علاج
محمد الیاس نواز
اسی میں خوشی بھی ہے ،کمال بھی اور فرض کو ادا کرنے کا قانون بھی۔۔۔
کردار
استاد: سرفراست
طالب علم: ناظر،شمس،عثمان،خاور،زوار،جمال
پس منظر
ناظر ایک معروف تعلیمی ادارے میں زیر تعلیم ہے۔وہ کچھ دن کی رخصت پراندرون ملک ایک قصبے گیا ہوا تھا۔آج وہ دوبارہ اپنے ادارے میں حاضر ہوا توفلسفے کے پیریڈمیں کیا گفتگو ہوئی ملاحظہ فرمائیے۔
منظر
کمرۂ جماعت کا منظر ہے۔خاصی تعداد طالب علموں کی موجود ہے۔سرفراست حاضری لینے کے بعد ایک نظر طالب علموں پر ڈالتے ہیں۔ناظر پر جا کر ان کی نظر رک جاتی ہے۔وہ نا ظر سے مخاطب ہوتے ہیں۔
(پردہ اٹھتا ہے)
سرفراست :’’ناظر!‘‘
ناظر:(اٹھتے ہوئے)’’جی جناب!‘‘
سرفراست :(ہاتھ کا اشارہ کرتے ہوئے)’’بیٹھے رہو،بیٹھے رہو۔۔۔کیسے ہو اور کب آئے ہو؟‘‘
ناظر:’’شکریہ جناب!۔۔۔ٹھیک ہوں اور کل ہی آیاہوں۔‘‘
سرفراست:’’تو تمہارا دریا دیکھنے کا شوق ہو گیا پورا۔۔۔دیکھ لیادریا؟۔۔۔کیا دیکھااورکیسا لگا؟‘‘
ناظر:’’جی جناب ۔۔۔دریا دیکھنا توبہت اچھا لگا۔۔۔مگر ایک عجیب بات دیکھی۔‘‘
سرفراست:(تعجب سے)’’اچھااا۔۔۔وہ کیا؟‘‘
ناظر:’’جناب!۔۔۔جس وقت میں دریا پر پہنچا۔۔۔دریا کا صاف پانی اپنی معمول کی رفتار کے ساتھ بہہ رہا تھا۔۔۔پھرآہستہ آہستہ ہوا میں تیزی آنا شروع ہوئی جو دیکھتے ہی دیکھتے طوفان کی شکل اختیار کر گئی۔۔۔دریا کے پانی میں بھونچال آگیااوراس کے پانی کی تہوں میں چھپا گند اورکچرا نکل نکل کرپانی کی سظح پر آنے لگا۔۔۔تھوڑی دیر پہلے جودریا صاف لگ رہا تھا،آندھی آنے کے بعد اس کے اندر کی غلاظتیں اس کے چہرے پر آگئیں۔۔۔جناب !میں حیران رہ گیا۔۔۔ایسا لگ رہاتھا جیسے دریا بیمار ہو گیا ہو۔‘‘
سرفراست:(طالب علموں کے درمیان ٹہلتے ہوئے)’’ہوںںں۔۔۔انسان کی زندگی کا دریا بھی ایسا ہی ہے۔۔۔جب تک سکون سے بہتا رہتا ہے تو کسی کو اندازہ نہیں ہوتا۔۔۔ کہ وہ اپنے اندر کتنی گندگیاں اور غلاظتیں چھپائے بہہ رہا ہے۔۔۔اورجب زندگی کے اس دریا میں طوفان برپا ہو جاتا ہے۔۔۔تو ساری گندگیاں نکل کر اس کی سطح پر آجاتی ہیں اور اس کا چہرہ خراب کر دیتی ہیں ۔۔۔اُس وقت اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اپنے اندر کیا کچھ لئے ہوئے بہہ رہا تھا۔۔۔اور ہم اندر سے اخلاقی طور پر کتنے بیمار ہو چکے ہیں۔‘‘
عثمان:’’جناب!۔۔۔یہ کون سا وقت ہوتا ہے اور اس وقت انسان کو کیا کرنا چا ہیے؟‘‘
سر فراست:’’یہ وہ وقت ہوتا ہے جب ایک عام آدمی کو یہ احساس پیدا ہو تا ہے کہ وہ یہ پتا لگائے کہ اس کی زندگی میں یہ گندگیاں کہاں سے آرہی ہیں۔۔۔ اگر ایسے وقت میں بھی انسان کو اس کا احساس نہ ہوتو سمجھو وہ بے ہوشی کی نیند سو چکا ہے اور اسے نفع و نقصان کا کوئی احساس نہیں ہے۔‘‘
شمس:’’جناب !مہربانی فرما کر مثال دے کر ذرا بات کو مزید واضح کیجیے ۔۔۔جیسا کہ آپ کیا کرتے ہیں۔‘‘
سرفراست:’’مثال؟۔۔۔ہاں۔۔۔ہمارے ادارے کے سامنے والے بازار کے دکان دار ۔۔۔جب تک ان کی زندگی کا دریا پر سکون تھا تو ساری غلاظتیں چھپی ہوئی تھیں۔۔۔جب ان دکان داروں میں کسی بات پر لڑائی ہوئی تو گویا طوفان آگیااور ساری گندگیوں کو باہر نکال لایا ۔۔۔کیا کچھ نہیں کہا گیا ایک دوسرے کو اور کیا کچھ نہیں کیا گیا ایک دوسرے کے ساتھ۔۔۔یہ دکان دار ہی کیا ہر جگہ ایسا ہی ہو رہا ہے۔۔۔ان کی مثال تو میں نے اس لئے دی کہ یہ تازہ واقعہ ہے اور آپ سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔۔۔اس کو کہتے ہیں اخلاقی بیماری ،جو انسان کی روح کو لگتی ہے۔۔۔کچھ سمجھ آیا آپ لوگوں کو؟‘‘
خاور:’’بالکل جناب !۔۔۔اس کا مطلب ہے کہ زندگی کا دریا تو ہر جگہ طغیانی پر ہے ۔۔۔کیونکہ یہ لڑائی تو ہر جگہ ہے ۔۔۔اکیلا آدمی اکیلے آدمی سے لڑ رہا ہے اور قومیں قوموں سے لڑ رہی ہیں ۔۔۔اور لڑائی کے اس طوفان نے قوموں کے اندر کی ساری گندگیاں نکال کر سامنے رکھ دی ہیں۔۔۔جنہیں وہ صدیوں سے اپنے اندر چھپائے ہوئے تھیں۔۔۔یعنی اخلاقی طور پر ساری قومیں اندر سے بیمار ہو چکی ہیں ۔‘‘
ناظر:’’بالکل جناب !۔۔۔اب تو مرض یہاں تک بڑھ گیا ہے کہ بے انصافی ،بے رحمی،بے شرمی ،ظلم ستم،جھوٹ و فریب اور اسی طرح کی باقی برائیاں اب صرف ایک آدمی یا چند افراد کی بات نہیں بلکہ پوری پوری قومیں مل کر ان جرائم کا ارتکاب کر رہی ہیں ۔۔۔جناب !میں یہ کہناچاہ رہا ہوں کہ دنیا کی ساری بڑی بڑی قومیں وہ ساری جرائم کر رہی ہیں کہ اگر ان کا کوئی اکیلا آدمی ان میں سے کوئی ایک جرم بھی کرے تو وہ اسے جیل میں ڈال دیں۔۔۔اور یہ قومیں چھانٹ چھانٹ کر اپنے اندر سے بڑے مجرموں کو نہ صرف یہ کہ اپنا سربراہ بنا لیتی ہیں بلکہ بڑی بے حیائی اور ڈھٹائی کے ساتھ انہیں کی قیادت میں جرائم کا ارتکاب کرتی ہیں۔‘‘
زوار:’’جنابِ عالی۔۔۔اب تو حال یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے شخص کے حق پر نہیں بلکہ پوری قوم دوسری قوم کے حق پر ڈاکہ ڈالتی ہے۔۔۔ایک ملک دوسرے ملک کولوٹ لیتا ہے ۔۔۔اور مزے کی بات یہ کہ اس گناہ کی شکایت دوسری قوم سے اسی وقت کر رہے ہوتے ہیں جس وقت خود وہی گناہ کر رہے ہوتے ہیں ۔۔۔جن اصولوں کی پابندی کا مطالبہ دوسروں سے کرتے ہیں خود ان پر پابندی حرام سمجھتے ہیں ۔۔۔بڑی بڑی قوموں کے نمائندے بڑی مہذب صورتوں کے ساتھ جب دوسری قوم کے ساتھ معاہدہ کرتے ہیں تو سوچ رہے ہوتے ہیں کہ جیسے ہی موقع ملا اس معا ہدے کو بکرے کی طرح ذبح کر دیں گے۔‘‘
سر فراست:’’ہوںں۔۔۔(جمال کے پاس رک کر مسکراتے ہوئے)۔۔۔’’آج تم خاموش ہو، کچھ تو بولو میاں!۔۔۔‘‘
جمال:’’جناب !۔۔۔میرا خیال ہے کہ پوری انسانیت کا جسم اس بیماری سے کسی پھوڑے کی طرح گل سڑ چکا ہے ۔۔۔اور انسان کی وہ صلاحیت جو اچھائی کی راہ میں استعمال ہوتی تھی وہ اب برائی کے راستے میں استعمال ہوتی ہے۔۔۔جیسے بہادری اور سخاوت آج کل ظلم اور زیادتی کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔۔۔مگر جنابِ عالی !۔۔۔یہ بھی تو ہو سکتاہے ناں کہ معاشرے کے اکثر افراد نیک اور شریف ہوں مگر ان کا سربراہ یا نمائندہ کوئی ڈاکو ،چور ،لٹیرا،جھوٹا یا دغا باز بن گیا ہو اور پوری قوم کے فیصلے غلط کرتاہو ؟‘‘
سرفراست :’’یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ قوم کے اکثر افراد شریف ہوں اور پھر بھی اپنا سربراہ یا نما ئندہ وہ کسی دغا بازکو منتخب کریں ۔۔۔قوم کے افراد کی خرابیاں مکمل ہو جاتی ہیں تو ہی قوم خراب ہوتی ہے ناں ۔۔۔یہ کیسے ممکن ہے کہ قوم کے اکثر افراد نیک ہوں اور پھر بھی وہ قوم کسی دوسری قوم کے حق پر ڈاکہ ڈالے یا قتل وغارت گری کرے۔۔۔قوم افراد سے بنتی ہے مٹی گارے سے نہیں۔۔۔انسان بیمار ہوتے ہیں تو ہی انسانیت بیمار ہوتی ہے ۔‘‘
ناظر:(فکر مندی کے ساتھ)’’تو پھر انسان کو اخلاقی بیماری کے علاج کے لئے کیا کرنا چاہئے؟‘‘
سر فراست:’’ہمیں سب سے پہلے یہ سراغ لگا نا چاہئے کہ یہ اخلاقی یعنی روحانی بیماری کہاں سے اُمڈ کر چلی آ رہی ہے جو ہمیں تباہی کے گڑھے کی طرف لئے جارہی ہے ۔۔۔اس کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ اس اخلاقی بیماری کے علاج کا طریقہ کیا ہے ۔۔۔تو بچو !چونکہ اخلاقی بیماری روح کو لگتی ہے اس لئے اس کا علاج بھی روحانی طریقے سے ہوتا ہے ۔۔۔اور دنیا میں دو طریقوں سے اس بیماری کا علاج کرنے کا رواج ہے ۔
ایک طریقہ وہ جو خدا اور موت کے بعد کی زندگی پر یقین رکھنے والے طبیبوں کا طریقۂ علاج ہے اور ان کی دوائی میں بھی یہی چیز شامل ہے۔۔۔دوسری قسم کے طبیب وہ ہیں جو ان باتوں پر یقین نہیں رکھتے ۔۔۔اسی لئے ان کی دوائی بھی دوسری قسم کی ہوتی ہے۔‘‘
عثمان:’’جناب !۔۔۔ بڑی دلچسپ بات ہے ۔۔۔مہربانی فرما کر ان کے بارے میں ہمیں بتائیے۔‘‘
سرفراست:’’یہ جو پہلی قسم کے طبیب ہیں نا ں بیٹا !۔۔۔یہ خود تین اقسام میں تقسیم ہیں ۔
ان میں سے پہلی قسم وہ ہے جو شرک میں مبتلا ہے ۔۔۔انہوں نے اپنے ذہن میں خدا کے علاوہ دوسری ہستیوں کی خیالی تصا ویر بنا لی ہیں اور ان کو خدائی اختیارات دے دئیے ہیں ۔۔۔ان کی سوچ یہ ہے کہ ہم چاہے اللہ کی بندگی سے کتنے ہی غافل رہیں اور جتنے بھی جرائم کرتے رہیں ۔۔۔وہ ہستیاں ہمیں تھوڑے سے نذر نذرانے کے بدلے قیامت کے دن خدا سے بخشوا دیں گی ۔۔۔اس خیال اور عقیدے نے ان کے ذہنوں سے خدا اور آخرت کے عقیدے کو کھوکھلا اور بے اثر کر دیا ہے۔۔۔جب کسی چیز کا ڈر ہی نہ ہو تو کوئی بگڑا ہوا کیوں اپنی حرکتیں ٹھیک کرے گا ۔۔۔لہٰذا ان کی دوائی بے کار ہو گئی ۔
دوسری قسم تھوڑی سی بہتر ہے ۔۔۔یہ شرک تو نہیں کرتے مگر یہ سمجھتے ہیں کہ خدا صرف عبادات اور مذہبی رسومات کے بدلے میں سارے گناہوں کا بوجھ جنت کے دروازے پر رکھوا کر انہیں جنت میں بھیج دے گا ۔۔۔زندگی کے باقی معاملات جیسے بھی ہوں ،ان کے بارے میں کوئی پوچھ گچھ نہیں ہو گی ۔۔۔لہٰذا ان کی نا مکمل دوائی سے پوری شفا ء کیسے ہو سکتی ہے ۔
تیسری قسم وہ ہے جو ان دونوں سے بہتر ہے ۔۔۔جو نہ شرک میں مبتلا ہے اورنہ ہی یہ سوچتی ہے کہ اللہ کی رحمت صرف عبادات و رسومات کے بدلے انہیں جنت میں داخل کر دے گی ۔۔۔یہ لوگ نیک بھی ہیں مگر ان کا علاج کا تصور بڑا محدود ہے ۔۔۔یہ سوچتے ہیں کہ بیمار انسانیت سے کنارہ کش ہو کر خود نیک بن جاؤ تو سب ٹھیک ہو جائے گا ۔۔۔بھلا بتاؤ کہ جب آپ نے بیماروں سے ہی کنارہ کر لیا تو شفاء کیسے ملے گی بلکہ اس طرح تو بیماری پھیلانے والی قوتوں کو کھلی چھٹی مل گئی ہے۔‘‘
شمس:’’جناب !۔۔۔یہ تو پہلے والے طبیبوں کی تین اقسام تھیں ۔۔۔اور دوسرے والے؟‘‘
سرفراست:’’ہوں ںں۔۔۔اب آتے ہیں ان طبیبوں کی طرف جو خدا اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں اور نہ ہی اس طریقے پر علاج کرتے ہیں ۔۔۔اور آج کل دنیا پر انہیں کا طریقۂ علاج چل رہا ہے ۔۔۔ان کی بھی تین اقسام ہیں۔
پہلی قسم کہتی ہے کہ انسان کو خوشی حاصل کرنے کے لئے بھلائی کرنی چاہئے مگر آج تک وہ یہ نہیں بتا سکے کہ کس کی خوشی حاصل کرنے کے لئے؟۔۔۔اپنی خوشی؟دوسروں کی خوشی ؟کسی ایک شخص کی خوشی یا کسی قوم کی خوشی؟۔۔۔ایسے طریقۂ علاج کو ماننے والے دنیامیں مختلف ذمہ داریوں پر کام کر رہے ہیں۔۔۔
مثلاً استاد ،جج ، وزیراور دوسرے بہت سے کام۔۔۔مگران میں سے کوئی صرف اپنی خوشی کے لئے کام کررہا ہے اور دوسروں کے لئے سانپ بنا ہوا ہے کیوں کہ اسے صرف اپنی خوشی عزیزہے ۔۔۔اور کوئی اپنی قوم کی خوشی کیلئے کام کررہا ہے تو دوسری قوم کیلئے قاتل بناہوا ہے ۔۔۔لہٰذا اس طرح کیسے علاج ہو سکتا ہے ؟
اسی طرح دوسری قسم وہ ہے جو کہتی ہے کہ انسان کو کمال حاصل کرنے کے لئے بھلائی کرنی چاہئے ۔۔۔مگر وہ بھی یہ نہیں سمجھا سکے کہ کس کا کمال اور کیسا کمال ؟
تیسری قسم کہتی ہے کہ قانون کی اطاعت کرنا فرض ہے مگر وہ بھی آج تک یہ نہیں سمجھا سکے کہ وہ کون سے قانون کی بات کرتے ہیں کہ جس کو ماننا فرض ہے۔
تو ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ انسانیت میں اخلاقی بیماری کا پھیلاؤیہ بتا رہا ہے کہ یہ لوگ بھی علاج میں ناکام ہوئے ہیں ۔‘‘
ناظر:’’جناب!۔۔۔تو پھر آخر علاج ہے کیا انسانیت کی اس اخلاقی بیماری کا ؟‘‘
سرفراست:’’بیٹا اصل سوال یہ نہیں کہ وہ کون سی بھلائی ہے جس سے انسان کی اخلاقی بیمار ی کا علاج کیا جائے بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ انسان ہے کیا؟۔۔۔اور اس کی حیثیت کیا ہے ۔۔۔کیوں کہ جب تک انسان کو اپنی حیثیت کا پتا نہیں ہو گا اسے کیسے پتا چلے گا کہ اس کے لئے کون سا کام بھلائی ہے ۔
میں آپ کو ایک مثال دے کر سمجھا تا ہوں ۔۔۔ایک مکان میں مکان کا مالک اور چوکیدار رہتے ہیں ۔چوکیدار نے مالک سے پوچھے بغیر گھر میں سے کوئی چیز اٹھا کر کسی غریب کو دے دی یا مالک کے پیسے اٹھا کر صدقہ کر دیئے تو کیا یہ بھلائی ہو گی ؟‘‘
ناظر:’’نہیں جناب۔‘‘
سرفراست :(حیران کن انداز میں)’’آخر کیوں؟۔۔۔اس نے رقم صدقہ کی ہے ،کسی چور کو تونہیں دی ۔۔۔پھر یہ کیوں بھلائی نہیں ہے؟‘‘
عثمان:’’جناب اس لئے کہ اس گھر میں اس کی حیثیت ایک چوکیدار کی ہے ۔۔۔نہ وہ گھر کا مالک ہے اور نہ گھر میں رکھی کسی چیز کا ۔‘‘
سرفراست:’’اس دنیا میں انسان کی حیثیت بھی مالک کی نہیں ہے بلکہ وہ مالک کا بندہ اور خلیفہ ہے ۔۔۔دنیا میں اس کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ خداکا دیا ہوا ہے ۔۔۔یہاں تک کہ اس کے پاس اس کی اپنی جان بھی اپنی نہیں ہے بلکہ خدا کی امانت ہے ۔۔۔اس لئے اصل مالک کی مرضی کے بغیر وہ کچھ نہیں کر سکتا ۔۔۔بھلائی وہی ہے جس کا مالک نے حکم دیا یا جس سے روکا ۔۔۔اور یہی اصل علاج ہے انسان کی اخلاقی بیماری کا ۔۔۔اسی میں خوشی بھی ہے ،کمال بھی اور فرض کو ادا کرنے کا قانون بھی یہی ہے ۔‘‘
گھنٹہ بجتا ہے ۔۔۔سرفراست کمرۂ جماعت سے نکلتے ہیں ۔
(پردہ گرتا ہے )