skip to Main Content

۷ ۔ غارِحرا کے پُراَسرار واقعات

ڈاکٹر عبدالرؤف

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مکّہ سے تین میل دُور ایک پہاڑی واقع ہے جسے کوہِ حرا کہتے ہیں ۔اِس پہاڑی کوا ب جبل النُور کے نام سے یاد کیا جاتاہے۔اس پہاڑی کے دامن میں وُہ مشہُور غار واقع ہے جو غارِحرا کہلاتی ہے ۔اِس چھوٹی سی غار کی لمبائی ۱۲فُٹ اور چوڑائی دو فُٹ کے لگ بھگ ہے ۔عہدِشباب میں حضور ﷺ اکثر وہاں جایاکرتے تھے اور غورو فکر اور عبادت میں ہمہ تن مصروف رہتے تھے ۔آپ ﷺ وہاں پہروں قیام کرتے ۔بلکہ کئی دفعہ توکئی کئی روز تک وُہیں رہتے ۔آپ ﷺ اپنے ساتھ ستُو اور پانی وغیرہ بھی لے جاتے ۔جب کھانے پینے کا یہ سامان ختم ہوجاتا تو آپ ﷺ گھر لوٹ آتے اور کُچھ عرصہ بعد مزید اشیاء خوردونوش ساتھ لے جاکر پھِر غارِحرا میں ذکرِالٰہی میں محو ہوجاتے ۔جُوں جُوں دِن گزرتے گئے ،تنہائی اور عبادت آپﷺ کو مرغوب تر ہوتی چلی گئی ۔آپ ﷺ روزے بھی رکھتے تھے۔ رمضان کا پُورا مہینہ تو آپ ﷺ خصوصی طور پرعبادت اور سوچ بچار میں صرف کرتے اور مسکینوں کو کھانا کھلاتے ۔گھر لوٹنے سے پہلے آپ ﷺ خانہ کعبہ کا طواف ضرور کرتے تھے ۔
غارِحرا کی تنہائیوں میں غورو فکر کے دوران آپ ﷺ کے ذہن میں ہزار وں سوال اُبھرتے اور آپ ﷺ اُن کے تسلی بخش حل ڈھونڈھنے کے جتن کرتے ۔گاہے گاہے غار سے نکل کر آپ ﷺ قریبی صحرا کی جانب بھی نکل جاتے اور تھوڑی بُہت چہل قدمی کے بعد پھر غار میں لوٹ آتے ۔اپنے گردوپیش کی مقبولِ عام بُت پرستی پر تو آپ ﷺ نے سب سے زیادہ غورو خوض فرمایا ۔اِس مُشرکانہ طریقِ عبادت کو سراہنے یا اپنانے سے آپ ﷺپہلے ہی اِنکار کر چکے تھے ۔دِن گُزر تے گئے اور پھر کُچھ عرصہ بعد آپ ﷺ کو بعض حیران کُن خواب بھی آنے لگے ۔یہ خواب ایسے سچّے تھے کہ آپ ﷺ رات کو اِن میں جو کُچھ بھی دیکھتے ،دِن کو عین وُہی کُچھ آپ ﷺ کے گرد وپیش میں واقعی رُونما ہو جاتا ۔
فرشتے سے پہلی مُلاقات
اب آپ ﷺچالیس برس کی عُمر کو پُہنچ چکے تھے ۔۹ربیع الاوّل (بمطابق ۱۲فروری ،۶۱۰ء)کا واقعہ ہے کہ آپ ﷺ غارِحرا میں حسبِ معمول عبادت میں مصرُوف تھے ۔اِتنے میں فرشتہ جبرئیل ؑ رُوح الامین آئے اور کہا :’’مُحمّدﷺ !بشارت قبول فرمائیے۔آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں ۔میں جبرئیل ؑ ہُوں ۔‘‘
خُداوند تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہُوئے مقدّس فرشتے کا یہ آپ ﷺسے پہلا خطاب تھا۔اِس لیے آپ ﷺ قدرے سہم سے گئے ۔ہانپتے کانپتے فوراََگھر لوٹے ۔آتے ہی لیٹ گئے اور پھر خدیجہؓ سے کہا مُجھ پر چادر ڈال دو۔‘‘کُچھ دیر آرام کے بعد طبیعت ذرا سنبھلی تو آپ ﷺ نے خدیجہؓ کو غار والا سارا واقعہ کہہ سُنایا ۔پھر آپ ﷺ فرمانے لگے:’’میں ایسے ایسے واقعات دیکھتا ہُوں کہ مُجھے اپنی جان کے لالے پڑگئے ہیں ۔مُجھے خدشہ ہے کہ کہیں مُجھ پر جنّات کا اثر نہ ہوجائے ۔‘‘
خدیجہؓ یہ سُن کر پریشان ہُوئیں مگر اُنھوں نے اِس کا بر ملا اظہار نہ کیا۔اُنھوں نے آپ ﷺ کو بُہت تسلی دی اور کہا:’’آپ ﷺ کو ڈر کا ہے کاہَے ۔آپ ﷺ رشتہ داروں پر شفقت فرماتے ہیں ۔سچ بولتے ہیں ۔بیواؤں ،یتیموں اور حاجت مندوں کی مدد فرماتے ہیں ۔مہمان نواز ہیں۔مصیبت زدوں کے ہمدرد ہیں ۔اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو کبھی غم زدہ نہیں کرے گا ۔آپ ﷺپر جنّات کا اثر ہر گز نہیں ہو گا ۔‘‘
نیک سیرت بیوی کی اس پُر خلوص دلجوئی سے آپ ﷺ کو قدرے اطمینان ہُوا۔مگر اندر ہی اندر خدیجہؓ خود بھی بے حد مضطرب ہوگئی تھیں ۔اُنھیں اپنے اطمینان کی ضرورت بھی محسوس ہو رہی تھی ۔چنانچہ وہ آپ ﷺ کو اپنے چچیرئے بھائی اور مکّہ کے مشہُور دانشور ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں ۔ورقہ بُہت نیک ،عالی ظرف ،ذہین اور عالم شخص تھا۔وُہ بُت پرستی سے بے زار ہو کر عیسائیت قبول کر چکا تھا ۔خدیجہؓ کے کہنے پر حضور ﷺ نے حضرت جبرئیل ؑ کے غارِحرا میں آنے اور بات کرنے کا سارا ماجرا ورقہ کے سامنے بیان کر دیا۔
ورقہ آپ ﷺ کی باتیں بڑے غور سے سُنتا رہا۔پھر جھٹ بول اُٹھا ۔’’اُس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ،آپ ﷺ تو اس امّت کے نبی ہیں بے شک آپﷺ کے پاس وُہی ناموسِ اکبر آیا ہے جو موسیٰ ؑ کے پاس بھی آیا تھا ۔اب آپ ﷺ کو جھٹلایا جائے گا اور اذیّتیں پہنچائی جائیں گی ۔آپ ﷺ کو شہر بدر کر دیا جائے گا۔آپ ﷺ سے جنگ لڑی جائے گی ۔اگر مجھے وُہ دِن دیکھنا نصیب ہُوا تو میں ضرور خداوند تعالیٰ کے دینِ حق کی مدد کروں گا۔‘‘ورقہ نے پھر سر جھُکا کر حضور ﷺ کے سرِمبارک کے وسط میں بڑی عقیدت سے بوسہ دیا۔
ورقہ سے ملاقات سے مطمئن ہو کر حضرت مُحمّد ﷺ اور حضرت خدیجہؓ گھر واپس آگئے ۔اِس واقعہ کے چند روز بعد ہی ورقہ کا انتقال ہو گیا ۔وہ بے چارا بے حد ضعیف ہو چکا تھا اور اُس کی بینائی بھی جاتی رہی تھی ۔
فرشتے کی دوبارہ آمد
قریباََچھ ماہ بعد آپ ﷺ معمول کے مطابق غارِحرا میں مصروفِ عبادت تھے کہ فرشتہ پھر آیا ۔اِس دفعہ وہ ہاتھ میں ایک ورق تھامے ہُوئے تھا ۔اُس نے آپ ﷺ سے کہا :’’پڑھیے!‘‘آپ ﷺ نے گھبراہٹ میں جواب دیا:’’کیا پڑھوں ؟‘‘فرشتہ آ پ ﷺ سے بغل گیر ہوا اور پھرکہا :’’پڑھیے!‘‘آپ ﷺ نے پھرجواب دیا :’’کیا پڑھوں ؟‘‘فرشتہ آپ ﷺ سے پھر بغل گیر ہُوا اور کہا :’’پڑھیے!‘‘آپ ﷺنے پھر فرمایا :’’کیا پڑھوں ؟‘‘اس مقام پر فرشتہ آپ ﷺ سے تیسری بار بغل گیر ہُوا اور آپ سے اِن مبارک آیات کی تلاوت کروائی :
بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِےْمِ
اِقْرَأبِا سْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ۔خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقِِ۔اِقْرَاْوَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ ۔الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ۔عَلَّمََ الْاِنْسَانَ مَالَمْ ےَعْلَمْ ۔(سورۃالعلق)
’’اپنے پروردگار کے نام سے پڑھیے ۔جس نے جہاں تخلیق کیا اور انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا۔ہاں پڑھیے ،تمھارا پروردگار صاحب کرم ہے ،جس نے قلم کے ذریعہ سے انسان کو ایسی تعلیم دی ،جس سے وہ پہلے ناواقف تھا۔‘‘(سورۃعلق)
یہ پہلی وحی تھی جو آپ ﷺ پر اللہ کی جانب سے نازل ہُوئی ۔اِس پہلی وحی ہی سے اِنسان کے لیے عِلم کی فضیلت واضح کی گئی ہے اور اِسے حاصِل کرنے کی اہمیّت پر زور دیا گیا ہے۔اِس کے بعد فرشتہ آنحضور ﷺ کو اپنے ہمراہ دامنِ کوہ میں لے گیا ۔وہاں آپ دونوں نے وضو کیا اور پھر اکٹھے نماز پڑھی ۔
دعوتِ حق اور ہنگاموں کا آغاز
اِن سب باتوں سے فارغ ہو کر گھر لوٹے اور آتے ہی تبلیغِ اِسلام کاآغاز کردیا۔آپ ﷺ کی باتوں سے متأثّر ہوکر اکا دُکا لوگوں نے اِسلام قبول کرنا شُروع کر دیا۔چنانچہ آپ ﷺ کی بیوی خدیجہؓ ،چچیرے بھائی علیؓ ،قریبی دوست ابو بکرؓ،اور ذاتی خادم زیدؓ بن حارث تو پہلے دن ہی مُسلمان ہو گئے ۔قریبی حلقہ کے یہ چند افراد عرصۂ دراز سے آپ ﷺ کی ایک ایک بات سے بخوبی واقف ہو چکے تھے ۔اُن کا آپ ﷺ پر ایمان لے آنا آپ ﷺ کے سیرت و کردار کی بلندی اور اثر پذیری کا واضح ثبوت ہے۔اِسلام کی تبلیغ اور اشاعت کے لیے حضور ﷺ ہر بہتر طریق اِستعمال کرتے تھے ۔اپنے خاندان کے تمام افراد کو اسلام سے روشناس کرانے کے لیے آپ ﷺ اُن کے لیے اپنے ہاں ضیافتوں کا اہتمام بھی کرتے تھے ۔
اِسلام کی ابتداہُوئے ابھی تھوڑا عرصہ ہی ہُوا تھا ۔مسلمانوں کی تعداد اِس وقت بُہت کم تھی ۔اِس لیے اِن دنوں مسلمان پہاڑ کی گھاٹیوں میں چُھپ چُھپ کر نماز پڑھا کرتے تھے ۔کچھ عرصہ بعد جب حضور ﷺ کو اعلانیہ تبلیغ کا حُکم ہُوا تو آپ ﷺ نے لوگوں کو اِسلام کی طرف بُلانے کا کھُلم کھُلّا سِلسلہ شُروع کر دیا۔رفتہ رفتہ تھوڑے بُہت اور لوگ بھی آپ ﷺ کے ساتھ شامل ہوتے گئے ۔پھر ایک دِن ایسا بھی آیا جب آپ ﷺ نے کوہِ صفا پر چڑ ھ کر بلند آواز سے لوگوں سے خطاب کیا اور نہایت دلنشین انداز میں اُنھیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی ۔
ٍ جب قریب قریب چالیس افراد پر مشتمل مسلمانوں کی ایک چھوٹی سی جماعت تیّار ہو گئی تو ایک دن خانہ کعبہ میں جا کر آپ ﷺ نے توحید کا اعلان کر دیا اور لوگوں کو بُتوں کی پُوجا ترک کرنے کی تلقین کی ۔کفّار کے نزدیک یہ بات خانہ کعبہ کے بُتوں کی سخت توہین تھی ۔چنانچہ وہ لوگ بُہت برانگیختہ ہُوئے اور سخت طیش میں آگئے ۔دفعتاًایک خُون ریز ہنگامہ اُٹھ کھڑا ہُوا ۔دیکھتے ہی دیکھتے بپھرے ہوئے کافرہر سمت سے آپ ﷺ پر ٹوٹ پڑے ۔
حضرت حارثؓ ابی ہالہ کو اس تشویشناک واقعہ کی خبر ہُوئی تو وہ گھر سے بھاگم بھاگ کعبہ پُہنچے اور آپ ﷺ کو بچانے کے لیے آگے لپک کر مشتعل ہجوم سے گُتھم گتھّا ہو گئے ۔کفّار کی تلواریں آپ پر برس پڑیں ۔چنانچہ آپ شدید زخمی ہو کر زمین پر گر پڑے اور وہیں شہید ہوگئے ۔اسلام کی راہ میں یہ کسی معصوم کا پہلا خون تھا جس سے خانہ کعبہ کی مقدّس زمین سُرخ ہُوئی ۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top