۱۴ ۔ فتح مکّہ کی کہانی
ڈاکٹر عبدالرؤف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنگِ اُحد میں ہزیت کے بعد مسلمان اپنے کھوئے ہُوئے وقار اور قوّت کی بحالی میں بڑی لگن اور محنت سے ہمہ تن مصروف ہو گئے ۔آنحضورﷺکے جہادوں ،حکمت عملیوں اور عہد ناموں کی بدولت مسلمانوں کی حالت مستحکم ہوتی چلی گئی ۔حتیٰ کہ وُہ وقت بھی آ پہنچا جب آپ ﷺ نے فیصلہ کیا کہ مکّہ مکرمہ سے کفر اور بُت پرستی کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیا جائے ۔تا کہ اس عظیم مقدّس مقام کی اصل حیثیت کے احیاء کے بعد اس کی وساطت سے سارے جزیرہ نمائے عرب کو اِسلامی معیار و اقدار سے مزیّن کر دیا جائے ۔
یہ مقدّس فریضہ آپﷺ نہایت عُمدگی اور کسی خون خرابے کے بغیر سر انجام دینا چاہتے تھے ۔ چنانچہ مناسب تیّاریاں شُروع کر دی گئیں ۔مگر آپ ﷺ نے ساتھ ہی یہ احتیاط بھی فرمائی کہ اہلِ مکّہ کو اس کی خبر نہ ہو تا کہ تصادم و توّحش کی نوبت ہی نہ آئے ۔پھر کُچھ عرصہ بعد آپﷺ نے مکّہ جانے کا اعلانِ عام بھی فرما دیا۔جس کے بعد مدینہ کے مسلمانوں کے گھر گھر مکّہ روانہ ہونے کے لیے کھُلم کھلا تیاریاں ہونے لگیں ۔
مکّہ میں حضورﷺ کی آمد
ایک عظیم الشّان لشکر کی قیادت میں حضورﷺ ۰ ۱رمضان المبارک ۸ ہجری (یکم فروری ۶۳۰ء)کو مدینہ روانہ ہُوئے اور ۲۰ رمضان المبارک (۱۱فروری ۶۳۰ء) مکّہ پہنچ گئے ۔مسلمان سپاہیوں کا یہ ٹھاٹیں مارتا ہُوا سمندر دس ہزار افراد پر مشتمل تھا۔راستے میں مختلف قبائل کے لوگ بھی اس میں بکثرت شامل ہوتے رہے ۔حضورﷺ چو نکہ ایک منجھے ہُوئے جرنیل اور ذی بصیرت سیاست دان ہونے کے علاوہ ایک راہ شناس تاجر بھی تھے اس لیے آپﷺ نے ایسا بھول بھلیّوں والا راستہ اختیار کیا کہ کفّارِ مکّہ کو اس معاملے کی اِس وقت خبر ہُوئی جب لشکرِ اسلامی نے مکّہ سے صرف ایک میل دور پہنچ کر مرّالظہران پر پڑاؤ ڈال لیا تھا۔جب مسلمانوں کے خیمے دُور دُور تک پھیل گئے اور را ت کو سپاہیوں نے جا بجا آگ روشن کی تو وہ بنجر اور ریتلا علاقہ ایک حسین اور منوّر وادی کا نظارہ پیش کرنے لگا ۔اِس عظیم الشّان منظر سے کفّارِمکّہ بُہت مرعُوب ہُوئے ۔
کفّار کے سردار ابو سفیان خیمہ نبویﷺ کے پاس سے گزرے تو محافظ دستہ نے اُنھیں پہچان کر روک لیا،حضرت عمرؓ تو اُ س کی گردن اُڑا دینا چاہتے تھے مگر حضورﷺ نے اُسے معافی دے دی۔ابو سفیان نے فوراًاسلام قبول کر لیا ۔پھراُ س نے اسلام سے قبل کی زندگی میں مسلمانوں پر کی ہُوئی زیادتیوں پر ندامت کے اشعار پڑھے ۔جب ابو سفیان نے حضورﷺ سے رُخصت ہو نا چاہا تو لشکرِ اسلام پُوری آب وتاب سے مکّہ شہر کی جانب بڑھ رہا تھا۔حضورﷺ نے حضرت عباسؓ سے کہا کہ ابو سفیان کو پہاڑ کی چوٹی پر لے جا کر کھڑا کر دیں تا کہ وہ اسلامی لشکر کا جاہ و جلال اپنی آنکھوں سے دیکھ لے ۔ابو سفیان مسلمانوں کی فوج دیکھ کر بُہت متأثر ہُوا تو سعدؓ نے اُس سے طنزاًکہا :’’آج ہی تو گھمسان کی جنگ کا اصل دِن ہے ۔‘‘بعد میں جب حضورﷺ کا خُصوصی دستہ ابو سفیان کے سامنے سے گُزرا تو اُس نے سعدؓ کا دِ ل شکن فقرہ آپﷺ کو شکایتاًسُنایا ۔حضورﷺ نے اُسے تسلّی دی اور فرمایا :’’سعدؓ نے بالکل غلط کہا تھا ۔آج تو خانہ کعبہ کی چھِنی ہُوئی عزت از سرِ نو بحال کی جائے گی ۔آج کا دِن لُٹے ہُوئے کو امن دلانے کادِن ہے ۔‘‘یہ کہہ کر آپ ﷺ سورۂ فتح تلاوت کرتے ہُوئے آگے نکل گئے ۔
لشکرِ اسلام نے آناً فاناًسارے مکّہ کومحاصرے میں لے لیا ۔خالدؓ بن ولید (جو کب کے مسلمان ہو چکے تھے )نے دائیں اور زبیرؓ بن عوام نے بائیں جانب سے شہر کو گھیرے میں لے لیا ۔ابو عبیدہؓ پیادہ فوج کی کمان کر رہے تھے ۔
صُورت حال کے سرسری جائزہ ہی سے اہلِ مکّہ کی اکثریّت اس نتیجہ پر پُہنچ چکی تھی کہ اب مسلمانوں کی مخالفت بے سُود ہے ۔ویسے بھی وہ روز روز کی محاذآرائیوں سے تنگ آ چکے تھے اور فوری امن و امان چاہتے تھے ۔تجارتی شاہراہ پر مسلمانوں کے قبضہ سے اُن کی تجارت تباہ ہو رہی تھی اور وہ معاشی ابتری اور اقتصادی بحران سے نجات کے خواہاں تھے ۔مگر اِن سب باتوں کے با وجود فتنہ انگیزوں کا ایک سخت جان گروہ اُن میں اب بھی مو جُود تھا جو بد ستور تناؤ اور تصادم پر تُلا بیٹھا تھا ۔اُنھوں نے اوباشوں کا ایک چھوٹا سا جتھہ بھی تیار کر لیا تھا اور مکّہ کے ایک پہاڑ جبل خند مہ پر جا بیٹھے تھے ۔ابو جہل کا لڑکا عکرمہ ان کا سر غنہ تھا ۔اُنھوں نے خالد بن ولید کے دستوں کے تین نامور مجاہدوں کو شہید بھی کر ڈالا تھا۔اِس پر خالدؓ طیش میں آکر ان پر ٹوٹ پڑے اور شر پسندوں کے تیرہ آدمی موت کے گھاٹ اُتار دیے ۔باقی غُنڈے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گئے ۔اُدھر کفّار مکّہ کے چند مغرور اور سر کش سرداروں کے سر تن سے یکے بعد دیگرے جُدا ہُوئے تو لاشوں کا ایک ڈھیر لگ گیا ۔یہ عبرت ناک منظر دیکھ کر ابو سفیان چیخ اُٹھا :’’قریش کا سر سبز گلستان ویران کر دیاگیا !‘‘
عام مُعافی کا اِعلان
کفّارِ مکّہ بے حد سہمے ہُوئے تھے ۔وُہ اپنے گھناؤنے ماضی پر سخت خائف بھی تھے اور نادم بھی ۔ اُنھیں پتہ نہ تھا کہ اُن سے کیسا سُلوک ہو گا۔آخرِ کار شہر کے ایک بُہت بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہُوئے حضورﷺ نے لوگوں سے پُوچھا:’’میں آج تم سے کیسا سلوک کرنے والاہُوں ؟‘‘سب نے بیک آواز کہا :’’آپ شریف بھائی ہیں ،شریف بھائی کے بیٹے ہیں ۔آپ ﷺ سے صرف خیر او ر بھلائی ہی کی اُمیّد ہو سکتی ہے ۔‘‘اس پر آپ ﷺ نے فرمایا :’’آج میری طرف سے تم پر کوئی سر زنش نہ ہوگی ۔جاؤتم سب آزاد ہو!‘‘اس غیر متوقّع اعلانِ معافی سے لوگوں کے سہمے ہُوئے چہرے خوشی سے تمتما اُٹھے ۔ کیونکہ یہ وہی بد نصیب لوگ تھے جنھوں نے آپﷺ پر قاتلانہ حملوں کی بھر مار کر دی تھی اور آپﷺ کی تضحیک و تمسخر کرنے اور سخت اذیّتیں دینے میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھی تھی ۔ایسے بد کرداروں کو اگر سخت سے سخت سزا بھی دی جاتی تو بھی کم تھی ۔
اِس کے بعد آپﷺ نے اعلانِ عام فرمایا کہ مندرجہ ذیل قسم کے تمام لوگوں کو مکمل امان دی جائے :
۱۔ وہ جو خانہ کعبہ میں داخل ہو جائیں ۔
۲۔ وہ جو ہتھیار ڈال دیں ۔
۳۔ وہ جو ابو سفیان کے گھر پناہ لے لیں ،اور
۴۔ وہ جو اپنے گھر کا دروازہ بند کر کے اندر رہیں ۔
اس عام معافی نامہ سے صرف سترہ ایسے افراد کو محروم کردیا گیا جنھوں نے کُچھ زیادہ ہی سنگین جُرموں کا اِتکاب کیا ہُوا تھا۔چنانچہ اس قسم کے گِنے چُنے افراد کے سر قلم کر دیے گئے ۔عکرمہ بن ابو جہل کی بیو ی امّ حکیم اسی روز ایمان لے آئی ۔مگراُس کا شوہر یمن کی جانب بھاگ نکلا ۔اُمّ حکیم اُس کے پیچھے پیچھے یمن جا پہنچی اور اُسے اسلام کی دعوت دی ۔جب عکرمہ نے اسلام قبول کر لیا تو بیوی اُسے اپنے ہمراہ مکّہ واپس لے آئی اورحضورﷺ کے سامنے پیش کر دیا ۔حضورﷺ نے اُسے بھی معاف کر دیا ۔
بُتانِ کعبہ کا اَنجام
فتح مکّہ کا اصل مقصد اسلام کی وسیع تراشاعت اور بُت پرستی کا مکمّل خاتمہ تھا ۔اُس وقت تک خانہ کعبہ میں تین سو ساٹھ بُت نصب ہو چکے تھے ۔کُفّار اُن کا عقیدت سے طواف کرتے ،اُن پر قربانیاں دیتے ،اُن سے منتیں مانگتے اور چڑھاوے چڑھاتے ۔کعبہ کی دیواروں پر بعض انبیاء کرام کی گمراہ کُن اور مضحکہ خیز تصاویر بھی آویزاں تھیں۔کعبہ کے مشہور بُت کا نام ہُبل تھاجسے بُت پرستوں کا ’’خُدائے اعظم ‘‘سمجھا جاتا تھا ۔اُسے یاقوت کے سُرخ پتھّر سے تراشا گیا تھا اور اُس کی شکل وصورت اِنسان جیسی تھی۔ ہُبل کے سامنے سات مقدّس تیر ہر وقت پڑے رہتے تھے جن میں سے کسی پر ’’ہاں ‘‘(نعم)اور کسی پر ’’ناں ‘‘(لا) لکھا ہوتا ۔تو ہم پرست عرب جب بھی کوئی اہم کام کرنا چاہتے تو ان مقدّس تیروں سے قرعہ نکالتے تھے ۔پھر ہاں یا ناں کی صُورت جو کچھ بھی نِکلتا اُس پر سختی سے عمل کرتے تھے ۔
اِ ن سب بُتوں کو حضورﷺ نے پاش پاش کر دیا ۔آپﷺ ایک لکڑی سے ان سب کو باری باری ٹھوکر لگاتے جاتے اور یہ آیات پڑھتے جاتے :’’حق آیا اور باطل کو شکست ہُوئی اور باطل تو مِٹنے ہی والی چیز ہے ۔‘‘(سورہ بنی سرائیل )۔کعبہ کے اندر لکڑی کے بنے ہُوئے مقدّس کبوتر بھی تھے ۔آپ ﷺ نے ان کو اپنے دستِ مُبارک سے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا ۔کُچھ بُت قدرے اونچے نصب تھے ۔وہاں تک آپ ﷺ کا ہاتھ نہیں پہنچتا تھا ۔چنانچہ آپﷺ نے حضرت علیؓ کو اپنے کندھے پر چڑھایا۔اُنھوں نے آپ ﷺ کے کندھے پر کھڑے ہوکر اُن تمام بتوں کو توڑ توڑ کر گرا دیا۔
کعبے کے اندر بعض نبیوں اور فرشتوں کی تصویریں اور مجسمے بھی موجود تھے ۔حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسمٰعیل ؑ کے اِ ن مجسموں کے ہاتھوں میں جُوئے اور فال کے تیر تھما دیے گئے تھے ۔ان لغو مجسموں پر حضورﷺ کو سخت غصّہ آیا۔آپﷺ نے فرمایا:’’خُدا قریش کو تباہ کرے ۔وُہ خوب جانتے تھے کہ ان دونوں پیغمبروں نے کبھی جوا نہیں کھیلا ۔‘‘ کعبہ کی دیوار پر حضرت عیسیٰ ؑ کی رنگین تصویر بھی بنائی گئی تھی اِسے بھی مٹا دیا گیا ۔مگر اس تصویر کے دھُند لے نقوش کچھ عرصہ بعد تک بھی کعبہ کی دیوار وں پر نظر آتے رہے ۔
خانہ کعبہ کے علاوہ مکّہ کے نواحی علاقوں میں بھی متعدّد بڑے بڑے بُت نصب تھے ۔جن کے اِرد گرد حج کی سی رسمیں ادا کی جاتیں اور بُتانِ کعبہ کی طرح ان کا بھی بے حد احترام ہو تا تھا۔ان میں سے سب سے بڑے بُت لات ،منات اورعُزّیٰ تھے ۔جاہل عرب عوام کا اعتقاد تھا کہ خُدا سردیوں میں لات اور گرمیوں میں عزّیٰ کے ہاں رہتا ہے ۔
بُت پرستی کے اِ ن چکروں میں سارا عرب بُہت بُری طرح پھنسا ہُوا تھا ۔انہی ’’بر گزیدہ ‘‘بُتوں کی مخالفت کی وجہ سے کفّار آپﷺ کے جانی دشمن بن گئے تھے ۔مگر اب ان کے دِن پُورے ہو چکے تھے اور حضورﷺ کی ضربِ کار ی سے دیکھتے ہی دیکھتے یہ سب بُت اپنے اصل انجام کوجا پُہنچے ۔
کُفر ٹُوٹا خُدا خُدا کر کے
فتح مکّہ اور تطہیرِکعبہ کے سارے مراحل نہایت خوش اسلوبی سے طے ہُوئے ۔مسلمانوں نے خود لُوٹ مار کی نہ کسی کو کرنے کاموقع دیا ۔اللہ کا گھر گمراہ کُن بُتوں ،مجسموں اور تصویروں کی غلاظت سے پاک ہُوا تو آپ ﷺ نے حضرت بلالؓ کو اذان کا حکم دیا ۔چنانچہ حرم کعبہ کی طہارت اور اس کی دیرینہ عظمت کی بحالی کے بعد مسلمانوں نے آپ ﷺ کی امامت میں وہاں پہلی باقاعدہ نماز ادا کی اور اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لائے ۔
مکّہ کی فتح حضورﷺ کے اُ س تعمیری جہاد کی آخری کڑی تھی جس کی ابتداء بھی مکّہ ہی سے ہُوئی تھی ۔اِس مبارک دِن بڑے بڑے مجرموں کو بھی معافی دے دی گئی اور بغیر کسی تناؤ یا تصادم کے شہر کے کونے کونے کو اسلام کی روشنی سے منوّر کر دیا گیا ۔مکّہ میں آپﷺ نے تقریباًدو ہفتے قیام فرمایااور اِ س مختصر سے عرصہ میں اپنے سارے مشن کو مکمّل کر دیا ۔
سقوطِ مکّہ کا ایک بڑا پہلو یہ بھی ہے کہ کعبہ کی کھوئی ہُوئی طہارت اور عظمت کو بحال کر دیا گیا اور اُن تمام گمراہ کُن بُتوں ،مجسموں اور تصویریں کو ضائع کر دیا گیا جو اُس کی عزّت و عظمت پر بد نما داغ بنے ہُو ئے تھے ۔ہر خاص و عام کو فیاضانہ معافی دے کر مسلمانوں نے ایک ایسی مہذّب روایت کی بنا ڈالی جو ہر فاتح کے لیے مشعل راہ بن سکتی ہے ۔
فتحِ مکّہ کے بعد بھی مسلمانوں نے جزیرہ نمائے عرب اور دُوسرے ممالک میں تبلیغ و جہاد کے پرو گرام پُوری شدّو مد سے جاری رکھے ۔نتیجہ یہ ہُوا کہ اسلامی تعلیمات کا اُجالا ہر طرف پھیلتا ہی چلا گیا ۔