جسے اللہ رکھے
طالب ہاشمی
۔۔۔۔۔
1958 عیسوی کے آخری دنوں کا ذکر ہے کہ یورپ کے چند ملاحوں نے بڑی بڑی مچھلیوں کے شکار کا پروگرام بنایا۔ وہ ستارہ مشرق نام کے ایک جہاز پر سوار تھے۔ انھوں نے دو کشتیاں جہاز سے سمندر میں اتار یں اور ان پر سوار ہوکر مچھلیوں کی تلاش میں مشغول ہو گئے۔ ان کو فاک لینڈ Falk landکے جنوبی جزیروں میں سمندر کے ساحل سے تقریبا ًتین میل دور ایک بڑی وہیل مچھلی نظر آئی۔ ان ملاحوں نے اپنی کشتیاں اس کے پیچھے لگا دیں اور اس کے قریب پہنچ کر اس پر لوہے کے وزنی کانٹے پھینکے۔ مچھلی نے زخمی ہوکر بھاگنے کی کوشش کی۔ جونہی وہ ایک طرف مڑی اس کی بارہ فٹ لمبی دم نے ایک کشتی کے پر خچے اڑادیے۔ اس کشتی پر دو ملاح سوار تھے۔ ایک تو آناًفاناً سمندر میں ڈوب گیا اور دوسرے کو مچھلی نے نگل لیا۔ اس ملاح کا نام ”بار کلے“ تھا۔ دوسری کشتی والوں نے یہی سمجھا کہ تباہ ہونے والی کشتی کے دونوں سوار بھی کشتی کے ساتھ سمندر کی گہرائیوں میں غرق ہو گئے۔ لیکن انھوں نے مچھلی کا پیچھا نہ چھوڑا اور آ خر اس کو شکار کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ وہ اس کو جہاز کے ساتھ باندھ کر ساحل پر لائے اور جہاز کے سارے آ دمی کلہاڑوں سے اس مچھلی کی چیر پھاڑ میں مشغول ہو گئے۔ وہ سارا دن اس کام میں جتے رہے اور کچھ نے رات گئے تک بھی یہ کام جاری رکھا لیکن مچھلی کا بڑا حصہ پھر بھی باقی رہ گیا۔ دوسرے دن صبح اٹھ کر وہ پھر اس کام میں مشغول ہو گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد انہیں مردہ مچھلی کے پیٹ میں کچھ ہل چل محسوس ہوئی۔ انھوں نے خیال کیا کہ وہیل مچھلی کے پیٹ کے اندر کوئی چھوٹی شارک مچھلی ہے جسے وہیل مچھلی نے نگل لیا ہوگا اور اب وہ اس کے پیٹ سے باہر آنے کے لیے کوشش کر رہی ہے۔ ایک کے بجائے دو مچھلیوں کامل جانا ان کے لیے بڑی خوشی کا باعث ہوتا لیکن جب انھوں نے وہیل مچھلی کا پیٹ چاک کیا تویہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ وہیل مچھلی کے پیٹ میں شارک مچھلی کے بجائے ان کا ساتھی ملاح بار کلے تھا۔ وہ تیل اور چربی میں لتھڑا ہوا تھا اور بالکل بے ہوش تھا۔ ملاحوں نے اسے فوراً جہاز کے عرشے پر پہنچایا اور اس کو ہوش میں لا نے کی تدبیریں کرنے لگے۔ چند گھنٹوں کے بعد اسے ہوش تو آگیا لیکن دماغ پر بہت برا اثر پڑا تھااور سوچنے سمجھنے کی طاقت جواب دے گئی تھی۔ جہاز کے اسپتال میں اس کا علاج ہوتا رہا اور کہیں دو ہفتے کے بعد اس کی حالت سدھرنی شروع ہوئی۔ تیسرے ہفتے کے آخر میں اس کو پوری طرح ہوش آ گیا۔ اور جو کچھ اس پر بیتی تھی اس کا حال اس نے یوں بیان کیا:
”جب میں سمندر میں گرا تو میں نے پانی میں ایسی آوازمحسوس کی جو تیز ہوا کے چلنے سے پتوں وغیرہ کے اڑنے سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ آواز وہیل مچھلی کی دم ادھر ادھر مارے جانے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ اس آواز سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ مجھے پانی کا دباؤ ایک جانب کھنچے لیے جارہا ہے۔ میرے لیے ہاتھ پاؤں ہلانا اور اس کھچاؤ سے بچنا ممکن نہ تھا۔ اس کے بعد میں یکا یک گہری تاریکی میں غرق ہو گیا اور یوں محسوس کیا کہ ایک نرم راستے سے گزر رہا ہوں جس میں حد درجہ پھسلن تھی۔ یہ کیفیت دو تین سیکنڈ رہی۔مجھے محسوس ہوا کہ میں کافی کھلی جگہ پہنچ گیا ہوں جس کے ارد گرد دیوار یں کھڑی ہیں۔ میں نے انہیں ہاتھ سے چھوا تو وہ بہت ہی نرم اور چکنی تھیں۔ یہاں اندھیرا ہی اندھیرا تھا جس سے باہر نکلنے کا سوچا بھی نہیں جا سکتا تھالیکن یہ عجیب بات تھی کہ میں سانس لے سکتا تھا۔ سانس لیتے وقت یوں معلوم ہوتا تھا کہ ایک خاص قسم کی حرارت میرے جسم کے اندر داخل ہو جاتی ہے۔ جوں جوں وقت گزرتا جا تا تھا۔ میں کمزور ہوتا جارہا تھا۔ یہاں تک کہ میں بے ہوش ہو گیا۔ جب مجھے ہوش آیا اور میری آنکھیں کھلیں تو میں نے اپنے آپ کو (جہاز کے) کپتان کے کمرے میں پایا۔“
”ستارہ مشرق“ جہاز جب وطن پہنچا تو بار کلے کو ایک اعلیٰ درجے کے ہسپتال میں داخل کرا دیا گیا جہاں چند دن کے اندر اس کی صحت پوری طرح بحال ہوگئی اور وہ چاق چوبند ہو گیا۔ اس واقعہ کی خبر جب اخبارات میں شائع ہوئی تو ساری دنیا میں شور مچ گیا اور لوگ دور دور سے بار کلے سے ملنے کے لیے آنے لگے۔ ان میں جہاں اس واقعہ کو انتہائی حیرت انگیز قرار دیا گیا وہاں یہ بھی تسلیم کیا گیا کہ حضرت یونس علیہ السلام کے بارے میں جو واقعہ قرآن مجید اور دوسری آسمانی کتابوں میں بیان کیا گیا ہے،وہ بالکل صحیح ہے اور اس میں کسی قسم کا شک کر نا ٹھیک نہیں۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں حضرت یونس علیہ السلام کا قصہ بھی بیان کر دیا جائے۔ حضرت عیسیٰ مسیح سے کوئی آٹھ سو سال پہلے ملک عراق کے شمال میں“اشور“ نام کی ایک قوم آباد تھی۔ اس قوم کا سب سے بڑا شہر ”نینوا“ تھا جومیلوں تک پھیلا ہوا تھا۔ اس قوم کواللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی نعمتیں عطا کی تھیں لیکن وہ لوگ اللہ تعالیٰ کو بھلا بیٹھے تھے اور بتوں کو پوجنا شروع کر دیا تھا۔ وہ اور بھی طرح طرح کی برائیوں میں مبتلا ہوگئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی ہدایت کے لیے حضرت یونس علیہ السلام کو نبی بنا کر بھیجا۔ حضرت یونس علیہ السلام سالہا سال تک اپنی قوم کو سمجھاتے رہے کہ ایک اللہ کو مانو، بتوں کومت پو جواوران کاموں سے باز آ جاؤ جن سے اللہ نے منع کیا ہے مگر ان لوگوں نے حضرت یونس علیہ السلام کی کوئی بات نہ مانی بلکہ الٹا ان کے خلاف الٹی سیدھی باتیں بنانے لگے۔ آخر حضرت یونس علیہ السلام نے ان کی ضد سے تنگ آ کر اللہ سے ان پر عذاب بھیجنے کی دعا کی اور پھر ان لوگوں کو بتایا کہ آج سے تیسرے دن اللہ کی نافرمانی کی سزاتم کو اس کے عذاب کی صورت میں ملے گی۔
وہ ان سے خفا ہو کر تیسرادن آنے سے پہلے اللہ کے حکم کا انتظار کیے بغیر آدھی رات کو شہر سے نکل کھڑے ہوئے۔ ان کے شہر سے نکل جانے کے بعد قوم کو یقین ہوگیا کہ اللہ کا عذاب ان پر ضرور آئے گا اور وہ سب ہلاک ہو جائیں گے۔ انھوں نے حضرت یونس علیہ السلام کو تلاش کیا مگر جب وہ ان کو نہ ملے تو وہ سب اپنے بال بچوں اور مویشیوں کو ساتھ لے کر روتے دھوتے شہر نینوا سے باہر نکل کر صحرا میں آ گئے اور ر وروکر سچے دل سے تو بہ کی۔ اللہ تعالیٰ کو ان پر رحم آ گیا اور اس رحیم وکریم نے ان کی توبہ قبول کر لی اور یوں ان کے سرسے غذاب ٹل گیا۔ ادھر حضرت یونس علیہ السلام شہر سے نکل کر دریائے فرات کے کنارے پہنے اور اسے پار کرنے کے لیے دوسرے لوگوں کے ساتھ ایک کشتی پر سوار ہو گئے۔ جب کشتی دریا میں کچھ دور گئی تو ہچکولے کھانے لگی کیونکہ اس میں گنجائش سے زیادہ مسافر سوار تھے۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کے ہچکولے کھانے کی وجہ یہ تھی کہ طوفانی ہواؤں نے کشتی کو آ لیا تھا۔ کشتی والوں نے اپنے عقیدے کے مطابق خیال کیا کہ کشتی کے ہچکولے کھانے کی وجہ یہ ہے کہ کوئی غلام اپنے آقا سے بھاگ کر کشتی میں سوار ہو گیا ہے۔ جب تک وہ کشتی سے نہیں اترے گا،کشتی کے ڈوبنے کا خطرہ رہے گا۔
حضرت یونس علیہ السلام نے ان لوگوں کی باتیں سنیں تو ان کے دل میں خیال آیا کہ وہ غلام تو میں ہوں جو اپنے رب کے حکم کا انتظار کیے بغیر شہر سے نکل کھڑا ہوا۔ یہ خیال آتے ہی انھوں نے دریا میں گرانے کے لیے اپنے آپ کو پیش کیا لیکن کشتی والے ان کو دریا میں گرانے پر تیار نہ ہوئے۔ آ خر قرعہ ڈالا گیا تو حضرت یونس علیہ السلام کا نام نکلا، پھر دوسری اور تیسری بارقرعہ ڈالا گیا تو تب بھی ہر بار حضرت یونس علیہ السلام ہی کا نام نکلا۔ اب وہ دریا میں ڈال دیے گئے۔ اللہ کی قدرت جونہی وہ دریا میں ڈالے گئے ایک بہت بڑی مچھلی نے ان کو نگل لیا۔ انھوں نے مچھلی کے پیٹ کے اندر جا کر دعا پڑھنی شروع کر دی۔
لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْنَ
یعنی اے اللہ تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، تو پاک ہے، بے شک میں قصور دار ہوں۔
اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول کر لی اور اس کے حکم کے مطابق مچھلی نے ان کو زندہ سمندر کے ساحل پر اگل دیا۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ساحل پر ان کو ایک بیل دار درخت کا سایہ مل گیا۔ اس درخت کے پتے سایہ کا اور پھل خوراک کا کام دیتے تھے۔ جلد ہی ان کی کمزوری اور بیماری جاتی رہی جو مچھلی کے پیٹ میں جانے کی وجہ سے ان کو ہوئی تھی۔ پھر وہ اپنی قوم کے پاس واپس آ گئے۔ اب ان کی قوم بالکل سدھر گئی تھی۔ وہ اللہ تعالیٰ پر بھی ایمان لے آئی تھی اور حضرت یونس علیہ السلام کوبھی اللہ کا سچا نبی مان لیا تھا۔ ایمان کے بعد یہ قوم کافی عرصہ تک اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے سیدھے راستے پر قائم رہی۔ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے انھیں ہرقسم کی نعمتیں پہلے سے بھی بڑھ کر عطا کیں۔ یہ دنیا کی ایک ہی ایسی قوم گزری ہے جس پر سے اللہ کا عذاب ٹل گیا اور پھر اللہ تعالیٰ نے لمبے عرصے تک اسے زندگی کی نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کا موقع دیا۔ قرآن پاک میں حضرت یونس علیہ السلام کا ذکر چھ سورتوں میں آیا ہے ان سورتوں کے نام یہ ہیں۔
(ان میں ایک سورۃ خود حضرت یونس علیہ السلام کے نام پر ہے۔)
ا۔ النساء: آیت 163
۲۔ الانعام:آیت86
۳۔ یونس:آیت 98
۴۔ الانبیاء:آیت 87-88
۵۔ الصفت:آیت 129تا148
۲۔ القلم:آیت 48تا 50
حضرت یونس علیہ السلام کو قرآن پاک میں ذوالنون اور صاحب الحوت بھی کہا گیا ہے۔ ذوالنون اور صاحب الحوت دونوں کے معنی ہیں مچھلی والا۔ یہ لقب ان کو مچھلی والے واقعہ کی وجہ سے ملے۔