گھڑ سوار
فریال یاور
…………………………………………….
حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ اپنے بیٹوں، پوتوں سے کہا کرتے تھے: ’’لڑکو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جن مقامات پر تشریف لے گئے اور جہاں جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام کیا ان کے بارے میں مجھ سے پوچھو۔
…………………………………………….
دور سے گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز آتی آتی ایک دم صاف اور واضح ہوتی رک گئی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ گھڑ سوار ادھر ہی آکر رکا ہے۔ دروازے پر گھوڑا رکتا ہے اور ایک لمبے چوڑے گھڑ سوار گھوڑے پر سے اتر کر دربان کو اپنا تعارف کرواتے ہیں اور صاحبِ خانہ کو باہر آنے کے لیے پیغام بھجواتے ہیں۔ صاحبِ خانہ جو کہ مصر کے گورنر ہیں۔ کچھ دیر میں گھر سے باہر آتے ہیں اور دروازے پر موجود شخص کو دیکھ کر ان کے اوسان خطا ہو جاتے ہیں۔
یہ لمبے چوڑے سیاہ فام صحابی رضی اللہ عنہ حکومتِ وقت کے ایک اہم منصب یعنی گورنروں اور افسروں کے معاملات کی دیکھ بھال پر مامور ہیں۔ ان کا کسی گورنر یا افسر کے گھر پہنچ جانا اس شخص کی گھبراہٹ کا باعث ہوتا تھا۔ اس وقت بھی یہی ہوا ۔ مصر کے گورنر کے بارے میں امیر المومنین کو اطلاع ملی کہ وہ اپنے دروازے پر دربان رکھتے ہیں اور باریک کپڑے پہنتے ہیں۔ جبکہ امیر المومنین جب کسی شخص کو کسی علاقے کا گورنر مقرر کرتے تھے تواس سے عہد لیتے تھے کہ وہ نہ تو ترکی گھوڑے پر سواری کرے گا۔ نہ ہی چھنے ہوئے آٹے کی روٹی کھائے گا ۔ نہ باریک کپڑے زیب تن کرے گا اور نہ ہی دروازے پر دربان مقرر کرے گا (کیونکہ یہ تمام باتیں عیش و عشرت کا سبب ہوتی ہیں)۔ اب جو یہ لمبے چوڑے صاحب گورنر کے گھر پہنچے اور انہیں یہ پیغام دیا کہ امیر المومنین نے انہیں مدینہ طلب کیا ہے۔ وہ بہت گھبرائے مگر چلنے کو تیار ہوگئے۔ چلنے سے پہلے اس بات کی اجازت طلب کی کہ اندر جا کر گھر سے سفر کے لیے کچھ سامان ساتھ لے لیں مگر صحابی رضی اللہ عنہ نے اس بات کی اجازت نہیں دی اور انہیں انہی باریک کپڑوں میں لے کر امیر المومنین کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ امیر المومنین اپنے کمرے میں انہیں کے انتظار میں تھے۔
’’تم کون ہو؟‘‘ امیر المومنین نے تیکھے لہجے میں سوال کیا۔
’’آپ کا گورنر مصر سے حاضر ہوا ہوں۔‘‘ یہ گورنر بدو تھے ۔ جب گورنر بن کر مصر روانہ ہوئے تو دبلے پتلے اور سانولے تھے مگر مصر کی آب و ہوا اور عیش و عشرت نے ان کا رنگ و روپ بدل دیا تھا۔ گوری رنگت اور موٹے بھی ہو گئے تھے۔ لہٰذا امیر المومنین انہیں ٹھیک سے پہچان نہیں پائے۔
’’میں نے تمہیں گورنر بناتے وقت کچھ باتوں کا عہد لیا تھا مگر تم نے انہیں نظر انداز کر دیا۔ واللہ میں تمہیں اس کی ضرور سزا دوں گا۔‘‘
پھر ایک اونی چوغہ، لاٹھی اور صدقے کی ۳۰۰ بکریاں لانے کا حکم دیا۔ جب تمام سامان آگیا تو امیر المومنین گورنر سے مخاطب ہوئے: ’’یہ چوغہ پہن لو لاٹھی لو اور جنگل میں بکریاں چراؤ۔ دیکھو کسی مانگنے والے کو ان کے دودھ سے منع مت کرنا اور جان لو کہ عمر رضی اللہ عنہ اور اس کے گھر والوں نے زکوٰۃ کی بکریوں سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایانہ ان کا دودھ پیا نہ ہی گوشت کھایا۔‘‘
گورنربہت گھبرائے اور امیرالمومنین کو دیکھنے لگے۔ امیرالمومنین نے فرمایا: ’’دیکھ کیا رہے ہو میں نے تمھارے باپ کو دیکھا ہے۔ یہ چغہ اس چغے سے بہتر ہے اور یہ لاٹھی اس لاٹھی سے۔ چلو پہنو اسے۔ باپ دادا کاپیشہ اختیار کرنے میں شرم کیسی؟‘‘
گورنر کی پریشانی کا وہی عالم تھا۔ وہ حیرت سے امیرالمومنین کو دیکھ رہے تھے۔ کہاں گورنری کے عیش و آرام، کہاں گرمی کے موسم میں اونی چوغہ پہن کر بکریاں چرانا، اس محنت طلب کام کو سوچ کر ہی ان کے اوسان خطا ہو رہے تھے۔
’’سنا نہیں تم نے؟‘‘ امیرالمومنین کی آواز ان کے غصے کا پتا دے رہی تھی۔ گورنر پھر بھی حیران پریشان کھڑے تھے۔ امیرالمومنین نے تین مرتبہ یہ ہی الفاظ دہرائے۔ تیسری بار گورنر زمین پر گر پڑے۔
’’اس سے تو مر جانا بہتر ہے آپ میری گردن اُڑا دیجئے۔‘‘ گورنر نے التجا کی مگر امیرالمومنین اپنے فیصلے، نظم و ضبط اور انصاف میں مثالی تھے۔ اس لیے فیصلہ نافذ کرکے رہے۔ چند روز بعد امیر المومنین نے گورنر کو دوبارہ طلب کیا اور پوچھا: ’’اگر میں تمہیں واپس اپنے عہدے پر بحال کر دوں تو تمھارا عمل کیسا رہے گا؟‘‘
’’جیسا آپ چاہیں گے!‘‘ گورنر نے جواب دیا۔ امیر المومنین نے انہیں واپس مصر کا گورنر بحال کردیا اور اس احتسا ب نے ان کی ساری عیش وعشرت کی عادتو ں کو ترک کر دیا تھا۔ یہ امیر المومنین خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ تھے۔ جو اپنے اصول و انصاف کے لیے مشہور تھے اور گورنر مصر صحابی رسول حضرت عیاض بن غنم رضی اللہ عنہ تھے اور جن لمبے چوڑے سیاہ فام صحابی کوگورنروں کی نگرانی پر مامور کیا گیا تھا۔ وہ حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ تھے۔ جو اپنے فرائض کی ادائیگی میں اتنے بے لوث تھے کہ اپنے پرائے کا فرق کیے بغیر فرض انجام دیتے تھے۔
محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کا تعلق انصار کے قبیلہ اوس سے تھا اور آپ مدینہ منورہ کے ان لوگوں میں شامل تھے جو ہجرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے ایمان لائے تھے۔ رسول اللہ جب ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے توایک انصار کا ایک مہاجر کے ساتھ بھائی چار ہ قائم کیا۔ حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کو حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کا بھائی بنایا۔ مدینہ میں اسلامی ریاست قائم ہونے کے بعد جو غزوات کا سلسلہ شروع ہوا تو حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے تمام غزوات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور بہت بہادری سے لڑے۔ سوائے غزوۂ تبوک کے۔ جس میں خود پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مدد کے لیے پیچھے چھوڑا تھا۔ جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں اپنا نائب مقرر کیا تھا۔ اسی طرح سرایا میں بھی حصہ لیا اور کئی جنگوں میں قیادت بھی کی۔
غزوۂ احد میں رات کے وقت اسلامی لشکر کی حفاظت کرنے والے دستے کے لیڈر تھے۔ احد ہی کے دن جب مسلمان اپنی ایک غلطی کے سبب جیتی ہوئی جنگ ہارنے اور کفار کے پلٹ کر حملہ کرنے سے مسلمانوں میں افراتفری پھیل گئی تو حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ ان چند مسلمانوں میں سے تھے جو آخری وقت تک اپنی جگہ ڈٹے کفار کے حملے روکتے رہے۔
حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ اپنے بیٹوں، پوتوں سے کہا کرتے تھے: ’’لڑکو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جن مقامات پر تشریف لے گئے اور جہاں جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام کیا ان کے بارے میں مجھ سے پوچھو۔ میں کسی غزوہ میں پیچھے نہیں رہا۔سوائے غزوۂ تبوک کے۔ اس میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے پیچھے چھوڑا تھا۔ سرایا کے متعلق پوچھنا چاہتے ہو تو بھی مجھ سے پوچھو۔ کوئی سریہ ایسا نہیں جس میں میں نے حصہ نہ لیا ہو اور اس کی روانگی اور واپسی کے احوال مجھ سے پوشیدہ ہوں۔‘‘
غزوۂ بنوقنیقاع میں کعب بن اشرف مشہور یہودی شاعر تھا۔ اس کو اپنے ساتھیوں کے ساتھ گھیر کر حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے ہی قتل کیا تھا۔ وہ اپنے اشعار میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کیا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے ایک مجمع میں فرمایا : ’’کعب بن اشرف کے لیے کون ہے؟ اس نے اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت اذیت پہنچائی ہے۔‘‘ اس پر حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا عہد لیا اور آپ رضی اللہ عنہ نے اس عہد کو بخوبی پورا کیا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں لوگوں کے معاملات کی چھان بین کا انتہائی نازک کام حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کے سپرد تھا، کیونکہ جن لوگوں کی چھان بین کا کام آپ رضی اللہ عنہ کے سپرد تھا۔ وہ سب آپ رضی اللہ عنہ کے قریبی ساتھی تھے اور بعض کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات بھی تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے ذمہ داری میں ذاتی تعلقات کو نہیں آنے دیا۔ اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بھی آپ رضی اللہ عنہ پر بے حد اعتماد تھا۔ حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ حق بات کہنے والے اور بے باک تھے۔ ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بنی حارثہ کے کنویں پر گئے۔ وہاں حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ بیٹھے تھے۔
حضرت عمر نے ان سے پوچھا: ’’محمد آپ کی میرے بارے میں کیا راے ہے؟‘‘
حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’آپ رضی اللہ عنہ مال جمع کرنے میں طاقت ور ہیں اور انہیں انصاف کے ساتھ تقسیم فرماتے ہیں اور اگر آپ ٹیڑھے ہو جائیں تو ہم آپ کو ایسے سیدھا کر دیں گے جیسے تیر۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا چہرہ یہ سن کر چمکنے لگا اور فرمایا: ’’سب تعریفیں اللہ کے لیے۔ میرے ارد گرد ایسے لوگ موجود ہیں کہ اگر میں ذرا سا بھی ٹیڑھا ہو جاؤں تو مجھے سیدھا کردیں گے۔‘‘
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد اور مسلمانوں کے ساتھ آپ رضی اللہ عنہ نے بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کی بیعت کی۔ حرہ کی جنگ کے بعد شامی فوجیں مدینہ میں داخل ہوئیں تو شامیوں نے ساتھ نہ دینے پر آپ رضی اللہ عنہ کوگھر میں گھس کر شہید کردیا۔
قبولِ اسلام کے وقت آپ رضی اللہ عنہ کی عمر ۳۱ سال اور شہادت کے وقت ۷۷ سال تھی۔ آپ کو جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت سی احادیث سنی مگر کتابوں میں ۶ روایات ملتی ہیں۔
*۔۔۔*