۸ ۔ غارِ حرا
سید محمد اسمٰعیل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قدیم زمانے میں انسان ہمارے جیسے مکانوں میں نہیں بلکہ غاروں میں رہا کرتے تھے ۔آپ یوں سمجھیں کہ غار پہاڑ کے اندر قدرتی طور پر بنا ہوا ایک محفوظ مقام ہوتا ہے جس میں انسان اور جانور خراب موسم سے بچنے کے لئے رہتے ہیں ۔
میں اِسی قسم کا ایک غار ہوں اور میرا مقام مکّہ معظمہ کے قریب پہاڑیوں میں ہے ۔یہ پہاڑیاں بہت اونچی نہیں ۔لیکن آپ ان پر اگر چڑھنا چاہیں تو ضرور تھک جائیں گے ۔ان پہاڑیوں پر چند کانٹے دار جھاڑیاں ہیں اور کوئی درخت نہیں ۔
عرب میں لوگوں کی زندگی کا دارومدار بھیڑ بکریوں اور اونٹو ں پر تھا۔چرواہے چارے کی تلاش میں اپنے گلے کو ان پہاڑیوں پر لے جاتے اور جب تھک جاتے یا دھوپ کی شدت سے بچنا چاہتے تو چٹانوں کے سائے میں آرام کرتے ۔کچھ چرواہے بہت بلندی تک آجاتے اور میرے قریب پہنچ جاتے ۔لیکن مکّہ معظمہ کا ایک نوجوان کسی اور غرض سے ان پہاڑوں پر آتا اور میرے ہاں قیام کرتا ۔دوری کی وجہ سے مکّہ کی آبادی کا کوئی شور مجھ تک نہ پہنچتا تھا ۔یہاں پر نہایت خاموشی ہوتی ۔اِس خاموشی میں کبھی دن اورکبھی رات ،یہ نوجوان اللہ کو یاد کرتا ۔اس اللہ کو جس نے اس دنیا کو پیدا کیا۔چاند ،ستارے ،پانی ،ہوا،سمندر ،درخت بنائے ۔وہ اللہ جس کے حکم کے بغیر ایک پتا بھی نہیں ہِل سکتا ۔
ایسے زمانے میں جب مکّہ والے پتھروں کے بُت بنا کے اُن کو خدا سمجھ بیٹھے ۔یہ بات اور لوگوں کی سمجھ میں نہ آ سکتی تھی مگر یہ نوجوان صرف اللہ اور اللہ ہی کو یاد کرتا ۔
آپ کو معلوم ہو گیا ہو گا کہ اس نوجوان کا پیارا نام محمدﷺ تھا۔آپﷺ جب بھی آتے میرے ارد گرد نور پھیل جاتا۔ایسے لگتا جیسے سارا ماحول مہک اُٹھا ہے۔ وقت کے گزرنے کے ساتھ اس پیارے شخص کی عبادت بڑھتی گئی ۔ایک دفعہ کاذکر ہے کہ آپ ﷺ میرے ہاں عبادت میں مصروف تھے ۔ رات اندھیری تھی اور آپﷺ اللہ سے یہ کہہ رہے تھے ۔
’’ اے سارے جہاں کے پالنے والے،اے آسمانوں ،سورج ،چاند، ستارے اور
پہاڑوں کے پیدا کرنے والے ۔تو ہی تو میرا رَ ب ہے اور مجھے پیدا کرنے والا ہے ۔تو
نے ہی سارے جہانوں کو بنایا ۔میں صرف تیری ہی رضا چاہتا ہوں ۔‘‘
جب آپ ﷺ یہ دُعا مانگ رہے تھے تو یوں کہیے کہ زمین و آسمان ایک نور سے بھر گئے ۔ایک فرشتہ جن کا نام جبرئیل ؑ ہے، اللہ کے حکم سے زمین پر وہ عظیم کلمات لے کر اُترے جنھیں ساری دنیا جانتی ہے ۔یہ کلمات یہ تھے ۔’’اے محمد ﷺ پڑھیے۔‘‘محمدﷺ لکھنا پڑھنا نہ جانتے تھے اِس لئے آپﷺ نے جواب دیا کہ میں پڑھنا نہیں جانتا ۔تب حضرت جبرئیل آگے بڑھے اور تین دفعہ آپﷺ کوسینے سے لگایا اور ہر مرتبہ یہ کہا ’’پڑھیے‘‘لیکن رسولِ اکرم ﷺ یہی جواب دیتے رہے کہ مجھے پڑھنا نہیں آتا۔ اس کے بعد حضرت جبرئیل ؑ نے آپﷺ کو چھوڑ دیا اور مندرجہ ذیل کلمات پڑھنے شروع کئے جو محمدﷺ دہراتے جاتے تھے ۔
اِقْراء بِااسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ۔ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقِِ۔اِقرَا وَ رَبُّکَ الْاَکْرَمْ الَّذِیْ
عَلَّمَ بِا الْقَلَمِ۔ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ ےَعْلَمْ ۔
ترجمہ: اے محمد ﷺپڑھیے اللہ کے نام سے جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے
سے پیدا کیا ۔ اے محمد ﷺ پڑھیے آپﷺ کا رب بہت فضیلت والا ہے
اس نے انسان کو قلم کے ذریعے ان چیزوں کی تعلیم دی جنھیں پہلے وہ نہ جا نتا تھا۔
( سورۃ العلق آیت ۱ تا ۵ )
اس کے بعدحضرت جبرئیل ؑ رخصت ہو گئے ۔حضورﷺ پر ایک عجیب و غریب خوف طاری ہو گیا اور آپ ﷺاپنے گھر واپس ہوئے ۔آپﷺ کی زوجہ حضر ت خدیجہؓ نے آپﷺ کی یہ حالت دیکھی کہ آپﷺ کانپ رہے ہیں اور آپﷺ کے ماتھے پر پسینے کے قطرے ہیں تو انھوں نے فوراًبستر بچھا دیا۔آپﷺ لیٹ گئے ۔حضرت خدیجہؓ نے کمبل اوڑھا دیا۔
تھوڑی دیر بعد جب رسولِ اکرم کی گھبراہٹ کم ہوئی اور خوف جاتارہا تو آپﷺ نے تمام قصّہ حضرت خدیجہؓ کو سنایا اور بتلایا کہ کس طرح غارِ حرا میں اندھیرے کے باوجود ایک نور پھیل گیا ۔کس طرح حضرت جبرئیل ؑ نے آپﷺ سے کہا کہ پڑھو اور آپﷺ نے انکار کیا اور پھر بعد میں جو کچھ وہ پڑھتے گئے آپ دہراتے رہے ۔یہ باتیں سُن کر حضرت خدیجہؓ نے آپﷺ کو تسلّی دی اور کہا ’’اللہ آپ کے ساتھ ہے ۔آپﷺ انتہائی نیک اور پاکیزہ بندے ہیں ۔آپﷺ انسانوں سے محبت کرتے ہیں ۔کبھی کسی سے جھوٹ نہیں بولتے ۔ہر انسان کی قدرکرتے ہیں ۔حق دار کو اس کا حق دینے پر آپﷺ صادق و امین ہیں اور بہت بلند اخلاق کے مالک ہیں ۔‘‘
’’آپﷺ کی مزید تسلّی کے لئے حضرت خدیجہؓ آپ ﷺ کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو ایک عالم فاضل اور عقلمند بزرگ تھے اور انھوں نے بے شمار کتابوں کا مطالعہ کیا تھا اور انجیل و توریت پر گہری نظر رکھتے تھے ۔دین کے معاملات کو خوب سمجھتے تھے ۔ورقہ بن نوفل بُتوں کونا پسند کرتے اور ان کی عبادت سے گریز کرتے تھے ۔
جب ورقہ بن نوفل نے یہ تمام واقعہ ہمارے نبی ﷺ کی زبانی سنا تو وہ اپنی جگہ سے اُٹھے اور ہمارے پیارے نبی ﷺ کو گلے لگاتے ہوئے یہ کہنے لگے :
’’یہ بے شک اللہ کی وحی (پیغام) تھا جو آپ پر نازل ہوئی۔ آپﷺ اب عرب کے نبی ﷺ ہی نہیں بلکہ یوں کہیے کہ ساری دُنیا کے نبی ہیں ۔آپﷺ حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ کی طرح ہیں۔ اللہ نے آپﷺ کو اس بات کے لئے منتخب کیا ہے کہ آپ ﷺ انسانوں کو بھلائی ،محبت اور نیکی کی طرف بلائیں مگر آپ یاد رکھیے شرو ع شر وع میں لوگ آپﷺ کو جھٹلائیں گے اور آپﷺ کو آپ ﷺ کے شہر سے نکال دیں گے لیکن تھوڑے ہی عرصے میں آپﷺ کافروں سے لڑکر ان پر غالب آجائیں گے ۔میری آرزو ہے کہ میں اتنی عمر پاؤں کہ آپﷺ اور آپ ﷺ کی نبوّت کی حمایت کروں ۔‘‘ورقہ بن نوفل کی باتیں سُن کر رسولِ اکرم ﷺ کو بہت سکون ملا ۔اب آپﷺ کے دل میں یہ تمنّا اُٹھی کہ اس طرح کا پیغام اللہ کی جانب سے آپﷺ کو ملتا رہے ۔آپﷺ اب میرے پاس زیادہ آنے لگے اور آپﷺ کو اللہ کے دوسرے پیغا م کا شدّت سے انتظار رہتا ۔کافی عرصہ گزر جانے کے بعد آپﷺ پر دوسرا پیغام آیا ۔اُس وقت آپﷺ میرے ہاں نہیں بلکہ اپنے گھر ہی میں تھے ۔جو نہی حضرت جبرئیل ؑ آئے ۔آپ پرایک عجیب سی کپکپی طاری ہوگئی اور آپ ﷺ نے اپنی زوجہ کو یہ کہہ کر آواز دی کہ ’’مجھ پر جلدی سے کمبل ڈال دو ۔‘‘حضرت خدیجہؓ جلدی سے ایک کمبل لے کر آئیں اور آپﷺ کو اوڑھا دیا ۔اِس کے بعد حضرت جبرئیل ؑ آپ ﷺ سے مخاطب ہوئے اور ان کی آواز آپﷺ کے علاوہ کوئی دوسرا نہ سن سکتا تھا ۔حضرت جبرئیل نے جو کچھ پڑھا اس کا ترجمہ درج ذیل ہے ۔
’’اے کمبل میں لیٹے ہوئے نبیﷺ آپ ﷺ اٹھیے لوگوں کو اللہ سے ڈرائیے ۔اپنے
رَب کی بڑائی بیان کیجیے۔اپنے لباس کو پاک کیجیے بُرائیوں سے دُور ہیے اور کسی پر اس
لئے احسان نہ کریں کہ وہ اس سے بڑھ کر اس کا بدلہ آپ کو دے اور اپنے رب کا پیغام
پہنچانے کے لئے آپ صبر اور بر داشت سے کام لیں ۔‘‘
(سورۃ المُدثّر آیت ۱ تا ۷ )
اس کے بعد اللہ کا پیغا م (وحی ) ہمارے پیارے نبیﷺ کے پاس آنا شروع ہو گیا اور قرآن حکیم کی آیت پر آیت نازل ہونے لگی ۔(یہ سلسلہ تقریباً۲۳سال رہا ) سب سے آخر میں اللہ کا پیغام جوہمارے نبیﷺ کو ملا وہ یہ تھا ۔(ترجمہ )
’’اے نبی ﷺ آج کے دن ہم نے آپ کے لئے دین کو مکمل کر دیا او راپنی تمام نعمتوں
سے آپ کو مالامال کر دیا اور آپ اور تمام انسانوں کے لئے دین اسلام کو ہم نے پسند کیا۔‘‘
مجھے دنیا کے تمام غاروں پر فضیلت ہے اس لئے کہ میں وہ خوش نصیب غار ہوں کہ جہاں اللہ کے آخری نبیﷺ پر تمام دنیا کے انسانوں کے لئے اللہ کے پیغام کی ابتدا ہوئی ۔
پیارے بچّو!تم نے میرے متعلق اپنے بزرگوں سے ضرور سُنا ہو گا ۔جو لوگ حج اور عمرہ کی نیّت سے مکّہ معظّمہ آتے ہیں۔ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہ مجھ تک پہنچیں ۔وہ لوگ اپنے آپ کو بے حد خوش نصیب سمجھتے ہیں جو مجھ تک پہنچ کر دو رکعت نما ز نفل اس مقام پر کھڑے ہو کر پڑھیں ۔جہاں پر آج سے چودہ سو سال پہلے ہمارے پیارے نبی ﷺ عبادت میں مشغول رہتے اور جہاں پر اُ ن پر پہلی وحی نازل ہوئی ۔
آپ جب بڑے ہوں گے تو آپ کی بھی یہ تمنّا ہوگی کہ آپ مکّہ کی اس پہاڑی پر چڑھ کر مجھ تک پہنچیں جہاں ہمارے پیارے نبیﷺ نے بیشتر وقت عبادت الٰہی میں گزارا ۔