skip to Main Content
ناشکرا خرگوش

ناشکرا خرگوش

ناول: ROBBUT: a Tale of Tails
تحریر: Robert Lawson
مترجم: اشرف صبوحی دہلوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رشک
۔۔۔۔
چند دن سے میاں ناشکرے خرگوش کچھ آپ ہی آپ ناخوش رہتے تھے۔حالانکہ اس سے پہلے وہ بہت ہی ہشاش بشاش رہا کرتیتھے۔اس چھوٹی عمر میں رنج و ملال کا کیا کام۔اگر ناخوش بھی ہوئے تو تھوڑی کے لیے۔بات دراصل یہ تھی کہ برخوردار خرگوش کو اپنی دم سے شکایت بڑھتی جاتی تھی کہ وہ اتنی چھوٹی کیوں ہے۔اسی وجہ سے وہ ناخوش نظر آتے تھے اور آج انہوں نے یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ چاہے کچھ بھی ہووہ اپنی دم سے پیچھا چھڑا کر رہیں گے۔
اب پھر انہوں نے گردن کو بڑھا کراور سر کو پورے طور پر موڑ کر دیکھا تو کہیں جا کر انہیں اپنی دم کی جھلک نظر آئی۔دم کیا تھی ایک پونچھڑی تھی یا روئی کا ایک چھوٹا سا پھویا یا چھوٹی سی گڑیا کے پوڈر لگانے کا پف۔
میاں ناشکرے خرگوش کچھ دیر بڑبڑاتے رہے کہ ”واہ یہ بھی کوئی دم ہے!یہ تو دم چھلا بھی نہیں۔یہ میرے کس کام کی؟بھلا اس سے کیا حاصل؟اس کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔جب دُم نہیں تو دَم کس کام کا۔ایک ہماری خالہ بلی کی بھی تو دم ہے۔وہ جب غراتی ہے تو کس طرح اسے اپنے گرد لپیٹ لیتی ہے،اور جب خوش ہوتی ہے تو اپنی دم کو اکڑا کر سیدھا کھڑا کر لیتی ہے۔“اس طرح مقابلہ کرنے میں اسے اپنی دم سے بے اطمینانی بڑھتی جاتی تھی اور میاں ناشکرے کی ناخوشی کا یہی باعث تھا۔
پھر اسے گائے کی دم کا خیال آیا کہ وہ کتنا اچھا چوری کا کام دیتی ہے۔مکھیوں کو بھگا دیتی ہے اور میری بہن گلہری کی دم کتنی خوب صورت اور لمبی ہے۔کیسی پیاری پیاری دھاریاں پڑی ہوئی ہیں۔یہ دم اسے برف اور بارش سے بچاتی اور جاڑے کی ٹھنڈی راتوں میں لحاف کا کام دیتی ہے۔
جنگلی پوسم کی دم بھی تو ہے۔وہ اگرچہ گلہری کی طرح خوب صورت نہیں لیکن ہے بڑی کارآمد،اس لیے کہ پوسم اسے درخت کی شاخ میں لپیٹ لیتی ہے اور اس کے سہارے جب تک چاہتی ہے لٹکتی رہتی ہے اور جب اس کے پاس بچے ہوں تو وہ پوسم کی کمرپر اس مزے کے ساتھ سوار ہو جاتے ہیں کہ اپنی چھوٹی چھوٹی دمیں اس کی لمبی دم میں لپیٹ لیتے ہیں اور وہ انہیں آرام سے اپنے اوپر بٹھالیتی ہے۔دیکھا جناب!کیس کیسی کام کی دمیں ہوتی ہیں۔اور میری دم کیسی بے کار۔بس ایک پرانی روئی کا پھویا سا۔
بعض دمیں دیکھنے میں کتنی خوب صورت ہوتی ہیں کہ ان پر فخر کیا سکے۔مثال کے طور پر سکنک کی دم لے لو۔پردار سیاہ چمکیلی جس پر سفید دھاریاں پڑی ہوئی ہیں اور اڑتے ہوئے ہوا میں محرابیں اور لہریابناتی ہے۔تیتر کی دم کے پر بھی کیسے پیارے شاندار اور رنگین ہوتے ہیں۔اسی طرح خیال آتے آتے جب نا شکرے میاں کو سرخ لومڑی کا خیال آیا تو وہ بہت ہی ملول اور غمگین ہوگئے اور مارے رشک کے ان کا رنگ پیلا پڑگیا۔
سرخ لومڑی کی دم ہی اصل میں دم کہلانے کی مستحق ہے۔کتنی بڑی اور لمبی،گویالومڑی کے جسم کے برابر،پھر موٹی چمک دار رنگین بھی اور کارآمد بھی۔سردی کی ٹھنڈی راتوں میں وہ اپنی دم سے پنجے بھی ڈھک سکتی ہے اور ناک بھی۔ناشکرے کو اپنی دم سے نفرت سی ہوگئی اور آخر اس نے دم کو دیکھنا ہی چھوڑ دیا۔
ایک روز اس نے مایوسی کی حالت میں اپنے کان کھجائے۔گردن سیدھی کی اور خاموشی کے ساتھ ایک راستے پر ہولیا۔یہ راستہ جس پر وہ چلا رہاتھاپہاڑی کے ساتھ ساتھ نیچے کی طرف جاتا تھااور آگے جا کر صنوبر کے دو جنگلوں کے بیچ میں سے ہو کر گزرتا تھا۔اس حصے میں بڑے جھاڑ جھنکار تھے۔یہاں نا شکرے میاں کو سیدھا راستہ چھوڑنے کے بعد اس ناہموار جگہ سے گزرنا بہت ناگوار تھا۔انہیں یہ بھی معلوم تھاکہ اس راستے میں فلاں مقام پر ایک جال بھی لگا ہوا ہے جہاں سے گزرنا ہے۔اور جانوروں کو بھی اس جال کا علم تھا اس لیے جاتے تووہ سب تھے مگر پکڑا کوئی نہیں جاتا تھا۔پھر بھی ایک مصیبت ضرور تھی۔
میاں ناشکرے جب اس گھنے راستے سے پھنس پھنسا کر نکلے تو انہوں نے اچانک لوہے اور تاروں کی جھنجھناہٹ کی آواز سنی اور دل میں سمجھ لیا کہ کوئی نہ کوئی پکڑا گیا ہے۔لیکن کوئی اجنبی ہوگا۔ واقف کار تو اس دام میں نہیں آ سکتا۔دیکھنا چاہیے کون بدقسمت گرفتار ہوا، چنانچہ یہ ادھر ہی کو ہولیے جدھر سے آواز آئی تھی۔
یہ بات تو ٹھیک تھی کہ کوئی پکڑا گیا ہے۔لیکن وہ کوئی جانور نہیں!ایک آدمی تھا،بونا۔مشکل سے کوئی چوبیس انچ لمبا۔گویا میاں ناشکرے اگر اپنی پچھلی ٹانگوں ہر کھڑے ہو جائیں تو اس سے دگنا اونچا سمجھنا چاہیے۔بونے میاں اپنی اس حالت میں بہت خفا نظر آتے تھے۔
دراصل لوہے کی تاروں کا یہ پنجرہ ایک پھندا تھا جس میں جانور بغیر تکلیف پہنچائے پکڑ لیے جاتے تھے۔لیکن آس پاس کے تمام جانور اس جال سے واقف تھے۔اس لیے مدت سے کوئی جانور اس گورکھ دھندے میں پھنسا نہ تھا۔اس جال کا مالک ایک لڑکا تھا جو پہاڑی کے اوپرہی رہتا تھا۔لیکن وہ یہ رنگ دیکھ کر کہ جانور تو کوئی پھنستا نہیں اس دام سے لاپروا ہو گیا تھا اور بہت کم وہاں آتا تھا۔
بونے میاں نہ جانے کب تک اس جال میں گرفتار رہتے،وہ تو قسمت کے دھنی تھے کہ ناشکرے میاں اپنی دم سے غمگین ہو کر ادھر جا نکلے اور پنجرے میں پھڑپھڑانے کی آواز سن کر وہاں پہنچ گئے۔ انہیں یہ تو پہلے سے معلوم تھا کہ اس پہاڑی پر کوئی بڈھا بونا رہتا ہے۔آج انہوں نے اسے دیکھ بھی لیا۔
بونے صاحب کا حلیہ عجیب وغریب تھا۔چوڑا چکلا چہرہ۔سر کے پیچھے کے حصے میں بھورے رنگ کے بالوں کی ایک پتلی سی جھالر۔سر کے بیچ کا حصہ صفا چٹ گویا تامڑا چمک رہا ہے۔آنکھیں پھٹی ہوئی۔ناک کا بانسا پھیلا ہوا۔نتھنے ایسے جس میں چڑیا گھونسلا بنا سکے۔مونچھیں بھورے رنگ کی جیسے گلمچھے۔لباس میں گھٹنوں تک کا نیکر۔خاکی رنگ کی قمیص۔اس پر پرانی وضع کا کوٹ جو ہرے اور نیلے رنگ کا تھا اور اس میں پیتل کے بٹن لگے ہوئے تھے۔پاؤں میں چوڑے پنجے کا ایک بوٹ، اس میں چاندی کا بکلس لگا ہوا۔یہ بونے میاں تھے۔
میاں ناشکرے کچھ دیر تو دیکھتے رہے،پھر احتیاط کے ساتھ پنجرے کے اوپر پھدکے اور بڑے ادب سے بولے،”میرے لائق کوئی خدمت ہوتو بتائیے۔“بونے صاحب جلدی سے بولے،”بے شک،تم مجھے اس پھندے سے رہائی دلا سکتے ہو بشرطیکہ تم میں تھوڑی سی عقل بھی ہو۔مگر تم شاید اتنے سمجھ دار نہیں ہو۔میں تمہارے دادا کو جانتا تھا۔وہ کچھ سمجھ رکھتے تھے۔تمہارے باپ کوبھی جانتا ہوں۔وہ بہت کم سمجھ رکھتے ہیں۔اب رہے تم،تو میرا خیال ہے کہ تمہاری سمجھ ان دونوں سے بھی کم ہوگی۔یایوں سمجھو کہ ایک حقیر چیز کو پہلے دو سے تقسیم کرنے کے بعد تین سے تقسیم کیا تو کتنا بچا؟کیا خیال ہے تمہارا؟“
ناشکرے میاں نے اقرار کیا کہ بچا تو کچھ نہیں مگر میں پنجرے کو کھولنے کو پوری کوشش کروں گا۔بونے صاحب بولے،”اچھا تو کوشش کرو۔“میاں ناشکرے نے پہلے تو پنجرے کو لات ماری،پھر کئی بار ٹکریں ماریں،پھر تاروں کو پنجے سے پکڑ کر جھنجوڑا لیکن کیا نتیجہ؟بس وہی ڈھاک کے تین پات۔
جب ناشکرے میاں کو یہ کشمکش کرتے کئی منٹ ہوگئے تو بونے صاحب بولے،”دیکھو میاں!تم اپنے سر سے ہتھوڑے کا جو کام لے رہے ہو اسے چھوڑو،بلکہ اس سے ذرا سوچنے کا کام لو۔دیکھو یہ جو فولاد کا وزنی تار آرپار دیکھتے ہو اسے کسی طرح پورا پورا اوپر تک اٹھا دو۔جب یہ اوپر اٹھ جائے گا تو اس کا سرا خود بخود کھل جائے گا اور میں آسانی سے باہر نکل آؤں گا۔“
یہ سن کر میاں ناشکرے نے پوری طاقت کے ساتھ فولادی تارکو اوپر اٹھانے کی کوشش کی۔اپنے اگلنے پنجوں سے اسے کچھ اوپر اٹھایا پھر اس کے نیچے اپنی ناک گھسا کر اوپر ابھارا لیکن تار پھسلا اور جس قدر اٹھا تھا پھر گر پڑا۔
بوڑھے بونے نے کہا،”میاں تمہاری انگلیاں کیاہیں انگوٹھے ہیں،اور تمہارے پنجے نہ معلوم پاؤں ہیں یا کچھ اور۔خیر اب تم مجھے درخت کی ایک شاخ توڑ کر لادو۔“میاں ناشکرے نے جھٹ ایک ٹہنی توڑ کر لادی۔بونے صاحب نے کہا،”شاباش۔اب تم پھر اسی طرح اس تار کو اپنی پنجوں سے اٹھاؤ،“میاں ناشکرے نے پہلے سے بھی کہیں زیادہ زور لگایا۔اب ہر دفعہ جتنی فولادی گرفت اوپر ہوتی جاتی بونے صاحب اتنی ہی بار و ہ ٹہنی اس میں اڑا دیتے۔اس طرح گرفت کے پھسلنے کا خطرہ نہ رہا۔کچھ دیر بعد وہ کامیاب ہونے ہی والے تھا کہ ٹہنی وزنی تار کا بوجھ نہ سنبھال سکی اور ٹوٹ گئی۔تار گرا اور بے چارے نا شکرے کے پنجوں پر۔اس چوٹ سے غریب کی بے تحاشا چیخ نکلی اور اس نے کہا”کاش پوسم کی طرح میری لمبی دم ہوتی تو میں پنجرے کے اوپر بیٹھ کر دم نیچے لٹکا دیتا اور نہایت آسانی کے ساتھ دم سے تار کو اوپر اٹھا دیتا۔“
بڈھے بونے نے بات کاٹتے ہوئے کہا”نہ تمہارے پاس دم ہے اور نہ تم یہ کام انجام دے سکتے ہو۔بس ایک بار اور کوئی موٹی سی ٹہنی لادو۔“میاں ناشکرے نے ایک بہت موٹی اور مضبوط لکڑی لادی۔ناشکرے میاں پھر وہی عمل کرنے لگے جو پہلے کر چکے تھے۔اب جب تار پنجرے کے اوپر پہنچنے کے قریب آیا تو ناشکرے نے پورا زور لگا کر ایسی دولتی چلائی کہ تار پنجرے کے اوپر چڑھ ہی گیا۔اور کام بن گیا۔ پنجرے کا دروازہ کھل گیا اور بونے صاحب باہر تشریف لے آئے اور ہاتھ جھاڑتے ہوئے بولے۔”اچھا تو یہ بات تھی۔میں بھی کیسابے وقوف بن گیا!اس جال کو یاروں کے اٹھنے بیٹھنے کی جگہ سمجھا۔ہاں یہ فائدہ تو ضرور ہوا کہ اس پھندے کا پتا لگ گیا،اگرچہ اس میں کئی روز قید ہونا پڑا۔“
ناشکرے خرگوش نے دریافت کیا،”کیا جناب آپ یہاں کچھ زیادہ عرصے سے تھے؟“بونے صاحب کہنے لگے۔”صرف دو روز سے۔دو دن اور تین راتیں گزر گئیں۔کھانا پینا تو کجا میں نے توسگریٹ تک نہیں پیا۔آؤ میرے ساتھ،کچھ کھائیں پئیں۔میں تو بھوکا مر گیا۔“
یہ کہہ کر بونے صاحب دوڑے اور جھاڑیوں میں گھس گئے اور وہاں سے اس تیزی کے ساتھ پہاڑی پر چڑھے کہ ناشکرے میاں مشکل سے ان کا ساتھ دے سکے۔
جب وہ دونوں پہاڑی سے دوسری طرف اترے تو وہ صنوبر کا جنگل تھا۔ایک بڑے درخت کے پاس بونے صاحب ٹھہر گئے اور بڑی احتیاط سے چاروں طرف دیکھا کہ کہیں کوئی دیکھتا نہ ہو۔اور درخت کی دو جڑوں کے درمیان چھال کے ڈھیلے ڈھالے ٹکڑے کو پکڑ کر کھینچا۔
یہ بڑی کاری گری کے ساتھ قبضے لگا کر دروازہ بنایا گیا تھا۔اس کے نیچے چھوٹی چھوٹی سیڑھیاں تھیں۔یہ بونے صاحب کے مکان کا دروازہ تھا۔دونوں جلدی جلدی نیچے اترے۔بونے صاحب نے کہا،”اپنے پاؤں پونچھو اور دروازہ بند کرکے تالا لگا دو۔جلدی کرومیں مارے بھوک کے مرا جا رہا ہوں۔“

مزے ہی مزے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میاں نا شکرے اس عرصے میں اپنے پاؤں اچھی طرح صاف کر چکے تھے۔دروازے میں تالا بھی لگ چکا تھا۔بونے صاحب نے اپنا چولہا سلگا لیا تھااور ادھر ادھر چیزوں کی تلاش میں مصروف تھے۔انہوں نے سٹرابیری کا ایک پیالہ نکالا۔آدھا درجن انڈے،کچھ گوشت کے پارچے، کافی،مکھن،ملائی بسکٹ،شکر اور دوسری وہ ضروری چیزیں جن سے اچھی طرح ناشتا کیا جاتا ہے،نکال لیں۔آخر میں انہوں نے گاجریں نکالیں اور انہیں ناشکرے کے آگے پھینک دیاکہ”لو کھاؤ تمہارے ناشتے کے لیے یہ بہترین چیز ہے۔ہمارا ناشتا تو بہت بھاری بھرکم ہوتا ہے۔“یہ کہہ کر بونے نے پانچ انڈے توڑے اور مکھن بڑے کرچھے میں گرم کرکے انڈے اس میں ڈال دیے۔چھنن منن کی آواز سے میاں ناشکرے چوکنّے ہوئے اور بونے صاحب نے اس میں گوشت کے پارچے بھی ڈال دیے۔
ادھر ناشکرے میاں نے گاجریں کھاتے ہوئے بونے صاحب کا شکریہ ادا کیا اور گھر کے چاروں طرف نظر دوڑائی۔وہ بڑی ہی آرام کی جگہ تھی۔اب تک وہ جتنے بھٹوں میں رہے تھے،یہ جگہ ان کے مقابلے میں جنت تھی۔یہاں آرام دہ کرسیاں تھیں۔بہت سے صندوق،صندوقچے،میزیں،الماریاں اور ایک ڈیسک بھی تھا۔ایک الماری میں کتابیں چنی ہوئی تھیں۔ چینی کے برتن ایک طرف سجے ہوئے تھے۔ کھانے پینے کا سامان موجود تھا۔ باورچی خانے کی صفائی دیکھنے کے قابل تھی۔ جس طرف باورچی خانہ تھا وہاں چمنی اس بڑے درخت کے تنے میں بہت اونچی چلی گئی تھی اور باہر سے دھواں نکلنے کی کسی کو خبر نہ ہوسکتی تھی۔پردہ پڑی ہوئی چھوٹی چھوٹی کھڑکیاں درخت کے ٹھنٹھ اور جڑوں میں اس طرح چھپی ہوئی تھیں کہ باہر سے نظر نہ آتی تھیں۔میاں نا شکرے بارہا اس جگہ سے گزرے تھے مگر یہ خیال بھی نہیں آیا تھا کہ اس جگہ بونے صاحب کا ٹھکانا ہے۔
بونے صاحب کھانے پینے کے شغل میں ایسے مگن تھے کہ انہیں خرگوش میاں کا شکریہ بھی ادا کرنے کا خیال نہ آیا۔آخر کچھ دیر میں خدا خدا کرکے ناشتا ختم ہوا اور بونے صاحب نے اطمینان کا سانس لیا۔اپنی پیٹی کو کچھ ڈھیلا کیا اور آرام کرسی پردراز ہوگئے اور کافی کی تیسری پیالی چڑھا گئے۔اس سرور کو بڑھانے کے لیے انہوں نے اپنے پائپ میں تمباکوبھرا،پھر اسے جلایا اور کش لگا کر دھویں کے حلقے بنانے لگے۔معلوم ہوتا تھا گویا پہاڑی پر سے بادل امنڈ امنڈ کر بونے صاحب کی کٹیا میں گھسے چلے آتے ہیں۔
مثل مشہور ہے جب پیٹ بھراتو دور کی سوجھی۔اب انہیں میاں ناشکرے کی رفاقت کا خیال آیااور محبت بھری نظروں سے ان کی طرف دیکھا اور مسکرا کر بولے۔ ”تم نے ایک ننھا خرگوش ہوتے ہوئے اس جال سے میری رہائی میں بڑا کام کیا۔واقعی تم نے اپنی بساط سے بڑھ کر ہمت دکھائی۔میں دل سے تمہارا احسان مند بھی ہوں اور شکر گزار بھی۔چونکہ احسان کا بدلہ احسان ہوتا ہے اس لیے میں چاہتا ہوں کہ تمہاری کوئی خدمت بجا لاؤں۔یقین جانو میں ہمیشہ اہنا قرض ادا کردیتاہوں،اور یہ تو ایک بہت بڑا قرض ہے۔جب تک ادا نہ کرلوں گا مجھے چین نہیں آ سکتا۔اب بتاؤ میں تمہاری کیا خدمت کروں؟“
ناشکرے نے جواب دیا۔”بڑے میاں! میں کیا کہوں؟اگر آپ فرمائیں تو ایک گاجر اور لے لوں۔ بڑے ہی مزے کی ہیں۔بونے صاحب نے ایک اور گاجر اس کی طرف لڑھکا دی اور ذرا بگڑ کر بولے۔”بس ایک گاجر! کیا تمہارے خیال میں میری حیثیت اتنی ہی ہے؟لاحول ولا قوۃ!یہ میری تم نے سخت توہین کی ہے۔اتنے بڑے کام کاانعام صرف ایک گاجر!میں تو سمجھا تھا کوئی چیز طلب کروگے مگر ہونا آخر وہی بھولے بھالے ننے خرگوش۔واہ بھئی واہ۔“
ناشکرے نے گھبرا کر کہا۔”توبہ توبہ!میرا مقصد ہر گرز آپ کی توہین نہیں۔گاجر کی طلب تو محض بے خیالی میں اور لطف حاصل کرنے کے لیے تھی۔“
بونے صاحب اب بڑی نرمی سے بولے۔”اچھا فرض کرو اگر تم مانگتے بھی تو دنیا میں سب سے بڑھ کر تمہارے نزدیک کیا چیز مانگنے کے قابل ہوتی؟“
ناشکرے گاجر کھاتے رہے اور سوچتے رہے۔کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔اچانک انہیں اپنی دم کا خیال آگیا۔فوراً بولے۔”جناب! میں جس چیز کا خیال کر سکتا ہوں وہ تو ایک نئی دم ہے اور اس کی مجھے ضرورت بھی ہے۔ لیکن میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اس چیز کے حاصل کرنے میں شاید آپ میری مدد نہ کرسکیں گے۔“
بونے صاحب بولے:”بس اتنی سی بات۔لیکن یہ تو بتاؤ تمہاری اس دم کو کیا ہوا جو اور دم چاہتے ہو؟میرے نزدیک تو ایک خرگوش کے لیے یہ دم جیسے تمہاری ہے،کافی ہے۔“
ناشکرے نے کہا،”یہ کوئی دم ہے۔بس ایک روئی کا پھویا سا ہے۔کسی کام کی نہیں۔“
بونے نے کہا:”تم اسے ہلا تو سکتے ہو؟“
ناشکرے نے جواب دیا:”مگر کوئی کام تو نہیں لے سکتا۔“
پھر اس نے بیان کرنا شروع کیا کہ کس طرح دوسرے جانور اپنی دموں سے کیا کیا کام لیتے ہیں اور اپنے دل کی بات دموں کے ذریعے کس طرح ظاہر کرتے ہیں اور یہ دمیں ان کے لیے کیسی کارآمد ہیں۔سردی سے بچاتی ہیں اور خوب صورت کتنی ہیں کہ جی چاہتا ہے کہ دیکھے جاؤ۔ میں اپنی دم سے بہت بے زار ہوں۔یہ تو کسی کام کی نہیں۔زیاہ سے زیادہ میں کچھ دیر کے لیے اس پر بیٹھ سکتا ہوں۔
بونے صاحب نے ناشکرے کی باتیں پوری توجہ سے سنیں۔پائپ کا ایک کش لیا اور دیر تک اس بات پر غور کرتے رہے۔پھر بولے۔”اچھا تم جو یہ بات کہتے ہو تو اس میں تمہاری کوئی مصلحت ضرور ہے۔مجھے اس کے کریدنے کی ضرروت نہیں۔ تم نئی دم چاہتے ہو، نئی دم؟ بس ہو جائے گی۔اتنا اور بتاؤ کس قسم کی دم چاہتے ہو؟“
ناشکرے میاں سوچتے رہے یہاں تک کہ ان کی گاجر ختم ہو گئی۔ آخر وہ بولے۔”میرے خیال میں بلی کی دم ٹھیک رہے گی۔“
بونے نے پوچھا:”کس رنگ کی ہونی چاہیے؟“
ناشکرا بولا۔”کالے رنگ کی جس میں سفید گنڈے ہوں یا ولایتی بلی کی دم جیسی۔“
بونے نے کہا۔”اگر معاملہ میری دم کے متعلق ہوتا تو میں دھاری دار دم پسند کرتا۔بھورے رنگ کی جس پر گہری دھاریاں ہوتیں اور ایک کالا گنڈا ہوتا۔مگر بات تمہاری دم کے متعلق ہے۔تم اپنا رنگ آپ پسند کرو۔جب تک تم سوچو میرے خیال میں یہ جھوٹے برتن بھی دھوتے جاؤ تاکہ ایک پنتھ دو کاج والا معاملہ ہوتا رہے۔اور ادھر میں تمہارے کام کی تیاری کروں۔“
یہ سن کر نا شکرے نے ساری قابیں،پلیٹیں اور کافی کے برتن وغیرہ اکٹھے کیے اورپتھر کی چھوٹی سی ناند میں دھونا شروع کیا۔چونکہ برتن زیادہ تھے اور گھی انڈو ں کی چکنائی کی وجہ سے کافی چکنے تھے، اس لیے انہیں دھونے،صاف کرنے اور الماری میں قرینے سے لگانے میں خاصا وقت لگ گیا۔اس دوران میں اس نے بہت سی مختلف رنگ کی دموں کا خیال کیا اور آخر یہ فیصلہ کیا کہ بھوری دھاری دار دم سب سے اچھی رہے گی۔ادھر تو میاں ناشکرے اپنے کام میں لگے ہوئے تھے۔ادھر بونے میاں الماری کے مختلف خانوں سے خاک میں بھرے ہوئے مرتبان،بویان اور ڈبے اتار رہے تھے اور پرانی دیمک لگی ہوئی عجیب و غریب کتابیں اور کاغذات دیکھنے میں مشغول تھے۔آخر مطالعہ کرنے کے بعد انہوں نے بعض کیمیاوی چیزوں کو کھرل میں ڈال کر مرکب بنایا۔پھر اسے ایک پتھر کے جگ میں ڈال کر گرم کرنے کے لیے چولہے پر رکھ دیا۔گرم ہونے پر اس میں سے ایک نرالی قسم کی بو نکلی جو ناخوشگوار نہ تھی۔
بونے صاحب نے اپنے ہاتھ اور عینک صاف کرتے ہوئے کہا۔”بس اب کام بن گیا۔دادا جان اس قسم کی بہت سی چیزیں تیار کیا کرتے تھے مگرمیں تو اس کام میں زیادہ ماہر نہیں۔“پھر انہوں نے ناشکرے سے کہا۔”آؤ میز پر پھدک کر آجاؤ۔“
ناشکرا جس نے ابھی صافی دھو کر لٹکائی تھی میز پر پھدک کر آ بیٹھا۔بونے صاحب نے کہا۔”تم اپنی آنکھیں اچھی طرح بند کرلو اوران پر اپنے پنجے ڈھک لو۔خبردار جو تم نے آنکھیں کھولیں۔اگر تم نے ذرا سا بھی جھانک کر دیکھا تو کام بگڑ جائے گا۔“
ناشکرے نے پوچھا۔”کوئی تکلیف تو نہ ہوگی۔“بونے صاحب نے جواب دیا۔”بالکل نہیں بشرطیکہ میرے کہنے پر چلے ورنہ یاد رکھو کہ اگر دم ٹیڑھی نکلی یا جگہ سے بے جگہ نکلی یا کوئی اور بجوگ پڑگیا تو میں ذمہ دار نہیں۔“
ناشکرے میاں دم کے شوق میں ہر مصیبت جھیل سکتے تھے۔پھر یہ تو کوئی سخت آزمائش بھی نہ تھی۔چنانچہ انہوں نے اپنی آنکھیں اچھی طرح بھینچ لیں۔اور اپنے اگلے پنجے ان پر رکھ لیے اور چپکے دم سادھے بیٹھ گئے۔مگر ان کا دل اندر سے ڈر کے مارے بلیوں اچھل رہا تھا۔
تھوڑی دیر گزرنے پر انہوں نے محسوس کیا کہ ان کی چھوٹی سی دم بڑی نرمی کے ساتھ مروڑکر کھینچی جا رہی ہے اور آہستہ آہستہ ملی بھی جارہی ہے۔پھر انہیں یہ معلوم ہوا کہ کوئی گرم گرم چپکنے والی چیز ان کی دم پر ڈالی جا رہی ہے اور ویسی ہی مہک آرہی ہے جیسی مرکب بناتے وقت پتھر کے جگ میں سے آرہی تھی۔پھر اچانک ایسا معلوم ہوا کہ کوئی چیز پیٹھ پر آکر پڑی۔
بونے صاحب چلائے۔”بہت خوب، بہت خوب!واہ کیسی پیاری دم ہے۔لو میاں نا شکرے،اب آنکھیں کھولو اور دیکھو۔“
ناشکرے میاں نے پنجے ہٹائے اور آنکھیں کھول ڈالیں۔پھر گردن بڑھا کر اور سر کو موڑ کر دیکھا تو خوشی کے مارے ناچ اٹھے۔ذرا سی دم کے بجائے اب وہاں نہایت نرم عمدہ ریشم جیسی بلی کی ایک بہترین دم لگی ہوئی تھی۔انہوں نے بونے صاحب کے قدم چومے اور کہا۔”واہ استاد کیاکہنے۔کیسی خوب صورت دم لگائی ہے۔“
بونے صاحب نے کہا۔”واقعی یہ بہت خوب ہے۔مجھے بھی اس پر فخر ہے۔لوآئینہ دیکھو۔جب تمہیں پوری طرح یہ دم نظر آئے گی۔“
بونے صاحب نے فرش پر دیوار سے لگا کر ایک آئینہ رکھ دیا۔نا شکرے نے اس میں اپنے آپ کو اور اپنی دم کو ہر زاویے سے دیکھا۔وہ جس قدر دیکھتے تھے ان کی خوشی اور فخر بڑھتا جاتا تھا۔کبھی خوشی سے اپنی دم کو سیدھا اوپر کی سمت کرکے دو قدم چلتے۔کبھی اس کو ہلانے لگتے اور کبھی دم کے سرے کو آہستہ آہستہ اوپر نیچے کرتے۔پھر انہوں نے بناوٹی غصے سے اپنی دم کو زور سے پٹکا اور اپنی پسلیوں کو قالین پر اس زور سے رگڑا کہ قالین میں سے خاک اڑنے لگی۔بعد ازاں انہوں نے لیٹ کر بڑی خوشی کے ساتھ اپنی دم کو آہستہ آہستہ چکر دینے شروع کیے۔اس حرکت سے کبھی کبھی ان کی دم تھوڑی سے لگ جاتی اور کبھی وہ اسے اگلے پنجوں سے پکڑ لیتے۔غرض یہ کہ ایک بلی جو اپنی دم کے ساتھ کر سکتی تھی وہ ایک خرگوش بہت اچھی طرح کر رہا تھا۔
پھر وہ خوشی سے اچھلے کودے اور خوشی کے عالم میں بولے۔”آہاہاہا!ساری دنیاایک میری ہی دم میں سما گئی ہے۔واہ کتنی خوب صورت دم ہے۔“
بونے صاحب ننھے بے خبر خرگوش کا ناچ دیکھتے ہوئے بولے۔”بے شک یہ ایک بلی کے لیے تو واقعی بڑی خوب صورت دم ہے لیکن تمہارے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔کم از کم نرالی تو ضرور دکھائی دیتی ہے۔خیر اسے دیکھو،برتو۔کیسا کام کرتی ہے اور ایک بات یہ بھی یاد رکھو کہ اگر تم کسی وجہ سے اسے پسند نہ کرو تو میرے پاس آجانا،میں اسے بدل دوں گا۔“ناشکرے نے خوشی سے ہنستے ہوئے کہا۔”اس کا تو شاید موقع ہی نہ آئے۔“
اب میاں نا شکرے بے چین تھے کہ کسی طرح یہاں سے بھاگ جائیں تاکہ اپنے دوستوں اور رشتے داروں کو یہ نرالی دم دکھائیں۔چنانچہ انہوں نے جلدی سے بونے صاحب کا دوبارہ شکریہ ادا کیا اور باہر جانے کے لیے قدم بڑھائے۔باہر سورج چمک رہا تھا۔جاتے ہوئے وہ اس بات کو بھول گئے تھے کہ ان کی دم لمبی ہوگئی ہے۔کواڑ بند کرتے ہوئے دم اس میں بھنچ گئی اور نا شکرے میاں نے ایک دردناک چیخ ماری۔

مصیبت
۔۔۔۔۔
چونکہ دم پوری طرح بھنچی تھی، اس لیے ناشکرے نے اس کو اسی طرح چاٹنا شروع کیا جس طرح اس نے بلیوں کو تکلیف کی حالت میں اپنی دم چاٹتے دیکھا تھا۔لیکن اس کی زبان بلیوں کی زبان کی طرح کھردری نہ تھی۔اس لیے وہ فائدہ تو حاصل نہ ہوا جو بلی کو حاصل ہوتا ہے، البتہ دم کا رواں ضرور گیلا ہو گیا۔اور اس کی وہ خوبصورتی جاتی رہی جو چند منٹ پہلے تھی۔حالت یہ تھی کہ دم سوج گئی تھی اور دم کا رواں گیلا ہونے کی وجہ سے اپنی دلکشی کھو چکا تھا۔پھر بھی وہ فخر سے اپنی دم ہلاتا ہوا چل رہا تھا اور اکڑاکڑا کر گردن کو ادھر ادھر موڑ رہا تھا۔اس وقت ا سے کچھ ٹڈے نظر آئے اور اس نے ان پر تاک لگائی۔زمین پر لیٹ کر ٹھوڑی کو آگے بڑھایا اور دم کو پیچھے گھاس میں گھسایا۔بس ذرا سا دم کا سرا ہل رہا تھا۔ پھر وہ آہستہ آہستہ سرکا اور ایک زور کی چھلانگ لگائی۔اس وقت اس کی دم سیدھی ہوا میں کھڑی ہوئی تھی۔
ٹڈے فوراً پھدک کر دوسری طرف چلے گئے اور ناشکرے کی اس ناکامی پر یہ کہہ کر مذاق اڑانے لگے۔
چوہو! بھاگو بلی آئی۔۔۔چوہو! بھاگو بلی آئی
آدھا تیتر آدھا بٹیر۔۔۔ نا وہ شیرنی نا وہ شیر
چوہو! بھاگو بلی آئی۔۔۔ بلی کب خرگوش ہے بھائی
اس نئی دم میں ایک مصیبت اور بھی تھی کہ جب وہ گھاس پر اپنی دم مارتا تو اکثر چیزیں اس کی دم سے چمٹ جاتیں۔پہلے دو تین گوکھرو اس میں چبھے،پھر کچھ دو شاخے کانٹے،بہت سی جوئیں چڑھیں، کچھ گھاس کے تنکے اور صنوبر کے کاٹنے لگے۔غرض زمین کی چھوٹی چھوٹی چیزوں نے غریب کی دم کو ساجھے کی ہنڈیا بنا لیا تھا۔ناشکرے نے ہر چند جھٹکا،رگڑا مگر بے فائدہ۔ پھر اس نے دم کو چاٹنے کی کوشش کی، لیکن سوائے اس کے کہ وہ گیلی ہو جائے کوئی خاص نتیجہ نہیں نکلا۔پھر اس نے کوشش کی کہ جس طرح بلیاں کانٹوں کو کاٹتی ہیں یہ بھی کاٹے۔مگر کامیابی نہیں ہوئی،بلکہ اس کش مکش میں اس نے اپنے روؤں کے بوٹے اڑا لیے اور آخر میں بری طرح اپنے آپ کو کاٹ لیا۔
اب اس نے سوچا پہاڑی سے اتر کر نیچے جائے اور وہاں اپنی دم کی نمائش کرے کہ یہ بھی کوئی چیز ہے، لیکن وہ ابھی روانہ بھی نہیں ہوا تھا کہ ایک نیل کنٹھ زور سے چلاتا اور پروں کو پھڑ پھڑاتا اس کے سر پر سے اڑتا ہوا گزرا۔اس کے ایک لمحے بعد ایک فاختہ سامنے کی طرف سے اس کی جانب آئی۔پھر تین کوے آئے جن میں سے ایک تو درخت پر بیٹھ گیا اور دو اس کے اوپر اڑتے ہوئے کائیں کائیں کرنے لگے۔تیسرے نے بھی درخت پر بیٹھے بیٹھے ان کوؤں کی آواز میں آواز ملائی۔غرض نیل کنٹھ، کوے اور فاختہ نے میاں ناشکرے کی آمد کا باضابطہ اعلان کر دیا۔یعنی
اپنے بچوں سے رہیں سارے پرندے ہوشیار۔۔۔ آج خرگوش چلے آتے ہیں بلی بن کر
وہ پوری طاقت سے چلایا۔”تم ٹھیک کہتے ہو۔مجھ سے ڈرو نہیں۔میں بلی نہیں ہوں۔ارے میں تو وہی تمہارا ناشکرا خرگوش ہوں۔“ لیکن اس کاگارُولی میں کان پڑی آواز نہیں سنائی دیتی تھی۔وہ بے چارہ خود اپنی آواز نہیں سن سکتا تھا۔اس پر غضب یہ کہ دو جوڑے چڑیا کے غل مچانے کے لیے اور شامل ہوگئے تھے۔
یہ پرندے لمبی گھاس میں صرف دھاری دار لمبی دم ہی دیکھ سکتے تھے اور وہ یقینا بلی کی دم تھی۔بلیوں کو پسند نہیں کرتے تھے۔چنانچہ اپنی ساری بستی میں انہوں نے یہ بات پھیلا دی تھی۔
میاں ناشکرے پہاڑی کی ڈھلان پر چلے جا رہے تھے۔یہاں سے اتر کر ان کے دوستوں اور رشتے داروں کے بھٹ تھے۔ان کا ارادہ تھا کہ ان سب عزیزوں اور دوستوں کو اپنی دم دکھائیں اور ان سے دادلیں،لیکن انہیں اس کی خبر نہ تھی کہ ان پرندوں نے اگر وہاں اس بات کی خبر کر دی تو کیا ہوگا۔یہی ہوگا کہ پہاڑی کا ہر چھوٹا جانور یہ کہتا ہوا بھاگے گا۔”بلی سے ہوشیار،بلی آئی“ اور وہ سب جانور اپنے بلوں اور بھٹوں میں گھس کر اندر سے دروازے بند کر لیں گے۔
لیکن وہ چلتا رہا، اس لیے کہ اس کے سوا اور وہ کرتا بھی کیا۔نیل کنٹھوں اور کوؤں نے زیادہ سے زیادہ غل مچایااور وہ اس کے سر پر اڑنے لگے۔جب انہوں نے دیکھا کہ یہ بلی نما خرگوش نہ تو جھپٹتا ہے نہ حملہ کرتا ہے تو نیل کنٹھ نے اپنی دم زور سے ماری اور کوے نے بھی دو چار ٹھونگیں لگائیں۔اس حالت میں بے چارہ جوں توں کرکے اپنے گھر پہنچا لیکن جس بات کا اسے ڈر تھا، آخر وہ سامنے آئی۔نہ تو گھر کھلا ہوا تھا نہ کوئی گھر کے آس پاس تھا۔اس نے چیخ چیخ کر آوازیں دینی شروع کیں۔”اماں جان! ابا جان! میں ہوں نا شکرا۔دروازہ کھولو۔“لیکن اس کی آواز کون سنتا تھا۔جب چیختے چیختے تھک گیا تو پھر اپنے چچا کے بھٹ پر پہنچا۔وہاں اس کے چچا زاد بھائی بھی رہتے تھے اور انہی کو خاص طور پر یہ اپنی دم بھی دکھانا چاہتا تھا۔ وہ بھی بند تھا۔جنگلی چوہیاں،نیولے اور گلہریاں یہاں تک کہ سیھ اور کٹھ پھوڑے تک سب غائب تھے۔
اس پہاڑی پر ایک بنگلے میں کوئی عورت رہتی تھی۔وہ یہ شور و غل سن کر باہر نکل آئی اور بلی کی دم دیکھ کر اس نے اپنے لڑکے کو بلایا اور کہا۔”بیٹا! یہاں ایک عجیب قسم کی بلی آگئی ہے جو پرندوں کو ستا رہی ہے۔اگر تم اسے بھگا سکتے ہو تو بھگا دو۔“
یہ لڑکا وہی لڑکا تھا جس نے جال لگا رکھا تھا۔چنانچہ اس نے بہت سے پتھر جمع کیے اور بلی کو دیکھنے چلا۔اسے صرف ایک دھاری دار بلی کی دم لہراتی نظر آئی اور اس نے پتھر پھینکنے شروع کیے مگر ادھر ادھر بچا کر تاکہ بلی بھاگ جائے اور اسے کوئی تکلیف نہ پہنچے۔
پہلا پتھر جو اس کے پیچھے آکر پڑا تو وہ بائیں ہاتھ کو کودا۔اتنے میں ایک اس کے اوپر اور دوسرا اس کے سامنے گرا۔پھر تو گویا پتھروں کی بارش سی ہونے لگی۔غنیمت یہ کہ پھینکنے والا بچاکر پھینک رہا تھا ورنہ ناشکرے وہیں ڈھیر ہو جاتے۔تاہم ایک آدھ پتھر ان کے لگ بھی گیا اور یہ غریب اس بارش سے بچنے کے لیے اتنا دوڑے کہ تھک کر چور ہو گئے۔
نیل کنٹھ،کوے اور دوسرے پرندے پتھروں کی بوچھاڑ دیکھ کر پیچھے رک گئے تھے۔لیکن ان کے رکنے سے کیا ہوتا تھا۔دم کی مصیبت تو ساتھ لگی ہوئی تھی جس میں کانٹے اور خدا جانے کیا الا بلا لگی ہوئی تھی جو دوڑنے اور بھاگنے میں جھاڑیوں سے الجھتی تھی اور جس کے بال بری طرح نچ گئے تھے۔
اب پتھر برسنے بند ہوگئے تھے اور پرندوں نے بھی پیچھا چھوڑ دیا تھا۔ صرف ایک کوا رہ گیا تھا جو صنوبر کے درخت کی پھننگ پر بیٹھا کائیں کائیں کر لیتا تھا۔ناشکرے نے سوچا کہ بونے صاحب کے گھر کے سوا کوئی دوسری جگہ امن کی نہیں، بس وہیں چلنا چاہیے۔شام بھی ہو گئی تھی۔ٹھنڈی پروا ہوا چلنے لگی اور ننھی ننھی پھواریں پڑنے لگیں۔نا شکرا ویسے ہی تھک کر چور ہو گیا تھا۔سردی الگ لگ رہی تھی۔بھوک سے جدا نڈھال تھا۔دم کی سوجن اب درد کر رہی تھی اور نیل کنٹھ نے جہاں جھپٹا مارا تھا، اس میں ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔اس حالت میں بڑی مشکل سے بونے صاحب کے گھر تک پہنچا۔مگر وہاں دروازے پر ایک چھوٹی سی تختی پر یہ لکھا نظر آیا۔
”سو رہا ہوں،پریشان نہ کرو۔“
مثل مشہور ہے۔”جہاں جائیے بھوکا، وہیں پڑے سوکھا۔“بے چارہ ایک جھاڑی میں دبک کر بیٹھ گیا اور گیلے پتوں میں پناہ لی۔اب بارش تیز ہوگئی تھی اور میاں ناشکرے کی دم بری طرح پھڑک رہی تھی۔رات کی تاریکی خوب پھیل چکی تھی۔ناشکرا اپنی دم کی مصیبت سے تھکا ماندہ سو رہا تھا۔آخر اسے نیند آگئی۔

غرور
۔۔۔
میاں ناشکرے اس وقت جا گے جب سورج کی چمک ان کی آنکھوں میں پہنچی۔مینہ تھم چکا تھا اور صبح اپنی گرماگرمی کے ساتھ بھرپور تھی لیکن ناشکرے میاں زندگی سے بیزار،بھیگے سیلے اور اکڑے ہوئے ایک جھاڑی سے نکلے۔ان کا جوڑ جوڑ دکھ رہا تھا۔رہی ان کی دم، وہ بھیگی اور سوجی ہوئی کیچڑ میں لت پت کانٹوں سے بھری اور چوٹ پر چوٹ کھائی ہوئی تھی۔وہ اس کو ہلانا بھی نہیں چاہتے تھے۔اس لئے بیچارے نے اپنی دم کو گیلی زمین پر ہی پڑا رہنے دیا۔
اتفاق سے ایک کالا ناگ بل کھاتا ہوا آ پہنچا۔اس نے اپنی پرانی کینچلی اتار ڈالی تھی اور نئی چمک دار پوشاک میں بڑی چستی اور فخر محسوس کر رہا تھا۔کالی چمک دار کھپروں والی کھال نے اس کی خوب صورتی بڑھا دی تھی۔اس نے ناشکرے کونڈھال دیکھ کر پوچھا۔”کیوں بھئی! خیریت تو ہے۔تمہاری دم کو کیا ہوا۔یہ آخر کس کی دم ہے؟ تمہاری تو ہوسکتی نہیں۔یہ تو بلی کی دم ہے جو تم پر لگائی گئی ہے، لیکن کسی بلی کی دم میں تو یہ الا بلا نہیں ہوتی۔آخر یہ کیا ہے؟“ناشکرا بڑا شرمندہ ہوا اور اس نے ساری رام کہانی سنادی کہ یوں میں نے بونے صاحب کو جال سے رہائی دلوائی اور میری ہی فرمائش پر انہوں نے یہ دم لگائی۔سانپ نے یہ سب ماجرا سن کر کہا کہ”میں اتنا ضرور کہوں گا کہ تمہاری پسند کی یہ چیز بڑی گھٹیا رہی۔بیوقوفی کی باتوں میں جو میں نے سنی ہیں،یہ بات سب سے بڑھ کر نکلی،خاص طور پر تمہارے جیسے ایک خرگوش کے لیے۔ غالباً تمہارے سوا اب کوئی دنیا میں ایسا نہ ہو گا جو اس لمبی سمور والی مصیبت کو مول لے۔“پھر اس نے اپنی دم کو جھٹکا دے کر اور دھوپ میں پھیلا کر کہا۔”لو دیکھو! میں اسے دم کہتا ہوں۔اس کی تراش کتنی صاف ہے ہے،کتنی کارآمد اور بے ضرر۔اگر میں یہ کہوں کہ خوبصورت بھی ہے تو کچھ بے جا نہیں۔یہ وہ دم ہے جو نہ کیچڑ میں بھرے گی،نہ ہی اس میں داغ دھبے لگیں گے،نہ کانٹے چبھیں گے،بطخ کی طرح پانی میں نہاتی ہے اور اس میں سچی زندگی ہے۔سورج کی روشنی میں چمکتی ہے۔اس میں بے حد کشش ہے۔کیسی صاف ستھری ہے۔“ناشکرے نے یہ سن کر اس کی دم کو رشک سے دیکھا اور کہا۔”میرا خیال ہے ایک ایسی دم مجھے بھی لگا لینی چاہیے۔“سانپ نے ہنس کر کہا۔”تمہاری اس واہیات دم سے ہر چیز اچھی رہے گی۔تم بونے صاحب سے اس کام کے لیے کیوں نہیں کہتے۔“اور وہ ہنستا ہوا رینگ کر ایک طرف کو چل دیا۔
اس لمحے بونے صاحب اپنے دروازے سے باہر نکلے ہوئے تھے۔انہوں نے سورج کی چمک دار روشنی میں ادھر ادھر نظریں دوڑائیں۔ہاتھ پاؤں پھیلائے۔جماہی لی اور وہ تختی اتاری جس پر لکھا تھا۔”سو رہا ہوں،پریشان نہ کرو۔“ وہ پھر اندر جانے ہی والے تھے کہ ان کی نظر ناشکرے پر پڑی اور انہوں نے محبت بھرے دل سے کہا۔”خیر تو ہے میاں ناشکرے،تم اداس کیوں ہو۔یہ تمہیں کیا ہوا؟“
ناشکرے نے مری ہوئی آواز سے جواب دیا۔”میری صورت اس سوال کا جواب ہے۔“ابھی اس نے اپنی کہانی شروع کی تھی کہ بونے صاحب نے کہا۔”پہلے اندر چلو، میرے ناشتے کا وقت ہے۔ گوشت ٹھنڈا ہو رہا ہے۔ تم بھی ناشتہ کر کے گرم ہو جاؤ۔ہوش و حواس درست ہو جائیں،تب یہ قصہ سنانا۔اس وقت میں بھی توجہ سے سنوں گا۔“
کمرہ گرم اور بڑے آرام کا تھا۔تازہ بسکٹوں اور بھنے ہوئے گوشت کی خوشبو سے بسا ہوا تھا۔کافی کی گرم گرم خوشبو نے کمرے کی فضا کو خوشگوار بنا دیا تھا۔بونے نے ناشکرے کو کرسی پر بیٹھ جانے کا اشارہ کیا۔وہ پھدک کر کرسی پر جا بیٹھا۔بونے صاحب نے ایک گاجر،آدھا تازہ سلاد اور ایک سیب کھانے کو دیا۔اس کو اپنی مصیبت میں بھوک کا خیال بھی نہ تھا۔لیکن کھانے کی خوشبو نے پیٹ میں آگ لگا دی۔ چنانچہ خوب پیٹ بھر کر کھایا۔ ادھر بونے صاحب نے گوشت، انڈوں اور کافی کا صفایا کردیا۔ جب تک دونوں کے ناشتے ختم ہوئے،اس وقت تک ناشکرے میاں خوب گرم بھی ہو لیے اور سوکھ بھی گئے۔اس وقت وہ خوش خوش تھے۔ پچھلی رات کو تو اس نے کچھ عرصے کے لیے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ اپنی پرانی دم واپس لے لے گا مگر اب جو ذرا آرام ملا تو ایک دوسری نئی دم کا تجربہ کرنے کا شوق چرانے لگا اور پچھلی ساری تکلیفیں بھول گیا۔
ناشتے سے فارغ ہو کر بونے صاحب نے ساری بپتا سنی۔بہت ہنسے اور بولے ”میرا خیال ہے یہ ایک غلطی تھی۔ایسی غلطی جس کی توقع ایک بھولے بھالے ناشکرے خرگوش سے بھی نہیں ہوسکتی۔ اچھا اب تم کسی اور دم کو آزمانا چاہتے ہو۔“
نا شکرے خرگوش نے کالے ناگ سے جو بات چیت کی تھی اور کالے ناگ نے اپنی دم کے جو فائدے بتائے تھے،وہ سب بونے صاحب سے کہے اور دبی زبان سے یہ بھی کہا کہ آپ کو زحمت نہ ہو تو یہ دم الگ کرکے کالے سانپ کی دم لگا دیجئے۔
بونے صاحب بولے۔”ہاں یہ بات جو تم کہتے ہو دل کو لگنے والی ہے۔یہ صاف شفاف ضرور رہے گی مگر یہ بتاؤ تم کون سے سانپ کی دم لگانا چاہتے ہو۔کالے ناگ کی یا کوڑیالے کی،چنبیلیا کی یا دوموئی کی،افعی کی یا ناگ چکی کی۔ناگ چکی کی دم واقعی بڑا لطف پیدا کرے گی۔اس کی جھنجھناہٹ کی خوفناک آواز دن دہاڑے تمہارے دوستوں اور رشتے داروں کو ڈرا دے گی۔“
ناشکرے نے سوچ کر کہا۔”مجھ جیسے بے وقوف خرگوش کے لیے آپ کا یہ خیال کچھ مناسب نہیں معلوم ہوتا۔میرے ماں باپ تو پہلے ہی مجھ سے خفا رہتے ہیں۔میں اکثر راتوں کو گھر نہیں پہنچتا۔اگر دن کو بھی میں نے یہ ڈرانے والی حرکتیں کی تو نہ جانے کیا ہوگا۔اس لئے بس کالے ناگ کی دم ہی ٹھیک رہے گی۔“
بونے صاحب نے کہا۔”اچھا میاں جیسی دم چاہتے ہو ویسی لگا دیں گے۔لیکن ایک بات پوچھنے کی اور ہے اور وہ یہ کہ سانپ کی دم اصل میں ہے کیا؟یعنی میرا مطلب یہ ہے کہ آخر وہ شروع کہاں سے ہوتی ہے اور ختم کہاں ہوتی ہے۔میرے خیال میں تو اس کی دم اس کے کانوں کے پیچھے ہی سے شروع ہوجاتی ہے۔بشرطیکہ اس کے کان ہوں بھی۔لیکن میرے دیکھنے میں تو یہ آیا ہے کہ وہ تو سارے کا سارا دم ہی ہوتا ہے۔“
یہ سن کر نا شکرے میاں بولے۔”اتنی لمبی نہیں ہونی چاہیے۔بہت بری لگے گی۔بس زیادہ سے زیادہ میرے قد کے برابر ہونی چاہیے۔“
بونے صاحب نے کہا۔”بہت اچھا، پھدک کر یہاں آؤ۔میں جو کچھ کرسکتا ہوں اس میں کمی نہیں کروں گا۔اپنی آنکھیں اچھی طرح بند کر لو اور اپنے پنجے ان پر رکھ لو۔خبردار جو ذرا بھی جھا نکا۔“
پتھر کی کنڈالی چولہے پر چڑھی ہوئی تھی۔ناشکرے میاں پھدک کر میز پر چڑھ گئے۔اپنی آنکھیں بند کر لیں اور ان پر پنجے رکھ لیے۔اب ان کی ناک میں پھر وہی عجیب و غریب مہک آئی اور آہستہ آہستہ بلی کی دم کی پھڑکن جاتی رہی۔ پھر یکایک بونے صاحب اس کی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے چیخے۔ ”خوب خوب! لو دیکھو۔“
ناشکرے نے اپنی گردن موڑ کر جو دیکھا تو اسے کالے سانپ کی دم نظر آئی۔اس سے بھی عمدہ جو اس نے کالے ناگ کی صبح ہی صبح دیکھی تھی۔وہ کالی،چکنی اور چمک دار تھی۔اور اس پر تین خوب صورت سنہری دھاریاں بھی پڑی ہوئی تھیں۔اور وہ سکڑ اور پھیل کر اپنے جان دار اور زور دار ہونے کا ثبوت دے رہی تھی۔اس نے دم کی کنڈلی ماری اور اس سے اپنے کان کو گدگدایا اور اسکی چمک دار چکناہٹ کو اپنے پنجوں سے محسوس کیا،پھر اس کے منہ سے بے اختیار نکلا۔”واہ سبحان اللہ! یہ یقینا دنیا میں ایک عجیب و غریب دم ہے۔“
بونے صاحب نے بھی ہاں میں ہاں ملائی کہ واقعی بری تو نہیں ہے لیکن میں جتنی چاہتا تھا اس سے کچھ لمبی ہوگئی ہے۔ پھر بھی بری نہیں معلوم ہوتی۔نا شکر ے نے بونے صاحب کا پھر ایک بار شکریہ ادا کیا۔
بونے صاحب نے اپنا پائپ سلگایا اور آرام کرسی پر دراز ہو گئے اور بولے۔”ہاں ذرا اس دم کی بانگی تو دکھاؤ۔“
ناشکرے خرگوش نے جلدی جلدی ناشتے کے سارے جھوٹے برتن جمع کیے۔انہیں دھویا اور پونچھا۔اس کے بعد دم کا کھیل اس طرح شروع ہوا کہ میاں ناشکرے اپنی دم پیالیوں کی ڈنڈیوں میں پروتے اور انہیں اٹھا کر الماری میں رکھ دیتے یا نہایت آسانی کے ساتھ کانٹے اور چمچے اٹھا لیتے اور انہیں درازوں میں ڈال دیتے۔جب اس کام سے فارغ ہوئے تو انہوں نے اپنی دم کو صافی سے صاف کیا اور صافی کو صفائی سے لٹکا دیا۔
بونے صاحب نے یہ دیکھ کر کہا۔”واقعی یہ تو بڑی کارآمد اور خوب صورت ہے۔اب بھاگے بھاگے جاؤ اور اسے اپنے دوستوں اور رشتے داروں کو بھی دکھاؤ۔تم اسی کے لئے مچل رہے تھے نا۔لیکن اب اس دم کو تکلیف سے بچانے کی کوشش کرتے رہنا۔ اگر خدا نخواستہ تمہارا کام اس دم سے بھی پوری طرح نہ چلے تو بڑی خوشی سے میرے پاس آ جانا اور اسے بدلوا لینا۔“
نا شکرے میاں نے پھر شکریہ ادا کیا اور قدم بڑھا کر روانہ ہو گئے، لیکن اس مرتبہ انہوں نے اپنی دم کو اچھی طرح پیٹھ پر ڈال لیا تاکہ دروازہ بند کرتے وقت پہلے کی طرح کچل نہ جائے۔

بے عزتی
۔۔۔۔۔
میاں ناشکرے اپنے فخر اور گھمنڈ میں پہاڑی سے نیچے اتر رہے تھے۔وہ انہیں ٹڈوں کے پاس سے گزرے جن پر کل تاک لگا کر اچھلے تھے اور ناکامی پر پھبتیاں سنی تھیں۔اس مرتبہ انہوں نے ”نا شکرے پھس،ناشکرے پھس“کے فقرے کسے۔ناشکرے کو غصہ آیا تو انہوں نے ایک بڑے ٹڈے پر اپنی نئی دم ایسی پھرا کر ماری کہ وہ ہوا میں دس فٹ اونچا قلابازیاں کھاتا ہوا گیا۔ایک مکھی ان کی پیٹھ پر بھنبھنائی۔انہوں نے اسے بھی اپنی دم کے ایک ہی چٹخارے سے آسانی کے ساتھ ٹڈے کی طرح اڑا دیا۔اب انہیں یقین ہوگیا کہ سچ مچ یہ بڑے کام کی دم ہے۔پھر جب وہ پھدک پھدک کر چل رہے تھے تو انہوں نے اپنی دم سے چند کھلے ہوئے پھول توڑے اور اس طرح تفریح حاصل کی۔اس سے نیت بھری تو چابُک کی طرح اپنی دم کو پھٹکارنے کی مشق کی اور دل میں کہنے لگے۔”یہ تو اچھا خاصا ایک تماشا ہے۔ دنیا میں پہلا خرگوش میں ہوں گا جو اپنی دم کو کوچوان کے چابک کی طرح پھٹکار سکتا ہے۔میں اسے ضرور اپنے چچا زاد بھائی میاں لَم کنّے کو دکھاؤں گا۔وہ اسے دیکھ کر جل ہی تو جائے گا۔وہ ہمیشہ اپنی بڑائی جتاکر حکم چلایا کرتا ہے۔مانا کہ وہ مجھ سے عمر میں کچھ بڑا ہے لیکن بزرگی عقل سے ہوتی ہے۔عمر سے نہیں۔اب وہ مجھ سے کیا دُون کی لے گا اور لے گا تو نیچا دیکھے گا۔“
یہ سوچ کر نا شکرا سیدھا اپنے چچا کے بھٹ پر پہنچا۔اس کی چچا زاد بہنیں اور بھائی میدان میں کھیل رہے تھے۔انہیں دیکھتے ہی اس نے اپنی دم پھٹکارنی شروع کی۔وہ سب اپنا کھیل کود چھوڑ چھاڑ اس کے گرد اکٹھے ہو گئے اور اس کی اس حالت کو دیکھ کر تعجب تو کیا مگر زیادہ اثر نہیں لیا۔اور میاں لم کنے نے تو بالکل توجہ ہی نہیں کی اور طنز کے طور پر کہا تو یہ کہا کہ”یہ چوہے کی پرانی دم کہاں سے لگا لائے۔اس دم سے تو اچھے خاصے چوہے نظر آتے ہو۔“
ناشکرے نے بھنا کر کہا۔”نہ میں چوہا ہوں نا یہ چوہے کی دم ہے۔ذرا آنکھیں کھول کر دیکھو یہ تو کالے سانپ کی دم ہے۔“اس نے اس دم کو زمین پر پھیلا دیا اور وہ گھاس پر سانپ کی طرح لہرانے لگی۔اس کی چچا زاد بہنیں یہ دیکھ کر ڈریں اور چیخ مار کر بھاگ گئیں لیکن میاں لم کنے اوپر ہوا میں زور سے اچھلے اور دھم سے اس کی نئی خوب صورت دم پر آپڑے۔میاں ناشکری کی اس ضرب سے چیخ نکل پڑی۔شیخی میں آکر لم کنے سے کہا۔”میں اپنی دم سے اتنے کام لے سکتا ہوں کہ تم نہیں لے سکتے۔“یہ کہہ کر اپنی دم کو جھٹکا دیا اور بڑی صفائی کے ساتھ ایک جنگلی پھول توڑ لیا۔
لم کنے نے کہا۔”یہ بھی کوئی کمال ہے“ اور جھٹ اوپر اچھل کر ایسی لات ماری کہ دوسرا پھول بڑی صفائی کے ساتھ ٹوٹ کر گر پڑا۔میاں ناشکرے نے کھسیانے ہو کر کہا”لیکن یہ کام تم اپنی دم سے تو نہیں لے سکتے۔“لم کنے نے کہا۔”دم سے نہ لیا لات سے لیا۔سانپ کی دم سہی کوئی سرخاب کا پر تو نہیں۔“پھر میاں ناشکرے نے شیخی سے کہا۔”میں اپنی دم سے اپنا کان کھجا سکتا ہوں۔تم یہ کام نہیں کر سکتے۔“لم کنے نے اس کا جواب تو دیا نہیں لیکن اپنے سیدھے کان کو پھڑ پھڑایا اور پچھلے پیر سے اسے گدگدایا۔نا شکر نے اپنی چمک دار دم کو دھوپ میں لہراتے ہوئے اور چمکاتے ہوئے کہا۔”بہر حال ہے یہ خوبصورت۔“
لم کنے نے ہنس کر کہا۔”ہاں چوہے کی دم کی طرح خوبصورت ہے۔“پھر اس نے مذاق میں کہنا شروع کیا۔”ناشکرا چوہا! ناشکرا چوہا!!“ یہ سن کر دوسرے چچازاد بہن بھائیوں نے مل کر ایک گھیرا بنا لیا اور اچھل اچھل کر کہنے لگے۔”ناشکری چوہا! ناشکرا چوہا!!“
سکنک اور وڈچک نے جو یہ شور غل سنا تو وہ یہ دیکھنے کے لئے آ گئے کہ آخر معاملہ کیا ہے۔جب سکنک کی نظر ناشکرے پر پڑی تو اس نے کہا۔”خدا کے لئے یہ تو بتاؤ کہ تم کو اگر نئی دم لگوانی تھی تو سانپ کی دم کیوں پسند کی۔کوئی اچھی دم پسند کرتے۔“اور فخر سے اپنی خوبصورت کالی اور سفید دم ہوا میں لہرائی۔
ناشکرے نے کہا۔”واقعی مجھے اس کا خیال نہیں آیا۔“وڈچک بولا۔”بعض لوگوں کی عادت ہے کہ وہ کبھی مطمئن نہیں ہوتے۔آخر تمہارے ماں باپ کا اس دم کے بارے میں کیا خیال ہے؟“
ناشکرے نے کہا۔”مجھے اپنے ماں باپ کی رائے کے بارے میں کچھ خبر نہیں۔“وڈچک نے کہا۔”پھر بہتر یہ ہے کہ ان کی رائے معلوم کرو۔“اور وہ چلا گیا۔
ناشکرے نے پھر سوچنا شروع کیا اور جتنا وہ سوچتا تھا اتنی ہی بے چینی بڑھتی تھی۔وہ جانتا تھا کہ ماں باپ پہلے ہی سے اس کے غائب ہونے پر ناخوش ہوں گے اور اسے یہ بھی خیال تھا کہ وہ اس کی نئی دم دیکھ کر شاید ہی خوش ہوں۔آخر اس نے سوچا کہ گھر چلنا ہی اچھا ہے۔ان سے ہاتھا پائی کرنے سے کیا نتیجہ۔لہٰذا وہ اپنے چچا زاد بھائی بہنوں کے گھیرے سے بچ کر نکلا۔وہ سب ابھی تک چاؤں چاؤں کر رہے تھے۔اس نے چلتے چلتے لم کنے سے کہا۔”بات تو کچھ بھی نہیں تم خواہ مخواہ جلے مرتے ہو۔“پھر اس کے دم پھرا کر ماری۔ لم کنا پیچھے دوڑا اور اس کے پیچھے دوسرے خرگوش بھی۔کچھ دور تک انہوں نے اس کا پیچھا کیا اور یہی نعرے لگاتے رہے۔”نا شکرا سانپ! نا شکرا سانپ!!“
آخر وہ تھک تھکا کر لوٹ گئے اور اپنے دوسرے دھندوں میں لگ گئے۔جب وہ اپنے بھٹ کے پاس پہنچا تو ماں اسے دیکھ کر دوڑی اور کہا۔”میرے پیارے ناشکرے! تم نے ہمیں بڑا پریشان کیا۔ یہ تو بتاؤ اتنے دن رہے کہاں؟“اور جب اس کی نظر اچانک دم پر پڑی تو وہ دم بخود رہ گئی۔چہرے کا رنگ خوف کے مارے اڑ گیا اور گھبرا کر پوچھنے لگی۔”بیٹا! یہ تمہیں کیا ہوگیا؟اف کیسی خوفناک دم ہے!“ اور پھر رونا شروع کر دیا۔
اتنی دیر میں اس کا باپ بھی آ گیا اور وہ بھی اس دم کو خوف اور حیرت سے دیکھنے لگا۔جب نہ رہا گیا تو بولا۔”یہ دم مجھے کچلنے والی وہ مار ہے جو آج سے پہلے کبھی مجھ پر نہیں پڑی۔بعض دشمنوں نے گاہے گاہے یہ افواہ اڑائی کہ ہمارے خاندان میں چوہے کی نسل کا خون ہے۔میں نے ہمیشہ ان شک اور شبہ والی باتوں کی پرزور مخالفت کی۔لیکن تم جیسی نالائق اولاد نے کھلم کھلا چوہے کا جوڑ لگا کر ثابت کر دیا کہ میرا کہنا سب غلط۔ہائے رے بے عزتی۔ہائے رے ذلت۔“پھر چیخ کر بولا۔”جاؤ یہاں سے سے دفان ہو جاؤ۔خبردار جو پھر اپنا کالا منہ اور چوہے جیسی دم لگا کر اس گھر میں گھسے۔“
نا شکرے نے ہرچند کہا کہ یہ چوہے کی دم نہیں ہے یہ تو سانپ کی دم ہے۔پہاڑی پر جو بونے صاحب رہتے ہیں انہوں نے لگا دی ہے۔پھر ساری داستان سنانی چاہی مگر باپ نے جھلا کر کہا۔میں کچھ سننا نہیں چاہتا! ماں بیچاری مامتا کی ماری نہیں چاہتی تھی کہ بیٹا گھر سے نکالا جائے۔اس نے بیٹے کو پکڑنے کے لیے قدم بڑھائے مگر باپ نے اس کو پیچھے سے پکڑ لیا اور ناشکرے سے کہا،”چلے جاؤ۔فوراً نکل جاؤ۔“چنانچہ ناشکرے میاں چل دیے اور ان کی دم پیچھے پیچھے گھسٹتی ہوئی جا رہی تھی۔
اب نہ دم سے پھول توڑنے کا خیال تھا نہ اسے دھوپ میں چمکانے کا۔ بیچارے کو بھوک بھی ستا رہی تھی۔ اپنے خیال میں وہ مزیدار کھانا ڈھونڈ رہا تھا جو اس کی ماں رونے دھونے سے نمٹ کر پکاتی اور اسے کھلاتی۔
کچھ دور چل کر وہ ٹھہر گیا اور تھوڑی سی میٹھی میٹھی گھاس کھائی۔ مزہ تو نہیں آیا مگر بھوک تو دب گئی۔ اب وہ یہ خیال کر رہا تھا کہ اس نئی دم میں بھی کوئی خاص کامیابی نہیں ہوئی بلکہ گھر سے نکالا بھی مل گیا اور اپنے بیگانے ہو گئے۔واہ رے میری دم کی قسمت۔چونکہ دن بھر کی کھکیڑ اٹھائے ہوئے تھا۔ اب اسے نیند بھی آ رہی تھی، اس لیے وہیں ایک جھاڑی میں سونے کے ارادے سے لیٹ گیا۔جھاڑی کے پاس درخت تھا۔ اس پر ایک نیل کنٹھ”ناشکرا چوہا!“ کے فقرے کس رہا تھا۔اس نے سر اٹھا کر کہا۔”بس خاموش رہو شور مت مچاؤ۔“
اتفاق دیکھو کہ جس گاڑی میں اس نے سونا پسند کیا وہ اس رستے کے کنارے تھی جو پہاڑی پر جاتا تھا اور یہ بھی اتفاق ہی تھا کہ جب وہ سونے کے لئے لیٹا تو اس کی لمبی سانپ جیسی دم بیچ سڑک پر لہرا رہی تھی۔سورج گرم تھا اور ناشکرے میاں گہری نیند کے مزے لے رہے تھے کہ تیسرے پہر کے قریب ایک باغبان میاں فیروز کا ادھر سے گزر ہوا۔اس کے کندھے پر بیلچہ تھا اور وہ پہاڑی کے اوپر بڑے بنگلے میں پودوں کی دیکھ بھال کرنے جارہا تھا۔یہ شخص بڑا نیک اور رحم دل انسان تھا۔اس نے کبھی کسی جاندار کو تکلیف نہیں پہنچائی تھی مگر وہ سانپوں سے بہت ڈرتا تھا اور وقت پڑے پر ان کو مار ڈالنے میں کوئی جھجک محسوس نہ کرتا تھا۔جوں ہی وہ قریب آیا تو اسے سانپ کی لمبی دم دکھائی دی۔بس اسے دیکھتے ہی بیلچے کا بھرپور ہاتھ پڑا۔ناشکرے میاں بے خبر سو رہے تھے۔ اس ناگہانی مصیبت سے چیختے ہوئے کوئی چھ فٹ اونچی چھلانگ ماری اور اپنی دم کو وہیں چھوڑ کر بے تحاشا پہاڑی پر بھاگے۔فیروز نے یہ چیخ سن لی تھی۔دل میں کہا۔”الٰہی خیر! کیا میرے ہاتھ سے کسی جانور کا خون ہو گیا،مگر یہ تو سانپ کی دم ہے۔“سانپ کے باقی حصے کو تلاش کیا۔کہیں نہیں ملا۔تب اس نے اپنا سر کھجاتے ہوئے کہا۔”دنیا میں کیا کیا عجیب باتیں ہوتی ہیں۔“دم کو راستے سے ایک طرف ہٹا کر اپنے کام کو روانہ ہوا۔
ناشکرے میاں جھاڑیوں کو الانگتے پھلانگتے بونے صاحب کے گھر گویا اڑے چلے جا رہے تھے۔ان کی دم کی جگہ انگارے کی طرح جل رہی تھی۔بے حد تکلیف تھی۔اس لئے انہوں نے یہ بھی نہیں دیکھا کہ بونے صاحب کے دروازے میں کوئی تختی لگی ہوئی بھی ہے یا نہیں۔ بس جھپٹ کر دروازہ کھولا۔ گرتے پڑتے سیڑھیوں پر سے اترے اور چیختے چلاتے کمرے میں پہنچے۔جہاں بونے صاحب دوپہر کا کھانا کھا کر سگار پی رہے تھے۔ناشکرے کمرے کے چاروں طرف بھاگے بھاگے پھر رہے تھے۔منہ سے کچھ نہیں کہا لیکن بونے صاحب سب کچھ سمجھ گئے تھے۔وہ جلدی سے اٹھے اور چولہے پر وہی پتھر کی کنڈالی اٹھا کر رکھ دی اور کہا صبر کرو یہ گرم ہو رہی ہے۔
پھر کہا۔”اب آؤ۔میز پر پھدک کر چڑھو۔ آنکھیں بند کرلو۔ خبر دار جھانکنا نہیں۔“
نا شکرے میاں میز پر آگئے اور کانپتے،سبکیاں لیتے لمبے لیٹ گئے۔پتھر کی کنڈالی میں سے وہی عجیب مگر خوشگوار مہک پھوٹ رہی تھی۔اس کا دھواں جب دم سے لگا تو درد فوراً رک گیا اور آہستہ آہستہ بالکل جاتا رہا۔ناشکرے خرگوش کے جب اوسان بجا ہوئے تو بونے صاحب نے پوچھا کہ”ہاں میاں! بتاؤ اب تمہیں کس طرح کی دم چاہیے۔“ناشکرے نے جواب دیا۔”اگر آپ کو تکلیف نہ ہو تو میرے خیال میں میری اپنی اصلی دم ہی ٹھیک رہے گی۔“
بونے صاحب نے کہا۔”اپنی ہی دم لو۔“نا شکرے کی ناک میں پھر وہی عجیب مہک آئی۔انہیں اپنی دم کی جگہ کچھ گرم گرم معلوم ہوا۔پھر بونے صاحب نے ان کی کمر پر ہاتھ پھیرا اور کہا۔”لو وہ آگئی۔بالکل پہلے کی طرح۔وہی پرانی دم۔لو دیکھ لو۔“
ناشکرے نے اپنی گردن پھرا کر جو دیکھا تو واقعی وہی چھوٹی سی پھندنے کی طرح لٹکتی ہوئی دم دکھائی دی۔وہ اس وقت بہت بھلی معلوم ہوتی تھی۔
بونی صاحب نے پینے کو شوربا اور کھانے کو گاجریں اور سلاد دیے۔پھر کہا۔”آؤ تم نے دو دن اور دو راتیں بڑی تکلیف میں بسر کی ہیں۔اس لئے خوب آرام سے سوؤ۔“میاں ناشکرے سونے کے لئے ایک تختے پر چڑھ گئے اور بونے صاحب نے ان پر ایک ہزار جامے کی دلائی ڈال دی اور وہ لیٹتے ہی گہری نیند سوگئے۔

شیخی
۔۔۔
نا شکرے میاں دوسری صبح تک ایسی گہری نیند سوئے کہ بونے صاحب کو انہیں جگانا پڑا۔آج انہیں ناشتا بھی بہت اچھا کرایا گیا۔ وہ کھا پی کر تروتازہ ہوئے اور سب سے بڑی بات یہ کہ وہ اپنی دم کی طرف سے بالکل مطمئن تھے۔
معمول کے مطابق ناشتے کے بعد ناشکرے نے برتن دھوئے اور انہیں قرینے سے الماریوں میں چن دیا۔بونے صاحب نے کہا ”بظاہر تو یقین ہے کہ تم بہت اچھی طرح مطمئن ہو کر اپنے گھر جا رہے ہو لیکن میں کہہ نہیں سکتا کہ یہ اطمینان کب تک رہے، تاہم اگر پھر کسی دم کا تجربہ کرنے کا ارادہ ہو تو میرے پاس ہر وقت آ سکتے ہو۔تمہارا وہ احسان کہ جال سے رہائی دلوائی میرے ہزار احسانوں پر بھاری ہے۔جاؤ! خداحافظ اپنے خاندان والوں کے ساتھ مل جل کر رہو۔“
ناشکرے نے کہا کہ”میں آپ کا بہت ہی شکرگزار ہوں اور اپنے خیال سے عرض کرتا ہوں کہ اب مجھے کسی اور دم کا تجربہ کرنے کی ضرورت نہ ہوگی۔بونے صاحب نے ہنس کر کہا”یہ مانا کہ تمہیں آج خیال نہ ہو مگر ہو سکتا ہے کہ کل تمہیں اس کا خیال ہو جائے۔رائے اور خیالات بدلتے کچھ دیر نہیں لگتی۔ پھر تمہارا حافظہ بھی اچھا نہیں ہے، کیونکہ تم ابھی ننھے خرگوش ہو۔“
میاں ناشکرے ان باتوں کو کیا سمجھتے۔ وہ تو اچھلتے کودتے پہاڑی کے نشیب کی جانب چلے۔ انہیں اپنی پرانی چھوٹی سی دم کے واپس ملنے سے بہت آرام حاصل ہو گیا تھا۔وہ بلی کی دم سے کہیں ہلکی تھی اور سانپ کی دم کی طرح تکلیفوں کا باعث بھی نہ تھی۔دونوں دمیں توگویا اس کی دم کا چھاج بن گئیں تھیں۔خدا خدا کر کے ان سے نجات ہوئی۔ وہ سیدھا اپنے چچا زاد بھائی بہنوں کے پاس پہنچا۔ انہوں نے اسے دیکھ کر پھر مذاق سے کہنا شروع کیا”ناشکرا چوہا! ناشکرا چوہا!!“ اس نے سب کو چھوڑ کر لم کنے کی پسلیوں میں ایک لات جماکر ماری اور اپنے گھر بھاگ گیا۔ جس دم سے باپ ناراض تھا اب وہ نہیں تھی، اس لیے بے کھٹکے اپنے بھٹ میں گھس گیا۔
ماں نے دیکھا تو خوشی کے آنسوؤں سے اس کی اللہ آمیں کی۔ لیکن باپ کو ابھی تک شک تھا، چنانچہ اس نے اس کی دم کے پاس کئی چکر لگائے۔پھر بولا۔”میں نے اب اطمینان کا سانس لیا ہے۔ یہی اس کی اصلی دم ہے۔پہلی دم ایک بناوٹی دم تھی۔اگرچہ تھی وہ ایک بدنصیبی کی نشانی۔خدا کرے اب کبھی اس سے پالا نہ پڑے۔“
نا شکرے نے اپنے باپ کو بونے صاحب کے بارے میں اچھی طرح سمجھایا کہ کس کس طرح اس نے دو دفعہ دمیں لگائیں۔باپ نے کہا۔”مجھے اچھی طرح بلی کا ہوا یاد ہے۔تمہاری بلی کی دم نے ہمیں بہت ڈرایا اور تکلیف پہنچائی۔پھر تم نے جو سانپ کی دم پسند کی وہ بھی کچھ سوچ سمجھ کر کام نہیں کیا۔آخر تو ایک ناشکرے خرگوش ہونا۔خیر! اب تم نے ان تکلیفوں سے بخوبی سبق حاصل کر لیا ہوگا۔مجھے امید ہے کہ آئندہ کوئی ایسی حرکت یا بے عزتی کی بات ہمارے ساتھ نہیں کرو گے۔
مجھے یقین ہے کہ قدرت نے تمہارے ساتھ جو کچھ لگا دیا ہے اور جو کچھ تمہیں میراث میں ملا ہے، اس پر قناعت کرو گے۔آخر خرگوش کی دم میں شرمانے کی کیا بات ہے۔“ناشکرے نے فرمانبرداری کے انداز میں جواب دیا۔”نہیں جناب! ہاں جی جناب!!“ اور ناشتا کرنے اندر چلا گیا۔
دو دن تک تو وہ اپنی پھویا سی دم پر قناعت کیے رہا۔بلکہ بھٹ میں اپنی ماں کا ہاتھ بھی بٹاتا رہا۔ بھائی بہنوں کے ساتھ کھیلتا رہا اور ہنسی ہنسی میں لڑا جھگڑا بھی اور اس دوران میں اسے کسی لمبی دم کا خیال بھی نہ آیا۔
نا شکرے نے پورے چار دن تک نئی دم کے تمام واقعات کو بھلائے رکھا مگر پانچویں دن اسے اپنی دم کی طرف سے اطمینان جاتا رہا، جیسا کہ بونے میاں نے کہا تھا۔ واقعی اس کا حافظہ بہت کمزور نکلا۔آخر کو ناشکرا تھا نا۔بالآخر چھٹے دن اس کی ملاقات سرخ لومڑی سے ہوگئی۔اس نے سرخ لومڑی کی دم کیا دیکھی گویا باسی کڑھی میں ابال آ گیا۔اس کے دل میں پھر ایک ہلہلا اٹھا۔وہ موٹی بھی تھی اور نرم بھی۔ اوپر سے سرخ نارنجی اور نیچے سے سفید کافوری اور لومڑی کے قد کے برابر لمبی اور گول۔
نا شکر نے اس کی تعریف کرتے ہوئے کہا۔”سبحان اللہ! آپ کی دم تو میرے خیال میں دنیا کی تمام چیزوں سے زیادہ خوب صورت ہے۔“
لومڑی نے اپنی دم کو آگے پیچھے ہلاتے ہوئے جواب دیا۔”میاں مجھے خبر نہیں، دنیا میں زیادہ خوبصورت دمیں بھی ہوں گی اور زیادہ کارآمد بھی۔لیکن مجھے تو کوئی ایسی دم دیکھنے کا موقع نہیں ملا جس میں ساری خوبیاں ہوں۔“
نا شکرا بولا۔”کیا تمہاری دم کارآمد ہے؟“
لومڑی نے کہا۔”کارآمد کی بھی تم نے ایک ہی کہی۔کیا تم نے جاڑے کی ٹھنڈی راتوں میں نہیں دیکھا کہ میری دم کس طرح پنجوں میں لپٹ جاتی ہے اور یہ ناک اس کے اندر ہو جاتی ہے۔ پھر ایسی گرم سوتی ہوں جیسے کمبل میں کھٹمل۔“
ناشکرے میاں نے ٹھنڈا سانس لے کر کہا۔”میری بھی ایسی دم لگ جائے تو کتنا اچھا ہو۔“
لومڑی نے ہنس کر کہا۔”یہ کیا بڑی بات ہے۔ کوشش کرنے سے سبھی کچھ مل جاتا ہے، یہ تو دم ہے۔“
نا شکرا بولا۔”تو میں کوشش کرتا ہوں اور یقین ہے کہ کل تک ایسی دم بھی لگوا لوں گا۔“
یہ کہہ کر ناشکرے میاں بونے کے گھر کی طرف یعنی پہاڑی پر روانہ ہوگئے۔دروازہ بند تھا۔کھٹکھٹانے پر انہیں بونے صاحب نے اندر بلاتے ہوئے کہا۔”واہ وا! تم نے پورے چھ دن کوئی نئی دم نہیں لگائی۔ یہ بہت اچھی بات ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ رفتہ رفتہ تم عقل سیکھ رہے ہو۔ لیکن آخر ناشکرے ہونا ابھی۔ اب تم پھر آ گئے ہو، بتاؤ اب کیا چاہتے ہو؟“
ناشکرے میاں جھٹ سے بولے۔”لومڑی کی دم،وہ بڑی خوبصورت اور کارآمد ہوتی ہے۔میں تو وہی لگواؤں گا۔“بونے صاحب نے کہا۔”بہت اچھا۔تم جو کہتے ہو اس میں کوئی بات ضرور ہے۔ اس میں شک نہیں کہ لومڑیوں پر وہ بہت بھلی معلوم ہوتی ہے۔میں نے یہ دمیں بیگمات کے کوٹوں کے کالروں پر بھی سلی ہوئی دیکھی ہیں۔موٹر سا ئیکلو ں اور ٹرکوں پر بھی انہیں لہراتے دیکھا ہے۔وہ بری نہیں معلوم ہوتیں لیکن خرگوش پر کیسی چھبے گی، یہ میں نہیں جانتا۔تاہم تم دم کے معاملے میں مختار ہو۔اگر تم لومڑی کی دم چاہتے ہو تو بس سمجھ لو کہ وہ لگ گئی۔بس لپک کر میز پر آ جاؤ۔اپنی آنکھیں بند کرلو مگر جھانکنا نہیں۔“دراز گوش پر پہلے کی طرح وہی عمل کیا گیا۔وہی خوش گوار بو اس کی ناک میں اور کچھ گرم گرم مصالحہ اس کی دم کے اگلے حصے کے سرے پر پڑتا ہوا معلوم ہوا اور کچھ پیٹھ پر آکر پڑا۔پھر اس نے بونے صاحب کو چیختے ہوئے سنا۔ ”دیکھو دیکھو وہ لگ گئی۔“
اب جو اس نے گردن موڑ کر دیکھا تو واقعی بڑی خوب صورت نرم موٹی نارنجی اور کا فوری دم دکھائی دی جو شاید ہی کسی کی ہو اور خاص کر کسی خرگوش کی۔اس نے خوش ہوکر بونے صاحب سے دریافت کیا۔”آپ نے کبھی کوئی چیز اس سے زیادہ خوبصورت بھی دیکھی ہے؟“بونے صاحب نے جواب دیا۔”ہاں،میں نے بہت خوب صورت چیزیں دیکھی ہیں لیکن جہاں تک دم کا تعلق ہے، یہ لومڑی کے لئے تو بہت خوب صورت ہے۔رہا تمہاری بابت تو وہ میں نہیں جانتا۔تم ایک لومڑی کی دم چاہتے تھے سو وہ لگ گئی اور تمہارا مقصد پورا ہوگیا۔بس اب دوڑ جاؤ۔مجھے آرام کرنا ہے۔آج دیر تک سونے کا ارادہ ہے۔“
ناشکرا تو جانے کے لیے پہلے ہی سے بے تاب تھا۔ بس اشارہ پاتے ہی صنوبر کے جنگل میں بڑے فخر اور خوشی کے ساتھ گھومتا پھرا۔وہ اس دم کے ساتھ ویسی تو کھلاڑیاں نہ کرسکا جو پچھلی دموں کے ساتھ کی تھیں کیونکہ یہ دم بہت موٹی تھی اور انتہائی خوب صورت۔پھر وہ نیچے ایک صاف شفاف تالاب کے پاس پہنچا جس کا پانی صفائی میں آئینے کی مانند تھا۔جس میں وہ بار بار اپنی دم کو دیکھتا،مسکراتا اور اپنی تعریف آپ کرتا۔سہ پہر کا سارا وقت اس چشمے پر گزر گیا۔
پھر ناشکرا خرگوش اپنی موٹی دم کو سیدھا پھیلا کر اور سرے پر سے موڑ کر اتراتا ہوا کبھی آگے قدم بڑھاتا، کبھی پیچھے اور کبھی بیٹھ کر پنکھے کی طرح آہستہ آہستہ جھلتا۔وہ فخر کے ساتھ بیٹھ گیا اور اس نے اپنی دم کو پاؤں پر لپیٹ لیا۔تاکہ چینی کا وہ جانور دکھائی دے جس کے نیچے کا حصہ نارنجی ہو۔وہ آگے پیچھے دوڑتا تاکہ اس کے ساتھ اس کی دم بھی پیچھے پیچھے لہرائے۔وہ اسی طرح کھیلتا اور خوش ہوتا رہا۔یہاں تک کہ جھٹپٹا ہوگیا اور اس کا عکس مدھم پڑ گیا۔غرض اس تمام وقت میں وہ اپنی ذات اور اپنے دم سے بہت ہی خوش رہا اور فخر کا احساس بھی کرتا رہا۔
پھر بھی اسے گھر جانے کی جرأت نہ ہوتی تھی۔باپ کی خفگی کا خیال تھا۔اگرچہ اب کوئی اس کی دم کو بلی کی دم نہ کہہ سکتا تھا اور نہ لم کنا یہ طعنہ دے سکتا تھا کہ تم چوہے کی طرح نظر آتے ہو۔تاہم وہ یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا تھا کہ اس خوب صورت دم کے بارے میں اس کے باپ کی رائے کیا ہوگی۔
اس نے صنوبر کے جنگل میں ایک جگہ پسند کی جو عمدہ، صاف اور خشک تھی اور یہاں اس کی قابل فخر نئی دم کے گیلا ہونے کا امکان نہیں تھا۔ رات گزارنے کے لیے وہ یہاں لیٹ گیا۔ اسے یاد آیا کہ لومڑی نے دم کو پاؤں کے گرد لپیٹنے اور ناک کو اس میں چھپانے کے بارے میں کچھ کہا تھا۔اس میں شک نہیں کہ اس کا یہ کہنا جاڑے کی ٹھنڈی راتوں کے متعلق تھا اور اب تو گرمی کا زمانہ تھا لیکن بھولے بھالے ناشکرے نے اس کی آزمائش شروع کردی۔
شروع شروع میں تو وہ ایسی آرام دہ اور پرلطف معلوم ہوئی کہ اسے حیرت ہوئی۔لیکن بہت جلد وہ گرم انگارے کی طرح ہوگئی۔ناشکرا اس حالت میں سوتا تو کیا،ساری رات جاگ کر گزاری۔آخر صبح ہوتے ہوتے اس نے اپنی دم کو کھولا اور اپنے پیچھے پھیلا دیا، اس طرح اسے آرام ملا اور وہ گہری نیند سو گیا۔
وہ اس نیند سے اس وقت ہڑبڑا کر اٹھا جب اس کے لمبے کانوں میں شکاری کتوں کے بھونکنے کی آوازیں آئیں۔

مصیبت
۔۔۔۔۔
ناشکرے میاں فوراً اٹھ بیٹھے اور انہوں نے درختوں کی اوٹ میں سے جھانکا۔نیچے میدان میں انہیں بہت سے کتے، گھوڑے اور شکاری نظر آئے۔کچھ شکاری چمک دار سرخ کوٹ پہنے ہوئے تھے۔ وہ سب سڑک کے ایک پھاٹک میں سے میدان میں نکلے چلے آرہے تھے۔
ناشکرے نے دل میں کہا کہ یہاں بیٹھے رہنا ٹھیک نہیں۔ کہیں اور چلنا چاہیے۔ وہ جلدی سے مڑا اور اس مڑنے میں اس کی خوب صورت نارنجی دم دھوپ میں چمکی۔نہ جانے اس پر شکاریوں کی نظر پڑی یا شکاری کتوں کی اور انہوں نے چیخنا اور نرسنگھا بجانا شروع کر دیا۔ ساتھ ہی شکاری کتے بھی بھونکنے لگے۔ پھر ”وہ گیا وہ گیا“ کا شور مچ گیا۔ ناشکرے میاں نے پھر سوچا کہ مجھے بہت جلد کسی دوسری جگہ چلا جانا چاہیے۔چنانچہ وہ صنوبر کے جنگل میں سے ہوتے ہوئے نیچے جھاڑیوں والے میدان میں پہنچے۔ رہے شکاری تو وہ غل غپاڑے کے ساتھ پہاڑی کے دوسری طرف آ رہے تھے۔
ناشکرے میاں زیادہ پریشان نہ تھے کیوں کہ وہ کتوں سے چھٹکارا پانے کی ہر چال سے واقف تھے۔انہیں معلوم تھا کہ اس علاقے میں کہاں کہاں جھاڑیاں اور کانٹے لگے ہوئے ہیں اور اس میں سے کیوں کر گزرا جا سکتا ہے اور کس طرح ان میں کتوں کو پھنسایا جا سکتا ہے۔انھیں ندی نالوں کی بھی خبر تھی کہ کس جگہ پانی کم ہونے کی وجہ سے گزر سکتے ہیں اور کہاں پانی زیادہ ہونے کی صورت میں کود سکتے ہیں۔ غرض کتوں کا انہیں کوئی خوف نہ تھا۔وہ جانتے تھے کہ کتے پکڑنا بھی چاہیں تو انہیں نہیں پکڑ سکتے بلکہ ان کی بو بھی نہیں سونگھ سکتے۔
وہ تو اس فکر میں تھے کہ دریا پر کہیں گھاٹ بنایا جائے۔ اتفاق سے ایک طرف پانی میں بڑے بڑے پتھر بھی پڑے ہوئے تھے جن کی وجہ سے وہاں سے پار ہونا بہت آسان تھا۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ ان شکاری کتوں کو یہ بات بھی سکھائی جاتی ہے کہ وہ خرگوش کے نشان پر نہ جائیں بلکہ صرف لومڑیوں کا پیچھا کریں۔یہ خیال آتے ہی اچانک انہیں کتوں کی طرف سے خطرہ پیدا ہونے کا اندیشہ ہوا۔انہوں نے سوچا خدایا کہیں ایسا نہ ہو کہ کتوں کی ناک میں سچ مچ لومڑی کی دم کی بو چلی جائے۔یہ بہت ممکن ہے اور جب ممکن ہے تو بڑا خطرناک بھی ہے۔
یہ دل کا چور آخر خطرہ بن کر سامنے آ ہی گیا۔جب میاں ناشکرے نے دریا والی سڑک کو طے کیا تو دیکھا کہ شکاری ان کے نشان پر چیختے، غل مچاتے اور جھاڑیوں میں گھستے چلے آرہے ہیں۔پھر دیکھا کہ شکاری چکر کھا کر صاف میدان میں آگئے ہیں اور وہ ان کی بھاگ دوڑ کی آواز اپنی بائیں جانب سن رہے ہیں۔گھاٹ پر پتھر رکھے ہوئے تھے۔نا شکرے میاں ان پر بارہا کو دے بھی تھے۔لیکن اس دفعہ کچھ تو گھبراہٹ میں اور کچھ نئی وزنی دم کے ہونے سے اپنا توازن قائم نہ رکھ سکے اور آخری پتھر پر پہنچنے والے ہی تھے کہ دھڑام سے ٹھنڈے یخ بستہ پانی میں گرے،لیکن وہ تو پانی کم گہرا تھا اور کنارے سے ملا ہوا، اس لیے میاں ناشکرے نے چاہا کہ کنارے پکڑ کر پھدک جائیں لیکن مصیبت یہ تھی کہ ان کی خوبصورت موٹی دم بھیگ کر بوجھل ہو گئی تھی اور غالباًکئی سیر پانی اس میں جذب ہو گیا تھا۔جب وہ ہزار خرابی سے کنارے پر چڑھ کر جھاڑیوں میں گھسے تو انہیں محسوس ہوا کہ کسی نے گویا ایک ریت کی پوری بوری ان کے پچھلے حصے میں باندھ دی ہے۔گویا آپ کی نئی دم ہی بلائے جان بن گئی۔خیریت یہ ہوئی کہ انہوں نے ندی کو ٹھیک وقت پر پار کرکے جھاڑیوں میں پناہ لے لی تھی۔ورنہ دو منٹ بعد ہی شکاری کتے اور شکاری دوڑتے بھاگتے وہاں سڑک پر آ گئے تھے۔ناشکرے میاں وہیں سے بیٹھے بیٹھے ان سب کے گھاٹ پر آنے اور ان کے گھبرانے کا تماشا دیکھ رہے تھے۔گھوڑے اتھلواں پانی میں چھپ چھپ کر رہے تھے اور شکاری کتے اوپر کی طرف تھے۔گھبراہٹ کی حالت میں نرسنگھا بجانے کی آوازیں آ رہی تھیں۔یہاں پہنچ کر شکاریوں کو لومڑی کے نشان نہیں ملے اور میاں ناشکرے کو اطمینان سے سانس لینے کا موقع مل گیا۔یہ وقت اور موقع بڑا غنیمت ہوا کیوں کہ ناشکرے نے اپنی دم کو جھٹک جھٹک کر خشک کرنا شروع کر دیا تھا اور اسی طرح وہ بہت کچھ ہلکی ہو گئی تھی۔جب اس کام سے فراغت پائی تو ان ہی جھاڑیوں میں اس نے کچھ دیر آرام کیا لیکن سانسا تو لگا ہوا تھا۔وہ ان جھاڑیوں کے اندر ہی اندر آگے بڑھتا چلا گیا۔یہ ندی کے دوسری طرف جہاں پانی کم تھا نکل کر پل کی طرف پہنچا اور وہاں سے بھی آگے بڑھ گیا۔یہاں ایک بڑی گھنی جھاڑی تھی اور ناشکرے کو اسی جھاڑی کی تلاش تھی۔یہاں پہنچ کر اس نے اطمینان کا لمبا سانس لیا اور خیال کرنے لگا کہ اب وہ اپنا پیچھا کرنے والوں کو اچھی طرح پریشان کر سکے گا۔یہ جگہ بہت بڑی تھی اور وہ یہاں کے راستوں کے اتار چڑھاؤ اور ٹیڑھ سیدھ سے بخوبی واقف تھا اور سمجھ سکتا تھا کہ یہ جگہ کتوں کی پہنچ سے بالکل محفوظ ہے۔
وہ یہاں پہنچا ہی تھا کہ اس نے کتوں کے بھونکنے کی دوبارہ آواز سنی جو پل کی جانب چلے آ رہے تھے۔اس نے ہنس کر ایک سرنگ میں گھستے ہوئے کہا۔”لو اب میرا پتا لگا لینا۔بیوقوفو!تم نے آپ ہی دیر کر دی۔ لیکن جب ایک دل ہلا دینے والی مصیبت سامنے آئی تو اس کی ہنسی تکلیف میں بدل گئی۔ہوا یہ کہ جھاڑیوں اور کانٹوں میں اس کی سمور جیسی لمبی دم الجھ کر رہ گئی۔اس نے اچھی طرح سمجھ لیا کہ دم کے پیچھے جو یہ چھاج بندھ گیا ہے وہ ان جھاڑیوں میں سے نکلنے نہیں دے گا۔وہ ہمت کرکے ایک جھٹکے کے ساتھ پلٹا۔یوں اسے رہائی تو مل گئی لیکن بہت سی نارنجی سمور کانٹوں میں لٹکتی رہ گئی۔اب جان بچانے کے لئے اسے تیز اور دور بھاگنا تھا، چناں چہ وہ جھاڑی کا چکر لگا کر بھاگم بھاگ ایک چراگاہ میں آ پہنچا۔شکاری کھٹ پٹ کرتے پل پر چلے آرہے تھے۔ کتوں کے بھونکنے، نرسنگھوں کے بجنے اور شکاریوں کی چیخ و پکار کی آواز اس کے لمبے کانوں میں آ رہی تھی۔اس نے ان کی پروا کیے بغیر تیز ی سے بھاگنا شروع کر دیا۔ناشکرا خرگوش دوڑ میں اپنی ساری بستی میں اول نمبر تھا۔دوڑنے میں اس کا مقابلہ کوئی جانور نہ کر سکتا تھا۔یہ ناز اس وقت بھی اس کے دل میں تھا اور اسی وجہ سے وہ شکاری کتوں اور شکاریوں کو خاطر میں نہ لاتا تھا بلکہ چاہتا تھا کہ اپنی جھلک دکھا کر انہیں خوب دوڑنے کا موقع دے مگر مشکل یہ آپڑی کہ وزنی دم کا جنجال لگا ہوا تھا۔اس نے سارے منصوبے خاک میں ملا دئیے تھے۔اگرچہ وہ خشک ہوگئی تھی مگر پھر بھی اس کے اپنے وزن کے برابر تو ہوگی۔دوڑنے میں اس کا کھینچنا ایسا ہی تھا جیسے تیز رفتار گھوڑے کے پیچھے لاری باندھ دی جائے۔اب اسے اپنی قدرتی ہلکی پھلکی پھویا سی ننھی دم کا خیال آیا۔کاش اس وقت وہ ہوتی تو ناشکرا ان سب کو ناک چنے چبوا دیتا اور یہ بھی یاد کیا کرتے کہ میاں ناشکرے سے پالا پڑا ہے۔
لیکن اس خیال کو وہ زیادہ دیر دل میں نہ رکھ سکا کیوں کہ کتوں کے بھونکنے اور گھوڑوں کی ٹاپوں کی آوازیں نزدیک آ رہی تھیں۔وہ بے تحاشا سر پٹ دوڑا مگر دم گویا دامن پکڑ ے لیتی تھی۔وہ چراگاہوں اور پتھریلی دیواروں پر دوڑا اور کبھی نیچے کی سمت خشک گھاس اور غلے کے کھیتوں اور لکڑیوں کے ڈھیروں پر دوڑا۔جنگلے،نالے اور کھائیاں پھاندیں لیکن دم ہر موقع پر تیز دوڑنے سے روکتی اور کہیں کہیں الجھ بھی جاتی۔
میاں ناشکرے دوڑتے دوڑتے چکر ا گئے تھے۔وہ اب ایک نئی اور انجانی جگہ پر تھے۔اب انہیں یہ بھی پتا نہیں تھا کہ صحیح راستہ کونسا ہے اور کس طرف مڑنا چاہیے۔جب وہ ایک لمبے چوڑے کھیت سے گزر رہے تھے تو انہیں ایک مکان نظر آیا جس کے پیچھے ایک بڑا سرخ رنگ کا اناج کا کوٹھا بنا ہوا تھا۔وہ عام طور سے ایسے گھروں کو جائے امن نہ سمجھتے تھے۔لیکن اس وقت تو یہی جگہ امن کی دکھائی دیتی تھی۔ کھیت سے ذرا فاصلے پر کتے پتھر کی دیوار پر بھونک رہے تھے اور شکاری گھوڑوں پر سوار ان کے پیچھے تھے اور اس کے بالکل سامنے ایک کانٹے دار تار کا جنگلا تھا۔ناشکرے نے ایک بڑی لمبی چھلانگ ماری۔اس کی اگلی ٹانگیں آگے پھیلی ہوئی تھیں اور پچھلی ٹانگیں پیچھے کی طرف دراز تھیں اور تاروں کے بیچ میں صاف طور سے دم پھنسی ہوئی تھی۔
اس جان لیوا بلانے ناشکرے کو واقعی پھنسا دیا تھا اور وہ کانٹوں میں بے بسی کے ساتھ لٹک رہا تھا اور کتے غل مچاتے ہوئے دوڑ رہے تھے۔ابھی سب سے اگلا کتا چند فٹ کے فاصلے پر تھا کہ اس نے ایک آخری زوردار کوشش کی اور پوری سکت کے ساتھ ہاتھ پاؤں مارے۔خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ یہ وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔البتہ دم کو خار دار تاروں کی بھینٹ چڑھانا پڑا۔
ناشکرے میاں وہاں سے نکل کر سڑک پر بھاگے چلے جارہے تھے اور ان کے پیچھے شکاری اور ان کے کتے دوڑ رہے تھے۔ایک کسان کے کوٹھے کا دروازہ سڑک کے کنارے کھلا ہوا تھا۔اس کے قریب ایک سوراخ دکھائی دیا جو پتھروں کی بنیاد میں تھا۔ ناشکرا اس طرف لپکا اور ایک ہی چھلانگ میں اس اندھیرے مگر ٹھنڈے بل کے اندر گھس گیا۔سب سے اگلا کتا ناشکرے کے اتنا قریب پہنچ گیا تھا کہ ادھر تو وہ بل میں گھسا اور ادھر اس نے بنیاد پر پنجہ مارا۔
خوش قسمتی سے وہاں اور کوئی دوسرا شگاف نہ تھا۔اور یہ سوراخ اتنا چھوٹا تھا کہ اس میں ایک کتا بھی گھس نہیں سکتا تھا۔اگرچہ کتوں نے اسے بہت کچھ کھودا کھرچا لیکن پتھر بڑی مضبوطی سے لگے ہوئے تھے۔یہ پناہ گاہ ناشکرے کے بڑے کام آئی۔وہ اس میں تھک کر لیٹ گیا اور نیم بے ہوشی کی حالت میں اسے کچھ پتا نہ تھا کہ باہر کیا ہو رہا ہے۔
کتے جب سوراخ میں نہ گھس سکے تو وہ کسان کے مرغی خانے پر پل پڑے اور ذرا سی دیر میں ایک پیرو،تین بطخیں اور سات مرغی کے بچوں کو مار ڈالا۔ایک کتا کنویں میں گر پڑا اور چند کتوں نے کسان کی بلی کا پیچھا کیا جو آخر گھبرا کر درخت پر چڑھ گئی۔
پھر یہ شکاری لوگ کوٹھے کے صحن میں غل مچاتے آگئے۔ان کے گھوڑوں کی ٹاپوں کا شور،نرسنگھے کا غل، پھر خود ان کی چیخ پکار نے محشر کا سماں باندھ دیا۔اس غل غپارے میں کسان کی دو گائیں رسیاں تڑا کر بھاگیں اور کتے ان کے پیچھے لگ گئے۔
اس موقع پر کسان،اس کے دو لڑکے اور ان کا ایک جگادری کتا آگیا تھا۔اس کتے نے آتے ہی شکاری کتوں کی خبر لینی شروع کردی۔ کئی ایک کو کاٹا۔ کسی کی پیٹھ نوچ ڈالی تو کسی کا منہ زخمی کردیا۔ کسان اپنی جیلی سنبھالے ہوئے تھا اور اس کے دو جوان لڑکے بیلچے لیے ہوئے تھے۔ باقاعدہ لڑائی شروع ہوجاتی مگر شکاریوں نے کسان کو سمجھایا کہ ”ہمارے یہاں آنے کا مقصد یہ ہے کہ ایک لومڑی اس کوٹھے کے نیچے گھس گئی ہے۔ہم صرف اسے نکالنا چاہتے ہیں۔“کسان کو نہ لومڑیوں سے دلچسپی تھی نہ شکاریوں سے۔ اس نے جھلا کر کہا”اگر وہ وہاں ہے تو اسے رہنے دو اور یہاں سے تم فوراً چلے جاؤ مگر جانے سے پہلے جتنا میرا نقصان تم نے کیا ہے، یہاں دھر دو۔“یہ کہہ کر اس نے سوراخ پر پتھر رکھ دیا اور لٹھ لے کر کتوں اور گھوڑوں کی خبر لینے چلا۔لٹھ بازی سے گھوڑے اور کتے زخمی ہوئے۔تقریباً آدھا گھنٹہ اس لڑائی جھگڑے میں گزر گیا۔آخر شکاریوں کو نقصان کی رقم بھگتنی پڑی۔ایک موٹر میں زخمی کتوں کو ڈال کر،جو اتفاق سے ادھر سے گزر رہی تھی،یہ قافلہ خراب و خستہ حالت میں اپنے گھر کو روانہ ہوا اور میاں ناشکرے تھک تھکا کر بلکہ گھوڑے بیچ کر ایسے سوئے کہ انہیں خبر بھی نہ ہوئی کہ باہر کیا قیامت گزر گئی۔

عاجزی
۔۔۔۔
ناشکرے میاں کب تک اس کوٹھے کے سوراخ میں بند رہے،یہ یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا۔ممکن ہے ایک دن ایک رات یا تین دن تین راتیں۔سوراخ کے اندر تو وقت کا اندازہ ہو ہی نہیں سکتا تھا۔وہاں تو ہر وقت گھپ اندھیرا تھا۔پھر اس کو جو کھکیڑ اٹھانی پڑی،وہ وقت کا اندازہ کیسے کرنے دیتی۔حالت یہ تھی کہ اس کے پاؤں گھس گئے تھے بلکہ چھل کر زخمی ہوگئے تھے۔اس کے جوڑ جوڑ میں درد ہو رہا تھا۔ اس کا سر درد کے مارے پھٹا جاتا تھا۔ رہی اس کی دم تو دم کی جگہ ایک بہت بڑا درد اس کے لپٹ گیا تھا۔
بہرحال جب وہ جاگا تو ایسا معلوم ہوا کہ سب جگہ کا درد سمٹ سمٹا کر اس کے پیٹ میں چلا گیا ہے یعنی بھوک اور پیاس دونوں کا غلبہ تھا۔وہ ادھر ادھر سونگھتا پھرا کہ کوئی تو چیز کھانے کے لئے مل جائے۔ خدا بڑا رزاق ہے۔ناشکرے نے دیکھا کہ ایک طرف کوٹھے کی چھت کے ایک سوراخ سے کچھ غلہ گرگر کر جمع ہے۔اس نے خدا کا شکر اداکیا۔غلہ کھا کر کچھ اس کی جان میں جان آئی۔لیکن پیاس بڑھک اٹھی اور اس خشک خاک در خاک کوٹھے کے نیچے کہیں پانی کا نشان بھی نہ تھا۔
وہ پھر سو گیا اور نہ جانے کب تک سوتا رہا۔ پھر آنکھ کھلی تو پیاس کے مارے برا حال تھا۔اس واقعے کے دوسرے دن شام کے وقت کسان نے کوٹھے کے صحن میں سے گزرتے ہوئے اس پتھر کو دیکھا جو اس نے نا شکرے خرگوش والے سوراخ میں اچھی طرح پھنسا دیا تھا۔اس وقت وہ غصے میں تھا،اس لیے اسے خیال بھی نہ رہا کہ اندر کوئی جانور بند ہے۔اب خیال آتے ہی اس نے پتھر وہاں سے ہٹا دیا اور کہنے لگا کہ میں نہیں چاہتا کہ کوئی بے زبان اندر رہ کر مر جائے۔یہ ہے تو بڑی عمدہ جگہ۔پھر سوراخ کو سونگھ کر بڑبڑایا کہ خدا ان شکاریوں کو غارت کرے مجھے تو یقین نہیں آتا کہ اس سوراخ میں کوئی گھسا ہو۔
اگرچہ اس وقت شام کے دھندلکے میں پھوار بھی پڑ رہی تھی تاہم پتھر کے ہٹنے سے جو یکایک اجالا سا ہوا تو ناشکرے کی آنکھیں چندھیا سی گئیں۔ننھی ننھی پھوار کے ساتھ سرد جھونکوں نے اسے جنگل کی یاد دلائی۔اس نے خیال کیا میٹھی میٹھی گھاس کے پٹھوں پر چاندی کے بڑے بڑے قطرے کس طرح پڑ رہے ہوں گے۔وہ درختوں کے ٹھنڈے اور سرسبز جھنڈ میں اپنا منہ گھسا کر ان مینہ کے قطروں کو کیوں نہ پی جائے۔اس کی خاطر یہ دم تو کیا ہزار دمیں قربان ہیں۔چونکہ پچھلے تجربے نے اسے کچھ ہوشیاری سکھا دی تھی۔چاہے وہ بالکل نادان ہی تھا۔اس لیے اس نے رات کے انتظار میں اپنا وقت سو کر کاٹا۔
وہ جاگا تو آدھی رات گزر چکی تھی۔سوائے بارش کی پٹاپٹ کے ہر چیز خاموش تھی۔اس نے سخت چوٹوں اور تکلیفوں کے باوجود یہاں سے نکلنے کا پکا ارادہ کر لیا۔پھر ٹھنڈی پھوار نے اس کے دل و دماغ کو تازگی پہنچائی۔اس نے سوراخ سے باہر آ کر اپنا منہ آسمان کی طرف کر دیا تاکہ پانی کی بوندیں اس کے حلق میں ٹپکیں۔ وہ ان قطروں کو چاٹ رہا تھا اور ہر قطرہ اسے آب حیات بن کر زندگی بخش رہا تھا۔
گھر میں بالکل اندھیرا تھا۔صرف گایوں اور گھوڑوں کے سانس لینے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ناشکرے کو یقین تھا کہ کسان کا کتا باورچی خانے کے پیچھے بے فکری سے سو رہا ہوگا۔اس لیے وہ چپکے سے نکل کر کوٹھے کے صحن میں سے ہوتا ہوا دروازے کی طرف چلا۔اگرچہ ایک ایک قدم چلنا دوبھر ہو رہا تھا اور دم کانٹوں کی نذر ہو چکی تھی،پھر بھی اس کا کچھ حصہ کیچڑ اور مٹی میں لتھڑا ہوا گھسٹ رہا تھا۔ وہ سڑک پار کر کے گھاس کے کھیت میں چلا گیا تھا اور اسے جلد ہی گھاس کا ایک جھنڈ مل گیا۔اس نے اپنا چہرہ اس میں گھسا دیا اور ٹھنڈے ٹھنڈے مینہ کے قطرے خوب چاٹے پھر یہ میٹھی اور تازہ گھاس کھائی۔اس طرح طاقت تو کچھ آئی مگر پچھلی تکلیفیں اتنی سخت تھیں کہ ایک قدم اٹھانا بھی اسے دشوار تھا۔دم کی مصیبت اب بھی ساتھ تھی۔وہ اگرچہ ایک تہائی رہ گئی تھی مگر پھر بھی بہت وزنی تھی، جیسے ریت کا تھیلا۔
یہ بات تو صاف ظاہر تھی کہ وہ یہاں کھویا کھویا سا تھا۔یہ جگہ بالکل نئی تھی۔نہ یہاں کوئی ایسی نشانی تھی جس سے اس بات کا اندازہ کیا جاسکے کہ گھر کس طرف ہے۔اگر چاند تارے نکلے ہوئے ہوتے تو شاید وہ ہی کچھ راستہ بتاتے۔رات اندھیری تھی اور پھوار تیز بارش میں بدل رہی تھی۔اب اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ صبح کے انتظار میں وہاں رہا جائے۔ناشکرے میاں گھاس کے کھیت میں سے ہو کر ایک گھنی جھاڑی میں گھس گئے۔انہیں یاد آیا کہ لومڑی نے دم کے کارآمد ہونے کے بارے میں کتنی شیخی بگھاری تھی۔انہوں نے اسی طرح اپنی دم کو اپنے پنجوں کے گرد لپیٹ لیا اور ناک بھی اس میں گھسا دی لیکن دم نہ نرم تھی نہ گرم۔وہ ٹھنڈی تھی اور کیچڑ میں لت پت ہو کر گیلی ہو گئی تھی اور کسان کے کوٹھے میں جو اس کی درگت بنی تھی، اس نے اب اس قابل نہیں رکھا تھا کہ اس میں اب کوئی ناک چھپائے۔
ناشکرے نے دعا مانگنا شروع کی۔”اے پاک پروردگار! مجھے کسی طرح بونے صاحب تک پہنچا دے اور ان کے ہاتھوں میری اپنی اصلی دم لگوا دے۔میں توبہ کرتا ہوں کہ پھر کسی دم کی تمنا نہیں کروں گا۔“یہ دعا مانگتے مانگتے اس کی آنکھ لگ گئی۔

جب اس کی آنکھ کھلی تو صبح ہو چکی تھی۔مینہ تھم چکا تھا اور سورج کی روشنی اسے آرام پہنچا رہی تھی۔چونکہ رات کی ٹھنڈ اور سیل نے اس کے جوڑ جوڑ میں درد کی کسک پیدا کر دی تھی، اس لئے سورج کی معمولی حرارت بھی اسے کرارا بنا رہی تھی۔وہ گویا سورج کی کرنوں سے غسل صحت کر رہا تھا۔جب بدن میں توانائی آگئی تو اس نے کچھ گھاس کھائی۔پانی کی بجائے شبنم چاٹی اور آہستہ آہستہ پھدکتا ہوا جھاڑیوں کے ساتھ ساتھ ایک طرف چلا۔اس کا خیال تھا کہ وہ سورج کو اگر بائیں طرف رکھ کر چلے تو گھر کی طرف پہنچ جائے گا۔لیکن اس بات کا اسے پورا یقین نہیں تھا۔
چلتے چلتے وہ ایک گھنے جنگل کے پاس پہنچا اور یہ فیصلہ نہیں کر سکا کہ وہ اس میں سے ہو کر جائے یا چکر کاٹ کر۔عام طور پر وہ ان باتوں کا خیال نہیں کیا کرتا تھا لیکن جب سے دم کھینچنے کی مصیبت اس کے پیچھے لگ گئی تھی وہ راستے کی آسانیاں سوچنے لگا تھا۔
آخر اس نے درختوں کے بیچ ہی میں سے جانے کا ارادہ کر لیا اور یہ اس کے لئے بہت اچھا ہوا۔اس لیے کہ وہ ابھی مشکل سے دوچار ہی قدم اندر کی طرف گیا ہوگا کہ اسے ایک جانے بوجھے جانور کی کتھئی رنگ کی جھلک دکھائی دی۔اس نے پہچان لیا کہ یہ میرا دوست سرخ ہرن ہے جو پہاڑی اور دریا کے درمیان رہتا ہے۔اس ہرن سے ناشکرے خرگوش کی برسوں سے صاحب سلامت تھی۔
اسی اثنا میں دم جو گھسٹتی ہوئی آرہی تھی،ایک جھاڑی میں پھنس گئی اور میاں ناشکرے جو کمزوری کی وجہ سے زور لگانے کے بھی قابل نہ رہے تھے اپنی کمزور آواز سے پکارے۔”ارے بھائی ہرن! خدا کے لیے میری مدد کرو۔میں تمہارا یار ناشکرا خرگوش ہوں۔“ہرن نے مڑ کر دیکھا اور لپک کر اس کے پاس پہنچا اور تعجب سے بولا۔”اچھا اچھا! ہاں تم ناشکرے خرگوش سے کچھ ملتے جلتے ہو، مگر یہ تم اپنے پیچھے کیا بلا لگا لائے۔ یہ دم تمہاری تو نہیں، لومڑی کی معلوم ہوتی ہے یعنی کبھی لومڑی کی ہوگی۔“
ناشکرے نے آہ بھرتے ہوئے کہا۔ ”چھوڑو اس دم کے قصے کو، بھائی خدا کے واسطے تم مجھے میرے گھر پہنچا دو۔“ اور اتنا کہہ کر وہ نڈھال ہو گیا۔ جب اسے ہوش آیا تو دیکھا کہ ہرن اس کے پیچھے لیٹا ہوا ہے۔ اس کی اگلی ٹانگیں اس کے سینے کے نیچے ہیں اور وہ آہستہ آہستہ منہ چلا کر جگالی کر رہا ہے۔ ہرن نے جب اسے ہوش میں دیکھا تو مزاج پوچھا۔ ناشکرے نے مری ہوئی آواز میں جواب دیا۔”مزاج وزاج کیسے، مجھے تو ڈر لگ رہا ہے۔ کاش میں گھر پر ہوتا۔“ہرن نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا۔”گھبراؤ نہیں۔ابھی سب کچھ ہوا جاتا ہے۔پہلے اپنے تئیں سنبھال کر یہ دیکھو کہ تم کس طرح اس دم کے جنجال کو جھاڑیوں میں سے نکال سکتے ہو۔پھر میری گردن پر سوار ہو جاؤ۔اپنے بازو پڑھاؤ۔اپنی ٹانگیں میری گردن کے دونوں طرف لٹکا لو۔میں بہت آہستہ آہستہ چلوں گا۔آؤ زور لگاؤ۔“
ناشکرے نے پورا زور لگایا اور تکلیف سے ہائے ہائے کرتے ہوئے دم کو کھینچ ہی لیا۔جو کچھ رہی سہی سمور تھی وہ بھی جھاڑیوں میں پھنس کر رہ گئی اور میاں ناشکرے ہمت سے پھدک کر ہرن کی گردن پر سوار ہو گئے۔
ہرن نے ناشکرے کا دل بڑھاتے ہوئے کہا۔”شاباش، کیا کہنے تمہارے۔تم نے خرگوش ہوتے ہوئے بڑا کام کیا۔اب مضبوط پکڑلو۔“وہ کھڑا ہوگیا اور ناشکرے کو لے کر آہستہ آہستہ چلنا شروع کیا۔ناشکرے خرگوش کو اس پر بیٹھنے سے کوئی تکلیف نہیں ہوئی بلکہ آہستہ چلنے میں زیادہ آرام ملا۔درختوں میں سے نکلنے کے بعد سورج کی حرارت نے اس کے جوڑ کھولنے شروع کردیئے اور بارش سے جتنی سیل پہنچی تھی، کافور ہوگئی۔جب اس میں بولنے کا دم آگیا تو اس نے اپنی دموں کی کہانی کہنی شروع کی اور بتایا کہ اس موجودہ دم نے کس طرح شکاریوں کو اس کے پیچھے لگا دیا اور کس مشکل سے اس نے اپنی جان بچائی۔ بونے صاحب کا ذکر دم کے ساتھ کیوں نہ ہوتا۔وہ تو دموں کے لگانے والے تھے۔
ہرن نے ساری کہانی سن کر کہا۔”میں نے اپنی عمر میں جتنی بیوقوفی کی باتیں سنی ہیں یہ تو ان سب سے بڑھ چڑھ کر نکلی۔آخر نرے خرگوش ہونا۔میری دم بھی تو دیکھو۔اگر تمہاری دم کی نسبت سے دیکھا جائے تو میری دم بھی کچھ ایسی زیادہ لمبی نہیں ہے۔لیکن میں نے تو آج تک کسی نئی دم کی خواہش نہیں کی۔
گھوڑے کی دم کیسی خوبصورت ہوتی ہے لیکن جب اس پر مکھیاں بیٹھ کر بھنبھناتی ہیں تو گھوڑا کیسا چراغ پا ہوتا ہے۔اس کا بس ہی نہیں چلتا ورنہ وہ ایک ایک مکھی کو اپنی ٹاپوں سے مسل دے۔تو میرے بھائی تم نے ہر چمکتی چیز کو سونا سمجھ لیا۔ یہ تمہاری بڑی غلطی تھی۔ قدرت نے تمہاری دم جیسی بنائی، وہ تمہارے لئے مناسب تھی اور کارآمد بھی۔ اب تجربہ کرکے تم نے اچھی طرح دیکھ لیا۔“
ناشکرے خرگوش نے عاجزی کے لہجے میں جواب دیا۔”اگر میں گھر پہنچ جاؤں اور مجھے اپنی دم واپس مل جائے تو پھر میں کسی دوسری دم کا نام تک نہ لوں گا۔“ ہرن نے کہا”خدا کرے ایسا ہی ہو۔ صبح کا بھولا اگر شام کو واپس آجائے تو اسے بھولا نہ کہنا چاہیے۔“
یہ باتیں بھی آپس میں ہو رہی تھیں اور راستہ بھی طے ہو رہا تھا کہ دور چل کر ناشکرے کو اپنی دیکھی بھالی زمین نظر آنے لگی۔ وہ ایک لمبی پہاڑی کے نیچے اترا تو اس نے دیکھا کہ ندی کا پانی دھوپ سے چمک رہا ہے۔
ہرن نے ندی کے پاس پہنچ کر کہا کہ میں تمہیں گھاٹ پر چھوڑ دوں گا اور دوسری طرف نہیں جاؤں گا کیونکہ ادھر پریشان کرنے والے کتے رہتے ہیں۔ میرے خیال میں اب تم پہاڑی پر سلامتی کے ساتھ پہنچ جاؤ گے۔ناشکرے نے ہرن کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا۔”بے شک اب میں پہنچ جاؤں گا۔“
جہاں گھاٹ پر پانی کم تھا ہرن وہاں پہنچ کر ٹھہر گیا اور اپنی گردن نیچی کر لی۔ناشکرے میاں پھسل کر کنارے پر آ گئے اور پھر شکریہ ادا کرنا چاہا لیکن ہرن ہنستا کودتا اور پانی میں چھپ چھپ کر تا چل دیا۔ جیسے ہی وہ دوسرے کنارے پر پہنچا تو اس نے اپنی چھوٹی سی خوبصورت سفید دم کی جھنڈی ہلائی گویا وہ خدا حافظ کہہ رہا ہے اور جھٹ جھاڑیوں میں غائب ہو گیا۔ناشکرے نے اپنے دل میں کہا۔”اس ہرن کی دم مجھ سے زیادہ بڑی تو نہیں مگر کتنی موزوں ہے اور پھر کوئی تکلیف بھی نہیں دیتی۔“ناشکرے نے بڑی تکلیفوں اور مصیبتوں سے جھاڑیوں والے اونچے راستے ایسی حالت میں کاٹے تھے کہ اس کی بے کار بوجھل دکھ دینے والی لومڑی کی دم اس کے پیچھے پیچھے گھسٹتی رہی تھی۔
جوں توں کرکے بونے صاحب کا مکان آ ہی گیا۔ اس نے آہستہ سے دروازہ کھٹکھٹایا۔ وہ اس نا وقت آنے پر خفا ہوئے لیکن اس کی حالت دیکھی تو رحم آگیا۔ فورا پتھر کی کنڈالی چولہے پر گرم کرنے کو رکھ دی اور بڑے غور سے ناشکرے کو دیکھنے لگے۔
پھر بولے۔”ہوں ہوں۔یہ دم تمہاری سب سے بڑی پسند رہی۔اماں بس تم تو یونہی ہو۔اب مجھے سب سے پہلے تمہیں اس بلا سے چھٹکارا دلانا چاہئے جسے تم اپنے پیچھے کھینچتے پھرتے ہو۔اس کے بعد گرم گرم شوربے کا پیالہ پی کر سو جانا۔“
آؤ جلدی سے پھدک کر میز پر آ جاؤ۔ناشکرے میں اب پھدکنے کا دم کہاں تھا۔آخر بونے صاحب نے اسے اٹھا کر میز پر لٹایا۔ بونے صاحب اپنے کام میں لگے اور میاں ناشکرے نے اپنے پنجے اپنی آنکھوں پر رکھ لئے لیکن اس کے پاؤں کا نپ بھی رہے تھے اور جل بھی رہے تھے۔ بونے صاحب نے کنڈالی لاتے ہوئے کہا۔”اچھا تو تمہیں بخار ہے۔ فکر نہ کرو سب جاتا رہے گا۔“
ناشکرے کی ناک میں وہی جانی بوجھی مہک سی آئی اور ساتھ ہی اس نے یہ محسوس کرکے تعجب کیا کہ دکھ درد کے علاوہ لومڑی کی وزنی گھسیٹنے والی دم بھی آہستہ آہستہ غائب ہو رہی تھی۔ پھر بونے صاحب نے اس کی پیٹھ کو تھپتھپاتے ہوئے کہا۔”لو آنکھیں کھولواور دیکھو۔ یہ تمہاری وہی پرانی دم ہے۔پہلے سے کتنی بھلی معلوم ہوتی ہے اور میں شرط لگاتا ہوں کہ اب تم اس کی بڑی اللہ آمیں کروگے۔“
تکلیف کا خیال کئے بغیر ناشکرے خرگوش نے گردن کو بڑھا کر اور سر کو موڑ کر جو دیکھا تو اسے اپنی پرانی روئی کے پھوئے جیسی دم کی جھلک نظر آئی لیکن اب اس میں آرام ہی آرام تھا۔اس نے ایک گہرا سانس لیا اور میز پر اوندھا جھک گیا۔ کمزوری کی وجہ سے اسے پتا بھی نہ چلا کہ وہاں سے اٹھا کر کس آرام کے ساتھ وہ سونے کے لئے پلنگ پر لٹا دیا گیا ہے۔ اس کا سر نرم تکیے پر تھا اور ایک گرم رضائی اس کو اڑھا دی گئی تھی۔ میاں ناشکرے خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے۔

دوسرے دن سہ پہر کو ناشکرے خرگوش کی آنکھ کھلی۔سورج کی نیم گرم کرنیں چھوٹی چھوٹی کھڑکیوں میں سے اندر آ رہی تھی۔
اس نے تمام بدن کو ڈھیلا کر کے آرام سے پھیلا دیا۔ جتنی تھکن اور اکڑاؤ تھا جاتا رہا۔اس نے خوشی کا ایک لمبا سانس لیا جس سے بونے صاحب نے اپنی آنکھیں کتاب پر سے اٹھا کر اسے دیکھا اور پوچھا ”کیوں بھائی! کہو اب کس طرح ہو، اور ہاں یہ تو بتاؤ گرم گرم شوربے کا ایک پیالہ پینے کی صلاح ہے یا نہیں۔“
ناشکرے نے بستر میں سے پھدکتے ہوئے کہا۔ ”نیکی اور پوچھ پوچھ۔“ اسے کچھ کمزوری اور رعشہ ضرور تھا۔ ویسے وہ اچھی طرح تھا۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ دم کے بوجھ سے اسے چھٹی مل گئی تھی۔ اسے ایسا معلوم ہوتا تھا گویا وہ پانی پر تیرتا پھرتا ہے۔اس کا دل چاہتا تھا کہ وہ اچھلے کودے اور پہاڑیوں،جھاڑیوں کو پھلانگتا پھرے۔اب اسے کسی احتیاط کی ضرورت نہ تھی کیونکہ اسے یقین ہوگیا تھا کہ وہی پہلی والی صاف ستھری چھوٹی پھندنا سی پرانی دم اس کے لگ گئی ہے۔آخر اسے یہ کہنا پڑا کہ میری دم دنیا میں سب سے عمدہ ہے۔
بونے صاحب نے ہنستے ہوئے کہا۔”تم جیسے خرگوش کے لیے میرے خیال میں یہی بہترین ہے۔اب اپنی دم کے سہارے بیٹھو اور اپنا شوربا پیو۔“میاں ناشکرے دیکھتے دیکھتے لپڑ لپڑ کرکے سب شوربا پی گئے اور پیچھے ہٹ کر بیٹھتے ہوئے اطمینان کا سانس لیا۔
بونے صاحب نے اب میاں ناشکرے سے کہا۔”لیجئے جناب اب ساتھ خیر کے اپنے گھر سدھاریے۔آپ کے ماں باپ پریشان ہو رہے ہوں گے۔آپ کو خبر بھی ہے کہ گھر سے نکلے ہوئے چار راتیں بیت گئیں۔“
ناشکرے نے کہا۔”واقعی مجھے اندازہ نہیں۔مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میں نے ایک بھیانک خواب دیکھا ہے۔“پھر کچھ دیر خاموشی کے ساتھ غور کر کے بولا۔”جناب! ایک چیز کرنے سے رہ گئی ہے۔میری خواہش ہے کہ یہاں سے جانے سے پہلے اسے کرتا جاؤں۔“بونے صاحب نے جواب دیا۔”بڑی خوشی سے۔“
ناشکرے نے اچک کر چولہے کے قریب ایک تپائی کھینچی۔ پھر اس پر آپ چڑھ گیا۔چولہا روشن تھا،کوئلے دہک رہے تھے۔کچھ دیر تو وہ یہ تماشا دیکھتا رہا۔پھر اس نے وہ بوتل اٹھا کر ساری کی ساری دوا آگ میں جھونک دی۔دوا کے آگ میں پڑتے ہی طرح طرح کی آوازیں نکلیں،بڑے خوفناک شعلے بھڑکے اور چاروں طرف دھواں پھیل گیا۔اس کے بعد آگ بجھ گئی اور کمرے میں وہ عجیب و غریب مہک جو ناخوشگوار نہیں تھی،پھیل گئی۔
بونے صاحب نے کواڑ کھولتے ہوئے کہا۔”بس یہی کرنا تھا۔آخر تمہیں تھوڑی سی سمجھ آ ہی گئی۔واہ میاں ناشکرے لیکن اچھی طرح سمجھ لو۔اب اگر تمہیں یہ دم پسند نہ آئی تو میرے پاس تمہارے لئے اب کچھ نہیں ہے۔“
ناشکرے نے جواب دیا۔”جناب والا! آپ کی مہربانیوں کا بہت بہت شکریہ۔اب جو کچھ میرے پاس ہے بالکل ٹھیک ہے۔“یہ کہہ کر اس نے رخصتی سلام کیا اور بونے صاحب سے رخصت ہوا۔
نیولے راستے میں جھوم جھوم کر چل رہے تھے۔مارے خوشی کے اچھل کر ناشکرا انہیں پھلانگ گیا۔ایک نیولے نے طعنہ دیا کہ ”بعض لوگ کبھی شکرگزار نہیں ہوتے۔“ناشکرے نے ہنس کر کہا۔ ”لیکن میں تو اب شکرگزار ہوں۔“اتنا کہہ کر وہ اچھلتا کودتا،ڈوبتے سورج کی روشنی میں اپنے گھر کی طرف روانہ ہوا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top