حسرت
فوزیہ خلیل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ آج حقیر سا ملازم نہیں بلکہ ایک معزز گاہک بن کر آیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے گھر کے بالکل برابر احتشام کا گھر تھا۔ بہت امیر تو نہیں البتہ اوسط درجے کے لوگ تھے۔ میرے گھر کی کھڑکی سے احتشام کے گھر کا باورچی خانہ صاف نظر آتا تھا۔ صبح صبح احتشام کی امی وہاں پراٹھے پکاتی نظر آتیں۔ گھی میں چپڑے ہوئے لذیذ پراٹھے۔ میں جب تک کھڑکی میں کھڑا رہتا۔ یہاں تک کہ وہ آخری پراٹھہ ڈال لیتیں۔ وہ پراٹھے پکاتی جاتیں اور احتشام کے بہن بھائیوں کو پکارتی جاتیں اور گرم گرم پراٹھے دیتی جاتیں۔ ساتھ ایک انڈا تل کر دیتی جاتیں۔ میں للچائی نظروں سے سب دیکھتا رہتا۔ یہ منظر دیکھنے کے بعد جب اپنے کچن میں آتا تو میری امی روٹیاں پکا رہی ہوتیں۔ ساتھ میں چائے۔ کالی سیاہ چائے جس میں دودھ برائے نام ہی ہوتا۔ چینی بھی کم ہوتی۔ میرا دل غم سے بھر جاتا۔ میرا دل چاہتا کاش میں اپنی امی سے کہوں۔ مجھے بھی گھی کے پراٹھے بنا دیں۔تر بتر گھی کے ۔کڑک مزے دار۔۔۔ مگر مجھے معلوم تھا ہمارے لیے یہ ممکن نہیں ہے۔ میرے ابو ایک چھوٹے سے ہوٹل میں بیرے تھے۔ ان کی آمدنی بے حد کم تھی۔ گھر کا گزر بسر بہت ہی مشکل سے چل رہا تھا۔ ہم پانچ بہن بھائی تھے۔ سبھی پڑھ رہے تھے۔ میں سب سے بڑا تھا۔ اگر میں اپنے والدین سے دل دکھانے والی بات کرتا تو باقی بہن بھائی مجھ سے یہی سیکھتے لہٰذا میں دل پر جبر کرکے روٹی اور کالی سیاہ چائے کھا کر اسکول چلا جاتا۔ مجھے حلق سے ایک ایک نوالہ اتارنا مشکل لگتا ۔ مگر میں منہ سے ایک لفظ نہ کہتا۔
اس روز اسکول سے واپسی پر میں خرم جنرل اسٹور پر رک گیا۔ یہ ایک بہت بڑی پرچون کی دکان تھی۔ جس وقت میں اسکول سے آرہا ہوتا۔ اس وقت ایک بڑے سے ٹرک سے جنرل اسٹور کے لیے سامان اتارا جا رہا ہوتا ۔گھی کے بڑے بڑے ٹن، آٹے کی بوریاں، تیل کے ٹن۔ لاتعداد سامان۔ میں کچھ دیر رک کر دیکھتا رہا۔ پھر دکان میں داخل ہو گیا۔ پانچ دکان دار گاہکوں کو تیزی سے سامان دے رہے تھے۔ کونے میں کاؤنٹر پر دکان کا مالک خرم وجاہت شاہ کھڑا کسی سے باتیں کر رہا تھا:
’’ یار! اتنا سامان ہوتا ہے۔ اتارنے کے لیے بندے کی ضرورت ہے۔ کوئی ہو تو بھجوا دینا۔‘‘
میں گھی کے ٹن کو غور سے دیکھ رہا تھا پھر میں نے دکاندار سے پوچھا:
’’ یہ کتنے کا ہے؟‘‘
’’ یہ دس کلو والا۔ تیرہ سو کا۔‘‘
مجھے یہ زمین گھومتی ہوئی محسوس ہوئی۔
’’ نہیں یہ پانچ کلو کا۔‘‘
’’ یہ پانچ کلو کا۔ پونے سات سو کا۔‘‘ دکاندار نے عجلت میں جواب دیا۔
’’ پھر میں نے ایک چھوٹی تھیلی کی طرف اشارہ کیا۔
’’گھی کی یہ تھیلی کتنے کی ہے؟‘‘
’’ یہ ایک کلو کی ۱۳۵ کی۔‘‘
میں ہکا بکا رہ گیا اور سر جھکائے دکان سے نکل گیا۔
*۔۔۔*
اگلے روز میں پھر اسکول سے واپسی پر خرم جنرل اسٹور پر کھڑا تھا۔ آہستہ قدموں میں اندر داخل ہوا اور کاؤنٹر پر کھڑا ہو گیا۔ ٹرک باہر کھڑا تھا۔ وزنی سامان اتارا جا رہا تھا۔ میں دکان کے مالک خرم وجاہت شاہ کے پاس چلا گیا۔
’’ میں آپ کا سامان اتارا کروں گا۔ مجھے یہاں رکھ لیجئے۔ ‘‘ میں نے نظریں جھکا کر کہا۔ اس نے مجھے غور سے دیکھا۔ بارہ سال کا دبلا پتلا بچہ۔ کمزور سا۔
’’ نہیں لڑکے۔۔۔ تم یہ کام کیسے کرو گے۔ بڑا وزن ہے۔‘‘
’’ نہیں میں کر لوں گا۔ آپ مجھے کتنے پیسے دیں گے؟‘‘
’’اس وقت سامان اتارا جاتا ہے۔ ایک گھنٹہ لگتا ہے۔ میں تمہیں دس روپے روزانہ دوں گا۔‘‘
میں بغیر پس و پیش کے فوراً تیار ہو گیا۔ اگلے روز میں پورے ایک گھنٹہ تک ٹرک سے سامان اتارتا رہا۔ میرے ساتھ کئی مزدور اور بھی تھے۔ مگر میرا حال سب سے برا تھا۔ میری ٹانگیں لڑکھڑا رہی تھیں۔ ہاتھ کانپ رہے تھے۔ جسم پسینے سے شرابور تھا۔ اس نے باقی مزدوروں کو تو پچاس روپے دیئے ۔ میرے ہاتھ میں دس کا نوٹ رکھا۔
’’تمہارے لیے اتنے ہی بہت ہیں۔‘‘ وہ خباثت سے مسکرایا۔ مڑ کر اپنا اے سی اور تیز کیا اور آرام کرسی پر سر ٹکا دیا۔
روز میں ایک گھنٹہ دیر سے گھر پہنچنے لگا۔ امی سے کچھ نہ کچھ بہانے بنا دیتا۔ وہ گھر کے کاموں اور مسائل میں اس طرح گرفتار ہوتیں کہ صحیح سے سن بھی نہ پاتیں۔
مجھے دس روپے روز ملنے لگے۔ پھر یہ ہوا کہ کسی روز وہ مجھے دس کے بجائے آٹھ روپے دے دیتا اور کبھی کبھی سات بھی۔ میرا دل دکھ سے بھر جاتا مگر میں منہ سے کچھ نہ کہتا خاموشی سے کام میں لگ جاتا جو حد درجہ مشکل تھا۔
کافی دنوں بعد میرے پاس ڈیڑھ سو روپے جمع ہو گئے۔ میں اس قدر خوش تھا کہ پھولا نہ سماتا تھا۔ سامان کے اس رکھنے اٹھانے میں کئی بار گرا۔ کئی بار زخمی ہوا۔ کئی بار بری طرح چوٹیں لگیں۔ مگر اب پیسے دیکھ کر سب بھول چکا تھا۔ بار بار گنتا اور رکھ دیتا۔ اس دن اسکول سے واپسی پر خرم جنرل اسٹور جانے کے بجائے میں کباڑیے کی دکان پر چلا گیا۔ پندرہ روپے کی ایک خوبصورت سی شیشے کی بوتل خریدی۔ گھر آکر اس پر چند اسٹیکر چپکائے اور ایک لیبل چپکا دیا۔
’’ یہ گھی کی بوتل ہے۔‘‘ میں نے سوچا گھی خرید کر اس میں ڈال کر امی کو دوں گا۔ پھر امی جی صبح میں پراٹھے پکایا کریں گی۔ احتشام کی امی کی طرح۔ پھر میں گننے اور حساب لگانے لگا کہ کتنے پراٹھے بنیں گے۔ دو میرے۔ ایک یوسف کا۔ ایک مونس کا۔ دو چھوٹی بہنوں کے دو ابو کے۔ ایک امی کا۔ حساب لگا کر میں خوشی سے پھولا نہیں سما رہا تھا۔ یوسف یونس کو صبح پراٹھے ملیں گے تو وہ کتنے حیرت زدہ رہ جائیں گے۔
رات بھر مجھے خوشی سے نیند نہ آئی۔ اگلے روز اسکول سے واپسی پر میں خرم جنرل اسٹور پہنچ گیا۔ آج میں ملازم کی حیثیت سے نہ آیا تھا۔ حقیر اور بے وقعت ملازم بلکہ آج میں معزز گاہک تھا۔ میں نے فخریہ انداز میں ۱۳۵ روپے جیب سے نکالے۔ ایک مرتبہ انہیں پھر گنا۔ پھر دکان دار کی جانب بڑھا دیا ۔
’’ گھی کی ایک کلو کی تھیلی دے دیں۔ ‘‘ خوشی سے میری آواز کپکپا رہی تھی۔
’’ ۱۳۵۔‘‘ وہ مسکرایا۔ طنزیہ ہنسی۔
’’ نئے ریٹ آئے ہیں۔ گھی مزید پندرہ روپے مہنگا ہو گیا ہے۔‘‘
’’ ایک دم سے پندرہ روپے۔‘‘ میں ہکا بکا رہ گیا۔
’’ گھی ہی کیا۔ چاول ۴۰ روپے سے ہوتا ہوا اب سو سے اوپر چلا گیا ہے ۔ تیل کا اور برا حال ہے۔ ‘‘ دکاندار بولا۔ پھر مڑا اور دوسرے گاہک کو سودا دینے لگا۔ دو آنسو ٹوٹ کر میرے گال پر گرے اور میں باہر نکل آیا۔
گھر پہنچا تو دوسرے کمرے سے امی ابو کی باتیں کرنے کی آوازیں آرہی تھیں۔
’’آٹا کس قدر مہنگا ہو گیا ہے۔ میرے بچے ایک روٹی ہی تو کھاتے ہیں۔ کیا اب ہم ان کو ایک روٹی بھی نہیں کھلا سکتے ۔ ہر دس پندرہ روز بعد نئی قیمتیں آجاتی ہیں۔‘‘ امی رو رہی تھیں۔
میں واپس باہر نکل گیا اور ان پیسوں کا آٹا خرید لایا اور خاموشی سے کچن میں رکھ دیا اور اپنے کمرے میں جا کر بے آواز رونے لگا۔ تکیے کے نیچے سے میں نے وہ گھی کی بوتل نکال لی۔ جس پر میں نے اسٹیکر چپکائے تھے۔ روتے روتے آنکھ لگ گئی۔
اگلے صبح پھر میں کھڑکی میں سے احتشام کی امی کو دیر تک پراٹھے پکاتا دیکھتا رہا۔ پھر اپنے کچن میں آیا تو امی روٹیاں پکا رہی تھیں۔ روٹی کے ساتھ میں نے کالی چائے حلق میں انڈیلی اور بستہ سنبھالتا ہوا اسکول روانہ ہو گیا۔
*۔۔۔*۔۔۔*