skip to Main Content

ایک اُسترے کی کہانی

احمد ندیم قاسمی
۔۔۔۔۔

اگر میں چاہوں تو اس کہانی کو ایک ہزار سال پہلے سے شروع کر دوں۔ چاہوں تو آج سے۔ اس لیے کہ یہ کہانی ہر زمانے میں سچّی ہے۔ میں نے یہ کہانی اپنی نانی سے سنی تھی جنہوں نے اپنی نانی جان سے سنی ہو گی اور انہوں نے اپنی نانی جان سے۔
یہ اتنی پرانی کہانی اتنی نئی کیوں ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں ایک سچائی بیان کی گئی ہے اور سچائی پرانی ہوتی ہے نہ نئی۔ سچائی صرف سچائی ہوتی ہے۔
وہ لوگ جو محنت نہیں کرتے، جو ہاتھ پاؤں ہلائے بغیر زندگی گزارنا چاہتے ہیں، جنھیں لمبی تان کر لیٹنے اور دیر تک لیٹے رہنے میں لطف آتا ہے، اس اُسترے کی طرح ہیں جس کی یہ کہانی ہے۔
یہ استرا ایک گاؤں کے نائی کا تھا۔ وہ اس چمکتے ہوئے تیز استرے سے کسانوں کی حجامت بناتا تھا۔ کسانوں کے چہرے پر نہ کریمیں لگتی ہیں اور نہ لوشن۔ اس لیے ان کے بال موٹے موٹے اور سخت ہوتے ہیں۔ گاؤں کے نائی حجامت بنانے سے پہلے بالوں پر نہ صابن ملتے ہیں نہ برش چلاتے ہیں۔ وہ تو چٹکیوں کو پانی سے بھگو کر لوگوں کے چہروں کی چٹکیاں لیتے ہیں جن کی انہیں حجامت بنانی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس استرے کو دِن بھر بہت محنت کرنا پڑتی تھی۔ اس کی دھار کو لوہے کے تار ایسے بالوں میں سے گزرنا پڑتا تھا اور وہ تھک جاتی تھی۔ مگر نائی بڑا سیانا اور بہت نرم دل تھا۔ وہ ایک پتھر یا لکڑی کے ایک ٹکڑے کو پانی سے بھگو کر اُسترے کو دائیں بائیں تھپکیاں دیتا تھا۔ یوں استرے کی چمک بھی اٹھتی تھی اور تازہ دم بھی ہو جاتی تھی۔ پھر جب نائی دن بھر کا کام ختم کر لیتا تھا تو اُسترے کو بند کر دیتا تھا۔ استرا اپنے دستے کے بستر پر سو جاتا تھا اور رات بھر کے آرام کے بعد صبح کو پھر محنت مزدوری شروع کر دیتا تھا۔
ایک دن گاؤں کا یہ نائی اپنی کسوت لیے کہیں جا رہا تھا۔ کسوت پھٹی ہوئی تھی۔ اُسترے نے جو باہر کھسکنے کا راستہ دیکھا تو اپنے دستے سے الگ ہونے کے لیے خوب زور لگایا۔ آخر وہ اپنی کوشش میں کام یاب ہو گیا۔ دستہ کسوت میں رہ گیا اور استرے کا پھل نرم نرم گھاس پر آ گرا۔
نائی بے چارے کو کیا پتا تھا کہ اس کا پیارا استرا اس سے بے وفائی کر گیا ہے۔ وہ اپنی راہ چلتا رہا۔ ایک جگہ اسے ایک کسان کی حجامت بنانا تھی۔ اس نے کسوت کو کھول کر استرا نکالنا چاہا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ دستہ پڑا ہے اور اُسترا غائب ہے۔ اس کا کُل سرمایہ یہی ایک استرا تھا۔ وہ دن بھر اس راستے پر بھٹکتا رہا جہاں سے گزرا تھا۔ ایک بار اس کا پاؤں بھاگتے ہوئے استرے کے بالکل پاس پڑا۔ ڈر کے مارے استرے کی جان ہی تو نکل گئی۔ مگر پھر نائی آگے بڑھ گیا اور استرا دھوپ میں ہنسنے لگا۔
خوب ہنس لینے کے بعد اُسترے نے اپنے جسم کو دیکھا تو یہ معلوم کر کے اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی کہ اس کے انگ انگ سے کرنیں پھوٹ رہی ہیں۔ سورج آسمان پر چمک رہا تھا اور اُسترے کی چمکتی دمکتی سطح پر اس کا عکس پڑ رہا تھا۔ اپنی دھار دیکھ کر تو استرے کو ایسا لگا جیسے تارا ٹوٹ رہا ہے۔ اپنے جسم پر جہاں بھی اس کی نظر پڑتی تھی کئی سورج جگمگاتے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔
اس نے سوچا۔ ”ارے! میں تو بڑا ہی خوب صورت ہوں کہ مجھے دیکھ کر خود سورج کی آنکھیں چندھیا رہی ہوں گی۔ میں کتنا خوش قسمت ہوں کہ نائی کی قید سے بھاگ آیا ہوں۔ وہاں مجھے اتنی محنت کرنی پڑتی تھی کہ دانتوں پسینا آ جاتا تھا۔ مجھے اتنا وقت ہی نہیں ملتا تھا کہ میں اپنے آپ کو دیکھ سکوں۔ یہاں میں کتنے آرام میں ہوں۔ نہ کام ہے نہ کاج۔ مزے سے لمبا لمبا لیٹا ہوا ہوں۔ سورج میرے جسم میں اپنی صورت دیکھ رہا ہے۔ ہوا میری سطح پر کھیل رہی ہے۔ آس پاس کی گھاس جھک جھک کر مجھ میں جھانکتی ہے۔ ابھی ابھی کتنی پیاری سی تتلی مجھے آئینہ سمجھ کر پَر سنوارتی رہی۔ کوئی اُٹھانے والا نہ بند کرنے والا۔ میری تو دُعا ہے کہ قیامت تک یہیں پڑا رہوں۔ آرام ملا تو خوب موٹا تازہ ہو جاؤں گا اور بڑے مزے آئیں گے۔
یہ کہنے کے بعد اُسترے نے سوچا کہ اگر میں یہاں پڑا رہا تو ہو سکتا ہے کبھی کوئی آدمی میری چمک دمک کو دیکھ لے، مجھے اٹھا کر گھر لے جائے اور وہاں مجھے قید کر دے۔ اس لیے وہ وہاں سے کھسکا۔ ایک بِل میں گھس گیا اور برسوں کی تھکن دور کرنے کے لیے سو گیا۔
استرا چھے سات مہینے تک سوتا رہا۔ بارشیں ہوئیں۔ پانی اس کے بل میں گھس آیا مگر جب بھی اس کی آنکھ نہ کھلی۔ کئی کیڑے مکوڑے اس پر سے گزرے مگر اسے کھجلی تک محسوس نہ ہوئی۔ اس نے کروٹ تک نہ بدلی۔ جس رُخ سویا تھا اسی رُخ اٹھا۔ سوچا، چلو ذرا سی ہوا خوری کر لیں۔ آ کر پھر سو رہیں گے۔ آخر ہمیں اور کون سا کام کرنا ہے!
وہ بل میں سے کودا اور باہر آ گیا۔ سورج اسی طرح چمک رہا تھا۔ ہوا اسی طرح چل رہی تھی۔ گھاس کی پتّیاں اسی طرح ہل رہی تھیں۔ اُسترے نے مسکرانے کی کوشش کی مگر اس کے ہونٹ جڑ گئے تھے۔ اس نے گھبرا کر اپنے جسم پر نظر دوڑائی تو وہاں اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔ سَر سے لے کر پاؤں تک اس پر زنگ چڑھ چکا تھا۔ سورج کی کرنیں اس سے دور رہتیں۔ اُس کی تمام چمک ماند پڑ چُکی تھی۔
اس نے سوچا کہ گھاس مجھ سے ڈر ڈر کر دوسری طرف دیکھنے لگتی ہے۔ سورج کی کرن مجھے چھوتے ہی بھاگ کھڑی ہوتی ہے۔ کاش! میرا نائی ایک بار ادھر سے گزرے اور میں اچھل کر اس کی کسوت میں جا بیٹھوں اور خوب محنت کروں اور میری چمک دمک مجھے واپس مل جائے، لیکن ایسا نہ ہوا اور وہ استرا وہیں پڑا گلتا سڑتا رہا۔
وہ لوگ جو محنت نہیں کرتے، جو ہاتھ پاؤں ہلائے بغیر زندگی گزارنا چاہتے ہیں، جنھیں لمبی تان کر لیٹنے اور دیر تک لیٹے رہنے میں لطف آتا ہے، ان کا انجام ایسا ہی ہوتا ہے۔ اسی لیے تو کہتے ہیں؛ محنت میں عظمت ہے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top