چِینی اور بے چَینی
کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔
”امی! یہ چائے ہے؟“ نوید، چائے کی چسکی لے کر منہ بناتے ہوئے چلا یا، اس میں چینی تو ہے ہی نہیں۔“
”بیٹے، میں نے خود دو چمچے چینی ڈالی ہے، تم چمچ لے کر پیالی میں ذرا چلا لو، چینی گھلی نہیں ہوگی۔“ باورچی خانے سے امی کی آواز آئی۔
”ہو سکتا ہے گھلی نہ ہو، مگر امی، صرف دو چمچے؟ میں تو چار چمچے چینی ڈالتاہوں۔“ نوید نے شکایت بھرے لہجے میں کہا۔
”کیا کہا؟ چار چمچے؟ یہ کیا غضب کر رہے ہو؟“ ڈاکٹر خورشیداخبار پڑھتے ہوئے چونک کر بولے۔”اتنی چینی لینے سے تو تمھیں بہت نقصان ہو سکتا ہے۔“
”کیوں بھائی جان؟ چینی تو فوری توانائی دیتی ہے۔ ہمارے سائنس کے استاد بتا رہے تھے۔“ نوید نے اپنی معلومات کا اظہار کیا۔
”بالکل ٹھیک ہے، تمھارے استاد درست کہتے ہیں، مگر انھوں نے ابھی تمھیں پوری بات نہیں بتائی۔“
”وہ کیا بھائی جان۔“
”چینی فوری توانائی دیتی ہے اس لیے بیماروں کے لیے تو ٹھیک ہے لیکن تندرست انسان کے لیے مناسب نہیں ہے، کیونکہ چینی کھانے کی وجہ سے آپ کے خون میں گلوکوز کی مقدار فوراً بڑھ جاتی ہے، اس لیے بھوک کی خواہش کم ہو جاتی ہے، خیر یہ تو چھوٹی سی شکایت ہوئی۔ چینی کے زیادہ استعمال سے بڑے بڑے نقصانات ہو جاتے ہیں۔“
”مگر کیسے بھائی جان؟“
”بتا رہا ہوں۔ چینی زیادہ کھانے کے نتیجے میں، خون میں کولسٹرول، حلوین، گلوکوز اور یورک تیزاب بڑھ جاتے ہیں۔ یہ سب چیزیں مختلف بیماریوں کا باعث بنتی ہیں۔ تم نے کولسٹرول کا نام تو سنا ہوگا، یہ ایک طرح کی چکنائی ہے جو ویسے تو جسم کے لیے مفید ہے لیکن جسم میں ضرورت سے زیادہ ہو جائے تو خون کی رگوں میں جمنے لگتی ہے۔ اس سے دل کے امراض ہو جانے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ہمارے جسم میں چینی، چکنائی، کولسٹرول اور لحمیات یعنی پروٹین کے آپس میں ملنے سے ایک نیا مادہ پیدا ہوتا ہے جسے حلوین یا ٹرائی گلیسرائڈز کہتے ہیں۔ یہ کولسٹرول سے بھی زیادہ خطر ناک ہے۔ یہ بھی خون کی رگوں میں جمنا شروع کر دیتا ہے۔“
”لیکن بھائی جان اس طرح تو سب لوگوں کو دل کا مریض ہو جانا چاہیے کیونکہ اکثریت چینی استعمال کرتی ہے۔“نوید نے پوچھا۔
”پہلی بات تو یہ کہ جسم میں خرابی کا یہ عمل آہستہ رفتار سے جاری رہتا ہے اور چونکہ ہم زندگی بھر، چینی استعمال کرتے رہتے ہیں، اس لیے خرابی بڑھتی رہتی ہے اور کئی برسوں بعد یہ بڑی خرابی کی صورت میں ظاہر ہو جاتی ہے۔ دوسرے یہ کہ کچھ لوگ چینی استعمال تو کرتے ہیں لیکن سخت محنت مشقت والے کام کرتے ہیں، اس لیے وہ چینی فوراً خرچ ہو جاتی ہے۔ پھر چینی سے صرف دل کے امراض نہیں ہوتے بلکہ دیگر کئی امراض بھی ہو جاتے ہیں۔“
”وہ کون سے؟“
”مثلاً مٹاپا!“
”لیجیے، بھائی جان، مٹا پا بھی کوئی بیماری ہے؟“
”ہاں، ہاں، یہ تو سو بیماریوں کی ایک بیماری ہے۔ مٹاپے کی وجہ سے دل کے امراض، بلند فشار خون (ہائی بلڈ پریشر) ذیا بیطس، پتے کی پتھری، درد کمر، جوڑوں میں درد وغیرہ تو بالکل عام ہیں، اور میں دیکھ رہا ہوں کہ تم ماشاء اللہ خاصے موٹے ہوتے جا رہے ہو۔“
”میں؟“ نوید نے شرما کر خود پر نظر ڈالی۔”زیادہ تو نہیں بھائی جان“
”بہر حال، زیادہ مٹھاس اور چکنائی کھانے اور کم چلنے پھرنے سے مٹاپا آتا ہے اور وہ آ رہا ہے۔ خیر، تم نے ذیا بیطس کا ذکر سنا ہوگا، اسے لوگ شوگر کا مرض بھی کہتے ہیں۔ یہ بھی اکثر، زیادہ چینی استعمال کرنے کے باعث ہو جاتا ہے، پھر ایک اور بیماری ہے گٹھیا، یعنی جوڑوں میں درد، سوجن وغیرہ۔ جب چینی زیادہ استعمال کریں تو خون میں یورک ترشہ یعنی یورک ایسڈ بڑھ جاتا ہے اور وہ گٹھیا کاسبب بنتا ہے۔“
”بھائی جان آپ تو مجھے بڑی خوف ناک باتیں بتا رہے ہیں۔“ نویدنے گھبرا کر کہا۔
”بھئی، قابل معالجوں اور سائنس دانوں نے بڑی تحقیق کے بعد یہ باتیں بتائی ہیں۔ ان میں کوئی بات بڑھا چڑھا کر بیان نہیں کی گئی۔ ابھی تو تم نے ان ساری بیماریوں کی تفصیل سنی ہی نہیں جو چینی اپنے ساتھ لاتی ہے۔ جو لوگ زیادہ چینی استعمال کرتے ہیں ان میں معدہ کی بیماریاں خصوصاً گیس اور السر یعنی زخم معدہ عام ہیں۔ اس کے علاوہ جب چینی کھائی جاتی ہے تو اس کے ذرات دانتوں میں چپک جاتے ہیں۔ اس چینی کی وجہ سے منہ میں تیزاب پیدا کرنے والے کیڑوں کی پرورش ہوتی ہے۔ ان کیڑوں سے نکلنے والا تیزاب آپ کے مضبوط دانتوں میں سوراخ ڈال دیتا ہے۔ کیا تم اپنے دانتوں میں سوراخ ڈلوانا پسند کرو گے؟“
”نہیں تو!“
”اچھا، اور سنو! چینی تمھیں توانائی تو دیتی ہے لیکن نہ اس میں حیاتین یعنی وٹامن ہوتے ہیں، نہ ضروری معدنیات۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارا جسم اس طرح بنایا ہے کہ اسے متوازن غذا کی ضرورت ہوتی ہے یعنی اسے نشاستہ بھی چاہیے، لحمیات بھی، چکنائی بھی، حیاتین بھی اور معدنیات بھی۔ ان میں سے کسی بھی شے کی کمی سے جسمانی کار کردگی متاثر ہوتی ہے۔ دراصل اس پوری دنیا بلکہ پوری کائنات میں اللہ تعالیٰ نے توازن رکھا ہے، تو میں یہ کہ رہا تھا کہ جب ہم چینی زیادہ کھاتے ہیں تو اسے ہضم کرنے کے لیے ہمیں حیاتین ب یعنی وٹامن بی کی ضرورت پڑتی ہے۔ اب یہ حیا تین چینی میں تو نہیں ہیں۔“
”اور ہاں بھائی جان، میں بھی کبھی کبھی خود کو بہت تھکا ہوا محسوس کرتا ہوں۔“ نوید نے سر ہلایا۔
”خیر، اس کی اور وجوہ بھی ہو سکتی ہیں۔ ایک اور بات تو میں نے تمھیں بتائی نہیں کہ چینی کے زیادہ استعمال سے جگر اور گردوں کو بھی نقصان ہوتا ہے۔“
”مگر بھائی جان، میں تو صرف چائے میں زیادہ چینی لیتا ہوں۔“ نوید نے صفائی پیش کی۔
”صرف چائے میں؟ حد ہو گئی سادگی کی؟ نوید میاں، چینی تو آپ بے شمار چیزوں کی شکل میں روز کھاتے رہتے ہیں، مٹھائی ہے، ٹافی ہے، قلفی ہے، کیک، پیسٹری،بسکٹ، چٹنی، ٹھنڈی بوتلیں ہیں۔ ایک اندازہ ہے کہ سال بھر میں ایک آدمی ایک من چینی کھا جاتا ہے۔“ ”بھائی جان، اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ میٹھی چیزیں کھانا بالکل چھوڑ دیاجائے؟“ نوید نے پریشان ہو کر پوچھا۔
”یہ کس نے کہ دیا؟ مٹھاس تو ہمارے لیے ضروری ہے اور پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں طرح طرح کے ذائقوں سے لطف اٹھانے کے لیے زبان جو عطا کی ہے، اس کو بھی خدمت کا موقع ملنا چاہیے، چنانچہ اللہ نے قسم قسم کے پھل پیدا کیے ہیں، جن میں مٹھاس تو ہے ہی، ساتھ ساتھ، حیاتین ہیں، معدنیات ہیں، رس ہیں، گودا اور ریشہ ہے، یہ سب چیزیں ہماری صحت کے لیے بہت ضروری ہیں۔ سبزیوں میں بھی تمھیں بہت مفید اجزا مل جائیں گے۔“
”بھائی جان، آپ نے یہ جو”چینی چھوڑ دو تحریک“ شروع کی ہے، آج سے میں بھی اس تحریک کا ایک ادنیٰ کارکن ہوں، اس تحریک کے کارکن پھل کھانا پسند کرتے ہیں، اس لیے میں ابھی دو عدد آم کاٹ کر لاتا ہوں، آپ جائیے گا نہیں، ابھی لایا۔“ نوید یہ کہ کر آموں کی پیٹی کی طرف لپکا اور ڈاکٹر خورشید مسکرا کر دوبارہ اخبار پڑھنے لگے۔