حق کا متلاشی
کلیم چغتائی
…..
کیا مابہ حق کی تلاش میں کامیاب ہوپایا تھا؟
…..
’مابہ‘ کو کمرے میں بند کر دیا گیا تھا۔ ان کے والد آگ کی پوجا کرتے تھے۔ وہ اس بات پر ناراض تھے کہ مابہ کلیسا جا کر عیسائی لوگوں کی باتیں کیوں سن رہے تھے۔ انھوں نے مابہ کو کلیسا جانے سے منع کیا، مگر بیٹے نے اصرار کیا تو ناراض ہو کر اُسے کمرے میں قید کر دیا۔
مابہ کو آگ کی پوجا کرنا پسند نہیں تھا۔ اُس کا دل کہتا تھا کہ زمین، آسمان، چاند ستاروں کا کوئی ایک خالق ہے۔ مابہ کسی نہ کسی طرح فرار ہو کر ایک قافلے کے ساتھ شام پہنچ گیا۔ جہاں عیسائیت کے ماننے والے تھے۔ اللہ نے مابہ کا امتحان لیا۔ وہ دین کی باتیں سیکھنے کے لیے جس بزرگ کے پاس جاتا، کچھ عرصے بعد ان کا انتقال ہوجاتا۔ انتقال سے پہلے بزرگ، مابہ کو کسی اور بزرگ کے پاس جانے کا مشورہ دیتے۔ اس طرح مابہ، شام سے عراق پھر الجزائر اور پھر روم گیا۔ روم میں ملنے والے بزرگ نے اپنی وفات سے پہلے مابہ سے کہا کہ اب میرے خیال میں ہمارے عقیدے کو ماننے والے موجود نہیں رہے، لیکن عرب کی سر زمین سے ایک پیغمبر ظاہر ہونے والے ہیں۔ وہ دو پتھریلے میدانوں کے درمیان واقع ایک مقام کی طرف ہجرت کریں گے۔ ان کی نشانی یہ ہوگی کہ وہ تحفہ قبول کرلیں گے مگر صدقہ قبول نہیں کریں گے۔ ان کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت ہوگی۔
مابہ روم سے ایک قافلے کے ساتھ عرب چلا گیا، مگر وادی القریٰ پہنچ کر قافلے والوں نے دھوکا دیا اور مابہ کو غلام بنا کر ایک یہودی کے ہاتھ فروخت کردیا۔ کچھ دنوں بعد اس یہودی کے چچا زاد بھائی نے مابہ کو خرید لیا اور یثرب لے گیا جو ’مدینہ منورہ‘ کا پرانا نام ہے۔
مابہ یثرب سے تین میل دور ’قبا‘ کے قریب کام کرنے لگا۔ کچھ عرصے بعد اُسے خبر ملی کہ قبا میں ایک صاحب پہنچے ہیں۔ جو خود کو اللہ کا پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) کہتے ہیں۔ مابہ کچھ کھجوریں لے کر اس مکان پر پہنچا جہاں مکے سے آئے ہوئے لوگ ٹھہرے ہوئے تھے۔ مابہ نے ایک بہت روشن چہرے والے شخص کو دیکھا۔ یہ نبی کریم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ مابہ نے کھجور یہ کہہ کر پیش کیں کہ یہ صدقہ ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجوریں خود نہ کھائیں بلکہ اپنے صحابہ رضی اللہ عنہ میں تقسیم کردیں۔ کچھ دنوں بعد مابہ پھر کھجوریں لے کر پہنچا اور تحفہ کہہ کر پیش کیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجوریں خود بھی کھائیں اور صحابہ رضی اللہ عنہ کو بھی دیں۔ مابہ کو بتائی گئی نبوت کی نشانیاں مل گئی تھیں۔ کچھ عرصے بعد مابہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کرلیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مابہ کا نام ’سلمان‘ رکھا۔
یہ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ ہیں۔ فارس کے علاقے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کہلاتے ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ کا مرتبہ بہت بلند ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم، آپ رضی اللہ عنہ کو بہت عزیز رکھتے تھے۔ کبھی کبھی آپ رضی اللہ عنہ سے تنہائی میں طویل گفتگو فرماتے تھے۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ان خاص صحابہ میں شامل تھے جو ’اصحابِ صفہ‘ کہلاتے تھے۔ یہ صحابہ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بنے ایک چبوترے پر ہی رہتے اور علم حاصل کرنے ہی میں مصروف رہتے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار فرمایا: ”اللہ نے مجھے چار آدمیوں سے محبت کا حکم دیا ہے اور مجھے یہ بھی بتایا ہے کہ وہ بھی ان سے محبت کرتا ہے۔ ان چار افراد میں ’سلمان‘ بھی شامل ہیں۔“
حضرت سلمان رضی اللہ عنہ مسلمان ہوئے تو آپ غلام تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کو مشورہ دیا کہ اپنے آقا سے مکاتیب کرلیں۔ غلام اگر آقا کو کچھ دے کر آزاد ہو جانے کا معاہدہ کرلے تو یہ ’مکاتیب‘ کہلاتا ہے۔ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے اپنے مالک سے بات کی تو اس نے کہا کہ فلاں مقام پر کھجور کے تین سو درخت لگاؤ، ان کو تیار کرو اور چالیس اوقیہ چاندی لاؤ تو میں تم کو آزاد کر دوں گا۔
ایک اوقیہ ڈھائی تولے کا ہوتا ہے یعنی حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کو سو تولے چاندی کی ضرورت تھی۔ یہ شرائط بہت سخت تھیں مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہما دوڑ پڑے۔ کسی نے دس پودے سینچے، کسی نے پندرہ، کسی نے بیس، اس طرح تین سو پودے جمع ہوگئے۔ کھجور کے ان پودوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے مبارک ہاتھوں سے لگایا۔ عام طور پر کھجور کا درخت آٹھ سے دس سال میں پھل دیتا ہے مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ہاتھوں سے لگنے والے پودے اسی سال بڑے ہوگئے اور ان پر پھل آگیا۔ پھر ایک جنگ میں کچھ سونا حاصل ہوا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کو وہ سونا دیا اور فرمایا: ”اسے بیچ کر، چالیس اوقیہ چاندی کی رقم ادا کردو۔“ اب حضرت سلمان رضی اللہ عنہ آزاد تھے۔
بدر اور اُحد کی جنگوں کے بعد کفار مکہ زیادہ طاقت کے ساتھ مدینہ منورہ پر حملہ آور ہوئے۔ انھوں نے یہودیوں کو بھی ساتھ ملا لیا تھا۔ اس موقع پر حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے ایک مفید اور اہم مشورہ دیا کہ مدینہ منورہ کے گرد خندق کھود لی جائے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تجویز بہت پسند فرمائی اور تمام صحابہ رضی اللہ عنہما نے محنت کرکے خندق کھودی۔ اس خندق کی وجہ سے کفار کے بہت بڑے لشکر کو ناکامی کا منھ دیکھنا پڑا۔
غزوہ خندق کے بعد بھی حضرت سلمان رضی اللہ عنہ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تمام مہمات میں شریک ہوئے۔ صلح حدیبیہ، غزوہ خیبر، فتح مکہ، غزوہ حنین، طائف کا محاصرہ، ہر موقع پر حضرت سلمان رضی اللہ عنہ ساتھ رہے۔ طائف میں بنو ثقیف کے مضبوط قلعے کو توڑنے کے لیے حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے ایک اور جنگی طریقے سے عرب والوں کو آگاہ کیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھ سے منجنیق تیار کی اور چلائی۔ منجنیق، پتھر پھینکنے والی ایک مشین ہوتی تھی۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت سلمان رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ میں رہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں آپ رضی اللہ عنہ عراق چلے گئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ عنہ کو دمشق کا قاضی مقرر کیا۔ اس زمانے میں بڑے علاقے کو عراق کہتے تھے۔ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے عراق کی جنگوں میں شرکت کا فیصلہ کیا۔ عراق کے بڑے حصے پر فارس کے بادشاہ ’کسریٰ‘ کی حکومت تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان جنگوں سے حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کو اہم ذمہ داریاں دیں۔
حضرت سلمان رضی اللہ عنہ جنگ قادسیہ میں بھی شریک ہوئے، جس میں اللہ نے ایک لاکھ بیس ہزار کفار کے مقابلے میں مسلمانوں کے تیس ہزار کے لشکر کو فتح عطا فرمائی۔ پھر بُہرشیر اور مدائن فتح ہوئے۔ یہ دونوں شہر دریاے دجلہ پر ایک پل کے ذریعے سے آپس میں ملے ہوئے تھے۔ کفار نے یہ پل توڑ دیا تھا۔ اسلامی فوج کے سپہ سالار حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ تھے۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے خواب دیکھا کہ مسلمانوں کے گھوڑے دریا میں داخل ہوگئے ہیں اور انھوں نے دریا پار کر لیا ہے۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نیند سے بیدار ہوئے تو انھوں نے گھوڑوں کی مدد سے دریا پار کرنے کا فیصلہ کرلیا چنانچہ مسلمان سپاہیوں نے اپنے گھوڑے دریا میں اُتار دیے۔ دریا میں طوفانی موجیں اٹھ رہی تھیں مگر اللہ کی نصرت سے اسلامی فوج دریا پار کر گئی۔ دریا پار کرتے ہوئے حضرت سلمان رضی اللہ عنہ، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے۔ دشمن نے مسلمانوں کو اس طرح دریا پار کرتے دیکھا تو ”دیو آگئے دیو آگئے“ کہتے ہوئے بھاگ کھڑے ہوئے۔
حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کے مشورے پر ہی مدائن کے بجاے کوفہ شہر آباد کرکے صوبائی صدر مقام بنایا گیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اب حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کو مدائن کا حاکم بنا دیا۔ اس زمانے میں بھی آپ رضی اللہ عنہ اپنے ہاتھ سے جوتے تیار کرتے، کھجور کی چٹائیاں بُنتے اور ان اشیا کو فروخت کرکے گزر بسر کرتے۔ حکومت سے ملنے والی تنخواہ اللہ کی راہ میں خرچ کردیتے۔
حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آخری زمانے میں ایک خاتون بُقیرہ رضی اللہ عنہا سے شادی فرمائی۔ اللہ نے آپ رضی اللہ عنہ کو تین بیٹے اور ایک بیٹی عطا فرمائی۔
حضرت سلمان رضی اللہ عنہ بہت بڑے عالم تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کو حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں فتویٰ دینے والے صحابہ رضی اللہ عنہما میں شامل کیا گیا تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ کئی زبانیں جانتے تھے، ان میں فارسی، عربی اور عبرانی شامل تھیں۔ آپ رضی اللہ عنہ کئی فنون میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ ان میں گیوتراشی، چمڑا رنگنا، کاشت کاری، بوریاں بُننا، چٹائیاں تیار کرنا شامل تھا۔
36 ہجری (656ء) میں حضرت سلمان رضی اللہ عنہ بیمار ہوگئے۔ اس بیماری کے باعث آپ رضی اللہ عنہ نے انتقال فرمایا۔ آپ رضی اللہ عنہ کو مدائن میں سپرد خاک کیا گیا۔ یہ علاقہ آپ رضی اللہ عنہ کی یاد میں ’سلمان پارک‘ کہلاتا ہے۔
٭……٭