انسانی کیمرہ
کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔
”دو آنکھوں والو، آنکھیں بڑی نعمت ہیں! مجھ نابینا کی مدد کر دو۔“
”نوید!“ امی نے آواز دی۔ ”بیٹا، یہ لو دس روپے اور اس نابینا فقیر کودے آؤ۔“
نوید نے امی سے دس روپے لیے، گھر سے باہر نکلا اور نا بینا فقیر کو دے آیا جو ایک لاٹھی کی مدد سے راستہ تلاش کرتا ہوا جا رہا تھا۔ نوید کو اس نابینا فقیر پر بڑا ترس آیا۔ اسے یاد آیا کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی مصیبت میں گرفتار فرد کو دیکھنے پر ایک دعا مانگنے کی ہدایت فرمائی ہے اور فرمایا ہے کہ جو یہ دعا پڑھے گا، وہ اس مصیبت سے محفوظ رہے گا۔ نوید نے دعا پڑھی:
”اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے اس مصیبت سے بچائے رکھا جس میں تم مبتلا ہو اور اپنی بہت سے مخلوقات پر مجھے فضیلت بخشی۔“
اُس نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ وہ ہر شے کو دیکھ سکتا ہے۔ وہ گھر میں داخل ہوا تو ڈاکٹر خورشید اپنا کیمرا الماری میں رکھ رہے تھے۔ نوید نے انھیں سلام کیا۔ ڈاکٹر خورشید نے سلام کا جواب دے کر کہا:
”میرے ایک دوست کیمرا لے کر شمالی علاقوں کی سیر کے لیے گئے ہوئے تھے۔ پرسوں وہ واپس آئے تو انھوں نے آج کیمرا واپس کر دیا ہے۔“
”بھائی جان، ہمارے استاد کہ رہے تھے کہ کیمرے اور انسانی آنکھ میں کئی خصوصیات ایک جیسی ہیں۔“ نوید نے کہا۔
”تمہارے استاد ٹھیک کہ رہے تھے۔ انسان نے کیمرا بنانا، انسانی آنکھ ہی کو دیکھ کر سیکھا ہے لیکن اللہ کی بنائی ہوئی آنکھ تو بے حد ز بر دست شے ہے۔ اس کا تو دنیا کے تمام کیمرے مل کر مقابلہ نہیں کر سکتے۔“ ڈاکٹر خورشید نے جواب دیا۔
”بھائی جان، مجھے آنکھوں کے بارے میں کچھ بتائیے۔“نوید نے کہا۔
”آنکھوں کے بارے میں؟ اس وقت؟ نہیں بھئی ابھی تو مجھے ہاسپٹل پہنچنا ہے، شام میں اس موضوع پر بات کریں گے۔“
٭……٭……٭
نوید شام ہونے کا انتظار بے چینی سے کرتا رہا۔ ڈاکٹر خورشید تقریباً سات بجے شام واپس آئے۔ انھوں نے کھانا کھایا، پھر وہ نوید کی طرف متوجہ ہوئے:
”ہاں بھئی، آنکھیں تو اللہ کی بخشی ہوئی انتہائی اہم نعمت ہیں۔ یہ اگر اللہ نہ کرے خراب ہو جا ئیں تو ہم بہت زیادہ مشکلات سے دوچار ہو جائیں اور زندگی کا لطف جاتا رہے۔ کیا تمہیں معلوم ہے کہ آدھی سے زیادہ اطلاعات اور معلومات دماغ تک آنکھوں ہی کے ذریعے سے پہنچتی ہیں۔ مثلاً تم کوئی کتاب، رسالہ یا اخبار پڑھتے ہو، کوئی تصویر دیکھتے ہو یا سفاری پارک میں جا کر وہاں مختلف جانور دیکھتے ہو۔“
”جی ہاں، یہ بالکل درست ہے۔“ نوید نے کہا۔
”انسانی آنکھ کا قطر ڈھائی سینٹی میٹر یعنی ایک انچ ہوتا ہے۔ اس میں سامنے کی سطح پر ایک مضبوط جھلی ہوتی ہے جو قرنیہ کہلاتی ہے۔ یہ آنکھ کا سفید حصہ ہے۔ درمیان میں گول رنگین حصہ ہے جو پتلی کہلاتا ہے۔ مختلف لوگوں میں اس کا رنگ مختلف ہوتا ہے، سیاہ، سبز، نیلا یا بھورا۔ اس پتلی کے بیچ میں ایک سوراخ ہوتا ہے جو ضرورت پڑنے پر چھوٹا بڑا ہو سکتا ہے مثلا تیز روشنی پڑے تو یہ سوراخ سکڑجاتا ہے۔“
”ایسا کیوں ہوتا ہے؟“
”یہ اللہ کی طرف سے حفاظتی انتظام ہے، تا کہ بہت تیز روشنی آنکھ کے اندر داخل ہو کر نازک حصوں کو متاثر نہ کرے، اس کے علاوہ انسان کسی شے کو اچھی طرح دیکھ سکے۔ آنکھ کے اندر ایک عدسہ (لینس) بھی ہوتا ہے، یہ عدسہ بھی خود کار طریقے سے چھوٹا بڑا ہو سکتا ہے۔ پیچھے پردہئ چشم ہوتا ہے جسے انگریزی میں ”ریٹینا“ کہتے ہیں۔ ہم جو کچھ دیکھتے ہیں اس کی شبیہ یا تصویر ہماری آنکھ کے اندر اسی پر دے پر بنتی ہے۔“
”مگر بھائی جان، ہم نے تو سائنس کی کتاب میں پڑھا تھا کہ جب کسی چیز کی شبیہ عدسے کی دوسری جانب بنتی ہے تو وہ الٹی نظر آتی ہے مگر ہمیں تو کوئی چیز الٹی نظر نہیں آتی۔“ نوید نے سوال کیا۔
”شاباش، یہ تو بہت اچھا سوال کیا تم نے، ہماری آنکھ کے پردے پر بے شک، کسی بھی چیز کی شبیہ الٹی بنتی ہے لیکن ہمارا دماغ اسے سیدھا کر کے دکھاتا ہے۔ یہ اللہ کا بخشا ہوا حیرت انگیز نظام ہے۔ دراصل آنکھ تو کسی بھی چیز کو دیکھ کر اس کی شبیہ اپنے پردے پر بنا دیتی ہے، اس تصویر کو سمجھنے، اس پر غور کرنے اور اس کے متعلق کوئی فیصلہ کرنے کا کام تو ہمارا دماغ انجام دیتا ہے۔“
”وہ تصویر دماغ تک کس طرح پہنچتی ہے؟“نوید نے پوچھا۔
”یہ بڑا اہم سوال ہے۔ ہماری آنکھ کا پردہ بمشکل اتنا بڑا ہوتا ہے جیسے ہمارے انگوٹھے کے دو ناخنوں کو ملا دیا جائے، لیکن اتنے چھوٹے سے پردے میں روشنی کو محسوس کرنے والے خاص قسم کے خلیے ہوتے ہیں، پتا ہے ان کی تعداد کتنی ہوتی ہے؟“
”شاید ایک ہزار۔“
”نہیں، ان خلیوں کی تعداد تیرہ کروڑ ہوتی ہے۔“
”تیرہ کروڑ؟ اتنی سی جگہ میں؟“ نوید نے حیرت سے کہا۔
”ہاں، یہ قدرت کی بے پناہ مہارت ہے کہ اس نے دو ناخنوں کے برابر جگہ میں تیرہ کروڑ ایسے خلیے بنا دیے جو روشنی کو محسوس کر کے فوراً دماغ کو پیغام بھیجتے ہیں۔ دماغ ان پیغامات کو یکجا کر کے سامنے نظر آنے والی شے کو دیکھتا اور محسوس کرتا ہے اور پھر کوئی فیصلہ کرتا ہے۔ یہ سب کام سیکنڈ سے بھی بہت کم وقت میں ہو جاتے ہیں۔ ان تیرہ کروڑ خلیوں میں بھی دو قسموں کے خلیے ہوتے ہیں۔ بارہ کروڑ خلیے صرف سیاہ اور سفید رنگوں کو محسوس کر سکتے ہیں۔ یہ نیم تاریکی میں بھی کام کرتے ہیں۔ ساٹھ لاکھ خلیے رنگوں کو پہچان لیتے ہیں۔ کچھ لوگوں میں رنگوں کو پہچاننے والے خلیے نہیں ہوتے، اس لیے وہ رنگوں میں فرق نہیں کر سکتے۔“
”بھائی جان، آنکھ اتنا اہم اور کارآمد عضو ہے لیکن ہے کتنا نازک۔“
”بے شک!لیکن یہ دیکھو کہ اتنے نازک عضو کے اندر جو مختلف حصے ہیں وہ برسوں تک اپنا کام تھکے بغیر کیے چلے جاتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آنکھ کی حفاظت کے کچھ خصوصی انتظامات بھی فرما دیے ہیں۔“ ڈاکٹر خورشید بولے۔
”وہ کیا انتظامات ہیں بھائی جان؟“ نوید نے پوچھا۔
”سنو! اللہ تعالیٰ نے ہماری آنکھ ایسی جگہ بنائی ہے کہ آنکھ کے اطراف ابھری ہوئی ہڈی اور رخساروں کی ہڈیاں، آنکھ کی حفاظت کرتی ہے، پھر اللہ نے آنکھوں کے اوپر بھویں اور آنکھوں پر پپوٹے بنا دیے، ان پر پلکیں بنا ئیں۔ یہ سب چیزیں ہماری خوبصورتی کا باعث بنتی ہیں اور ہماری آنکھوں کی حفاظت بھی کرتی ہیں۔ آنکھ کے اندر بھی ایک حفاظتی تہ ہوتی ہے۔ ہر آنکھ کے اوپر کی جانب ایک خصوصی غدود ہے جو آنسو پیدا کرتا رہتا ہے۔ آنسوؤں میں ایک خاص کیمیکل ہوتا ہے جو جراثیم کو ہلاک کر دیتا ہے۔ تم نے دیکھا ہوگا ہم بغیر کسی ارادے کے، اپنی پلکیں جھپکتے رہتے ہیں۔ ہم ہر چھ سیکنڈ بعد اپنی پلکیں جھپکاتے ہیں۔ اس طرح چوبیس گھنٹوں میں تقریباً نو ہزار چھ سو بار پلکیں جھپکتے ہیں۔ یہ عمل بلا وجہ نہیں ہوتا۔ ہر بار پلک جھپکنے سے، آنسو پیدا کرنے والے غدود پر دباؤ پڑتا ہے اور وہ رطوبت خارج کرتا ہے جو ہماری آنکھ کو دھو دیتی ہے۔ یہ رطوبت ہماری آنکھ کے بیرونی پر دے قرنیہ کو خشک نہیں ہونے دیتی۔ پیوٹوں کے کونوں پر کئی چھوٹے غدود بھی ہوتے ہیں جو چکنی رطوبت خارج کرتے رہتے ہیں۔ یہ رطوبت پپوٹوں اور پلکوں کو چکنا رکھتی ہے۔“
”اللہ نے ہماری آنکھوں کی حفاظت کے کیسے کیسے انتظامات کر رکھے ہیں۔“نوید نے حیرت سے کہا۔
”ہم جو کچھ دیکھتے ہیں اس عمل میں بھی ہماری آنکھ کے اندر حیرت انگیز نظام کام کرتا ہے۔“
”بھائی جان، دوسرے جانوروں اور پرندوں کی آنکھیں بھی ہم انسانوں کی آنکھوں کی طرح ہوتی ہیں؟“ نوید نے سوال کیا۔
”نہیں! اللہ نے ہر جانور کو اس کے ماحول اور ضرورتوں کے مطابق آنکھیں عطا فرمائی ہیں مثلاً پانی کی مخلوق، ڈولفن کی آنکھ میں انسانی آنکھ کے مقابلے میں سات ہزار گنا زیادہ خصوصی خلیے ہوتے ہیں چنانچہ وہ گہرے سمندر کی تاریکی میں بھی آسانی سے دیکھ لیتی ہے۔ پرندوں کی آنکھیں ایسی ہوتی ہیں کہ دور کی چیز انہیں بڑی نظر آتی ہے۔“
”بھائی جان اللہ کی ذات بڑی قدرت والی اور بہت مہربان ہے۔“
”بے شک۔ ہمیں ہر لمحہ اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ اللہ نے ہمیں جو نعمتیں عطا کی ہیں، وہ قیامت کے روز ہم سے ان نعمتوں کے بارے میں سوال کرے گا کہ ہم نے ان نعمتوں کو کن کاموں میں استعمال کیا۔ بھلائی کے یا برائی کے؟ اب دیکھو کہ ان ہی آنکھوں سے ہم قرآن مجید کو دیکھ کر اس کی تلاوت کر سکتے ہیں، اسے سمجھ سکتے ہیں اور ان ہی آنکھوں سے کوئی ایسا منظر بھی دیکھ سکتے ہیں جس کو دیکھنے سے اللہ نے منع فرمایا ہے۔ اسی طرح کسی کے گھر کے اندر بلا اجازت جھانکنا بھی سخت منع ہے۔ آپﷺ نے اس سے سختی سے منع فرمایا ہے، لہٰذا ہمیں وہ کام کرنے چاہئیں جن سے اللہ خوش ہوتا ہو اور ان کاموں سے بچنا چاہیے جو اللہ کو ناراض کرتے ہوں۔“
”اللہ ہمیں اس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ ہم اُس کی بخشی ہوئی نعمتوں کو اُس طرح استعمال کریں کہ اللہ ہم سے خوش ہو۔“ نوید نے کہا اور ڈاکٹر خورشید بولے۔”آمین“