اس کا مالک کون تھا؟
جاوید بسام
۔۔۔۔۔۔۔
میں نے بہت کوشش کی کہ اس کے مالک کا پتا چل جائے مگر….
۔۔۔۔۔۔۔
بدرل جب کھیت سے واپس آیا تو بہت پریشان تھا۔ وہ ایک محنتی کسان تھا، تمام دن اپنی چھوٹی سی زمین پر محنت کرتا تو سال کے آخر میں اتنا اناج اُگا پاتا کہ گزارا کرسکے، لیکن اس دفعہ ایسا ممکن نہیں لگ رہا تھا، پانی کی کمی سے فصل خراب ہورہی تھی۔
اس کا گھر گاﺅں کے کنارے پر تھا جس کے بعد ویران جنگل تھا، گھر کے وسیع احاطے میں کوئی دروازہ نہ تھا، ایک طرف چھپر تھا جس کے نیچے وہ اپنا بیل باندھتا، ساتھ ہی اناج کی کوٹھری تھی، جب وہ احاطے میں داخل ہوا تو اسے لگا کہ کوٹھری کے پیچھے کوئی ہے، جا کر دیکھا تو وہی لنگڑا اور زخم خوردہ ٹٹو تھا جسے وہ کچھ دنوں سے گاﺅں کی گلیوں میں آوارہ گھومتے دیکھ رہا تھا، وہ سارا دن ادھر ادھر گھومتا رہتا، شرارتی بچوں کو ایک نیا مشغلہ مل گیا تھا، وہ اسے گلیوں میں دوڑاتے کچھ اس پر سوار ہونے کی کوشش کرتے، غالباً اس سے بچنے کے لیے اس نے وہاں پناہ لے لی تھی، بدرل نے اسے احاطے سے باہر نکال دیا۔
دوسرے دن جب وہ واپس آیا تو پھر اسے وہیں پایا۔ اس کی پیٹھ پر گہرے زخم تھے اور پچھلی ٹانگ پر گھٹنے سے اوپری ہڈی میں چوٹ تھی۔ ہڈیوں کا ڈھانچہ ٹٹو مرنے کے قریب لگتا تھا۔ بدرل کو خیال آیا کہ اگر یہ احاطے میں مرگیا تو لاش ٹھکانے لگانے کے لیے خوامخواہ محنت کرنی پڑے گی۔ اس نے چھڑی اٹھائی اور شور کرتے ہوئے اس کے پیچھے بھاگا۔ وہ دوڑتا ہوا احاطے سے نکل گیا لیکن کچھ دور جا کر رک گیا اس کی آنکھوں میں بے بسی جھلک رہی تھی، بدرل غصے سے چلایا۔
”بھاگ تو جنگل میں کیوں نہیں چلاجاتا“۔ اس نے مٹی کا ایک ڈھیلا اس کی طرف پھینکا، وہ دوڑتا ہوا جھاڑیوں کے پیچھے غائب ہوگیا، بدرل بڑبڑاتا ہوا واپس آگیا۔
تیسرے دن بھی ٹٹو وہاں موجود تھا، آج وہ کمزوری کے مارے زمین پر لیٹا تھا، احاطے کی دیوار پر چند کوے اس کی موت کے منتظر کائیں کائیں کررہے تھے، بدرل اس کے قریب چلاگیا، اس کے زخموں پر مکھیاں بھنبھنارہی تھیں، کسی ظالم نے بے دردی سے اسے پیٹا تھا، بدرل کے دل میں ہمدری کے جذبات پیدا ہونے لگے، آخر وہ اندر سے کچھ دوائیں لے آیا، کچھ اس نے زخموں پر لگائیں اور کچھ چوٹ پر مل دیں پھر کوٹھری کھول کر چارہ نکالا اور اس کے آگے ڈالا، اس کے بعد برتن میں پانی لا کر رکھا، اللہ مالک ہے، وہ سوچتا ہوا گھر میں چلاگیا۔ کچھ دنوں تک وہ اسی طرح ٹٹو کی تیمارداری کرتا رہا اس کے زخم بھرنے لگے اور حیرت انگیز طور پر چوٹ بھی ٹھیک ہونے لگی۔ آہستہ آہستہ اس کی کمزوری بھی دور ہورہی تھی، بدرل روزانہ اس کے لیے ہری گھاس کاٹ لاتا چند ہفتوں میں ٹٹو چاق و چوبند ہوگیا، بدرل نے کئی لوگوں سے ٹٹو کے مالک کا معلوم کیا لیکن کسی کو بھی اس کے بارے میں پتا نہ تھا، آخر ایک دن وہ اسے جنگل میں چھوڑ آیا کہ جہاں چاہے چلا جائے لیکن وہ اس کے پیچھے پیچھے واپس آگیا۔
فصل خراب ہونے سے بدرل کی آمدنی کم ہوئی اور وہ کسی اور کام کے بارے میں سوچنے لگا، ٹٹو دن بدن توانا ہورہا تھا اس کی خاکی جلد چمکنے لگی تھی بدرل اس کی پشت تھپتھپاتا، پیار سے چمکارتا اور اس کے بال میں انگلیوں سے کنگھا کرتا تو وہ اپنی تھوتھنی اس کے بازو سے رگڑنے لگتا۔
ایک دن بدرل نے اس پر زین کسی اور سوار ہو کر مویشی منڈی کا رخ کیا وہ کسی کام کی تلاش میں تھا، ٹٹو ہلکی چال چلتا مزے سے چلا جارہا تھا۔ منڈی میں ان گنت جانور موجود تھے کوئی اپنے بیل لے آیا تھا کوئی گائے اور گھوڑے، مرغیاں اور بطخیں بھی بک رہی تھیں، وہ ادھر ادھر گھوم رہا تھا کہ اسے اپنے رشتے کے ایک چچا مل گئے۔ وہ دوسرے گاﺅں میں رہتے تھے۔ علیک سلیک کے بعد بولے۔
”واہ بھئی! ہم جس چیز کی تلاش میں آئے ہیں وہ تو تم لیے پھر رہے ہو…. بڑا شاندار ٹٹو ہے“ وہ اسے نظروں میں تولتے ہوئے فوراً حرف مدعا زبان پر لے آئے۔
”بولو بھئی کیا مانگتے ہو….؟ ہمیں یہ پسند آگیا ہے…. اچھا ایسا کرو پانچ ہزار لے لو۔ اس سے زیادہ تمہیں کوئی نہیں دے گا“۔ وہ بہت بولتے تھے دوسرے کو بولنے کا موقعہ کم ہی دیتے، بدرل سوچ رہا تھا یہ اچھی رقم لگارہے ہیں اگر ٹٹو بیچ دوں تو باقی دن آرام سے کٹ جائیں گے۔
”بولو بھئی کس سوچ میں پڑ گئے؟“ انہوں نے ٹٹو کی پشت پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ ٹٹو دبک کر دوڑ ہٹ گیا۔
”نہیں…. یہ میرا ٹٹو نہیں ہے“۔ بدرل نے ٹہر کر بولا۔
”اچھا تو اس کے مالک سے پوچھ لیتے ہیں کہاں ہے وہ؟“ وہ بولے۔
”وہ یہاں نہیں ہے“۔ اچھا، چچا مایوسی سے بولے۔
گھر واپس آتے ہوئے ٹٹو تیزی سے دوڑ رہا تھا اور بدرل سوچ رہا تھا کہ اسے بیچنا گھاٹے کا سودا ہوتا۔ اسے کوئی کام نہ ملا بالآخر اس نے لکڑیاں کاٹ کر بیچنے کا فیصلہ کیا۔وہ ٹٹو پر بیٹھ کر جنگل میں جاتا وہاں سے لکڑیاں کاٹتا پھر اس پر لاد کر شہر چلاجاتا جہاں لکڑیاں جلد فروخت ہوجاتیں۔ ٹٹو اس کے اشارے پر چلتا کبھی سستی نہ دکھاتا اس طرح باقی دن اس نے آسانی سے کاٹ لیے۔ ٹٹو نے اس کا بھرپور ساتھ دیا۔
ایک دن جب وہ لکڑیاں بیچ کر فارغ ہوا تو ایک چائے خانے پر جاپہنچا۔ ٹٹو کو درخت سے باندھ کر جب وہ اندر داخل ہوا تو اس کی ملاقات ایک پرانے دوست سے ہوگئی جو کسی دور گاﺅں میں رہتا تھا، علیک سلیک کے بعد دوست ستائشی لہجے میں بولا۔
”سواری کے لیے جانور تو اچھا رکھا ہوا ہے، ایسا جانور کچھ عرصے پہلے میرے پڑوسی کے پاس بھی تھا، لیکن اس ظالم نے اس کی قدر نہ کی“۔ دوست نے ٹٹو کے کٹے ہوئے کان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سلسہ کلام جاری رکھا۔
”اچھا پھر….؟“ بدرل نے پوچھا۔
”وہ اس پر بہت ظلم کرتا تھا، دراصل وہ انتہائی جھگڑالو اور اجٹ انسان تھا، ایک دن معصوم جانور کو اتنا مارا کہ وہ گھر سے بھاگ گیا“۔
”اسے کہاں چوٹ آئی تھی؟“ بدرل نے پوچھا۔
”پیٹھ پر کچھ زخم تھے اور شاید پچھلی ٹانگ پر چوٹ لگی تھی، لیکن تم یہ سب کیوں پوچھ رہے ہو“۔ دوست حیرانگی سے بولا۔
بدرل بولا تو اس کی آواز دھیمی تھی۔ ”یہ وہی ٹٹو ہے۔ اس نے میرے احاطے میں پناہ لے لی تھی، یہ میرے بہت کام آیا، میں نے پہلے دن ہی سوچ لیا تھا جب بھی اس کے مالک کا پتا چلا اسے واپس کردوں گا، مجھے اس کے پاس لے چلو“۔
دوست نے قہقہہ لگایا اور بولا۔ ”لگتا ہے تم کو اس سے بہت انس ہوگیا ہے جو اس کی جدائی کے خیال سے ہی غمگین ہونے لگے، میرا پڑوسی تو کچھ مہینے پہلے اس دار فانی سے کوچ کرچکا ہے اور اس کا کوئی وارث بھی نہیں ہے، وہ دنیا میں اکیلا تھا اور میرا خیال ہے کہ اچھی چیز قدر دان کے پاس ہی رہنی چاہیے“۔a
واپس آتے ہوئے ٹٹو بدرل کو لیے ہوا میں اڑ رہا تھا اور بدرل خوشی سے ایک لوک گیت گنگنارہا تھا۔٭