skip to Main Content

ہمارے نبی ﷺ

سید نواب علی ایم۔اے

۔۔۔۔۔۔۔۔

باب۱
حضرت بی بی آمنہ قریش کے خاندان میں بڑی نیک بخت بی بی تھیں۔ان کی شادی مکہ کے سردار حضرت عبدالمطلب کے بیٹے حضرت عبداللہ سے ہوئی،خدا کے پیارے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے اکلوتے بیٹے تھے۔آپ کے پیدا ہونے میں دو تین ہفتے باقی تھے کہ ایک عیسائی بادشاہ نے مکہ پر چڑھائی کی اور بہت سی فوج اور بڑے بڑے ہاتھی ساتھ لا کر چاہا کہ کعبہ کو گرا دے اور قریش کو پکڑ لے جائے مگر ہمارے نبی کی برکت سے بہت سی ابابیلیں چونچ اور پنجوں میں خدا کے حکم سے کنکریاں داب کر آسمان پر چھا گئیں اور دشمنوں کے سروں پر برسانا شروع کیں ۔وہ کنکریاں ایسی غضب کی تھیں کہ دشمن ٹھیر نہ سکے اور ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔
حضرت بی بی آمنہ بے چاری پہاڑ میں چھپ رہی تھیں جب دشمن بھاگے،گھر آئیں۔ہمارے نبی دو شنبہ کے دن صبح کو پیدا ہوئے، بعضے کہتے ہیں جمعہ تھا مگر دوشنبہ ہو یا جمعہ سب دن اللہ کے ہیں۔
ہمارے نبی کا نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم رکھا گیا۔کیا پیار انام ہے۔ درود پڑھو ،اللھم صل علیٰ محمد و علیٰ آلہ و سلم، خدا اور اس کے فرشتوں نے آپ پر درود بھیجا۔زمین اور آسمان میں دھوم مچی۔آپ کی برکت سے سب بلائیں دور ہو گئیں۔ مکہ میں قحط تھا،بیماری پھیلی تھی۔آپ کے پیدا ہوتے ہی پانی برسا،بیماری دفع ہوئی اور برکتیں نازل ہوئیں۔
باب ۲
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیدا ہونے سے کچھ دن پہلے آپ کے والد حضرت عبداللہ انتقال کر چکے تھے،حضرت بی بی آمنہ بھی چند سال بعد دنیا سے رخصت ہو گئیں،ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بچپن میں یتیم ہوگئے۔ نہ باپ کا سایہ رہا نہ ماں کی گود میں کھیلنے پائے،نہ کوئی بھائی تھا نہ کوئی بہن۔آپ کے چچا حضرت ابو طالب نے آپ کو بہت محنت سے پالا۔آپ کی بھولی بھالی صورت اور پیاری پیاری باتوں سے سب خوش ہوتے تھے۔
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چچیرے بھائیوں کے ساتھ حضرت موسیٰ نبی کی طرح جنگل میں بکریاں چرانے جاتے تھے۔گھر کا کام کاج کرتے تھے اور میل ملاپ کے ساتھ رہتے تھے۔
جب جوان ہوئے، آپ کے خاندان کی ایک بی بی حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنا مال تجارت کے لیے دے کر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ملک شام کی طرف بھیجا۔آپ نے مال بیچ کر خوب نفع کمایا اور گھر پہنچ کر کوڑی کوڑی کا حساب دے دیا۔
حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیوہ تھیں۔آپ کی سچائی،محنت اور لیاقت سے بہت خوش ہوئیں اور چاہا کہ آپ کے ساتھ نکاح کر لیں۔حضرت ابو طالب نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کر دیا۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بڑی نیک بی بی تھیں،ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت خدمت کی اور آپ کو بھی ان سے محبت تھی۔
باب ۳
بازار میں ایک دن لوگ کہیں سے ایک لڑکے کو پکڑ لائے اور اس زمانے کے دستور کے مطابق بیچ رہے تھے۔حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے لڑکے کو خرید لیا اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کے لیے پیش کیا۔
آپ کو اس غلام پر بہت ترس آیا۔اس پر بہت مہربانی کی اور اچھی طرح سے رکھا۔اس لڑکے کو آپ سے ایسی محبت ہوگئی کہ جب اس کا باپ مکہ میں آیا اور چاہا کہ روپیہ دے کر لڑکے کو واپس لے تو وہ لڑکا کسی طرح راضی نہ ہوا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے چلا جائے۔کیسا نیک لڑکا تھا جس نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نہ چھوڑا۔
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بچوں پر بہت مہربان تھے۔ان کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرتے تھے اور ان کو پیار کرتے تھے۔
باب ۴
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب چالیس برس کے ہوئے تو خدا نے حضرت جبرئیل فرشتہ کو جو حضرت عیسیٰ ،حضرت موسیٰ اور سب نبیوں کے پاس خدا کا کلام لاتے تھے بھیجا اور حکم دیا کہ”اے محمد! میرے بندوں کو اچھی باتیں بتا¶،بری باتوں سے روکو اور سب کو سیدھے راستے پر چلا ¶۔“
ہمارے نبی خدا کا فرمان سن کر صفا پہاڑ پر چڑھ گئے اور اپنے عزیزوں اور قریش کے سب آدمیوں کو پکارنا شروع کیا۔سب لوگ آپ کے پاس جمع ہو گئے تو آپ نے فرمایا:
”لوگو!اگر میں تم سے کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک بڑی بھاری فوج چھپ ر ہی ہے تاکہ تم کو مارپیٹ کر تمہارا مال و اسباب چھین لے جائے تو کیا تم یقین کرو گے؟“
سب لوگ بول اٹھے،”ہاں، ہم یقین کریں گے، اس وجہ سے کہ ہم خوب جانتے ہیں کہ بچپن سے آج تک تم کبھی جھوٹ نہیں بولے۔ تم نے ہمیشہ ہماری بھلائی کا خیال رکھا۔کہو کیا کہتے ہو۔تم جو کہو گے ہم سچ سمجھیں گے۔“
یہ سن کر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پکار کر کہا،”لوگو! تم مجھ کو سچا مانتے ہو تو سنو،ایک دن ہم سب کو اس دنیا سے خدا کے سامنے چلنا ہے،جیسا کرو گے ویسا پا¶ گے،وہاں کوئی کسی کی مدد نہیں کرسکتا،نہ تمہارے بت تمہارے کام آئیں گے، نہ کوئی خدا کے سامنے تمہاری سفارش کرے گا۔ بس ایک اللہ کو مانو جو ہم سب کا پالنے والا اور ماں باپ سے زیادہ مہربان ہے۔“
یہ سن کر جو لوگ اچھے تھے انہوں نے آپ کا کہا مانا اور مسلمان کہلائے اور جو برے تھے انہوں نے کچھ خیال نہ کیا اور کافر ہوگئے۔
باب۵
ہمارے نبی امیر اور غریب، ادنیٰ اور اعلیٰ سب کو خدا کا کلام سناتے تھے اور نیک راہ بتاتے تھے مگر کافر آپ کی نصیحت نہیں سنتے تھے اور آپ کو طرح طرح کی تکلیفیں دیتے تھے۔کوئی کہتا تھا آپ جادوگر ہیں، کوئی کہتا دیوانے ہیں۔توبہ توبہ آپ کو کیسا برا کہتے تھے۔مگر خدا کے پیارے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کا کچھ خیال نہیں فرماتے تھے اور ان کو اچھی باتیں اور نیکی کرنا سکھاتے تھے۔
آپ جدھر سے نکلتے تھے کوئی کافر آپ پر خاک جھونک دیتا تھا،کوئی راستے میں کانٹے ڈال دیتا تھا، جس سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پا¶ں لہو لہان ہوجاتے تھے،غرض کہ آپ کو طرح طرح سے ستا تے تھے اور آپ کے ساتھ آپ کے ماننے والوں کو بھی سخت تکلیفیں دیتے تھے۔جوا میر تھے انہیں گالیاں دیتے تھے اور جو غریب تھے ان میں سے کسی کو جلتی ہوئی زمین پر دوپہر کے وقت لٹا کر سینے پر پتھر رکھ دیتے تھے اور کسی کو کوڑے مارتے تھے۔مگر وہ سچے مسلمان سب مصیبتیں سہتے تھے لیکن اپناپاک دین اسلام جس کو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا تھا، نہیں چھوڑتے تھے۔
باب ۶
کافروں نے ایک دن اپنے ایک بڑے سردار کو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس لئے بھیجا کہ آپ کو دنیا کا لالچ دلاکر خدا کی راہ بتانے سے روک دے۔وہ سردار آیا اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت نرمی کے ساتھ کہنے لگا:
”اے میرے بھائی کے بیٹے!اگر تمہارا اس کام سے مال اور دولت جمع کرنے کا ارادہ ہے تو ہم سے کہہ دو ہم سب مل کر تم کو مالامال کر دیں گے،اگر عزت اور مرتبہ چاہتے ہو تو آ¶ تم کو اپنا رئیس بنالیں،اور حکومت چاہتے ہو تو کہو ہم تم کو اپنا بادشاہ بنا لیں اور اگر تمہیں کوئی بیماری ہے تو ہم اس کا علاج کرا دیں۔“
یہ سن کر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا:”اے سردار! مجھے یہ کچھ نہیں چاہیے، آپ جائیے اور لوگوں سے کہہ دیجیے کہ بس ایک ہی خدا کو مانو،اسی سے اپنے گناہوں کی معافی مانگو۔“
باب ۷
کافروں نے مسلمانوں کو اس قدر ستایا کہ مکہ میں رہنا مشکل ہو گیا۔ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حال دیکھ کر بہت سے مسلمانوں کو حبشیوں کے ملک میں جہاں کا بادشاہ عیسائی تھا ،بھیج دیا۔کافروں نے پیچھے پیچھے اپنا قاصد بادشاہ کے پاس بھیجا تاکہ ان بے چاروں کو وہاں بھی پناہ نہ ملے۔
بادشاہ نے مسلمانوں کو دربار میں بلوا کر ان کا حال پوچھا۔حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچیرے بھائی نے جواب دیا۔
”اے بادشاہ! ان بتوں کو پوجتے تھے۔گندے رہتے تھے۔مردار کھاتے تھے۔بات بات پر لڑتے تھے اور بےہودہ بکتے تھے،خدا نے ہم پر بڑا فضل کیا کہ ہماری قوم میں ایک نبی پیدا کیا جن کا نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔وہ بہت شریف،نیک اور سچے آدمی ہیں۔انہوں نے ہم کو سمجھایا ہے کہ ہم ایک خدا کو مانیں،بتوں کی پوجا چھوڑ دیں، سچ بولیں،جو وعدہ کریں پورا کریں۔اے بادشاہ ہم نے اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کہنا مانا، اس پر ہماری قوم ہم سے خفا ہے اور ہم کو اس قدر ستایا کہ ہم اپنا گھر بار چھوڑ کر تیرے ملک میں پناہ لینے آئے ہیں۔“
بادشاہ نے یہ سن کر کہا،”اچھا کچھ قرآن پڑھو۔“حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سورہ مریم کی چند آیتیں ایسی پڑھیں کہ بادشاہ اور اس کے دربار کے پادریوں کے آنسو جاری ہوگئے اور کہنے لگے کہ”بے شک یہ خدا کا کلام ہے۔مسیح نے انجیل میں اسی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے پیش گوئی کی تھی۔حقیقت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔“
باب ۸
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کافروں نے بہت ایذا دی تو تھوڑے دن کے واسطے آپ مکہ سے نکل کر طائف کے شہر میں تشریف لے گئے اور وہاں لوگوں کو ہدایت کرنا شروع کی۔طائف کے سرداروں کو اپنے مال اور دولت پر بہت غرور تھا۔نہ خدا کا کلام سنا اور نہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قدر کی بلکہ غلاموں اور لڑکوں کو لگا دیا جنہوں نے آپ کو گالیاں دے دے کر پتھر مارے اور شہر سے باہر کردیا۔
ہمارے نبی زخموں سے چور بھوکے پیاسے جنگل میں ایک کھجور کے درخت کے نیچے بیٹھ گئے اور نماز پڑھ کر دعا مانگی،”خداوندا! تو خوش ہے تو کچھ غم نہیں،میں تیرا پیام پہنچانے میں پوری کوشش کروں گا تو ہی میری مدد کر۔“
آخر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پھر مکہ لوٹ آئے اور اب مسافروں کو جو مکہ میں باہر سے آ کر ٹھہرتے تھے ،ہدایت کرنا شروع کی چنانچہ چند آدمی جو مدینہ سے آئے تھے، خدا کا کلام سن کر آپ پر ایمان لائے۔
باب ۹
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات کعبہ میں لیٹے تھے، خدا نے حضرت جبرائیل کو بھیجا اور آپ کو آسمان پر بلایا۔
فرشتہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے بیت المقدس میں لے گیا ۔وہاں آپ نے نماز پڑھی۔پھر آسمان پر لے گیا جہاں آپ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام،موسیٰ علیہ السلام،یوسف علیہ السلام، ابراہیم علیہ السلام ،نو ح علیہ السلام اور آدم علیہ السلام سب نبیوں سے ملاقات کی۔
پھر خدا نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمان کے اوپر اپنے پاس بلایا ۔آپ سے کلام کیا اور بڑا مرتبہ عطا کیا اور حکم دیا کہ اپنی امت کو فجر،ظہر،عصر،مغرب اور عشائ،پانچوں وقت کی نماز پڑھنے کی تاکید کرنا، جس سے خدا کے یہاں ان کو بڑا مرتبہ ملے گا۔
اس کے بعد ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے واپس آئے اور آسمانوں کے عجائبات دیکھے۔فرشتوں اور نبیوں نے آپ کو مبارکباد دی،پھر حضرت جبرائیل ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جہاں سے ساتھ لے گئے تھے وہیں اسی رات کو پہنچا گئے۔
باب ۱۰
مدینہ والوں نے جب اپنے ساتھیوں سے،جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تھے،آپ کا حال سنا تو خوشی خوشی مکہ میں آپ کے پاس آئے۔خدا کا کلام سنا اور مسلمان ہو گئے۔پھر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگے،”یا رسول اللہ!کافروں نے اس شہر میں آپ کو بہت تکلیف دی ہے اور مسلمانوں کا یہاں رہنا مشکل ہے۔اب آپ مدینہ تشریف لے چلئے اور وہاں لوگوں کو ہدایت کیجیے۔ہم سب جان اور مال سے آپ کی خدمت کے لئے حاضر ہیں۔“
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول کیا اور آپ کے فرمانے کے مطابق مسلمان اپنے بھائیوں کے ساتھ مدینہ چلے گئے ۔پھر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی تیاری کی۔کافروں نے جب یہ دیکھا ،بہت بگڑے اور سبھوں نے مل کر آپ کے مار ڈالنے کی تجویز کی اور رات کے وقت مکان کے آس پاس چھپ رہے تاکہ موقع پا کر چپکے سے آپ کا کام تمام کردیں۔
مگر خدا نے ہمارے نبی کو بچا لیا۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کے بستر پر لیٹ گئے اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکان سے نکل کر حضرت ابو بکررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ شہر کے باہر ایک غار میں نظروں سے غائب ہو گئے۔کافر کچھ نہ کر سکے۔
صبح کو کافروں نے چاروں طرف سوار دوڑائے اور خود بھی ڈھونڈنے نکلے کہ جہاں آپ ملیں وہیں قتل کر ڈالیں،چند کافر غار تک پہنچے ،اس وقت حضرت ابوبکر کو نہایت غم ہوا مگر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت اطمینان سے فرمایا،”کیا غم ہے اللہ ہمارے ساتھ ہے۔“
خدا کی قدرت کا تماشا دیکھو۔اس غار کے منہ پر مکڑی نے جالا تان دیا تھا اور جنگلی کبوتر نے انڈے دے دئیے تھے۔ کافر سمجھے کہ یہ غار ویران پڑا ہے۔اندر نہ آئے۔آپ کی تلاش میں آگے بڑھ گئے،آخر نا کام آئے۔
تیسرے دن ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم غار سے نکلے اور مدینہ کو چلے مگر ایک سوار نے آپ کو دیکھ لیا اور نیزہ لے کر پیچھے دوڑا۔ خدا نے اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کی،گھوڑے نے ٹھوکر کھائی اور سوار منہ کے بل پتھریلی زمین پر گر پڑا۔ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دشمن پر رحم کر کے دعا دی،وہ اٹھ کھڑا ہوا اور آپ پر ایمان لایا ۔
باب ۱۱
مدینہ پہنچ کر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سب مسلمانوں کے ساتھ مل کر اپنے ہاتھ سے ایک مسجد بنائی اور خدائے پاک کی عبادت بے روک ٹوک ہونے لگی۔
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں مسلمانوں کے ساتھ نماز پڑھ کر فرماتے تھے۔”جو شخص خدا کی مخلوق سے محبت رکھتا ہے اور بچوں کو پیار کرتا ہے، خدا اس پر مہربان ہے۔لوگو! محتاجوں کو کھانا کھلاﺅ اور عزیزوں اور غیروں سب سے نیک سلوک کرو،خندہ پیشانی کے ساتھ سلام کر کے ایک دوسرے سے ملو، خود نیکی کرو اور دوسروں کو نیکی کرنا سکھاﺅ۔“
یہودیوں کے ایک سردار عبداللہ ابن سلام نے جس وقت ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت سنی اور آپ کے چہرے پر خدا کا نور چمکتا ہوا دیکھا ،فوراً کلمہ پڑھا۔اسی طرح بہت سے مدینہ والے مسلمان ہو گئے۔
مکہ کے کافر یہ حال سن کر بہت بگڑے اور یہاں بھی چین سے نہ بیٹھنے دیا۔بار بار فوجیں لے کر مدینہ پر حملہ کرتے تھے تا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اور مسلمانوں کو قتل کرکے اسلام کو مٹا دیں مگر خدا نے اسلام کو فتح دی۔
باب ۱۲
احد کی لڑائی میں کافروں نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تیروں اور پتھروں سے اس قدر زخمی کیا کہ آپ غش کھا کر گر پڑے،کافر سمجھے کہ آپ کا خاتمہ ہو گیا مگر خدا نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو زندہ رکھا،آپ اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے دشمنوں کے واسطے دعا کی،”خداوندا میری قوم کو ہدایت دے،یہ جانتے نہیں ہیں۔“
ایک دن آپ ایک درخت کے نیچے تنہا سو رہے تھے،ایک کافر جس کا نام وعشور تھا، لپکا اور تلوار سونت کر کہنے لگا۔”محمد صلی اللہ علیہ وسلم اب تم کو کون بچا سکتا ہے؟“ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ بیٹھے اور کہنے لگے،”خدا میرا بچانے والا ہے۔“یہ کہہ کر وعشور کی تلوار چھین لی اور فرمایا،”اب تو بتا تجھے کون بچائے گا۔“وعشور اپنی زندگی سے مایوس ہو کر کہنے لگا،”کوئی نہیں۔“
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر تلوار اس کے سامنے پھینک دی اور فرمایا،”وعشور اپنی تلوار اٹھا لے اور مجھ سے رحم کرنا سیکھ۔“وعشورپر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بہادری اور رحم کا ایسا اثر ہوا کہ اسی وقت توبہ کی اور کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا۔
باب ۱۳
مکہ کے کافر مسلمانوں سے سات برس تک سخت لڑائیاں لڑتے رہیں مگر کچھ نہ کر سکے۔ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آخر مسلمانوں کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے،سب کافر گھیر لیے گئے۔یہ وہی کافر تھے جنہوں نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اور مسلمانوں کو طرح طرح کی تکلیفیں دی تھیں اور قتل کر ڈالنا چاہتے تھے،انہی کے ظلم سے مکہ چھوڑ دینا پڑا تھا۔
غرض کہ جب سب کافروں کو مسلمانوں نے گھیر لیا ،ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،”لوگو! تمہارا کیا خیال ہے،آج تمہارے ساتھ کیسا برتا¶ کیا جائے گا۔“کافروں نے سرجھکا کر جواب دیا،”اے ہمارے نیک بھائی ہم پر رحم کیجئے۔“
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آبدیدہ ہوکر فرمایا،”میں نے تم سب کو معاف کیا،جا¶ تم سب آزاد ہو۔“
کافروں کو یقین تھا کہ ان کے گناہ معافی کے قابل نہیں ہیں اور ان سے ضرور بدلہ لیا جائے گا،مگر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ رحم اور کرم دیکھ کر بہت شرمندہ ہوئے اور کہنے لگے،”بے شک آپ سچے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خدا کی رحمت ہیں۔“اسی دن سے کافروں نے توبہ کی اور سب آپ پر ایمان لائے۔
ان کافروں میں ایک شخص ہباربن اسود بھی تھا جس نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی بیٹی حضرت زینب کو بڑی اذیت دی تھی،اس دن یہ شخص ڈر کے مارے چھپ رہا۔پھر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا،”میں اب بہت شرمندہ ہوں،آپ میرا گناہ معاف فرمائیے۔“ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سرجھکا لیا اور فرمایا،”تو اب کیوں شرمندہ ہے،جا میں نے تجھے معاف کیا۔“
باب ۱۴
حبشی کافروں کا ایک غلام تھا۔اس نے احد کی لڑائی میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کرکے آپ کا جگر نکال لیا تھا۔مکہ فتح ہونے کے بعد بھاگا بھاگا پھرتا تھا۔آخر کوئی پناہ کی جگہ نہ پا کر ایک دن ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور کہنے لگا،”مجھے اتنی مہلت دیجئے کہ میں آپ سے خدا کا کلام سنوں۔“ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی:
قُل± یَا عِبَادِیَ الَّذِی±نَ اَس±رَفُو±ا عَلٰی اَن±فُسِہِم± لَا تَق±نَطُو±ا مِن± رَّح±مَةِ اللّٰہِ، اِنَّ اللّٰہَ یَغ±فِرُالذُّنُو±بَ جَمِی±عاً
ترجمہ:
”اے محمد کہہ دو کہ اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے خدا کی رحمت سے ناامید نہ ہو۔بے شک اللہ سب گناہوں کو بخشنے والا ہے۔(پارہ ۴۲)
حبشی یہ سن کر کہنے لگا،”کیا میرا بھی گناہ معاف ہو سکتا ہے؟“ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”کیوں نہیں۔“حبشی نے اسی وقت توبہ کی اور آپ پر ایمان لایا۔
باب ۱۵
ایک لڑائی میں ایک قبیلے کے بہت سے کافر پکڑے گئے۔ان میں حاتم طائی کی بیٹی بھی تھی،ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم قیدیوں کے پاس گئے،حاتم کی بیٹی نے آپ کو دیکھ کر کہا:
”میں اپنی قوم کے سردار حاتم کی بیٹی ہوں جو عرب میں بڑا سخی مشہور ہے،میرا باپ مرچکا ہے،بھائی شکست کھا کر بھاگ گیا ہے۔میرا کوئی مددگار نہیں ہے،اور میں قیدی ہوں۔“
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت نرمی اور مہربانی سے فرمایا،”اے لڑکی تیرے باپ میں تو سچے ایمان والوں کی سی صفت تھی، وہ بڑا سخی تھا، جا میں نے تجھے چھوڑدیا۔“لڑکی نے کہا،”میرے ساتھ میری قوم پر بھی رحم کیجیے۔“ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قیدیوں کو بھی چھوڑ دیا اور اس لڑکی کو راستے کا خرچ دے کر اس کے بھائی عدی کے پاس بھیج دیا۔عدی نے جب اپنی بہن سے یہ حال سنا،ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور توبہ کرکے مع اپنی بہن کے مسلمان ہو گیا۔
باب ۱۶
نجران کے عیسائی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے،”مسیح کنواری مریم علیہا السلام سے پیدا ہوا،وہ خدا کا بیٹا ہے۔باپ بیٹا اور روح القدس یہ تین ایک ہیں۔“
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،”مسیح تو بے باپ کے پیدا ہوئے مگر بتا¶ آدم علیہ السلام کے ماں باپ کون تھے۔“
”سنو! خدا کی ذات پاک ہے، نہ اس کا کوئی بیٹا ہے،نہ بی بی،وہی سارے جہان کا پالنے والا اور ہم سب کا مالک ہے۔موسیٰ نبی کی طرح عیسیٰ علیہ السلام بھی نبی تھے اور خدا کے نیک بندے۔“
یہ سن کر عیسائیوں نے تکرار شروع کی۔آخر یہ طے ہوا کہ عیسائیوں کا پیشوا اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اپنے بال بچوں کو ساتھ لے کر دعا کریں کہ جو جھوٹ کہتا ہو، اس کو خدا غارت کرے۔
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم صبح کو اس شان سے چلے کہ اپنے چھوٹے نواسے حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو گود میں لیے ہوئے، بڑے نواسے حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ کی انگلی پکڑے ہوئے،پیچھے حضرت بی بی فاطمہ آپ کی بیٹی اور ان کے پیچھے ان کے شوہر حضرت علی۔
عیسائیوں کا پیشوا یہ حال دیکھ کر کہنے لگا،”میرے بھائیو، ان سے ہرگز مقابلہ نہ کرنا،یہ ایسے نیک بندے معلوم ہوتے ہیں اور ان کی صورتوں پر ایسی روشنی ہے کہ اگر خدا سے دعا مانگیں کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ جائے تو بے شک خدا ان کی دعا قبول کرے گا۔“
عیسائی یہ سن کر قائل ہو گئے اور آخر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صلح کر لی۔
باب ۱۷
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی محتاج آتا توآپ بھوکے رہتے اور اس کو اپنا کھانا کھلاتے اور اپنا کپڑا اتار کر دے دیتے اور کبھی کسی کا سوال رد نہ فرماتے۔آپ سیدھی سادی زندگی بسر کرتے تھے۔غریبوں کے پاس بیٹھتے تھے اور مسکینوں کو اپنے ساتھ کھانا کھلاتے تھے۔
ایک دن آپ کوٹھری میں چٹائی پر لیٹے تھے اور کچھ بچھانے کو نہ تھا،چٹائی کے نشان آپ کے جسم پاک پر بن گئے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ دیکھ کر کہا،”روم اور ایران کے بادشاہ عیش کرتے ہیں مگر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو دین اور دنیا کے بادشاہ ہیں،آہ! اس حال میں رہتے ہیں۔“
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا،”مجھے دنیا کا عیش نہیں چاہیے،خداوندا مجھے مسکینوں کی طرح موت دے۔“
باب ۱۸
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سے معجزے دکھائے۔ایک دن آپ جنگل میں جا رہے تھے اور بہت سے دین دار آپ کے ساتھ تھے،گرمی کی شدت تھی،دوپہر کا وقت اور پانی کا کہیں نشان نہیں۔
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تب ایک چھوٹی سی مشک جس میں تھوڑا سا پانی تھا، اٹھائی اور لوگوں کو بلانا شروع کیا۔سبھوں نے پانی کو پیا اور وہ چھوٹی سی مشک سیکڑوں آدمیوں کے واسطے کافی ہوگئی۔
اسی طرح ایک مرتبہ ایک غریب مسلمان نے آپ سے عرض کیا،”میرا باپ یہودیوں کا قرضہ چھوڑ کر مر گیا ہے۔ یہودی مجھ پر سختی کرتے ہیں اور اپنا روپیہ مانگتے ہیں،مگر میں محتاج ہوں۔“
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،”تیرے پاس کوئی چیز ہو تو لا۔“اس نے تھوڑے سے خرمے لاکر رکھ دیے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خرموں پر اپنا مبارک ہاتھ پھیرا اور فرمایا،”اب ان خرموں کو تول تول کر قرض خواہوں کو دینا شروع کر۔“اس نے ایسا ہی کیا اور منوں خرمے تول دیے اور سارا قرضہ ادا ہو گیا۔
ایسے بہت سے معجزے آپ نے دکھائے مگر سب سے بڑا معجزہ آپ کا قرآن ہے جس کا مثل نہیں ہے اور نہ ہوگا۔
باب ۱۹
یہودیوں کو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت دشمنی تھی اور چاہتے تھے کہ کسی طرح آپ کو قتل کر ڈالیں۔کبھی لڑتے تھے،کبھی دغاکرتے تھے،کبھی لوگوں کو بہکا کر مدینہ پر حملہ کرا دیتے تھے،مگر خود ہی ذلیل ہوتے تھے۔
ایک دن یہودیوں کے سردار حارث کی بیٹی زینب نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی اور کھانے میں چپکے سے زہر دے دیا۔مسلمانوں کو جب یہ حال معلوم ہوا،زینب کو پکڑا مگر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،”اب اس عورت کو چھوڑ دو میں نے معاف کیا۔“
عورت چھوڑ دی گئی مگر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آخر اسی زہر کے اثر سے ۳۶ برس کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوکر خدا کے پاس پہنچے۔
مدینہ میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی کے حجرے میں آرام فرماتے ہیں،لاکھوں کروڑوں مسلمان ملکوں ملکوں سے آتے ہیں اور آپ کی زیارت کر کے درود شریف پڑھتے ہیں۔
باب ۲۰
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تیرہ برس مکہ میں اور دس برس مدینہ میں کل تئیس برس تک خدا کے حکم سے لوگوں کو ہدایت فرماتے رہے۔
خدا نے اپنا پاک کلام قرآن شریف آپ پر اتارا جس سے بڑھ کر دنیا میں کوئی کتاب نہیں ہے،یہ آسمانی کتاب ہم کو سچا مذہب سکھاتی ہے۔
ہم ایک اللہ کو مانتے ہیں،اسی کی عبادت کرتے ہیں ،نہ کوئی اس کا بیٹا ہے نہ کوئی باپ،اسی نے زمین ،آسمان، چاند،سورج ستارے،چڑیا ں،جانور،آد می ،سب کو پیدا کیا ہے،اور وہی سب کو پالتا ہے۔فرشتے اس کے پاک بندے ہیںاور دن رات اس کا حکم بجا لاتے ہیں۔
وہ اللہ ایسا مہربان ہے کہ اس نے ہمیں اچھی باتیں سکھانے کے واسطے ہر جگہ نبیوں کو بھیجا،جنہوں نے اپنے اپنے زمانے میں لوگوں کو نیک راہ بتائی ،سب کے بعد خدا نے ہمارے نبی محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا جنہوں نے اسلام کا ایسا کامل دین سکھایا کہ اب کسی نبی کی قیامت تک ضرورت نہیں ہے۔اسلام ساری دنیا کو نجات کا سیدھا اور صاف راستہ بتاتا ہے۔
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی اچھی تعلیم دی کہ اب ہندو اور عیسائی سب ایک خدا کو مانتے جاتے ہیں۔ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا نبی مانتے ہیں اور آپ کے پہلے جتنے نبی اور نیک بندے تھے سب کو سچا مانتے ہیں۔
ہم یقین کرتے ہیں کہ ہم سب مرنے کے بعد زندہ ہوں گے۔ جو نیک ہیں وہ بہشت میں چین کریں گے اور جو بد ہیں وہ دوزخ میں جائیں گے۔
ہم یقین کرتے ہیں کہ جو کچھ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو سکھایا ،وہ سب خدا کے حکم سے سکھایا اور ہم کو ویسا ہی کرنا چاہیے۔
ہم سب گناہگار ہیں مگر خدا کی رحمت سے نا امید نہیں ہیں ۔ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی میں دشمنوں کے واسطے بھی دعا مانگتے تھے۔ ہم اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے ہیں،کیا آپ ہمارے واسطے خدا سے دعا نہ مانگیں گے؟
خدا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا قبول کرتا تھا،ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب ہمارے واسطے دعا کریں گے کیا قبول نہ ہوگی؟
بے شک ہم اپنے پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے ہیں،آپ ہمارے واسطے خدا سے دعا مانگیں گے اور خدا ہم کو دنیا اور دین میں خوش رکھے گا۔
ہم سب کلمہ پڑھتے ہیں۔
لاالہ الااللہ محمدرسول اللہ
(نہیں ہے کوئی معبود بجز اللہ کے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں)
ہم سب اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں:
اللھم صل علیٰ محمد و علیٰ آل محمد
(اے اللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ کی اولاد پر درود بھیج)

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top