skip to Main Content

’’ہ‘‘ نے چشمہ پہنا

راحت عائشہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حروف تہجی سیکھنے کیلئے ایک دلچسپ تحریر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سردیوں کی آمد آمد تھی۔ اگرچہ دن میں تو گرمی ہی ہوتی تھی لیکن رات میں کچھ ٹھنڈی ہوا چل جاتی تھی بلکہ امی کو احساس ہو رہا تھا کہ سارا اور علی جب صبح اسکول جاتے ہیں تو اس وقت بھی ٹھنڈ ہورہی ہوتی ہے۔ 
آج شام جب سارا کی آنکھ کھلی تو امی نے چھوٹی سی سیڑھی کمرے میں رکھی ہوئی تھی۔ باتھ روم کے اوپر دو چھجے بنے ہوئے تھے جن پر امی کبھی کبھار استعمال ہونے والی اشیا رکھا کرتی تھیں۔ سارا اور علی کو اس دو چھتی پر چڑھنے میں بڑا مزا آتا۔ وہاں علی اور سارا کے پرانے کھلونے بھی رکھے ہوئے بھی تھے۔ کچھ بڑے بڑے تھیلوں میں سردیوں کے گرم کپڑے تھے۔ ایک کونے میں گدے، بستر اور لحاف وغیرہ رکھے تھے جو سردیوں میں نکالے جاتے، ان پر چڑھ کر کھیلنے میں علی اور سارا کے کھیل کا لطف دوبالا ہوجاتا لیکن یہاں تک آنے کا موقع انھیں کم کم ہی ملتا تھا خاص طور سے جب امی کو کوئی چیز نکالنی یا رکھنی ہوتی تھی۔ آج بھی جیسے ہی سارا نے دیکھا کہ دو چھتی کا چھوٹا دروازہ کھلا ہے اور سیڑھی بھی لگی ہوئی ہے تو وہ چھلانگ مار کر اُٹھ کھڑی ہوئی۔ اس نے سوتے ہوئے علی کا کاندھا پکڑ کر ہلایا۔ 
’’ علی آؤ اوپر چلیں دو چھتی میں۔۔۔ امی بھی وہیں ہیں۔‘‘
علی کی آنکھیں فوراً کھلیں۔ سارا علی کو اٹھا کر اوپر چڑھنے لگی۔ 
’’امی میں بھی آرہی ہوں۔‘‘ سارا نے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے آواز لگائی۔
’’سنبھل کر آنا۔‘‘ اندر سے امی کی آواز آئی۔
سارا کو دیکھ کر علی بھی بھاگا بھاگا آیا۔ سارا نے اندر جھانکا۔ امی گھٹنوں کے بل بیٹھی گرم کپڑوں کے تھیلے سے کچھ کپڑے نکال رہی تھیں۔ چھوٹے چھوٹے دستانے، موزے، گرم ٹوپے اور سوئیٹر۔’’ ارے یہ تو میرے ہیں۔‘‘ سارا نے دستانے اٹھاتے ہوئے لحاف پر چھلانگ لگائی۔
’’جی نہیں یہ میرے تھے۔‘‘ علی بھی اوپر آچکا تھا ۔ اس نے بھی لحاف پر چھلانگ لگائی۔
’’اوہو۔۔۔ بھئی تم دونوں کے ایک جیسے تھے۔ یہ لو مل گئے تمھارے بھی۔‘‘ امی نے تھیلے سے دستانے کی ایک اور جوڑی برآمد کی۔
علی اپنا پرانا بھالو کونے سے اُٹھا لایا۔ ’’ یہ دیکھو اب بھی کتنا پیارا ہے۔‘‘
’’ ہاں یہ بارش میں بھیگ رہا ہے اسے چھتری کے نیچے لے آؤ۔‘‘ سارا نے چھتری کھولی۔
’’چلو بچو! نیچے آجاؤ۔‘‘ امی نے سامان سمیٹ کر ایک تھیلے میں رکھنا شروع کیا۔
’’امی میں یہ بھالو لے کر جاؤں گا۔‘‘ علی کے دل میں بھالو کی محبت جاگی ۔
’’امی میں بھی یہ والی چھتری۔‘‘ سارا نے چھتری گھمائی۔
’’اچھا بھئی لے آؤ۔‘‘ امی مسکرا کر بولیں۔
’’ امی کیا میں یہ تھیلا پکڑوں؟‘‘ سارا نے امی کی مدد کرنی چاہی۔ 
’’نہیں بیٹا یہ تھیلا بھاری ہے۔ آپ یہ پکڑو۔‘‘ امی نے ہاتھ میں پکڑے سوئیٹر کو سارا کی پشت(کمر) پر ڈالتے ہوئے کہا اس کی دونوں آستینیں پکڑ کر سارا کی گردن کے گرد ہلکی سی گرہ لگادی۔ اب یہ گرنے سے محفوظ ہوگیا۔ سارا اور علی بھی امی کے ساتھ ساتھ نیچے اُترے۔ 
’’چلو بچو! اب ہاتھ منھ دھولو۔‘‘ امی نے ہدایت دی۔ امی کی بات سن کر سارا باتھ روم کی طرف بڑھ گئی اور علی امی کے پیچھے پیچھے امی کے ساتھ ہی چلا گیا۔
سارا کچھ دیر بعد اپنا بستہ لیے برآمدے( باہر سے کمرے کی طرف آنے والا راستہ) میں آگئی۔ اسکول کا ہوم ورک یہاں بیٹھ کر کرنے میں سارا کو مزہ آتا تھا اور امی کی مدد لینے میں بھی آسانی رہتی تھی۔ سائنس اور حساب کا کام کرنے کے بعد سارا نے اُردو کی کتاب اور کاپی نکالی۔ اردو کی کاپی میں سارا کے بہت سارے دوست ’حروف ‘رہتے ہیں۔ جن میں سے نوتو بہت ہی شرارتی ہیں۔ وہ اپنے ساتھ کسی کو نہیں ملاتے۔ وہ سارا کو کہانیاں بھی سناتے ہیں۔ 
سارا کے دوست حروف سارا کی آنکھوں کے سامنے آگئے۔ نوشرارتی حروف ۱، د، ڈ، ذ، ر، ڑ، ز، ژ، اور و الگ کھڑے مسکرارہے تھے۔
’’یہ کیا ہے؟‘‘ ت نے بڑے سے تھیلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سارا سے پوچھا۔
’’یہ بھاری تھیلا؟ اس میں ہمارے سردیوں کے کپڑے ہیں یہ ہم نے امی کے ساتھ مل کر دو چھتی سے اتارا ہے۔‘‘ سارا نے بتایا۔
’’اچھا۔۔۔ کیا تمھیں پتا ہے ہم میں سے کچھ بھاری حروف بھی ہیں یعنی بھاری آواز والے حروف۔۔۔؟‘‘ پ نے اپنے نقطے سنبھالتے ہوئے پوچھا۔
’’اچھا واقعی؟ وہ کون کون سے ہیں؟‘‘ سارا نے تمام حروف پر نگاہ دوڑائی جیسے انھیں ڈھونڈ رہی ہو۔
’’ہاہاہا۔۔۔ تمام حروف کھلکھلا کر ہنس پڑے۔
بھئی وہ ایسے نہیں نظر آئیں گے۔ بھاری آواز والے حروف کو ہم اپنی بہن دو چشمی ’ھ‘ کے ساتھ مل کر بناتے ہیں۔‘‘ ب نے سارا کو سمجھایا۔ دیکھو جیسے میں اور دو چشمی ھ مل کر بنے ’بھ‘۔ ب نے ھ کے ساتھ مل کر دکھایا۔ اب ہم ہو گئے بھاری آواز والے۔ اب تم ہمیں پڑھو۔
’’بھ‘ سارا نے پڑھا۔ واقعی یہ آواز بھاری تھی۔ سارا کو مزہ آیا۔ ’’اچھا اور؟‘‘ سارا نے پوچھا۔
پھر تو ایک لائن لگ گئی ہر حرف آگے بڑھنے کی کوشش کرنے لگا۔
’’ایک ایک کرکے آئیے۔‘‘ بھ نے بھاری آواز میں کہا۔ 
بھ کے پیچھے ایک قطار سی بندھ گئی جن میں پھ، تھ، ٹھ، جھ، چھ، دھ، ڈھ، ڑھ، کھ، گھ، لھ، مھ اور نھ شامل تھے۔
ہم سب اب بھاری آواز والے حروف بن گئے۔ بھ نے ایک بار پھر بتایا۔ ہماری بہن دوچشمی ھ کا بہت شکریہ جو ہم سب کے ساتھ مل کر ہمیں بالکل نیا روپ دے دیتی ہیں۔ سارے حروف نے مل کر دو چشمی ھ کا شکریہ ادا کیا۔ دو چشمی ھ نے مسکرا کر اپنا چشمہ درست کیا اور کہا:’’ مجھے خوشی ہوتی ہے کہ میں سب کے کام آتی ہوں۔ ورنہ کتنے ہی لفظ ادھورے رہ جاتے۔‘‘
اُنھوں نے کچھ لفظ بنائے اورسارا نے گنگنانا شروع کیا۔
بھ سے بھالو، پھ سے پھول
تھ سے تھیلی، دھ سے دھول
جھ سے اُونچا جھولا جھولو
چھ سے تین ستارے چھولو
دھ سے دھاگا، ڈھ سے ڈھابا
آؤ مل کر بیٹھیں بابا
کھ سے کھمبا گھ سے گھاس
آؤ سکھیوں میرے پاس
چھولھے میں ڈالو نہ پتنگ
نہ کرو بھیا امی کو تنگ
ننھا ننھی بہت ہیں پیارے
پھپھو جی کے راج دلارے
’’دیکھو سارا! یہ تو ہوئے دوچشمی ھ والے الفاظ اور باقی کچھ لفظوں کے ساتھ لٹکی ہوئی ’ہ‘ لگائی جاتی ہے جسے ہاے ہوّز کہا جاتا ہے۔بعض لوگ اسے ہاتھی والی ’ہ‘ بھی کہتے ہیں۔ جیسے ف سے فہم، س سے سہم بنتا ہے وغیرہ وغیرہ لیکن یہ بھاری آواز والے نہیں ہوتے۔‘‘ ’آ‘ نے آگے آکر سارا کو سمجھایا۔
’’شکریہ دوستو! اب میں بھاری آواز والے سارے حروف اچھی طرح سمجھ گئی ہوں۔‘‘ سارا نے شکریہ ادا کیا۔ 
بھ نے کہا:’’آؤ مل کر ایک فہرست تیار کرتے ہیں جو چیزیں اس کمرے میں ہیں ان میں سے کس میں بھاری آواز والے حروف استعمال ہوتے ہیں۔‘‘
سارا نے کاپی سنبھالی اور لکھنا شروع کیا۔
’’بھالو‘‘۔۔۔ بھ نے کہا۔
’’پھول‘‘۔۔۔ پھ بولا
’’تھالی‘‘۔۔۔ تھ نے یاد دلایا
’’سیڑھی‘‘۔۔۔ڑھ نے کہا۔
’’دو چھتی۔۔۔جس پر سیڑھی سے چڑھتے ہیں۔‘‘ سارا نے سب کو بتایا۔ 
سارا فہرست بناتی جا رہی ہے۔ کیا آپ بھی سارا کی اس فہرست میں اضافہ کرسکتے ہیں؟ دیکھیں ہوسکتا ہے کچھ لفظ آپ کو سارا کی اس کہانی سے بھی مل جائیں۔

*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top