جیب خرچ
نیر کاشف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ٹھیلا۔۔۔؟ ہا ہا ہا۔۔۔ اریبہ کے حلق سے قہقہہ فوارے کی طرح اُبلا‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’احمد! احمد جلدی اُٹھو امی جان سوچکی ہیں اور اب ہم آرام سے صحن میں جھولا جھول سکتے ہیں۔‘‘ اریبہ نے ہلکی آواز میں احمد کو پکارا تو اس نے پٹ سے آنکھیں کھولیں اور جھٹ سے بستر سے اُتر آیا۔
فجر سے بھی پہلے کی جاگی ہوئی امی جان کی طرف ذرا سی گردن گھما کر دیکھا تو وہ گہری نیند سورہی تھیں۔ ایک۔۔۔ دو۔۔۔ تین۔۔۔ چار اور یہ کمرے سے باہر، دروازے کو بغیر آواز پیدا کیے کھولنے اور بند کرنے میں بس اتنی ہی دیر تو لگتی تھی۔
ابراہیم تو امی جان کے ساتھ ہی بے خبر سورہا تھا۔ ابو جان حسب معمول دفتر میں تھے۔ رہ گئے احمد اور اریبہ تو وہ دونوں عنقریب صحن میں جھولے کے مزے لینے والے تھے، بے شک ذرا گرمی بھی لگ رہی تھی، لیکن جھولا جھولنے کے مزے کے سامنے ہر تکلیف چھوٹی تھی۔
’’آپی ایک بات تو بتائیے یہ آپ اپنی جیب خرچ کا کرتی کیا ہیں؟‘‘ احمد نے جھولا روک کر اچانک ہی اریبہ سے سوال کر ڈالا، جو نہایت انہماک سے دیوار سے ٹیک لگائے فرش پر بیٹھی پچھلی عید والے بٹوے میں سے چند نوٹ اور کچھ سکے نکال کر گن رہی تھی۔
’’کچھ نہیں کرتی، بس جمع کرتی ہوں۔‘‘ آپی نے بے نیازی سے جواب دیا اور سیدھے کیے ہوئے نوٹ احتیاط سے بٹوے میں رکھنے لگیں۔
’’آپی آپ ایسا کریں میری باری بھی لے لیں۔‘‘ احمد نے فراخ دلانہ پیش کش کی تو اریبہ نے حیرانی سے اس کی جانب دیکھا۔
’’ بس مجھے آئس کریم دلا دیں نا، بس ابھی گلی میں آئس کریم والا آتا ہی ہوگا۔‘‘
’’ جی نہیں، مجھے نہیں چاہیے تمھارے حصے کی باری۔‘‘ اریبہ کی گرفت اپنے بٹوے پر مضبوط ہوگئی تو احمد جو کہ جوش میں جھولے سے اُتر آیا تھا، منھ بناتا ہوا پھر سے جھولا جھولنے لگا۔
’’ویسے بھی تمھارے صرف پانچ منٹ ہی رہ گئے ہیں۔‘‘ اریبہ نے برآمدے کی دیوار پر لگی گھڑی دیکھتے ہوئے بے نیازی سے کہا تو جھولے کی رفتار ایک دم سے تیز ہوگئی۔
*۔۔۔*
’’امی جان آج مجھے بھی زیادہ والا لنچ دیجیے گا، میں کینٹین سے کچھ نہیں لوں گا۔‘‘ چند دنوں بعد صبح صبح اسکول کے لیے تیار ہوتے ہوئے احمد نے کمرے سے ہی آواز دی، امی ذرا سی دیر کو حیران تو ہوئیں لیکن بھاگ دوڑ میں وجہ نہ پوچھ پاسکیں۔
’اچھا تو جناب میری نقل کرتے ہوئے پیسے بچا رہے ہیں۔ ‘اریبہ نے دل ہی دل میں سوچا اور مسکرادی لیکن میں تو اپنے پیسے جمع کرکے ’ڈول ہاؤس‘ لوں گی، احمد کیا کرنے والا ہے؟ تجسس نے اریبہ کو سارا دن گھیرے میں لیے رکھا۔
’’احمد! تم اپنے پیسوں کا کیا کرنے والے ہو؟‘‘ دوپہر کے وقت وہ دونوں حسب معمول جھولا جھولنے صحن میں آئے تو اریبہ نے یہ سوال کرہی لیا۔
’’میں؟‘‘ احمد نے بڑے خاص انداز سے شہادت کی انگلی سے اپنی جانب اشارہ کیا تو اریبہ کے جھولے کی رفتار خود بخود آہستہ ہوگئی۔
’’ کچھ بھی نہیں۔‘‘ اگلے ہی لمحے احمد نے گویا مکھی اُڑائی اور دیوار کے ساتھ چلتی چیونٹیوں کی قطار کی طرف متوجہ ہوگیا۔
’’ ہونہہ پتا نہیں کیا سمجھتا ہے خود کو، کیا خریدلے گا، زیادہ سے زیادہ بال، بلا، فٹبال، فٹبال کی کٹ۔۔۔ یا یا یا۔‘‘ اریبہ نہ چاہتے ہوئے بھی سوچتی چلی گئی۔
*۔۔۔*
’’بابا بات سنیں۔‘‘ رات لاؤنج میں بیٹھ کر اسکول کا کام کرتے ہوئے اریبہ نے بابا کو مخاطب کیا۔
’’ہوں، بولو!‘‘ بابا کسی کتاب کے مطالعے میں ایسے محو تھے کہ نظر اُٹھائے بغیر ہی بمشکل اسے جواب دیا۔
’’اونہوں! ادھر دیکھیے نا بھئی!‘‘ اریبہ نے مچلتے ہوئے کہا تو بالآخر بابا نے کتاب آنکھوں کے آگے سے ہٹائی اور اس کی طرف متوجہ ہوئے۔
’’ باباجی دیکھیں، میں نے اتنے سارے پیسے جمع کرلیے ہیں۔ ان سے وہ والا ڈول ہاؤسں آجائے گا نا!‘‘ اس نے بابا کے ہاتھ میں کئی نوٹ اور سکے پکڑائے تو وہ کتاب ہاتھ سے رکھ کر اُٹھ ہی بیٹھے۔
’’ اتنے سارے سکے، دکاندار مذاق اُڑائے گا اور لے گا بھی نہیں۔‘‘ احمد جو خاموشی سے سارا منظر دیکھ رہا تھا ایک دم سے بول پڑا۔
’’ ارے نہیں بھئی کوئی مذاق نہیں اُڑاتا بلکہ میں لے لیتا ہوں یہ سارے سکے اور ان کے بدلے نوٹ دے دیتا ہوں۔‘‘ بابا کی بات سن کر اریبہ کے بگڑتے تاثرات ایک دَم سے کھلکھلاہٹ میں بدل گئے۔
’’اوہ تو آپ میرے سکے بھی نوٹوں سے بدل دیں گے؟‘‘ احمد نے آنکھیں سکیڑتے ہوئے کچھ سوچا اور بابا سے پوچھا۔
’’بالکل بھئی کیوں نہیں اور اریبہ آپ کا ڈول ہاؤس بھی اس رقم سے آجائے گا۔ اگلی بار جب ہم بازار جائیں گے تو آپ بھی چلیے گا اور اپنی پسند سے خرید لیجیے گا۔‘‘ بابا نے رقم اریبہ کو تھمائی اور خود دوبارہ کتاب پڑھنے میں مصروف ہوگئے۔
*۔۔۔*
آج تو اریبہ کی خوشی سنبھالے نہیں سنبھل رہی تھی۔ اسکول سے گھر آتے ہی اس نے کھانا، نہانا، تیار ہونا سارے کام اتنی تیزی سے کرلیے کہ احمد بھی حیران رہ گیا۔
’’ جانتے ہو احمد آج میں بابا جان کے ساتھ بازار جاؤں گی، اپنا ڈول ہاؤس لینے۔‘‘ دوپہر میں وہ دونوں جب امی جان کے ساتھ قیلولہ کی غرض سے لیٹے تو بالآخر اریبہ نے اپنی خوشی کی وجہ خود بیان کردی۔
’’احمد! بیٹے آپ اپنی رقم سے کیا خریدنے والے ہیں؟‘‘ امی نے اس کی پیشانی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پیار سے سوال کیا۔
’’میں؟ میں کچھ نہیں خریدوں گا بس ایک کام کروں گا ان پیسوں سے۔‘‘ احمد نے جواب دیا تو اریبہ جو کہنی کے بل اُچکتے ہوئے امی کی دوسری جانب سے جھانک رہی تھی، سوچ میں پڑگئی۔
’’احمد! ‘‘تھوڑی ہی دیر کے بعد جب امی کی آنکھ لگ گئی تو اریبہ نے حسب معمول احمد کو سرگوشی میں پکارا، لیکن یہ کیا آج تو احمد واقعی سوچکا تھا۔
’’السلام علیکم بابا جان!‘‘ آج تو گھنٹی بجاتے ہی لمحوں میں دروازہ کھل گیا تھا۔ اریبہ دروازے کے پاس منتظر جو تھیں، ابو گھر میں داخل ہوئے تو لاڈ سے گلے لگ گئیں۔
’’اریبہ، آپ کا بس چلے تو دروازے سے ہی لے جائیں اپنے بابا کو بازار۔‘‘ امی نے مسکراتے ہوئے بابا کے ہاتھ سے بریف کیس پکڑلیا اور پیار سے اریبہ کو ٹوکا تو وہ جھینپ گئی۔
’’ہاں تو جناب ہمارے بچے تیار ہیں بازار چلنے کے لیے۔‘‘ چاے کا کپ خالی کرتے ہوئے ابو نے سوالیہ نظروں سے دونوں کی جانب دیکھا تو اریبہ نے خوش دلی سے کئی مرتبہ ہاں میں سرہلایا۔۔۔
’’اور احمد؟‘‘ بابا نے احمد سے سوال کیا۔
’’وہ بابا مجھے کچھ نہیں خریدنا۔‘‘ احمد نے نفی میں سرہلایا تو امی اور بابا حیران رہ گئے۔
’’میں تو سمجھی کہ آپ سرپرائز رکھنا چاہ رہے ہیں۔‘‘ امی نے احمد سے کہا تو وہ سرجھکا کر رہ گیا۔
’’احمد میرا تو خیال ہے کہ آپ کے پاس کافی رقم جمع ہوگئی ہوگی تو پھر آپ اس رقم کا کیا کریں گے؟‘‘ ابو نے سوال کیا تو احمد لب بھینچ کر رہ گیا، لیکن اس وقت سب کی سوالیہ نظریں اسی کی جانب اُٹھی ہوئی تھیں، جواب دینے کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں تھا۔
’’ ٹھیلا خریدوں گا۔‘‘ سرگوشی کی مانند آواز میں جواب دیتے ہوئے اس کی نظریں زمین سے جالگیں اور تھوڑی گردن سے۔۔۔
’’کیا؟ ٹھیلا؟‘‘ ابو نے حیرانی سے دہرایا۔
’’ٹھیلا؟ ‘‘امی نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے پوچھا؟
’’ٹھیلا؟ ہا ہا ہا ۔۔۔‘‘اریبہ کے حلق سے قہقہہ فوارے کی مانند اُبلا تو سب نے ہی اسے خفگی سے دیکھا۔
امی بابا کی سمجھ میں اب بات کچھ کچھ آرہی تھی۔
’’کس کے لیے بیٹا؟‘‘ بابا نے احمد کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے قریب کرلیا۔
’’ رحمت بابا کے لیے۔‘‘ احمد نے مختصر سا جواب دیا اور اضطراب سے انگلیاں مروڑنے لگا۔
’’رحمت بابا؟ وہ جو اسکول میں روز آتے ہیں گھر کے بنے سموسے لے کر؟‘‘ اریبہ نے جلدی سے اپنی معلومات اُگل دیں۔
’’ہاں وہی رحمت بابا، وہ بہت ضعیف ہیں بابا جان!‘‘ احمد نے آہستگی سے کہا۔’’ اتنا بھاری سامان اٹھا کر بہت دور سے پیدل چل کر آتے ہیں، مجھے بہت دُکھ ہوتا ہے۔‘‘ اس کی آواز میں نمی سی گھل گئی۔ ’’میں نے سوچا کہ ان کو ٹھیلا مل جائے تو بہت آسانی ہوجائے گی۔‘‘
’’ اچھا اب آپ ایسا کیجیے کہ اپنی جمع شدہ رقم لائیے۔‘‘ بابا نے کچھ سوچتے ہوئے احمد کا شانہ تھپتھپایا تو وہ اندر کمرے کی جانب گیا اور ذرا سی دیر میں ایک لفافہ تھامے برآمد ہوا۔
’’کیا اتنے پیسوں میں ٹھیلا آجائے گا بابا جان؟‘‘ احمد نے اُمید اور نااُمیدی کی کیفیت میں بابا کو دیکھتے ہوئے سوال کیا تو وہ مسکرادیے۔
’’آپ اس میں میرے پیسے بھی شامل کرلیں بابا جان۔‘‘ ایک دم سے اریبہ نے اپنے پیسے بٹوے سے برآمد کرکے بابا کی جانب بڑھادیے۔ امی، بابا اور احمد تینوں نے حیرانی سے اریبہ کو دیکھا۔
’’ تو تم کیا سوچ رہے تھے؟ اکیلے اکیلے ساری نیکیاں کمالوگے؟‘‘ اریبہ نے احمد کی ناک چٹکی سے دبائی اور کھلکھلا کر بولی۔
’’ مگر آپی وہ ڈول ہاؤس؟‘‘ احمد کا دل دُکھا۔
’’ ارے پھر کبھی لے لیں گے ڈول ہاؤس۔‘‘ اریبہ نے ہاتھ جھاڑے۔
’’بھئی بیگم بچوں کی رقم میں ’تھوڑی‘ سی کمی ہے۔‘‘ بابا نے چٹکی سے اشارہ کیا۔
’’وہ ہم پوری کردیتے ہیں۔‘‘ امی نے مسکرا کر بابا کی بات کو مکمل کیا اور پرس لینے کے لیے کمرے کی جانب چلی گئیں۔
’’اچھا اب بازار چلیں؟‘‘ بابا نے اریبہ اور احمد کی طرف دیکھتے ہوئے سوال کیا۔
’’بازار؟ اب کس لیے؟‘‘ دونوں نے ایک ساتھ سوال کیا۔
’’بھئی آپ نے رحمت بابا کے لیے تحفہ لینے کا ارادہ کیا تو ہم نے بھی آپ کے لیے تحفہ لینے کا ارادہ کرلیا۔‘‘ بابا مسکراے اور نم آنکھوں کے ساتھ دونوں کو جلدی سے گلے سے لگالیا کہ کہیں وہ اپنے بابا کو روتا ہوا نہ دیکھ لیں۔
*۔۔۔*