skip to Main Content

۲ ۔ حیات طیبہ

پروفیسر عفت گل اعزاز

۔۔۔۔۔۔
حضرت محمد ﷺ کی ولادت باسعادت
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت اس سال ہوئی جسے عام الفیل یعنی ہاتھیوں کا سال کہا جاتا ہے۔ یہ وہی سال ہے کہ جب ابرہہ اپنے ہاتھیوں کو لے کر خانہ کعبہ پر حملہ کرنے آیا اور یہاں سے ناکام و نامراد واپس ہوا۔ حضرت عبداللہ کے انتقال کے چند ماہ بعد بی بی آمنہ کے ہاں بیٹا پیدا ہوا جس کو خدا نے نبوت عطا کی اور تمام جہانوں کے لیے سراپا رحمت بنایا۔
ہوئی پہلوئے آمنہ سے ہویدا
دعائے خلیل اور نوید مسیحا
آپ کی ولادت کو ظہور قدسی کہا جاتا ہے۔ روایت ہے کہ جس مکان میں آپ پیدا ہوئے وہ مکان نور سے بھر گیا اور اسی شب ایوان کسریٰ میں زلزلہ آیا اور اس کے محل کے چودہ کنگرے گر گئے۔ ایران میں ہزاروں سال سے جلنے والا آتش کدہ یک دم بجھ گیا۔ یہ تاریخ ۲۱ ربیع الاول تھی۔ عیسوی سن کے مطابق یہ ۰۲اپریل ۱۷۵ء اور پیر کا مبارک دن تھا۔ حضرت عبدالمطلب کو جب پوتے کی پیدائش کی اطلاع ملی تو آپ اسے اٹھا کر خانہ کعبہ لے گئے۔ اس کے لیے دعائے خیر کی اور اس کا نام نہایت پیار و محبت کے ساتھ”محمد“ رکھا۔ لوگوں کے لیے یہ نام بڑا نیا اور انوکھا تھا۔ حضرت عبدالمطلب نے بتایا کہ اس کا مطلب ہے جس کی بہت زیادہ تعریف کی گئی ہو۔ میں چاہتا ہوں کہ میرے پوتے کی زمین پر اور آسمانوں پر ہر جگہ بہت تعریف ہو۔ یہ صرف ایک دادا کی خواہش ہی نہیں تھی بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ تھا کہ رہتی دنیا تک محمد ﷺ کا نام درود و سلام کے ساتھ لیا جاتا رہے گا۔ آپ ﷺکی والدہ بی بی آمنہ نے آپ ﷺ کا نام احمد رکھا جو آپﷺ کی ولادت سے قبل انہوں نے خواب میں دیکھا تھا۔ احمد کا مطلب ہے جو سب سے زیادہ تعریف کرنے والا ہو۔ اس طرح محمد ہونے کے حوالے سے آپﷺ کی دنیا میں سب سے زیادہ تعریف کی گئی اور احمد ہونے کے لحاظ سے آپﷺ نے اپنے رب کی سب سے زیادہ تعریف کی۔
پیدائش کے بعد چند روز تک آپﷺنے اپنی والدہ ماجدہ کا دودھ پیا۔ پھر کچھ دن حضرت ثوبیہ کا دودھ پیا۔ ان دنوں عرب میں یہ دستور تھا کہ شہر کے معززین اپنے شیر خوار بچوں کو آزاد اور کھلی فضا میں پلنے کے لیے دیہات بھیج دیا کرتے تھے تاکہ وہ تنو مند اور دلاور ہو جائیں اور خالص عربی زبان بھی سیکھ لیں۔ اس طریقے کے مطابق آپﷺ کو ایک دائی حلیمہ سعدیہ کے سپرد کر دیا گیا۔ وہ آپﷺ کو اپنے ساتھ گاؤں لے گئیں اور بڑی توجہ اور محبت سے آپﷺ کی پرورش کرنے لگیں۔ حلیمہ سعدیہ حضرت محمدﷺ کو لے کر جب اپنی کمزور اونٹنی پر سوار ہوئیں جو بہت سست رفتار تھی تو وہ یک دم تیزی سے دوڑنے لگی۔ آپﷺ کے وجود کی برکت سے ان کے گھر میں خوشحالی آ گئی جبکہ پہلے وہاں تنگ دستی اور فاقہ کشی تھی۔ اب اونٹنی اور بکریوں کے دودھ میں اضافہ ہو گیا اور ان کی چراگاہیں سبز ہو گئیں اور گھر کی تمام ضروریات احسن طریقے سے پوری ہونے لگیں۔
حضرت محمدﷺ کا بچپن
بچپن میں ہی حضورﷺ پر اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت تھی۔ ایک بار حلیمہ سعدیہ کی بیٹی شیما آپﷺ کو لے کر عین دوپہر کے وقت باہر نکل گئیں۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک بادل کا ٹکڑا حضورﷺ پر سایہ کیے رہا، اور آپ ﷺدھوپ کی تیزی اور گرمی سے محفوظ رہے۔ جب حضورﷺ ٹھہر جاتے، بادل بھی رک جاتا۔جب آپﷺ چل پڑتے تو بادل بھی ساتھ ساتھ چلنے لگتا۔
حلیمہ سعدیہ کے بچوں نے یہ بھی دیکھا کہ ایک روزدو آدمی آئے۔ انہوں نے حضرت محمدﷺ کا سینہ چاک کیا اور آپﷺ کے دل پرسے ایک سیاہ رنگ کا دھبہ باہر نکال پھینکا کہ یہ شیطان کا حصہ ہے۔ گویاآپﷺ کے دل کو شیطان کے برے کاموں سے محفوظ کر کے بالکل پاک و صاف کر دیا گیا۔
پھر جب حضورﷺ کی عمر چھ سال کی ہوئی تو آپﷺ خوب صحت مند اور توانا ہو گئے اور آپﷺ کا قد بھی بہت اچھا نکلا کہ آپﷺ اپنی عمر سے زیادہ نظر آ نے لگے۔ حضرت آمنہ اپنے بیٹے کو دیکھ کر بہت مسرور ہوئیں۔ وہ اپنے مرحوم شوہر کی قبر کی زیارت کے لیے مدینہ تشریف لے گئیں۔ ان کے ہمراہ حضرت محمدﷺاور خادمہ ام ایمن بھی تھیں۔ زیارت سے واپسی پر ابواء کے مقام پر حضرت آمنہ کا انتقال ہو گیا۔ ام ایمن آپﷺ کو بڑی احتیاط سے واپس مکہ لے آئیں جہاں حضرت عبدالمطلب نے اپنے لاڈلے پوتے کی پرورش کی۔ جب حضورﷺ کی عمر آٹھ سال کی ہوئی تو حضرت عبدالمطلب کا انتقال ہو گیا۔ انتقال سے پہلے ہی انہوں نے حضرت محمدﷺ کی پرورش کی ذمہ داری اپنے بیٹے ابو طالب کو سونپ دی۔ ابو طالب اور حضرت عبداللہ کی والدہ ایک ہی تھیں۔ چنانچہ آپﷺ کے سگے چچا ابو طالب نے آپﷺ کے سر پر دست شفقت رکھا۔ ابو طالب کیثر العیال تھے لیکن اس کے باوجود انہوں نے اپنی اولاد سے بڑھ کر اپنے بھتیجے کا خیال رکھا۔ ان کے ساتھ ہمیشہ بہت شفقت اور محبت سے برتاؤ کیا۔ جب حضورﷺ خاندان کے ساتھ کھانے میں شریک ہوتے تو اتنی برکت ہوتی کہ سب لوگ خوب شکم سیر ہو کر کھاتے اور جب آپ کھانے میں شریک نہ ہوتے تو لوگ بھوکے رہ جاتے اور پیٹ نہ بھر پاتا۔ حضورﷺ نے کام کاج میں اپنے چچا ابو طالب کا ساتھ دینا شروع کر دیا۔ بچپن میں آپﷺ نے بکریاں چرائیں۔ صبح کے وقت گھر گھرسے بکریوں اور اونٹوں کے گلے کو ساتھ لے کر بہت دور صحراؤں میں نکل جاتے۔ جانور دن بھر چرتے پھرتے۔ شام ہوتی تو سب کے مویشیوں کو ان کے گھروں میں پہنچا کر خود بھی تھک ہار کر سو جاتے۔
حضرت محمدﷺکی عادات مبارکہ
بچپن کا دور بے فکری کا دور ہوتا ہے۔ سب بچے کھیل کود میں دلچسپی لیتے ہیں اور بے فکری سے کھیل کود میں وقت گزارتے ہیں لیکن ہمارے حضورﷺکا بچپن نہایت صاف ستھرا اور پاکیزہ تھا۔ آپﷺ کو شروع سے ہی محنت کی عادت تھی۔ ایک دفعہ کسی گھر میں شادی تھی۔ آپﷺ کے ساتھی لڑکے شادی والے گھر میں گئے، جہاں ناچ گانے کی محفل جمی تھی۔ انہوں نے حضورﷺسے کہا کہ آپ بھی ناچ گانا دیکھنے چلیں،بہت لطف آئے گا۔ ان کے بار بار کہنے پر حضورﷺ اپنی بکریاں کسی اور کے حوالے کر کے شادی والے گھر میں چلے گئے۔ ابھی وہ اندر جا کے بیٹھے ہی تھے کہ آپﷺکو نیند آ گئی، یہاں تک کہ صبح ہو گئی اور آپﷺ جاگے تو ناچ گانے کی محفل ختم ہو چکی تھی۔ آپﷺوہ تماشا نہ دیکھ پائے۔ صبح ہو چکی تھی اس لیے آپﷺوہاں سے آ گئے۔ ساتھیوں کے اصرار پر دوسری رات بھی وہاں گئے لیکن وہاں جاتے ہی پھر نیند آ گئی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبیﷺ کو جاہلیت کے ان تماشوں سے محفوظ رکھا۔
اسی طرح عرب میں جب میلے ٹھیلے لگتے تو آپﷺوہاں جانا پسند نہ کرتے۔ ایسی باتیں آپﷺ کے مزاج کے مطابق نہ تھیں۔ آپﷺ نے کبھی کوئی برا طریقہ نہ اپنایا۔ شرک اور جاہلانہ رسم و رواج سے آپﷺ کو نفرت تھی۔
راہب بحیرا کی پیش گوئی
ایک بار آپﷺکے چچا حضرت ابو طالب تجارت کے لیے ملک شام کی طرف جا رہے تھے۔ حضورﷺ نے اصرار کیا کہ میں بھی ساتھ جاؤں گا۔ اس وقت حضور ﷺکی عمرتقریباً تیرہ برس کی تھی۔ سفر کی مشکلات کے خیال سے حضرت ابو طالب انہیں اپنے ساتھ نہیں لے جانا چاہتے تھے لیکن آپﷺ کی ضد کی وجہ سے مجبور ہو گئے اور سفر میں آپﷺکو اپنے ساتھ لے گئے۔ تاجروں کا یہ قافلہ منزلیں طے کرتا ہوا شام کے علاقے بصریٰ پہنچا جو اس وقت ایک اہم تجارتی منڈی کی حیثیت رکھتا تھا۔ یہاں ایک عیسائی راہب اپنی کٹیا میں رہتا تھا اور کبھی کبھار ہی باہر نکلتا تھا۔ تجارتی قافلے نے بحیرا کی کٹیا کے قریب ہی قیام کیا۔ بحیرا نے قافلے والوں کو کھانے کی دعوت دی۔ دعوت کے وقت سامان کی نگرانی کی غرض سے حضرت ابو طالب نے حضورﷺ کو وہیں چھوڑ دیا اور باقی سب لوگ دعوت میں چلے گئے۔ ان لوگوں میں سے ایک شخص نے بحیرا سے پوچھا۔”ہم اس علاقے میں پہلے بھی آتے رہے ہیں، آج کون سی غیر معمولی بات ہے جو تم نے ہماری دعوت کی۔ اس سے پہلے تو تم نے کبھی ایسا نہ کیا تھا۔“
بحیرا نے جواب دیا۔”میری خواہش ہے کہ میں تمہاری عزت کروں اور تمہارے لیے کھانا تیار کروں۔“
سب لوگ راہب بحیرا کے پاس جمع ہو گئے۔ بحیرا نے سب لوگوں کو غور سے دیکھا پھر اس نے پوچھا۔”تمہارے ساتھیوں میں سے کوئی ایسا تو نہیں جو کھانے میں شریک نہ ہوا ہو؟“
لوگوں نے بتایا۔ ”سب لوگ یہاں آ چکے ہیں سوائے ایک لڑکے کے، جو سامان کے پاس بیٹھا ہے۔“ پھر بحیرا نے اس لڑکے کو بھی بلانے کے لیے کہا۔ ایک شخص اٹھ کے باہر گیا اور حضرت محمدﷺکو اپنے ساتھ لے آیا۔ بحیرا نے آپﷺکوبغور دیکھا پھر آپﷺسے پوچھا۔”میں تمہیں لات منات (یعنی بتوں)کی قسم دے کر پوچھتا ہوں۔ تم میرے سوالوں کے ٹھیک ٹھیک جواب دینا۔“
حضرت محمدﷺ نے فرمایا۔”میں بتوں سے نفرت کرتا ہوں، مجھے بتوں کی قسم نہ دو۔میں تمہارے سوالوں کا درست جواب دوں گا۔“ بحیرا نے ان کے چہرے پر سچائی کا نور دیکھا۔
بحیرا نے آپ ﷺ سے تمام حالات و واقعات، عادات اور نیند وغیرہ کے بارے میں پوچھا۔بحیرا نے آپﷺ کی گردن کے نیچے پشت پر درمیان میں مہرنبوت بھی دیکھی جو ایک گول سا ابھرے ہوئے گوشت کا سا نشان تھا۔ پھر اس نے حضرت ابو طالب سے پوچھا۔
”یہ لڑکا تمہارا کون ہے؟“
حضرت ابو طالب نے جواب دیا۔ ”یہ میرا بیٹا ہے۔“
بحیرا نے کہا۔ ”نہیں، میں نہیں مانتا۔ میرے علم کے مطابق اس لڑکے کو یتیم ہونا چاہیے۔“
یہ سن کر ابو طالب نے کہا۔”تم ٹھیک کہتے ہو۔ یہ میرے مرحوم بھائی کی نشانی ہے۔ اس کے والد کا انتقال ہو چکا ہے۔“
بحیرا نے حضرت ابو طالب سے کہا۔”تمہارا بھتیجا نبی ہو گا۔ اس کی بڑی شان ہو گی۔ تم اپنے بھتیجے کو لے کر جلدی یہاں سے واپس چلے جاؤ۔ اگر یہودیوں نے اسے پہچان لیا تو وہ کہیں اسے کوئی نقصان نہ پہنچائیں۔“
بحیرا نے یہ بھی بتایا کہ جب تجارتی قافلہ قریب سے گزر رہا تھا تو اس قافلے میں شامل لڑکے کے اوپر بادل سایہ کیے ہوئے تھا۔اور جب قافلہ ایک درخت کے نیچے اترا تو ابر کا ٹکڑا درخت کے اوپر موجود رہا۔ اس سفر میں پتھر اور درخت کی شاخیں اسے سجدہ کرتے نظر آئے۔
 حضرت ابو طالب جلدی جلدی تجارتی مال فروخت کر کے حضورﷺ کو لے کر مکہ واپس آ گئے۔
حضرت محمدﷺ کی نوجوانی
پاکیزہ عادتوں والے حضرت محمدﷺجوں جوں بڑے ہوتے گئے، آپ سچائی، راست بازی اور دیانت داری اختیار کرتے چلے گئے۔ آپﷺ دوسروں سے خندہ پیشانی سے ملتے،ہمیشہ سچ بولتے، جھوٹ سے سخت نفرت کرتے، جو وعدہ کر لیتے اسے ضرور پورا کرتے چاہے وعدہ پورا کرنے میں آپﷺ کو کتنی ہی تکلیف کیوں نہ برداشت کرنی پڑتی۔ ایک بار عبداللہ نامی ایک نوجوان کے ساتھ کوئی لین دین کا معاملہ تھا۔ اس نے کہا۔”آپ ﷺیہیں ٹھہریں، میں باقی رقم لے کر ابھی آیا۔“
یہ کہہ کر عبداللہ تو چلا گیا، آپﷺوہیں کھڑے انتظار کرتے رہے۔ عبداللہ اس بات کو بھول گیا اور اپنے کاموں میں مصروف ہو گیا۔ تین دن بعد اسے یہ بات یاد آئی تو وہ اس جگہ پہنچا تو دیکھا حضرت محمدﷺوہیں کھڑے اس کا انتظار کر رہے ہیں۔ عبداللہ بے حد شرمندہ ہوا۔ اس نے رقم ادا کی۔ آپﷺ اس جگہ سے اس لیے نہ ہٹے کہ اگر عبداللہ رقم لے کر آتا اور حضورﷺ کو اس جگہ کھڑے نہ پاتا تو اس کو پریشانی ہوتی۔ آپﷺ نے خود پریشانی اٹھائی لیکن اسے پریشانی سے بچا لیا۔ وعدہ پورا کرنے کی یہ بہترین مثال ہے۔ چونکہ آپﷺ ہمیشہ سچ بولتے اور دوسروں کی امانت کی پوری پوری حفاظت کرتے، لوگوں کو آپﷺ کی ذات پر بھروسا تھا، اس لیے لوگ آپﷺکو صادق اور امین کہہ کر پکارتے تھے۔
آپﷺ کے اندر خدمت خلق کا جذبہ بہت زیادہ تھا۔ آپﷺ ہر وقت دوسروں کی مدد کرنے کو تیار رہتے تھے۔ یتیموں، بے کسوں اور کمزوروں کی خدمت کرتے۔ کمزوروں کا ساتھ دیتے اور ہر کسی سے نہایت نرمی اور مہربانی کے ساتھ پیش آتے۔ آپﷺ انتہائی سخی تھے۔ محتاجوں کی ہر طرح مدد کرتے۔ آپﷺ بازار سے سودا لے آتے۔ اپنے کپڑوں پر خود پیوند لگا لیتے۔ اپنے جوتے خود گانٹھ لیتے اور کبھی تکبر نہ کرتے۔ آپﷺنے کبھی شراب کو ہاتھ نہیں لگایا۔ ہر برے کام سے بچے رہے۔
جنگ فجار میں شرکت
اسلام سے قبل عرب میں لڑائیوں کے سلسلے چلتے رہتے تھے۔ جب آپﷺ کی عمر پندرہ سال تھی، عرب کے دو قبیلوں قریش اور قیس کے درمیان ایک خطرناک جنگ ہوئی جس میں قریش کی جانب سے زبیر بن عبدالمطلب کے ہاتھ میں پرچم تھا اور سپہ سالار حرب بن امیہ تھا جو ابو سفیان کا باپ تھا۔ زبردست لڑائی ہوئی۔ اس جنگ میں قریش حق پر تھے اور چونکہ خاندان کی عزت و ناموس کا معاملہ تھا، اس لئے حضرت محمدﷺ نے بھی اس لڑائی میں حصہ لیا لیکن آپﷺ نے کسی فرد پر ہاتھ نہیں اٹھایا اور آپﷺ صرف اپنے چچاؤں کو دشمن کی طرف سے آئے ہوئے تیر اٹھا اٹھا کر دیتے تھے۔ اس جنگ کا خاتمہ صلح پر ہو گیا تھا۔ یہ لڑائی ایام الحرام میں ہوئی جن میں لڑنا منع ہے، اس لئے اسے جنگ فجار کہا گیا جس کا مطلب ہے فسق و فجور والی لڑائی۔
حلف الفضول
لڑائیوں کے سلسلے بہت سے گھروں میں بربادی لے کر آئے۔ اس کے نتائج دیکھ کر کچھ صلح پسند لوگوں نے یہ تجویز پیش کی کہ حالات میں بہتری کے لئے سب لوگ ایک معاہدہ کریں جس کے مطابق مکہ میں کمزوروں اور مظلوموں کی مدد کی جائے، یہاں تک کہ ظالم اس کا حق ادا کر دے۔ اس معاہدے میں قتل و غارت گری کا سلسلہ ختم کرنے کا عہد کیا گیا۔ چونکہ اس معاہدے میں تین ایسے افراد شامل تھے جن کے نام میں لفظ ”فضل“ آتا تھا، اس لئے اس کو حلف الفضول کا نام دیا گیا۔ ہمارے پیارے نبی حضرت محمدﷺ نے اس معاہدے میں شرکت کی اور فرمایا ”اس معاہدے کے مقابلے میں اگر مجھے سرخ اونٹ بھی دیئے جاتے تو میں ہر گز قبول نہ کرتا۔“ چونکہ آپ ﷺمعاشرے میں بھلائی اور امن چاہتے تھے اس لئے نیکی اور بھلائی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ اسی بناء پر آپﷺحلف الفضول میں شا مل ہو گئے۔
حضرت خدیجہ سے شادی
آپﷺ نے تجارت کا پیشہ اختیار کیا۔ تجارت کا سامان لے کر دوسرے ملکوں کو جاتے اور وہاں مال فروخت کرتے۔ آپﷺ نہایت ایمانداری اور ہوشیاری کے ساتھ کاروبار کرتے۔
مکہ میں ایک بے حد دولت مند بیوہ خاتون رہتی تھیں جن کا نام خدیجہ تھا۔ وہ نہایت نیک، پاکیزہ عادات والی اور دیندار خاتون تھیں۔ انہوں نے لوگوں سے حضرت محمدﷺ کی دیانت داری کی باتیں سنیں تو آپ ﷺ سے بہت متاثر ہوئیں۔ انہوں نے اپنے غلام میسرہ سے کہا کہ تم حضرت محمدﷺسے کہو کہ ہمارا سامان تجارت بھی شام لے جائیں۔ میسرہ نے اپنی مالکن خدیجہ کے حکم کے مطابق حضرت محمدﷺسے بات کی۔ آپﷺ نے اس کام کی حامی بھر لی۔
حضرت محمدﷺ، حضرت خدیجہ کا سامان تجارت لے کر شام گئے اور میسرہ بھی ان کے ساتھ تھا۔
جب آنحضرت ﷺ بصریٰ کے مقام پر پہنچے تو ایک درخت کی چھاؤں میں تشریف فرما ہوئے۔ اس درخت کے قریب عیسائیوں کا ایک کلیسا(عبادت گھر) تھا جس میں ایک راہب رہتا تھا۔ اس کا نام نسطورا تھا۔ وہ آپﷺ کو درخت کے سائے میں بیٹھا دیکھ کر آپﷺ کی طرف آیا اور آپﷺ سے کہا ”حضرت عیسیٰ کے بعد اب تک کوئی اور شخص آپﷺ کے سوایہاں نہیں اترا ہے۔“ اس نے میسرہ سے کہا ”یہ وہی نبی ہے اور یہ آخری نبی ہے!“ میسرہ نے یہ بھی دیکھا کہ جب دھوپ تیز ہوتی تو بادل آپﷺ پر سایہ کئے رہتے۔ آپﷺنے شام کی منڈی میں مال فروخت کیا اور واپس آ گئے۔ حضرت خدیجہ کے مال پر جو منافع ہوا تھا وہ بہت زیادہ تھا یعنی اتنا منافع پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔
میسرہ نے سفر کے تمام حالات کا ذکر حضرت خدیجہ سے کیا اور حضرت محمدﷺ کی سیرت اور کردار کے با رے میں انہیں بتایا۔ حضرت خدیجہ نے مقررہ معاوضے سے بھی زیادہ معاوضہ آپﷺ کی خدمت میں پیش کیا اور آپﷺ کی خوب سیرتی اور دیانت داری کی قائل ہو گئیں۔
حضرت خدیجہ نے حضرت محمدﷺ کے بارے میں جو باتیں سنیں، ان کا ذکر اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل سے کیا جو ایک نصرانی عالم تھے۔انہوں نے کہا ”اگر یہ واقعات صحیح ہیں تو محمد اس امت کے نبی ہیں۔ میں نے کتابوں میں پڑھا ہے کہ اس زمانے میں ایک نبی آنے والا ہے اور یہ وہی زمانہ ہے۔“
اس وقت حضرت خدیجہ سے شادی کے خواہش مند اور بھی کئی لوگ تھے لیکن حضرت خدیجہ نے کسی کا رشتہ قبول نہ کیا۔ سفر شام سے واپسی کے دو تین مہینے بعد حضرت خدیجہ نے اپنی سہیلی نفیسہ کے ذریعے حضورﷺ کو شادی کا پیغام بھیجا۔ اس وقت حضرت محمدﷺ کی عمر صرف پچیس سال تھی اور حضرت خدیجہ چایس برس کی تھیں۔ حضورﷺ نے اپنے شفیق چچا ابو طالب سے مشورہ کیا اور اس کے مطابق پیغام قبول فرمایا۔ نکاح کا خطبہ ابو طالب نے پڑھا۔ حضرت خدیجہ نہایت نیک اور صاحب کردار خاتون تھیں۔ انہوں نے بحیثیت بیوی ایک مہربان دوست کی طرح حضرت محمدﷺ کا ہر آزمائش میں بھر پور ساتھ دیا۔ ان کی بے لوث خدمت کی۔ ان کو ہر طرح کا آرام دیا اور اپنی تمام دولت پیارے نبی حضرت محمدﷺ کی نذر کی جو مسکینوں، ناداروں اور ضرورت مندوں کے کام آئی اور جس کے باعث دین کا فروغ ہوا، کیونکہ حضرت خدیجہ جان چکی تھیں کہ حضور عالی مرتبت ﷺکے لئے ان کی دولت تو کیا، دنیا بھر کے خزانے ان کی خاک پاکے برابر نہیں ہو سکتے۔
ایک دفعہ مکہ میں قحط پڑا۔ آپ ﷺکو اپنے چچا حضرت ابو طالب کی تنگ دستی کا خیال آیا۔ آپ ﷺ نے ان کے بیٹے علی کی کفالت کی ذمہ داری لے لی۔ آپﷺ کی رفاقت کا حضرت علی کو یہ ثمر ملا کہ وہ صاحب علم و فضل، نہایت جرأت مند اور بہاد ر انسان بنے اور خیبر شکن کہلائے۔
حضرت خدیجہ نے ایک غلام خریدا جس کا نام زید بن حارثہ تھا۔ انہوں نے زید بن حارثہ کو حضورﷺکی خدمت پر معمور کیا۔ زید حضور ﷺکے پاس ہی بچے سے بڑا ہوا۔ حضورﷺ اس سے بے حد محبت کرتے تھے اور اس کے ساتھ نہایت شفقت سے پیش آتے تھے۔
زید کو حضورﷺکے ساتھ رہتے ہوئے چند سال گزرے تھے کہ زید کا باپ حارث اسے بڑی مشکلوں سے ڈھونڈتا ہوا مکہ پہنچا اور حضورﷺ سے گزارش کی کہ ا س کا بیٹا اس کے حوالے کر دیں۔ حضورﷺ نے زید کو بلایا اور اس سے کہا کہ یہ لوگ تمہیں اپنے ساتھ لے جانا چاہتے ہیں۔ اگر تم جانا چاہو تو اپنے باپ کے ساتھ چلے جاؤ۔
زید نے کہہ دیا کہ وہ حضورﷺ کو چھوڑ کر کسی کے پاس نہیں جانا چاہتے۔ زید کے والد اور چچا یہ جواب سن کر حیران رہ گئے اور زید کی مرضی اور خواہش کے مطابق انہیں حضور ﷺکے پاس چھوڑ کر واپس چلے گئے۔ حضورﷺ نے زید کو غلامی سے آزاد کر کے اپنا بیٹا بنا لیا اور ان کے ساتھ ہمیشہ ایسی ہی شفقت اور محبت کا برتاؤ کیا جیسی کوئی باپ اپنے بیٹے سے کرتا ہے۔
حضرت محمدﷺ برے کاموں سے دور رہتے تھے۔ ان دنوں لوگ دور دور سے حج کے موقع پر مکہ آتے، خانہ کعبہ کی زیارت کرتے، بتوں کے لئے نذرانے پیش کئے جاتے۔ جانور قربان کئے جاتے۔ ان جانوروں کے گلے میں رنگ برنگے دھاگے ڈالے جاتے جن کو قلاوہ کہا جاتا۔ یہ لوگ جاہلانہ طور طریقوں کے مطابق بے لباس ہو کر عبادت کرتے۔ بے جان مورتیوں کے آگے سر جھکاتے اور ان سے اپنی مرادیں مانگتے۔ یہ سب کام حضورﷺ کو سخت ناپسند تھے۔ آپﷺ ان کاموں سے الگ تھلگ رہتے اور بتوں کے لئے دیے گئے نذرانے کے جانوروں کا گوشت یا دوسری نذر کی ہوئی چیزیں کبھی تناول نہ فرماتے۔ اس معاشرے میں سودی کاروبار اور شراب پینے پلانے کا دستور عام تھا۔ وہاں رقص و سرور کی محفلیں بھی ہوتیں لیکن آپﷺ ان برے کاموں سے دور رہتے تھے۔ کاہن اور منجم لوگوں کو قسمت کا حال بتاتے۔ جوئے کے کھیل کھیلے جاتے۔ان سب چیزوں کو دیکھ کر آپﷺ بہت کڑھتے کہ یہ سب لوگ غلط اور برے کام کر رہے ہیں۔ آپﷺ کی عادات و اخلاق سب سے زیادہ پاکیزو اور مختلف تھیں۔
حجر اسود کی تنصیب
بارشوں کی وجہ سے خانہ کعبہ کی دیواریں کمزور اور بوسیدہ ہو گئی تھیں، چنانچہ ان دیواروں کو گرا کر نئی دیواریں تعمیر کی گئیں۔ حضورﷺ نے بھی اس تعمیر میں حصہ لیا۔ مکہ کے تمام قبیلوں کے سردار اس بات کے خواہش مند تھے کہ حجراسود کو نصب کرنے کا اعزاز ا نہیں حاصل ہو۔ اسی بات پر اختلاف بڑھا اور نوبت لڑائی جھگڑے تک آ پہنچی۔ بالآخر یہ طے ہوا کہ کل جو شخص صبح سب سے پہلے کعبہ پہنچے گا، وہی حجراسود نصب کرے گا۔ اگلی صبح خدا کے حکم سے ہمارے پیارے حضورﷺ اس جگہ سب سے پہلے پہنچ گئے۔ آپﷺ نے تمام قبیلوں کے سرداروں سے کہا کہ وہ سب مل کر ایک چادر کو چاروں طرف سے پکڑ لیں۔ اس حجراسود کو چادر کے اوپر رکھ دیا گیا۔ پھر جب یہ چادر اوپر تک بلند ہو گئی تو حضورﷺنے جنت کے اس مقدس و محترم پتھر کو اٹھا کر اپنے مبارک ہاتھوں سے دیوار پر نصب کر دیا۔ اس حسن تدبیر پر سب لوگ متفق ہو گئے اور آپﷺ کی معاملہ فہمی اور تدبر سے یہ مسئلہ بخیر و خوبی حل ہو گیا۔ ا ٓپﷺ نے تمام قبائل میں اتفاق و اتحاد پیدا کرنے کی نہایت عمدہ مثال قائم کی اور ان لوگوں کو جنگ و جدل اور خون ریزی سے بھی بچالیا۔
اس وقت ہمارے پیارے نبی حضرت محمدﷺکی عمر پینتیس سال تھی۔ آپﷺ کا دھیان عبادت کی طرف مزید بڑھ گیا۔ آپﷺ اکثر غار حرا کا رخ کرتے۔ تھوڑا سا ستو اور پانی ساتھ لے جاتے اور وہاں عبادت و ریاضت میں مشغول ہو جاتے۔ اپنے رب کے بارے میں غور و فکر کرتے۔ زندگی اور موت کے بارے میں سوچتے۔ زندگی کے مقصد کے بارے میں سوچتے۔ آپﷺکا دھیان خدا کی طرف لگ جاتا۔ تلاش حق کی جستجو میں لگے ر ہتے۔ پھر آپﷺ کو سچے خواب نظر آنے لگے۔ آپﷺ جو خواب دیکھتے وہ حقیقت میں سچ ثابت ہوتا۔
نبوت کا واقعہ
وہ رمضان المبارک کا مقدس مہینہ تھا۔ آپﷺ غار حرا میں یاد الٰہی میں مصروف تھے کہ خدا تعالیٰ کے حکم سے فرشتہ جبریل وہاں آئے اور انہوں نے آپﷺ کو زور سے بھینچ کر کہا ”اقراء“ (یعنی پڑھ!)
آپﷺ پر گھبراہٹ طاری ہو گئی اور آپ نے کہا میں پڑھنا نہیں جانتا۔
حضرت جبریل نے پھر کہا”پڑھ!!“
آپﷺ نے پھر وہی جواب دیا۔ حضرت جبریل نے پھر حضورﷺ کو زور سے بھینچا اور سورہ علق کی آیات کی تلاوت کی
اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ۔ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍٍ۔ اِقْراْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ۔ الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ۔ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ۔
آپﷺ ان آیات کو دہراتے گئے۔
(ترجمہ) ”پڑھ، اپنے رب کا نام لے کر، جس نے پیدا کیا۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا۔ پڑھو اور تمہارا پروردگار بہت عزت و اکرام والا ہے، جس نے قلم کے ساتھ لکھنا سکھایا اور انسان کو وہ باتیں بتائیں جو وہ نہیں جانتا تھا۔“
ہمارے پیارے نبیﷺ گھبراگئے اور پسینہ پسینہ ہو گئے۔ لرزتے کانپتے گھر واپس آئے تو حضرت خدیجہ نے آپﷺ کو پریشان دیکھا۔ انہوں نے جلدی سے آگے بڑھ کے آپ ﷺکا حال پوچھا۔ آپﷺنے فرمایا ”مجھے چادر اُڑھا دو…… مجھے چادر اُڑھا دو! مجھے اپنی جان کا خوف ہے۔“ حضرت خدیجہ نے آپ ﷺ کو چادر اڑھا دی۔ کچھ دیر بعد آپﷺ کی طبیعت سنبھلی تو حضورﷺنے حضرت خدیجہؓ کو پورا واقعہ سنایا۔ حضرت خدیجہؓ نے آپ ﷺکو تسلی و تشفی دی اور فرمایا۔ ”خدا کبھی آپ ﷺکو رسوا نہیں ہونے دے گا، وہ کبھی آپﷺ کو ناکام نہیں کرے گا۔ آپ ﷺہمیشہ صلہ رحمی کرتے ہیں، آپﷺ غربیوں، یتیموں، بے کسوں اور بیواؤں کی مدد کرتے ہیں۔“ حضورﷺ کو کچھ سکون ہوا تو حضرت خدیجہؓ آپﷺ کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو شرک سے نفرت کرتے تھے اور تلاش حق میں سرگرداں رہتے تھے اور عیسائی ہو گئے تھے۔ وہ عربی اور عبرانی زبانوں کے بھی ماہر تھے اور اس وقت بہت بوڑھے ہو چکے تھے۔ انہوں نے تمام واقعہ سننے کے بعد کہا۔ ”یہ وہی ناموس اکبر(فرشتہ) ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوا تھا،محمدﷺ اپنی امت کے نبی ہیں۔ قوم انہیں جھوٹا کہے گی،  انہیں دکھ دے گی اور یہاں تک کہ انہیں وطن سے نکال دے گی۔کاش کہ میں ان کے زمانہ نبوت میں جوان ہوتا اور اس وقت تک زندہ ہوتا جب آپ ﷺکی قوم آپﷺ کو نکالے گی، اگر میں نے آپﷺ کا زمانہ پایا تو ضرور آپﷺ کی مدد کروں گا!“(اس بات کے کچھ عرصے بعد ورقہ بن نوفل کا ا نتقال ہوگیا) رسول اکرم ﷺ کی نبوت پر ایمان لانے والی پہلی ہستی حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ ہیں۔ یہ فخر ایک خاتون محترم کو حاصل ہے کہ وہ حضورﷺ کی نبوت پر سب سے پہلے ایمان لائیں اور آپﷺ کی نبوت کی تصدیق کی۔ مردوں میں حضرت ابوبکر صدیقؓ،غلاموں میں زید بن حارثؓ اور بچوں میں حضرت علیؓ پہلے مسلمان ہیں۔
اس واقعے کے بعد چھ ماہ گزر گئے اور وحی نہیں آئی۔ آپﷺ بہت مضطرب اور اداس رہتے۔ آپﷺ پہاڑ پر جاتے اور جبریل  امین علیہ السلام سے ملاقات کی تمناکرتے۔ وہ نظر نہ آتے تو آپﷺ سوچتے کہیں اللہ نے مجھے چھوڑ تو نہیں دیا۔ اس مدت کو فترۃالوحی(وحی میں وقفہ) کہا جاتا ہے۔ ایک بار حضرت جبریل ؑ ظاہر ہوئے اور فرمایا۔”آپﷺ کے رب نے آپﷺ  کو نہیں چھوڑا! اور نہ ہی وہ آپ ﷺسے ناراض ہے۔“(سورہ والضحیٰ)
ایک دن آپﷺ اتنے مضطرب تھے کہ چاہتے تھے کہ اپنے آپ کوپہاڑ سے گرا دیں کہ جبریل امین فضا میں ایک بڑی کرسی پر ظاہر ہوئے۔آپ ﷺپر دہشت طاری ہو گئی۔آپﷺ گھر تشریف لائے اور گھر والوں سے کہا۔ ”مجھے چادر اوڑھا دو۔“ گھر والوں نے ایسا ہی کیا، تب سورہ مدثر کی یہ آیات نازل ہوئیں (ترجمہ) ”اے (چادر) اوڑھنے والے! اٹھ اور لوگوں کو ڈرا، اپنے رب کی بڑائی اور کبریائی بیان کر، اپنے کپڑوں کو(شرک اور بدی) سے پاک کر۔“ اس وحی میں تبلیغ و ہدایت کا حکم ہوا۔ حضرت جبریل ؑ نے وضو کا طریقہ بتایا۔ فجر اور عصر کی نمازیں پڑھنے کا حکم ہوا۔
تبلیغ کا آغاز
ہمارے پیارے نبی حضرت محمدﷺخفیہ طور پر اپنے قریب کے لوگوں میں اسلام کی تبلیغ کرنے لگے۔ اس دوران کچھ لوگ کفر اور شرک کو چھوڑ کر اسلام کی طرف راغب ہونے لگے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ قریش میں نہایت محترم،نرم مزاج، خوش اخلاق اور صاحب علم تھے،آپ ایک کامیاب تاجر تھے اور ان کے بہت سے افراد سے تعلقات تھے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اپنے حلقہ احباب میں لوگوں کو اسلام کی طرف بلانا شروع کر دیا۔ چنانچہ عثمان بن عفانؓ،زبیرؓ بن العوام، عبدالرحمنؓ بن عوف، سعد ؓبن ابی وقاص، طلحہؓ بن عبیداللہ، حضورﷺ کے پاس آئے اور انہوں نے اسلام قبول کیا۔ ان کے بعد ابو عبیدہؓ، ابو سلمہؓ،ارقمؓ،عثمان بن مظعون، قدامۃؓ،عبداللہؓ، عبیدہؓ بن الحارث، سعیدؓ بن زید، فاطمہؓ بنت الخطاب (عمرفاروقؓ کی بہن)، اسماءؓ بنت ابوبکر، عائشہؓ بنت ابوبکر اور خبابؓ بن الارت مسلمان ہوئے۔ یہ لوگ مکے کی گھاٹیوں میں چھپ چھپ کر نماز ادا کرنے لگے۔ ان نیک ہستیوں کو”السابقون الاولون“ کہا جاتا ہے۔
اسی زمانے میں عمیرؓبن ابی وقاص،عبداللہ ؓ بن مسعود،مسعودؓ بن ربیعہ اور مسعودؓ بن القاری نے بھی اسلام قبول کیا۔
نبوت کے تین سال بعد وحی نازل ہوئی۔
”فَاصْدَ عْ بِمَا تُوْمَرُ“(سورہ الحجر)
(ترجمہ)”تم کو جو حکم دیا گیا ہے وہ واشگاف کہو۔“
پھر وحی نازل ہوئی:
”وَاَ نذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَ قْرَبِیْنَ“(سورہ شعراء)
(ترجمہ)”اور اپنے نزدیک کے خاندان والوں کو خدا سے ڈراؤ“۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کوہ صفا پر چڑھ کر اہل قریش کو پکارا۔ اس زمانے میں جب کسی دشمن کے حملے کا خطرہ ہوتا یا لوگوں کو کوئی اہم بات بتانا ہوتی تو اسی طرح پہاڑ پر چڑھ کر پکارا جاتا۔ اہل قریش آپ ﷺکی پکار سن کر وہاں اکٹھے ہو گئے۔ آپ ﷺنے ان سے مخاطب ہو کر فرمایا۔”اگر میں یہ کہوں کہ پہاڑ کی دوسری طرف سے ایک بڑا فوجی لشکر آ رہا ہے تو کیا اس بات کا یقین کر لو گے؟“سب نے کہا۔”ہاں، ہم بالکل یقین کریں گے کیوں کہ آپ ہمیشہ سچ بولتے ہیں۔“ تب حضورﷺ نے انہیں خدا کا پیغام دیا اور کہا۔ ”اگر تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لائے تو مجھے ڈر ہے کہ تم پر عذاب نازل ہو گا۔“ یہ بات سن کر سب لوگ غصے میں آ گئے اور کہنے لگے۔ ”کیا یہ بات کہنے کے لیے تم نے ہمیں یہاں بلایا؟“ اور برا بھلا کہتے ہوئے وہاں سے چلے گئے۔
چند روز بعد آپ ﷺنے حضرت علیؓ سے کہا۔ ”خاندان بھر کی دعوت کا انتظام کرو۔“
اس دعوت میں سب بڑے بڑے اور معتبر لوگ شامل تھے۔ حضورﷺنے کھانے کے بعد لوگوں سے کہا۔ ”میں تمہارے لیے وہ چیز لے کر آیا ہوں جو دین و دنیا دونوں کے لیے کافی ہے۔ بتاؤ اس نیک کام میں کون کون میرا ساتھ دے گا؟“ سب لوگ خاموش رہے۔ حضرت علی نے کھڑے ہو کر کہا۔ ”اے اللہ کے رسولﷺ اگر چہ میں سب سے چھوٹا ہوں اور کمزور ہوں،میری آنکھیں بھی دکھ رہی ہیں لیکن میں آپ کا ساتھ دوں گا۔“اس پر لوگوں نے آپ ﷺکا مذاق اڑایا اور ہنسنے لگے۔ کچھ لوگ غصہ ہوئے اور پھر وہاں سے اٹھ کر چلے گئے۔
حضورﷺ نے اپنے قریب کے لوگوں کو حق کا پیغام دیا۔ آپﷺ کہتے۔ ”خدا کو ایک مانو،اسی کے آگے سر جھکاؤ،وہی عبادت کے لائق ہے۔ اسی نے ساری کائنات پیدا کی ہے۔ برے کاموں سے بچو اور اچھے کام کرو۔ جھوٹ سے بچو اور کسی کو دھوکہ مت دو۔“حضرت ارقمؓ کا گھر کعبہ شریف کے قریب ایک گلی میں واقع تھا۔ یہ گھر اسلام کا پہلا مرکز تھا۔ یہاں حضورﷺ مسلمانوں کو اسلام کی تعلیمات دیتے۔ لوگ ایک ایک دو دو کر کے اسلام قبول کرنے لگے۔ اہل مکہ یہ دیکھ کر برہم ہوئے۔ انہوں نے آپﷺ کے چچا ابو طالب کے پاس ایک وفد بھیجا۔ ان لوگوں نے ابو طالب سے کہا۔”آپ اپنے بھتیجے کو روکیں۔ وہ ہمارے باپ دادا کے مذہب کو اور ہمارے بتوں کو برا کہتا ہے۔“ابو طالب نے کہا۔ ”میں انہیں سمجھاؤں گا۔“ وہ لوگ واپس چلے گئے۔
اہل مکہ کی مخالفت اور دشمنی
حضورﷺ نے جو پیغام حق دینا شروع کیا، کفار مکہ نے اس کی مخالفت اس لیے کی کہ اس پیغام سے ان کو بت پرستی چھوڑنا پڑتی، ان کے غلط رسم و رواج ختم ہو جاتے،امیر غریب کی تفریق ختم ہو جاتی، قبائلی نظام جس پر انہیں فخر تھا،ختم ہو جاتا، اس لیے وہ اسلام کی مخالفت پر کمر بستہ ہو گئے اور آپﷺ کی دشمنی پر اتر آئے۔ انہوں نے آپﷺ کو طرح طرح سے تکلیفیں دینا شروع کر دیں۔ آپﷺ کے راستے میں کانٹے بچھاتے، قربانی کے جانور کی اوجھڑی (آنتیں وغیرہ) ان کے اوپر پھینکی گئی، آپﷺ پر کوڑا کرکٹ پھینکا جاتا، برا بھلا کہا جاتا مگر آپ صبر و تحمل سے تمام سختیاں برداشت کرتے رہے۔
ایک دن آپﷺ نے کعبہ میں جا کر توحید کا اعلان کیا۔ کفار کے نزدیک یہ کعبہ کی توہین تھی۔ لوگ جمع ہو گئے اور ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔ سب مل کر آپ ﷺپر حملہ آور ہوئے۔ حضورﷺ کے ساتھی حارثؓ بن ابی ہالہ آپ ﷺکی مدد کو دوڑے آئے اور حضورﷺکو کافروں سے بچانے لگے۔ہر طرف سے تلواریں ان پر برس پڑیں اور وہ شہید ہو گئے۔ حارثؓ بن ابی ہالہ اسلام کی راہ میں پہلے شہید ہیں۔
اہل مکہ نہایت تند و تیز مزاج کے اور انتہائی جنگجو لوگ تھے۔اس لیے وہ حضورﷺکے شدید مخالف بن گئے۔ وہ آپﷺ کو ہر طرح اذیت دیتے۔ ایک دفعہ ایک شخص نے آپﷺ کی گردن کے گرد چادر لپیٹ دی اور اس زور سے بل دیا کہ حضورﷺ کو سخت تکلیف ہوئی لیکن آپ ان آزمائشوں کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔ مکہ کے گلی کوچوں میں، بازاروں میں لوگوں کو غیر اللہ کی پرستش سے روکتے۔ آپﷺ لوگوں کو جوا کھیلنے، بیٹیوں کو قتل کرنے سے اور برے کاموں سے روکتے۔ درختوں اور بتوں کی پوجا کرنے سے منع کرتے۔ اس صورتحال سے کفار مکہ بہت برہم ہوئے۔ ایک بار پھر ان کا ایک وفد حضرت ابو طالب کے پاس پہنچا اور کہا۔ ”آپ نے ابھی تک اپنے بھتیجے کو سمجھایا نہیں۔ اب ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ وہ ہمارے بتوں کی تکذیب کرتا ہے، ہمارے آباء و اجداد کو گمراہ کہتا ہے، ہمیں احمق کہتا ہے۔ یا تو تم اسے منع کرو یا تم بھی میدان میں آ جاؤ تاکہ ہم دونوں میں سے کسی ایک کا فیصلہ ہو جائے۔“
حضرت ابو طالب نے حضرت محمدﷺکو بلا کر انہیں ساری بات بتائی اور ان سے کہا۔”ہم اس قابل نہیں کہ پوری قوم سے مقابلہ کر سکیں اس لیے تم اپنے آپ کو اور مجھے ہلاکت میں نہ ڈالو!“
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بات سنی تو آپﷺ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ انہوں نے بلا کی سچائی اور جوش کے ساتھ کہا۔”چچا جان! خدا کی قسم،اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ میں سورج اور دوسرے ہاتھ میں چاند بھی لا کر رکھ دیں اور کہیں کہ اسلام کو چھوڑ دو تو مجھے منظور نہ ہو گا۔ اگر اس راہ میں مجھے ہلاکت بھی نظر آئے تو میں بالکل پیچھے نہ ہٹوں گا۔“ حضرت ابو طالب کے دل پر ان الفاظ کی سچائی نے گہرا اثر کیا۔ انہوں نے شفقت سے کہا۔”بیٹا! جو تمہارے دل میں ہے، تم وہی کرو۔ میں کسی حال میں تمہارا ساتھ نہ چھوڑوں گا، کوئی تمہارا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔“
اس کے بعد قریش کے بڑے بڑے سرداروں نے آپس میں مشورہ کیا اور ایک تجربہ کار اور معتبر سردار عتبہ کو حضورﷺ کے پاس بھیجا کہ وہ آپﷺ کو دین کی تبلیغ سے روکنے کی کوشش کرے۔ عتبہ حضورﷺ کے پاس پہنچا اور آپﷺ سے کہا۔”اگر محمد کو بادشاہت چاہیے تو ہم اسے اپنا بادشاہ بنا لیتے ہیں، اگر انہیں دولت درکار ہے تو ہم دولت کا انبار ان کے حوالے کرنے کو تیار ہیں، اگر وہ کسی خوبصورت لڑکی سے شادی کرنے کے طلب گار ہیں تو ہم ان کی یہ خواہش بھی پوری کر دیں گے یا اگر کسی قسم کی بیماری میں مبتلا ہیں تو ہم اس کا علاج کرا دیتے ہیں۔“
حضور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے عتبہ کی باتیں سنیں اور اس کے جواب میں سورۃ طہٰ کی چند آیتیں پڑھیں جن کا ترجمہ یہ ہے:”اے محمدؐ فرما دیجئے کہ میں تم جیسا ایک آدمی ہوں اور مجھ پر خدا کی طرف سے وحی اتری ہے کہ تمہارا اللہ تو بس ایک ہی ہے، اسی پر بھروسا ہے اور اسی سے اپنے گناہوں کی معافی مانگو۔
اے محمدؐ فرما دیجئے کیا تم اس اللہ کا انکار کرتے ہو جس نے دو دن میں زمین بنائی اور تم دوسروں کو اس اللہ کا شریک کرتے ہو جو سارے جہانوں کا رب ہے۔“ عتبہ یہ کلام سن کر گنگ سا رہ گیا۔ اس کے منہ سے ایک لفظ تک نہ نکل سکا۔ وہ واپس گیا اور عرب کے سرداروں سے کہنے لگا۔”محمدؐکا کلام ہرگز شاعری نہیں ہے۔ وہ تو کوئی اورہی چیز ہے۔ اب ان سے کچھ نہ کہو، و ہ جو چاہیں کریں، اگر وہ اپنے کام میں کامیاب ہو گئے تو ہماری عزت ہے اور مارے گئے تو ہماری خلاصی ہو جائے گی۔“ اہل قریش عتبہ کی باتوں پر حیران ہوئے اور بولے کہ عتبہ پر بھی محمدؐ کا جادو چل گیا۔
نو مسلم پر مظالم
اب تک جو لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہو چکے تھے، اہل مکہ ان کو اپنے مظالم کا نشانہ بنانے لگے۔ عبداللہ ؓ بن مسعود کو قرآن پاک کی آیات سنانے پر تھپڑ مارے گئے۔ شدید گرمی میں دوپہر کے وقت حضرت بلالؓ کو تپتی ہوئی ریت پر لٹا کر اذیت دی جاتی۔حضرت سمیہؓ کو ابوجہل نے برچھی مار کر شہید کر دیا۔ حضرت صہیبؓ کو کفار لوہے کی زرہ پہنا کر تیز دھوپ میں لٹا دیتے۔ عمرؓ بن خطاب اپنی لونڈی لبینہ کو چھڑی سے خوب مارتے۔ یہاں تک کہ مارتے مارتے تھک جاتے اور ذرا دیر سستا کے پھر مارنے لگتے۔ لیکن جن لوگوں کے دلوں میں خدا کی محبت بس چکی تھی اور جن کے دل خدا کے نور سے روشن ہو چکے تھے، ان کے لیے یہ مصائب کوئی اہمیت نہ رکھتے تھے۔ جب ظلم و ستم زیادہ بڑھنے لگے تو دشمنوں کے نرغے میں پھنس کر مسلمانوں کو اپنے فرائض اسلامی ادا کرنے میں دشواری پیش آنے لگی۔
حبشہ کی طرف ہجرت
جب مسلمانوں پر کفار نے حلقہ حیات تنگ کر دیا تو ہمارے پیارے نبیﷺ نے ان لوگوں کو حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا، تاکہ یہ لوگ خطرات سے بچ سکیں اور خدا کے یہ نام لیوا زندہ سلامت رہ سکیں۔ اسلام کے لیے یہ پہلی ہجرت تھی جس میں گیارہ مرد اور چار عورتیں شامل تھے اور یہ لوگ مکہ سے حبشہ پہنچے۔ اس قافلے میں عثمان غنیؓ اور ان کی اہلیہ رقیہؓ بنت محمدﷺ بھی شامل تھیں۔ قریش نے ان لوگوں کا پیچھا کیا،لیکن یہ لوگ خیریت کے ساتھ حبشہ جا پہنچے۔ حبشہ کا بادشاہ عیسائی تھا اور اس کا نام نجاشی تھا۔ نجاشی ان مہاجروں کے ساتھ بڑی مروت سے پیش آیا۔ اس کے بعد وقتاً فوقتاً اور بھی مسلمان ہجرت کر کے حبشہ پہنچتے رہے اور وہاں مسلمانوں کی تعداد کافی زیادہ ہو گئی اور یہ لوگ سکون سے زندگی گزارنے لگے۔
نجاشی کے دربار کا واقعہ
قریش مکہ کو یہ بات بھلا کب گوارا تھی کہ مسلمان وہاں چین و سکون سے رہیں۔ انہوں نے مسلمانوں کو وہاں سے نکلوانے کی ترکیبیں شروع کر دیں۔ چنانچہ انہوں نے بہت قیمتی تحائف دے کر اپنے سفیروں کو نجاشی کے دربار میں بھیجا اور اس سے درخواست کی کہ وہ ان تمام مسلمان مہاجرین کو حبشہ سے نکال دے، کیونکہ انہوں نے ہمارے مذہب سے بغاوت کی ہے۔ یہ لوگ مجرم ہیں اور یہ نصرانیت کے بھی خلاف ہیں اس لیے انہیں ہمارے حوالے کیا جائے۔ نجاشی نے کوئی فیصلہ کرنے سے قبل مسلمانوں کو اپنے دربار میں بلوایا اور ان سے پوچھا۔”وہ کون سا دین ہے جو تم نے اختیار کیا ہے؟اس کے اصول کیا ہیں؟“
نجاشی کی بات کا جواب دینے کے لیے حضرت جعفرؓ طیار اٹھے۔ انہوں نے مکہ کے سفیروں سے پوچھا۔”کیا ہم کسی آقا کے غلام ہیں کہ ہم وہاں سے بھاگ آئے ہیں؟“
عمرو بن العاص جو مکہ کے سفیروں میں تھا،بولا،”نہیں،یہ غلام نہیں۔آزاد شرفاء ہیں۔
حضرت جعفر:”کیا ہم کسی کو ناحق قتل کرکے آئے ہیں کہ آپ ہمیں مقتول کے ورثاء کے حوالے کرنا چاہتے ہیں؟“
عمرو بن العاص:”نہیں ان کے ذمے کسی کا ایک ہبہ (پیسہ) بھی نہیں۔“
اس سوال و جواب کے بعد مسلمانوں کی اخلاقی پوزیشن صاف ہو گئی تو حضرت جعفرؓ طیار نے تقریر کی:”اے بادشاہ! ہم ایک جاہل قوم تھے، بتوں کو پوجتے تھے، مردار کھاتے تھے، برے کام کرتے تھے، بھائی بھائی پر ظلم کرتا تھا، طاقتور کمزور کو کھا جاتا تھا، آخر خدا نے ہم پر رحم کیا اور ہم میں ایک ایسا شخص اٹھا جس کی سچائی، دیانت اور شرافت سے ہم لوگ پہلے سے آگاہ تھے۔ اس نے ہم کو اسلام کی دعوت دی اور یہ سکھایا کہ ہم بتوں کی پوجا کرنا چھوڑ دیں، اس نے ہمیں اللہ کی طرف بلایا اور سیدھا رستہ دکھایا اور کہا کہ ہم سچ بولیں، خون ریزی چھوڑ دیں، ہم اس پر ایمان لائے، شرک اور بت پرستی چھوڑ دی، بری باتوں کو چھوڑ دیا۔ اسی وجہ سے ہماری قوم ہماری جانوں کی دشمن ہو گئی اور ہم پر ظلم کرنے لگی۔ ہماری قوم ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہم پھر اسی گمراہی میں لوٹ جائیں۔ ہم اپنا ایمان اور اپنی جانیں لے کر آپ کی طرف بھاگ آئے ہیں۔“
نجاشی خدا ترس بادشاہ تھا، حضرت جعفرؓ کی سادہ اور سچی باتوں سے اس کا دل موم ہو گیا۔ وہ کہنے لگا۔”خدا کا کلام مجھے بھی سناؤ۔“
حضرت جعفرؓ نے سورہ مریم کی تلاوت کی (ترجمہ) ”لوگوں کے اعتراضات پر حضرت مریم نے اپنے بچے کی طرف اشارہ کیا جو گہوارے میں لیٹا ہوا تھا، اس سے اپنا جواب لو۔ لوگوں نے جونہی کہا کہ اس بچے سے کیا پوچھیں کہ عجیب بات ہوئی کہ بچہ بول پڑا۔ میں اللہ کا بندہ ہوں، خدا نے مجھ پر کتاب نازل کی اور مجھے نبی بنایا ہے۔ نماز پڑھنے، زکوٰۃ دینے اور والدہ کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے۔ مجھے جبر کرنے والا اور بدبخت نہیں بنایا۔ میرے لیے یوم پیدائش، یوم رحلت اور دوبارہ زندہ کئے جانے کے دن سلامتی ہے۔“ ان آیات کو سن کر نجاشی کے دل پر رقت طاری ہو گئی اور آنکھوں میں آنسو چمک اٹھے۔ وہ بے اختیار ہو کر پکار اٹھا۔”خدا کی قسم یہ کلام اور انجیل ایک ہی چراغ کے پرتو ہیں اور محمد(ﷺ) تو وہی رسول ہیں جن کی خبر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دی ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ مجھے اس رسول ﷺکا زمانہ ملا۔ اس کے ساتھ ہی اس نے مکہ کے سفیروں کو اپنا فیصلہ سنایا۔”تم لوگ یہاں سے چلے جاؤ۔ ان مظلوم مسلمانوں کو میں ہرگز تمہارے حوالے نہ کروں گا۔“
اس کے بعد قریش کے لوگوں نے نجاشی کو مسلمانوں سے بدظن کرنے کے لیے ایک اور تیر آزمایا او رکہا کہ یہ لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں بہت خراب عقیدہ رکھتے ہیں۔ نجاشی نے مسلمانوں سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں پوچھا۔ حضرت جعفرؓ نے جواب دیا۔”ہمارے پیغمبر نے بتایا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا کے بندے اور پیغمبر ہیں اور اللہ کی روح ہیں۔“
نجاشی نے یہ سنا تو بہت خوش ہوا۔ اس نے زمین سے ایک تنکا اٹھایا اور کہا۔”خدا کی قسم، جو کچھ تم نے کہا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس سے اس تنکا بھر بھی زیادہ نہیں ہیں۔“
اب مکہ کے سفیر پیچ و تاب کھانے لگے۔ نجاشی نے ان کے تحفے بھی واپس کر دئیے۔ قریش اپنی سازش میں بری طرح ناکام ہو گئے۔ مہاجرین حبشہ کا کچھ نہ بگاڑ سکے اور اپنا سا منہ لے کر واپس آ گئے۔
حبشہ کی طرف دوسری ہجرت
قریش مکہ اپنے سفیروں کی ناکامی اور اپنی اس بے عزتی پر بہت ذلت محسوس کر رہے تھے۔ انہوں نے مکے کے مسلمانوں پر مظالم اور بھی بڑھا دئیے اور بے کس مسلمانوں کو مجبوراً اپنا گھر بار چھوڑ کر حبشہ کی طرف ہجرت کرنا پڑی۔ دوسری مرتبہ مہا جرین کا قافلہ ۳۸مردوں اور ۸۱عورتوں پر مشتمل تھا۔
حضرت امیر حمزہؓ کا اسلام لانا
حضرت امیر حمزہ رشتے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا تھے۔ عمر میں آپﷺ سے دو تین سال بڑے تھے اور رضاعی بھائی بھی تھے۔ آپ حضرت محمدﷺ سے بہت محبت کرتے تھے۔ حضرت حمزہؓ نہایت بہادر تھے۔ شکار کے شوقین تھے۔ یہ نبوت کا چھٹا سال تھا ہمارے پیارے نبیﷺ کوہ صفا پر بیٹھے تھے کہ ابو جہل آیا اور آپﷺ کو دیکھتے ہی گالیاں دینے لگا۔ آنحضورﷺ خاموش رہے اور کوئی جواب نہ دیا۔ اس خاموشی سے ابو جہل کا پارہ اور چڑھ گیا۔ اس نے ایک پتھر اٹھا کر حضورﷺ کے سر پر مارا جس سے آپﷺ زخمی ہو گئے۔ ایک کنیز نے یہ خبر حضرت امیر حمزہؓ کو دی۔ یہ سنتے ہی حضرت حمزہؓ کی محبت نے جوش مارا۔ وہ فوراً ابوجہل کی تلاش میں نکلے۔ وہ خانہ کعبہ میں بیٹھا تھا۔ حضرت حمزہؓنے اسے للکارا اور اس کے سر پر زور سے کمان کھینچ ماری جس سے وہ زخمی ہو گیا۔ حضرت حمزہؓ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے اور کہا۔”تم یہ سن کر یقینا خوش ہو گے کہ میں نے ابو جہل سے تمہارا بدلہ لے لیا ہے۔“
حضورﷺ نے یہ سن کر کہا۔”چچا، میں ایسی باتوں سے خوش نہیں ہوتا۔ اگر آپ کو میری خوشی مطلوب ہے تو آپ مسلمان ہو جائیں۔“
حضرت امیر حمزہؓ کے دل پر اس بات کا ایسا اثر ہوا کہ آپ اسی وقت کلمہ شہادت پڑھ کر مسلمان ہو گئے۔
حضرت عمرؓ کا اسلام قبول کرنا
ابو جہل نے اعلان کیا کہ جو شخص حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرے گا، اسے سو اونٹ انعام میں دوں گا۔ حضرت عمر بڑے جری اور بہادر انسان تھے۔ وہ ابو جہل کے پاس گئے اور اس اعلان کے متعلق معلوم کیا۔ اس نے اس اعلان کی تصدیق کی۔ حضرت عمر بن خطاب نہایت بہادر، زور آور، تند مزاج اور جرأت مند نوجوان تھے۔ اچھا شعری ذوق رکھتے تھے۔ حضورﷺنے جب اہل مکہ کو اسلام کی دعوت دی تو عمر اس تحریک کے شدید مخالف بن گئے۔ جب مسلمانوں پر کفار مکہ نے مظالم کی انتہا کر دی تو حضورﷺنے دل کی گہرائی سے تمنا کی کہ اسلام کو ایک ایسے مضبوط دل اور طاقتور شخص کی حمایت حاصل ہو جائے جو ان کا ساتھ دے سکے۔ آپ ﷺنے دعا کی۔ ”یا اللہ، ابو جہل یا عمر بن خطاب کی قوت اسلام کے شامل حال کر دے۔“ رب دو جہاں نے اپنے پیارے رسولﷺ کی دعا قبول کی اور حضرت عمر نے اسلا م قبول کیا۔ اسی لیے حضرت عمر کو مراد رسول ﷺکہا جاتا ہے۔
ایک شام عمر بن خطاب طواف بیت اللہ کے لیے نکلے۔ وہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے۔ عمر بن خطاب نے سوچا کہ یہ موقع مناسب ہے ذرا سنوں تو سہی کہ محمد(ﷺ)کیا پڑھ رہے ہیں۔ حجر اسود کی طرف سے غلاف کعبہ میں گھس گئے تاکہ حضورﷺ انہیں دیکھ نہ سکیں۔ حضرت محمدﷺ سورۃ الحاقہ پڑھ رہے تھے جس کی آیات میں اکثر کا قافیہ تمانیہ، خافیہ، حسابیہ، راضیہ، عالیہ ہے۔ حضرت عمر ان آیات کی خوش آہنگی، اثر انگیزی اور سحر بیانی سے حیرت میں رہ گئے اور دل میں سوچنے لگے۔ ”قریش ٹھیک کہتے ہیں کہ یہ شخص شاعر ہے۔ ادھر حضورﷺکے ہونٹوں پر آیت آئی جس کا ترجمہ ہے۔ ”یہ کسی شاعر کی بات نہیں۔“ عمر دھک سے رہ گئے کہ حضورﷺ نے ان کے دل کی بات کیسے سن لی، پھر سوچا اگر شاعر نہیں تو پھر کاہن ہو گا جو دل کی بات سن لی۔ عین اسی وقت حضورﷺنے پڑھا (ترجمہ)”نہ ہی یہ کسی کاہن کی بات ہے۔“ حضرت عمرؓ وہاں سے ہٹ گئے لیکن تمام رات اسی فکر میں غرق رہے کہ کیا واقعی محمدﷺ کے دل پر خدا کا کلام اترتا ہے؟
عمر بن خطاب کا دل تو پسیج چکا تھا لیکن وہ یہ بھی سوچ رہے تھے کہ نئے دین کی وجہ سے مکہ کی عظمت کو ٹھیس پہنچے گی۔ ابھی فیصلے کی گھڑی نہیں آئی تھی۔
 ایک دن دوپہر کے وقت آپ گھر سے نکلے۔ ہاتھ میں تلوار اور مزاج میں گرمی تھی۔ ان کے تیور خطرناک تھے۔ راستے میں نعیم بن عبداللہ نے انہیں دیکھا تو ان سے پوچھا۔ ”عمر! کڑی دھوپ میں کہاں کے ارادے ہیں؟“
”محمدکو (نعوذ باللہ)قتل کرنے جا رہا ہوں۔“
”پہلے اپنے گھر کی تو خبر لو۔ تمہاری بہن فاطمہ اور بہنوئی سعید تمہارا دین چھوڑ کر مسلمان ہو چکے ہیں۔“ یہ سن کر عمر آگ بگولہ ہو گئے اور طیش کے عالم میں بہن کے گھر پہنچے تو اس وقت حضرت خبابؓ، حضرت عمر کی بہن اور بہنوئی کو قرآن پاک کی تعلیم دے رہے تھے۔ اور گھر میں صحن سے قرآن پاک پڑھنے کی آواز آ رہی تھی۔ حضرت عمر کی آواز سنتے ہی حضرت خبابؓ چھپ گئے۔حضرت عمر یہ کہہ کر کہ تم صابی ہو گئے ہو(صابی کا مطلب تھا کہ اپنے مذہب کو چھوڑ کر لادین ہونے والا)، بہنوئی پر پل پڑے اور انہیں خوب مارا۔ شوہر کو بچانے کے لیے فاطمہ آگے بڑھیں تو عمر بن خطاب نے بہن کو بھی اس قدر مارا کہ ان کا چہرہ زخمی ہو گیا۔ بہن زخمی ہو کر بھی نہ گھبرائیں اور بولیں۔”اے خطاب کے بیٹے! تم سے جو کچھ ہو سکتا ہے کر لو، ہم مسلمان ہو چکے ہیں۔ خوب سمجھ لو کہ ہم اسلام لا چکے ہیں۔“ حضرت عمر نے بہن کے منہ سے اس عقیدت اور مضبوطی کے ساتھ اسلام کا ذکر سنا تو کچھ شرمندہ ہوئے۔ کچھ دیر بعد بولے۔ ”اچھا مجھے بھی تو دکھاؤ کہ تم لوگ کیا پڑھ رہے ہو؟“
بہن نے کہا۔”تم پاک نہیں ہو،قرآن حکیم کو وہ ہی چھو سکتا ہے جو پاک ہوں۔ تم پہلے وضو کرو۔“ چنانچہ حضرت عمر نے وضو کیا،پھر سورہ حدید کی آیات پڑھیں (ترجمہ)”زمین اور آسمان میں جو کچھ بھی ہے وہ اللہ کی تسبیح کرتا ہے۔ اللہ غالب اور حکمت والا ہے۔“ ان کے دل سے آواز آئی۔”میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اور محمدﷺاللہ کے رسول ہیں۔“
وہاں سے حضرت عمرؓ حضرت ارقمؓ مخزومی کے گھر پہنچے جہاں ہمارے پیارے نبیﷺ مسلمانوں کو اسلام کی تعلیمات دیتے تھے۔ کسی نے حضرت عمرؓ کے ہاتھ میں ننگی تلوار دیکھی تو ڈر گئے کہ یہ کسی برے ارادے سے آ رہے ہیں اور دروازہ بند کر دیا۔ ہمارے پیارے نبیﷺ نے اطمینان سے کہا۔”عمر کو آنے دو۔“ دروازہ کھولا گیا۔
حضرت عمر اندر آئے اور بولے۔”میں اس لیے حاضر ہوا ہوں کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ پر اور جو کچھ اللہ کے پاس سے نازل ہوا ہے اس پر ایمان لاؤں۔“پھر آپ نے کلمہ شہادت پڑھا۔ سب لوگوں نے نعرہ تکبیر بلند کیا۔ حضرت عمر کے اسلام لانے سے مسلمانوں کی ہمت بندھی۔ تحریک اسلام کو تقویت ملی۔ مسلمانوں کے حوصلے بلند ہوئے اور مسلمانوں نے بیت اللہ میں پہلی بار باجماعت نماز ادا کی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر کو فاروق کا خطاب دیا جس کا مطلب ہے حق اور باطل میں فرق کرنے والا۔
شعب ابی طالب
قریش، اسلام کے خلاف ہر طرح کی رکاوٹ کھڑی کرتے رہے لیکن ناکام رہے۔ اسلام کا نور پھیلتا جا رہا تھا اور اس کا دائرہ روز بروز وسیع تر ہو رہا تھا، تب کفار مکہ نے طے کیا کہ بنو ہاشم سے تعلقات منقطع کر دئیے جائیں تاکہ وہ سب آنحضورﷺ کا ساتھ چھوڑ دیں۔ سب سرداروں نے ایک معاہدہ تحریر کیا کہ مکہ والے سب لوگ بنو ہاشم سے کوئی تعلق نہ رکھیں گے۔ نہ ان سے کوئی رشتہ طے کیا جائے گا، نہ ان سے کسی قسم کی خرید و فروخت کریں گے اور انہیں گلی بازاروں میں بھی نہیں پھرنے دیا جائے گا۔ اس معاہدے پر سب نے دستخط کیے اور اسے خانہ کعبہ میں لگا دیا گیا کہ سب کو معلوم ہو جائے۔
اس صورتحال پر بنو ہاشم کو مجبوراً مکہ والوں سے کٹ کے رہنا پڑا۔ حضرت ابو طالب، نبی کریمﷺ اور قبیلہ بنو ہاشم کو لے کر ایک گھاٹی میں چلے گئے جو خانہ کعبہ سے تقریباً ڈیڑھ میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ اسے شعب ابی طالب کہا جاتا ہے۔ اس تنگ گھاٹی میں تین سال تک نبی کریم ﷺاور ان کے قبیلے کو سخت پریشانی اور تنگی میں رہناپڑا۔ ان کو بھوک سے پریشان دیکھ کر مکہ کے ظالم لوگ بہت خوش ہوتے۔ ہشام بن عمرو نے اس موقع پر مسلمانوں کی مدد کی۔ و ہ گندم اور دوسری اجناس اونٹوں پر لاد کے آدھی رات کو گھاٹی کے قریب پہنچتا اور اپنے اونٹوں کو آگے ہانک دیتا۔ یوں مسلمانوں کا گزارہ ہوتا رہا۔ وہاں لوگوں کو درختوں کے پتے اور چمڑا کھا کھا کے بھی وقت گزارنا پڑا۔ یہ بڑی سخت آزمائش کا وقت تھا۔ ننھے بچے بھوک سے بلکتے۔ مسلمانوں نے اس تنگی کے عالم میں تین سال گزارے۔
ایک روز ہشام بن عمرو اور زہیر بن ابی امیہ کعبے میں گئے اور بآواز بلند کہا کہ ”اے لوگو! کیا یہ بات درست ہے کہ ہم مزے سے کھاتے پیتے رہیں اور بنی ہاشم فاقوں پر فاقے کرتے رہیں؟“ خانہ کعبہ میں لٹکے ہوئے عہد نامہ کو دیکھا گیا تو اسے اس عرصے میں دیمک چاٹ گئی تھی۔ اور کاغذ پر صرف ”باسمک اللھم“ لکھا رہ گیا تھا۔ اس کے بعد بنو ہاشم کو اس مصیبت سے چھٹکارا ملا۔ یہ نبوت کا دسواں سال تھا۔
عام الحزن
شعب ابی طالب سے باہر آنے کے بعد ہمارے پیارے نبیﷺ کو دو شدید صدمے پہنچے۔ ایک صدمہ حضرت ابو طالب کی وفات کا تھا۔ انہوں نے اپنے پیارے بھتیجے کو شفقت و محبت سے پالا اور کفار مکہ کے سامنے ڈھال بن کر کھڑے رہے۔ ان کی وفات سے ہماے پیارے نبیﷺ ایک شفیق اور مہربان ہستی سے محروم ہو گئے اور اب کافروں کی ہمت اور بڑھ گئی۔ انہوں نے ہمارے پیارے نبیﷺ کو ایذا دینے میں اور اضافہ کر دیا۔ ان کے اوپر کوڑا کرکٹ پھینک دیا جاتا۔ ایک بار آپﷺ گھر پہنچے تو چہرہ انور پر گردو غبار پڑا تھا۔ حضورﷺ کی پیاری بیٹی فاطمہ آپﷺکا چہرہ دھوتے ہوئے رونے لگیں۔ آپﷺ انہیں تسلی دینے لگے۔”بیٹی رو مت، خدا تیرے باپ کی حفاظت کرے گا۔ جب تک ابو طالب زندہ تھے، قریش مجھے کوئی آزار نہ پہنچا سکتے تھے۔“
اس کے بعد حضرت خدیجہؓ بھی انتقال فرما گئیں۔ یہ دوسرا بڑا صدمہ تھا جو ہمارے پیارے نبیﷺ کو برداشت کرنا پڑا۔ حضرت خدیجہؓنے تمام عمر اپنے خلوص و محبت سے حضورﷺ کو سہارا دیا اور ہر مشکل میں وہ حضورﷺ کو تسلی و دلاسہ دیتی تھیں اور آج وہ مہربان ہستی بھی جدا ہو گئی۔ ان دو مہربان ہستیوں سے جدائی کی وجہ سے آپﷺ بہت غمگین رہنے لگے۔
ان دو صدموں کی وجہ سے اس سال کو غم و اندوہ کا سال یعنی عام الحزن کہا جاتا ہے۔
سفر طائف
جب کفار مکہ کی مخالفت مزید بڑھی تو حضورﷺنے طائف کا رخ کیا۔ یہ جگہ مکہ سے ستر میل مشرق کی طرف واقع ہے۔ حضرت زید بن حارثؓ آپﷺ کے ساتھ تھے۔ آپ ﷺنے طائف کے سرداروں کو اسلام کا پیغام دیا۔ ان لوگوں نے آپﷺ کو نہایت گستاخانہ جوابات دئیے۔ وہاں سے نکل کر آپﷺ نے عام لوگوں سے ملنے اور بات کرنے کا ارادہ کیا تو ان سرداروں نے اپنے غلاموں اور شہر کے لڑکوں کو اکسایا کہ وہ آپﷺ کے پیچھے لگ جائیں۔ ان لڑکوں نے آپﷺ پر پھبتیاں کسیں اور پتھر مارے،آپﷺ لہولہان ہو گئے یہاں تک کہ آپ ﷺکے جوتے خون سے بھر گئے۔ آپ ﷺنے ایک باغ میں پناہ لی۔ اسی وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے۔ ان کے ساتھ پہاڑوں کا فرشتہ تھا۔اس نے کہا۔”یار سول اللہﷺ!طائف کے لوگوں نے آپ کو اتنی اذیت دی، یہ اس لائق ہیں کہ اس شہر کے گرد جو پہاڑ ہیں، ان پر گرا دئیے جائیں۔“
ہمارے پیارے نبیﷺ نے صبر و تحمل سے کام لیا۔ ان لوگوں کو کوئی بددعا نہ دی بلکہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کو بھی ایسا کرنے سے منع فرمایا اور کہا۔”شاید ان کی اگلی نسلوں میں ایسے لوگ پیدا ہوں جو ایمان لے آئیں۔ انہیں بددعا نہ دو۔“عتبہ بن ربیعہ جو باغ کا مالک تھا، اس نے آپﷺ کو انگور کا خوشہ بھجوایا، جسے کھا کر آپﷺ کو کچھ فرحت حاصل ہوئی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس شہر میں وعظ کے دوران اتنی تکلیفیں اٹھانا پڑیں کہ آپﷺ بے ہوش ہو گئے۔ حضرت زیدؓ آپﷺ کو اپنی پیٹھ پر اٹھا کر وہاں سے لائے۔ آپﷺ مکہ واپس آئے اور تبلیغ دین کا کام جوش و خروش کے ساتھ شروع کر دیا۔
بیعت عقبہ
جب حج کا موسم آتا تھا تو دو رو نزدیک سے بے شمار افراد حج کے لیے مکہ آیا کرتے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات کچھ ایسے لوگوں سے ہوئی جو مدینہ سے یہاں آئے ہوئے تھے۔ آپﷺ نے ان لوگوں کو دین کا پیغام دیا۔ وہ لوگ بہت متاثر ہوئے اور ایمان لے آئے۔ شروع شروع میں قبیلہ خزرج کے چھ آدمی مسلمان ہوئے۔ انہوں نے واپس مدینہ جا کر تبلیغ شروع کر دی۔ اگلے سال حج کے موقع پر مدینہ کے بارہ آدمی ایمان لائے اور انہوں نے عقبہ کی پہاڑی پر حضورﷺ کی بیعت کی۔ جسے بیعت عقبہ اولیٰ کہا جاتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مصعب بن عمیرؓ کو ان افراد کے ساتھ مدینہ بھیجا تاکہ وہ لوگوں کو قرآنی احکامات سے روشناس کرائیں۔ ان کوششوں کا نتیجہ نہایت حوصلہ افزا نکلا۔ مدینہ میں دوسرا بڑا قبیلہ اوس تھا۔ اوس کے سرداروں نے بھی اسلام قبول کیا اور اسلام تیزی کے ساتھ پھیلنے لگا۔ اس سے اگلے سال بہت سے لوگ حج کرنے مکہ آئے تو ان کی تعداد پچھتر ہو چکی تھی۔ انہوں نے عقبہ کے مقام پر حضورﷺ کی بیعت کی۔ اسے بیعت عقبہ ثانی کہا جاتا ہے۔ اہل مدینہ نے ہمارے پیارے نبیﷺ کو مدینہ آنے کی دعوت دی۔ آپﷺ کے چچا حضرت عباسؓ نے کہا۔ ”محمد اپنے خاندان میں بہت معزز ہیں۔ اگر تم انہیں اپنے ہاں بلانا چاہتے ہو تو یہ بڑی ذمہ داری کی بات ہے۔ تم ہمیشہ ان کا ساتھ دو تو بہتر ہے ورنہ یہ ارادہ ترک کر دو۔“ اہل مدینہ نے کہا۔”ہم تلواروں کی گود میں پلے ہیں۔ہم خدا کے رسولﷺ سے اس بات کی تسلی چاہتے ہیں کہ حضورﷺ ہمیں کبھی نہ چھوڑیں گے۔“ حضورﷺ نے فرمایا۔ ”میرا جینا، میرا مرنا،تمہارے ساتھ ہو گا۔“ حضور نے اپنا یہ قول خوب نبھایا۔
معراج النبیﷺ
ایک رات کہ جب آپﷺ اپنی پھوپھی زاد بہن ام ہانی کے ہاں مقیم تھے۔ جبریل امین آئے اور حضورﷺ کو سوتے ہوئے جگایا اور آپ ﷺکے لیے ایک سواری پیش کی۔ اس سواری کا نام براق تھا اور اس کا ایک ایک قدم حد نگاہ تک پڑتا تھا اور یہ نہایت تیزرفتار تھی۔ یہاں سے آپﷺ پہلے بیت المقدس پہنچے۔ وہاں مسجد اقصیٰ تمام پچھلے نبیوں سے بھری ہوئی تھی۔ آپ نے انبیاء کرام کی نماز کی امامت کرائی پھر حضورﷺ کے سامنے ایک سیڑھی پیش کی گئی۔ اس کے ذریعے آپ ﷺاوپر آسمانوں میں بلند ہوئے۔ وہاں آپ ﷺنے حضرت آدم علیہ السلام کو دیکھا، ان کے دائیں جانب جنتی لوگ تھے جنہیں دیکھ کر حضرت آدم علیہ السلام خوش ہوتے تھے اور بائیں جانب جہنمی لوگ تھے جن کو دیکھ کر وہ مغموم ہوتے تھے۔ اس کے بعد آپ ﷺیکے بعد دیگرے دوسرے سے چھٹے آسمانوں پر پہنچے اور وہاں مختلف انبیاء کرام سے ملے جن میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام،حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت یوسف علیہ السلام شامل تھے۔ ساتویں آسمان پر ایک بیری کا درخت تھا جس پر بے شمار فرشتے جگنو کی طرح جگمگا رہے تھے۔ اسے سدرۃ المنتہیٰ کہا جاتا ہے۔ حضرت جبریل علیہ السلام اس مقام پر رک گئے اور فرمایا۔ ”مجھے اس مقام سے آگے جانے کی اجازت نہیں۔ آپ آگے جائیے۔“
شاعر نے اسی واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے  ؎
جلتے ہیں جبریل کے پر جس مقام پر
اس کی حقیقتوں کے شناسا تمہی تو ہو
یعنی یہ وہ عظیم ترین مرتبہ ہے جو صرف ایک عظیم ترین انسان کو ملا۔ یہ وہ عز و شرف ہے جو فرشتوں کو عطا نہیں کیا گیا۔
ہمارے پیارے نبی ﷺاس مقام سے آگے بڑھے۔ وہاں آپﷺ نے جنت اور دوزخ کا مشاہدہ کیا۔ وہاں ایسے لوگوں کو بھی دیکھا جو بہت برے حال میں تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جو یتیموں کا مال کھاتے تھے۔ وہاں سود خور بھی تھے۔ برے کام کرنے والی عورتیں بھی تھیں اور بے عمل خطیب بھی تھے، جو دوسروں کو نصیحت کرتے تھے اور خود ان باتوں پر عمل نہیں کرتے تھے۔
وہاں آپﷺ کی ملاقات رب دو جہاں سے ہوئی اور آپﷺ کو امت کے لیے پچاس نمازوں کا عطیہ عطا کیا گیا، آپ ﷺ نے سوچا میری امت کے لیے ان نمازوں کی ادائیگی مشکل ہو گی،آپ ﷺنے التجا کی کہ نمازوں کی تعداد کم کر دی جائے۔ یہ نمازیں کم ہو کر چالیس، تیس، بیس، دس اور آخر میں پانچ کر دی گئیں۔ اس کے بعد آپﷺ واپس گھر آ گئے۔ جتنی دیر حضورﷺنے آسمانوں کی سیر کی، اتنی دیر میں دنیا کے وقت کا صرف ایک مختصر لمحہ گزرا تھا۔ گویا آپﷺ زمان و مکان کی قید سے آزاد ہو گئے۔ پروردگار نے اپنے محبوب ترین بندے کو اپنی ملاقات کا شرف بخشا اور آسمانوں کی سیر کرائی، اسے معراج کہا جاتا ہے اور یہ ہمارے پیارے نبی ﷺکا ایک معجزہ ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے واقعہ معراج کی تصدیق کی، اس لیے آپ کا لقب صدیق ہو گیا۔
کفار کی ناپاک سازش
کفار مکہ چاہتے تھے کہ حضرت محمدﷺ لوگوں میں اسلام کی تبلیغ ختم کر دیں۔ اسی وجہ سے وہ حضورﷺکو طرح طرح سے پریشان کرتے اور اذیتیں دیتے لیکن ہمارے پیارے نبی حضرت محمدﷺدین کے رستے میں آنے والی ہر تکلیف اور ہر آزمائش کو صبر اور تحمل سے برداشت کرتے رہے۔ ایک بار مکے کے تمام بڑے بڑے لوگ مل کر بیٹھے او رانہوں نے کہا۔محمدکسی بھی طرح دعوت حق کا سلسلہ ختم کرنے کو تیار نہیں، اس کا اب ایک ہی علاج ہے اور وہ یہ کہ ہم سب مل کر (نعوذ باللہ) ان کو ختم کر دیں۔ ہر قبیلے کا ایک ایک شخص اس کام میں شامل ہو گا۔ یہ لوگ ہتھیار لے کر رات کے وقت حضورکے گھر کے باہر ٹھہریں گے اور صبح کے وقت جونہی حضورگھر سے باہر نکلیں گے تو سب ان پر ٹوٹ پڑیں اور (نعوذ باللہ) انہیں قتل کر دیں۔ بنو ہاشم تمام قبیلوں سے بدلہ لینے کی ہمت نہ کریں گے یعنی اس منصوبے کے کوئی مضمرات نہ ہوں گے۔ اس قتل کی ذمہ داری کسی ایک قبیلے پر بھی نہ ہو گی۔ سب لوگوں نے اس منصوبے سے اتفاق کیا۔ چونکہ یہاں حالات سخت ناموافق تھے اس لیے بہت سے مسلمانوں نے مکے سے مدینہ ہجرت کرنا شروع کر دی تھی اور مکے میں حضورﷺکے ساتھ اب صرف حضرت ابوبکرؓ اور حضرت علیؓ ہی رہ گئے تھے۔
مکہ سے رسول پاک ﷺکی ہجرت
ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعے کفار کے اس ناپاک منصوبے کا علم ہو گیا۔ آپﷺ اس انتظار میں تھے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی ہدایت ملے،چنانچہ آپﷺ پر وحی نازل ہوئی۔ سورہ عنکبوت اور سورہ بنی اسرائیل میں ہجرت کا واضٗح اشارہ تھا۔ حضرت جبر یل علیہ السلام نے حضورﷺ کو ہدایت کی کہ آج رات آپ بستر پرنہ سوئیں۔ چنانچہ آپ ﷺنے اپنی سبز چادر اور لوگوں کی امانتیں حضرت علیؓ کے سپرد کیں اور ان سے کہا کہ تم میرے بستر پر لیٹ جاؤ، میری چادر اوڑھ لینا، تم محفوظ رہو گے۔ جب صبح ہو تو یہ امانتیں لوگوں کو لوٹا دینا۔ ہم مدینے کی طرف جا رہے ہیں۔تم بھی بعد میں وہاں آ جانا۔
یہ انتظام کر کے آپﷺ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے گھر گئے اور ان کو اپنے ہجرت کے ارادے سے مطلع کیا۔ آپ نے اس مقصد کے لیے دو اونٹنیاں ببول کی پتیاں کھلا کر پہلے ہی تیار کر رکھی تھیں۔ انہوں نے سفر کے لیے کچھ تھیلیوں میں ستو لیا اور چھ ہزار درہم ساتھ رکھ لیے۔ آپ دونوں نے جنوب کی طرف غار ثور کا رخ کیا تاکہ دشمن اگر پیچھا کرنے نکلیں تو مدینہ کی طرف کو جائیں اور ناکام ہو جائیں۔ یہ ایسا وقت تھا کہ جب آپ ﷺکو گھر بار، عزیز،دوست، اپنی جگہ،اپنی زمین، سب کچھ چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا تھا۔ حضورﷺ نے خانہ کعبہ کو دیکھ کر دکھی دل سے فرمایا۔”مکہ! تو مجھے تمام دنیا سے عزیز ہے لیکن تیرے فرزند مجھ کو یہاں رہنے نہیں دیتے۔“
ہجرت کرتے وقت آپﷺ سورہ یٰسین کی آیات کی تلاوت فرما رہے تھے جن کا ترجمہ ہے۔”یٰسین (اے انسان کامل)حکمت والے قرآن کی قسم تو اللہ کی طرف سے بھیجے ہوئے لوگوں میں سے ہے اور سیدھے راستے پر ہے۔ ہم نے ان کے سامنے اور ان کے پیچھے ایک دیوار کھینچ دی ہے جس سے ہم نے ان کو گھیر دیا ہے وہ دیکھ نہیں سکتے۔“ راتوں رات آپﷺ پیدل تین میل کا سفر طے کر کے، سخت پہاڑی چڑھائیاں طے کر کے غار ثور پہنچے۔ سخت پتھریلے راستے کی وجہ سے آپ ﷺکے پاؤں زخمی ہو گئے۔
ادھر صبح ہوئی تو کفار مکہ آپ ﷺکو نعوذ باللہ قتل کرنے کے ارادے سے گھر کے اندر پہنچے، وہاں بستر پر حضورﷺکی جگہ حضرت علیؓ کو سوتے ہوئے پایا تو سخت برہم ہوئے اور بولے کہ وہ تو نکل گئے اور ساری سازش ناکام ہو گئی۔ وہ حضرت محمدﷺکو تلاش کرنے نکل کھڑے ہوئے۔ کفار نے یہ اعلان کیا کہ جو کوئی حضرت محمدﷺکو پکڑ کر لائے گا اسے سو اونٹوں کا انعام دیا جائے گا۔
خدا کے حکم سے غار ثور کے منہ پر مکڑی نے جالے بن ڈالے اور کچھ جنگلی کبوتروہاں آ بیٹھے اور یہ جگہ ایسی لگنے لگی جیسے یہاں کوئی مدتوں سے نہ آیا ہو۔ ادھر کفار نے مدینے کے راستے میں آپ ﷺکوتلاش کیا اور ناکام ہوئے تو انہوں نے ادھر ادھر ڈھونڈنا شروع کیا۔ کچھ لوگ غارثور کے نزدیک بھی پہنچ گئے۔ اس وقت حضرت ابوبکر صدیقؓ ان کی آہٹ پا کر گھبرا گئے کہ کہیں ہمیں دیکھ نہ لیں۔ حضورﷺ کو اللہ کی ذات پر کامل بھروسہ تھا کہ وہ ضرور آپﷺ کی مدد کرے گا۔ آپﷺ نے حضرت ابوبکرؓ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا”لا تحزن ان اللہ معنا“(ترجمہ)”گھبراؤ مت، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔“(سورہ توبہ)۔کفار ناکام ہو کر واپس لوٹ گئے۔
حضرت ابوبکر صدیق نے ہمیشہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے دوست اور مخلص ساتھی ہونے کا ثبوت دیا۔ آپ نے تین دن تک حضورﷺ کے ساتھ غار ثور میں قیام کیا، اس لیے آپ کو یار غار یعنی غار کا ساتھی بھی کہا جاتا ہے۔ اس دوران حضرت ابوبکر کی بیٹی حضرت اسماء ہر روز آپ ﷺکے لیے کھانا تیار کر کے غار میں پہنچاتیں، ان کا غلام عامر بن فہیرہ بکریاں چراتے ہوئے غار کے قریب چلا جاتا تاکہ حضورﷺاورحضرت ابوبکر صدیقؓ خوب سیر ہو کر بکریوں کا دودھ پی لیں، اور حضرت ابوبکر کے بیٹے عبداللہ آتے اور شہر میں ہونے والی باتوں سے آپ کو آگاہ فرماتے کہ وہاں کفار کیا کچھ کر رہے ہیں۔ اس طرح تین دن گزر گئے۔ اب یہاں سے نکلنے میں خطرہ نہ تھا، چنانچہ چوتھے روز تین اونٹنیوں پر مدینہ کی طرف سفر شروع کیا گیا۔ ایک اونٹنی پر حضرت محمدﷺتھے،دوسری پر حضرت ابوبکر صدیقؓ اور ان کا آزاد کردہ غلام عامر بن فہیرہ اور تیسری اونٹنی پر ایک مشرک عبداللہ بن اریقط تھا جو طبعاًنیک تھا۔ اسے اجرت پر راہنمائی کے لیے رکھا گیا تھا تاکہ وہ محفوظ راستے سے مدینہ تک لے چلے۔ وہ اپنی سواری کے لیے اونٹنی خود لے کر آیا تھا۔ اس نے نسبتاً ایک غیر معروف اور بیابانی راستہ اختیار کیا۔ ادھر مکے کے لوگ آپﷺ کا سراغ پانے کے لیے ادھر ادھر مارے مارے پھر رہے تھے۔ انہی لوگوں میں ایک شخص سراقہ بن جعثم بھی تھا جو گھوڑے پر سوار اسی راستے پر نکل آیا جہاں سے آپ ﷺگزر رہے تھے۔ لیکن کیا ہوا کہ اس کا گھوڑا بار بار ٹھوکر کھا کر گرا اور گھوڑے کے پاؤں زمین میں جیسے دھنسنے لگے،یہاں تک کہ وہ خوف زدہ ہو گیا اور اس کی ہمت پست ہو گئی۔ اس نے شرمندہ ہو کر حضورﷺ سے معافی مانگی۔ آپ ﷺنے اسے معاف کر دیا۔ اس نے اپنی خوشی سے دو سواریاں اور کچھ زاد سفر حضورﷺ کی خدمت میں پیش کیا جسے حضورﷺنے قبول نہ فرمایا۔ آپ ﷺنے کہا۔”بس تم یہ کرو کہ دشمن کی جستجو کو ناکام بنا دو۔“ اس نے اس بات کا تحریری وعدہ کیا۔ حضورﷺ نے اسے کسریٰ کے کنگن پہنائے جانے کی نوید بھی دی پھر وہ واپس چلا گیا۔ دوران سفر آپﷺ نے ام معبد کی بکری کا دودھ پیا۔ مدینے کے سفر میں حضرت زبیر تجارت کے سلسلے میں شام سے واپس آ رہے تھے۔ انہوں نے حضورﷺ اور حضرت ابوبکرؓ دونوں کو سفید لباس تحفتاًپیش کیا۔
ایک سردار بریدہ اسلمی بھی انعام کی لالچ میں حضورﷺ کو کھوجنے نکلے تھے۔ جب حضورﷺ کے سامنے ہوئے تو آپ ﷺکی سچائی پر ایمان لے آئے۔ ان کے ساتھ ستر افراد اور بھی تھے۔ وہ سب اسلام لے آئے۔ بریدہ نے خواہش کی کہ جب آپ ﷺ مدینہ میں داخل ہوں تو آپ ﷺکے آگے آگے جھنڈا ہونا چاہیے۔حضورﷺ  نے اپنا عمامہ نیزے پر باندھ کر بریدہ کو دیا۔ اس طرح یہ قافلہ جھنڈا لہراتا ہوا رواں دواں ہوا۔
آٹھ دن کی مسافت کے بعد حضورﷺ ایک مقام پر پہنچے جس کو قباء کہا جاتا ہے۔ ادھر مدینے کے لوگ انتہائی والہانہ انداز میں آپ ﷺکا استقبال کرنے کو ہر روز شہر کے باہر کھڑے ہو کر آپﷺ کی راہ دیکھتے اور جب دیر ہو جاتی تو سوچتے کہ آپ ﷺ کل ضرور آ جائیں گے۔
قبا میں کچھ لوگ آباد تھے۔ آپ ﷺنے کلثوم بن الہدم کے ہاں قیام کیا۔ وہاں ایک مسجد کی بنیاد رکھی جس کا نام مسجد قبا رکھا گیا۔ آپﷺ نے وہاں چودہ دن قیام کیا۔ اس دوران مکہ سے حضرت علیؓبھی ہجرت کر کے قبا میں آپ ﷺسے آ ملے۔ مسجد قبا کی تعمیر کے بعد آپ ﷺمدینہ کے لیے روانہ ہوئے۔
مدینہ میں آمد
آپﷺکے مبارک قدم جب مدینہ پہنچے تو وہاں ایک ہجوم آپ ﷺکے استقبال کے لیے موجود تھا۔ ہر چہرہ مسرور تھا جیسے کہتا ہو ”چشم ما روشن، دل ماشاد!“ معصوم لڑکیاں دف بجا بجا کر اپنی خوشی کا اظہار کر رہی تھیں اور گا رہی تھیں۔
وداع کی گھاٹیوں سے چاند ابھر آیا ہے
ہم پر خدا کا شکر واجب ہے
دعا مانگنے والے اپنی دعائیں مانگیں
ہم نجار کے خاندان کی لڑکیاں ہیں
اب محمدﷺ ہمارے ہی پاس رہیں گے
اہل مدینہ میں ہر کوئی اس بات کا خواہش مند تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کو شرف میزبانی بخشیں۔ حضورﷺنے فرمایا یہ معاملہ میری اونٹنی پر چھوڑ دو۔ جہاں یہ از خود بیٹھے گی، میں وہیں قیام کروں گا۔ اونٹنی چلتی رہی بالآخر ایک گھر کے نزدیک جا کر رک گئی۔ یہ حضرت ابو ایوب کا گھر تھا۔ آپ ﷺنے ان کے گھر سات ماہ تک قیام فرمایا۔ آپ نے گھر کے نیچے والی منزل پر قیام فرمایا اوپر والی منزل پر حضرت ابو ایوب اور ان کی اہلیہ رہتے تھے۔
ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے آبائی شہر مکہ کو چھوڑ کر مدینہ آ بسے۔ باقی کی عمر یہیں گزاری، یہیں آپ ﷺ کا وصال ہوا اور یہیں تدفین ہوئی۔ یہ واقعہ ہجرت نبوی کہلاتا ہے۔ اسلامی ہجری سال اسی تاریخی واقعہ سے شروع ہوتا ہے۔سن ہجری کا استعمال حضرت عمر فاروق کے دور سے ہوا۔ حضرت عمرؓ فاروق، حضرت علیؓ اور دیگر صحابہ کرام کا اس پر اتفاق ہوا۔ اسلامی سال کا پہلا مہینہ محرم الحرام، حضرت عثمانؓ غنی کے مشورے پر قرار دیا گیا۔
مواخات
مدینہ میں آ بسنے کے بعد مسلمانوں کی زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ مدینہ میں رہنے والوں کو انصار مدینہ کہا جاتا ہے اور مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آنے والے لوگوں کو مہاجرین کہا جاتا ہے۔ انصار مدینہ نے کھلے دل سے اپنے مہاجرین بھائیوں کو خوش آمدید کہا۔ انہوں نے اپنی تمام مال و متاع، گھر کا اسباب اور کھیت کھلیان حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دئیے کہ یہ سب کچھ آپﷺ کے لیے حاضر ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصار اور ایک مہاجر کو ایک دوسرے کا بھائی بنا دیا۔ اس طرح وہ رشتہ اخوۃمیں منسلک ہو گئے۔ اسے مواخات کہا جاتا ہے۔انصار بھائیوں کے خلوص، محبت اور فراخدلانہ روئیے کی وجہ سے مہاجرین اپنے گھر بار اور وطن چھوڑنے کا دکھ بھول گئے۔ پیار و محبت کی فضا میں سب نے مل جل کر کام کیا۔
یہ لوگ مکے کے کافروں کے ظلم و ستم سے محفوظ ہو گئے۔ رفتہ رفتہ مہاجروں نے بھی اپنے لیے روزگار تلاش کیے۔ مسلمان جلد ہی معاشی لحاظ سے مضبوط ہو گئے اور یہاں ایک نیا معاشرہ وجود میں آیا۔ لوگ اطمینان اور سکون سے معاشرے کی نئی تشکیل میں لگ گئے۔ یہاں ایک خود مختار اسلامی حکومت قائم ہوئی۔لوگ تیزی سے دائرہ اسلام میں داخل ہونے لگے جس سے اسلامی ریاست پھلتی پھولتی چلی گئی۔
تعمیر مسجد نبوی
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خانہ خدا کی تعمیر کا ارادہ کیا۔ آپ ﷺکی قیام گاہ کے قریب کچھ زمین موجود تھی۔ آپﷺ کو معلوم ہوا کہ زمین دو یتیم لڑکوں سہل اور سہیل کی ملکیت ہے۔ آپ ﷺنے ان لڑکوں کو بلایا اور فرمایا۔ ”ہم یہاں ایک مسجدبنانا چاہتے ہیں۔“ ان دونوں نے کہا ہم بخوشی اپنی زمین مسجد کے لیے دیں گے۔ حضورﷺ نے یہ منظور نہ کیا۔ ابو ایوب انصاری نے زمین کی قیمت ادا کی۔ اس کے بعد زمین کو ہموار کر کے مسجد کی تعمیر کا کام شروع کر دیا گیا۔اس مسجد کو مسجد نبوی کہا جاتا ہے۔ اس موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود پتھر اٹھاتے اور صحابہ کرام کے ساتھ آپ ﷺبھی کام کرتے۔صحابہ کو یہ اچھا نہ لگتا کہ والی دو جہاں ﷺ مشقت کے کام کریں۔ وہ کہتے کہ آپ اطمینان سے تشریف رکھیں۔ ہم سارا کام خود کر لیں گے۔ حضورﷺفرماتے۔”مسجد کی تعمیر میں حصہ خوش نصیبوں کو ملتا ہے اور بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ سب لوگ کام کریں اور میں فارغ بیٹھا رہوں۔“ مسجد کے ساتھ ایک درس گاہ بنائی گئی جہاں ان لوگوں کی رہائش کا انتظام کیا گیا جن کے اپنے گھر بار نہ تھے۔یہ اصحاب صفہ کہلاتے تھے اور تمام وقت وہ یہیں رہتے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دین کی باتیں سیکھتے تھے۔
مسجد کے قریب ازواج مظہرات کے حجرے تعمیر ہوئے۔ مسجد مکمل ہونے کے بعد اذان کا حکم ہوا اور نماز باجماعت ادا کی جانے لگی۔ حضرت بلالؓ کو مؤذن مقرر کیا گیا۔ باجماعت نماز اسلامی برادری کو متحد کرنے میں اور آپس میں قربت پیدا کرنے کے لیے بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔
اس مسجد کا رخ بیت المقدس کی جانب تھا اور سب مسلمان اسی طرف منہ کر کے نماز ادا کرتے تھے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے زیدؓ بن حارث کو حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ساتھ مکہ بھیجا اور اپنے اہل خانہ کو مدینہ بلوا بھیجا۔
میثاق مدینہ
مدینہ میں یہودیوں کے تین قبیلے تھے: بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ۔ یہ تینوں اپنے مذہب پر قائم رہے۔ جو قبیلے انصار کے تھے ان کا نام خزرج اور اوس تھا۔ یہودی سازشیں کر کے مسلمان قبیلوں میں لڑائیاں کرواتے رہتے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں امن و امان قائم کرنے کے لیے سب لوگوں کو اکٹھا کیا اور بات چیت کے بعد ایک معاہدہ طے پایا جسے میثاق مدینہ کہا جاتا ہے۔ اس معاہدے کی خاص باتیں یہ تھیں:
۱۔ یہودی اور مسلمان اپنے اپنے مذہب کے فرائض کی ادائیگی کے لیے آزاد ہوں گے۔
۲۔ دونوں فریقین دوستانہ تعلقات رکھیں گے۔
۳۔ اگر کسی ایک فریق کو کسی دشمن سے جنگ درپیش ہو گی تو دوسرا فریق اس کا ساتھ دے گا۔
۴۔ اگر مدینہ پر دشمن نے حملہ کیا تو دونوں فریقین ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے۔
۵۔ کوئی فریق بھی قریش مکہ کو پناہ نہ دے گا۔
۶۔ اگر مسلمان کسی سے صلح کریں گے تو یہودی بھی اس صلح میں شریک ہوں گے۔
۷۔ حضور محمد صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے سربراہ ہوں گے اور ہر قسم کے جھگڑوں کے فیصلے کرنے کا اختیار آپﷺ کے ہاتھ میں ہو گا۔
میثاق مدینہ کی وجہ سے ریاست کے اندرونی اختلافات ختم ہو گئے اور بیرونی حملوں کے خلاف اتحاد قائم ہوا جس کی وجہ سے مشرکین پر خوف طاری ہو گیا۔دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ اسلام کی رواداری اور اقلیتوں کے تحفظ کی ذمہ داری ظاہر ہوئی جس سے اسلام اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت میں اور اضافہ ہوا۔
تحویل کعبہ
اب تک مسلمان بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے۔ یہودی بھی اسی جانب رخ کر کے عبادت کرتے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دلی خواہش تھی کہ مسلمان خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھیں اور اس طرح خانہ کعبہ کی حرمت بڑھے کہ خانہ کعبہ خدا کا محترم گھر ہے۔ چنانچہ پروردگار نے حضورﷺ کی خواہش پوری کی۔ شعبان ۲ہجری کو آیت نازل ہوئی۔(ترجمہ) ”اپنا منہ مسجد حرام کی طرف پھیر لو اور جہاں کہیں رہو اسی طرف منہ رکھو۔“(سورہ بقرہ) اس کے بعد حضورﷺ نے خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھائی۔ اب مسلمان اور یہودیوں کی عبادات میں ایک فرق اور امتیاز پیدا ہو گیا اور مسلمانوں کو ایک امتیازی حیثیت حاصل ہوئی اور اس بات سے یہودیوں کو بڑا جھٹکا لگا اور دل ہی دل میں وہ مسلمانوں سے حسد کرنے لگے۔
غزوات نبوی
مدینہ میں اسلامی ریاست پھیلنے پھولنے لگی۔ کفار مدینہ کو یہ بات بھلا کب گوارہ تھی۔ وہ کوئی نہ کوئی ایسی بات کرنے کو بے قرار تھے کہ جنگ کی آگ بھڑک اٹھے اور وہ مسلمانوں کو چین سے نہ بیٹھنے دیں۔
مدینہ میں ایک سردار عبداللہ بن ابی تھا۔ اس کو سب قبیلے اپنا سردار مان کر اس کی تاج پوشی کرنے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ اسی دوران حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت فرمائی اور مدینہ میں اسلامی مملکت قائم ہو گئی۔ اہل قریش نے عبداللہ بن ابی کو خط لکھا۔”تم نے ہمارے آدمی (حضرت محمدﷺ) کو اپنے ہاں پناہ دی ہے۔ ہم خدا کی قسم کھاتے ہیں کہ یا تو تم لوگ ان کو قتل کر دو یا انہیں مدینے سے نکال دو ورنہ ہم سب تم پر حملہ کر دیں گے اور تم لوگوں کو گرفتار کر لیا جائے گا۔“
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ خبر ہوئی تو آپ ﷺنے عبداللہ ابی کو سمجھایا۔”کیا تم خود اپنے بیٹوں اور بھائیوں سے لڑو گے؟“ کیونکہ بہت سے انصار مسلمان ہو چکے تھے۔ اس لیے عبداللہ، قریش کے حکم پر عمل نہ کر سکا اور خاموش ہو گیا۔ دل ہی دل میں وہ حضور ﷺ اور مسلمانوں سے خار کھاتا تھا اور بغض و عداوت رکھتا تھا۔ سعد بن معاذ جو مدینہ کے قبیلے اوس کے سردار تھے، وہ مکہ گئے اور اپنے پرانے واقف امیہ کے ساتھ کعبہ کے طواف کو نکلے۔ اتفاق سے اس دوران ابوجہل سامنے آ گیا۔ اس نے امیہ سے پوچھا۔”تمہارے ساتھ یہ کون ہے؟“ انہوں نے بتایا یہ سعد ہیں۔
ابو جہل کو یہ سن کر بہت غصہ آیا اور اس نے کہا۔ ”تم لوگوں نے صابیوں (یعنی مرتدوں کو جو اپنا مذہب چھوڑ دیتے ہیں اور کوئی دوسرا مذہب اختیار کرتے ہیں) کو پناہ دی ہے۔ میں یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ تم کعبہ آؤ۔ اگر امیہ ساتھ نہ ہوتے تو تم بچ کر نہیں جا سکتے تھے۔ کیونکہ امیہ کا مجھ پر کوئی احسان ہے۔“
حضرت سعد نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ ”اگر تم نے ہمیں حج سے روکا تو ہم تمہارا مدینے کا راستہ بند کر دیں گے(کیونکہ شام سے تجارت کے قافلے مدینہ کے راستے ا ٓتے جاتے تھے) اگر مدینے کے لوگ تجارتی قافلوں کا راستہ بند کر دیتے توقریش کے لئے بہت مشکل پڑ جاتی۔ اس لیے قریش نے تمام قبیلوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکانا شروع کر دیا اور مسلمانوں کو قریش سے ٹکراؤ اور ان کے حملے کی فکر رہنے لگی۔ آپﷺ راتوں کو جاگ جاگ کر بسر کرتے اور پہرے دار پہرہ دیا کرتے۔
سن۲ہجری، رجب کے مہینے میں حضورﷺنے بارہ افراد کو نخلہ کی وادی میں بھیجا اور ایک بند خط انہیں دے کر فرمایا کہ اسے دو دن بعد کھولنا۔ اس میں لکھا تھا کہ”نخلہ میں رک کر قریش کے ا رادوں کا اندازہ کرو اور مجھے خبر دو۔“ وادی نخلہ مکہ اور طائف کے درمیان واقع ہے۔ یہ رجب کا مہینہ تھا جس میں خون بہانا حرام تھا۔ یہ ایک پرامن مہم تھی۔
اتفاق سے کچھ لوگ شام سے تجارت کا مال لے کر آ رہے تھے، مسلمانوں نے بغیر حضورﷺ کی اجازت کے ان لوگوں پر حملہ کر دیا۔ اس حملے میں ایک شخص عمرو بن حضرمی مارا گیا۔ دو افراد کو گرفتار کر لیا گیا اور ان سب کا مال واسباب اپنے قبضہ میں کر لیا۔ جب حضورﷺ کو اس واقعہ کا علم ہوا تو انہیں بہت افسوس ہوا کہ ایسا کیوں کیا گیا؟ آپﷺ نے وہ تمام مال واپس کر دیا۔ قیدیوں کو بلامعاوضہ آزاد کر دیا اور حضرمی کے قتل کا خون بہا دینے کا حکم دیا۔ اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مکے والے بھی اس معاملے کو رفع دفع کر دیتے لیکن ابو جہل نے حضرمی کے قتل کا بہانہ لے کر اہل مکہ کو خوب بھڑکایا اور انہیں مسلمانوں کے خلاف جنگ پر اکسایا۔ ان کے نزدیک قتل کا بدلہ ان کے قبیلے کے وقار کے لیے ازحد ضروری تھا۔ اس دوران قریش مکہ کا ایک بڑا قافلہ شام سے سامان تجارت لے کر مکہ واپس آ رہا تھا اور انہیں سفر میں مدینہ سے گزرنا تھا۔ کسی نے یہ افواہ پھیلا دی کہ مسلمان اس قافلے پر حملہ کریں گے۔
یہ سنتے ہی مکہ سے ایک ہزار فوجیوں کا قافلہ پوری جنگی تیاریوں کے ساتھ مدینہ پر حملہ کرنے کے خیال سے نکل پڑا۔ اس دوران معلوم ہوا کہ وہ تجارتی قافلہ کسی دوسرے راستے سے بخیریت مکہ پہنچ گیا۔ اس وقت کچھ لوگوں کو پرامن واپسی کا خیال تو آیا لیکن بہت سے پرجوش کفار جنگ کئے بغیر واپس جانے کو تیار نہ تھے۔ خصوصاً ا بو جہل تو دل میں ٹھانے بیٹھا تھا کہ حملہ ضرورکرنا ہے۔ اس نے عتبہ کو بزدلی کا طعنہ دیا اور کہا کہ تم اس لئے لڑائی سے بچ رہے ہو کہ تمہارا بیٹا حذیفہ مسلمان ہو چکا ہے۔ عمرو بن حضرمی کے بھائی عامر کو انتقام کے لئے اکسایاگیا۔ ان لوگوں نے جنگ کا تہیہ کر لیا۔ چونکہ صورتحال اس سے پہلے ہی کافی گھمبیر تھی اس لئے حضورﷺکو فکر دامن گیررہنے لگی تھی چنانچہ آپﷺ اکثر راتوں کو جاگ جاگ کر گزارتے تھے۔ رات کو صحابہ پہرہ دینے لگے۔
ایک دفعہ آپﷺ نے فرمایا: ”آج کوئی اچھا آدمی پہر دیتا۔“ اس رات حضرت سعد بن وقاص نے ہتھیار لگا کر رات بھر پہرہ داری کی اور آپﷺ نے آرام فرمایا۔
مدینہ پر حملہ کا خوف تھا۔ ایک رات آپ ﷺتنہا گھوڑے پر سوار ہو کر مدینہ کا چکر لگا کر آ گئے اور فرمایا ”خوف کی کوئی بات نہیں۔“
مدینہ پر کفار کے حملے کو روکنا بے حد ضروری تھا کیونکہ مسلمانوں کو نہ صرف یہ کہ اپنی جان کا خطرہ تھا بلکہ اسلام کی پہلی ریاست کا تحفظ بھی ضروری تھا جسے اجاڑ دینے کو کفاربے قرار ہو رہے تھے۔ سورہ بقرہ میں ارشاد خدا وندی ہے(ترجمہ) ”اور اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں اور زیادتی نہ کرو۔ اللہ زیادتی کرنے والوں سے محبت نہیں کرتا۔“ اس حکم کے بعد جہاد کی اجازت دے دی گئی۔
جہاد کے لئے ضابطہ اخلاق
جہاد کے لئے حضورﷺ نے ضابطہ اخلاق دیا:
۱۔   جب تم کسی علاقے میں جاؤ تو مقاتلہ (قتل) شروع کرنے سے پہلے اسلام کی دعوت دو۔ اگر وہ اسلام قبول کر لیں تو ہاتھ روک لو۔
۲۔  اگر وہ دعوت ا سلام قبول نہ کریں تو مقاتلہ کرو۔
۳۔  اگر کوئی ایسی بستی ہے جہاں اذان کی آواز سنائی دے یا اسلام کی کوئی علامت ہو تو وہاں حملہ نہ کرو۔
۴۔  اگر کوئی شخص کلمہ پڑھ لے، چاہے اس نے جان کے خوف ہی سے کلمہ کیوں نہ پڑھا ہو، اسے قتل نہ کرو۔
۵۔  عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو قتل نہ کیا جائے۔
۶۔  اگر بڑی عمر کے مرد ہوں جن کو جنگ کا تجربہ ہو،انہیں قتل کیا جائے تاکہ ان کے تجربے سے دشمن فائدہ نہ اٹھا سکے۔
۷۔  لاشوں کے ناک کان نہ کاٹیں جائیں یعنی ان کی بے حرمتی نہ کی جائے۔
۸۔  لوٹ مار، فساد اور تباہی نہ پھیلائی جائے۔
۹۔  دشمن کو آگ میں نہ جلایا جائے۔
۰۱۔  دشمن کو دکھ یا اذیت دے کر نہ مارا جائے۔
۱۱۔  پھلدار درختوں کو نہ کاٹا جائے۔
۲۱۔  جنگ میں حاصل ہونے والا مال غنیمت اللہ اور اس کے رسول کا ہے۔ اس کو تقسیم کرنے کا انتظام اسلامی حکومت کا ہے۔
۳۱۔  مال غنیمت میں چار حصے، شرکاء کے ہوتے ہیں اور پانچواں حصہ جو خمس کہلاتا ہے،حضور کے لیے ہوتا۔
۴۱۔  قبائل کی عورتیں جنگ میں مرہم پٹی کرتیں، حضور ان عورتوں کو اور غلاموں کو بھی مال غنیمت میں سے کچھ نہ کچھ ضرور دیتے۔
جن جنگوں میں حضورﷺ خود شریک ہوئے ان کو غزوہ کہا جاتا ہے۔ حضورﷺ کے غروات کی تعداد۷۲ یا۸۲ بتائی جاتی ہے۔
جن معرکوں میں حضورﷺ نے فوجی دستے بھیجے انہیں سریہ کہا جاتا ہے۔ سریہ کا مطلب قصد یا سیر کا ہے۔ بعض سریوں میں دشمن سے مقابلہ ہوا اور بعض میں نہیں ہوا۔ ان معرکوں میں پہلا معرکہ غزوہ بدر ہے۔ یہ بدر کے مقام پر ہوا۔
غزوہ بدر
رمضان۲ہجری کو ہمارے پیارے نبیﷺ کو اطلاع ملی کہ کفار کی فوجیں جنگ میں کود پڑنے کی تیار کر رہی ہیں۔ آپﷺ نے انصار اور مہاجرین کو مسجد نبوی میں جمع کیا۔ مہاجرین کی طرف سے حضرت ابو بکر صدیقؓ اور عمر فاروقؓ نے جان نثاری کا یقین دلایا۔ حضرت مقداد بن عمر نے کھڑے ہو کر کہا۔ ”آپ حکم الٰہی کے مطابق اقدام کریں۔ ہم آپﷺ کے ساتھ ہوں گے۔ ہم بنی اسرائیل کی طرح نہیں کہیں گے کہ اسے موسیٰ جاؤ تم اور تمہارا خدا لڑو، ہم تو یہیں بیٹھے ہیں، قسم ہے اس ذات پاک کی جس نے حق و صداقت کے ساتھ آپﷺ کو بھیجا ہے کہ اگر آپ برک الغماد(ایک مقام) تک جائیں گے، ہم ساتھ ساتھ ہوں گے اور حضورﷺکو درمیان میں لیتے ہوئے آگے پیچھے، دائیں بائیں جنگ لڑیں گے۔“ حضرت مقداد کی تقریر سے حضورﷺخوش ہوئے اور ان کی تعریف کی اور ان کے لئے دعا فرمائی۔
اب حضورﷺ انصار کی طرف دیکھتے تھے چنانچہ حضرت سعد بن معاذؓ نے کھڑے ہو کر کہا۔ ”اگر حضورﷺ کا ارشاد ہماری طرف ہے تو انصار کی طرف سے میں آپ ﷺکویقین دلاتا ہوں کہ خدا کی قسم آپﷺ فرمائیں تو ہم سمندر میں کود پڑیں گے، ہم جنگ کرنے کے لئے بڑے مضبوط اور مقابلے میں کامل ہیں۔ ہم آپﷺ کے ساتھ ہیں۔“ ان کی تقریر سے حضورﷺ کا چہرہ مبارک چمک اٹھا۔
۲۱ رمضان،۲ ہجری کو حضورﷺ تین سو تیرہ صحابہ کے ساتھ مدینہ سے روانہ ہوئے۔ رات کے وقت بارش ہو گئی۔ تمام رات رسولِ خداﷺ، اللہ پاک کے حضورگڑگڑا کر دعائیں کرتے رہے۔”اے بار الہا! اگر مسلمانوں کی یہ مٹھی بھر جماعت ہلاک ہو گئی تو پھر قیامت تک تیرا کوئی نام لیوا نہ رہے گا۔“ ۷۱رمضان کو بدر کے مقام پر باقاعدہ جنگ کا آغاز ہوا۔ کفار کی تعداد ایک ہزار تھی۔ ان کے پاس مال و اسباب اور جنگی ہتھیار بھی بہت زیادہ تھے لیکن یہ حق و باطل کی جنگ تھی۔ مسلمانوں کے پاس حق کے لئے مرمٹنے کاجذبہ تھا۔ دونوں لشکر آمنے سا منے کھڑے تھے۔ دشمن نے پہل کی، حضرت حمزہؓ نے عتبہ کو مار گرایا۔ حضرت علیؓ نے ولید کو ٹھکانے لگایا۔ معاذ اور معوذ دو بھائیوں نے ابو جہل کو قتل کیا۔ دشمن کی فوج میں بھگدڑ مچ گئی اور وہ افراتفری میں ادھر ادھر بھاگنے لگے اور میدان چھوڑ بھاگے۔ اس جنگ میں بارہ مسلمانوں کو شہادت کا رتبہ ملا۔ ستر کے قریب کفار مارے گئے اور ستر کو قیدی بنایا گیا۔ اس اولین معرکہ میں خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح و نصرت عطا کی۔ کفار کو اپنے مال و اسباب اور تعداد پر جو غرور تھا وہ پارہ پارہ ہو گیا۔ اس فتح سے مسلمانوں کی پوزیشن مستحکم ہو گئی اور کافروں پر انہیں برتری حاصل ہو گئی۔ آزاد ہونے کے لیے ہر قیدی سے چار ہزار درہم اور زیادہ امیر قیدیوں سے ا س سے بھی زیادہ لیا گیا۔ جو قیدی لکھنا پڑھنا جانتے تھے، ان کو حکم ہوا کہ وہ دس دس بچوں کو پڑھنا لکھنا سکھا دیں۔ ان قیدیوں میں حضورﷺکے چچا حضرت عباس، حضورﷺ کے داماد ابو العاص جو حضرت رقیہ کے شوہر تھے اور حضرت علی کے بھائی عقیل بھی شامل تھے۔یہ لوگ اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ حضورﷺنے کفار کی لاشوں کے قریب آ کر فرمایا۔ ”کسی نبی کے لئے اس کے قرابت مند جس درجہ برے ہو سکتے ہیں، تم اپنے نبی کے لیے ایسے ہی برے ثابت ہوئے۔ تم نے مجھے جھٹلایا اور دوسرے لوگوں نے میری صداقت کی گواہی دی۔ تم نے مجھے وطن سے نکالا اور دوسرے لوگوں نے مجھے اپنے پاس جگہ دی۔ تم میرے خلاف لڑنے اٹھے اور دوسرے لوگوں نے مجھے اپنا تعاون پیش کیا۔“ کفار کی لاشوں کو ایک گڑھا کھدوا کر اس میں دفن کیا گیا۔ کسی لاش کی بے حرمتی نہیں کی گئی۔ حضورﷺ نے جنگ سے پہلے ہی مختلف جگہوں کی نشان دہی کر دی تھی کہ یہاں یہاں ان کافروں کی لاشیں پڑی ہوں گی اور جنگ کے بعد بالکل ایسا ہی منظر دیکھنے میں آیا۔
غزوہ بدر کے شرکاء کو سب مسلمانوں میں افضل قرار دیا گیا۔ شہدائے بدر کا رتبہ بہت اعلیٰ و ارفع ہے کیونکہ یہ اسلام کی سرخروئی کے لئے لڑی جانے والی پہلی جنگ کے شہداء ہیں۔ ان کی شہادت سے اسلام سربلند ہوا۔ اس فتح سے مسلمانوں کا رعب ہر طرف چھا گیا۔ بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کیا جن میں عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھی بھی شامل تھے لیکن عبداللہ ابی کا دل اب بھی صاف نہ تھا۔
غزوہ احد
غزوہ بدر میں شکست پر قریش انتقام کی آگ میں جلنے لگے۔ کافروں کا سردار ابو سفیان تھا،اس کی بیوی ہندہ کا باپ عتبہ اور اس کے بھائی بھی ہلاک ہوئے تھے۔ وہ اپنے شوہر کو خوب طعنے دیتی ا ور اسے جنگ پر اکساتی کہ بدر کی لڑائی کا بدلہ مسلمانوں سے لو۔ ادھر یہودی بھی مسلمانوں کی فتح پر حسد میں مبتلا ہو گئے۔ان کے سردار کعب بن اشرف نے بدر کے مقتولین کے بارے میں بڑا درد انگیز مرثیہ پڑھا اور کفار کو اپنی مدد کا پورا یقین دلایا، چنانچہ کفار پھر مقابلے کے لیے تیار ہو گئے۔ حضرت عباس نے خفیہ طور پر ان کی تیاریوں کی اطلاع حضورﷺ کو بھجوائی۔ اس وقت وہ مسلمان ہو چکے تھے اور ابھی مکہ ہی میں تھے۔ ۱۱ شوال۳ہجری کو احد کے مقام پر معرکہ ہوا۔ اس سے پہلے کچھ صحابہ کی رائے تھی کہ شہر کے اندر ہی رہ کر دشمن کا مقابلہ کیا جائے۔ مدینہ کے جوشیلے نوجوان شہر سے باہر نکل کے دشمن سے مقابلہ کرنے کو بے چین تھے تاکہ اس طرح ان کے کھیت اور باغات بھی برباد نہ ہوں۔ مدینہ میں کچھ منافقین بھی تھے جو بظاہر تو مسلمانوں کے ساتھ تھے لیکن درپردہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لئے سازشیں کرتے رہتے تھے۔ انہیں میں عبداللہ بن ابی بھی تھا۔ اس نے بھی حضورﷺ کو شہر کے اندر ہی رک کر مقابلے کا مشورہ دیا، جو حضورﷺ نے مناسب خیال نہ کیا اور یہی فیصلہ ہوا کہ شہر سے باہر نکل کر جنگ لڑی جائے۔ چنانچہ عبداللہ بن ابی اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر نہایت طوطا چشمی سے الگ ہو گیا۔ اب مسلمانوں کی تعداد صرف سات سو رہ گئی۔ دوسری طرف کفار کے پاس تین ہزار کا لشکر تھا جن میں ۰۰۷ فوجی زرہ بکتر پہنے ہوئے تھے، اونٹوں پر سامان جنگ موجود تھا اور ہندہ کے ساتھ پندرہ عورتیں بھی تھیں جو اپنے آدمیوں کے حوصلے بڑھانے کے لیے اشعار گاتی ہوئی آگے آگے چلتی تھیں۔
حضورﷺ نے بڑی زبردست حکمت عملی سے میدان میں تیاری کی۔ آپﷺنے عبداللہ بن جبیر کی ماتحتی میں ایک دستہ جبل رماۃ پر مقرر فرمایا اور ان کو ہدایت کی کہ کسی بھی طرح اپنے مورچے کو نہ چھوڑیں اور دشمن کو اس طرف نہ ا ٓنے دیں۔ اس میدان کے ایک طرف احد کا پہاڑ تھا اور دوسری طرف رماۃ کا پہاڑ تھا۔ فوجیں آمنے سامنے ہوئیں۔ مجاہد بے جگری سے لڑتے ہوئے دشمن کی صفوں میں گھس گئے۔ ابودجانہ کو حضورﷺ نے اپنی تلوار عنایت فرمائی۔ انہوں نے کئی کافروں کو جہنم واصل کیا۔ حضرت حمزہؓ نے بہادری سے مقابلہ کیا اور کئی کافروں کو ٹھکانے لگا دیا۔ کافروں کے ایک غلام وحشی بن حرب نے حضرت حمزہؓ کو نیزہ مار کر شہید کر دیا۔ ہندہ اپنے باپ عتبہ کی موت کا بدلہ لینے کے لیے انتہائی وحشیانہ طریقہ سے حضرت حمزہؓ کا کلیجہ نکال کر چبانے لگی۔ سنگدل کافروں نے شہید ہونے والوں کے ناک کان کاٹ ڈالے۔ گھمسان کارن پڑا تو کفار کے پاؤں اکھڑنے لگے، ان کی ہمت دلانے والی عورتیں بھی پہاڑوں کی طرف بھاگنے لگیں۔ مسلمانوں نے کفار کے بھاگتے ہی مال غنیمت سمیٹنا شروع کر دیا۔ عبداللہ بن جبیر کے ساتھیوں نے بھی اپنی جگہ چھوڑ دی اور مال و اسباب اکٹھا کرنے لگے۔ حضرت عبداللہ نے انہیں روکنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے نہ سنی۔ اس دوران قریش کا ایک بہادر اور ذہین سپہ سالار جس کا نام خالد بن ولید تھا (جو بعد میں مسلمان ہوا اور اس نے شاندار فتوحات حاصل کیں) اس نے موقع مناسب دیکھ کر مال و اسباب جمع کرنے والے مسلمانوں پر پیچھے سے حملہ کر دیا۔ یا تو مسلمان اپنے آپ کو فاتح سمجھنے لگے تھے لیکن اب ان پر حملہ کر دیا گیا جو بڑا اچانک اور غیر متوقع تھا۔
کفار سے مقابلہ کرتے ہوئے حضرت مصعب بن عمیرؓ شہید ہو گئے۔ وہ شکل و شباہت میں حضورﷺسے کچھ ملتے جلتے تھے۔ قریش نے یہ افواہ اڑا دی کہ نعوذ باللہ حضورﷺ شہید ہو گئے۔ یہ افواہ سن کر مسلمانوں کے تو حواس گم ہو گئے۔ حضرت عمرؓ نے دل گرفتہ ہو کر کہا اب لڑ کے کیا کرنا؟ حضرت انسؓ بن نضر نے کہا۔ ”اے لوگو!اگر محمدﷺقتل ہوگئے تو محمدﷺکا رب تو قتل نہیں ہو گیا۔ جس چیز پر آنحضرت ﷺ نے جہاد و قتال کیا تم بھی اسی پر جہاد و قتال کرو اور اسی پر قربان ہو جاؤ۔ ہم آنحضرت ﷺکے بعد زندہ رہ کر کیا کریں گے۔“ پھر آپ دشمنوں کی صف میں گھس گئے اور بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔ اس افراتفری میں حضرت کعبؓ بن مالک نے حضورﷺکو دیکھا تو پہچانا اور خوش ہو کر مسلمانوں کو خبردی کہ”حضورﷺیہ ہیں۔“ اس خبر سے مسلمانوں کے لہو میں بجلی سی بھر گئی۔ وہ توانا ہو کر دشمن پر وار کرنے لگے۔ حضرت کعبؓ نے حضورﷺکو بچانے کے لیے ان کو گھیرا اور دشمن کے تیروں کو اپنے اوپر روکا۔ ان کو بیس سے زیادہ زخم آئے۔ حضرت ا بوبکرؓ، حضرت علیؓ، حضرت سعد بن وقاص، حضرت زبیرؓ اور حضرت طلحہؓ جیسے جاں نثار مسلمانوں نے آپ ﷺکو گھیرے میں لے رکھا تھا۔ اس دوران ایک پتھر لگنے سے حضورﷺکے دو دانت مبارک شہید ہوئے اور آپﷺ کے نیچے کا ہونٹ زخمی ہو گیا۔ زبردست لڑائی کے بعد کفار میدان چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ مسلمانوں نے ابو سفیان اور دوسرے لوگوں کا دور تک پیچھا کیا۔ لڑائی ختم ہوگئی۔ اس جنگ میں ستر مسلمان شہید ہوئے، چالیس مسلمان زخمی ہوئے، دشمن کے۰۳ آدمی مارے گئے۔ لڑائی ختم ہونے کے بعد حضرت علیؓ نے حضورﷺکے سر پر پانی ڈالا اور چہرہ مبارک سے خون دھویا۔ حضورﷺ نے شہداء کی لاشیں دیکھ کر پرنم آنکھوں سے دعا کی۔ ”تم پر اللہ کی رحمت ہو۔“
اس جنگ میں مشکل وقت اس وجہ سے آیا کہ مسلمان مال و اسباب جمع کرنے میں لگ گئے اور اپنے مورچے چھوڑ دئیے جس کا دشمن نے فائدہ اٹھایا۔ اس لئے مال و اسباب کے لالچ سے ہمیشہ بچنا چاہیے۔
ابو سفیان احد کی جنگ میں میدان سے فرار ہوتے وقت مسلمانوں کو یہ کہہ کے گیا تھا کہ اگلے برس بدر کے مقام پر پھر زور آزمائی ہو گی۔ ہمارے پیارے نبیﷺ نے اس چیلنج کو قبول کیا اور وقت مقررہ پر ڈیڑھ ہزار مجاہدین لے کر بدر کے مقام پر پہنچ گئے۔ ابو سفیان بھی اس وقت دو ہزار کی فوج لے کر مکہ سے نکلا لیکن جب اسے یہ خبر ملی کہ مسلمان بھی بڑے باہمت ہیں اور وہ خوب تیاری کر کے میدان میں آ پہنچے ہیں تو وہ ہمت ہار بیٹھا۔ اس نے قحط کا بہانہ کیا اور واپس مکہ چلا گیا۔ مسلمان اس مہم کو بدر ثانی کہتے ہیں۔
روزوں کا حکم
۲ہجری میں شعبان کے مہینے میں رمضان کے روزے مسلمانوں پر فرض ہوئے۔ قرآن پاک میں آیا۔ ”مسلمانوں تم پر رمضان کے روزے فرض کئے گئے جس طرح تم سے پہلی امتوں پر فرض کئے گئے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔“ (سورہ بقرۃ) اس کے بعد صدقہ فطر کی ادائیگی اور عید منانے کا حکم ہوا، چنانچہ عیدالفطر منائی گئی۔
غزوہ بنو قینقاع
ماہ شوال۲ہجری میں غزوہ بنو قینقاع لڑا گیا۔ ہجرت نبوی کے بعد مسلمانوں اوریہودیوں میں تعلقات ٹھیک ٹھاک تھے لیکن بعد میں انہوں نے مکے کے قریش اور مدینے کے منافقوں سے سازباز کر لی اور درپردہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانے لگے۔ یہ لوگ اسلام کی ابھرتی ہوئی طاقت سے مرعوب تھے، اس لیے ان میں سب سے پہلے بنو قینقاع نے معاہدہ یعنی میثاق مدینہ کو توڑا اور حسد کی بناء پر مسلمانوں کے ساتھ بدعہدی کرنے لگے۔ جب ہمارے پیارے نبیﷺ غزوہ بدر سے کامیاب و کامران واپس لوٹے تو آپ ﷺکو یہودیوں کی غلط حرکتوں کا علم ہوا۔ جب یہودیوں کو تنبیہ کی گئی تو انہوں نے اکڑ کر کہا۔ ”ہم قریش نہیں ہیں جو مار کھا جائیں۔ اگر ہم سے معاملہ پڑا تو ہم بتا دیں گے کہ لڑائی کسے کہتے ہیں۔“ اس طرح گویا انہوں نے صلح کے معاہدے کی دھجیاں اڑادیں۔ چنانچہ حضورﷺ نے شوال۲ہجری کو یہودیوں کا محاصرہ کرلیا، جو پندرہ دن تک جاری رہا۔ بالآخر مسلمانوں کی طاقت کے سامنے ہار گئے اور ان کے پاس کھانے پینے کا سامان ختم ہو گیا۔ انہوں نے کہلوا بھیجا کہ جو فیصلہ رسول اللہﷺ کریں گے، وہ ہمیں منظور ہو گا۔ حضورﷺ نے انہیں جلاوطنی کا حکم دیا۔ یہ لوگ شام کی طرف چلے گئے اور حضورﷺمال غنیمت لے کر واپس مدینہ آ گئے اور مال غنیمت فاتحین میں تقسیم کر دیا اور اس کا خمس اپنے پاس رکھا۔
پہلی عیدالاضحی
۰۱ ذی الحج ۲ہجری کو حضورﷺ نے پہلی بقرعید منائی۔ آپ ﷺنے جانور کی قربانی کی اور مسلمانوں کو بھی قربانی کرنے کی ہدایت کی۔
غزوہ بنو نضیر
مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان کچھ ایسے واقعات ہوئے جس سے ان دونوں قوموں کے درمیان تعلقات بگڑتے دکھائی دے رہے تھے۔ چنانچہ آنحضورﷺ معاملات کو سلجھانے کے لئے حضرت ابوبکر صدیقؓ،حضرت عمر بن خطابؓ،حضرت عثمان غنیؓ اور دوسرے صحابہ کرام کے ساتھ بنو نضیر کے لوگوں سے بات چیت کرنے تشریف لے گئے۔ بظاہر وہ لوگ بڑے اخلاق سے ملے اور انہوں نے حضورﷺکو ایک دیوار کے پاس بٹھایا۔ پوشیدہ طور پر انہوں نے ایک شخص کو چھت پر چڑھا دیا۔ اس کے پاس ایک بھاری پتھر تھا اور اس سے کہا کہ گفتگو کے دوران پتھر گرا کے (نعوزباللہ) آپﷺ کوقتل کر دیا جائے۔ اسی اثناء میں جبریل امین علیہ السلام آئے اور انہوں نے آپ ﷺکو یہودیوں کی ناپاک سازش سے مطلع کر دیا۔آپ ﷺوہاں سے اٹھ گئے اور یہودیوں کا ناپاک منصوبہ ناکام ہو گیا۔ یہودیوں کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہو گیا کہ حضورﷺ کو اس سازش کا علم پہلے ہی ہو گیا تھا کیونکہ وہ اللہ کے رسول ہیں۔
حضورﷺ نے بعد میں یہودیوں کو کہلوایا کہ وہ دس دن کے اندر مدینہ سے نکل جائیں۔ انہوں نے اس بات سے انکار کیا۔ اب جنگ ہی وہ سہارا تھی جس کے ذریعے فیصلہ ممکن تھا۔ چنانچہ حضورﷺ نے مسلمانوں کے لشکر کے ساتھ یہودیوں کی بستی کا محاصرہ کیا۔ حضورﷺکے ڈر سے کوئی اور قبیلہ ان کی مدد کو نہ پہنچا۔ اس دوران حضورﷺ نے بنو نضیر کے باغوں اور درختوں کو کاٹنے اور جلانے کا حکم دیا۔ یہ محاصرہ پندرہ دن جاری رہا۔ بالآخر بنو نضیر نے شکست قبول کی اور امن کی درخواست کی۔ حضورﷺ نے یہ درخواست قبول کی اور ان سے کہا گیا کہ اپنا سامان لے کر چلے جائیں۔ اکثر لوگ خیبر اور کچھ شام کی طرف چلے گئے۔ یہ واقعہ ربیع الاول ۴ ہجری کا ہے۔ اس وقت مدینے میں یہودیوں کا صرف ایک قبیلہ بنو قریظہ رہ گیا، جن سے مسلمانوں کو اس وقت تک کوئی شکایت نہ تھی۔
خدا بچانے والا ہے
غزوہ بنو نضیر کے بعد حضورﷺ کو اطلاع ملی کہ بنی محارب اور نبی ثعلبہ آپ ﷺسے مقابلے کے لئے جمع ہو رہے ہیں۔ حضورﷺ چند صحابہ کے ہمراہ نجد پہنچے۔ وہاں فوج سامنے تو آئی لیکن لڑائی نہ ہوئی۔ واپسی پر ا ٓپﷺ اپنی تلوار درخت سے لٹکا کر اس کے سائے میں آرام فرمانے لگے۔ اچانک ایک مشرک آ گیا، اس کا نام غورث بن حارث تھا۔ اس نے اپنے لوگوں سے کہا کہ ”میں محمدکو (نعوزباللہ) قتل کرنے جاتا ہوں!“ اس نے تلوار پکڑ کر اسے لہراتے ہوئے کہا۔ ”بتائیے، اب میرے ہاتھ سے آپ کو کون بچائے گا؟“
آپﷺ نے نہایت اطمینان سے جواب دیا۔ ”خدا بچانے والا ہے۔“
اچانک تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر دور جا گری۔ حضورﷺنے تلوار اٹھا کر پوچھا۔ ”اب بتا، میرے ہاتھ سے تجھے کون بچا سکتا ہے؟“
اس نے تھر تھر کانپتے ہوئے کہا۔ ”کوئی نہیں۔“
یہ سن کر آپﷺ نے فرمایا۔ ”اچھا جاؤ، میں نے تم کو معاف کیا۔“ وہ شخص اس عمدہ سلوک سے اتنا متاثر ہوا کہ فوراً مسلمان ہو گیا اور اپنے قبیلے میں جا کر اس نے لوگوں کو دعوت اسلام دی اور بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کیا۔
غزوہ خندق
قبیلہ بنو نضیر جو خیبر میں جا کر آباد ہو گئے تھے، انہوں نے اردگرد کے قبیلوں کو اور مکے کے کافروں کو اپنا ہم نوا بنایا اور مسلمانوں کے خلاف جنگ و جدال پر اکسایا۔ ان لوگوں کی تعداد دس ہزار سے زیادہ تھی۔ عرب کے مختلف قبیلوں کے پچاس سرداروں نے خانہ کعبہ میں جا کے قسم کھائی کہ وہ اسلام کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے اپنی پوری طاقت صرف کر دیں گے۔ اس طرح یہودیوں نے عرب کے تمام قبیلوں کو مسلمانوں کے خلاف متحد کیا۔ یہاں تک کہ ان کی تعداد چوبیس ہزار تک جا پہنچی۔ ان فوجی تیاریوں کی اطلاع جب مسلمانوں کو ہوئی تو انہوں نے بھی اپنے دفاع کے لیے تیاری شروع کی۔
حضرت سلمان فارسیؓ نے جو ایک تجربہ کار سپاہی تھے، مشورہ دیا کہ شہر کے اردگرد ایک خندق کھودی جائے۔ دشمن کے لیے اس خندق کو پار کرنا دشوار ہو گا۔ آنحضورﷺ کو یہ مشورہ پسند آیا۔ چنانچہ سب لوگوں نے مل کر پانچ گز چوڑی، پانچ گز گہری اور تین ہزار گز لمبی خندق کھودی۔ اس کو مکمل کرنے میں ۰۲ دن لگے۔ کھدائی میں ہمارے پیارے نبیﷺ خود بھی ایک سپاہی کی طرح شریک ہوئے اور کھدائی میں پورا حصہ لیا۔ حضورپاکﷺ کے بال مبارک مٹی سے اٹ گئے۔ وہ ایک مشکل وقت تھا۔ خوراک کی کمی کا بھی سامنا تھا۔ خندق کی کھدائی کے دوران فاقوں کی اذیت بھی برداشت کرنا پڑی۔ ہماری پیارے نبیﷺ نے دوسرے صحابہ کی طرح پیٹ پر پتھر باندھ کے کھدائی کی اور سخت مشقت کے بعد خندق تیار کی۔ اس دوران ہمارے پیارے نبیﷺ کو جبریل امین نے ملک شام، فارس اور یمن پر حکمرانی کی بشارت دی۔ مسلمان خواتین کو ایک حویلی کے اندر محفوظ کر دیا گیا اور حسان بن ثابت کو وہاں نگرانی کے لئے مقرر کیا گیا۔
ابو سفیان، یہودی اور عرب قبائل کا دس ہزار (بعض کتابوں میں چوبیس ہزار بھی لکھا ہے) کا لشکر لے کر حملہ آور ہوا۔ ادھر شہر کے  اندر موجود یہودیوں نے جو بنو قریظہ میں شامل تھے، جاسوسی شروع کر دی اور غداری پر اتر آئے۔ ابو سفیان جب شہر کے قریب پہنچا اور وہاں لمبی چوڑی خندق کھدی ہوئی دیکھی تو حیران ہو گیا۔ خندق کی دوسری جانب اونچے مکان کی چھتوں پر مسلمان پتھروں کے ڈھیر سنبھال کے تیار بیٹھے تھے۔ ان کے پاس تیر کمان بھی تھے۔ کافروں نے خندق کے اندر کودنے کی کوشش کی تو ان کے گھوڑے بدک گئے اور خندق میں جاگرے۔ پھر مسلمانوں کے تیروں اور پتھروں نے ان کو زخمی کر ڈالا۔ یہ موسم بھی سخت سردی کا تھا۔ لڑائی کا یہ سلسلہ ایک ماہ تک چلتا رہا جو بڑی آزمائش تھی۔ اس دوران ایک کافر عمرو بن عبدود جو بڑے ڈیل ڈول کا تھا، حضرت علیؓ سے مقابلے پر آیا اور ان کی تلوار کی ضرب سے اس کی کھوپڑی کے دو ٹکڑے ہو گئے۔ اس پر حضرت علی کو اسد اللہ(یعنی اللہ کا شیر) کا خطاب دیا گیا۔ نعیم بن مسعودؓ نے یہودیوں اور کفار مکہ سے مذاکرات کئے جن کااچھا نتیجہ نکلا۔ شہرمیں موجود بنوقریظہ نے اس وقت کہا کہ نبو نضیر کو مسلمانوں نے جلاوطن کر دیا۔ ان لوگوں کو مدینہ واپس بلا لو تب ہم مسلمانوں کا ساتھ دیں گے ورنہ ہمارا اور تمہارا کوئی معاہدہ نہیں۔ ایسے نازک وقت میں کہ جب مسلمان حالت جنگ میں تھے، یہودیوں کا اس طرح شرطیں لگانا نری غداری کی بات تھی۔ بہرحال وہ لوگ بپھر چکے تھے اور مسلمانوں کو زک پہنچانا چاہتے تھے۔ جس حویلی میں مسلمان خواتین کو رکھا گیا تھا،ادھر ایک یہودی نے کئی چکر لگائے تاکہ انہیں ہراساں کرے۔ آنحضورﷺ کی پھوپھی حضرت صفیہؓ نے اوپر سے ایک لکڑی کا لٹھ اس کے سر پر دے مارا جس سے وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔ باقی یہودیوں نے اس کی لاش دیکھی تو ڈر کر وہاں سے بھاگ گئے۔ جوں جوں محاصرے کے دن بڑھ رہے تھے، کفار سخت پریشان تھے۔ ایک رات سردی بہت شدید تھی، تیز آندھی آئی جس سے کافروں کے خیمے الٹ گئے اور سامان اڑ گیا۔ برتن الٹ پلٹ ہو گئے۔ سب کچھ درہم برہم ہو گیا۔ اس بات سے دشمن کے پاؤں اکھڑ گئے اور وہ سخت خوفزدہ ہوئے، چونکہ کفار توہم پرست بھی تھے، انہوں نے آندھی اور طوفان کو بدشگونی سمجھا اور مدینہ چھوڑ کر ناکام و نامراد واپس لوٹ گئے۔ اس فتح سے یہودیوں کے گٹھ جوڑ،ان کی سازشیں اور کفار مدینہ کی تمام تر کوششیں کہ وہ مسلمانوں کو برباد کریں،ناکام و نامراد ہو گئیں۔چونکہ احزاب گروہ کو کہتے ہیں،اس جنگ میں دشمنوں کے کئی گروہ شامل تھے اس لئے اسے جنگ احزاب کہا جاتا ہے اور چونکہ اس جنگ میں ایک بڑی خندق بھی کھودی گئی جس کی وجہ سے دشمن کی ساری ترکیبیں ناکام ہو گئیں،چنانچہ اس کو جنگ خندق کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ اس غزوہ میں چھ مسلمان شہید اور دشمن کے دس آدمی ہلاک ہوئے۔
غزوہ خندق میں یہودیوں اور کفار مکہ کے تمام قبائل کو میدان چھوڑ کر الٹے پاؤں بھاگنا پڑا، اس لئے عرب کے کونے کونے میں مسلمانوں کی دھاک بیٹھ گئی اور سب لوگوں نے مان لیا کہ مسلمان ایک مضبوط اور ناقابل شکست قوم بن چکے ہیں۔
غزوہ بنو قریظہ
غزوہ خندق سے واپسی کے بعد ذی الحج ۵ہجری میں آنحضرت محمد ﷺ پر بنو قریظہ کے خلاف جہاد کے لئے وحی نازل ہوئی۔ آپ ﷺ نے صحابہ کو تیار رہنے کا حکم دیا اور بنو قریظہ کا محاصرہ کرلیا، جو پچیس دن تک جاری رہا۔ اس دوران انہیں مسلمان ہو جانے کے لئے کہا گیا لیکن وہ نہ مانے، بالآخر بنو قریظہ نے کہا کہ سعد بن معاذؓ ہمارے لئے جو فیصلہ کریں گے وہ ہمیں منظور ہو گا۔ حضرت سعد بن معاذؓ نے تورات کے مطابق فیصلہ کیا کہ تمام مردوں کو قتل کیا جائے۔ عورتوں اور بچوں کو غلام بنایا جائے اور تمام مال و اسباب ضبط کیا جائے۔ اس غزوہ کے بعد سعد بن معاذؓ نے جو غزوہ خندق میں شدید زخمی ہوئے تھے، شہادت پائی۔
فتح مبین۔ صلح حدیبہ
مسلمان جب سے اپنا گھر بار چھوڑ کر مدینہ آئے تھے، ان کے دل خانہ کعبہ کے طواف کے لئے بے قرار رہتے تھے۔ کیونکہ اسلام کا اصل مرکز تو خانہ کعبہ ہی ہے۔ آنحضور محمد ﷺ نے خواب میں دیکھا کہ وہ صحابہ کرام کے ساتھ خانہ کعبہ کی زیارت کر رہے ہیں۔ چنانچہ آپﷺ ذی قعدہ ۶ہجری کو تقریباً چودہ سو مسلمانوں کو لے کر احرام باندھ کے قربانی کے اونٹ ساتھ لے کر عمرے کے ارادے سے نکلے۔ سب مسلمانوں کو تلواریں نیام کے اندر رکھنے کی ہدایت کی گئی، تاکہ مکے کے لوگ مسلمانوں کی نیت پر شک نہ کریں کہ یہ لوگ ہم پر حملہ کرنے آ رہے ہیں۔ مکہ کے قریب ایک کنواں ہے جس کا نام حدیبیہ ہے۔ اس کے نزدیک گاؤں کا نام بھی حدیبیہ ہے۔حضورﷺ اور ان کے رفقاء نے حدیبیہ کے مقام پر قیام کیا۔ قریش کو جب مسلمانوں کی آمد کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے کہا کہ ہم آنحضورﷺ اور مسلمانوں کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے۔
انہیں بتایا گیا کہ ہم کسی برے ارادے سے یہاں نہیں آئے بلکہ ہمارا مقصد خانہ کعبہ کی زیارت کرنا ہے تو انہوں نے کہا۔ ”ہم انہیں مکے کی حدود میں ہر گز داخل نہیں ہونے دیں گے۔“ آنحضورﷺ تو بیت اللہ کی کشش میں وہاں آئے تھے۔ ان کی ہر ممکن کوشش تھی کہ تصادم نہ ہو اور لڑائی کی نوبت نہ آئے۔ قریش نے بدیل بن ورقا کے ساتھ کچھ اہل قریش کو بھیجا۔ اس نے حضورﷺ سے مفصل بات چیت کی اور واپس جا کر مکہ والوں کو اطمینان دلایا کہ ان کے ارادے صرف خانہ کعبہ کی زیارت کے ہیں لیکن اہل مکہ اپنی ضد پر ڈٹے ہوئے تھے کہ حضورﷺ اور ان کے ساتھیوں کو مکہ میں داخل نہ ہونے دیں گے۔ قریش نے ایک دفعہ پھر عروہ بن مسعود کو بھیجا۔ جنہوں نے حضور ﷺ سے کہا کہ آپ کے ساتھی اس امتحان میں آپ کو تنہا چھوڑ جائیں گے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اس بات کی پرزور تردید کی اور خود عروہ بن مسعود نے دیکھا کہ حضورﷺ کے لئے ان ساتھیوں کے دل میں اس قدر محبت اور اتنی گہری عقیدت تھی کہ آپ ﷺ وضو کرنے کھڑے ہوتے ہیں تو لوگ بھاگ بھاگ کر پانی حاضر کرتے ہیں،ان کا بال بھی گر جائے تو عقیدت سے اٹھا لیتے ہیں۔ ان کے وضو کرنے کے بعد جو پانی گرتا ہے، اس کے لئے گویا لڑنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔ نہایت عزت و احترام کے ساتھ نگاہ نیچی کر کے اور نیچی آواز میں بات کرتے ہیں،ان کے ہر حکم پر سر جھکاتے ہیں۔ اس نے جا کر بتایا کہ ان کے ساتھ جو جاں نثار ہیں وہ انہیں کبھی تنہا نہ چھوڑیں گے اس لئے تم اب خود فیصلہ کر لو کہ کیا کرنا ہے؟
ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ نے حصرت عثمان غنیؓ کو مذاکرات کے لئے اپنا سفیر بنا کر اہل مکہ کے پاس بھیجا۔ انہوں نے کہا۔ ”عثمان کو اجازت ہے کہ وہ طواف کعبہ کر لیں۔“ حضرت عثمانؓ نے کہا آنحضورﷺکے بغیر وہ ہرگز خانہ کعبہ کا طواف نہ کریں گے۔ کفار مکہ نے حضرت عثمانؓ کو وہیں روک لیا،جس سے مسلمانوں میں یہ خبر پھیل گئی کہ حضرت عثمانؓکو شہید کر دیا گیا ہے۔ اس خبر سے مسلمانوں میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی۔ اس موقع پر حضرت محمد ﷺ ببول کے درخت کے نیچے بیٹھے تھے۔ وہاں انہوں نے سب لوگوں سے بیعت لی کہ جب تک حضرت عثمانؓ کے قتل کا بدلہ نہ لیں گے، اس جگہ سے نہ ہٹیں گے۔ اسے بیعت رضوان کہا جاتا ہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ افواہ غلط تھی اور حضرت عثمانؓ بفضل خدا بخیر و عافیت تھے۔ قریش کو جب بیعت رضوان کا علم ہوا اور حضورﷺ کے عزم صمیم کا اندازہ ہوا تو وہ مرعوب ہوئے اور صلح کے لئے گفت و شنید کا سلسلہ پھر شروع کیا۔ سہیل بن عمرو صلح کی بات چیت کرنے پہنچے تو ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ نے سہیل کو آتے دیکھ کر کہا۔ ”البتہ اب تمہارا معاملہ کچھ سہل ہو گیا ہے۔“ اس کے ساتھ صلح کی بات چیت طے ہوئی جسے صلح حدیبیہ کہا جاتا ہے۔ اس معاہدے کے مطابق یہ طے کیا گیا:
۱۔  اس سال مسلمان عمرہ ادا کئے بغیر واپس جائیں گے۔
۲۔  دس سال تک قریش اور مسلمانوں کے درمیان جنگ نہیں ہوگی اور لوگ امن سے رہیں گے۔ ہم نہ خفیہ اور نہ اعلانیہ کسی کی مدد کریں گے اور نہ بد عہدی کریں گے۔
۳۔  اگلے سال ہم حج کے موقع پر مکہ میں نہ رہیں گے (کہیں باہر چلے جائیں گے) تو تم لوگ مکہ میں داخل ہو سکو گے۔ یہاں تین راتیں قیام کرو گے اور تمہاری تلواریں نیام میں ہوں گے۔ ا ن کے سوا تم لوگ کوئی اور ہتھیار ساتھ نہ لا سکو گے۔
۴۔  مکے میں جو مسلمان پہلے سے یہاں موجود ہیں، ان میں سے آپ لوگ کسی کو اپنے ساتھ مدینہ لے کر نہیں جائیں گے۔
۵۔  اگر مکے کا کوئی شخص مدینہ جائے تو اسے واپس کر دیا جائے گا، لیکن اگر کوئی مسلمان مکہ میں آ جائے تو اسے واپس نہیں کیا جائے گا۔
اس دوران ابو جندل جو مسلمان ہو چکے تھے اور انہیں زنجیروں میں جکڑ کر رکھا گیا تھا، ان لوگوں کی قید سے بمشکل نکل کے حضورﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اورعرض کیا کہ مجھے کفار کے ظلم و ستم سے نجات دلائی جائے۔ میں آپﷺ کے ساتھ مدینہ جانا چاہتا ہوں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سہیل بن عمرو سے کہا کہ ابو جندل کو چھوڑ دو، لیکن سہیل نہ مانا۔ ابو جندل نے بہت حسرت بھرے الفاظ میں حضورﷺسے کہا۔”افسوس اے گروہ اسلام،تم لوگ مجھے کافروں کے حوالے کر کے جا رہے ہو۔“رسول اللہﷺنے انہیں تسلی دی۔ ”اے ابو جندل! صبر سے کام لو ہم وعدہ کی خلاف ورزی پسند نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ عنقریب تمہاری نجات کی کوئی صورت نکالے گا۔“اس صورتحال پر مسلمانوں کو بہت غصہ آیا۔ حضرت عمر فاروقؓ جو نہایت جوشیلے انسان تھے، حضورﷺسے بولے۔ ”ہم حق پر ہیں اور کفار باطل پر، تو پھر ہم یہ ذلت کیوں گوارا کریں۔“ یعنی وہاں سے بغیر طواف کئے واپس لوٹنے میں سب کو ہتک محسوس ہو رہی تھی۔ حضورﷺنے فرمایا۔”میں اللہ کا رسول ہوں۔ اس کے حکم کے خلاف نہیں کر سکتا۔ وہی میرا مددگار ہے۔“ ان شرائط پر دونوں فریقین کے دستخط ہو گئے۔ بظاہر یہ صورت حال اتنی سازگار نظر نہیں آتی تھی۔ مسلمان جوش و جذبے سے بھرے ہوئے تھے لیکن جب ہمارے پیارے نبیﷺ نے اس معاہدے کو تسلیم کر لیا اور اسے بڑی کامیابی قرار دیا تو پھر صحابہ کو انکار کی جرأت بھلا کہاں ہو سکتی تھی۔
صلح حدیبیہ سے دور رس نتائج حاصل ہوئے۔ جو مسلمان مکہ میں رہ گئے تھے انہوں نے وہاں رہ کر اسلام کی خوب تبلیغ کی اور کفار معاہدے کے مطابق انہیں کوئی نقصان نہ پہنچا سکے۔ مسلمان مکہ آزادی سے آنے جانے لگے۔ لوگ مسلمانوں کی نیک اور صالح عادت و طور طریقوں کو دیکھ کر تیزی سے دائرہ اسلام میں داخل ہونے لگے۔ پچھلی جنگوں اور دشمنی کی وجہ سے تعلقات بگڑ چکے تھے۔ ان میں کچھ بہتری کے امکانات پیدا ہونے لگے۔گویا کچھ برف پگھلی۔ اس معاہدے سے مسلمانوں کی امن پسندی اور صلح جوئی کا اندازہ بخوبی ہوا۔ اس لئے پڑوسی قبائل نے حضورﷺ کے ساتھ دوستانہ معاہدے کرنا شروع کر دئیے اور اسلامی مملکت کی پوزیشن مزید مستحکم ہونے لگی اور آگے چل کر اسی بناء پر فتح مکہ مسلمانوں کو نصیب ہوئی۔
شروع میں مسلمان چونکہ شکستہ خاطر اور مغموم تھے اس لیے وہ نہ قربانی کرنے کے خواہش مند تھے اور نہ بال کٹوانے کے۔ حضورﷺ کی زوجہ محترمہ ام سلمیٰؓ نے جو انتہائی بردبار اور زیرک خاتون تھیں، حضورﷺ کو مشورہ دیا کہ آپ خود جانور قربان کریں اور اپنا سر منڈوائیے۔ صحابہ خود آپ ﷺکو دیکھ کر ایسا ہی کریں گے۔ چنانچہ حضورﷺ نے ان کے مشورے کے مطابق ایسا ہی کیا اور تمام صحابہ نے بھی یہ کام کیے۔
تقریباً دو ہفتے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ سے واپس مدینہ آئے تو راستے میں سورہ فتح نازل ہوئی۔
(ترجمہ)”اے محمدؐ، ہم نے تم کو فتح دی۔ فتح بھی صریح اور صاف، تاکہ خدا تمہارے اگلے اور پچھلے گناہ بخش دے اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دے اور تمہیں سیدھے راستے پر چلائے اور خدا تمہاری زبردست مدد کرے۔“
حضورﷺ نے بھی صلح حدیبیہ کو عظیم الشان فتح قرار دیا۔ صحابہ کرام نے بھی جان لیا کہ یہی مصالحت فتح عظیم ہے جو اسلام کے فروغ کا سبب بنی۔
  مختلف بادشاہوں کو دعوت اسلام
حضورﷺ نے ۷ہجری ماہ محرم میں اپنے صحابہ کرام کو جمع کیا اور خطبہ دیا۔”اے لوگو! خدا نے مجھ کو تمام دنیا کے لیے رحمت اور پیغمبر بنا کے بھیجا ہے۔ میری طرف سے پیغام حق ادا کرو۔“ اس کے بعد آپﷺ نے قیصر روم، شہنشاہ عجم، عزیز مصر، شاہ حبش نجاشی، شام کے رئیس حارث غسانی، اور یمامہ کے رئیسوں کو دعوت اسلام کے لیے خطوط بھیجے۔ آنحضورؐ نے ان خطوط پر اپنی مہر لگائی جس میں اوپر اللہ، درمیان میں رسول اور نیچے محمد درج تھا۔
قیصر روم کا نام ہرقل تھا۔ ان دنوں وہ ایرانیوں کو شکست دینے کے بعد شکرانہ ادا کرنے کی غرض سے بیت المقدس گیا ہوا تھا۔ اس کا خط بیت المقدس بھیج دیا گیا۔ قیصر روم نے خط پڑھ کر معلوم کیا کہ اگر عرب کا کوئی شخص مل سکے تو اسے میرے پاس لاؤ۔ اتفاق سے ان دنوں ابو سفیان تجارت کی غرض سے غزہ میں مقیم تھا۔ اسے بلایا گیا۔ قیصر نے اس سے کچھ سوال پوچھے جن کے ابو سفیان نے سچ سچ جواب دئیے جو کچھ اس طرح ہیں:
قیصر: نبوت کا دعویٰ کرنے والے کا خاندان کیسا ہے؟
ابو سفیان:شریف و عظیم۔
قیصر: کیا ان کے آباء و اجداد میں کوئی بادشاہ تھا؟
ابو سفیان: نہیں!
قیصر: دعویٰ نبوت سے پہلے کیا تم لوگوں نے ان کو جھوٹا پایا؟
ابو سفیان: نہیں۔
قیصر: ان کے ساتھی غریب ہیں یا امیر؟
ابو سفیان:غریب
قیصر: ان کے ماننے والے تعداد میں بڑھ رہے ہیں یاکم ہو رہے ہیں؟
ابو سفیان:بڑھ رہے ہیں۔
قیصر: ان کے ماننے والوں میں کوئی ناراض ہو کر علیحدہ ہوتا ہے یا نہیں؟
ابو سفیان:نہیں۔
قیصر: کیا کبھی تم لوگوں کا ان سے مقابلہ ہوا، اور اس کا کیا نتیجہ نکلا؟
ابو سفیان:ہاں مقابلہ ہوا۔ کبھی ہم غالب رہے، کبھی وہ۔
قیصر: کیا وہ کبھی عہد شکنی کرتے ہیں؟
ابو سفیان:نہیں۔ ابھی ان کے اور ہمارے درمیان ایک معاہدہ ہوا ہے (معاہدہ صلح حدیبیہ) معلوم نہیں اس میں وہ کیا کریں گے۔
قیصر: وہ تم لوگوں کو کس بات کا حکم دیتے ہیں؟
ابو سفیان:نماز۔ روزہ۔ صلہ رحمی اور نیکی کا۔
ہر قل ان جوابات سے بہت مطمئن ہوا۔ اس نے کہا کہ واقعی پیغمبر شریف النسب (شریف خاندان کے) ہوتے ہیں۔ وہ آدمیوں سے جھوٹ نہیں بولتے اور وہ خدا پر بھی جھوٹ نہیں باندھ سکتے۔ سچا مذہب ہمیشہ بڑھتا ہے۔ واقعی وہ نبی ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ایک نبی آنے والے ہیں۔ کاش میں ان کی زیارت کرتا۔ اگر میں ان کے پاس ہوتا تو ان کا پیرو ہوتا۔ ان کی حکومت اس مقام تک پہنچے گی جہاں اس وقت میرا قدم ہے۔ اس وقت اس نے اہل دربار کو حضورﷺ کا خط پڑھنے کا حکم دیا۔ ان لوگوں کو یہ الفاظ ناگوار گزرے لیکن ہرقل سچے دل سے مسلمان ہو گیا، لیکن عملی طور پر وہ نصرانیت سے دامن نہ چھڑا سکا (غالباً اپنی قوم کے ڈر سے)
(ایران) عجم کے بادشاہ خسرو پرویز نے خط کے اوپر اللہ، رسول، محمد کی مہر دیکھی تو وہ بہت غصہ ہوا کیونکہ عجم کے دستور کے مطابق خط کے عنوان پر پہلے بادشاہ کا نام ہوتا تھا۔ اس نے خط کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ آنحضورﷺ کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو آپﷺ نے فرمایا۔”اسی طرح اس کی سلطنت کے بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے۔“کچھ عرصہ بعد خسرو پرویز کو اس کے بیٹے نے قتل کیا۔ یوں اس کا غرور خاک میں مل گیا اور سلطنت بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی۔
یمن کے حاکم نے اپنے اہل دربار اور بہت سے لوگوں کے ہمراہ اسلام قبول کیا۔ مصر اور اسکندریہ کے بادشاہ مقوقس نے کہا کہ وہ کسی بری بات کا حکم نہیں دیتے۔ نہ وہ گمراہ ساحر ہیں نہ جھوٹے کاہن۔ ان میں نبوت کی علامات پائی جاتی ہیں۔ اس نے نہایت ادب کے ساتھ نامہ مبارک وصول کیا۔ عزیز مصر نے کچھ تحائف بھیجے جن میں ایک خچر بھی شامل تھا۔ کچھ پارچہ جات اور دو کنیزیں جو مصر میں بہت معزز تھیں، تحفے کے طور پر بھجوائیں۔
نجاشی جو حبشہ کا بادشاہ تھا، اس نے اسلام قبول کیا۔ کچھ کتابوں میں لکھا ہے کہ جب نجاشی کا انتقال ہوا تو حضورﷺ نے اس کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھائی۔
شام کے رئیس حارث کو جو خط بھیجا گیا، اسے پڑھ کر وہ بہت ناراض ہوا۔ قاصد کو نہایت عزت سے رخصت کیا لیکن مسلمان نہ ہوا۔
غزوہ خیبر
محرم ۷ ہجری میں غزوہ خیبر لڑی گئی۔ مدینے سے نکالے گئے یہودی بھی یہاں آ بسے تھے۔ اس طرح خیبر یہودیوں کا گڑھ تھا۔ خیبر کی زمینیں بڑی زرخیز تھیں اور وہاں بہت سے مضبوط قلعے تعمیر کیے گئے تھے جن میں سامان رسد ہتھیار اور بیس ہزار تجربہ کا ر فوجی موجود تھے۔ انہیں اپنے مضبوط قلعوں پر بڑا ناز تھا۔ حضورﷺ یہودیوں کی سازشوں اور ان کی جنگی تیاریوں سے واقف تھے اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ یہودی مدینے پر حملہ کریں، اس لیے آپ ﷺنے مدینہ سے نکل کر جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا۔آپﷺکے ساتھ چودہ سو پیدل اور دو سو سوار شامل تھے۔ آپﷺ کے ہمراہ مرہم پٹی کے لیے بیس عورتیں بھی ساتھ تھیں۔ آپﷺ نے خیبر کے نزدیک ایک میدان رجیع میں پڑاؤ ڈالا۔ اسلامی لشکر دیکھ کر یہودی قلعہ بند ہو گئے۔ پہلے مسلمانوں نے قلعہ ناعم پر حملہ کیا اور اسے فتح کیا۔پھر قلعہ صعب پر قبضہ کیا۔ دوسرے روز قلعہ نطاۃ فتح ہوا۔ قلعہ شن پر مجاہدین اسلام نے منجنیقوں سے پتھر برسائے اور اسے بھی فتح کر لیا۔
یہودیوں کا ایک قلعہ قموص تھا جس کو فتح کرنے میں بیس دن لگ گئے۔ قلعے کا محاصرہ بیس دن تک جاری رہا۔ حضورﷺ نے فرمایا، کل جھنڈا اس کو ملے گا جس کے ہاتھ سے خیبر کا یہ قلعہ فتح ہو گا۔ اگلی صبح آپﷺ نے یہ جھنڈا حضرت علیؓ کو عطا کیا۔ ان کی آنکھیں دکھ رہی تھیں۔ حضورﷺنے اپنا لعاب دہن حضرت علیؓ کی آنکھوں پر لگایا تو آنکھیں ٹھیک ہو گئیں۔ یہودیوں کا ایک مشہور طاقتور پہلوان مرحب مقابلے کے لیے نکلا۔ حضرت علیؓ نے تلوار کے ایک ہی وار سے مرحب کے سر کے دو ٹکڑے کر دئیے۔ پھر عام مقابلہ شروع ہوا اور مسلمانوں نے قلعے پر قبضہ کر لیا۔اب دشمن کی امیدیں خاک میں مل گئیں اور انہوں نے ہتھیار ڈال دئیے اور صلح کی درخواست کی،جسے قبول کر لیا گیا۔ ان کی زمینوں کی نصف پیداوار دینے کی شرط پر ان لوگوں کی جاں بخشی کر دی گئی۔ یہ لڑائی ایک مہینہ تک جاری رہی۔ اس میں ۳۹ یہودی ہلاک اور ۵۱مسلمان شہید ہوئے۔ بالآخر یہودی مسلمانوں کی احسان مند رعایا بن کے رہنے لگے۔
کھانے میں زہر
فتح خیبر کے بعد ایک یہودی عورت زینب بنت الحرث نے جو سلام بن مشکم کی بیوی تھی اور مرحب کی بھاوج تھی، بکری کا گوشت بھونا اور اس میں تیز مہلک قسم کا زہر ملا کر حضورﷺ اور ان کے ساتھیوں کو تحفے کے طور پر بھیج دیا۔ حضورﷺ نے جونہی پہلا نوالہ منہ میں رکھا تو آپﷺکو علم ہو گیا کہ اس میں زہر ہے۔ جلدی سے آپﷺ نے تھوک دیا۔ پھر خود بھی نہیں کھایا اور صحابہ کو بھی منع کر دیا۔ آپ ﷺنے اس ظلم کا کوئی بدلہ نہ لیا اور اسے درگزر کیا۔ حضرت بشیر بن براء بن مصرور نے نوالہ منہ میں رکھا،تلخی محسوس ہوئی تو تھی لیکن تھوکا نہیں۔ اسی ایک لقمہ سے ان کا تیسرے دن انتقال ہو گیا۔ جس دن حضرت بشیر بن براء کا انتقال ہوا، زینب کو ان کے قصاص میں قتل کیا گیا۔
عمرہ قضا
ذی قعد ۷ ہجری میں ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ دو ہزار صحابہ کرام کے ساتھ مکہ معظمہ گئے اور وہاں عمرہ ادا کیا۔ وہاں تین روز قیام کیا، پھر واپس مدینہ گئے اس کے چند روز بعد خالد بن ولید جو ایک زبردست شہسوار تھے، اسلام لے آئے۔ پھر عمرو بن العاص اور عثمان بن طلحہ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔
سریہ موتہ
بصرہ کے حاکم کے پاس حضورﷺ نے قاصدکے ذریعے دعوت اسلامی کاخط بھیجا۔ قاصد کا نام حارث بن عمیرازدیؓ تھا جن کو ایک اعرابی نے قتل کر ڈالا۔ کسی قاصد کا قتل ایک ناقابل معافی جرم ہے اس لیے حضورﷺکو یہ حرکت بہت ناگوار گزری اور آپﷺنے تین ہزار مجاہدین زیدبن حارثؓ کی قیادت میں موتہ کی جانب روانہ کئے۔ موتہ شام کے علاقے میں واقع ہے۔ آپﷺنے فرمایا۔ ”اگر زید بن حارثؓ شہید ہو جائیں تو جعفر بن ابی طالبؓ امیرلشکر ہوں گے اور اگر وہ بھی جام شہادت نوش کر لیں تو عبداللہ بن رواحہؓ فوج کی قیادت کریں گے۔ اس فوج میں خالد بن ولیدؓ اپنی مرضی سے شامل ہوئے۔ رسالت مآبﷺ مدینہ کے باہر تک اس لشکر کو رخصت کرنے آئے اور سب مسلمانوں کے ساتھ مل کر دعا فرمائی۔ ”اللہ تمہارا ساتھ دے، تمہارے مصائب دور کرے اور تمہیں سلامتی کے ساتھ واپس لائے۔“
رومیوں کو مسلمانوں کی نقل و حرکت کی اطلاع پہلے ہی مل چکی تھی۔ شام پر ہر قل کی طرف سے شرجیل کی حکومت تھی۔ اس نے اطراف کے قبائل کو جمع کر لیا۔ مسلمانوں کو پتہ چلا کہ مخالفین کی فوج ایک لاکھ سے زیادہ ہے تو کچھ فکر مند ہوئے۔ وہ سوچنے لگے کہ حضورﷺ کو پوری صورتحال سے مطلع کیا جائے اور تازہ دم فوج منگائی جائے یا جیسا حضورؐ کہیں اس کے مطابق کام کیا جائے۔ جس مقام پر فوج نے قیام کیا، اس گاؤں کا نام موتہ تھا، اسی لیے اسے جنگ موتہ کیا جاتا ہے۔ مجاہدین کے تذبذب کو دیکھ کر حضرت عبداللہ بن رواحہؓ نے کہا۔ ”اے لوگو! تم تو شہادت کی طلب میں نکلے ہو اورآج اسی کو مکروہ سمجھ رہے ہو۔ ہم قوت اور تعداد کے بھروسے پر نہیں لڑتے، دین کے لئے لڑتے ہیں۔ دو نیکیوں میں سے بہرصورت ایک ہمارے لئے ضرور ہے فتح یا شہادت!“
عبداللہ بن رواحہؓ کے خطاب سے مجاہدوں میں نیاجذبہ بیدار ہو گیا۔ حضرت زید بن حارثؓ اسلام کا پرچم سنبھال کر کھڑے ہوئے اور جی داری سے مقابلہ کیا اور شہادت کا مرتبہ پایا۔ ان کے بعد جعفر بن ابی طالبؓ اور ان کے بعد عبداللہ بن رواحہؓ مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوئے۔ ان کے بعد خالد بن ولیدؓ نے پرچم سنبھالا۔ اس دوران ان کے ہاتھ سے نو تلواریں ٹوٹیں۔ ان کی بہادری نے دشمنوں کے دانٹ کھٹے کر دئیے۔ حضورﷺنے خالد بن ولیدؓ کو سیف ا للہ یعنی اللہ کی تلوار کا خطاب دیا۔ خالد بن ولید ایک دور اندیش زیرک اور کامیاب سپہ سالار کی طرح نہایت عقلمندی سے اور محفوظ طریقے سے مسلمان فوج کو بچا کر لے آئے۔ سریہ موتہ جمادی الاول ۸ہجری کو پیش آئی۔ اس معرکہ میں بارہ مسلمان شہید ہوئے۔
صلح حدیبیہ کی خلاف ورزی
عرب کے دو قبیلے خزاعہ اور بنو بکر ایک دوسرے کے دشمن تھے۔ معاہدہ حدیبیہ کے بعد خزاعہ نے مسلمانوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کئے اور بنوبکر قریش کے دوست بن گئے۔ ایک رات بنوبکر نے قریش کی امداد سے بنو خزاعہ پر حملہ کیا۔ ان لوگوں نے حملہ آوروں سے بچنے کے لئے حرم مکہ میں پناہ لی۔ مذہبی اور ملکی قوانین کی رو سے حرم میں خون بہانا اور فساد کرنا حرام تھا لیکن بنوبکر نے اس قانون کی خلاف ورزی کی اور وہاں پناہ لینے والوں کو بڑی بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ حضورﷺ نے یہ سنا تو انہیں بہت افسوس ہوا۔ انہوں نے قریش کے پاس قاصد بھیجا اور تین شرائط بھیجیں کہ ان میں سے کوئی ایک منظور کر لی جائے:
۱۔  اس لڑائی میں جو لوگ ہلاک ہوئے ان کا خون بہا دیا جائے۔
۲۔  قریش بنوبکر کی حمایت ختم کرنے کا اعلان کریں۔
۳۔  اعلان کر دیا جائے کہ معاہدہ حدیبیہ توڑ دیا گیا ہے۔
قریش نے تیسری شرط منظور کرلی یعنی معاہدہ حدیبیہ کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ بعد میں قریش کو ا پنی غلطی کا احساس ہوا اور وہ بہت سٹپٹائے۔ انہیں اپنی حماقت کا اندازہ ہوا تو ابوسفیان نے سوچا کہ معاہدہ حدیبیہ کو دوبارہ قائم کر دیا جائے۔ اس مقصد سے ابو سفیان خود چل کر مدینہ آیا اور یہ درخواست کی کہ معاہدہ کی تجدید کی جائے لیکن آنحضورﷺخاموش رہے۔ وہاں ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ جب وہ اپنی بیٹی ام حبیبہؓ سے ملنے ان کے گھر یعنی حضورﷺکے گھر میں داخل ہوا اور بستر پر بیٹھنے لگا تو ام حبیبہ ؓجو حضورﷺ کی زوجہ محترمہ تھیں، انہوں نے فوراً بستر الٹ دیا۔ امہ حبیبہؓ مسلمان ہو چکی تھیں۔ وہ اپنے باپ سے فوراً بولیں۔”یہ رسول خدا کا پاک بستر ہے اور آپ مشرک ہیں اور ناپاک ہیں اس لیے آپ اس بستر پر نہیں بیٹھ سکتے۔“ یہ صورت حال ابو سفیان کے لیے بڑی دل شکن ہوئی۔
اس کے بعد وہ حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضر عمر فاروقؓ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے جا جا کر ملا اور ان سے مدد چاہی۔ یہاں تک کہ وہ حضرت فاطمۃ الزہرہؓ سے بھی ملا اور ان سے سفارش کی گزارش کی کہ ان کے بچے حسن اور حسین ہی معاہدہ کی تجدید کر دیں لیکن حضرت فاطمہ ؓ نے کہا یہ بچے چھوٹے ہیں۔یہاں تک کہ وہ ہر طرف سے مایوس ہو گیا۔ حضرت علی ؓ نے اسے مشورہ دیا کہ مسلمانوں کے مجمع میں اپنی طرف سے ہی معاہدے کی تجدید کا اعلان کر دے۔ اس نے ایسا ہی کیا اور حضورﷺ سے جوابی قبولیت کے بغیر ہی مکہ واپس چلا گیا۔ اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ قریش کس حد تک کمزور ہو گئے تھے۔
فتح مکہ
اس کے بعد ہمارے پیارے نبیﷺ نے اعلان کیا کہ مسلم رضاکار تیار ہو جائیں۔اس بات کو بہت راز میں رکھا گیا کہ کہاں کی تیاری ہے۔ کچھ لوگوں نے اندازہ لگایا کہ غالباً مکہ پر حملہ کا ارادہ ہے۔ حاطب بن ابی بلتعہ کے گھر کے لوگ ابھی مکہ میں گھرے ہوئے تھے۔ اس لیے انہوں نے یہ سوچا کہ وہ مکہ والوں کو اس امر کی اطلاع کر دیں کہ مسلمانوں کا لشکر آنے والا ہے تاکہ وہ ہوشیار ہو جائیں۔ مکہ والے اس اطلاع دینے کے صلہ میں ان کے اہل و عیال کو نقصان نہ پہنچائیں گے۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ فتح تو مسلمانوں ہی کی ہو گی اور اسلامی فوج کو اس کا کوئی نقصان نہ ہو گا۔ وحی کے ذریعے حضرت حاطب کے اس خفیہ خط کا علم حضورﷺ کو ہو گیا۔ انہوں نے فوراً حضرت علیؓ، حضرت زبیرؓ اور حضرت مقدادؓ کو بھیج کر خط کو راستے میں ہی قاصدہ سے چھین لیا۔ اگرچہ حضرت حاطب کی یہ غلطی نہایت سنگین تھی لیکن حضورﷺ نے انہیں معاف کر دیا کہ ان سے نادانستگی میں یہ غلطی ہو گئی ورنہ وہ مخلص تھے اور اس معاملہ میں ان کی بدنیتی شامل نہ تھی۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دس ہزار سپاہیوں کا عظیم لشکر لے کر ۰۱ رمضان۸ہجری کو مدینہ سے کوچ کیا۔ ابواء کے مقام پر حضورﷺ کے چچا زاد بھائی ابو سفیان بن حارث اور آپﷺ کی پھوپھی عاتکہ کے بیٹے عبداللہ بن امیہ حضورﷺ کے سامنے حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بات نہ کی اور منہ پھیر لیا۔ ام المومنین حضرت ام سلمہؓ نے سفارش کی کہ ان کے قصور درگزر کر دیں۔ لیکن آپﷺخاموش رہے۔انہوں نے مکہ میں حضورﷺکے ساتھ اپنا ہونے کے باوجود جو ظلم و زیادتی روا رکھی تھی، اس کا آپﷺکو بہت ملال تھا۔ جب ابو سفیان اور عبداللہ کو معافی نہ ملی تو ابو سفیان نے کہا۔”اگر رسول خدا مجھے معاف نہ کریں گے تو میں اپنے خاندان اور چھوٹے بچے کو بھی لے کر عرب کے ریگستانوں میں چلا جاؤں گا اور ہم وہیں بھوکے پیاسے مر جائیں گے۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس بات کا پتہ چلا تو آپﷺ کے دل میں ان کے لیے نرمی پیدا ہو گئی۔ آپﷺ نے انہیں اندر آنے کی اجازت دی اور دونوں نے وہاں اسلام قبول فرمایا۔ ابو سفیان نے کہا۔”میں پہلے گھپ اندھیری رات میں ادھر ادھر ہاتھ پاؤں مار رہا تھا مگر اب میرا وہ وقت ہے کہ ہاتھ پکڑ کر مجھے سیدھے راستے پر لگا دیا گیا ہے۔“
ابواء کے مقام سے چل کر آپ حجفہ پہنچے تو آپ کے چچا حضرت عباسؓ مع اہل و عیال کے آپﷺ سے آ ملے، حضرت عباسؓ مکہ سے مسلمان ہو کر آئے تھے، آپﷺ نے فرمایا۔”آپ مکہ کے آخری مہاجر ہیں اور میں آخری نبی ہوں۔“
قریش سرنگوں ہوتے ہیں
حضورﷺ چاہتے تھے کہ مکہ میں نہایت خاموشی سے داخل ہوں کہ انہیں ذرا بھی خبر نہ ہو سکے۔ آپﷺ نے ایک عظیم سپہ سالار کی حیثیت سے ایسی زبردست حکمت عملی اپنائی اور ایسا راستہ اختیار کیا کہ اہل مکہ کو بالکل پتہ ہی نہ چلا اور دس ہزار کا لشکر مراء لظہران پہنچا۔جب وہاں قیام کیا گیا تو ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ رات کے اندھیرے میں ہر سپاہی اپنے لیے الگ آگ روشن کرے۔ ایک بلند مقام پر رات کے وقت ہزاروں جگہوں پر آگ کے شعلے بلند ہوتے دیکھ کر تو اہل مکہ حیران و ششدر رہ گئے۔ ابو سفیان، بدیل بن ورقہ، حکیم بن حزام نے یہ شاندار منظر دیکھا تو گھبرا گئے کہ اتنا بڑا لشکر مکہ پر حملہ کرنے کو آ پہنچا ہے۔ یہ لوگ صورتحال معلوم کرنے چلے۔ حضرت عباسؓ نے انہیں بتایا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنی فوج لے کر آ پہنچے ہیں۔ اب قریش کی خیر نہیں۔
ابو سفیان نے کہا۔”اب کیا ہو گا؟“
حضرت عباس نے کہا۔”میرے ساتھ خچر پر بیٹھ جاؤ اور چل کر حضورﷺ سے بات چیت کرو۔“ وہیں سے گزرتے ہوئے حضرت عمر فاروقؓ نے ابو سفیان کو پہچان لیا اور فوراً پکارے۔”اے دشمن خدا، آج تجھ پر قابو ملا۔“ اور تیزی سے حضورﷺ کے پاس پہنچے کہ اس مردود کے قتل کی اجازت لیں۔ جب حضرت عباس وہاں پہنچے تو انہوں نے کہا۔”میں ابو سفیان کو اپنی پناہ میں لایا ہوں۔“
حضورﷺ نے پوچھا۔”کیا اب تمہیں یقین آیا کہ خدا کے سوا اور کوئی معبود نہیں۔“
ابو سفیان: ”کوئی اور خدا ہوتا تو آج ہمارے کام آیا ہوتا۔“
حضورﷺ:”کیا اس بات میں کوئی شک ہے کہ میں خدا کا رسول ہوں؟“
ابو سفیان:”اس میں قدرے شک ہے۔“
حضورﷺکے سامنے ابو سفیان نے کچھ تذبذب کے ساتھ اسلام قبول کر ہی لیا۔ ابو سفیان رات بھر اس فوجی کیمپ میں رہا۔ صبح کے وقت جب فوج نے شہر میں داخل ہونا شروع کیا تو حضورﷺ کے ارشاد کے مطابق حضرت عباسؓ،ابو سفیان کو ایک ٹیلے پر لے گئے کہ وہ فوج کے پرجلال دستے اور ان کی تیاری کا عظیم الشان منظر اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ ابو سفیان فوجی دستوں کو دیکھ کر مبہوت رہ گیا۔ وہ ہر دستے کے متعلق پوچھتا تو حضرت عباسؓ دستے کے متعلق تفصیل بتاتے۔ ابو سفیان نے حضرت عباسؓ سے کہا۔ ”تمہارے بھتیجے کو تو بڑی بادشاہی مل گئی ہے۔“ حضرت عباس نے فرمایا۔”یہ بادشاہی نہیں یہ شوکت پیغمبری ہے۔“
جب سعد بن عبادہؓ اس مقام سے گزرے تو جوش سے بولے۔”آج گمسان کا دن ہے، آج کے دن کعبہ معرکہ کے لیے کھول دیا جائے گا۔“ تمام دستے زبردست تیاری میں تھے اور زرہ بکتر پہنے ہوئے تھے۔ آخر میں حضرت محمدﷺ نہایت سادگی کے ساتھ نکلے۔ جب حضورﷺ کو سعد بن عبادہؓ کے جوشیلے نعرے کا علم ہوا تو آپﷺ نے ان سے علم لے کر ان کے بیٹے کے سپرد کیا اور فرمایا۔ ”آج کا دن کعبے کی عظمت کا ہے۔“
آپﷺنے خالد بن ولیدؓ کو حکم دیا کہ وہ فوجوں کے ساتھ بالائی حصے سے مکہ میں داخل ہوں اور باقی دستے مختلف اطراف سے مکہ میں داخل ہوں گے۔
حضورﷺ نے فرمایا۔”جو شخص ہتھیار ڈال دے گا، اپنے گھر کے دروازے بند کر لے گا یا حکیم بن حزام یا ابو سفیان کے ہاں پناہ لے گا،اسے امان دی جائے گی۔“
قریش کے ایک گروہ نے حضرت خالد بن ولیدؓ کے ساتھ مقابلہ کرنے کی ٹھانی۔ اس لیے ان سے نمٹنا ضروری ہو گیا۔ یہاں دو سپاہی شہید ہوئے اور تیرہ کفار مارے گئے۔ حضورﷺ کو اس بات کا افسوس ہوا لیکن آپﷺنے فرمایا۔”اللہ کو یہی منظور تھا۔“ فاتح فوج کسی قسم کا خون خرابہ نہیں چاہتی تھی۔ جب حضورﷺمکہ میں داخل ہوئے تو آپﷺ کا سر عجز اور انکساری کی بناء پر اس قدر جھک رہا تھا کہ آپﷺ کی پیشانی مبارک اونٹنی کے کجاوے کو چھو رہی تھی۔ حضورﷺ کے ساتھ زید بن حارثؓ کے بیٹے اسامہؓ بیٹھے تھے اور آپ ﷺ اس وقت سورہ فتح کی تلاوت فرما رہے تھے۔
ابو سفیان نے مکہ جا کے حضورﷺ کے اعلان کو دہرایا۔ جب اس کی تیز طرار بیوی ہندہ نے اسے مقابلے کے لیے اکسانے کی کوشش کی تو ابو سفیان نے کہا۔”اب ایسی باتوں سے کچھ حاصل نہ ہو گا کیونکہ اب حضرت محمدﷺ کے ساتھ مقابلے کی سکت ہمارے اندر نہیں ہے۔“ قیام کے سلسلے میں کئی لوگوں کے دریافت کرنے پر آپﷺ نے درد بھرا جواب دیا۔”اب ہمارا گھر کہاں رہ گیا ہے جو میں وہاں اتروں۔“ آپﷺ جنت المعلّیٰ میں رکے۔آپﷺ خیف کے مقام گئے، پھر حرم کعبہ کا رخ کیا۔آپ ﷺکے ساتھ خاص خاص رفیق موجود تھے۔آپ ﷺکے ہاتھ میں قوس تھی جس سے آپ کعبہ میں رکھے ہوئے بتوں کو چھوتے تھے اور فرماتے تھے:جَآءَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا۔(سورہ الاسراء)۔ترجمہ:”حق آیا اور باطل مٹ گیا۔بے شک باطل مٹنے ہی کے لئے ہے۔“ اور بت گرتے جاتے تھے۔کعبہ کی دیواروں پر جتنی تصویریں تھیں وہ مٹائی گئیں۔خانہ کعبہ میں اس وقت تین سو ساٹھ بت تھے۔ ان سب کو گرادیا گیا۔آپ ﷺنے نماز ادا کی۔مسجد کے سامنے لوگوں کا ہجوم جمع ہوگیا تھا، جو اپنی قسمت کا فیصلہ سننے کا منتظر تھا کہ دیکھیں ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا۔یہ وہ ظالم لوگ تھے جنہوں نے آپﷺ کو بے شمار اذیتیں دی تھیں۔کوڑا کرکٹ ان پر پھینکا،گالیاں دیں،پتھروں سے زخمی کیا،ان کو قتل کرنے کے جتن کیے،یہاں تک کہ انہیں اس شہر کو چھوڑ کر جانا پڑا۔یہ وہ لوگ تھے جو آپﷺ کے خون کے پیاسے تھے۔آپ ﷺکے راستے میں کانٹے بچھاتے تھے۔آج وہ سارے ظالم اور سنگدل لوگ سامنے کھڑے تھے۔
آپ ﷺنے ان لوگوں سے خطاب فرمایا:”ایک خدا کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔اس نے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا۔اس نے اپنے بندے کی مدد کی۔ اسی اکیلے بندے نے تمام لشکروں کو شکست دی۔آج کبروغرور، خون کے تمام دعوے، خون بہا اور مال و اسباب میرے قدموں کے نیچے ہیں۔اے قوم قریش! اب جاہلیت کا غرور اور حسب و نسب کا افتخار خدا نے مٹا دیا ہے۔تمام انسان آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں اور آدم علیہ السلام مٹی سے بنے ہیں۔“پھر آپﷺ نے سورہ حجرات کی آیت پڑھی جس کا ترجمہ ہے:”لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا اور تمہارے قبیلے اور خاندان بنائے کہ آپس میں تم پہچانے جاؤ لیکن خدا کے نزدیک شریف وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہو۔ خدا دانا اور باخبر ہے۔“
عام معافی کا اعلان
خطبے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجمع کو دیکھا اور پوچھا۔”تم کو معلوم ہے کہ میں تمہارے ساتھ کیا معاملہ کرنے والا ہوں؟“قریش کے لوگوں نے کہا۔”آپ شریف بھائی ہیں اور شریف بھائی کے بیٹے ہیں۔“
آپﷺ نے نہایت کشادہ دلی،عفو و درگزر اور اعلیٰ ظرفی کی ایسی مثال قائم کی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے اور آپﷺ کے بعد آج تک کوئی نہ کر سکا کہ ان کفار کی تمام زیادتیوں، ظلم اور انتہا درجے کی سفاکیوں کے بدلے میں ایسا پیارا، خوبصورت اور عمدہ جواب دیا کہ اس کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔آپﷺ نے فرمایا۔ لا تثریب علیکم الیوم  ”تم پر آج کوئی گرفت نہیں، جاؤ تم سب آزاد ہو۔“
ظہر کے وقت حضرت بلال نے بام کعبہ پر چڑھ کر اذان دی۔آپ ﷺنے نماز ادا فرمائی۔لوگ اسلام قبول کرنے آتے رہے اور آپ ﷺکے دست مبارک پر بیعت کرتے رہے۔پھر عورتوں سے عہد لیا گیا کہ وہ خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔برے کام نہ کریں،کسی پر تہمت نہ لگائیں۔اس موقع پر ابو سفیان کی بیوی ہندہ نے گستاخانہ انداز میں بات چیت کی لیکن آپ ﷺنے اس کو بھی معاف کر دیا جس نے حضور ﷺکے چچا حضرت حمزہ کا کلیجہ چبایا تھا۔آپ ﷺنے وحشی کو بھی معاف کر دیا جس نے حضرت حمزہ کو شہید کیا تھا البتہ یہ کہا کہ میرے سامنے نہ آیا کرو کہ اس سے میرے زخم تازہ ہو جاتے ہیں۔ ہبار وہ شخص تھا جس نے حضور ﷺکی پیاری بیٹی حضرت زینب کو ہجرت کے وقت سخت اذیت دی تھی۔ہادی برحق نے اسے بھی معافی دے دی۔
اسلام امن کا مذہب ہے۔دنیا کے فاتحین جب کوئی علاقہ فتح کرتے ہیں تو سب سے پہلے دشمنوں سے انتقام لیتے ہیں۔ ان کو سزائیں دیتے ہیں۔ فتح کا غرور ان کے لئے مفتوحہ لوگوں اور علاقوں پر ظلم کرنے کا راستہ کھول دیتا ہے لیکن ہمارے پیارے نبی ﷺ تو عجز و انکساری کا پیکر تھے۔ آپ ﷺتو انسانوں کے محسن اور مددگار تھے۔ انہوں نے اپنے اوپر کئے گئے تمام جور و ستم اور مظالم بھلا دیئے۔ان تمام دشمنوں ظالموں اور بدفطرت لوگوں کو معاف کرکے دنیا کی تاریخ میں ایسے درخشاں باب کا اضافہ کیا کہ آنے والی نسلیں اس سے سبق سیکھیں،کیوں کہ آپﷺ چاہتے تھے کہ ان پتھر دل لوگوں کے من میں خدا کی سچائی کا نور بس جائے۔وہ ان کے دلوں کو فتح کرنا چاہتے تھے اور دلوں کو فتح کرنے کے لیے محبت، حسن سلوک اور عفو درگزر کی ضرورت ہوتی ہے۔ سو آپﷺ ہر طرح کامیاب رہے۔فتح مکہ کے بعد دو ہفتے میں دو ہزار لوگ مسلمان ہوئے۔ لوگوں کے گروہ کے گروہ آپ ﷺکے پاس آتے رہے اوراسلام قبول کرتے رہے کہ ان کے دل میں اسلام کی سچائی گھر کر چکی تھی۔انتہا کی بات یہ کہ فتح مکہ کے بعد آپ ﷺنے کعبہ کی چابی عثمان بن طلحہ ہی کے حوالے کی حالانکہ اب بات دوسری تھی۔ یاد رہے کہ ایک بار حضور ﷺکے بہت اصرار کے باوجود عثمان بن طلحہ نے بڑی نخوت دکھائی اور حرم کا دروازہ آپ ﷺکے لیے نہ کھولا تھا۔دکھی دل کے ساتھ آپ ﷺنے فرمایا تھا”ایک دن آئے گا کہ یہ کنجی میرے اختیار میں ہو گی اور میں جسے چاہوں گا تفویض کروں گا۔“عثمان نے کہا ”شاید اس روز تمام قریش ہلاک ہو چکے ہوں گے۔“آپﷺ نے فرمایا تھا”نہیں وہ قریش کی سچی عزت کا دن ہو گا“اور آج جب انہیں اس بات کا پورا اختیار تھا، آپﷺ چاہتے تو یہ چابی کسی اور کے حوالے کر سکتے تھے لیکن آپ ﷺنے عثمان بن طلحہ کی زیادتیوں کو بھلا کے جا بی انہی کے ہاتھ میں دی۔ حضور ﷺنے مکہ سے باہر بتوں کو گرانے کا حکم دیا جن میں لات،منات،عزیٰ اور سواع شامل تھے اور لوگوں کو حکم دیا گیا کہ اپنے گھروں کو بتوں سے پاک کرلیں۔
غزوہ حنین (اوطاس۔ہوازن)
مکہ اور طائف کے درمیان ایک وادی ہے جس کا نام حنین ہے۔یہاں ثقیف نامی قبائل بستے تھے جو نہایت جنگجو اور ماہر تیر انداز تھے۔جب لوگ فتح مکہ کے بعد دھڑا دھڑ ایمان لانے لگے تو ان قبائل کا اسلام اور مسلمانوں کے لیے حسد بڑھ گیا۔انہوں نے اپنی برتری قائم کرنے کے لیے مسلمانوں پر خود حملہ کرنے کا ارادہ کیا۔حضورﷺ نے ان کی جنگی تیاریوں کا حال سنا تو آپ ﷺنے ان سے مقابلے کا اعلان کیا اور ان دشمنان اسلام سے مقابلے کے لئے سامان جنگ اور سامان رسد کے لیے عبداللہ بن ربیعہ سے تیس ہزار درہم قرض لئے اور مکہ کے رئیس اعظم صفوان بن امیہ سے سو زرہیں اور دوسرا جنگی سامان قرض لیا اور بارہ ہزار مجاہدین کو حنین کی طرف بڑھنے کا حکم دیا۔مجاہدین کی تیاری چونکہ بہت اچھی تھی، اس لیے انہیں یقین تھا کہ دشمن کو شکست دیں گے۔ ان کے منہ سے بے اختیار نکلا۔”آج کون ہم پر غالب آسکتا ہے؟“لیکن اس بات میں چونکہ غرور کا پہلو نکلتا ہے اور غرور اللہ تعالیٰ کو بالکل پسند نہیں اس لیے اس لڑائی میں باوجود ٹھیک ٹھاک تیاری کے مسلمانوں کو مشکل آپڑی۔
صبح کے دھندلکے میں اسلامی لشکر حنین پہنچا۔یہ شوال۸ ہجری کا واقعہ ہے۔اس سے پہلے ہی دشمن کے فوجی تمام گوشوں میں، راستوں پر اور گھاٹی میں پھیل کر اپنا قبضہ جما چکے تھے۔جب اسلامی لشکر سے آمنا سامنا ہوا تو مجاہدین شکست کھا کر پلٹنے لگے کیونکہ یہ حملہ اچانک اور غیرمتوقع تھا،اس لیے اسلامی فوج میں ابتری پھیل گئی اور حضورﷺ نے جب یہ منظر دیکھا کہ میدان میں صرف سو کے قریب لوگ رہ گئے ہیں اور باقی لوگ ادھر ادھر غائب ہوگئے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک جانب کھڑے ہو گئے اور لوگوں کو پکارنے لگے۔”لوگو کدھر جاتے ہو؟ادھر آؤ میرے پاس۔میں اللہ کا رسول ہوں اور محمد بن عبد المطلب ہو ں۔“حضرت عباس نے بھی لوگوں کو پکارا۔
آواز سنتے ہی مجاہدین نے اونٹوں کی مہاریں موڑ لیں اور تمام فوج واپس آگئی۔حضور پاک ﷺاپنی سواری سے نیچے اترے۔ زمین سے ایک مٹھی بھر خاک اٹھائی اور کفار کی طرف پھینکی۔اللہ کی قدرت سے یہ خاک دشمن کی آنکھوں میں جا کے پڑی۔ادھر اسلامی لشکر نے پوری دلجمعی کے ساتھ دشمن پر ہلہ بول دیا۔کفار اس حملے کی تاب نہ لاسکے اور میدان جنگ سے بھاگ کھڑے ہوئے۔ان کا سپہ سالار عثمان بن عبداللہ ہلاک ہوا تو ان سب کے پاؤں اکھڑ گئے۔اللہ تعالیٰ کی تائید سے مسلمان فتح یاب ہوئے۔اس غزوہ کے متعلق قرآن پاک کی سورۃ توبہ میں ارشاد ہوا ہے (ترجمہ) ”اور حنین کے دن جب کہ تمہاری کثرت نے تم کو خود پسندی میں ڈال دیا۔بس وہ کثرت تمہارے کچھ کام نہ آئی اور زمین باوجود وسیع ہونے کے،تمہارے لئے تنگ ہوگئی۔پھر تم پشت پھیر کر بھاگے۔اس کے بعد اللہ نے اپنی خاص تسکین اتاری، اپنے رسول پر اور اہل ایمان کے قلوب پر اور ایسے لشکر اتارے جن کو تم نے نہیں دیکھا اور کافروں کو سزا دی اور یہی سزا کافروں کے لئے ہے۔“
شکست کے بعد ہوازن اور ثقیف کا سپہ سالار مالک بن عوف نصری ایک جماعت کے ساتھ بھاگ کر طائف چلا گیا۔طائف کا محاصرہ کیا گیا جو بیس روز تک جاری رہا۔اس موقع پر ایک معزز صحابی نوفل بن معاویہ نے فرمایا۔”لومڑی بھٹ میں گھس گئی ہے،اگر کوشش جاری رہی تو پکڑ لی جائے گی اور اگر اسے چھوڑ دیا گیا تب بھی کوئی اندیشہ نہیں۔“چنانچہ حضور نے محاصرہ اٹھا لیا۔
غزوہ حنین میں بہت مال غنیمت ہاتھ آیا اور چھ ہزار افراد کو زندہ گرفتار کیا گیا۔چوبیس ہزار اونٹ،چالیس ہزار بکریاں اور چار ہزار اوقیہ چاندی شامل تھے۔تقریباً دس دن تک حضورﷺ نے بنو ہوازن کا انتظار کیا کہ شاید وہ اپنے اہل و عیال کو چھڑانے کے لئے آئیں لیکن جب کوئی نہ آیا تو حضور ﷺنے مال غنیمت تقسیم کر دیا۔حضورﷺ نے قریش کے لوگوں کو فیاضانہ انعامات دیے۔
اس موقع پر حضورﷺ کی رضاعی بہن شیما بھی قیدی بن کر آئیں۔وہ اب بوڑھی ہو چکی تھیں اور اس لیے فوری طور پر پہچانی نہ گئیں۔ شیما نے بتایا کہ میں حضورﷺ کی رضاعی بہن ہوں اور انہیں حضور ﷺکے پاس لایا گیا۔ حضرت شیما نے اپنا کندھا دکھایا جہاں ایک بار شیرخواری کے زمانے میں حضور ﷺنے کاٹ لیا تھا اور اس کا نشان اب تک کندھے پر باقی تھا۔فرط محبت سے حضورﷺ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔آپ ﷺنے ان کی بہت عزت کی۔ان کے بیٹھنے کے لیے اپنی چادر بچھا دی اور انہیں کچھ اونٹ اور بکریاں عنایت فرما کر نہایت عزت و احترام سے رخصت کیا۔
قبیلہ ثقیف کے رئیس نے کھڑے ہوکر کہا۔”ان جنگی اسیروں میں بعض عورتیں آپ ﷺکی پھوپھیاں ہیں اور بعض آپ ﷺکی خالائیں ہیں۔“حضورﷺ نے سب کو بلا معاوضہ رہا کردیا۔اس طرح کل چھ ہزار جنگی قیدی بلا کسی شرط کے آزاد کر دیے گئے۔یہ عفوودرگزرکی ایسی روشن مثال ہے کہ اس دنیا کے بڑے بڑے سپہ سالار ایسی مثال کبھی نہ پیش کر سکے۔
انصار کی تسلی
جس وقت مال غنیمت تقسیم کیا جا رہا تھا تو سب لوگ دیکھ رہے تھے۔ابو سفیان اور ان کے خاندان کو تین سو اونٹ اور ایک سو بیس اوقیہ چاندی ملی۔حکیم بن حزام کو دو سو اونٹ،نضیر بن حارث کو ایک سو اونٹ،صفوان بن امیہ کو ایک سو اونٹ،قیس بن عدی کو ایک سو اونٹ،سہیل بن عمرو اور حویطب بن عبد العزی کو سو سو اونٹ ملے۔قدیم مسلمانوں میں پیدل کو فی کس چار اونٹ اور چالیس بکریاں ملیں جبکہ سوار کو بارہ اونٹ اور ایک سو بیس بکریاں ملیں۔
انصار نے یہ دیکھ کر سوچا کہ اب رسول اللہﷺ اپنے لوگوں میں واپس آ ملے ہیں،اس لیے انہیں زیادہ انعام و اکرام دے رہے ہیں جبکہ ہماری تلواروں سے ابھی تک خون ٹپک رہا ہے۔حضورﷺ کے کانوں تک بھی یہ باتیں پہنچیں تو آپﷺ نے انصار کو طلب کیا اور فرمایا۔”یہ دنیا ہیچ ہے اور یہاں کا مال نا پائیدار ہے۔اس ناپائیدار مال سے میں نے اس نئی قوم کی تالیف کی تو تم مجھ سے نا خوش ہو گئے۔تمہارے لئے کیا یہ کم خوشی کی بات ہے کہ لوگ بکریاں اور اونٹ اپنے اپنے گھروں کو لے جائیں اور تم رسول اللہ کو اپنے گھر لے جاؤ۔خدا کی قسم!اگر تمام دنیا ایک راستے پر چلے اور انصار دوسری راہ پر ہوں تو میں انصار کی ہمراہی کو پسند کروں گا۔“جب انصار نے رسول پاک ﷺکی یہ باتیں سنیں تو ان کے دل اپنی سوچ پر شرمندہ ہو گئے اور ندامت کے مارے وہ زار و قطار رونے لگے کہ واقعی دنیا کے مال و اسباب کے مقابلے میں رسول خدا ﷺجیسی عظیم ترین ہستی اور ان کی محبت اور رفاقت کس درجے اعلیٰ و ارفع سرمایہ ہے، اور انہوں نے کیوں ایسی چھوٹی بات سوچی۔انصار نے صدق دل سے کہا۔”یا رسول اللہ،جس تقسیم پر ہم نے پیغمبر کو پایا،ہم دل کی گہرائی سے خوش اور مطمئن ہیں۔“ان کاموں سے فارغ ہوکر آپ ۷۲ ذیقعدہ ۸ ہجری کو مدینہ واپس پہنچے یعنی دو ماہ سترہ دن کے بعد۔اب آپﷺ فاتح مکہ ہو چکے تھے۔
غزوہ تبوک
عرب میں چونکہ اسلام تیزی سے پھیلتا جا رہا تھا تو روم کی حکومت نے اس بات سے حسد محسوس کیا۔رومیوں کے ساتھ پہلی لڑائی موتہ کے مقام پر ہوئی تھی جس میں اس نے شکست کھائی تھی۔اس شکست کا بدلہ لینے کے لئے انہوں نے پھر ایک معرکہ گرم کرنے کا پروگرام بنایا۔رسول کریمﷺ کو اس صورت حال کا علم ہوا تو آپ ﷺنے مجاہدین کو تیاری کا حکم دیا۔منافقین طرح طرح کے بہانے تراشنے لگے کہ گرمی بہت زیادہ ہے۔فصل پکی ہوئی تیار ہے،ہم چلے گئے تو اسے کون کاٹے گا۔کچھ منافقین سویلم نامی ایک یہودی کے گھر میں جمع ہوئے اور لوگوں کو لڑائی میں شامل ہونے سے روکنے کی تدبیریں کرنے لگے۔
منافقین وہ لوگ ہوتے ہیں جو جھوٹ بولتے ہیں۔وعدہ خلافی کرتے ہیں اور امانت میں خیانت کرتے ہیں۔مدینے میں بہت سے منافقین بھی تھے۔یہ لوگ بظاہر مسلمانوں کے ساتھ تھے لیکن درپردہ وہ اسلام کے ساتھ مخلص نہیں تھے اور ان کے دل میں عداوت تھی اور وہ اندر ہی اندر مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی سازشیں کرتے تھے۔حضور ﷺچاہتے تھے کہ رومیوں سے جنگ مدینے کے باہر لڑی جائے۔یہ سفر لمبا تھا اور مسلمانوں کے پاس اتنا سازو سامان نہ تھا لہٰذا حضورﷺ نے امیر لوگوں سے اپیل کی کہ وہ مجاہدین کی مدد کریں۔حضور ﷺکے حکم کی دیر تھی،مسلمانوں نے سامان ڈھیر کر دیا۔صحابہ میں سے حضرت عثمان غنی نے نو سو اونٹ،سو گھوڑے اور ایک ہزار دینار حاضر کر دیے۔عبدالرحمن بن عوف نے چالیس ہزار درہم دیے۔حضرت عمر فاروق نے گھر کا نصف مال و اسباب آپ ﷺ کی خدمت میں پیش کردیا۔حضرت ابوبکر صدیق نے گھر کا تمام اثاثہ جو چار ہزار درہم تک تھا، لا کر حضورﷺ کے سامنے پیش کر دیا۔جب ان سے پوچھا گیا کہ گھر والوں کے لئے کیا چھوڑ کے آئے ہو؟تو انہوں نے جواب دیا کہ گھر والوں کے لئے خدا اور اس کا رسول ﷺکافی ہیں۔مدینہ کی عورتوں نے اپنے ہاتھ کی مزدوری سے جو کمایا تھا وہ بھی چندے میں دے دیا۔آپ ﷺنے حضرت علی کو مدینہ کا حاکم مقرر کیا۔رسول کریم ﷺتیس ہزار مجاہدین کا لشکر لے کر رجب ۹ ہجری کو مدینہ سے تبوک کی طرف عازم سفر ہوئے۔ تبوک کے مقام پر ڈیرے ڈال دیے گئے۔مسلمانوں کے لشکر جرار کو دیکھ کر رومیوں کے حوصلے جواب دے گئے اور کوئی مقابلے کے لیے نہ آیا۔ادھر یہودیوں نے اور منافقین نے حضرت علی کو شہر مدینہ میں دیکھ کر باتیں بنائیں کہ آنحضورﷺ حضرت علی سے کچھ ناخوش تھے اس لیے انہیں چھوڑ گئے ہیں۔حضرت علی نے ان باتوں کو سنا تو آپ ﷺسوچ میں پڑ گئے۔پھر آپ فوراً مسلح ہو کر حضورﷺ کے پاس پہنچے اور تمام ماجرا کہہ سنایا۔حضور ﷺنے انہیں تسلی دی اور فرمایا۔”منافقین جھوٹ کہتے ہیں۔میں نے تمہیں وہاں اپنا قائم مقام بنا کر چھوڑا ہے۔اے علی!کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تم میرے لیے ایسے بنوں جیسے ہارون موسیٰ کے لیے،البتہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔“یہ ارشادات سن کر حضرت علی مطمئن ہو کر مدینہ لوٹ گئے۔
دشمن مسلمانوں کی فوج سے مرعوب ہو چکا تھا۔آس پاس کے قبائل نے حاضر ہو کر اپنی ہار مان لی اور صلح کی درخواست کی اور جزیہ دینا قبول کیا۔حضورﷺ نے صلح نامہ لکھوا کر ان کو عطا فرمایا۔
یہودیوں اور منافقوں کی سازشیں
دشمن اگر بہادر ہو تو سامنے آ کر مقابلہ کرتا ہے۔یہودی اور منافقین بزدل تھے۔ انہوں نے اسلام اور رسول خداﷺ کے خلاف تکلیف دہ سازشیں کیں۔غزوہ تبوک سے واپسی پر منافقین کا حسد سے برا حال تھا۔انہوں نے فیصلہ کیا کہ آج کی رات ہم محمدﷺ کو عقبہ سے گرائے بغیرنہ رہیں گے چاہے محمد اور ان کے ساتھی ہم سے بہتر ہو ں،گویا ہم لوگ بکریاں ہیں اور یہ ہمارے چرواہے بن گئے ہیں،ہم گویا بے عقل ہیں اور یہ لوگ بڑے خردمند ہیں۔ان لوگوں میں عبداللہ بن ابی اور ابوعامر بھی شامل تھے۔
رات کا وقت تھا،ہر سو اندھیرا تھا۔حضورﷺ جب عقبہ کے راستے پر چلے تو آپ ﷺکے ساتھ حذیفہ بن یمان اور عمار بن یاسر تھے۔آپ ﷺنے حضرت عمار کو حکم دیا کہ وہ ناقہ کی مہار تھامے آگے چلیں اور حضرت حذیفہ پیچھے چلیں۔جب عقبہ کا خاص مقام آیا تو سازشی ٹولہ چہروں پر نقاب ڈال کر قریب آگیا۔حضور ﷺکو آہٹ ہوئی تو آپ ﷺنے ان ساتھیوں کو حکم دیا کہ ان کو پیچھے لوٹا دو۔حضرت حذیفہ نے اپنا ترکش ان کے اونٹ کے منہ پر مارا۔وہ لوگ حضرت حذیفہ کو پہچان گئے اور سمجھ گئے کہ ہمارا راز فاش ہوگیا اس لئے فوراً وہاں سے بھاگ گئے۔حضورﷺ کو غیب سے ان لوگوں کے بارے میں علم ہو گیا اور آپ ﷺنے ان سازشیوں کے نام حضرت حذیفہ کو بتا دیے اور یہ بھی کہ ان کی تعداد بارہ تھی۔یہ نام راز میں رکھے گئے۔وہ سفر بخیریت گزر گیا۔
بعد میں ان لوگوں کو باری باری بلاکر ان سے جواب طلبی کی گئی۔سب نے مختلف باتیں بتائیں۔کچھ عذر پیش کیے۔حضورﷺ سراپا رحمت تھے،آپ ﷺنے سب کو معاف کردیا۔حضورﷺ سے درخواست کی گئی کہ ان میں ہر ایک قبیلے سے کہا جائے کہ اتنی ناپاک اور گھناؤنی سازش کرنے والوں کے سر کاٹ کر آپﷺ کے سامنے پیش کریں۔
ہمارے پیارے نبیﷺ نے جواب دیا۔”میں یہ پسند نہیں کرتا کہ عربوں میں یہ چرچا ہو کہ محمد نے کچھ لوگوں کو ساتھ لے کر دشمنوں کا مقابلہ کیا اور جب غلبہ پا لیا تو خود اپنے ساتھیوں کو قتل کرنے لگے۔“یہ صورتحال اسلام کی امتیازی شان کے بھی خلاف ہوتی چنانچہ حضورﷺ نے اپنی اعلیٰ ظرفی کے مطابق اس معاملے کو ختم کردیا۔
حاسد حضورﷺ کو طرح طرح کی سازشیں کر کے نقصان پہنچانے کی ناپاک کوشش کرتے رہتے تھے یہاں تک کہ ایک بار آپﷺ پر جادو بھی کیا گیا۔
ایک یہودی لڑکا جو خوش اخلاق اور خوش مزاج تھا،حضورﷺ کی خدمت کیا کرتا تھا۔یہودیوں نے اسے مجبور کر کے حضورﷺ کے سر کے بال اور کنگھی کے دندانے حاصل کرلئے اور ان پر جادو کا عمل کرکے بارہ گرہوں والا گنڈا تیار کرکے ایک کنویں میں پھنکوادیا جس کو ذروان کہا جاتا تھا۔اس جادو کے عمل سے آپﷺ پر تکلیف دہ کیفیت طاری ہوگئی۔غیبی اشارے سے حضور ﷺکو اس جادو کا علم ہو گیا۔وہ گنڈا کنویں سے نکلوایا گیا،تب جا کے حضورﷺ کی طبیعت ٹھیک ہوئی۔اس موقع پر جادو کے اثر اور حاسدوں کے حسد سے بچنے کے لیے سورۃ الفلق اور سورۃ الناس نازل ہوئیں۔آپﷺ رات کو سوتے وقت سورہ اخلاص،سورہ فلق اور سورۃ الناس تین تین بار پڑھ کر پورے جسم پر ہاتھ پھیرتے تھے کہ تمام برے اثرات سے محفوظ رہیں۔
یہودی،منافقین اور کفار مکہ، سب لوگ حضور ﷺکے جانی دشمن بنے رہے اور آپ ﷺکو ہر طرح سے تکلیفیں دیتے رہے، جانی نقصان پہنچانے کی سازشیں کرتے رہے۔مسجد ضرار کا قیام بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔
مسجد ضرار کا انہدام
منافقوں نے ایک مسجد تعمیر کی۔آنحضور ﷺنے جب غزوہ تبوک کے لئے تیاری شروع کی تو چند لوگ آپ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ ہم نے ضعیف اور معذور لوگوں کے لئے مسجد قباء کے نزدیک ایک مسجد تعمیر کی ہے۔حضورﷺ چل کر وہاں نماز پڑھائیں تاکہ اس مسجد کا افتتاح ہو جائے۔حضور ﷺنے فرمایا۔”اس وقت تو غزوہ پر جانے کی تیاری ہے، اس لیے تبوک سے واپسی پر دیکھا جائے گا۔“
یہ مسجد دراصل بارہ منافقوں نے مل کر تعمیر کی تھی۔ان کے ایک لیڈر ابو عامر نے ان لوگوں سے کہا کہ تم لوگ قوت اور اسلحہ جمع کرو،میں قیصر روم کے پاس جاتا ہوں،وہاں سے فوج لاؤں گا۔پھرآنحضور کو مع ان کے صحابہ کے،مدینہ سے نکال دوں گا۔اس مسجد کی آڑ میں،میں بحیثیت ایک مسافر قیام کروں گا۔میں اپنے معاملات کی اطلاع تمہیں کسی شخص کے ذریعے دیتا رہوں گا۔اس مسجد کا نام مسجد ضرار رکھا گیا۔
ادھر حضورﷺ جب غزوہ تبوک سے واپسی پر ایک مقام ذی اوان پر پہنچے تو حضورﷺ کو وحی کے ذریعے اس مسجد کا اصل مقصد اور پوری سازش کا علم ہو گیا۔چنانچہ حضور ﷺنے صحابہ کرام کو حکم دیا کہ فوراً جاؤ اور منافقوں کی بنائی ہوئی اس مسجد کو گرا کر سب سامان کو آگ لگا دو۔چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔اس طرح منافقوں کی وہ سازش ختم کر دی گئی جس میں وہ اسلام اور مسجد کے پردے میں رہتے ہوئے اسلام ہی کو نقصان پہنچانے کے لیے سرگرم ہوئے تھے اور مسجد جو خدا کا مقدس اور محترم گھر ہے،اس کو اپنی ناپاک سازشوں کے لیے گڑھ بنانے لگے تھے۔
جنہیں خدا نے معاف فرما دیا
حضور پاک ﷺ غزوہ تبوک میں فتحیاب ہوکر بیس دن بعد مدینہ میں داخل ہوئے تو مدینہ کے بہت سے لوگ جن میں پردہ دار خواتین بھی شامل تھیں اور چھوٹی چھوٹی بچیاں بھی تھیں،بڑے زور و شور سے حضور ﷺکی تعریف میں گیت گانے لگیں اور اپنی خوشی کا اظہار کرنے لگیں۔یہاں آنے کے بعد حضور ﷺنے دو رکعت نماز شکرانہ ادا کی۔تقریباً اسی لوگ ایسے تھے جو اس غزوہ میں شامل نہیں ہوسکے تھے۔انھوں نے شرکت نہ کر سکنے کا جو عذر پیش کیا،حضورﷺ نے اسے قبول کیا اور ان کے دل کے معاملے کو اللہ کے سپرد کیا کہ دل کا بھید تو وہی جانتا ہے۔یہاں تین بے حد نیک،متقی اور صالح صحابہ بھی تھے جو غزوہ بدر میں بھی شریک تھے،ان کے نام کعب بن مالک،ہلال بن امیہ اور مرارہ بن الربیع تھے۔وہ حضور ﷺکے پاس آئے تو حضور ﷺنے ان سے وجہ دریافت کی کہ تم کہاں رہ گئے تھے۔حضرت کعب بن مالک نے فرمایا۔”وجہ کوئی بھی نہ تھی،لیکن میں پھر بھی پیچھے رہ گیا اور یہی بات سچ تھی۔“آپ ﷺنے ان سب سے فرمایا۔”تم نے جو کہا وہ ٹھیک ہے۔اٹھو،جب تک خدا تمہارے حق میں کوئی فیصلہ نہیں کرتا،تم انتظار کرو۔“حضور ﷺنے ناراضگی کے اظہار کے لئے خود بھی ان سے بات کرنا بند کر دی اور دیگر لوگوں کو بھی منع کردیا کہ ان سے کوئی بات نہ کرے۔سب لوگوں نے ان سے بولنا چھوڑ دیا۔وہ ہر روز مسجد میں حاضر ہو کر حضورﷺ کو سلام کرتے لیکن آپ ﷺکے لبوں کو جنبش نہ ہوتی۔یہ بڑا کٹھن وقت تھا۔ انہیں بہت ہی شرمندگی اور مایوسی ہوتی۔سب لوگ یوں اجنبی بنے رہتے کہ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کوئی انہیں جانتا ہی نہیں۔اس طرح پچاس دن گزر گئے۔پچاسویں دن کسی شخص نے حضرت کعب کو پکارا۔”کعب بن مالک تجھے بشارت ہو۔“یہ آواز سنتے ہی حضرت کعب سجدے میں گر گئے۔پھر مسجد پہنچے تو راستے میں جو شخص ملا، اس نے ان کی توبہ قبول ہونے پر مبارکباد دی۔حضورﷺ نے انہیں دیکھا تو مسکرائے اور فرمایا۔”تجھے یہ دن مبارک ہو کہ تیری زندگی کا سب سے بہتر دن ہے۔“سورۃ توبہ میں ان تین حضرات کے قصور معاف کرنے کا ذکر آیا ہے۔حضرت کعب نے کہا۔”میری خواہش ہے کہ اپنی دعا کی قبولیت کی خوشی میں سارا مال صدقہ کر دوں۔“حضورﷺ نے فرمایا۔”تمہارے لیے بہتر ہے کہ کچھ مال تم اپنے لیے رکھ لو۔“حضور ﷺکی ہدایت کے مطابق انہوں نے ایسا ہی کیا۔
۹ ہجری میں بہت سے وفد آ کر حضورﷺ سے ملے اور اسلام قبول کرتے گئے۔اس لیے ۹ ہجری کو سن الوفود کہا جاتا ہے۔سورہ نصر میں آیا۔”اے محمد! تم دیکھتے ہو کہ لوگ گروہ در گروہ دین اسلام میں داخل ہو رہے ہیں۔“
حضرت ابوبکر صدیقؓ کا حج اکبر
حضور ﷺنے حضرت ابوبکر صدیق کو امیر بنا کے تین سو صحابہ کرام کے ساتھ حج کے لیے بھیجا۔حج کے دنوں میں حضرت صدیق اکبر نے مسلمانوں کو حج کرایا۔حضرت ابوبکر صدیق کے ساتھ حضرت علی بھی تھے۔حضرت علی نے اعلان کیا کہ کوئی مشرک اس سال کے بعد حج نہ کرے اور نہ کوئی شخص برہنہ ہو کر بیت اللہ کا طواف کرے،کوئی کافر جنت میں داخل نہ ہوگا اور جن لوگوں کا حضورﷺ سے عہد ہے وہ اپنی مقررہ مدت تک قائم رہے گا۔سن ۹ ہجری کے آخر میں حج فرض ہوا۔سورہ آل عمران میں آیت نازل ہوئی (ترجمہ) ”خدا کے لئے لوگوں پر بیت اللہ کا حج لازم ہے جس کو راستے کی استطاعت ہے۔“سورۃ الحج میں بھی حج کا حکم آیا ہے۔
حجۃ الوداع
حج کو چونکہ اب فرض قرار دیا گیا تھا، اس لئے حضور ﷺنے ذیقعدہ ۰۱ ہجری کو حج کا ارادہ کیا۔یہ خبر مدینہ کے اطراف بھی پہنچی تو ہر طرف سے لوگ حج کے لئے نکل پڑے۔اس وقت آٹھ ازواج مطہرات بھی حضورﷺ کے ساتھ حج میں شریک تھیں۔مدینہ سے روانگی سے پہلے حضورﷺ نے خطبہ ارشاد فرمایا جس میں احرام کا قاعدہ بتایا گیا اور لوگوں کو حج کا طریقہ سمجھایا۔پھر مدینہ سے روانہ ہوئے اور ذوالحلیفہ کے مقام پر پہنچے۔وہاں قیام فرمایا اور عصر کی نماز قصر ادا کی اور رات کو یہیں قیام فرمایا۔
دوسرے دن فجر اور ظہر کی نمازیں بھی یہیں ادا فرمائیں۔پھر غسل فرمایا،خوشبو لگائی اور عمرہ و حج کی نیت کر کے احرام باندھا اور صحابہ کو روانگی کا حکم دیا۔پھر تلبیہ کہی:
لَبِّیْکَ اللّٰہَمَّ لَبَّیْکَ۔لَبَّیْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ۔اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَتَ لَکَ وَ الْمُلْکَ۔ لَا شَرِیْکَ لَکْ۔
(ترجمہ)”تیرے سامنے حاضر ہیں اے خدا! ہم تیرے سامنے حاضر ہیں،اے خدا۔تیرا کوئی شریک نہیں،ہم حاضر ہیں۔ سب تعریفیں تیرے لیے ہیں۔نعمت تیری ہے،ملک تیرا ہے،تیرا کوئی شریک نہیں۔اے اللہ ہم حاضر ہیں۔“
تلبیہ کہنے کے بعد حضورﷺ اپنی اونٹنی قصویٰ پر سوار ہوئے۔اونٹنی جب بیداء کی بلندی پر چلنے لگی تو حضور ﷺنے پھر تلبیہ کہی۔آنحضورﷺ صحابہ کو بھی بلند آواز میں تلبیہ پکارنے کا حکم دیتے۔حضورﷺ جس راستے سے گزرتے، لوگ جوق در جوق اس قافلے میں شامل ہوتے جاتے تھے اور ان کی تعداد اتنی زیادہ بڑھ گئی کہ ہر طرف آدمی ہی آدمی نظر آتے تھے۔لوگ پہاڑوں،میدانوں اور گھاٹیوں سے صحراؤں کو عبور کرتے ہوئے حضورﷺ کے قافلے میں شامل ہوتے جاتے تھے۔ان کی تعداد ایک لاکھ سے بھی زیادہ ہو چکی تھی۔یہ وہی لوگ تھے جو قبائلی عصبیت اور اپنے غرور کی وجہ سے ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے۔قدیم لڑائیوں کی وجہ سے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے لیکن آج اسلام نے ان لوگوں کے درمیان محبت اور اخوت کا رشتہ قائم کر دیا تھا۔۴ ذی الحجہ کو یہ قافلہ احرام باندھے مکہ معظمہ پہنچا۔آپ ﷺنے خانہ کعبہ پہنچ کر حجر اسود کو بوسہ دیا۔بیت اللہ کا سات مرتبہ طواف کیا۔پھر مقام ابراہیم پر نماز پڑھی۔دوبارہ حجر اسود کو بوسہ دیا۔پھر کوہ صفا اور مروہ کے درمیان سات مرتبہ سعی کر کے عمرہ ادا کیا۔حضرت علی بھی یمن سے آکر اس قافلے میں شامل ہوگئے۔
۸ ذی الحجہ کو حجاج کرام منیٰ کے مقام پر پہنچے اور ایک خیمے میں قیام کیا۔۹ ذی الحجہ کو عرفات کے میدان میں حاضر ہوئے۔حضورﷺ کی امامت میں اتنے بڑے اجتماع نے حج ادا کیا۔آج کل اس مقام پر مسجد نمرہ ہے۔حضور ﷺنے ظہر اور عصر کی نمازیں اکٹھی ادا کیں۔آپﷺ کی سنت کے مطابق آج تک یہاں ظہر اور عصر کی نمازیں اسی طرح اکٹھی پڑھی جاتی ہیں۔
حضورﷺ نے دوپہر کو کچھ دیر آرام کیا۔ پھر ایک قریب ترین پہاڑی پر تشریف لے گئے اور وہاں اس عظیم ترین اجتماع سے خطاب فرمایا۔آپﷺ کا خطبہ بے حد جامع اور اہم تھا۔ا سے خطبہ حجۃ الوداع کا نام دیا جاتا ہے۔اس پہاڑ کو جبل رحمت کہا جاتا ہے۔جس وقت آپ ﷺنے خطبہ رحمت ارشاد فرمایا، حضرت بلال آپ ﷺکی اونٹنی کی مہار تھامے کھڑے تھے۔جب آپ ﷺایک فقرہ ارشاد فرماتے پھر چپ ہو جاتے۔پھر حضرت ربیعہ بن امیہ اس فقرے کو بلند آواز سے دہراتے تھے۔پھر دوسرے صحابہ بھی ان الفاظ کو دہراتے۔پھر حضورﷺ دوسرا فقرہ ادا فرماتے اور حضرت ربیعہ اسی طرح اس کو دہراتے تاکہ آواز دور تک جائے۔حضورﷺ نے فرمایا:”اے لوگو! میری بات سنو۔مجھے امید نہیں کہ ایسی محفل میں کبھی ہم دوبارہ اکٹھے ہوں۔جلد ہی وہ وقت آنے والا ہے جب تم اپنے پروردگار سے ملو گے اور وہ تمہارے اعمال کی پرسش کرے گا۔جاہلیت کے تمام دستور میرے پاؤں کے نیچے ہیں۔اے لوگو! بے شک تمہارا رب ایک ہے اور بے شک تمہارا باپ ایک ہے۔ہاں عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر،سرخ کو سیاہ پر اور سیاہ کو سرخ پر کوئی فضیلت نہیں،مگر تقوی کے سبب۔
مسلمان مسلمان باہم بھائی بھائی ہیں۔ جو تم خود کھاؤ وہی اپنے غلاموں کو کھلاؤ۔جاہلیت کے تمام خون (یعنی انتقام کے طور پر کسی کو قتل کرنا) باطل کر دیے گئے ہیں اور سب سے پہلے میں (اپنے خاندان کا خون) ربیع بن الحرث کے بیٹے کا خون باطل کرتا ہوں۔ جاہلیت کے تمام سود بھی باطل کر دیے گئے۔ سب سے پہلے میں اپنے خاندان (عباس بن عبدالمطلب)کا سود باطل کرتا ہوں۔عورتوں کے معاملے میں خدا سے ڈرو،تمہارا عورتوں پر عورتوں کا تم پر حق ہے۔ایک دوسرے کی جان،مال اور آبرو،قیامت تک اسی طرح حرمت والی ہیں جس طرح آج کا یوم حج،یہ مہینہ ذی الحجہ،اور یہ شہر حرمت والے ہیں۔میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔
اگر کوئی حبشی غلام بھی تمہارا امیر ہو اور تمہیں خدا کی کتاب کے مطابق لے چلے تو اس کی اطاعت اور فرماں برداری کرو۔“
آپﷺ نے فرمایا۔”میں تم میں ایک چیز چھوڑے جا رہا ہوں۔اگر تم اسے مضبوطی سے تھامے رہو گے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے۔یہ چیز قرآن مجید ہے۔“
آپ نے مجمع عام سے پوچھا۔”تم سے خدا کے ہاں میرے بارے میں پوچھا جائے گا تو تم کیا جواب دو گے؟“
اس پر تمام حاضرین نے کہا۔”یا رسول اللہ! ہم کہیں گے کہ آپﷺ نے خدا کا پیغام پہنچا دیا۔“آپ ﷺنے آسمان کی طرف انگلی اٹھائی اور تین بار فرمایا۔”اے اللہ،گواہ رہنا۔“
خطبہ ختم ہونے کے بعد حضرت بلال کو اذان دینے کا حکم دیا۔پھر دو رکعت نماز ادا فرمائی۔کچھ وقفے کے بعد عصر کی نماز ادا کی۔ حضورﷺ نے غروب آفتاب تک نہایت گریہ وزاری سے دعا فرمائی اور ارشاد فرمایا۔”حج یوم عرفہ ہے اور بہترین دعا یوم عرفہ کی دعا ہے۔“اسی مقام پر یہ آیت نازل ہوئی (ترجمہ)”آج ہم نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا۔تمہارے اوپر اپنی نعمت پوری کی اور تمہارے لئے دین اسلام پسند کیا۔“(سورہ مائدہ)
اس آیت کا مطلب تھا کہ دنیا میں حضور رحمت اللعالمین ﷺکی آمد کا مقصد پورا ہو چکا۔آپ ﷺکے ذریعے دنیا کو پیغام حق مل چکا تھا۔اسی وقت ایک صحابی اپنی سواری سے گر کر انتقال کرگئے۔حضور نے فرمایا کہ۔”انہیں غسل دے کر احرام ہی کے کپڑے کا کفن پہنایا جائے۔قیامت میں یہ تلبیہ پڑھتے ہوئے اٹھیں گے۔“
حضور ﷺکے ساتھ اسامہ بن زید تھے۔ازواج مطہرات حضور ﷺکے ساتھ روانہ ہوئیں۔جب آپ ﷺکی سواری بطن محشر پہنچی تو آپ ﷺنے اونٹ کو تیز کر دیا۔یہ وہی جگہ تھی جہاں اصحاب فیل پر پرندوں نے کنکریاں گرائی تھیں اور ابرہہ اور اس کے فوجی ایک دردناک عذاب سے مرے تھے۔حضورﷺ کا یہ قاعدہ تھا کہ جس جگہ کسی قوم پر عذاب الٰہی نازل ہوا ہو تو وہاں سے گزرتے ہوئے جلدی کرتے تھے۔حضور ﷺمنیٰ پہنچے۔ آپﷺ نے جمرہ کی طرف رخ کیا اور تلبیہ پڑھتے ہوئے کنکریاں ماریں۔یہاں بھی آپﷺ کے سامنے لاکھوں کا مجمع تھا۔ آپﷺ نے خطاب فرمایا۔”سال کے بارہ مہینے ہیں جن میں چار مہینے قابل احترام ہیں۔ذوالقعدہ، ذی الحجہ،محرم اور رجب کا مہینہ۔تمہارا خون،تمہارا مال،تمہاری آبرو قیامت تک کے لئے اسی طرح محترم ہے جس طرح یہ دن اس مہینے میں اور اس شہر میں محترم ہے۔“
آپﷺ نے فرمایا۔”میرے بعد گمراہ نہ ہوجانا کہ خود ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔تم کو خدا کے سامنے حاضر ہونا پڑے گا اور وہ تم سے تمہارے اعمال کی بازپرس کرے گا۔ہر مجرم اپنے جرم کا خود ذمہ دار ہے۔“خطبے کے آخر میں حضورﷺ نے لوگوں کو ان کے فرائض یاددلائے۔”اپنے پروردگار کی عبادت کرو،پانچوں وقت نماز پڑھو، رمضان کے مہینے کے روزے رکھو، میرے احکام کی اطاعت کرو، تم خدا کی جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔“
آپ ﷺنے مجمع سے پوچھا۔”کیوں؟میں نے پیغام خداوندی سنا دیا؟“
سب لوگ بیک زبان بولے۔”ہاں۔“
پھر آپﷺ نے لوگوں سے کہا۔”جو لوگ اس وقت یہاں موجود ہیں، یہ باتیں وہ ان لوگوں کو بتا دیں جو یہاں اس وقت موجود نہیں۔“
خطبہ کے آخر میں حضور ﷺنے تمام مسلمانوں کو الوداع کہا۔اس لیے اس خطبہ کو حجۃ الوداع کہا جانے لگا۔اس طرح ایک لاکھ مسلمانوں نے حضور ﷺکے ساتھ حج ادا کیا اور اس کا طریقہ سیکھا۔
اس کے بعد آپﷺ نے تریسٹھ اونٹوں کی قربانی کی۔پھر آپ ﷺنے اپنے بال منڈوائے۔لوگوں نے محبت اور عقیدت کے مارے وہ بال چن لیے۔حضور ﷺنے کچھ بال حضرت ابو طلحہ انصاری اور ان کی زوجہ ام سلیم کو عطا کئے اور باقی لوگوں میں تقسیم کر دیے۔پھر آپ ﷺمکہ معظمہ تشریف لائے اور طواف کیا۔لوگ آب زم زم پی رہے تھے۔آپ ﷺکے لئے حضرت عباس نے آب زم زم نکال کے دیا۔آپ ﷺنے قبلہ رخ کھڑے ہو کر اسے نوش جاں کیا۔اسی روز پھر منیٰ واپس آئے۔رات بھر وہاں قیام کیا۔حج کے باقی ارکان ادا فرمائے۔مدینہ واپسی کے وقت راستے میں ایک مقام پر رکے۔آپ ﷺنے صحابہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔”اے لوگو! میں بھی انسان ہوں،ممکن ہے خدا کا فرشتہ جلد آ جائے اور مجھے قبول کرنا پڑے (یعنی وصال حق) میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کے جاتا ہوں۔ایک خدا کی کتاب اور دوسرے اہل بیت۔میں اپنے اہل بیت کے بارے میں تمہیں خدا کی یاد دلاتا ہوں۔“
اگلی صبح آپﷺ مدینہ پہنچ گئے۔آپ ﷺنے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا فرمائی اور ارشاد فرمایا۔”اس نے اپنے بندے کی نصرت کی اور وہ تمام قبائل کو تنہا شکست دی۔“
مسِ خام کو جس نے کندن بنایا
کھرا اور کھوٹا الگ کر دکھایا
عرب جس پہ قرنوں سے تھا جہل چھایا۔
پلٹ دی بس اک آن میں اس کی کایا۔
رہا ڈر نہ بیڑے کو موج بلا کا
ادھر سے ادھر پھر گیا رخ ہوا کا
حضور ﷺ کا وصال
قرآن پاک کی آخری آیات (سورہ مائدہ کی آیات) سے دین اسلام کا عظیم ترین فریضہ مکمل ہو چکا تھا۔ہمارے پیارے نبی ﷺ نے تمام زندگی سخت محنت،مشقت،جدوجہد اور جہاد مسلسل میں گزاری تھی لیکن آپ ﷺکبھی بیمار نہ پڑے تھے لیکن اب آپ ﷺکی طبیعت خراب رہنے لگی۔ آپ ﷺکو تیز بخار ہو جاتا تھا۔ان دنوں اسامہ بن زید بن حارث کی سربراہی میں شام کی طرف فوج بھیجنے کی تیاری ہو رہی تھی۔جب آپ ﷺکی بیماری زیادہ بڑھنے لگی تو لشکر کی روانگی ملتوی کردی گئی۔
حضور ۱۱ ہجری ماہ صفر کے شروع میں احد تشریف لے گئے اور وہاں کے شہداء کے لئے نماز پڑھی اور دعائے خیر کی۔پھر ایک شب آپ جنت البقیع تشریف لے گئے اور تمام مرحومین کے لیے دعا فرمائی۔ آپ ﷺکی طبیعت جب سنبھلنے میں نہ آئی تو آپ ﷺنے باقی ازواج سے اجازت لیکر آخر تک عائشہ رضی اللہ عنہاکے حجرے میں قیام کیا۔
بدھ کے دن حضور ﷺنے سات کنوؤں سے پانی منگوا کر غسل فرمایا۔طبیعت کچھ پر سکون ہوئی تو آپ مسجد میں رونق افروز ہوئے اور فرمایا۔”تم سے پہلے ایک قوم ہوئی ہے جو انبیاء اور صالحین کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا تی تھی۔تم ایسا نہ کرنا۔ان یہودیوں اور نصرانیوں پر اللہ تعالیٰ لعنت کرے۔میرے بعد میری قبر کو ایسی قبر نہ بنا دینا کہ اس کی پرستش ہوا کرے۔اس قوم پر اللہ کا سخت عذاب ہے۔“حضورﷺ نے نماز پڑھائی۔اس کے بعد حمد و ثناء کے بعد فرمایا:”میں تم کو انصار کے حق میں وصیت کرتا ہوں۔یہ لوگ میرے جسم کا لباس اور میرے زادراہ رہے ہیں۔انہوں نے اپنی ذمہ داریاں پوری کر دی ہیں۔اب ان کے حقوق باقی رہ گئے ہیں۔ان میں سے اچھا کام کرنے والوں کی قدر کرنا اور لغزش کرنے والوں سے درگزر کرنا۔“
جمعرات کے دن نماز عشاء کے لئے آپﷺ نے تین بار مسجد جانے کا عزم کیا۔وضو کا ارادہ کیا تو غش آگیا۔کچھ افاقہ ہوا تو ارشاد فرمایا۔”ابوبکر نماز پڑھائیں۔“اس حکم کے بعد حضرت ابوبکر صدیق نے آپﷺ کی زندگی میں سترہ نمازوں کی امامت فرمائی۔
اتوار کے دن آپ ﷺحضرت علی اور حضرت عباس کے سہارے سے مسجد میں تشریف لائے۔آپ ﷺکی آمد پر حضرت ابوبکر صدیق پیچھے ہٹنے لگے تو آپ ﷺنے منع کرنے کا اشارہ فرمایااور ان کے برابر بیٹھ کر نماز میں شامل ہوگئے۔نماز ختم ہونے کے بعد آپ ﷺنے خطبہ ارشاد فرمایا۔”خدا نے اپنے بندے کو اختیار عطا فرمایا کہ وہ دنیا کی نعمتوں کو قبول کرے یا آخرت میں جو کچھ ہے اسے قبول کرے۔اس نے خدا ہی کے پاس کی چیزیں قبول کیں۔“یہ سن کر حضرت ابوبکر صدیق رونے لگے۔وہ خوب سمجھ گئے کہ وہ بندہ خود رسول اللہ ہیں۔
آپﷺ نے فرمایا۔”سب سے زیادہ جس کی دولت اور رفاقت کا میں ممنون ہوں،وہ ابو بکر ہیں۔اگر میں دنیا میں کسی کو اپنی امت میں اپنا دوست بنا سکتا تو ابوبکرکو بناتا لیکن اسلام کا رشتہ دوستی کے لیے کافی ہے۔“آپ نے تمام غلاموں کو آزاد کر دیا۔کچھ اشرفیاں گھر میں رکھی تھیں حضرت عائشہ سے فرمایا۔”ان اشرفیوں کو خیرات کر دو۔“
علی الصبح حضور ﷺنے حجرے کا پردہ اٹھا کر مسجد میں دیکھا جہاں نماز ادا کی جارہی تھی اور آپ نے مسرورو مطمئن ہو کر تبسم فرمایا۔سورج نکلنے کے بعد اپنی لاڈلی بیٹی حضرت فاطمہ الزہرا کو پاس بلایا اور کان میں فرمایا۔”بچوں کو باپ سے جدا کرنے والی موت ہے۔میں اس مرض میں انتقال کروں گا۔“تو آپ فرطِ غم سے رونے لگیں۔ پھر آپ ﷺنے فرمایا۔”میرے خاندان میں سب سے پہلے تم مجھ سے آکر ملو گی۔“تو آپ مسرور ہوگئیں۔حضور نے اپنی پھوپھی حضرت صفیہ اور اپنی بیٹی فاطمۃ الزہرا سے فرمایا۔”آخرت کے لئے کچھ کر لو! وہاں میں تمہارے لئے کچھ نہ کر سکوں گا!“ حضور پر بار بار غشی طاری ہو جاتی تھی۔حضرت فاطمہ اپنے محترم والد کے اس حال کو دیکھ کر بہت بے قرار ہوتیں۔آپﷺ نے اپنے نواسوں حسن اور حسین کو بلایا اور پیار کیا۔حضرت عائشہ نے پانی کا پیالہ قریب رکھا۔حضور پاک ﷺاس پیالے میں ہاتھ ڈال کر اسے بھگوتے اور چہرہ انور پر پھیر لیتے کہ کچھ سکون ملے۔اس وقت عبدالرحمن بن ابوبکر تازہ مسواک لائے۔حضور کو مسواک کرنا بے حد پسند تھا اس لیے حضرت عائشہ نے مسواک اپنے دانتوں سے نرم کرکے حضورﷺ کو دی اور آپﷺ نے مسواک کی۔پھر ہاتھ کو بلند کر کے فرمایا۔بل الرفیق الاعلی (ترجمہ) ”اب اور کوئی نہیں بلکہ وہ بڑا رفیق درکار ہے۔“اس کے بعد آپ ﷺکی روح اقدس پرواز کر گئی۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔آپ پر لاکھوں درود اور لاکھوں سلام۔اللّٰھُمَّ صَلِّی عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍٍ وَّعَلٰی اٰلِ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍٍ وَّ بَارِکْ وَسَلِّمْ۔
مسلمانوں پر غم و اندوہ
مسلمانوں کو جب حضورﷺ کی رحلت کی اطلاع ملی تو ان پر غموں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔انہیں یقین نہ آتا تھا کہ وہ سراپا رحمت ہستی اب ہمارے درمیان نہیں رہی۔وہ ہستی جو میر سالار تھی،جو نگاہوں کا مرکز تھی،جو ہدایت کا سرچشمہ تھی،جوہر درجہ مہربان،مونس وغم خوار تھی،جو مسلمانوں کے دل کا قرار اور ہر مہم کی روح رواں تھی،وہ جدا ہو گئی تھی۔یہ خبر سن کر حضرت عثمان بے ہوش ہوگئے۔حضرت عبداللہ بن انیس اس صدمے سے انتقال کر گئے۔حضرت عمر کو جب یہ اطلاع ملی تو وہ بے حال ہوگئے اور تلوار کھینچ کر اعلان کیا۔”کسی نے کہا کہ رسول اللہ ﷺنے وفات پائی تو میں اس کا سر اڑا دوں گا۔“انہیں اس صدمے کی برداشت نہیں تھی۔حضرت ابو بکر نے اتنے بڑے سانحے کو بڑے ضبط و تحمل سے برداشت کیا اور خدا کے اس فیصلے پر سر جھکا دیا اور تمام صحابہ کے سامنے خطبہ دیا۔”حضور کا اس دنیا سے تشریف لے جانا یقینی تھا،کیوں کہ آپ ﷺسے پہلے بھی بہت سے انبیاء آئے اور چلے گئے۔“تب مسلمانوں کو اس صدمہ جانکاہ پر یقین کرنا پڑا۔تمام صحابہ کا برا حال تھا لیکن خدا کی رضا کے سامنے سب کو سر جھکانا پڑتا ہے۔سب لوگوں کا غم سے برا حال تھا۔ہر آنکھ پر نم اور ہر دل اداس تھا۔
حضرت اوس بن خولی انصاری پانی کے گھڑے بھربھر کے لاتے۔حضرت علی نے آپ ﷺکے جسم اطہر کو سینے سے لگا رکھا تھا۔ حضرت عباس اور ان کے صاحبزادے قثم اور حضرت فضل جسم مبارک کی کروٹیں بدلتے۔حضرت اسامہ بن زید اور حضرت شقران پانی ڈالتے۔غسل کے بعد تین سوتی کپڑوں کا کفن پہنایا گیا۔حضرت عائشہ کے حجرے میں پہلے کنبے والوں نے نماز جنازہ ادا کی۔پھر مہاجرین نے۔پھر انصار نے۔لوگ حجرے میں جگہ تنگ ہونے کی وجہ سے باری باری جا کر نماز جنازہ ادا کرتے۔آپ ﷺکو حضرت عائشہ ہی کے حجرے میں دفن کیا گیا۔
Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top