جب گھوڑا ہنہنانے لگا
فریال یاور
…………………………..
حضرت اسید رضی اللہ عنہ نے بہت سے غزوات میں اپنی بہادری کے جوہر دکھائے۔
…………………………..
رات کا آخری پہر تھا۔ ماحول پر بہت پرسکون خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ اکثر لوگ اپنے گھروں میں پرسکون نیند کے مزے لوٹ رہے تھے۔ ایسے میں ایک گھر سے گھوڑے کے ہنہنانے کی آواز ماحول کی خاموشی کو چیرتی ہے۔ گھوڑے کے قریب ہی معصوم بچہ بے خبر سور ہا ہے۔ جب کہ ایک شخص نماز میں مصروف ہے۔ چہرہ نہایت پرنور اور اپنے رب کے آگے عاجزی کا اظہار کرتے ہوئے نہایت خوش الحانی کے ساتھ سورہ البقرہ کی تلاوت کررہا ہے۔ ایسے میں گھوڑے کے ہنہنانے سے وہ چند لمحے کے لیے خاموش ہوتا ہے۔ گھوڑا بھی بدکنے سے باز رہتا ہے ۔ وہ شخص دوبارہ تلاوت شروع کرتا ہے۔ گھوڑا پھر یکبارگی بدکنے لگتا ہے۔ اس شخص کو گھوڑے کے قریب لیٹے اپنے معصوم بچہ کا خیال آتا ہے کہ مبادا گھوڑے کا بدکنا بچے کو نقصان نہ پہنچائے۔ لہٰذا وہ تلاوت مختصر کرکے نماز مکمل کرتا ہے اور اپنے بچہ کو تیزی سے اپنی آغوش میں لے لیتا ہے۔
یکایک اس کی نظر آسمان کی جانب اٹھتی ہے۔ وہ ایک عجیب منظر دیکھتا ہے۔ ایک بادل اس کے گھر کے اوپر موجود ہے۔ جس میں سے روشنی نکل رہی ہے۔ وہ اس منظر کو کافی دیر تک دیکھتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ آہستہ آہستہ وہ بادل دور ہوتا جاتا ہے۔ صبح وہ شخص مسجد بنو عبدالاشہل میں پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوتا ہے اور عرض کرتا ہے :’’ یارسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو میں نماز میں سورہ البقرہ کی تلاوت کر رہا تھا کہ گھوڑے نے اچانک بدکنا شروع کردیا۔ میں کچھ دیر کے لیے خاموش ہوگیا۔ گھوڑا بھی ٹھہر گیا۔ میں نے پھر تلاوت شروع کی تو گھوڑا پھر سے بدکنے لگا۔ مجھے یحییٰ کا خیال آیا۔ جو پاس ہی سورہا تھا۔ میں نے نماز مکمل کرکے یحییٰ کو اٹھا لیا۔ اچانک ہی میں نے آسمان پر دیکھا تو ایک بادل نظر آیا۔ جس سے چراغوں سی روشنی نکل رہی تھی۔ پھر آہستہ آہستہ وہ ابر دور ہوتا گیا اور غائب ہو گیا۔‘‘
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: ’’جانتے ہو وہ کیا تھا؟‘‘
صحابی نے جواب دیا: ’’نہیں۔‘‘
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ فرشتے تھے جو تمہاری تلاوت سننے آئے تھے اور اگر تم ساری رات بھی تلاوت کرتے رہتے تو وہ تمہاری تلاوت سنتے رہتے۔ یہاں تک کہ صبح ہوجاتی اور لوگ انہیں دیکھ لیتے اور فرشتے بھی لوگوں سے نہ چھپتے۔‘‘ یہ خوش الحان صحابی حضرت اسید رضی اللہ عنہ بن حضیر تھے۔ جن کا شمار بہت عظیم صحابہ میں ہوتا ہے۔ خود نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کے بارے میں فرمانا ہے کہ ’’اسید رضی اللہ عنہ بہت اچھے آدمی ہیں۔‘‘ حضرت اسید رضی اللہ عنہ کا قبول اسلام کا واقعہ اس طرح سے ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت پر حضرت مصعب رضی اللہ عنہ بن عمیر ایک دن یثرب کے ایک باغ میں تبلیغ دین کا کام سرانجام دے رہے تھے۔ حضرت اسید رضی اللہ عنہ جنہوں نے ابھی اسلام قبول نہ کیا تھا۔ نہایت غضب ناک انداز میں ان کے سامنے آگئے اور حضرت مصعب رضی اللہ عنہ بن عمیر کو بہت سختی سے کہا: ’’تمہیں جرأت کیسے ہوئی کہ ہمارے محلے میں آکر ہمارے لوگوں کو گمراہ کرو۔ اگر خیریت چاہتے ہو تو فوراً یہاں سے چلتے بنو۔‘‘ حضرت مصعب رضی اللہ عنہ نے نہایت تحمل سے کہا: ’’میری ایک بات سن لو تو بہتر ورنہ آپ کو اختیار ہے۔‘‘ حضرت مصعب رضی اللہ عنہ کا لہجہ اتنا شیریں تھا کہ حضرت اسید رضی اللہ عنہ پہلے ہی متاثر ہوگئے۔ پھر قرآن کی آیات سن کر ذہن روشن ہو گیا اور فوراً کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگئے۔ پھر بولے: ’’ایک اور شخص ہے اگر وہ مسلمان ہو گیا تو یہاں کی ساری قوم مسلمان ہو جائے گی۔ پھر ان سے کچھ اس طرح باتیں کیں کہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ بھی آئے اور وہ بھی مسلمان ہو کر گئے۔ اس طرح شام تک سارے قبیلے کو دائرہ اسلام میں لے آئے۔
حضرت اسید رضی اللہ عنہ نے بہت سے غزوات میں اپنی بہادری کے جوہر دکھائے۔ بلکہ غزوہ احد میں تو آپ رضی اللہ عنہ ان اصحاب میں شامل ہیں جو آخر تک انتہائی بہادری سے لڑتے رہے اور اپنے سینوں اور سر سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کی۔ یہی نہیں بلکہ دربارِ رسالت میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کا خاص خیال رکھتے تھے۔ ایک دفعہ کفار نے مدینہ منورہ میں آپ کو شہید کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اس کے لیے ایک منافق اپنے کپڑوں میں خنجر چھپاے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا پتا پوچھتے پوچھتے مسجد بنو ابوالاشہد پہنچا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس منافق کو آتا دیکھ کر اپنے صحابہ سے فرمایا: ’’مجھے اس شخص کی نیت ٹھیک نہیں معلوم ہوتی۔‘‘ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد سن کر حضرت اسید رضی اللہ عنہ نے ایک جست لگا کر اس منافق کے قبضے سے چاقو برآمد کر لیا۔ اس منافق نے بھی سارا واقعہ سنا کر جرم کا اقرار کر لیا مگر بعد میں صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عفو و درگزر کی عادت کے سبب معاف کردیا۔
حضرت اسید رضی اللہ عنہ سچے عاشق رسول تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ محبت کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں پر بیعت پر آمادہ کرنے کے لیے آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے قبیلے کو آمادہ کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی حضرت اسید رضی اللہ عنہ کی بے حد تعظیم کرتے تھے اور ہر معاملے میں ان سے مشورہ کرتے تھے۔ حضرت اسید رضی اللہ عنہ بن حضیر نے ۲۰ھ میں مدینہ میں وفات پائی۔ وفات کے بعد امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کے گھر تشریف لے گئے اور خود صحابہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ اٹھا کر لائے۔ خود ہی نماز جنازہ پڑھائی اور سپرد خاک کیا۔