غلام
فریال یاور
……………………………….
ہجرت کے بعد جب مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم تعمیر ہوئی تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو اذان دینے کا ذمہ سونپا۔اسلام کی راہ میں یہ بے پناہ اذیتیں سہنے والے صحابی’’ بلال بن رباح رضی اللہ عنہ ‘‘
……………………………….
امیّہ انتہائی غصے کی حالت میں کمرے میں ادھر سے ادھر ٹہل رہا ہے۔ کبھی غصے میں زوردار مکا اپنی ہتھیلی پر مارتا ہے اور کبھی پاس پڑی کرسی کو ٹھوکر مارتا ہے۔ اسے یہ سارا غصہ اپنے اس غلام پر آرہا ہے جسے کچھ دیر پہلے اس نے اپنے پاس طلب کیا ہے۔ کچھ ہی دیر گزری کہ غلام حاضر ہوگیا۔ اس کے بعد امیّہ اور اس کے غلام میں کچھ اس الفاظ میں گفتگو ہوئی۔
امیہ: ’’میں نے سنا ہے کہ تم نے کوئی اور معبود بنا لیا ہے۔ سچ سچ بتاؤ کہ تم کس معبود کی عبادت کرتے ہو؟‘‘
غلام: ’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا کی۔‘‘
امیہ: (آنکھیں لال پیلی کرکے) ’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا کی پرستش کرنے کا یہ مطلب ہوا کہ تو مقدس لات و عزیٰ کا دشمن ہو گیا ہے۔ سیدھی طرح راہ راست پر آجا ؤ ورنہ ذلت کے ساتھ مارے جاؤ گے۔ میں یہ ہر گز برداشت نہیں کر سکتاکہ تم لات و ہبل کے نام لیوا کے غلام ہو کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا کی پرستش کرو۔‘‘
غلام جو توحید کا سچے دل سے شیدائی ہو چکا تھا۔ اس نے بے دھڑک امیہ کو جواب دیا: ’’میرے جسم پر تو تمہارا زور چل سکتا ہے لیکن میں اپنا دل اور اپنی جان محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا کے پاس رہن رکھ چکا ہوں۔ اب اﷲ کی عبادت ہی میری زندگی کا مقصدہے اور تمہارے خود ساختہ معبودوں کو پوجنا میرے بس کی بات نہیں۔‘‘
یہ جواب سن کر امیہ بن خلف غیظ و غضب سے دیوانہ ہو گیا۔ ایک غلام نے اسے بے دھڑک جواب دے دیا تھا۔ اس نے کڑک کر کہا: ’’اچھا تو پھر اپنی بے دینی کا مزہ چکھ، دیکھوں گا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا خدا تجھے کیسے بچاتے ہیں۔
اس کے بعد امیہ نے جو ایک مشرک تھا اور مخالفین اسلام میں سے ایک تھا،اپنی بات پر عمل درآمد شروع کر دیا۔ امیہ غلام کو سخت اذیتیں دینے لگا لیکن غلام بھی اسلام کا سچا شیدائی تھا۔ طرح طرح کی اذیتیں سہنے کے باوجود بھی امیہ اسے اس کے دین (اسلام) سے نہ ہٹا سکا۔
مکہ میں حرّہ کی زمین گرمی کے سبب مشہور ہے۔ امیہ اپنے غلام کو دوپہر میں اس تانبے کی طرح گرم زمین پر لٹاتا اور سینے پر بھاری پتھر رکھ دیتا تاکہ وہ کروٹ نہ لے سکے۔ پھر کہتا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین سے باز آجاؤ۔ لیکن ان مظالم کے بعد بھی غلام کے منھ سے سواے ’’اَحد، اَحد‘‘ کے اور کچھ نہ نکلتا۔ امیہ مزید غصب ناک ہو کر اذیتیں مزید بڑھا دیتا۔ ایک مرتبہ تو امیہ نے ظلم کی انتہا کردی۔ پوراایک دن اورپوری ایک رات غلام کو بھوکا پیاسا رکھا اور تپتی ہوئی ریت پر لٹا کر اس کے تڑپنے کا تماشہ دیکھتا رہا لیکن اس کی یہ کوشش بھی غلام کو حق سے نہ ہٹا سکی۔ آخر تھک ہار کر امیہ نے مکہ کے بدمعاش لڑکوں کو بلایا اور ان سے کہا کہ اس غلام کو اتنی اذیتیں دو کہ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے خدا کا نام لینا چھوڑ دے۔ یہ لڑکے امیہ کی خوشی حاصل کرنے کے لیے اس بے بس غلام کو بری طرح مارتے پیٹتے۔ جسم کے کپڑے اتروا کر لوہے کی خورد پہنا دیتے اور تیز دھوپ میں کھڑا کر دیتے اور یہی نہیں بلکہ ان کے گلے میں رسیاں باندھ کر انہیں گلی میں گھسیٹتے لیکن غلام کی زبان سے’’ اَحد، اَحد‘‘ کے سوا کچھ نہ نکلتا۔
اسلام کی راہ میں یہ بے پناہ اذیتیں سہنے والے صحابی’’ بلال بن رباح رضی اللہ عنہ ‘‘ تھے۔ حضرت بلال بن رباح رضی اللہ عنہ پر امیہ بن خلف کے مظالم بڑھتے جا رہے تھے۔اسی دوران ایک دن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ادھر سے گزر ہوا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے امیہ سے فرمایا: ’’اے امیہ اس بے کس اور مظلوم پر اتنے ظلم و ستم نہ کرو۔ اس نے تمہارا کیا بگاڑا ہے۔ وہ خداے واحد کی عبادت کرتا ہے۔ اگر تو اس پر احسان کرے تو یہ احسان آخرت میں تیرے کام آئے گا۔‘‘
اس پر امیہ نے نہایت حقارت سے کہا:’’ میں تمہارے خیالی آخرت کے دن کو نہیں مانتا جو میرے دل میں آئے گا میں کروں گا۔‘‘ صدیق اکبر اس کے جواب سے نہایت افسردہ ہوئے لیکن پھر بھی آپ رضی اللہ عنہ نے اسے سمجھایا کہ’’ اس مظلوم پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنا تیرے شایانِ شان نہیں‘‘۔ جس پر امیہ نے تنگ آکر کہا:’’اے ابوقحافہ! اگر تم اس کے اتنے ہمدرد ہو تو اسے خرید کیوں نہیں لیتے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جھٹ تیار ہو گئے اور فرمایا:’’ بولو کیا لو گے؟‘‘
امیہ نے کہا:’’ اپنا غلام فسطاس رومی مجھے دے دو اور اسے لے جاؤ۔‘‘
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فوراً راضی ہو گئے جبکہ امیہ کا خیال تھا کہ فسطاس ایک نہایت کارآمد غلام ہے۔ جس کی قیمت زیادہ ہے اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اسے دینے سے انکار کر دیں گے مگر آپ فوراً راضی ہو گئے تو امیہ کو سخت مایوسی ہوئی اور اس نے ساتھ ہی چالیس اوقیہ چاندی کی فرمائش کی اسے بھی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ صدیق نے بخوشی ادا کر دیا اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر دربار رسالت میں حاضر ہوئے اور سارا ماجرا سنایا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نہایت خوش ہوئے اور فرمایا: ’’ابوبکر! اس کارخیر میں مجھے بھی شریک کر لو۔‘‘ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’ یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم میں اسے خدا کی راہ میں آزاد کر چکا ہوں۔‘‘ یہ سن کر زبان رسالت سے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے لیے کلمہ رحمت جاری ہوگئے۔
حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے والدین حبشی النسل تھے اور مکہ میں سکونت اختیار کئے ہوئے تھے۔ جہاں قریش کے خاندان بنو جمیع کی غلامی اختیار کی اور وہیں بعثت نبوی سے اٹھائیس سال پہلے حضرت بلال بن رباح پیدا ہوئے اور آپ نے بھی اسی غلامی میں ۲۸ سال گزار دیئے لیکن آپ چونکہ نہایت نیک اور پاکیزہ طبیعت کے تھے لہٰذا جب آنحضرتؐ نے دعوت توحید دی تو آپ نے فوراً اسے قبول کر لیا اور یوں آپ ’’السابقون الاولون‘‘ کی مقدس جماعت میں شامل ہوگئے۔
رہائی پانے کے بعد حضرت بلال ہمیشہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہتے اور دل وجان سے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت بجا لاتے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو کسی کام کا حکم دیتے تو آپ اپنی جان بھی لڑا دیتے۔ عیدین اور استسقا کے مواقع پر آپ برچھا لے کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے آگے چلتے۔ بعثت کے تیرھویں سال جب حضورؐ نے صحابہ کرام کو ہجرت کی اجازت فرمائی تو آپ بھی صحابہ کرام کی اس جماعت میں شامل تھے۔ غزوات کا سلسلہ شروع ہوا تو بدر سے لے کر تبوک تک تمام غزوات میں شامل رہے لیکن حضرت بلال کی اسلام کے لیے سب سے بڑی خدمت اور ان کے لیے سب سے بڑی سعادت اسلام کا سب سے پہلا موذن ہونا ہے۔
ہجرت کے بعد جب مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم تعمیر ہوئی تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو اذان دینے کا ذمہ سونپا۔ آپ کی آواز نہایت دلنشین تھی اور اس میں ایک ایسی تاثیر تھی کہ اذان کی آواز سن کر لوگ سب کام چھوڑ چھاڑ مسجد کی طرف دوڑتے۔ ۸ھ میں جب مکہ فتح ہوا تو کعبہ کو بتوں سے پاک کرنے کے بعد آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے فرمایا: ’’اے بلال! کعبہ کی چھت پر کھڑے ہو کر اذان دو۔‘‘ اور یہ مبارک سلسلہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ تک اسی محبت و عقیدت کے ساتھ جاری رہا۔ لیکن ۔۔۔!۱۱ھ میں جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر آخرت اختیار کیا تو اس عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا اور مدینہ میں رہنا آپ کے لیے دشوار ہو گیا۔
آپ کو ہر وقت پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد ستاتی۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ نے سنا ہوا تھا کہ مومن کے لیے سب سے افضل عمل جہاد فی سبیل اﷲ ہے۔ لہٰذا آپ رضی اللہ عنہ خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق کی خدمت میں حاضر ہوئے اور جہاد پر جانے کی اجازت طلب کی لیکن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ کو خدا کا واسطہ دے کر کہا کہ مجھے اس بڑھاپے میں تنہا چھوڑ کر نہ جاؤ تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اس شرط پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بات مان لی کہ وہ اب رسول اﷲ کے بعد کسی کے لیے اذان نہیں دیں گے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کی یہ بات مان لی لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کے بعد خلیفہ دوم حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے دور میں جب بیت المقدس کی تسخیر کے لیے شام جانا پڑا تو وہاں عیسائیوں سے صلح نامہ طے پانے کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک خطبہ دیا اور حضرت بلال سے درخواست کی کہ آج جب قبلہ اول پر توحید کا پرچم لہرا دیا ہے۔ اس باعظمت موقع پر اگر آپ اذان دیں تو ہم آپ کے مشکور ہوں گے۔حضرت بلال نے اذان دینی شروع کی تو صحابہ کرام کو عہد نبوی کی مبارک یاد تازہ ہوگئی اور ان پر رقت طاری ہوگئی۔
شام کے معرکے کے بعد حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے شام ہی کے ایک گاؤں میں رہائش اختیار کر لی کیونکہ مدینہ میں ہر وقت آپ کو نبی پاکؐ کی یاد ستاتی رہتی لیکن ایک دن آپ نے خواب میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی کہ آپؐ فرما رہے ہیں: ’’اے بلال! کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم ہماری زیارت کے لیے آؤ۔ اس خواب نے آپ رضی اللہ عنہ کو تڑپا دیا اور آپ رضی اللہ عنہ بے تاب ہو کر فوراً مدینہ روانہ ہوئے۔ مدینہ پہنچ کر حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے روضہ اقدس پر حاضری دی اوراس درد سے روئے کہ حاضرین بھی اشکبار ہوگئے۔ وہیں حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔ نانا کے پیارے نواسوں کو آپ نے اپنے ساتھ چمٹا لیا اور بے تحاشہ چومنے لگے۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حسین رضی اللہ عنہ نے آپ سے اذان فجر کی فرمائش کی۔۔۔بھلا اس میں رد کرنے کی کہاں گنجائش تھی۔ اگلے دن جب فجر کا وقت ہوا تو آپ نے اذان دینی شروع کی۔ لوگوں کو عہد رسالت کی یاد تازہ ہو گئی اور لوگ اس طرح روتے ہوئے مسجد کی جانب چلے۔ جیسے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے آج ہی وفات پائی ہو۔ ایسا درد ناک منظر اس کے علاوہ کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔
حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے ۲۰ھ میں ساٹھ سال کی عمر میں وفات پائی۔ آپ کا مزار دمشق میں ہے۔ آپ کو دربار رسالتؐ میں خاص مقام حاصل تھا۔ ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز کے وقت حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ اے بلال رضی اللہ عنہ ! تمہارا وہ کونسا عمل ہے جس کی بنا پر تم اپنے آپ کو سب سے زیادہ ثواب کا مستحق سمجھتے ہو کیونکہ میں نے تمہارے جوتوں کی آواز جنت میں اپنے آگے سنی ہے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ’’یا رسول اﷲ میں نے ایسا تو کوئی عمل نہیں کیا لیکن رات دن میں میرا کوئی وضو ایسا نہیں ہے جس سے میں نے کوئی نماز نہ پڑھی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام بھی آپ کو نہایت محبوب و محترم جانتے تھے۔
*۔۔۔*۔۔۔*