فیصلہ
جدون ادیب
۔۔۔۔۔
وہ لڑکا اپنی حرکات و سکنات کی وجہ سے مشکوک لگ رہا تھا۔ صفدر صاحب بالکونی میں کھڑے موبائل پر کسی سے بات کررہے تھے۔ وہ لڑکا ساتھ والی رہائشی عمارت کی چھت پر موجود تھا۔ اس نے محتاط انداز میں اِدھر اُدھر دیکھا اور اپنا بیگ اتار کر اس میں کچھ تلاش کرنے لگا۔ صفدر صاحب نے کال منقطع کی اور لڑکے کی ویڈیو بنانے لگے۔ لڑکے نے بیگ سے ایک ماسک نکال کر پہنا،بیگ سے کوئی چیز نکالی، تیزی سے چلتا ہوا دیوار کے پاس آیا اور محتاط طریقے سے ملحقہ عمارت کی چھت پر کود گیا۔
یہ دیکھ کر صفدر صاحب کے بدن میں سنسنی دوڑ گئی۔ اسی دوران وہ لڑکا اس عمارت کی چھت پر چلتا ہوا سامنے کے حصّے کی طرف گیا اور وہاں جاکر اس نے ہاتھ میں پکڑا ایک بینر نکال کر چھت کے دونوں سروں پر باندھ کر نیچے لٹکا دیا۔ پھر وہ تیزی سے مڑا اور دیوار پر چڑھ کر پہلے والی عمارت کی چھت پر کود گیا۔
تجسس کے مارے صفدر صاحب کا بُرا حال ہوگیا۔ انھوں نے موبائل بند کر کے جیب میں ڈالا اور تیزی سے دروازے کی طرف بڑھے ۔ وہ اس وقت چھٹی منزل پر موجود تھے۔ وہ تیزی سے سیڑھیاں اترتے ہوئے نیچے آئے اور گھوم کر سامنے والی عمارت کے مرکزی دروازے پر پہنچے مگر انھیں تاخیر ہوگئی اور وہ لڑکا سڑک عبور کرتا ہوا لوگوں کے ہجوم میں گم ہوگیا۔
صفدر صاحب واپس پلٹے اور سڑک کی طرف مڑگئے۔ وہ تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے ملحقہ عمارت کے سڑک والے حصے کے سامنے پہنچے اور سر اٹھا کر اوپر دیکھا تو دکان کے بورڈ کے اوپر ایک بینر لگا ہوا تھا۔ انھوں نے بینر پر لکھی عبارت کو پڑھا تو اچھل پڑے اور جیب سے فون نکال کر نمبر ملانے لگے۔
٭…٭
’’بیٹا! گر میں یہودی کمپنی کی صابن نہیں بیچوں گا تو جس کو لینا ہوگا، وہ کسی اور سے لے لے گا۔ صرف ایسا کرنے سے کیا فرق پڑے گا؟‘‘
’’بابا! فرق پڑے گا۔ جب آپ ان کو بتائیں گے کہ آپ یہودی کمپنی کی صابن فروخت نہیں کرتے تو ان کی غیرت بھی جاگے گی!‘‘
’’چلو، اگر ایسا کر بھی لیں تو کیا ہمارے صابن اتنے معیاری ہیں؟ اگر لوگوں کو ہماری وجہ سے نقصان ہوا تو کیا وہ ہماری گردن نہیں پکڑیں گے؟‘‘
’’نہیں ایسا نہیں ہوگا، آپ صرف معیاری اشیاء فروخت کریں۔ یہ دیکھیں اس چارٹ میں تمام یہودی مصنوعات کے متبادل دیے گئے ہیں۔ آپ بلا جھجک ان کو فروخت کرسکتے ہیں۔ یہ محفوظ ہیں اور کم قیمت بھی! اور میں آپ کو یہ صابن اور کولڈڈرنک کی بوتل آزمائش کے لیے تحفتاً پیش کرتا ہوں۔ آپ ان کو استعمال کریں گے تبھی آپ کو میری بات پر یقین آئے گا!‘‘
٭…٭
’’آپ اتنی چھوٹی عمر میں اتنی مشہور ہوگئیں! آپ کو کتنا فخر محسوس ہوتا ہے !‘‘
’’نہیں بالکل نہیں، شہرت اور مشہوری نے مجھ میں میرے اندر انکساری پیدا کی ہے!الحمد للہ‘‘
’’بہت اچھا! یہ بتائیے کہ آپ کیسے اتنی اہم ہوگئیں کہ آپ کے بلاگ، کالم اور مضامین حوالے کے طور پر استعمال ہونے لگے ہیں۔ آپ نے لوگوں کا اعتماد کیسے حاصل کیا اور آپ نے فلسطین کے موضوع کا ہی انتخاب کیوں کیا؟‘‘
’’اس معاملے پر میری رہ نمائی میرے والد صاحب نے کی ہے۔ اسرائیل کے فلسطین پر مسلسل حملوں اور شہادتوں کو دیکھ کر ہم غم زدہ ہیں۔ اس تناظر میں والد صاحب نے مشورہ دیا کہ ہمیں صحیح معنوں میں مظلوم فلسطینیوں کی مدد کرنی چاہیے۔ میں نے پھر عالمی میڈیا پر نظر رکھنی شروع کردی۔ مختلف ممالک میں فلسطین، اسرائیل جنگ کے حوالے سے سرگرمیاں، اخبارات کے تجزیے اور کالمز کے ساتھ ساتھ عالمی رہ نمائوں کے بیانات کو بھی باریک بینی سے دیکھنا شروع کردیا۔ ساتھ ہی تاریخ کو بھی پڑھا اور پھر جو سمجھ میں آیا، لکھتی چلی گئی۔ خدا کی توفیق سے میں نے اخلاص اور سچائی لکھا تو لوگ میری تحریروں کو پسند کرنے لگے۔‘‘
’’تو آپ فلسطینی بہن بھائیوں کے ساتھ کھڑی ہیں؟‘‘
’’جی ہاں، اخوت کے جذبے اور ایمان کی طاقت کے ساتھ؟‘‘
’’پھر آپ کب تک ان کا ساتھ دیں گی!‘‘
’’ظلم کے خاتمے اور فلسطین کی مکمل آزادی تک!ان شاء اللہ‘‘
٭…٭
’’میرے بچو! میں نے تم تینوں کو سنا، مجھے بہت اچھا لگا۔ فخر ہوا کہ میں تمھارا بابا ہوں! اب میں مجموعی جائزہ پیش کرتا ہوں۔ مقابلے کے فاتح کا فیصلہ آپ کریں گے۔ لیکن میں سب سے پہلے تو ایان کے حوصلے کی تعریف کروں گا کہ اس نے خطرناک راستے کا انتخاب کیا۔ مشہور یہودی کمپنی کی ریسٹورنٹ کی عمارتوں پر فلسطین کی حمایت میں بینر لگائے لیکن پھر ایک صاحب نے ان کی ویڈیو بنالی۔ معاملہ پولیس تک پہنچا۔ ہم مقدمے کے اندراج اور اس کی تشہیر کے ذریعے اپنا پیغام مؤثر انداز میں پہنچانا چاہتے تھے مگر منیجر صاحب ہوشیار نکلے اور ایان کی عمر کو جواز بنا کر معاملہ رفع دفع کردیا۔ ایان کی کوششوں سے یہ ہوا کہ بہت سارے لوگ اس برانڈ کو ترک کرگئے اور اس ریستوران کی مجموعی سیل گر گئی! یہ اہم کام یابی ہے ۔ پھر عمران میاں نے جو دکان داروں کے لیے مہم چلائی اور اس سلسلے میں اپنا جیب خرچ بھی قربان کردیا، جس کے نتیجے میں کافی تعداد میں لوگ مقامی مصنوعات کی جانب مائل ہوگئے اور اب یہ مصنوعات آسانی سے مل رہی ہیں جب کہ یہودی برانڈ کو ڈھونڈنا پڑرہا ہے۔ یہ بات میں اس سروے کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں جو میں نے خود کیا ہے۔ ہم نے ارد گرد کی سو سے زائد دکانوں کے کام یاب دورے کیے اور الحمد للہ یہ شعور اور آگہی پھیلانے کی مہم اب بھی جاری ہے۔ شاباش میرے بچو! اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک، میری بیٹی ہاجرہ فلسطینی بھائیوں بہنوں کے لیے آواز اٹھاتے اـٹھاتے ایک مشہور بلاگر اور کالم نگار بن چکی ہے۔ کئی اداروں نے اسے اپنے ساتھ کام کرنے کی پیش کش کی ہے۔ اس کی تحریر نے لوگوں کے ایمان جگائے ہیں۔ میں ہاجرہ سے بہت متاثر ہوا اور حسبِ وعدہ بھاری مالیت کا چیک اور تحائف حاضرِ خدمت کرتا ہوں۔ میرے خیال میں آپ تینوں بچے فاتح قرار پائے ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘
’’جی ہاں، ہم تینوں فاتح ہیں۔ اللہ ہمارے فلسطینی بھائیوں کو بھی فتح نصیب کرے اور انھیں آزادی عطا فرمائے۔‘‘
’’آمین!‘‘
’’اور اس چیک کا کیا کرنا ہے؟‘‘
’’یہ فلسطین فنڈ میں جانا چاہیے۔ یہ ہمارا مشترکہ فیصلہ ہے!‘‘
٭…٭