skip to Main Content

جس کا کام اُسی کو ساجھے

کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔

یہ ایک بڑی خوبصورت شام تھی، لیکن بوڑھا کسان اداس اور تھکا تھکا سا تھا۔ سارا دن گھاس کاٹ کاٹ کر دھوپ میں سوکھنے کے لیے ڈالتا رہا تھا اور اب تھکن کے مارے اس کا بدن چور چور ہو چکا تھا۔
”میرا کام کبھی ختم نہ ہوگا۔“ اس نے سوچا۔”کل مجھے اس ساری گھاس کو اکٹھا کر کے گودام میں رکھنا ہے اور میں اس قدر تھک چکا ہوں۔“ افسردگی کے عالم میں گھاس کا ٹنے کا اوزار ایک طرف پھینکا اورگھر کی طرف چل دیا۔
بوڑھے کسان کی بیوی گھومنے والی کرسی پر بیٹھی مزے سے کھڑکی کے باہر کا نظارہ کر رہی تھی اور شاید ہلکے ہلکے گنگنا بھی رہی تھی، وہ اپنے شوہر کو دیکھ کر ہولے سے مسکرائی،لیکن بوڑھا کسان جواب میں مسکرانے کی بجائے تیو رچڑھا کر بولا:
”میرا جی چاہتا ہے کہ میں سارا دن کچھ نہ کروں، بس تمہاری طرح گھومنے والی کرسی پر بیٹھا باہر کانظارہ کرتار ہوں۔“
”مگر میں تو ابھی اس کرسی پر آ کربیٹھی ہوں۔“ اس کی بیوی نے صفائی پیش کی۔”میں صبح سے مصروف رہی ہوں۔“
”کیا مصروف رہی ہو؟“بوڑھاکسان بد مزاجی سے بولا۔ تمہیں گھر میں کیا کام ہے؟“
”کام!“ اس کی بیوی حیرانی سے، بولی۔”کوئی ایک کام ہو تو بتاؤں۔ مجھے بچے کی دیکھ بھال کرنی ہوتی ہے، اسے دودھ بنا کر پلانا ہوتا ہے، میں نے فرش صاف کیا ہے، کمروں میں جھاڑو دی، برتن دھوئے،بستر ٹھیک کئے۔ پھر میں نے کھانا پکایا۔ گائے کو چرانے……“
”بس بس!!“ بوڑھے کسان نے اپنی بیوی کی بات کاٹ دی۔”بہت ہوگیا۔ مصر وفیت کار ونا، یہ سارے کام جو تم بتا رہی ہو، گھر بیٹھے کرنے کے ہیں۔ان میں کیا مشکل ہے۔ ذرا باہر نکل کر کھیت میں کام کر و تو آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو جائے گا۔“
”اچھا؟“ اس کی بیوی چمک کر بولی۔”گھر کے کام آسان ہیں تو ایک دن کر کے تو دکھاؤ ذرا!“
”کیا تم سمجھتی ہو، میں گھر کا کام نہیں کر سکتا؟“ بوڑھا غصے میں چلا یا۔”ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ہے۔کل ہی دیکھ لیتے ہیں۔ جب تم باہر جا کر گھاس کو اکٹھا کر وگی تو پتہ چلے گا کام کسے کہتے ہیں؟“
”ٹھیک ہے۔“اس کی بیوی تیزی سے بولی اور باورچی خانے میں چلی گئی۔
”آسان کام ہے۔“ اس نے اپنے جی ہی جی میں کہا۔”کل پتہ چلے گا آسان کام کس کا ہے؟“
دوسرے دن صبح کو ناشتے کے بعد بوڑھاکسان بڑا خوش و خرم تھا۔”آج مدتوں بعد ایک اطمینان بھرا دن گزاروں گا۔ صبح صبح گھر کے سارے کام نمٹا کر میں تمہاری گھومنے والی کرسی پر بیٹھا با ہر کا نظارہ کر وں گا۔“ وہ بولا۔
”بچے کو آدھے گھنٹے بعد دودھ دینا نہ بھولنا۔“ اس کی بیوی نے چلتے ہوئے تاکید کی۔
”ہاں ہاں! مجھے یاد ہے۔“ کسان سر ہلا کر بولا۔
”اور دودھ بلوکر مکھن بھی نکال لینا۔“بیوی نے یاد دلایا۔
”اور وہ تو دومنٹ کی بات ہے۔“ بوڑھا خوشی سے بولا۔
”اور گائے چرانے کے لیے بھی لے جانا ہے……“ چلتے چلتے بیوی کو یاد آیا۔
”ٹھیک ہے جی!“ بوڑھا ہاتھ ہلاتا ہوا بولا۔
”اور سنو!“بیوی کچھ قدم چل کرپھر واپس لوٹ آئی۔ جب دو پہر کا کھانا تیار ہو جائے تو مجھے بلالینا۔“
”ارے اب جاؤ گی بھی یا یہیں کھڑی میرا یا اپنا وقت ضائع کرتی رہوگی۔ شام کو منہ لٹکائے آؤ گی کہ گھاس کے دو گٹھے ہی بن سکے۔“ بوڑھا جھلا گیا، اور بیوی خاموشی سے چلی گئی۔
بیوی کے جانے کے بعد بوڑھے نے گھر پر ایک نظر ڈالی۔”مجھے سب سے پہلے کیا کرنا چاہیے؟“ اس نے اپنے آپ سے سوال کیا۔ ”ٹھیک ہے، پہلے دودھ بلو کر مکھن نکال لوں۔“
وہ اٹھا اور اس نے دودھ بلونا شروع کیا، تھوڑی دیر میں وہ تھک گیا۔ اس نے دودھ پر نظر ڈالی کہ شاید مکھن نکل آیا ہولیکن ابھی مکھن علیحدہ نہیں ہوا تھا۔ اس نے پھر رئی (د ودھ بلونے کا آلہ) چلانا شروع کردی۔ کچھ دیر بعدوہ پھر تھک گیا۔
”بڑی پیاس لگ رہی ہے، پانی پی لیا جائے۔“ اس نے سوچا، اور پانی کے ٹینک کی طرف اٹھ گیا۔ ٹونٹی کے نیچے گلاس رکھ کر اس نے نل کھولا۔
”میاں۔ میاں۔“ اس کے کانوں میں آواز آئی۔
”اوہ، شاید بلی اندر گھس آئی ہے کہیں سارا دودھ نہ خراب کر دے۔“ وہ گلاس نیچے رکھ کر بلی کی جانب لپکا۔ واقعی ایک سفید بلی بیٹھی مزے سے دودھ چاٹ رہی تھی۔
”ہش ہش۔“ وہ عجیب سی آوازیں نکالتا ہوا دوڑا۔ بلی اچانک حملے سے گھبرا گئی اور دودھ چھوڑ کر دروازے کی طرف دوڑی۔
”سارا دودھ خراب کر دیا، میری ساری محنت ضائع کر دی۔“ بوڑھا کسان غصے میں بڑبڑاتا ہوا بلی کی طرف لکڑی اٹھا کر بھاگا۔ غصے میں اسے خیال نہیں رہا کہ راستے میں دودھ رکھا ہوا ہے، اس کی زور دار ٹھو کر دودھ کو لگی اور سارے فرش پر دودھ پھیل گیا۔
بوڑھا جہاں تھا وہیں رک گیا۔”یہ کیا ہو گیا؟“ اس نے سوچا، اتنے میں پانی کے بہنے کی آواز اس کے کانوں میں آئی اور وہ پانی کے ٹینک کی طرف بھاگا۔ لیکن افسوس! فرش پر دودھ پھیلا ہوا تھا اس کا پاؤں پھسلا اور وہ دھڑام سے نیچے گرپڑا۔
”اُف!“ اس کے منہ سے کراہ نکلی۔”آج ہی کوئی کام ڈھنگ سے نہیں ہورہا۔“ آہستگی سے وہ کھڑا ہوا، اور پانی کے ٹینک کی طرف تیز قدموں سے گیا مگر اسے دیر ہو چکی تھی۔ ٹینک کا سارا پانی بہہ چکا تھا، اور بہت سا را باور چی خانے کے فرش پر پھیل گیا تھا،اتفاق سے فرش پر مصالحے کے چند پیکٹ بھی رکھے رہ گئے تھے، وہ بھی پانی میں تر بتر تھے۔
”کاش میں اس وقت ٹونٹی بند کر دیتا؟“ اس نے افسوس کے ساتھ سو چا،عین اسی وقت اس کے کانوں میں گائے کے چلانے کی آواز آئی۔
”ا وہ، گائے کا تو مجھے خیال ہی نہیں رہا۔ اسے چرانے کے لیے بھی لے جانا ہے۔ مگر اب اسے چرانے کے لیے چرا گاہ لے گیا تو بہت دیر ہو جائے گی، چراگاہ دور بھی تو ہے۔“ یکے بعد دیگرے بوڑھے کے ذہن میں خیالات ابھر تے رہے۔
”وہ مارا!“ اس نے سوچا۔”اللہ میاں نے بھی کیا تدبیر سجھائی ہے۔“اگر میں گائے کو چھت پرچھوڑ دوں توبرا برکی پہاڑی پر خاصی گھاس اُگی ہوئی ہے۔ گائے با آسانی آج کے دن تو یہ گھاس چر کر گزارا کر سکتی ہے۔ کل تو بیوی ہی گائے کوچرانے لے جائے گی۔“
اس نے خوش ہوکر سر ہلایا، اور گائے کو لے جا کر چھت پر چھوڑ دیا۔ جب وہ اس کام سے فارغ ہوا تو یہ دیکھ کر اس کی حیرت کی کوئی ا نتہا نہ رہی کہ اب دوپہر کے کھانے کا وقت ہو چلا تھا۔
”دوپہر کے کھانے کے لئے کیا پکانا ہے؟“اس نے گھبرا کر سوچا۔”اب تو بہت دیر ہو چکی ہے!“
اس نے جلدی سے ایک دیگچے میں پانی ڈال کرچولہے پر چڑھا دیا اور کچھ آلو چھیلے۔ اس وقت بچے کے رونے کی آواز آئی۔
کسان آلو ہاتھ میں لیے بچے کی طرف لپکا۔”نانا…نا!“ اس نے بچے پچکارتے ہوئے کہا۔”میرے بچے کودودھ نہیں ملا۔ میں ابھی بناتا ہوں۔“
جب وہ دودھ بنانے کے لیے باور چی خانے کی طرف جارہا تھا تو اسے پھر گائے کا خیال آگیا۔
”میں نے اسے چھت پر چھوڑا ہے۔ مگر کہیں وہ چھت پر سے گرنہ پڑے۔“ اس نے پریشان ہو کر سوچا۔”کیوں نہ گائے کو ایک نظر دیکھ لوں!“
پھر وہ ایک رسی لے کرگائے کو دیکھنے کے لیے چھت پر گیا۔ گائے واقعی زیادہ گھاس کھانے کے لئے بالکل چھت کے کنارے پر پہنچ گئی تھی۔ اس نے جلدی سے رسی گائے کی گردن میں باندھ کراس کا دوسرا سرامکان کی چھت پر لگی چمنی سے گزار دیا۔ نیچے آکر اس نے چولہے کے اوپر بنی ہو ئی چمنی سے رسی کا دو سر اسرا کھینچ لیا۔
”اب اسے کہاں باندھوں۔“ اس نے ادھر ادھر نظر دوڑائی۔”ٹھیک ہے، میں اسے اپنی کمر سے باندھ لیتا ہوں۔“ اس نے رسی اپنی کمر سے باندھ لی اور با ورچی خانے کی صفائی شروع کر دی۔ بچے کے رونے کی آواز آرہی تھی لیکن وہ تیزی سے باورچی خانے کی صفائی کرتا ہوا سوچ ر ہا تھا۔بس ذرا دیر کی بات ہے۔ یہ صفائی کرلوں،تو پھر بچے کو دودھ بنا کرپلاتا ہوں۔“
کسان کی بیوی صبح صبح کھیت میں پہنچی۔ اس نے گھاس کاٹنا شروع کر دیا۔ یہ کام ان نے پہلے کبھی نہیں کیا تھا۔ اس لیے وہ جلدی تھک گئی، تھوڑی دیر سستا نے کے بعد اس نے پھر گھاس کاٹنا شروع کیا مگر ایک تو اسے گھاس کاٹنے میں مہارت نہیں تھی، دوسرے بار بار اسے بچے کا خیال آرہا تھا، بہر حال وہ کام کرتی رہی، کر تی رہی، حتیٰ کہ سورج سر پرآ گیا اور اسے زور کی بھوک ستانے لگی۔
”میرا شوہر میرے لیے کتنا کام کرتاہے۔“ اس نے نادم ہو کر سوچا۔”واقعی کھیت میں کام کر نا مشکل ہے، میں تو مزے سے گھر بیٹھی کام کرلیتی ہوں۔ کڑی دھوپ میں نکل کرگھاس کا ٹنا،سچی بات ہے بڑی محنت والا کام ہے۔“
اس نے گھاس کاٹنے کا اوزارایک طرف رکھ دیا اور چھاؤں میں بیٹھ کراپنے شوہر کا انتظار کرنے لگی کہ کب وہ دوپہر کے کھانے کے لیے آواز دیتا ہے۔
تھوڑی دیر بعد اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ بھوک کے مارے اس کا دم نکلا جا رہا تھا۔ وہ گھر کی سمت چل دی۔
بوڑھے نے جلدی جلدی باورچی خانے کا فرش صاف کیا اور آلو کاٹ کر چولہے پر رکھے گرم پانی کے دیگچے میں ڈالنے کے لیے بڑھا،عین اسی وقت اس کی کمر میں بندھی ہوئی رسی حرکت میں آئی اور وہ چمنی میں کھنچ کر لٹک گیا۔ دراصل چھت پر پھرتی ہوئی گائے چھت سے نیچے گر پڑی تھی۔ اسی وقت کسان کی بیو ی تیز تیز قدموں سے گھر کی جانب آرہی تھی۔ گھر سے کچھ فاصلے پر اس نے عجیب منظر دیکھا کہ گائے مکان کی دیوار کے ساتھ لٹکی ہوئی ہے اور مکان کے دروازے سے اس کے شو ہر کی ٹانگیں لٹکتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ وہ تیزی سے مکان کی سمت دوڑی اور باورچی خانے سے چھری لا کر اس نے گائے کی رسی کاٹ دی، دھڑام سے گائے مکان کے باہر گری اور بے چارہ بوڑھا کسان بارچی نے کی چمنی سے اندر چولہے پر گرا۔ گرم پانی سے بدن بھی جھلس گیا۔ آلو کے ٹکڑے ادھرادھر بکھر گئے۔ کا لک اور راکھ سے اس کے کپڑے سیاہ ہوگئے۔ جہاں جہاں کا لک یا راکھ لگنے سے رہ گئی۔ و ہاں سفید سفید دودھ جھلک رہا تھا جو فرش پر گرنے کی وجہ سے اس کے کپڑوں پر لگ گیا تھا۔
بوڑھے کسان کی بیوی بڑی مشکل سے اپنی ہنسی چھپاتے ہوئے بولی۔”کیوں گھر کا کام بہت آسان ہے نا؟“
بوڑھے کی حالت اس قدر خراب ہو چکی تھی کہ وہ ایک لفظ کہے بغیربا ورچی خانے سے باہرنکل گیا۔ پانی تو سارا بہہ چکا تھا۔ اس نے اپنے دھلے ہوئے کپڑے نکالے اور نہر پر چلاگیا۔
نہا دھو کر جب بوڑھا واپس آیا تو اس کی بیوی باورچی خانے اور کمر ے کے فرش کی صفائی کر چکی تھی۔ وہ خودہی قریب کے کنویں سے پانی بھی لے آئی تھی، بچے کو دودھ بھی پلا دیاتھا اور کھانا تیار ہو رہا تھا۔
بوڑھے کو دیکھ کر بیوی کی پھر ہنسی نکل گئی۔ اس نے شرارت بھری نظروں سے بوڑھے کو دیکھا لیکن اس بار بوڑھانا راض ہوانہ جھلایا۔ بس سر جھکا کر خاموشی سے ایک طرف بیٹھ گیا۔
کھانا تیار ہو چکا تو دونوں نے مل کر کھانا کھایا۔ کھانا کھاکر بوڑھے نے باہر کی راہ لی۔
”کہاں جا رہے ہو……؟“ بیوی نے حیرانی سے پوچھا۔
”کھیت میں۔“ بوڑھا نرمی سے بولا۔ اب اس کی ساری تیزی رخصت ہو چکی تھی۔
”چھوڑو! آج بہت تھک چکے ہوگے، کل چلے جانا۔ آج میں بھی تو بہت تھک گئی ہوں۔“ اس کی بیوی بولی۔”اور سنو! آج مجھے بھی احساس ہوگیا کہ تمہارا کام واقعی بڑا مشکل ہے،جس کا کام اسی کو سا جھے۔“
”دیکھا!“ بوڑھے کا لہجہ ایک دم تبدیل ہو گیا۔”میں نہ کہتا تھا کہ گھر کا کام بھی کوئی کام ہے۔“

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top