غلط چال
فوزیہ خلیل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب آپا عطرت کے ستارے بھی چال چلنے لگے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دروازے کی گھنٹی بجی اور آپا عطرت گھبرائی اور بولائی ہوئی اندر داخل ہوئیں:’’اے سنتی ہو۔۔۔ سلمیٰ ۔۔۔ اری او نصرت۔۔۔ ارے کہاں رہ گئیں تم دونوں۔۔۔ سنتی ہو۔۔۔ کل کے اخبار میں کیا آیا ہے؟‘‘
’’ کک کیا آیا ہے کل کے اخبار میں۔‘‘ چچی جان گھبرا کر باورچی خانے سے باہر نکلیں۔
’’اے لو نصرت تم تو دنیا کی بہت ہی بے خبر عورت ہو۔‘‘ اُنھوں نے چچی جان سے کہا۔ پھر ہاتھ میں موجود رول کیا ہوا اخبار کھولنے لگیں:’’لو سنواس میں لکھا ہے۔‘‘
’’ کک۔۔۔ کس میں لکھا ہے۔‘‘ میں بول اُٹھا۔
’’اے تم چپ بیٹھو لڑکے۔ خبردار جو بولے۔ ہاں تو اگلے مہینے کے زائچے کے آٹھویں گھر میں سیارہ ’باؤلا گیدڑ‘ کا وجود مکمل طور پر وہیں موجود رہے گا۔ آپ دوست نما دشمن سے دور رہیں۔ آپ کے تمام دوست احمق ہیں۔ آپ کے احمق دوستوں سے عقل مند دشمن ہی بہتر ہیں۔ آپ حد سے زیادہ قرضہ لے چکے ہیں۔ دیوالیہ ہوجانے سے قبل اس کو واپس کرنے کی فکر کریں۔ دوسروں کے پیسے دبانے کی آپ کی عادت اچھی نہیں ہے۔‘‘
’’یہ ۔۔۔ یہ لکھا ہے۔ مم۔۔۔ میرے مستقبل کے زائچے میں۔‘‘ چچی جان گھبرا کر بولیں۔
امی نے حیران ہو کر چچی جان کی طرف دیکھا۔
’’اے لو۔۔۔ سلمیٰ۔۔۔ یہ تم اتنی معنی خیز نظروں سے نصرت کو کیوں دیکھ رہی ہو۔ اے لو۔۔۔ اتنی بے فکری بھی کوئی اچھی نہیں۔ تمھارا زائچہ بھی ساتھ ہی لائی ہوں۔ تمھارے برج ، سیارے، ستارے سب جانتی ہوں میں۔‘‘ آپا عطرت اگلا اخبار کھولنے لگیں۔
’’اس مہینے کے آخری دنوں میں سیارہ’کالا ٹماٹر‘ اور ’سیارہ دم کٹا اُلو‘ کے نحوست بھرے اثرات آپ کے برج پر غالب رہیں گے۔ آپ ہر کام میں آسانی تلاش کرنے کی عادی ہیں۔ اتنی تن آسانی اور کاہلی اچھی نہیں۔ مشکلات کی طرف توجہ نہ دینے کی عادت آپ کو عبرت کا نشان بنا دے گی۔ اپنے گھر کے افراد پر بھرپور توجہ دیں۔‘‘
آپا عطرت نے اخبار رکھ دیا۔
’’اے لو۔۔۔ سلمیٰ ۔۔۔ تم توجہ کیوں نہیں دیتی گھر والوں پر۔‘‘
یہ جملہ سنتے ہی میں نے مسکین سا چہرہ بنا لیا۔
’’اے لو سلمیٰ۔ بچہ کیسا پھیکا اور کمزور دکھائی دے رہا ہے۔‘‘ آپا عطرت نے بڑھ کر میرا بازو تھام لیا۔ پھر انھوں نے ایک ہیبت ناک چیخ ماری۔
’’ہائے۔۔۔ رے کتنا تیز بخار ہو رہا ہے بچے کو۔ میں بھی کہوں۔ اس مہینے کے زائچے میں یہ کیوں لکھا ہے کہ گھر کے افراد پر توجہ دیں۔ اے سلمیٰ ۔۔۔ ایسی بھی کیا بے خبری ہے۔ پرایا بچہ ہے کیا؟ ‘‘
امی اور چچی جان گھبرا کر میری طرف بڑھیں۔
’’بب۔۔۔ بخار۔۔۔ نن۔۔۔ نہیں تو۔۔۔ وہ۔۔۔ ‘‘
’’اے سلمیٰ ۔۔۔ تم نے تو اپنی ساری زندگی ہکلانے اور تتلانے میں ہی گزار دی ہے۔ اب بچے کے مستقبل کی طرف توجہ دو۔ اے بیٹا۔ ذرا اپنی تاریخ پیدائش بتانا۔‘‘
میں نے جلدی سے بستر پر لیٹ کر کھانسنا بھی شروع کر دیا۔ کنپٹی اور گلے کو مسلنے لگا۔ جونہی میں نے تاریخ پیدائش بتائی تو انھوں نے اپنا وہ اخبار پھر کھول لیا۔
’’آپ کے برج پر سیارہ ’’دھوبی کا گدھا‘‘ کے بہت بُرے اثرات ہیں۔ اس مہینے کی ہر تاریخ آپ پر بہت بھاری رہے گی۔ آپ اپنے تمام پروگرام ختم کردیجیے۔ کسی بُری اور مہلک بیماری میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہے۔ بیماری جان لیوا بھی ہوسکتی ہے۔ دودھ والے کا بل وقت پر ادا کردیں۔‘‘
آپا عطرت، امی اور چچی جان نے مجھے خوف زدہ نظروں سے دیکھا۔ میں نے اب کراہنا بھی شروع کر دیا تھا۔
’’آج کھانے میں تم نے کیا بنایا ہے۔‘‘ آپا عطرت نے امی اور چچی جان نے پوچھا۔
’’بریانی اور کوفتے کا سالن۔ ساتھ شاہی ٹکڑے بنا لیے تھے میٹھے میں۔‘‘
’’ارے واہ‘‘ میں نے لیٹے لیٹے سوچا۔ ’’ یہ تو مزہ آگیا۔‘‘
’’اری سلمیٰ۔۔۔ اب یہ کچھ نہیں کھائے گا۔ اس کا پرہیزی کھانا میں بناؤں گی۔ بلکہ ایک معجون اور خمیرہ تو ابھی بھی میرے پاس ہے۔‘‘ اُنھوں نے اپنی میلی سی گھٹڑی کھولی اور اس میں سے ایک پچکی اور دبی ہوئی ڈبیہ نکالی ۔ پھر ایک عجیب سی چیز چمچ میں بھر کر میرے منھ میں گھسیڑ دی۔ میں لیٹا ہوا تھا فوراً اچھل کر کھڑا ہو گیا۔
’’ابھی میں بچے کے لیے دلیہ بنا کر لاتی ہوں۔ خبردار جو بریانی کو ہاتھ لگایا۔‘‘ آپا نے مجھ سے بہت لاڈ سے کہا۔
میرا منھ لٹک کر لمبا ہو گیا۔ میں سوچ رہا تھا آپا آتے ہی مجھ کو بار بار بازار کی طرف بھیجتی ہیں تو یہ بیمار ہوجانے کا ناٹک اچھا رہے گا۔ مگر افسوس ۔ اس سے تو بار بار کا بازار جانا ہی بہتر تھا۔سخت گرمی میں مجھ کو کمبل اوڑھا کر لٹا دیا گیا۔ ذرا دیر میں آپا میرے لیے دلیہ بنا کر لے آئیں۔ کہیں سے سخت کہیں سے نرم۔
’’ یہ کیا چیز ہے آپا۔‘‘ میں نے رو دینے والے انداز میں پوچھا۔آپا چمچے میں بھر بھر کر دلیہ میرے منھ میں ٹھونسنے لگیں۔امی نے ایک ٹوکری میں کینو اور کیلے ڈال کر میرے بستر کے قریب رکھ دیے ۔
’’اے سلمیٰ ۔۔۔ تم تو بہت ہی نادان ہو۔ اس بیماری میں کینو اور کیلے تو بہت ہی نقصان کرتے ہیں۔‘‘
آپا نے دلیہ کا پیالہ تپائی پر رکھ دیا اور پھلوں کی ٹوکری اٹھا کر اپنی گود میں رکھ لی۔ اگلے ہی لمحے وہ کینو چھیل رہی تھیں۔
’’اے لو۔۔۔ کینو تو کھٹے ہیں۔ سلمیٰ۔‘‘ آپا منھ میں ڈالتے ہوئے بولیں۔ اب آپا نے دوسرا کینو چھیل لیا تھا۔
’’امی ۔۔۔ ایک کیلا لے لوں۔‘‘ میں نے منمنا کر کہا۔
’’اے لولڑکے۔ اپنی جان کے دشمن بنے ہوئے ہو۔‘‘ آپا نے کیلوں کو جلدی سے اپنے قریب کر لیا۔ میں نے پھلوں کی ٹوکری پر الوداعی نظر ڈالی اور آنکھیں بند کرلیں۔
*۔۔۔*
اگلے پہر میری آنکھ کھلی تو میری کلائیوں پر کچھ باندھا جا رہا تھا میں بوکھلا کر اُٹھنے لگا۔
’’لیٹے رہو۔‘‘ آپا کی کرخت آواز مجھے ہوش کی دنیا میں لے آئی۔
’’ یہ کیا ہے آپا؟‘‘
’’ یہ تعویذ باندھ رہی ہوں ۔۔۔تمھاری حفاظت کے لیے ہیں۔‘‘
موٹے موٹے تعویذ کالے کپڑے میں لپٹے ہوئے تھے۔
میں نے رو دینے والے انداز میں ان کو دیکھا پھر بولا: ’’امی! مجھے بھوک لگ رہی ہے اور میں کوئی دلیہ، سوپ، کھچڑی ہر گز نہیں کھاؤں گا۔‘‘
’’لڑکے۔۔۔ تم بیمار ہو۔ جانتے نہیں ہو۔ تمھارے ستارے کیا کہتے ہیں؟‘‘آپا عطرت بولیں۔
میں اُٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ ’’آپا آپ نے سب کے ستاروں کا بتادیا۔ اپنے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔ آپ کے مستقبل کے زائچے میں کیا ہے؟‘‘
’’اے لو۔۔۔ یہ لڑکا تو منھ کو آتا ہے۔ میرے لیے تو یہ مہینہ نہایت خوش بختی کا مہینہ ہے۔ تمام بگڑے کام بنیں گے۔ تمام وقت ہنسی خوشی گزرے گا۔‘‘ آپا نے جلدی جلدی زبانی اخبار دیکھے بغیر کہا۔ ’’اپنا زائچہ تو مجھے زبانی یاد ہو گیا ہے۔‘‘
’’اچھا۔۔۔ اب میں چلتا ہوں۔‘‘ میں نے باہر کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔
’’تم کہاں جا رہے ہو۔ تم تو بیمار ہو۔‘‘
’’ میں دودھ والے کا بل ادا کرنے جا رہا ہوں۔آپ ہی نے تو زائچے میں سنایا تھا کہ ٹائم پر بل ادا کردیں۔‘‘ میں جواب سنے بغیر باہرنکل گیا۔
میں باہر گھومتا پھرتا رہا۔ لڑکوں کے ساتھ کرکٹ کھیلتا رہا۔ بازار سے برگر لے کر کھا لیا تھا۔ مغرب کی نماز پڑھ کر میں گھر میں داخل ہوا تو گھر میں کافی خاموشی تھی۔ سناٹا تھا۔
’’آپا عطرت کے ہوتے ہوئے گھر میں خاموشی۔‘‘ میں نے سوچا۔
آگے بڑھ کر میں نے کمرے میں جھانکا تو آپا بستر پر لیٹی ہاے ہاے کررہی تھیں۔ ان کے پورے پیر میں پٹی بندھی ہوئی تھی۔ امی اور چچی جان وہیں بیٹھی تھیں۔ میرا چچا زاد بھائی ارتضیٰ اور دادی جان بھی وہیں تھے۔
’’ یہ کیا ہوا؟‘‘ میں نے حیران ہو کر پوچھا۔
’’آپا کا پاؤں بُری طرح مڑ گیا ہے۔ ہڈی میں بال آگیا ہے۔ ابھی جراح کو بلایا تھا دو تین ہفتے آرام کرنا ہوگا۔‘‘ امی نے بتایا۔ میں وہیں بیٹھ گیا۔
’’آپا ۔۔۔ آئندہ کیا ہونے والا ہے یا ہمارے مستقبل میں کیا ہے۔ یہ صرف اﷲ رب العزت جانتے ہیں۔ انسان تو اتنا بے خبر ہے کہ اس کو اپنے اگلے پچھلے پل کا پتا نہیں ہوتا۔ کوئی نہیں جانتا کہ اس کے ساتھ آئندہ کیا ہوگا۔ ہم کو صرف اپنے رب پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔ ٹھیک ہے ناں آپا۔‘‘ میں نے بہت نرم لہجے میں کہا۔ آپا عطرت خاموش رہیں۔
’’آپا ۔۔۔ میں ٹھیک کہہ رہا ہوں ناں۔‘‘ میں نے ان کی طرف جھک کر کہا۔
آپا نے خاموشی سے اپنے تکیے کے نیچے سے زائچے کے صفحات نکالے۔ اگلے ہی لمحے وہ ان کے ٹکڑے ٹکڑے کررہی تھیں۔
’’آپا عطرت ۔‘‘ ارتضیٰ نے خوشی سے نعرہ لگایا۔
’’زندہ باد۔ ‘‘ میں نے بلند آواز میں کہا۔
*۔۔۔*