اور میں نے تمہارے خط پر اچھی طرح غور کیا۔ہمیں یقین ہے کہ تم ڈورا سے شادی کرنے کے حوالے سے سنجیدہ ہو۔“
میں نے پھر انہیں اپنی سنجیدگی کا یقین دلایا اور انہیں بتایا کہ آخر میں ڈورا سے ہی کیوں شادی کرنا چاہتا ہوں۔
مس لوینیا نے عینک لگا کرمیرا خط دوبارہ غور سے پڑھا۔دونوں بہنوں کی چھوٹی چھوٹی روشن اور چمکدار آنکھیں ایسی گول تھیں جیسی پرندوں کی ہوتی ہیں۔ اور وہ تھوڑی سی جگہ پر تیز تیز گھوم رہی تھیں۔دونوں خواتین بالکل ایسی لگ رہی تھیں جیسے دو پرندے ساتھ بیٹھے ہوں۔ پھر مس لوینیا نے بات کو آگے بڑھایا۔”ہم نے تمہیں جاننے کے لیے ایک اچھی ترکیب سوچی ہے مسٹر کاپر فیلڈ!….ہم یہ چاہتے ہیں کہ تم یہاں آیا جایا کرو۔“
”معزز خواتین! میں آپ کی مہربانیاں کبھی نہیں بھولوں گا۔“میں جذباتی ہو گیا۔
”کلاریسا بہن!“مس لوینیا بولیں۔”باقی انتظام تم نے کرنا ہے۔“
مس کلاریسا جوہاتھ باندھے بیٹھی تھیں، انہوں نے پہلی بار ہاتھ کھولے اور مجھے بتایا کہ ہر اتوار تین بجے میں ان کے ساتھ ظہرانہ کروں اور اتوار کے علاوہ ہفتے کے کوئی سے بھی دو دن، ساڑھے چھ بجے شام کی چائے پر آؤں اور یہ دعوت ہر ہفتے میں تین دن کے لیے ہے۔
جب میں نے یہ سنا تو بے حد خوش ہوا اور دونوں خواتین کا جھک کر شکریہ ادا کیا۔

۔۔۔۔۔

مجھے یہاں رکنے دیجئے اور مجھے میری زندگی کے اہم ترین حصے پر غور کرنے دیجئے۔
اس وقت میری عمر اکیس سال تھی یعنی اب میں لڑکا نہیں رہا تھا بلکہ ایک مرد بن چکا تھا۔ چونکہ میں نے رپورٹنگ کا فن سیکھا تھا اور گیارہ دوسرے افراد کے ساتھ اخبار میں کام بھی کر رہا تھا اور یہی وجہ تھی کہ اب اس کام کی اچھی تنخواہ بھی لے رہا تھا۔میرا عزیز دوست ٹریڈلیس بھی اسی اخبار میں کام کر رہا تھا اور ہم دونوں کے ذمے ایک ہی قسم کا کام تھا۔اس کے ساتھ میں نے مختصر کہانیاں لکھنا شروع کر دی تھیں اور ہمت کرکے ان کے مختلف حصے ایک رسالے کو بھی بھیجے تھے۔ جلد ہی وہ مجھے ایک مصنف کے طور پر معاوضے کی ادائیگی شروع کرنے والے تھے۔ میرے حالات ہر لحاظ سے بہتر تھے۔
یہی وجہ تھی کہ مس لوینیا اور مس کلاریسا نے میری درخواست قبول کر لی تھی اور اب میری اور ڈورا کی شادی ہونے جارہی تھی۔ وہ لوگ پرجوش طریقے سے شادی کی تیاری میں مصروف تھے۔ پگوٹی مدد کے لیے لندن آچکی تھی۔اس کی سب سے بڑی ذمہ داری یہی نظر آتی تھی کہ ہر چیز کو بار بار صاف کرے۔
میرے خواب سچ ہونے جا رہے تھے۔
”میں تمہیں بتاؤں کہ اگر میری اپنی شادی ہو رہی ہوتی تب بھی میں اس سے زیادہ خوش نہ ہوتا جتنا اب ہوں۔“ٹریڈلیس بولا۔
ایگنیس اپنا بھولا بھالا چہرہ لئے کنٹربری سے آچکی تھی،اس طرح اس سے بھی ملاقات ہوئی۔
ہماری شادی میں دو دن رہ گئے تھے اور مجھے ابھی تک یقین نہیں آرہا تھا۔ہم نے ایک خوشیوں بھری شام ایک ساتھ گزاری مگر مجھے ابھی تک بھی یقین نہیں آرہا تھا۔
اگلے دن ہم سب گھر دیکھنے گئے۔یہ ہمارا یعنی میرا اور ڈورا کا گھر تھا مگر میں ابھی تک اپنے آپ کو مالک تصور کرنے سے قاصر تھا۔یہ ایک چھوٹا سا خوب صورت گھر تھا۔ہر چیز نئی تھی اور چمک رہی تھی۔پردوں پر پھول اور پتے ایسے لگ رہے تھے جیسے ابھی اگ آئے ہوں۔ڈورا کی ساری چیزیں پہلے ہی سے مناسب جگہوں پر رکھی جا چکی تھیں۔
میں قریب ہی ایک کمرے میں رہ رہا تھا اور جب گھر واپس گیا تو میرے خیالات حد سے زیادہ الجھے ہوئے تھے۔میں صبح سویرے اٹھا اور اپنی خالہ کو لینے چلا گیا۔
میں نے انہیں اتنا خوش کبھی نہیں دیکھا تھا۔انہوں نے ہلکے نیلے رنگ کا ریشمی جوڑا پہن رکھا تھا اور سر پر سفید ہیٹ لگا رکھا تھا۔ پگوٹی اور وہ چرچ جانے کے لیے تیار تھیں۔
ہم نے بغیر چھت کی بگھی میں ایک ساتھ سفر شروع کیا۔اس وقت مجھے ان بدقسمت لوگوں پر ترس آنے لگا جو چھوٹی چھوٹی نوکریاں اور عام سے کام کرتے ہیں۔
ہم چرچ کے دروازے پر پہنچے تو واقعی لگتا تھا کہ یہ ایک خواب ہے۔
میں نے خواب دیکھا کہ وہ لوگ ڈورا کے ساتھ آئے۔محرر پیش ہوا اور شادی شروع ہوگئی۔
مجھے یاد ہے کہ سب سے پہلے مس لوینیا روئیں۔مجھے اپنا اور ڈورا کا ساتھ ساتھ گھٹنوں پر جھکنا بھی یاد ہے۔رسومات ختم ہونے پر میرا اور ڈورا کا آنکھوں میں آنسو لیے ایک دوسرے کو مسکراتے ہوئے دیکھنا بھی یاد ہے۔
مجھے یاد ہے کہ چرچ سے نکلتے ہوئے ہم نے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام رکھا تھا اور میں بہت فخر محسوس کر رہا تھا۔ میں اتنا خوش تھا کہ شادی میں شریک لوگ مجھے مشکل سے نظر آرہے تھے، مگر جب ہم ان کے قریب سے گزرے تو وہ سرگوشیاں کر رہے تھے کہ دلہن کتنی کم عمر اور خوب صورت ہے۔
ہماری شا دی کے عشائیے میں عمدہ قسم کے کھانے اور مشروبات تھے۔
پھر میں نے دیکھا کہ ڈورا تیار تھی اور وہ بار بار حیرت کا شکار ہو رہی تھی اور ہر چیز بھول چکی تھی۔میں نے دیکھا کہ ہر شخص گھر میں ادھر ادھر دوڑ رہا تھا کہ کوئی چیز رہ نہ جائے۔
آخر میں اس نے سب کی طرف اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھ لہرائے اور ہم وہاں سے چل پڑے۔
ہم ایک ساتھ بگھی پر سوار تھے اور پھر میں اپنے خواب سے جاگ چکا تھا۔بالآخر مجھے ہر چیز پر یقین آ گیا۔میری بہت پیاری اور چھوٹی سی بیگم میرے ساتھ بیٹھی تھی۔

۔۔۔۔۔

ننھی ڈورا اور میں گھر کا انتظام چلانا نہیں جانتے تھے۔مجھے نہیں لگتا کہ کوئی بھی دو نوجوان اتنا کم جانتے ہوں گے جتنا کم ہم جانتے تھے۔ہماری ایک ملازمہ تھی اور ظاہر ہے کہ گھر کی دیکھ بھال وہی کیا کرتی تھی۔
مگر وہ ہمارے لیے ایک بڑی پریشانی کا سبب بن گئی۔وہی ہماری پہلی چھوٹی سی نا اتفاقی کا موضوع تھی مگر پھر یقینا ہم دوبارہ دوست بن گئے اور ہم نے اس بات پر اتفاق کیا کہ یہ چھوٹی سی پہلی نااتفاقی ہی ہماری آخری نااتفاقی ہوگی،اور ہماری زندگیوں میں دوبارہ کبھی ایسا نہیں ہوگا۔
اس واقعے کے چند ہی دن بعد ڈورا نے مجھ سے کہا کہ وہ خود ہی اچھی طرح گھر کا انتظام چلانا چاہتی ہے۔چنانچہ اس نے کھانا پکانا سیکھنے کے لیے ایک کتاب خرید لی۔ جیسا اس نے کہا تھا، اس کے مطابق اس نے اچھی منتظم بننے کی پوری کوشش کی۔اس نے رقم کے اخراجات کا حساب لکھنے کے لئے بھی ایک بڑا رجسٹر خرید لیا تھا۔ وہ روزانہ اس میں دو تین چیزیں لکھتی اور پھر اسے دیکھ کر مایوسی سے کہتی۔ ”اعداد ٹھیک نہیں آ رہے۔یہ میرے سر میں بہت ہی درد کرتے ہیں اور یہ کوئی ایسا کام نہیں ہونے دیں گے جو میں چاہتی ہوں۔“
پھر میں کہتا۔”دونوں مل کر کوشش کرتے ہیں….مجھے دکھاؤ ڈورا!“
غالباً چار پانچ منٹ تک ڈورا غور سے دیکھتی مگر جلد ہی وہ بیزار ہو جاتی اور میرے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگتی یا پھر یہ دیکھنے لگتی کہ میں اپنی قمیص کے مڑے ہوئے کالر کے ساتھ کیسا لگتا ہوں۔
چنانچہ ہماری زندگی کے مسائل اور معاملات میں نے خود حل کرنے کا بندوبست کیا اور ان کے حل میں میرا اور کوئی ساتھی نہیں تھا۔
ڈورا بہت کم ہی کبھی نا خوش ہوتی اور اس بات سے مجھے بہت اطمینان تھا مگر وہ بہت مضبوط نہیں تھی۔وہ بہت خوبصورت اور خوش باش تھی مگر اس کے متحرک پاؤں رفتہ رفتہ تیزی کے ساتھ سست پڑ گئے اور پھر ٹھہر کر رہ گئے۔
میں روزانہ صبح اسے سیڑھیاں اتار کر نیچے لے جاتا اور رات کو اوپر لے آتا۔کئی بار جب میں نے اسے اٹھایا تو ایسا لگا کہ اس کا وزن کم ہوگیا ہے۔آہستہ آہستہ مجھے یہ بات سمجھ آگئی کہ میری ننھی ڈورا واقعی بہت بیمار ہے،تب مجھے محسوس ہوا کہ میری پوری زندگی ویران اور مردہ ہوچکی ہے۔

۔۔۔۔۔

۱۱۔ املی کی واپسی
ڈورا کی بیماری شروع ہوئے چند ماہ ہوئے تھے۔ایک دن میں اداسی کے مارے سر جھکائے باغ میں چہل قدمی کر رہا تھا ۔ مختلف چیزوں کے بارے میں سوچتے ہوئے اتفاقاً میری نظر سڑک پر چلتے آدمی پر پڑی جو بڑے شوق اور جذبے سے سیدھا میری طرف آ رہا تھا۔ یہ مسٹر پگوٹی تھے جو بہت بوڑھے اور بیمار لگ رہے تھے مگر انکی بے قراری صاف دکھائی دیتی تھی۔
”میری بچی املی زندہ ہے جناب! “وہ بولے۔ان کی روشن آنکھیں مزید چمکنے لگیں۔”تم میرے ساتھ اسے دیکھنے چل سکتے ہو؟“
اس کے جواب میں میں نے فوراً باغ سے نکل کر ان کی طرف قدم بڑھا دئیے۔کوئی لفظ کہے بغیر ہم تیزی سے لندن کی تاریک سڑکوں میں سے ایک سڑک پر آگئے ۔یہاں بنے مکانات کسی زمانے میں اچھے ہوں گے مگر اب ان کی حالت بہت خستہ تھی اور اکیلے کمرے کے طور پر استعمال ہوتے تھے۔ان میں سے ایک مکان میں داخل ہوتے ہوئے انہوں نے مجھے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا تو میں ان کے پیچھے ٹوٹی پھوٹی سیڑھیاں چڑھنے لگا۔
جیسے ہی ہم املی کے کمرے کے پاس پہنچے،ہم نے کسی عورت کو غصے میں زور زور سے بولتے سنا۔یہ املی نہیں تھی مگر مجھے بڑی حیرت ہوئی کیونکہ میں نے اسے پہچان لیا تھا۔یہ مس ڈرٹلے کی آواز تھی۔املی کے کمرے کا دروازہ تھوڑا سا کھلا ہوا تھا۔مسٹر پگوٹی اور میں باہر کھڑے ہو کر سننے لگے اور انتظار کرنے لگے۔
”مجھے اس کی کوئی پروا نہیں کہ وہ گھر پر ہے کہ نہیں ہے۔“روزا ڈرٹلے غصے میں کہہ رہی تھی۔”میں تمہیں دیکھنے آئی ہوں۔“
”مجھے!!“ نرم آواز میں جواب آیا۔
جب میں نے یہ آواز سنی تو میری خوشی بڑھ گئی۔یہ املی کی آواز تھی۔
”ہاں!“ مس ڈرٹلے نے جواب دیا۔”میں اس لڑکی کو دیکھنا چاہتی تھی جسے جیمز اسٹریٹ فورتھ اغوا کر لایا ہے۔تم اتنی بے وقوف ہو کہ تمہیں وہ اتنی آسانی سے اغوا کر لایا ہے؟کبھی اس گھر کے بارے میں سوچا ہے جو اس واقعے کی وجہ سے برباد ہوگیا؟“
”اوہ، ہر دن اور ہر رات میں اس کے بارے میں سوچتی ہوں۔“املی رونے لگی۔”ہائے گھر!گھر!“
”تمہارا گھر! “روزا ڈرٹلے چیخی۔اس کے الفاظ زہر میں بجھے ہوئے تھے۔”تمہارا کیا خیال ہے کہ مجھے تمہارے گھر کی فکر ہے ….تم تو ایک حقیر کیڑا ہو!…. میں اس گھر کے بارے میں بات کر رہی ہوںجہاں میں رہتی ہو….خاتون کے اس گھر میں اداسی کی وجہ تو یہاں ہے۔جس گھر میں تمہیں باورچی خانے کا کام کرنے کی اجازت نہیں۔تم ساحل سمندر سے اٹھایا ہوا کچرے کا ایک ٹکڑا ہو….تم ہو ہی اس قابل کہ تمہیں تھوڑا عرصہ استعمال کرکے اپنی اصل جگہ پر پھینک دیا جائے۔“
”نہیں! نہیں!“ املی رونے لگی۔”یہ بات ٹھیک ہے کہ میں اپنی بیوقوفی اور سادگی کی وجہ سے یہاں تک پہنچی ہوں مگر میں بھی جانتی ہوں اور اسے بھی اچھی طرح پتا ہے کہ اس نے مجھے دھوکہ دینے میں اپنی پوری قوت لگا دی ہے۔“
”پوری قوت!….لوگ تمہاری جیسی لڑکیوں کو کوڑے کیوں نہیں مارتے؟ اگر میں کوڑے مارنے کا حکم دے سکتی تو تمہیں ضرور لگواتی۔“
آہستہ آہستہ بلکہ بہت آہستہ آہستہ وہ ہنسنا شروع ہوگئی۔
اس کی ہنسی اس کے بھیانک غصے سے زیادہ بدتر تھی۔
”میں یہاں یہ دیکھنے آئی ہوں کہ تم لوگ کیا چاہتے تھے۔مجھے تجسس تھا مگر اب میں مطمئن ہوںمگر….مگر میں تم سے کچھ اور کہنا چاہتی ہوں….سنو،کیوں کہ میں جو کچھ کہوں گی وہی کروں گی….اپنے آپ کو کہیں چھپاﺅ….کسی ایسی جگہ جہاں تم کسی کو نہ مل سکو….کوئی خفیہ زندگی تلاش کرو یا پھر بہتر ہے کہ ایک خفیہ موت مر جاﺅ….اگر تم یہاں رہو گی تو میں ہر کسی کو تمہارے بارے میں بتا دوں گی۔“
روزا ڈرٹلے نے دروازہ کھولا اور تیزی سے ہمارے پاس سے گزر گئی۔اسے محسوس ہی نہ ہوا کہ ہم وہاں موجود ہیں۔
مسٹر پگوٹی نے اطمینان کا سانس لیا اور تیزی سے کمرے کی طرف بڑھے۔
”چچاجان!“
اس لفظ کے پیچھے زاروقطار رونا تھا۔جب میں نے دیکھا تو مسٹر پگوٹی اسے اپنے بازوﺅں میں اٹھائے ہوئے تھے اور وہ بے ہوش ہو چکی تھی۔
”مسٹر ڈیوی!“ وہ بولے۔”میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ میرا خواب سچا ہوا اور اس نے میری بچی تک میری راہنمائی فرمائی۔“
یہ کہہ کر انہوں نے اسے اپنے بازوﺅں میں اٹھایا۔ املی اب بھی بالکل ساکت اور بے ہوش تھی اور وہ ا سے اٹھائے سیڑھیاں اترنے لگے۔

۔۔۔۔۔

اگلے دن صبح سویرے مسٹر پگوٹی میرے گھر آئے اور املی کے ساتھ جو کچھ ہوا تھا، مجھے بتایا۔
”وہ سانپ جیمز اسٹریٹ فورتھ اسے اٹلی لے گیا تھا ، جہاں وہ سمندر کے کنارے ایک گھر میں رہتے تھے۔یہ نہ تو وہاں کی زبان جانتی تھی اور نہ اس کا وہاں کوئی دوست تھا۔اسے یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ گھر واپس کیسے جانا ہے۔یہ وہاں اسٹریٹ فورتھ کی قیدی بن کر رہ گئی تھی۔پھر ایک دن اس نے وہاں سے بھاگنے کا فیصلہ کیا۔اسے فرانس کا راستہ مل گیا۔اس نے وہاں مسافرخواتین کی خادمہ بن کر کام کیا۔ پھر یہ انگلینڈ آگئی اور ڈوور میں اتر گئی۔
پھر یہ لندن پہنچ گئی۔“اب مسٹر پگوٹی سرگوشی والے انداز میں بات کرنے لگے۔”یہ یہاں اپنی زندگی میں پہلے کبھی نہیں آئی تھی۔ اب یہ اکیلی تھی اور اس کے پاس رقم بھی نہیں تھی اور پھر یہ تھی بھی لندن میں۔مگر یہ جیسے ہی لندن پہنچی ،تقریباً اسی وقت اسے کوئی مددگار مل گیا۔ یہ ایک اچھی خاتون تھی اور اس نے املی سے کہا کہ وہ اس کے لئے کوئی کام بھی ڈھونڈ لے گی اور رات گزارنے کا کوئی ٹھکانہ بھی۔اس نے اگلے دن اس خاتون کو خفیہ طور پر میرے بارے میں بتایا۔“
اس لمحے خوشی کے مارے مجھے رونا آگیا۔
”اس نے میری املی کا خیال رکھا۔“مسٹر پگوٹی بولے۔”املی بہت تھکی ہوئی تھی، اس لیے اگلے دن تک سوتی رہی۔اس دوران خاتون مجھے تلاش کرنے نکل گئی۔“
وہ بولتے بولتے رک گئے۔ہم سب خاموشی سے اس کہانی کے بارے میں سوچ رہے تھے،پھر میں بولا۔
”میرے عزیز! آپ نے کوئی فیصلہ کیا کہ اب آپ کیا کریں گے؟“
”ہاں، مسٹر ڈیوی!“ مسٹر پگوٹی نے پرامید انداز میں مسکراتے ہوئے کہا۔”میں نے املی سے کہا ہے کہ یہاں سے دور بہت سے عظیم ممالک ہیں….ہم لازمی بیرون ملک جا کر رہیں گے….ہم اپنی نئی زندگی کی شروعات کرنے آسٹریلیا جائیں گے….ہمارے سفر پر جانے تک املی میرے ساتھ ہی رہے گی۔بے چاری….اس کو بحال ہونے کے لیے آرام اور سکون کی ضرورت ہے۔
یہاں ایک بات اور بھی ہے مسٹر ڈیوی۔“وہ بولے۔”جب میں باہر تھا تو میں نے ہام کو خط لکھ کر صورت حال سے آگاہ کیا۔میں نے اس سے کہا کہ میں کل یار ماﺅتھ آﺅں گا تا کہ آخری بار اس سے مل کر الوداع کہہ سکوں۔“
”اور کیا آپ یہ پسند کریں گے کہ میں بھی آپ کے ساتھ چلوں؟“میں نے کہا۔
”ضرور پسند کروں گا، مسٹر ڈیوی۔“انہوں نے جواب دیا۔”میں جانتا ہوں کہ تمہیں ایک نظر دیکھنے سے انہیں تھوڑی سی خوشی ضرور ملے گی۔“
چونکہ میں اپنی خوشی سے ان کے ساتھ جانے پر تیار تھا،لہٰذا اگلی صبح ہم یار ماﺅتھ کو چل پڑے۔
ہم سیدھے پرانی کشتی والے گھر میں پہنچے۔وہاں سب ہمارا انتظار کر رہے تھے۔مسٹر پگوٹی نے انہیں ہر چیز بتائی تو پگوٹی اور مسز گومج دونوں اپنی آنکھوں سے بہتے آنسو پونچھنے لگیں۔ہام چہل قدمی کرتا ہوا ساحل سمندر کی طرف چل پڑا۔وہ تھوڑی تنہائی چاہتا تھا۔
پگو ٹی مجھے اپنے چھوٹے سے کمرے میں لے گئی۔اس نے مجھے کہا کہ اس کے خیال میں ہام اب زندگی بھر کبھی خوش نہیں رہ سکے گا۔ وہ بولی۔”بعض اوقات شام کو وہ اپنی گزری زندگی کے بارے میں باتیں کرتا ہے۔وہ اپنی گفتگو میں املی کا ذکر ایک خاتون کی حیثیت سے نہیں کرتا بلکہ ایک بچی یعنی نادان یا نا سمجھ کے طور پر کرتا ہے۔“
جب میں نے ہام سے بات کی تو وہ بہت رنجیدہ تھا۔”ایک ایسی بات ہے جو میں چاہتا ہوں کے تم میری طرف املی سے کہو یا اسے لکھو۔ “وہ بولا۔” اس سے کہو کہ اگر کوئی غلطی ہوئی ہے تو معاف کر دے اور اسے راضی کرو کہ وہ مجھ سے شادی کرے….اکثر میں سوچتا ہوں کہ اگر میں نے اسے شادی کا نہ کہا ہوتا تو وہ ضرور مجھے بتا دیتی کہ اسے کیا پریشانی ہے،اور میں اسے بچا سکتا….تم جانتے ہو کہ مجھے اس بات کا کتنا افسوس ہے۔“

۔۔۔۔۔

لندن واپس آنے کے بعد جلد ہی مجھے مسٹر میکابر کا خط ملا۔وہ کنٹربری میں تھے اور انہوں نے مجھے وہیں آکر ملنے کا کہا تھا۔مجھے بہت زیادہ تجسس ہوا جب میں نے یہ پڑھا کہ وہ میرے ساتھ ٹریڈ لیس اور میری خالہ کو بھی بلانا چاہتے ہیں۔
اگلی صبح ہم ایک پرانے مکان پر پہنچے جہاں مسٹر میکابر نے ہمارا خیر مقدم کیا اور اریاہ ہیپ سے ملوانے لے گیے۔مسٹر وک فیلڈ کے دفتر کا دروازہ کھولتے ہوئے وہ بلند آواز میں بولے۔”مس ٹروٹ وڈ، مسٹر ڈیوڈ کاپر فیلڈ اور تھامس ٹریڈلیس!“
اریاہ کے لیے ہمارا آنا واضح طور پر حیرت کا باعث تھا۔
اسی لمحے ایگنیس اندر داخل ہوئی۔وہ مجھے بہت فکرمند اور بے چین نظر آرہی تھی۔پھر ٹریڈلیس داخل ہوا جو غیر محسوس طریقے سے کمرے سے نکل گیا تھا اور اب اریاہ کی والدہ کو ساتھ لئے واپس آیا تھا۔
ٹریڈلیس نے اریاہ کو بتایا کہ اسے مسٹر وک فیلڈ کے وکیل کی حیثیت سے کچھ احکامات پر عمل درآمد کا حکم دیا گیا ہے اور اس کام میں مسٹر میکابر اس کے معاون ہوں گے۔
مسٹر میکابر نے اپنے کوٹ کی جیب سے خط نکالا جو بہت اہم لگتا تھا،اسے کھولا،ہم سب کی طرف دیکھا اور پھر پڑھنا شروع کیا۔
”میں نے بہت محتاط طریقے سے چھان بین شروع کی جو بارہ ماہ سے زیادہ جاری رہی۔“انہوں نے آہستہ سے پڑھنا شروع کیا۔”اور میں نے اریاہ کو مندرجہ ذیل جرائم کا مرتکب پایا۔“
میرا خیال ہے کہ ہم سب کی سانس رکی ہوئی تھی اور مجھے یہ بھی یقین ہے کہ ہمارے ساتھ اریاہ کی بھی سانس رک گئی تھی۔
مسٹر میکابر نے آگے پڑھنا شروع کیا۔”پہلا تو یہ کہ اس نے مسٹر وک فیلڈ کو نہایت اہم کاروباری دستاویزات پر دستخط کرنے کے لیے راضی کیا۔مگر اس نے ان کو یہ باور کرایا کہ یہ دستاویزات بالکل غیر اہم اور معمولی ہیں۔اس نے مسٹر وک فیلڈ کو ایک اوربات پر بھی راضی کیا کہ وہ اسے رقم کی ایک مقررہ مقدار اپنے پاس رکھنے کے اختیارات دیں۔اس نے یہ بتایا کہ یہ رقم کاروباری اخراجات کے لئے ہے جو درحقیقت اس نے ادا نہیں کیے۔اس نے اپنی بے ایمانی اور خیانت والی دستاویز مسٹر وک فیلڈ کو پیش کی اور اسی وقت سے اس نے اس دستاویز کو انہیں فکر مند رکھنے اور اپنے قابو میں رکھنے کے لیے استعمال کیا۔
دوسرا یہ کہ اریاہ نے کسی خاص مقصد کے تحت کاروباری دستاویزات مسٹروک فیلڈ کے نام سے دستخط کیں۔مجھے یقین ہے کہ اس نے ایسا متعدد بار کیا ہے اور ایک معاملہ ایسا ہے جسے میں ثابت بھی کر سکتا ہوں،اس کے کاغذات میری جیب میں ہیں۔
تیسرا یہ کہ اب میں ہیپ کا وہ منصوبہ بھی دکھا سکتا ہوں جس کے تحت وہ مسٹروک فیلڈ پر دباؤ ڈالتا ہے کہ وہ اسے اپنے کاروبار ، دولت، گھر….یہاں تک کہ گھریلو سامان میں سے بھی حصہ دیں۔“
آخری چند منٹوں میں بیگم ہیپ اپنے بیٹے کی معافی کے لئے رونے لگیں۔وہ خودبد مزاجی کے ساتھ بولا۔
”تم میرے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہو؟“
”میں تمہیں بتاؤں گا کہ کیا کرنا چاہیے۔“ ٹریڈ لیس بولا۔” پہلی چیز تو یہ کہ تمہیں سارے جعلی کاغذات مجھے دینے ہوں گے، پھر تمہیں وہ ساری رقم واپس کرنی ہوگی جو تم ہتھیا چکے ہو۔ ہمیں ہر حال میں تمام کتابیں،کاغذات اور رقم واپس چاہیے ہوگی اور تمہیں لازمی اپنے کمرے تک محدود ہونا پڑے گا اور مزید یہ کہ تم کسی سے نہ تو بات کرو گے اور نہ ہی کچھ لکھو گے۔“
”جو تم کہہ رہے ہو، میں نہیں کر سکتا۔“اریاہ بولا۔
”تو پھر قید خانہ تمہیں رکھنے کے لیے محفوظ ترین جگہ ہے….کاپر فیلڈ،تم جا کر دو سپاہیوں کو لے آؤ گے؟“
میں جیسے ہی دروازے کی طرف بڑھا،بیگم ہیپ رونا شروع ہوگئیں۔ وہ گھٹنوں پر گر کر ایگنیس کی منتیں کرنے لگیں کہ وہ ان کی مدد کرے۔ وہ اپنے پیارے بیٹے کے انجام کے خوف سے نیم پاگل ہو گئی تھیں۔
”رکیے!“اریاہ غرایا اور اپنا تپتا چہرہ اپنے ہاتھوں سے رگڑنے لگا….”ماں! زیادہ شور مت مچائیے….کاغذات ان کو دے دیجئے ….جائیے اور جا کر لے آئیے۔“
بیگم ہیپ کے لئے یہ کوئی مشکل کام نہیں تھا۔وہ نہ صرف کاغذات بلکہ رقم کا ڈبہ بھی ساتھ لیتی آئیں۔
”بہت اچھا۔“ٹریڈلیس بولا۔”مسٹر ہیپ! اب تم اپنے کمرے میں جا سکتے ہو!“
اریاہ فرش سے اوپر دیکھے بغیر کمرے سے گزرا اور دروازے کے پاس رک کر بولا۔”کاپر فیلڈ! میں ہمیشہ سے تم سے نفرت کرتا ہوں۔ تم نے ہمیشہ میرے بارے میں غلط اندازہ لگایا۔میکابر! تم ایک ظالم شخص ہو اور تمہیں اس کی سزا دوں گا۔“
بعد میں ٹریڈلیس نے ہمیں بتایا کہ انہوں نے اریاہ سے میری خالہ کی ساری جائیداد بھی واگزار کرا لی ہے۔ وہ بہت خوش اور احسان مند ہیں جس کاجلد ہی ان کی طرف سے اظہارسامنے آجائے گا۔

۔۔۔۔۔

ایگنیس کو اپنے والد کے پاس جانا پڑا مگر کسی نے اریاہ کو بھی تو فرار ہونے سے روکنا تھا چنانچہ ٹریڈلیس اس مقصد کے لیے وہیں رکا رہا اور میری خالہ اور میں مسٹر میکابر کے ساتھ گھر آگئے۔
ان کا گھر زیادہ دور نہیں تھا۔انہوں نے اندر داخل ہوکر سب بچوں کو پیار کیا اور پھر میری خالہ کا تعارف کرایا۔
”یہ سارا آپ کا کنبہ ہے؟“میری خالہ بولیں۔”یہ سب آپ کے بچے ہیں؟“
”محترمہ! واقعی یہ میرے ہیں۔“مسٹر میکابر نے جواب دیا۔”اور ان سب کو پالنے کے لیے جتن کرنا واقعی بڑا مشکل کام ہے۔“
”کیا آپ نے کبھی بیرون ملک جانے پر غور نہیں کیا؟“میری خالہ نے پوچھا۔
”محترمہ!“ مسٹر میکابر نے جواب دیا۔”جب میں جوان تھا تو یہ میری بہت بڑی خواہش تھی۔اب میں بوڑھا ہو گیا ہوں مگر یہ ابھی تک خواہش ہی ہے۔“
”آپ نے ہماری بہت بڑی خدمت کی ہے،مسٹر میکابر!“میری خالہ بولیں۔”اب ہم آپ کو شکریہ کے طور پر رقم دے سکتے ہیں تاکہ آپ باہر جا سکیں۔“
”میں اس وقت تک نہیں لوں گا۔“مسٹر میکابر بے چینی اور خوف کی کیفیت میں بولے۔”جب تک آپ تھوڑے اضافے کے ساتھ واپس لینے پر راضی نہ ہوں۔“
”آپ ایسا کر سکتے ہیں تو کیجئے۔“میری خالہ بولیں۔”ڈیوڈ کچھ لوگوں کو جانتا ہے جو جلد ہی آسٹریلیا کے لیے روانہ ہورہے ہیں۔ آپ اسی جہاز پر کیوں نہیں چلے جاتے؟“
”میرا صرف ایک سوال ہے اور میری خواہش ہے کہ آپ سے پوچھ لوں۔“بیگم میکابر بولیں۔”کیا اس ملک کے حالات مسٹر میکابر کی صلاحیتوں کے لیے سازگارہیں؟کیا ان کے پاس موقع ہے کہ یہ دنیا میں اپنی حیثیت بہتر کرسکیں؟“
”ایک شخص جو اپنا رویہ اچھا رکھتا ہو اور سخت محنت کرتا ہو،اس سے بہتر مواقع اس کے لیے اور کہیں نہیں ہیں۔“میری خالہ نے کہا۔
”اچھا رویہ اور سخت محنت۔“بیگم میکابر نے دہرایا۔”بالکل!….اس کا مطلب ہے کہ آسٹریلیا واضح طور پر مسٹر میکابر کے لیے ایک بہترین جگہ ہے۔“

۔۔۔۔۔

۱۲۔غم اور خوشی
یہاں میں ضرور رکوں گا۔ میں ایک بار پھر ڈورا کے ساتھ اپنے گھر میں تھا۔مجھے یاد نہیں کہ وہ کتنے ہفتے یا مہینوں تک بیمار رہی مگر مجھے لگتا ہے کہ اس کی بیماری بہت لمبے عرصہ تک چلتی رہی….بہت لمبے عرصے تک۔
ایک شام میں اس کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ہم دونوں خاموش تھے اور ڈورا مسکرا رہی تھی۔اب میں اسے اٹھا کر سیڑھیوں سے اوپر اور نیچے نہیں لے جاتا تھا بلکہ وہ سارا دن بستر پر پڑی رہتی۔
”ڈیوڈ!“
”میری عزیز ڈورا….!“
”اب جب تم سیڑھیوں سے نیچے اترتے ہو تو بہت تنہائی محسوس کرتے ہو گے؟“
”یقینا….خاص طور پر جب میں تمہاری خالی کرسی دیکھتا ہوں۔“
”میری خالی کرسی!…. تم واقعی میری کمی محسوس کرتے ہو،ڈیوڈ!…. تم بے چاری،نادان اور بے وقوف ڈورا کی کمی محسوس کرتے ہو؟“
”اس زمین پر دوسرا کوئی ایسا نہیں جس کی میں کمی محسوس کرتا ہوں۔“
”اوہ میرے سرتاج! مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے مگر میں افسوس کے ساتھ کہہ رہی ہوں کہ صرف ایگنیس کوہی میرا مقام دینا اور اسے کہنا کہ میری بہت، بہت زیادہ خواہش ہے کہ اس سے ملوں….اس کے علاوہ میری کوئی خواہش باقی نہیں رہی۔“

۔۔۔۔۔

چند دن بعد ایگنیس کنٹربری سے آگئی۔اس نے ہمارے ساتھ ایک پورا دن اور ایک شام گزاری۔اس شام کے بعد میں اوپری منزل پر ڈورا کے ساتھ اکیلا تھا۔
”میں تم سے کچھ کہنا چاہتی ہوں،ڈیوڈ!….میں تم سے کوئی بات کہنا چاہتی ہوں جو اگرچہ میرے خیال میں، میں تاخیر سے کہہ رہی ہوں مگر تم برا مت ماننا….نہیں مانو گے ناں؟“وہ رحم دلانہ انداز میں میری طرف دیکھتے ہوئے بولی۔
”نہیں میری عزیز!“
”شاید تم نے بھی اکثر اسی طرح سوچا ہو، میرے عزیز ڈیوڈ….مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں اپنی کم عمری کی وجہ سے ایک چھوٹی سی نادان لڑکی تھی….اورمیرا نہیں خیال کہ میں ایک بیوی بننے کے قابل تھی۔“
”اوہ میری عزیز ڈورا!میں بھی تو کم عمر تھا….یہی وجہ ہے کہ تم بیوی بننے کے اتنی ہی لائق تھیں جتنا میں شوہر بننے کے قابل تھا۔اور ہم بہت خوش رہے ہیں۔“
”میں بہت بہت زیادہ خوش تھی….مگر میں سمجھتی ہوں کہ یہ ایک اچھا اختتام ہے….جب آپ سیڑھیوں سے نیچے جائیں تو ایگنیس کو میرے پاس اوپر بھیج دیجیے گا اور جب میں اس سے گفتگو کروں تو ادھر نہ آئیے گا….میں ایگنیس سے اکیلے میں بات کرنا چاہتی ہوں۔“
میں نے اس سے کہا کہ میں فوراً اسے اوپر بھیجتا ہوں۔
ایگنیس نچلی منزل پر تھی۔میں نے بیٹھک میں جاکر اسے ڈورا کا پیغام دیا۔وہ مجھے اکیلا چھوڑ کر فوراً او پر چلی گئی۔
میں انگیٹھی کے ساتھ بیٹھ گیا اور ڈورا کے ساتھ ہوئی چھوٹی چھوٹی نااتفاقیوں کو یاد کرنے لگا اور سوچنے لگا کہ جب جب وہ روئی مجھے کتنا دکھ ہوا۔وقت کس تیزی سے گزر گیا مجھے پتا ہی نہیں چلا۔پھر میں نے دیکھا کہ ایگنیس دروازے کے پاس کھڑی مجھے دیکھ رہی تھی۔ اس کی آنکھیں خالی خالی تھیں اور چہرے پر اداسی تھی۔
”ایگنیس؟“
پھر مجھے معلوم ہوا کہ سب کچھ ختم ہو چکا ہے۔میرے اردگرد اندھیرا چھا گیا اور کچھ وقت کے لئے مجھے کچھ بھی یاد نہ رہا۔

۔۔۔۔۔

مجھے واضح طور پر یاد نہیں کہ ہم نے کب یہ فیصلہ کیا کہ مجھے بھی بیرون ملک چلے جانا چاہیے۔میں صرف اس بات کا انتظار کر رہا تھا کہ کب مسٹر میکابر”ہیپ کا اختتام“کا اعلان کریں تاکہ میکابر اور پگوٹی وہاں سے جا سکیں۔اس سے پہلے کہ ان کی کشتی روانہ ہوجائے میں نے آخری بار یار ماﺅتھ جانے کا فیصلہ کیا۔
جب میں یار ماﺅتھ پہنچا تو موسم بہت خراب تھا اور میں نے لوگوں کو شور مچاتے سنا کہ وہاں کوئی تباہی ہوئی ہے۔میں تیزی سے ساحل کی طرف بڑھا جہاں لوگوں کا ایک بڑا مجمع لگا ہوا تھا۔ میں زبردستی اپنا راستہ بنا کر بہت جلد وحشت ناک سمندر کے سامنے جا پہنچا۔
طوفانی ہوا اور بپھرتی سمندر کی لہروں کے شور میں بڑی مشکل سے کچھ سنائی دے رہا تھا، اور دھند میں بڑی مشکل سے لہروں کے اوپر کا جھاگ والا تھوڑا سا سفید حصہ دکھائی دے رہا تھا۔پھر میں نے جہاز دیکھا جو ہمارے کافی قریب تھا اور بری طرح ٹوٹ چکا تھا۔ بادبان اور رسیاں آپس میں لپٹے ہوئے تھے۔جہاز نے آہستہ سے ہماری طرف حرکت کی۔اب میں صاف طور پر جہاز رانوں کو کلہاڑیوں کے ساتھ کام کرتے دیکھ سکتا تھا۔بکھرے ہوئے لمبے بالوں والے ایک شخص کا میں نے خاص طور پر مشاہدہ کیا۔اس کے ہاتھ میں لال رنگ کا ملاحوں والا ہیٹ تھا، جسے لہراتے ہوئے ہم سب نے اسے دیکھا۔اس کے اس عمل نے مجھے کسی ایسے شخص کی یاد دلادی جو کبھی میرا عزیز دوست رہ چکا تھا۔
جہاز درمیان سے ٹوٹا تھا اور لہریں اتنی تیز تھیں کہ کسی بھی انسان کے لیے کام جاری رکھنا ناممکن تھا۔اچانک جہاز کے ملبے نے پانی میں غوطہ کھایا اور پھر دوبارہ پانی کی سطح پر ابھرا۔اس مختصر لمحے میں دو افراد پانی میں ڈوب گئے۔
پھر میں نے دیکھا کہ ہام لوگوں کے درمیان سے بھاگتا ہوا سامنے آیا۔میں بھی اس کی طرف بڑھا۔
”مسٹر ڈیوی!“ وہ دونوں بازوﺅں میں مجھے جکڑتے ہوئے بولا۔”اگر میں ابھی مر گیا….جیسا کہ میں مر جاﺅں گا تو آسمان والا تمہاری اور باقی سب لوگوں کی حفاظت کرے گا۔مجھے اجازت دو! میں جا رہا ہوں!“
ہام نے اپنے آپ کو رسیوں میں جکڑ لیا اور اور بپھرے ہوئے پانی کے ذریعے اپنے آپ کو ملبے کی طرف دھکیلنا شروع کیا۔جیسے ہی پانی کی ہرے رنگ کی ایک پہاڑی جیسی اونچی لہر کنارے کی طرف بڑھی،وہ اس پر اچھلا اور پھر وہ اور جہاز دونوں گم ہوگئے۔
مجھے اس کا جسم سمندر میں نظر آیا اور پھر میں اس طرف چل پڑا جہاں لوگ اسے کھینچنے کی کوشش کر رہے تھے۔انہوں نے اسے کھینچ کر میرے پیروں کے پاس ڈال دیا۔اسے اٹھا کر قریبی گھر میں لے جایا گیا اور ڈاکٹر کو ڈھونڈا گیا مگر بڑی لہر نے اسے بہت بری طرح مارا تھا۔ بڑے دل والا انسان ہام مر چکا تھا۔
جب کوئی امید باقی نہ رہی تو میں چارپائی کے ساتھ بیٹھ گیا۔اچانک ایک شخص نے سرگوشی میں میرا نام لیا۔
”جناب! آپ یہاں آئیں گے؟“اس کے پیلے پڑتے بے رنگ چہرے پر آنسوﺅں کی قطار تھی۔
وہ مجھے ساحل کی طرف لے کر چل پڑا۔ وہ مجھے ساحل کے اس حصے پر لے گیا جہاں املی اور میں سیپیاں چنا کرتے تھے۔ پھر میں نے اسے بازو پر سر رکھے لیٹے دیکھا جیسے میں اسکول میں اسے سوتے دیکھا کرتا تھا، تاہم اس بار وہ دوبارہ کبھی نہیں جاگا۔

۔۔۔۔۔

اب مجھے ایک کام کرنا تھا۔مجھے ان لوگوں کو روکنا تھا جو یہ جانے بغیر دور جا رہے تھے کہ یہاں کیا ہوا ہے۔
میں واپس لندن چلا گیا۔وہاں جاکر مجھے پتا چلا کہ مسٹر پگوٹی اور املی صبح سویرے پانچ بجے ہی جہاز کی طرف جا چکے ہیں۔دوپہر کو میری بزرگ پرورش کار پگوٹی اور میں انہیں الوداع کہنے کے لئے گئے تو ہم نے دریا میں جہاز کو روانگی کے لئے تیار پایا۔
مسٹر پگوٹی عرشے پر کھڑے ہمارا انتظار کر رہے تھے۔کچھ دیر ہماری خاموشی بولتی رہی مگر جلد ہی رخصت کا وقت آگیا۔میں نے ان کی طرف ہاتھ ہلایااور ساتھ ہی روتی ہوئی پگوٹی کو بازو سے تھاما اور پھر ہم جلد ہی دور ہوگئے۔
ہم مسٹر میکابر سے ملے اور میں نے انہیں ان خطرناک واقعات کے بارے میں بتایا جو ایک رات پہلے پیش آئے تھے۔انہوں نے یہ وعدہ کیا کہ مسٹر پگوٹی تک یہ خبریں نہیں پہنچیں گی۔وہ بہت خوش نظر آرہے تھے اور ان کو توقع تھی کہ بالآخر ان کا خاندان ایک اچھی زندگی کی شروعات کرسکے گا۔ عرشے پر کھڑی بیگم میکابر کو میں نے الوداع کہا۔آخری بات جو انہوں نے مجھ سے کہی وہ یہ تھی کہ میں مسٹر میکابر کو کبھی نہیں چھوڑ سکتی۔
جیسے ہی بادبانوں میں ہوا بھر گئی،ہم نے جہاز چھوڑ دیا اور جہاز نے حرکت شروع کر دی۔ کشتیوں پر موجود ہر شخص نے خوشی کے تین نعرے لگائے۔ جہاز پر سوار افراد بھی ان کے ساتھ شامل ہوگئے اور نعرے بند ہونے کے بعد بھی آوازیں دیر تک سنائی دیتی رہیں۔ایک بڑے مجمعے کو ہیٹ اور رومال لہراتے دیکھ کر مجھے بہت خوشی محسوس ہورہی تھی اور پھر میں نے اس کو دیکھا۔۔۔
پھر میں نے املی کو اپنے چچا کے ساتھ کھڑے دیکھا، جو کمزور نظر آرہی تھیں اور ان کے بازو پر جھکی ہوئی تھی۔انہوں نے بے تابی کے ساتھ اسے اشارہ کر کے دکھایا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔اس نے ہمیں دیکھا اور میری طرف آخری الوداعی ہاتھ لہرایا۔

۔۔۔۔۔

میں انگلینڈ سے دور چلا گیا۔مجھے نہیں معلوم تھا کہ کتنا بڑا صدمہ گزر گیا ہے ۔میں بہت افسردہ تھا کیونکہ میری اہلیہ جو ایک معصوم بچے کی طرح تھی، بہت چھوٹی عمر میں انتقال کر گئی تھی۔
میں کئی مہینوں تک سفر میں رہا۔بعض اوقات بغیر آرام کیے ایک جگہ سے دوسری جگہ آتا جاتا رہا جب کہ بعض اوقات کسی ایک جگہ لمبے عرصے تک رک جاتا۔ ایک مرتبہ شام ڈھلے میں رات گزارنے کے لیے ایک وادی میں اترا، جہاں میرے انتظار میں موجود خطوط کا ایک پلندہ مجھے ملا۔ جب تک میرا کھانا تیاری کے مراحل میں تھا، میں ان خطوط کو پڑھنے کے لئے گاؤں سے باہر چہل قدمی کرنے لگا۔ میں نے اپنے ہاتھ میں پکڑا پلندہ کھولا تو ایگنیس کی لکھائی سامنے تھی۔
اس نے مجھے کوئی مشورہ نہیں دیا تھا بلکہ اپنے دھیمے انداز میں صرف اتنا بتایا تھا کہ وہ مجھ پر اعتماد کرتی ہے۔میں نے اس کا وہ خط کئی بار پڑھا۔
میں تین سال سے وطن سے دور تھا۔اس عرصے میں میں بہت افسردہ اور تنہا تھا اور گھر سے بہت دور تھا جبکہ مجھے اپنے گھر سے بہت محبت تھی۔
سردیوں کی ایک ٹھنڈی شام میں لندن واپس لوٹ آیا۔میں نے ایک منٹ میں اتنا کیچڑ اور برف دیکھ لئے جتنا شاید پچھلے ایک سال میں دیکھے تھے۔
مجھے اپنے دوستوں کی زندگیوں میں کچھ تبدیلیوں کی توقع تھی۔ میری خالہ دوبارہ ڈوور میں رہنے چلی گئی تھیں۔ٹریڈ لیس نے شادی کرلی تھی اور اب اپنے خاندان کے ساتھ خوش وخرم تھا۔میں ہیپ کو دوست نہیں کہہ سکتا مگر بہرحال ہیپ جیل میں تھا۔ روزا ڈرٹلے بہت تنہا ہو گئی تھی اور بیگم اسٹریٹ فورتھ کے ساتھ ہی ان کی خدمت کے لیے رکی ہوئی تھی۔ بیگم اسٹریٹ فورتھ اگرچہ غمگین تھیں مگر ان بزرگ خاتون کا غرور اب بھی برقرار تھا۔ جلد ہی اپنی خالہ سے ملنے کے لیے میں نے ڈوور کا سفر کیا اور پھر اس سے اگلی صبح ایگنیس کو دیکھنے کے لئے کنٹربری چلا گیا۔
اس کے چہرے پر بہت معصومیت تھی۔وہ مجھ سے املی کے بارے میں بات کرنے لگی اور اس نے بتایا کہ جب املی لندن میں تھی تو وہ کئی بار چھپ کر اس سے ملنے گئی اور وہ مجھ سے ہمدردانہ انداز میں ڈورا کی قبر کے بارے میں بات کرتی رہی۔
”ایگنیس! اور اب تم اپنی زندگی کے بارے میں بتاؤ!“ میں نے کہا۔
”میں تمہیں کیا بتاؤں؟“اس نے جواب دیا۔”میرے والد بہتر ہیں….اب ہمیں کوئی پریشانی نہیں ہے اور ہمارا گھر دوبارہ سے محفوظ ہو گیا ہے۔“
ڈوراکی وصیت اور بزرگوں کی مرضی سے ہم نے ہفتے بعد ہی شادی کر لی۔ٹریڈلیس،میری خالہ،مسٹر وک فیلڈ اور ڈاکٹر اسٹرانگ ….ہماری خاموش شادی میں صرف یہی چند مہمان تھے۔ان سب سے رخصت ہوکر ہم ایک ساتھ خوشی خوشی روانہ ہوگئے۔
”میرے سرتاج!“ ایگنیس بولی۔”میں آپ کو اس رات کے بارے میں ضرور کچھ بتانا چاہتی ہوں جس رات ڈورا کی وفات ہوئی۔ اس نے آپ سے کہا تھا کہ مجھے اوپر بھیج دیںاور جب میں اوپر گئی تو اس نے مجھ سے کہا کہ وہ میرے لئے کچھ چھوڑے جا رہی ہے۔کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ وہ کیا تھا؟“
”مجھے یقین ہے کہ میں سمجھ سکتا ہوں….“میں نے اپنی اہلیہ کو چونکا دیا۔
”اس نے مجھ سے اپنی آخری خواہش کا اظہار کیا۔“
”اور وہ تھی….“
”کہ صرف میں ہی آپ کی بیوی بنوں۔“
اور پھر ایگنیس رونے لگی اور میں بھی اس کے ساتھ رونے لگا۔

۔۔۔۔۔

اور اب کہانی کے اختتام پر….اس سے پہلے کہ میں یہ کتاب بند کروں….ایک مرتبہ پھر….آخری بار ان گزرے دنوں کو یاد کروں گا۔
مجھے ایگنیس کے ساتھ زندگی کی سڑک پر اپنا سفر یاد ہے۔
مجھے اپنی بوڑھی مگر سیدھی کھڑی ہونے والی خالہ یاد ہیں جو اب بھی سرد موسم میں لگاتار چھ میل پیدل چل سکتی ہیں۔پگوٹی ہمیشہ ان کے ساتھ رہی۔پگوٹی میری بزرگ پرورش کار….مجھے اس کی سلائی، عینک اور لالٹین کے قریب بیٹھنا یاد ہے۔اس کے وہ گال اور بازو اب کمزور اور خشک ہو چکے تھے جو میرے بچپن میں مضبوط اور لال تھے اور میں یہ سوچ کر حیران ہوتا تھا کہ پرندے ان لال گالوں کو سیب سمجھ کر کھانے کی کوشش کیوں نہیں کرتے۔
مجھے وہ بزرگ خاتون یاد ہیں جن کا چہرہ بتاتا تھا کہ وہ کسی دور میں خوبصورت اور مغرور رہی ہیں۔ اوروہ وقت جب وہ اچانک دہشت ناک آواز میں میں روتے ہوئے بولیں۔”روزا میرے پاس آؤ….وہ مر چکا ہے۔“روزا بعض اوقات ان کے قدموں پر جھک جاتی اور بہت مہربان ہو جاتی اور بعض اوقات اس کی ان سے ان بن ہو جاتی اور وہ سخت ناراضی سے کہتی۔” میں نے یہ سب آپ سے زیادہ اس کے لیے کیا۔“مجھے وہ تمام لوگ یاد ہیں اور میں اکثر ان کے بارے میں سوچتا رہتا ہوں۔
میں اپنے عزیز دوست ٹریڈلیس سے دوبارہ ملا جو وکیل کے طور پر کام کر رہا تھا۔اس کی اہلیہ کی سال گرہ پر میں نے اس کے اور اس کے خاندان کے ساتھ عشائیہ کیا۔ اس نے مجھے وہ ساری اچھی چیزیں بتائیں جو اس نے پچھلے عرصے میں کی تھیں۔
اور اب میں اس کتاب کو بند کروں گا اور تمام چہرے بھول جاؤں گا مگر صرف ایک چہرے کے علاوہ جو میرے لئے جنت کی روشنی کی طرح چمک رہا ہے۔

۔۔۔۔۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top