skip to Main Content

انتخاب

کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔
یہ کہانی مصنف نے اپنے بیٹے صہیب چغتائی کے نام سے لکھی۔
۔۔۔۔۔

انصاری صاحب نے آٹھویں جماعت کے بچوں کو آخری سوال لکھوانے کے بعد لمبی سانس لی۔ کرسی پر بیٹھ کر چشمے اتارا اور سامنے میز پر رکھ دیا۔ پھر وہ مسکراتے ہوئے کہنے لگے:
”اب میں آپ کو ایک اطلاع دینا چاہتا ہوں۔“
سب بچے چونک گئے اور استاد کی بات توجہ سے سننے لگے۔ انصاری صاحب نے چشمہ پہن لیا اور اسی طرح مسکراتے ہوئے کہنے لگے:
”اسکول کی انتظامیہ نے اساتذہ کے مشوروں سے فیصلہ کیا ہے کہ اسکول میں چلڈرن کو نسل کا انتخاب کروایا جائے تاکہ اسکول کے انتظامات کو بہتر بنایا جا سکے۔ ہر جماعت کے طلبہ اپنا نمائندہ منتخب کریں گے۔ یہ تمام نمائندے چلڈرن کو نسل کے ارکان ہوں گے۔ یہ ارکان اپنا ایک نائب صدر اور جنرل سیکرٹری منتخب کریں گے۔ اسکول کے پرنسپل صاحب اس کو نسل کے صدر ہوں گے۔ وہ تین اساتذہ کو بھی کو نسل کا رکن مقرر کریں گے۔“انصاری صاحب کہتے کہتے رک گئے کیونکہ سلیم نے اپنا ہاتھ بلند کر دیا تھا۔
”جی سلیم، آپ کچھ پوچھنا چاہتے ہیں؟“ انصاری صاحب نے کہا۔
”جناب اس کو نسل کی ذمہ داریاں کیا ہوں گی؟“ سلیم نے سوال کیا۔
”ہاں! تمام ارکان اپنی اپنی جماعت کے طلبہ کی نگرانی کریں گے، ان کی صحت اور صفائی پر نظر رکھیں گے۔ ان میں نظم وضبط قائم رکھیں گے۔ ان کے لیے تعلیمی، تربیتی اور تفریحی سرگرمیوں کا انتظام کریں گے۔ ہر رکن کو ہر ماہ ایک مخصوص رقم دی جائے گی۔ وہ اس رقم کو اپنی جماعت اور طلبہ پر خرچ کر سکیں گے۔ ہر رکن کو مخصوص بیج ملے گا۔ تمام طلبہ اپنے رکن کی ہدایت پر عمل کریں گے۔“
”جناب!کیا سب سے اچھی جماعت کو انعام ملے گا؟“ ظہیر نے کھڑے ہو کرپوچھا۔
”ہاں بالکل! سال کے آخر میں اساتذہ کی ایک کمیٹی جائزہ لے گی کہ کس جماعت کے طلبہ میں نظم وضبط سب سے اچھا رہا، تعلیمی نتیجہ عمدہ رہا اور صفائی اور ترتیب کے لحاظ سے بھی کار کردگی اچھی رہی، اس جماعت کو انعام دیا جائے گا اور اس کے رکن کو بھی۔“
”لیکن جناب، اس طرح تو رکن اپنی تعلیم پر توجہ نہیں دے سکیں گے۔“ شوکت نے کھڑے ہو کر سوال کیا۔
”ہم نے اس بات پر بھی غور کیا ہے۔ اگر کبھی مصروفیت کی وجہ سے کسی رکن کی تعلیم کا نقصان ہو گا تو اساتذہ اس کی مدد کریں گے اور تعلیم میں کمی کو پورا کریں گے۔“ ”
”جناب! کیا اس انتخاب کے لیے کئی امیدوار کھڑے ہوں گے اور جلسے جلوس بھی ہوں گے؟“صابر نے سوال کیا۔
”نہیں، یہ سب نہیں ہو گا۔ ہر جماعت کے طلبہ اپنے ساتھیوں کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ رائے شماری بالکل خفیہ طریقے سے ہو گی۔ ہر طالب علم اپنی باری آنے پر ایک کمرے میں جائے گا۔ اسے ایک پرچی دی جائے گی جس پر پرنسپل صاحب کی مہر لگی ہو گی۔ طالب علم اس پر چی پر اس طالب علم کا نام لکھے گا جس کو وہ رکن بننے کے قابل سمجھتا ہے۔ پھر وہ پرچی، وہاں رکھے ایک ڈبے میں ڈال دے گا۔“
اعظم اجازت لے کر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا:
”جناب، اگر امیدوار بننے کی اجازت نہیں تو دوسروں سے یہ کہنا بھی غلط ہو گا کہ آپ مجھے رکن منتخب کریں۔“
”جی ہاں! آپ لوگ یادرکھیں، اس انتخاب میں مہم چلانے اور دوسروں کو متاثرکرنے کی اجازت بالکل نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ کوئی طالب علم خود آکر آپ سے مشورہ مانگے کہ کون سالڑ کا رکن بننے کے لیے زیادہ مناسب ہو گا تو آپ دیانت داری سے اسے مشورہ دے دیں۔ یاد رکھیں، رکن بننا بڑی ذمہ داری کا کام ہے۔ رکن کو اختیارات ملیں گے تو ذمہ داریاں بھی ادا کرنی پڑیں گی اور اللہ اس سے ان ذمہ داریوں کے بارے میں پوچھے گا۔ اسی طرح آپ کی رائے بھی امانت ہے۔ پوری دیانت داری سے اس امانت کو ادا کیجیے اور صرف اس طالب علم کے حق میں رائے دیجیے جس کے متعلق آپ پوری ایمان داری سے سمجھتے ہوں کہ یہی طالب علم رکن بننے کے قابل ہے، دیانت دار ہے، انتظامات کی اچھی صلاحیت رکھتا ہے، مسائل حل کر سکتا ہے، خوش اخلاق ہے اور اپنے ساتھیوں کو ساتھ لے کرچل سکتا ہے۔“
پیریڈ ختم ہوتے ہی چھٹی کی گھنٹی بج گئی۔ ہر طالب علم اگلے پیر کو ہونے والے انتخاب کی باتیں کر رہا تھا۔ کچھ لڑکوں کا خیال تھا کہ اس انتخاب کی کوئی ضرورت نہ تھی جبکہ بہت سے لڑکے اس انتخاب سے بہت خوش تھے۔
زاہد اپنے دوستوں شاکر اور نسیم کے ساتھ اسکول سے نکلا۔ ارسلان اپنے دوساتھیوں خرم اور دلاور کے ساتھ اسکول کے دروازے پر کھڑا تھا۔ اس نے زاہد اور اس کے ساتھیوں سے بڑے جوش سے ہاتھ ملایا۔ کہاں ہو یار، تم تو عید کا چاند ہو گئے۔ کرکٹ کھیلنے بھی نہیں آتے۔“ ارسلان نے شکایت کی۔
”ہاں بھئی، آج کل تم جانتے ہو کہ پڑھائی کتنی سخت ہو رہی ہے۔“ زاہد نے کہا۔
”ہاں، وہ تو ٹھیک ہے لیکن بھائی پڑھائی کے وقت پڑھائی اور کھیل کے وقت کھیل۔“ارسلان بولا۔
”اور ووٹ کے وقت ووٹ!“دلاور نے بھی گفتگو میں حصہ لیا۔ سب ہنس پڑے۔ ارسلان نے ذرا آہستہ سے کہا: ”رکن کے لیے اپنے دوست کو یاد رکھنا!“اس کے ساتھ اس نے اپنی طرف اشارہ کیا۔ زاہد نے حیران ہو کر کہا:
”تم نے سنا نہیں؟ انصاری صاحب نے اعلان کیا تھا، اس انتخاب کے لیے مہم چلانے کی اجازت نہیں ہے۔“
”او ہو، وہ کون سا یہاں بیٹھے دیکھ رہے ہیں۔ مہم تو چلے گی اور دھوم دھام سے چلے گی۔ کل شام کی چائے میرے گھر پر پینا۔ برگر بنوا رہا ہوں!“ ارسلان نے ذرا جھک کر کہا۔
”اوئے یار، کس کے ساتھ وقت ضائع کر رہے ہو۔“ خرم نے ارسلان کو بازو پکڑکر کھینچتے ہوئے کہا۔
”تمہاری مرضی، مگر بر گر بہت عمدہ ہوں گے۔ ساتھ میں گلاب جامن، چپس اوردہی بڑے بھی!“
ارسلان یہ کہہ کر اپنے دوستوں کے ساتھ آگے بڑھ گیا۔ نسیم نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا:
”ارسلان کا گھر پارک کی پچھلی گلی میں ہے نا؟“
”ہاں، مگر کیا تم اس کی دعوت میں جاؤ گے؟“ زاہد نے چونک کر پوچھا۔
”جانا تو چاہیے آخر وہ ہمارا دوست ہے۔ اتنے خلوص سے بلا رہا ہے۔“ نسیم نے کہا۔
”کس لیے بلا رہا ہے؟ یہ جانتے ہو، پھر بھی کہہ رہے ہو کہ خلوص سے بلا رہا ہے۔“زاہد نے حیرانی سے کہا۔
”یار ہمیں تو برگر اور گلاب جامنوں سے مطلب ہے۔“نسیم نے منہ میں آئے پانی کو روکتے ہوئے کہا۔
”کیا مطلب؟ تم وہاں جاکر ارسلان سے وعدہ کرو گے کہ اس کو ووٹ دو گے اورپھر کسی اور کو ووٹ دے دو گے؟“زاہد نے سخت لہجے میں پوچھا۔
”یہ کس نے کہا ہے؟ ابھی تو صرف ارسلان کی دعوت ملی ہے۔ انتخاب اگلے پیر کو ہے۔ پورا ہفتہ پڑا ہے۔ جس کی دعوت تگڑی ہو گی، وہی رکن بنے گا۔“ نسیم نے جواب دیا۔
”افسوس ہے تم پر، تم اپنا ووٹ بیچو گے؟ ایک طرف استاد کی ہدایت کے خلاف عمل کرو گے۔ پھر جھوٹا وعدہ کرو گے۔ ایسے انتخاب کا فائدہ؟ جو طالب علم دعوتیں کر کے ووٹ خریدے گا وہ اگر منتخب ہو گیا تو کیا خدمت کرے گا؟ مجھے تو ڈر ہے کہ وہ اسکول سے ملنے والا فنڈ خود ہضم کر جائے گا۔“زاہد نے دکھ کے ساتھ کہا۔
”بھئی ایسا تو ہوتا ہی ہے۔ رکن بنے کا کوئی فائدہ تو اٹھانا چاہیے۔“ نسیم اپنی بات پراڑا ہوا تھا۔
”افسوس۔ یہ تو اللہ کو ناراض کرنے والی بات ہے۔ تم نے وہ حدیث نبوی نہیں سنی جس کا مفہوم ہے: ”تم میں سے ہر شخص راعی ہے اور اس سے اس کی رعیت کے متعلق سوال کیا جائے گا۔“
”راعی؟“
”ہاں، اس کا مطلب استاد محترم نے بتایا تھا کہ جس کو بھی کچھ لوگوں پر ذمہ دار بنایا گیا، وہ ان کا راعی ہے اور وہ لوگ اس کی رعیت، جیسے گھر میں باپ اپنی بیوی اور بچوں کا راعی ہے۔ استاد اپنی جماعت کے طلبہ کا راعی ہے۔ ملک کا سربراہ اپنے ملک کے شہریوں کا راعی ہے۔ اسی طرح آٹھویں جماعت کا رکن اپنی جماعت کے طلبہ کا راعی ہو گا۔“ زاہد نے تفصیل سے سمجھایا تو نسیم نے منہ بنا کر کہا:
”بھئی تم بہت خشک باتیں کرتے ہو!“شاکر نے اس کا کندھا تھپکا اور بولا: ”کوئی غلط بات تو نہیں کر رہا ہے زاہد، آؤ چلو دیر ہو رہی ہے۔“
آٹھویں جماعت کے زیادہ تر لڑ کے زاہد کو پسند کرتے تھے۔ وہ بہت خوش اخلاق اور اچھا لڑکا تھا۔ ہر ایک کی مدد کے لیے تیار رہتا۔ تعلیم میں سب سے آگے تھا۔ کھیل میں بھی نمایاں تھا۔ ہمیشہ سچ بولتا، وعدے کا پکا تھا۔ اس کی ان تمام خوبیوں کی وجہ سے اکثر لڑکوں کو خیال تھا کہ زاہد ہی رکن منتخب ہو جائے گا۔ ارسلان کو اس بات کا اچھی طرح احساس تھا۔ وہ دولت مند گھرانے کا لڑکا تھا۔ دوستوں پر رقم دل کھول کر خرچ کرتا۔ اس وجہ سے وہ لڑ کے جو کھانے پینے کے شوقین تھے، وہ اس کے آگے پیچھے پھرا کرتے، لیکن ارسلان بد دماغ بھی تھا۔ وہ جس پر خرچ کرتا اس کو اپنا نو کر سمجھتا۔ جو لڑ کے اس سے فائدہ اٹھاتے تھے وہ تو اس کی کڑوی کسیلی باتیں برداشت کر لیتے لیکن لڑکوں کی اکثریت ارسلان کو نا پسند کرتی تھی۔

ارسلان نے اپنے گھر پر جو دعوت رکھی تھی۔ اس میں صرف آٹھ لڑکے شریک ہوئے۔ جبکہ ارسلان نے تیس افراد کی دعوت کا انتظام کر رکھا تھا۔ اس وجہ سے بھی ارسلان کی پریشانی بڑھ گئی تھی۔ اس کو خوف تھا کہ لڑکے زاہد کو رکن چن لیں گے۔ وہ خود رکن بننا چاہتا تھا۔ اسکول سے ملنے والے فنڈ پر اس کی نظر تھی۔ یوں بھی اسے دوسروں پر رعب جمانا پسند تھا۔ اس کا خیال تھا کہ رکن بن کر اس کی شان بڑھ جائے گی اور جو لڑ کے آج اسے پسند نہیں کرتے وہ بھی اس کا ادب کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ مگر یہ زاہد۔۔۔۔! اس نے الجھ کر سوچا۔ سب اس کو پسند کرتے ہیں۔ اس کو ووٹ دے دیں گے۔ زاہد رکن بن گیا تو فنڈ کا ایک روپیہ بھی کسی کو کھانے نہ دے گا۔ کون سی ترکیب لڑاؤں کہ زاہد رکن نہ بن سکے، وہ بڑی دیر تک سوچتا رہا۔
ہوں، ایسا کرتا ہوں کہ اسکول سے گھر جاتے ہوئے زاہد کو نہر میں دھکا دے دیتا ہوں۔۔۔۔ مگر اس سے کیا ہو گا۔ وہ تو اچھا تیراک ہے۔ مجھ سے بھی اچھا۔ تیر کر نکل آئے گا۔ کوئی اور ترکیب سوچوں۔ یوں نہ کروں کہ کچھ لڑکوں کو پیسے دے دوں کہ وہ زاہد کے چہرے پر کالی روشنی پھینک دیں۔ اس طرح اس کا چہرہ خراب ہو جائے گا۔۔۔۔ مگر لڑ کے تو زاہد کی اچھی عادتوں کی وجہ سے اس کو پسند کرتے ہیں۔ اس کے چہرے کی وجہ سے تو نہیں، پھر کیا کروں؟ یوں کرنا چاہیے کہ انتخاب والے دن زاہد کی سائیکل کے ٹائر سے ہوا نکال لی جائے۔ وہ اسکول نہ آسکے گا اس طرح شاید لڑکے اس کو بھول جائیں مگر یہ بھی بے کار ترکیب ہے۔
”ارے بھئی کیا سوچ رہے ہو؟“ دلاور کی آواز ارسلان کے کانوں سے ٹکرائی تو وہ چونک گیا۔
”کچھ نہیں یار، زاہد کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ اس بار اس کے رکن بننے کا امکان ہے تو کوئی ایسی ترکیب نہیں ہو سکتی کہ وہ رکن نہ بن سکے؟“
ارسلان نے کہا:”ہوں! یہ ذرا مشکل کام ہے۔ سب لڑکے زاہد کو چاہتے ہیں اور یہ بات اہم ہے کہ سب لوگ زاہد کے اچھے اخلاق اور کردار کی وجہ سے اس کو پسند کرتے ہیں۔ وہ ہمیشہ سچ بولتا ہے، وعدے کا پکا ہے، سب اس کی عزت کرتے ہیں۔ اگر کوئی ایسا واقعہ ہو جائے جس سے یہ ثابت ہو جائے کہ زاہد جھوٹ بھی بولتا ہے، بے ایمانی بھی کر لیتا ہے، وعدہ توڑ سکتا ہے تو اس پر سے لڑکوں کا بھرو ساختم ہو جائے گا۔ لڑکے سوچیں گے کہ یہ بھی دوسروں کی طرح بے ایمان ہے۔“ دلاور نے سوچتے ہوئے کہا۔
”ہاں۔۔۔۔ بات تو تم صحیح کر رہے ہو۔“ ارسلان نے خوش ہو کر کہا۔”مگر کیا ترکیب لڑائی جائے کہ زاہد بد نام ہو جائے۔“
”سوچنا پڑے گا، تم بھی سوچو، میں بھی سوچتا ہوں۔“ دلاور یہ کہہ کر رخصت ہو گیا۔
ارسلان نے اگلے دن سے کوشش شروع کر دی کہ زاہد کی کوئی کمزوری پکڑ سکے مگر ناکام رہا۔ وہ چاہتا تھا کہ کسی طرح زاہد کو بدنام کر دے۔ اس کے بارے میں لڑکوں کی رائے بدل جائے تاکہ وہ اس کو ووٹ نہ دیں مگر ارسلان تمام کوششوں کے باوجود زاہد کوبد نام نہ کر سکا۔
انتخاب میں دو دن باقی تھے۔ پڑھائی کے درمیان وقفہ ہوا۔ ارسلان روز کی طرح دوستوں کو لے کر کینٹین پہنچ گیا۔ وقفہ کے بعد تمام لڑکے اپنے اپنے کمرہ جماعت میں چلے گئے۔ ارسلان نے کمرے میں پہنچ کر اپنابستہ کھولا، کتاب نکالی اور چیخ ماری۔۔۔۔
”میرا قلم۔۔۔۔“
سب لڑکے اس کے گرد جمع ہوئے۔ ارسلان کہہ رہا تھا۔
”ا بھی دبئی سے لائے تھے میرے ابو پچھلے ہفتے۔ اتنا قیمتی قلم تھا۔ بھئی سب لوگ اپنے اپنے بستوں کی تلاشی دو۔“
”ہم سب تلاشی دیں، ہم کوئی چور ہیں؟“ شوکت نے کہا۔
”چور کا پتا چلانے کے لیے تلاشی ضروری ہے۔“ ارسلان نے سختی سے جواب دیااور خود اٹھ کر ایک سرے سے بستوں کی تلاشی لینے لگا۔ اس نے کئی لڑکوں کے بستوں کی تلاشی لی لیکن قلم نہ ملا۔ آخر وہ زاہد کے بستے تک پہنچ گیا۔ اس نے بستے کی چیزیں باہر نکال لیں۔
”یہ رہا!“اس کے ہاتھ میں ایک قیمتی قلم تھا۔ ”دیکھا؟یہی چور ہے۔ بڑامذہبی بناپھرتا تھا۔“ وہ پوری آواز سے چیخا۔
لڑکوں میں بے چینی پھیل گئی۔ کچھ لڑکے زاہد کو شک کی نگاہوں سے دیکھنے لگے۔کچھ آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ زاہد ایسا لڑکا نہیں ہے۔ ارسلان کے خاص دوست چھلانگ لگا کر زاہد تک پہنچ گئے۔ ایک نے تو زاہد کو گریبان سے پکڑ لیا۔
”چوری کرتا ہے، اسے اسکول سے نکال دو!“ ارسلان کے خاص دوست شور مچار ہے تھے۔
کچھ لڑکوں نے زاہد کا گریبان، ارسلان کے دوستوں سے چھڑوایا۔ زاہد کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔ اس کے ہونٹ کپکپا رہے تھے۔ شاید وہ دھیمی آواز میں کچھ دعائیں پڑھ رہاتھا۔ کمرہ جماعت میں شور مچا ہوا تھا۔ ارسلان اپنا قیمتی قلم لہراتے ہوئے چلا رہا تھا۔
”چوروں کی اس اسکول میں کوئی جگہ نہیں۔“ اس کے دوست بھی چیخ رہے تھے۔
”نام زاہدوں والا، کام چوروں والا۔“
اچانک استاد محترم انصاری صاحب تشریف لے آئے۔ ان کے آتے ہی شور فوراًتھم گیا۔ جیسے کسی نے بٹن دبادیا ہو۔ لڑکے دوڑ دوڑ کر اپنی اپنی جگہ بیٹھ گئے۔
”یہ کیا ہو رہا ہے؟“انصاری صاحب کی رعب دار آواز گونجی۔ کمرہ جماعت میں سناٹاچھا گیا۔ چند لمحوں بعد ارسلان نے کھڑے ہو کر کہا: ”جناب زاہد نے چوری کی ہے، میرا قیمتی قلم چرا لیا ہے؟ یہ دیکھیے، اس کے بستے کی تلاشی لی تو مل گیا۔“
انصاری صاحب نے زاہد کو ایسی نظروں سے دیکھا جیسے ان کو بالکل یقین نہ آیا ہو۔وہ چند لمحے سوچتے رہے، پھر انہوں نے کہا:
”زاہد، آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں؟ انصاف اسی وقت ہو سکتا ہے کہ جس پر الزام لگایا گیا ہو اسے بھی اپنی بات کہنے کا موقع دیا جائے۔“
زاہد کھڑا ہو گیا۔ اس نے اپنی آنکھوں میں آئے ہوئے آنسوؤں کو بڑی مشکل سے روکتے ہوئے کہا:
”جناب میں نے چوری نہیں کی۔ میں چوری کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔“
”سوچ لیجیے، آپ نے اگر یہ کام کیا ہے اور اب انکار کر رہے ہو تو آپ جھوٹ بولنے کا گناہ بھی کر رہے ہو۔“ انصاری صاحب نے کہا۔
”جناب میں جانتا ہوں، جھوٹ بہت بڑا گناہ ہے۔ نبی کریم ﷺکے فرمان عالیشان کے مطابق مومن کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔ میں اپنے رب کو ناراض کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔“
”پھر یہ قلم جو آپ کے بستے سے نکلا ہے، کس کا ہے؟“ انصاری صاحب نے سختی سے پوچھا۔
”جناب! اس سوال کا جواب دینے سے پہلے، میں یہ قلم دیکھنا چاہوں گا۔“ انصاری صاحب کے اشارے پر ارسلان نے قلم زاہد کو دے دیا۔ زاہد نے قلم کاڈھکنا کھول کر اس پر ایک نظر ڈالی پھر اسے بند کرتے ہوئے بولا:
”جناب، میں ارسلان سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں۔“
”کیجیے!“انصاری صاحب نے کہا۔
”ارسلان! آپ کے پاس جو قلم تھا،اس میں کون سی روشنائی بھری ہوئی تھی؟“
روشنائی؟ ہاں اس میں نیلی روشنائی بھری ہوئی تھی۔“ ارسلان نے جواب دیا۔
زاہد نے قلم انصاری صاحب کی طرف بڑھا دیا۔ ”جناب آپ خود دیکھ سکتے ہیں،اس قلم میں تو ابھی تک روشنائی بھری ہی نہیں گئی۔ یہ بالکل صاف ستھرا ہے۔“
انصاری صاحب نے قلم کھول کر دیکھا اور حیرانی سے بولے:
”ہاں، یہ قلم تو ابھی تک استعمال ہی نہیں ہوا۔ اس کی حالت بتارہی ہے۔ ارسلان آپ نے اپنے پاس دیکھ لیا۔ آپ کا قلم آپ کے پاس تو نہیں؟“
”میرے پاس“ارسلان نے چونک کر کہا۔ ”جی نہیں جناب، میں ابھی دیکھ لیتاہوں۔“
اس نے اپنے بستے کی چیزیں الٹ پلٹ کر دیں۔ چند لمحوں بعد اس کے ہاتھ میں ویسا ہی قلم تھا جیسا زاہد کے بستے سے نکلا تھا۔ تمام لڑکے یہ منظر و لچسپی سے دیکھ رہے تھے۔
”مگر یہ تو۔۔۔۔ یہ تو۔۔۔۔“ارسلان کی زبان لڑکھڑا گئی۔
”بیٹے ارسلان، آپ نے زاہد پر جھوٹا الزام لگایا۔ آپ اس سے معافی مانگیں۔“
زاہد نے اپنا ہا تھ بلند کر دیا۔
”جناب، ارسلان کا اتنا قصور نہیں۔ اس نے یہ قلم میرے پاس دیکھا اور فوراً یہ سمجھ بیٹھا کہ میں نے اس کے پاس سے یہ قلم چرا لیا ہے جبکہ اصل بات یہ ہے کہ یہ قلم ویسا ہی قلم ہے جیسا کہ ارسلان کے پاس ہے اور یہ قلم مجھے ارسلان کے والد محترم فرقان صاحب نے خود دیا تھا۔“
”جی۔۔۔۔ نہیں!!!“ ارسلان کے منہ سے بے اختیار یہ الفاظ نکلے۔
”جی ہاں! کل ہی ارسلان کے والد محترم نے مجھے اپنے پاس بلایا۔ اس وقت ارسلان کھیلنے کے لیے گیا ہوا تھا۔ اس کے والد محترم اس بات پر پریشان تھے کہ ارسلان پڑھائی میں بہت کمزور ہے۔ اس کا پڑھائی میں دل نہیں لگتا۔ انہوں نے مجھ پر زور دیا کہ میں پڑھائی میں ارسلان کی مدد کر دیا کروں۔ انہوں نے بہت اصرار کیا تو میں نے عہد کر لیا کہ میں آئندہ ہفتے سے ارسلان کو پڑھا دیا کروں گا۔ فرقان صاحب نے اس موقع پر مجھے یہ قلم دیا تھا۔ میں اتنا قیمتی قلم لینا نہیں چاہتا تھا مگر فرقان صاحب نے مجھے مجبور کر دیا اور کہا کہ یہ ان کی طرف سے تحفہ ہے۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ فرقان صاحب نے ارسلان کو بھی ایسا ہی قلم دیا ہوا ہے۔“
کمرہ جماعت میں سناٹا طاری تھا۔ آخر انصاری صاحب نے خاموشی کو توڑتے ہوئے کہا:
”بات پوری طرح واضح ہو گئی ہے۔ ارسلان کو چاہیے تھا کہ الزام لگانے سے پہلے تحقیق کر لیتا۔ زاہد بیٹے، آپ ارسلان کو معاف کر دیں۔“
”میں معاف کر چکا ہوں جناب۔ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔“زاہد نے ادب سے کہا۔
ارسلان سر جھکائے بیٹھا تھا۔ شرمندگی کے مارے اس کے کان تک سرخ ہو رہے تھے۔ چھٹی کی گھنٹی بجی۔ زاہد ارسلان کے پاس پہنچا جو ابھی تک سر جھکائے بیٹھا تھا۔ زاہد نے ارسلان کو پکڑ کر کھڑا کیا اور اسے گلے لگا لیا۔
تمام بچے یہ منظر حیرانی سے دیکھ رہے تھے۔
دو روز بعد ارکان کا انتخاب ہوا۔ پرنسپل صاحب نے انتخاب کے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے کہا:
”آٹھویں جماعت کے طلبا نے زاہد شفیق کو اپنار کن منتخب کیا ہے۔“

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top