گوشت کا ٹکڑا
کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔۔
پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے۔ جب وہ درست ہو تو سارا جسم درست رہتا ہے اور جب وہ بگڑ جائے تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے۔ وہ دل ہے۔“ (صحیح بخاری)
دل ہمارے جسم کا نہایت اہم حصہ ہے۔ یہ نہ ہو تو ہمارے جسم کے اعضا بھی ناکارہ ہو جائیں، کیونکہ یہ دل ہی ہے جو پورے جسم کو خون کی فراہمی کا انتظام کرتا ہے۔ دل ہی سے خون کی تمام نالیاں جُڑی ہوئی ہیں جو پورے جسم میں خون لے کر جاتی ہیں۔ دل کسی بہترین پمپ کی طرح، صاف خون کو دباؤ کے ساتھ جسم کے مختلف حصوں میں بھیجتا ہے۔ یہ صاف خون، آکسیجن لے کر جاتا ہے اور یہی خون غیر صاف حالت میں واپس دل میں آتا ہے اور دل اسے پھیپھڑوں میں بھیج دیتا ہے جہاں غیر صاف خون میں شامل کاربن ڈائی آکسائیڈ پھیپھڑوں اور پھر ناک کے راستے، ہمارے جسم سے خارج ہو جاتی ہے۔
دل ہمارے جسم کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ اس کا وزن صرف ڈھائی سو گرام کے قریب ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے زبردست صلاحیتیں عطا فرمائی ہیں۔ یہ ہماری پیدائش سے لے کر ہماری زندگی کے آخری سانس تک اتنا زیادہ کام کرتا ہے کہ اس جیسی کوئی مشین اتنا کام نہیں کر سکتی۔
دل نہ صرف پورے جسم کو صاف خون کی مسلسل فراہمی جاری رکھتا ہے بلکہ ضرورت کے مطابق خون کی روانی، دباؤ اور فراہم کیے جانے والے خون کی مقدار میں کمی اور اضافہ بھی کرتا رہتا ہے۔ ہمارے جسم میں عام طور پر تقریباً پانچ لیٹر خون ہوتا ہے۔ یہ خون دل سے ہوتا ہوا پورے جسم میں پھیل رہا ہوتا ہے۔ جب ہم محنت مشقت کرتے ہیں یا دوڑ تے بھاگتے ہیں تو ہمارے جسم کو زیادہ آکسیجن اور غذا کی ضرورت پڑتی ہے، اس لیے دل فوراً اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے تیزی سے دھڑکنا شروع کر دیتا ہے، یعنی جلدی جلدی سکڑ کر اور پھیل کر خون کو پورے جسم میں تیزی سے بھیجنے لگتا ہے۔ ایسی صورت میں دل سے ایک منٹ میں تقریباً بیس لیٹر خون خارج ہو کر جسم کے مختلف حصوں تک پہنچ رہا ہوتا ہے۔ دل ہمارے جسم کا بڑا محنتی حصہ ہے، چونکہ اس کو مسلسل کام کرنا پڑتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کو بہت مضبوط پٹھوں (عضلات) سے بنایا ہے۔ ہمارے جسم میں کسی اور جگہ اتنے مضبوط پٹھے نہیں ہوتے۔ دل ہمارے سینے کے تقریباً بیچ میں، تھوڑ اسا با ئیں طرف واقع ہے۔
دل چاروں طرف سے بند ہوتا ہے۔ باہر کی دنیا سے اس کا تعلق صرف ان رگوں کے ذریعے سے ہوتا ہے جو دل کے دائیں اور بائیں حصوں سے جڑی ہوئی ہیں۔ ان رگوں کے راستے، گدلا خون دل میں آتا ہے اور صاف خون باہر نکل کر پورے جسم میں جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جو صاف خون دل سے نکل کر پورے جسم میں جا رہا ہوتا ہے، سب سے پہلے دل، اس خون میں سے اپنے لیے حصہ لے لیتا ہے۔ یہ اس لیے کہ خود دل کو بھی تو کام کرنے کے لیے تازہ خون کی ضرورت پڑتی ہے۔
یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ دل اپنے ذاتی استعمال کے لیے وہ خون نہیں لے سکتا جو خود دل کے اندر آ رہا ہوتا ہے بلکہ جو بڑی رگ صاف خون لے کر دل سے نکلتی ہے، اسی بڑی رگ سے دو رگیں نکل کر دل کو خون پہنچاتی ہیں۔ یہ رگیں کارونری رگیں کہلاتی ہیں۔ عموماً کارونری رگوں میں ایک منٹ میں ڈھائی سو ملی لیٹر یعنی چوتھائی لیٹر خون آتا ہے لیکن مختلف محنت مشقت کے وقت کا رونری رگوں میں ایک منٹ میں پندرہ سو ملی لیٹر یعنی ڈیڑھ لیٹر تک خون آ جاتا ہے۔ دل جب سکڑتا ہے تو اس سے صاف خون نکل کر جسم میں پھیل جاتا ہے اور دل جب واپس اپنی حالت میں آتا ہے یعنی پھیل جاتا ہے تو غیر صاف خون پورے جسم سے دل میں واپس آجاتا ہے۔ دل کے سکڑنے اور پھیلنے کے اس عمل کو دل کا دھڑکنا کہتے ہیں۔ عام حالت میں دل ایک منٹ میں ستر مرتبہ دھڑکتا ہے۔ یہ رفتار کم سے کم پچاس مرتبہ فی منٹ اور زیادہ سے زیادہ نوے مرتبہ فی منٹ ہو سکتی ہے۔ بچے کا دل ایک منٹ میں سو سے ایک سو بیس مرتبہ دھڑکتا ہے۔ یہ بات دلچسپ ہے کہ چھوٹے جانوروں کے دل زیادہ تیز رفتار سے دھڑکتے ہیں اور بڑے جانوروں کے دلوں کے دھڑکنے کی رفتار سست ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر چوہے کا دل ایک منٹ میں سات سو مرتبہ دھڑکتا ہے اور ہاتھی کا دل اتناسست رفتار ہوتا ہے کہ ایک منٹ میں صرف پچیس مرتبہ دھڑکتا ہے۔
ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ جو لوگ با قاعدگی کے ساتھ ورزش کرتے ہیں، ان کے دل کی رفتار آہستہ ہوتی ہے اور جب یہ لوگ کوئی محنت مشقت والا کام کرتے ہیں تو اس وقت بھی ان کے دل کی رفتار زیادہ تیز نہیں ہوتی۔ یہ بات ان لوگوں کے لیے مفید ہے کیونکہ اگر دل جلدی جلدی دھڑ کے گا تو جلد تھک جائے گا۔ جو لوگ ورزش کرنا پسند نہیں کرتے یا اتنے مصروف رہتے ہیں کہ ان کے پاس روزانہ ورزش کرنے کا وقت نہیں ہوتا، انھیں اگر کبھی محنت مشقت کرنا پڑے تو ان کے دل کے دھڑ کنے کی رفتار بہت تیز ہو جاتی ہے۔
دل کے دھڑ کنے کی رفتار خون کی رگوں سے بھی محسوس کی جاسکتی ہے۔ ہماری کلائی پر خون کی جو رگیں ہیں، معالج ان پر اپنی انگلیاں رکھ کر دل کے دھڑ کنے کی رفتار کا اندازہ کر لیتے ہیں۔ اسے نبض دیکھنا کہتے ہیں۔
ہمارا دل ایک عصبی مرکز سے نکلنے والی برقی رو کے اشاروں سے کام کرتا ہے۔ یہ عصبی مرکز دل کے دائیں حصے میں اوپر کی طرف ہوتا ہے۔ دماغ سے آنے والے اعصاب اور مختلف غدود سے نکلنے والی رطوبتیں بھی دل کی کارکردگی کو متاثر کرتی ہیں لیکن صرف دل جسم کا ایسا حصہ ہے جو اعصابی نظام کے بغیر بھی دھڑکتارہتا ہے۔
دل کی ایک اور حیرت انگیز خصوصیت یہ ہے کہ اگر اس کے بائیں نچلے حصے کا پچیس فیصد حصہ خراب یا ضائع ہو جائے،تب بھی دل پہلے کی طرح کام کرتا رہتا ہے۔ ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ کسی شخص کے دل کا پچھتر فی صد حصہ خراب ہو گیاتب بھی دل کام کرتا رہا۔
اللہ تعالیٰ نے ہمارے دل کو بڑی غیر معمولی صلاحیتیں بخشی ہیں۔ اگر کسی وجہ سے اس میں معمولی خرابی پیدا ہو جاتی ہے تو یہ اپنا کام کرتے ہوئے خود ہی اپنی اس خرابی کو دور بھی کر لیتا ہے۔ مثلاً دل کو کام کرنے کے لیے جو رگیں خون پہنچاتی ہیں، اگر وہ رگیں کسی وجہ سے بند ہونے لگیں تو دل ان ہی رگوں کی کچھ اور شاخیں پیدا کر لیتا ہے۔ اس طرح دل کو اپنا کام جاری رکھنے کے لیے خون ملتا رہتا ہے۔
دل انسان کی سوچ، خیال اور احساس کا مرکز ہے جس کا دماغ سے بھی تعلق ہے۔ انسان کی خواہشیں دل ہی میں پیدا ہوتی ہیں۔ یہ سب جانتے ہیں کہ انسان اپنی خواہشوں اور ارادوں کے تحت اچھے یا بُرے عمل کرتا ہے۔ پیارے نبیﷺ کے ارشاد کے مطابق اگر دل درست ہو گا تو جسم کے سارے اعضا درست عمل کریں گے۔ اگر دل بُری خواہشوں اور بُرے ارادوں کا مرکز بن جائے گا تو انسان کے اعضا بُرے کام انجام دیں گے۔ اس لیے ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ دل کو غلط عقیدوں، ناجائز خواہشوں اور بُرے ارادوں سے پاک رکھیں۔
آخر میں دل کے بارے میں ایک بہت اہم حدیث نبوی پڑھ لیجیے، جو ترندی، ابن ماجہ، اور نسائی میں شامل ہے۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”بندہ جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے۔ اگر وہ تو بہ کر لے تو وہ نقطہ صاف کر دیا جاتا ہے لیکن اگر وہ گناہ کرتا رہے تو اس نقطہ کو بڑھا دیا جاتا ہے، یہاں تک کہ وہ پورے دل پر چھا جاتا ہے۔“
جب خدانخواستہ دل پورا سیاہ ہو جاتا ہے تو انسان گناہ کو گناہ نہیں سمجھتا، اس لیے اسے تو بہ کرنے کی توفیق بھی نہیں ملتی۔ ایسا بد نصیب انسان جہنم کا ایندھن بن جاتا ہے۔ اللہ سے دعا کریں، اے اللہ ہمیں سیاہ دل سے محفوظ رکھ۔ گناہوں سے بچا اور پکی توبہ کی توفیق عطا فرما۔ آمین