skip to Main Content

ہیرے کی انگوٹھیاں

حماد ظہیر

…………………….

جب ہم نے اور شجاعت نے ہیروں کی مدد سے جان بچائی

…………………….

ہم نے گھبراہٹ کے عالم میں ایک مرتبہ پھر اسے ڈھونڈا، مگر اس کا نام و نشاں نہ تھا۔ ہمارا سر چکرانے لگا، آنکھوں کے سامنے اندھیرے رقص کرنے لگے۔ ہم سر جھٹک کر اپنے آپ کو نارمل کرنے کی کوشش کررہے تھے لیکن اس دل کا کیا کرتے جو بیٹھا ہی چلا جا رہا تھا۔ بے ہوش ہونے سے قبل اتنا ضرور یاد ہے کہ ہمارا ہاتھ فون کی طرف بڑھا تھا اور اس نے کوئی مانوس نمبر ڈائل کر دیئے تھے۔

*۔۔۔*

امتحان دینے سے ہم کبھی نہیں ڈرتے، ہمیشہ فیل ہونے سے ڈرے ہیں۔ ہمارا شمار ان لوگوں میں نہیں جو امتحانات کو خاطر میں لاتے ہیں اور ایک مہینہ پہلے سے منہ پھلا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ نہ پیتے ہیں نہ کھاتے ہیں ، نہ آتے ہیں نہ جاتے ہیں۔ بلکہ ہم تو امتحانات کا سامنا بہت ہی جارحانہ انداز میں کرتے ۔ محلہ کی وہ کرکٹ ٹیم جو سارا سال ہماری سرپرستی کو ترستی رہتی تھی، امتحانات میں ہمیں موجود پاتی، گھر اور محلہ کے جتنے رفاہی کام تھے انہیں ہم اسی موقع پر نمٹاتے۔ لائبریری میں بیٹھ کر اخبار کا مطالعہ کرنے کا شوق انہی دنوں بڑھ جاتا۔ کبھی کبھی باڈی بلڈنگ کلب کا بھی چکر لگا لیا کرتے۔ سارے رشتہ دار بھی انہی دنوں یاد آتے، ورنہ سال بھر تو ہم ان کے گھر کا رستہ ہی بھولے رہتے۔ اپنے باورچی خانہ میں جا کر نئی نئی کھانے پکانے کی بھی کوشش کرتے۔
ان سب مشاغل کی وجہ سے یہ نہ ہوتا کہ ہمارے نمبر کم آتے یا ہم فیل ہوجاتے، بلکہ ہمارا شمار کلاس کے چند اچھے طلبہ ہی میں ہوتا تھا۔
ہم سارا سال نہ پڑھتے، کیونکہ ہمیں بھروسہ تھا کہ امتحان سے ایک دن پہلے ہم کافی کچھ ہضم کر سکتے ہیں اور ہوتا بھی یہی، ہم ایک شام یا ایک رات پڑھتے لیکن ایسا دل لگا کے کہ وہ سب دل میں اتر جاتا۔ صبح اٹھ کر دہراتے تو جگر تک اتر جاتا۔
امی جان نے کہہ رکھا تھا۔ ’’دیکھو بیٹا! امتحان سے ایک ہفتہ قبل اپنی سب کاپیاں احتیاط سے گھر میں رکھ دیا کرو، کیونکہ ان دنوں کاپیوں کا گم ہونا یا چوری ہوجانا بہت نقصان دہ ہوتا ہے!‘‘
ہم تو ویسے ہی اسکول جانے میں کاپیوں کتابوں کا بوجھ گراں سمجھتے تھے، بلکہ سرے سے عبث ہی جانتے تھے لہٰذا کورس مکمل ہونے کے بعد کسی کاپی کو گھر سے قدم باہر نکالنے کی اجازت نہ دیتے۔

*۔۔۔*

دو پرچے بہت اچھے ہوئے۔ اب سائنس کا پرچہ تھا۔ ہم سارے مشاغل سے فارغ ہو کر پڑھنے بیٹھے تو بھی سائنس نہ کھولی، بلکہ آج کے پرچے مطالعہ پاکستان کے وہ سوال دیکھنے لگے جو ہم صبح حل بھی کر آئے تھے۔ اس وقت تو مطالعہ پاکستان میں ایسا دل لگ رہا تھا کہ ہم اسے چھوڑ کر سائنس کی شکل بھی دیکھنے کو روادار نہ تھے۔ لیکن مجبوری تھی۔ کل اسی وقت بیٹھ کر اسی شوق سے سائنس پڑھنے کا شاید زیادہ فائدہ نہ ہوتا لہٰذا مطالعہ پاکستان کا مطالعہ منقطع کر کے سائنس کھولنی چاہی۔ کیا دیکھتے ہیں کہ اس کی کاپی غائب!
ہمارے تو پسینے چھوٹ گئے۔ حواس بے حال۔ گھبراہٹ کے عالم میں ایک مرتبہ پھر اسے ڈھونڈا، مگر اس کا نام و نشان نہ تھا۔۔۔
آنکھ کھلی تو سب سے پہلے دانت نظر آئے۔ حواسوں میں آئے تو یہ اس زہریلی مسکراہٹ کا حصہ ثابت ہوئے جو شجاعت مرزا کے چہرے پر پھیلی تھی۔
یہ تو ہم تھے جو برداشت کر گئے، کوئی اور ہوتا تو یقیناًچیخ مار اٹھتا کہ دوسرے جہاں میں پہلا ہی پالا کسی جلاد سے پڑ گیا ہے۔
ہم ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھے اور جھلا کر بولے۔ ’’شجاعت کے بچے کچھ تو بولو۔۔۔ تاکہ تمہارے منہ سے اس مسکراہٹ کا بگاڑ تو ختم ہو!‘‘
’’مم مم۔۔۔ مم!!‘‘
ہم گھبرا گئے کہ یا تو شجاعت مرزا کسی آدم خور قبیلہ کی زبان سیکھ آئے تھے یا پھر ہمارے ہی کان کسی فنی خرابی کی وجہ سے غلط سگنل لے رہے تھے۔ 
’’تمہاری امی کہہ رہی تھیں کہ 
ابھی بُک پڑھتے پڑھتے سو گیا ہے!‘‘شجاعت گنگنایا۔
’’اردو کا پرچہ ہو چکا شجاعت، اب سائنس کی فکر کرو۔‘‘ ہم پریشانی سے بولے۔
’’چھوڑو یار! فکر کرنے کیلئے کیا سائنس دان کم ہیں، جو ہم دبلے ہوں۔‘‘شجاعت بھنایا۔
’’ میری سائنس کی کاپی غائب ہے، اب ہمیں مل جل کر ہی پڑھنا پڑے گا۔‘‘ ہم نے اسے پریشانی کی اصل وجہ بتائی۔
’’ مل کر تو میں پڑھ سکتا ہوں مگر جل کر کیا مطلب ہے، کیا یہ مہمل ہے؟‘‘ اس نے بڑی تشویش سے پوچھا۔
’’اردو کا پرچہ ہو چکا شجاعت، لہٰذا اب اس فکر میں پڑنا ہی مہمل ہے!‘‘ ہم نے اسے ڈگر پر لانے کی کوشش کی۔
’’ میں نے تو تم سے کتنی مرتبہ مانگی تھی سائنس کی کاپی اپنا کام مکمل کرنے کیلئے، لیکن تم نے نہ دی، اب نہ تمہاری کاپی ہی موجود ہے نہ میرا کام مکمل۔۔۔ سو بھگتو!‘‘
اس نے کہا اور اپنی کاپی ہمارے اوپر دے ماری۔ ہم نے جلدی سے اسے کیچ کیا اور کھول کر پڑھنے کی کوشش کی لیکن اس کی خوشخطی بدخطی کہلانے کے قابل بھی نہ تھی ۔ گو کہ جب بنا کر لکھتا تو کافی خوبصورت لکھتا لیکن یہ کام نہ جانے اس نے کیوں اتنی بددلی سے کیا تھا۔ 
’’ اس میں تو مجھے سوائے کیڑے مکوڑوں کے اور کچھ دکھائی نہیں دے رہا!‘‘ ہم پریشان ہو کر بولے۔
’’ یہ بیالوجی میں حشرات الارض کا سبق ہوگا۔۔۔ داد دو مجھے!‘‘ اس نے کندھے اچکائے۔
ہم کچھ صفحے آگے بڑھے، تو بھی کوئی فرق نظر نہ آیا۔ شاید یہ نباتات الارض ہوں گے!
’’ اس میں سے تو کچھ پڑھا نہیں جا رہا، سمجھ کیا خاک آئے گا؟‘‘ ہم نے کاپی بند کر دی۔
’’تو کتاب سے پڑھ لو، اور مجھے بھی پڑھا دو۔‘‘
ہمارا طریقہ یہ تھا کہ ہم سوال پڑھتے ، پھر کاپی بند کرکے اس کا جواب سوچتے، یادداشت اور عقل کے تعاون سے جو بھی جواب بن پاتا بناتے اور پھر کاپی کھول کر دیکھتے کہ اصل جواب کیا ہے۔ اس طرح چیزیں بڑی جلدی حلق سے اتر جاتیں، لیکن کتاب میں تو صرف مضامین تھے، سوالاً جواباً کا انداز نہ تھا۔
’’ پیارے شجاعت! تم ہی اپنا لکھا ہمیں پڑھ کر سنا دو، ہم کچھ نہ کچھ اخذ کر ہی لیں گے!‘‘ ہم نے بڑے پیار سے کہا۔
’’کیا واقعی۔۔۔‘‘ وہ خوش ہو کر بولا۔
’’ لو سنو۔۔۔ عرض کیا ہے۔۔۔
تھیورم لکھ ڈالے شب بھر میں دنیا کے ریاضی دانوں نے
من اپنا نکما کافی ہے، برسوں میں بھی ان کو رَٹ نہ سکا‘‘
’’شجاعت شجاعت شجاعت! ہم نے تمہارا تازہ کلام سننے کی فرمائش نہیں کی تھی بلکہ سائنس کی کاپی پڑھنے کا کہا تھا۔‘‘ ہم نے سرپیٹ لیا۔
لیکن وہ شجاعت مرزا ہی کیا جو ہاتھ آئیں۔ جب تک ہمارے یہاں رہے آئیں بائیں شائیں کرتے رہے۔ نہ خود کچھ پڑھا، نہ ہی ہمیں کچھ پڑھا سکے!

*۔۔۔*

صبح پرچہ دینے گئے تو بے حد خوش تھے۔ نہ پڑھنے کی ٹینشن تھی نہ دہرانے کا دردِ سر کہ کاپی ہی پاس نہ تھی۔ خود کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کررہے تھے کہ خالی الذہن تھے۔ پتا تھا کہ پاس نہیں ہونا تو کیونکر کسی جھنجھٹ میں پڑتے، بس خانہ پری کرنے کیلئے امتحان گاہ پہنچے تھے کہ کسی طرح تین گھنٹے گزاریں۔
پرچہ جب سامنے آیا تو اسے دیکھ کر آنکھوں میں آنسو آگئے۔ کہاں تو ہم پرچے میں ان سوالوں کو ڈھونڈا کرتے تھے کہ جو ذرا کچے ہوں کہ انہیں چوائس میں چھوڑیں، مگر ہر سوال ہی پکا معلوم ہوتا اور آج ہم کسی ایسے سوال کی تلاش میں تھے کہ جو تھوڑا بہت بھی آتا ہو تو اس کے اوپر کوئی کہانی گھڑیں!
گو حقیقت تو نہیں تھی مگر شمار اچھے طلبہ ہی میں ہوتا تھا لہٰذا کاپی کو خالی چھوڑنا کسرِ شان سمجھا اور قلم سنبھال کر ہمت پکڑی۔
ہر ہر سوال پر کافی غور و خوص کیا اور کچھ نہ کچھ لکھ ہی چھوڑا۔ ایک سوال میں بینزین رنگ بنانے کا تقاضہ تھا۔ شجاعت کا قصہ یاد آیا جو اس نے خود سنایا تھا۔
ہوا یہ تھا کہ جنید بھائی کے امتحانات تھے ۔ مرزا نے انہیں فون پر کسی سے بات کرتے سنا کہ میں تو میگزین پڑھ رہا ہوں۔ مرزا نے جھٹ جنید بھائی کی امی سے شکایت کی کہ وہ بجائے امتحان کی تیاری کے میگزین سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ جب چھاپہ مارا گیا تو معلوم ہوا کہ میگزین نہیں بلکہ کیمسٹری کے اندر بینزین پڑھ رہے ہیں جو کہ بہت زیادہ استعمال ہوتی ہے اور اس کی شکل ہیرے جیسی ہوتی ہے۔
یہ واقعہ یاد کرکے ہم نے جواب لکھ دیا کہ یہ بین زین بہت زیادہ استعمال ہونے والی چیز ہے اور لگے اس کی شکل بنانے جو کہ ہیرے سے مشابہ ہوتی ہے۔ وقت کی تو کوئی کمی نہیں تھی، یوں سمجھیں ہم نے کوہِ نور کا ہیرا بنا ڈالا۔ وہ اتنا خوبصورت بنا تھا کہ ہم خود ہی آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسے بار بار دیکھتے اور سوچتے کہ اگر اسے کسی آرٹ گیلری میں رکھ دیا جائے تو ہیرے جیسی قیمت میں فروخت ہو!

*۔۔۔*

باقی پرچے اچھے ہوئے لیکن سائنس میں فیل ہوجا نا سب کیے کرائے پر پانی پھیر دینے کے مترادف ہوتا۔ 
کلاس میں بے عزتی اور گھر میں بے رحمی کا سامنا کرنا پڑتا۔ نتیجہ آنے تک ہم صرف بہانے اور طریقے سوچتے رہے کہ کس طرح معاشرے میں منہ دکھائیں گے۔
ساتھ ساتھ کاپی ڈھونڈنے کی بھی ناکام کوشش کرتے رہے۔ نتیجہ آگیا۔ پاس ہونے والوں کے نام پکارے جانے لگے۔ ہم انتظار میں تھے کہ کب فیل ہونے والوں کا نمبر آئے تو ہم بھی اپنی رپورٹ لے کر کسی پچھلے دروازے سے راہِ فرار اختیار کریں۔
جب پاس ہونے والوں ہی میں شجاعت مرزا کا بھی نام پکارا گیا تو ہم غش ہی کھا گئے۔ سوچا کہ اتنا زیادہ بے وفا دوست رکھنے کا کوئی فائدہ ہی نہیں جس نے خود تو تیاری کر لی تھی اور میں بیٹھا اپنی آنے والی جوانی کے قصے سنا رہا تھا۔ ہمیں کسک ہوئی کہ کاش یہاں چلو بھر پانی ہوتا جس میں ہم شجاعت مرزا کو ڈبو سکتے۔
شجاعت اپنی رپورٹ کارڈ لیے اسے اس حیرت سے تک رہا تھا جیسے اسے غلطی سے پاس نہیں بلکہ فیل کر دیا گیا ہو۔
ہمارا بھی نام پکارا گیا تو ہم انگلیاں کاٹنے لگے کہ خواب ختم ہو لیکن نہ ہوا، پر نہ ہوا۔
تینتیس نمبر پر پاس ہوتے تھے، ہمارے سائنس میں پینتیس تھے۔ شجاعت کا حال بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ خیر وہ تو تیاری ہی پینتیس کی کیا کرتا تھا۔
استاد نے بتایا 
’’بینزین والا سوال کورس کا حصہ نہیں تھا ۔ یہ کسی غلطی کی وجہ سے پرچہ میں آگیا تھا۔ لہٰذا پرنسپل صاحب کے حکم پر اور اصول کے مطابق جس طالبعلم نے بھی اس سوال کو حل کرنے کی کوشش کی، بھلے یہ سوال ہی کاپی پر نقل کر دیا اسے پورے پانچ نمبر دے دیئے گئے!‘‘
ہمارا تو مارے خوشی کے برا حال تھا کہ کاٹو تو بدن سے لہو کی نہریں پھوٹ پڑیں۔ اسی غلطی کے نتیجہ میں ہمارا بیڑا پار لگ گیا تھا۔ شجاعت نے بتایا۔
’’ ہوں۔۔۔ ہوں۔۔۔ ہوں!! چونکہ بینزین کے ساتھ رِنگ لکھا تھا لہٰذا میں نے تو انگوٹھی بنائی تھی اور وہ بھی ہیرے کی۔ جنید بھائی زندہ باد، ورنہ تو میں یہ سوال ہی حل نہ کرتا اگر اتنا نہ پتا ہوتا!‘‘
ہم ساری رنجشیں ، عداوتیں بھلا کر شجاعت کے گلے لگ گئے اور پھر گلے میں بانہیں ڈالے ہنستے گاتے گھر کی طرف روانہ ہوئے۔
’’آج تو اس بڑی خوشی کی دعوت میں کچھ ہوجائے۔‘‘ ہم فراخ دلی سے بولے۔
’’ میرے پاس تو فقط چند سکے ہیں، کرایے کے!‘‘ اس نے اپنی جیب کھنگالی۔
’’اوہ! ہیں تو میرے پاس بھی چند ہی سکے، لیکن دیکھو شاید اس میں جوس آجائے!‘‘ ہم نے اپنے سکے بھی اسے تھمائے۔ 
’’گھر تک پیدل جانا پڑے گا۔ اسی قربانی کے نتیجہ میں مل سکتا ہے جوس!‘‘ شجاعت نے کہا تو ہم راضی ہو گئے اور پیدل ہی گھر کی طرف روانہ ہوئے۔
جب گھر اور جوس کی دکان تھوڑی ہی دور رہ گئی تو سڑک کے کونے پر لگے کیمپ میں سے آواز آئی۔
’’کشمیر اور فلسطین کے مجاہدوں کی مدد کیجئے۔ مظلوموں کی امداد کرتے جائیے، اپنا حصہ ڈالتے جائیے!‘‘
’’یار۔۔۔ یہ لوگ اتنا کیمپ وغیرہ لگانے کے بجائے اس کا خرچہ خود ہی بھیج دیتے تو یہ اچھا نہ ہوتا۔‘‘ ہم نے منہ بنایا۔
’’تم نے گھر میں چولہا، دیگچی اور پلیٹیں کیوں خریدی ہیں۔وہ تو تمہارا پیٹ نہیں بھرتیں۔تم ان پیسوں کا کھانا ہی خرید کر کھا لیتے تو یہ اچھا نہ ہوتا۔‘‘ 
ہمارا منہ بند ہو گیا۔ شجاعت کچھ دیر بعد بولا۔
’’یار۔۔۔ہم گھر پہنچ کر پانی پی لیں گے۔۔۔ یہ سکے ہم فنڈ میں دے دیتے ہیں۔‘‘
’’ لیکن اتنے کم پیسوں سے کیا فرق پڑے گا۔ دشمن تو بہت طاقتور اور وسائل سے مالا مال ہے۔‘‘ ہم نے جرح کی۔
’’فرق پڑے گا میری جان! کم از کم ہم خود تو پاس ہوجائیں گے، جیسے بینزین والا سوال حل کرکے ہو گئے ، جبکہ وہ آدھا نمبر حاصل کرنے کا مستحق بھی نہ تھا۔‘‘
شجاعت نے کہا اور سکے فنڈز کیلئے پھیلی جھولی میں اچھال دیئے۔ ہمیں محسوس ہوا جیسے وہ کم قیمت سکے نہ ہوں بلکہ بیش قیمت انگوٹھیاں ہوں، جن میں سے ہر ہر ایک پر کوہِ نور کا ہیرا جڑا ہو!

*۔۔۔*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top