عید گاہ
منشی پریم چند
۔۔۔۔۔۔۔
رمضان کے پورے تیس روزوں کے بعد آج عید آئی۔ کتنی سہانی اور رنگین صبح ہے۔ بچے کی طرح مسکراتے درختوں پر کچھ عجیب ہریالی ہے۔ کھیتوں میں کچھ عجیب رونق ہے۔ آسمان پر کچھ عجیب فضا ہے۔ آج کا سورج دیکھ کتنا پیارا ہے گویا دنیا کو عید کی خوشی پر مبارکباد دے رہا ہے۔ گاؤں میں کتنی چہل پہل ہے۔ عید گاہ جانے کی دھوم ہے۔ کسی کے کرتے میں بٹن نہیں ہیں تو سوئی تاگا لینے دوڑے جا رہا ہے۔ کسی کے جوتے سخت ہو گئے ہیں۔ اسے تیل اور پانی سے نرم کر رہا ہے۔ جلدی جلدی بیلوں کو سانی پانی دے دیں۔ عید گاہ سے لوٹتے لوٹتے دوپہر ہو جائے گی۔ تین کوس کا پیدل راستہ پھر سینکڑوں رشتے داروں اورقرابت والوں سے ملنا ملانا۔ دوپہر سے پہلے لوٹنا نا ممکن ہے۔ لڑکے سب سے زیادہ خوش ہیں۔ کسی نے ایک روزہ رکھا، وہ بھی دوپہر تک۔ کسی نے وہ بھی نہیں لیکن عید گاہ جانے کی خوشی ان کا حصہ ہے۔ روزے بڑے بوڑھوں کے لئے ہوں گے، بچوں کے لئے تو عید ہے۔ روز عید کا نام رٹتے تھے آج وہ آ گئی۔ اب جلدی پڑی ہوئی ہے کہ عید گاہ کیوں نہیں چلتے۔ انہیں گھر کی فکروں سے کیا واسطہ؟ سویّوں کے لئے گھر میں دودھ اور شکر میوے ہیں یا نہیں، اس کی انہیں کیا فکر؟ وہ کیا جانیں ابا کیوں بدحواس گاؤں کے تاجر چودھری قاسم علی کے گھر دوڑے جا رہے ہیں، ان کی اپنی جیبوں میں تو قارون کا خزانہ رکھا ہوا ہے۔ بار بار جیب سے خزانہ نکال کر گنتے ہیں۔ دوستوں کو دکھاتے ہیں اور خوش ہو کر رکھ لیتے ہیں۔ ان ہی دو چار پیسوں میں دنیا کی سات نعمتیں لائیں گے۔ کھلونے اور مٹھائیاں اور باجے اور خدا جانے کیا کیا۔ سب سے زیادہ خوش ہے حامد۔ وہ چار سال کا غریب خوب صورت بچہ ہے، جس کا باپ پچھلے سال ہیضہ کے مرض کی نذر ہو گیا تھا اور ماں نہ جانے کیوں زرد ہوتی ہوتی ایک دن مر گئی۔ کسی کو پتہ نہ چلا کہ بیماری کیا ہے؟ کہتی کس سے؟ کون سننے والا تھا؟ دل پر جو گزرتی تھی سہتی تھی اور جب نہ سہا گیا تو دنیا سے رخصت ہو گئی۔ اب حامد اپنی بوڑھی دادی امینہ کی گود میں سوتا ہے اور اتنا ہی خوش ہے۔ اس کے ابا جان دور روپے کمانے گئے تھے اور بہت سی تھیلیاں لے کر آئیں گے۔ امی جان اللہ میاں کے گھر مٹھائی لینے گئی ہیں۔ اس لئے خاموش ہے۔ حامد کے پاؤں میں جوتے نہیں ہیں۔ سر پر ایک پرانی دھرانی ٹوپی ہے جس کا گوٹہ سیاہ ہو گیا ہے ،پھر بھی وہ خوش ہے۔ جب اس کے ابّا جان تھیلیاں اور اماں جان نعمتیں لے کر آئیں گے تب وہ دل کے ارمان نکالے گا۔ تب دیکھے گا کہ محمود اور محسن آذر اور سمیع کہاں سے اتنے پیسے لاتے ہیں۔ دنیا میں مصیبتوں کی ساری فوج لے کر آئے، اس کی ایک نگاہِ معصوم اسے پامال کرنے کے لئے کافی ہے۔
حامد اندر جا کر امینہ سے کہتا ہے، ”تم ڈرنا نہیں امّاں! میں گاؤں والوں کا ساتھ نہ چھوڑوں گا۔ بالکل نہ ڈرنا لیکن امینہ کا دل نہیں مانتا۔ گاؤں کے بچے اپنے اپنے باپ کے ساتھ جا رہے ہیں۔ حامد کیا اکیلا ہی جائے گا۔ اس بھیڑ بھاڑ میں کہیں کھو جائے تو کیا ہو؟ نہیں …. امینہ اسے تنہا نہ جانے دے گی۔ ننھی سی جان۔ تین کوس چلے گا تو پاؤں میں چھالے نہ پڑ جائیں گے؟
مگر وہ چلی جائے تو یہاں سوّیاں کون پکائے گا، بھوکا پیاسا دوپہر کو لوٹے گا، کیا اس وقت سوّیاں پکانے بیٹھے گی۔ رونا تو یہ ہے کہ امینہ کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ اس نے فہمین کے کپڑے سیے تھے۔ آٹھ آنے پیسے ملے تھے۔ اس اٹھنی کو ایمان کی طرح بچاتی چلی آئی تھی اس عید کے لئے لیکن گھر میں پیسے اور نہ تھے اور دودھ والی کے پیسے اور چڑھ گئے تھے، دینے پڑے۔ حامد کے لئے روز دو پیسے کا دودھ تو لینا پڑتا ہے، اب کل دو آنے پیسے بچ رہے ہیں۔
سمیع: سنا ہے چودھری صاحب کے قبضہ میں بہت سے جنات ہیں۔ کوئی چیز چوری چلی جائے، چودھری صاحب اس کا پتہ بتا دیں گے اور چور کا نام تک بتا دیں گے۔ جمعراتی کا بچھڑا اس دن کھو گیا تھا۔ تین دن حیران ہوئے، کہیں نہ ملا، تب جھک مار کر چودھری کے پاس گئے۔ چودھری نے کہا، مویشی خانہ میں ہے اور وہیں ملا۔ جنات آ کر انہیں سب خبریں دے جایا کرتے ہیں۔
اب ہر ایک کی سمجھ میں آ گیا کہ چودھری قاسم علی کے پاس کیوں اس قدر دولت ہے اور کیوں وہ قرب و جوار کے علاقوں کے سوداگر ہیں۔ جنات آ کر انہیں روپے دے جاتے ہیں۔ آگے چلئے یہ پولیس لائن ہے۔ یہاں پولیس والے قواعد کرتے ہیں۔ رائٹ لپ، پھام پھو۔
نوری نے تصحیح کی، ”یہاں پولیس والے پہرہ دیتے ہیں۔ جب ہی تو انہیں بہت خبر ہے۔ اجی حضرت یہ لوگ چوریاں کراتے ہیں۔ شہر کے جتنے چور ڈاکو ہیں سب ان سے ملے رہتے ہیں۔ رات کو سب ایک محلّہ میں چوروں سے کہتے ہیں اور دوسرے محلّہ میں پکارتے ہیں ۔جاگتے رہو۔ میرے ماموں صاحب ایک تھانہ میں سپاہی ہیں۔ بیس روپے مہینہ پاتے ہیں لیکن تھیلیاں بھر بھر گھر بھیجتے ہیں۔ میں نے ایک بار پوچھا تھا، ماموں اتنے روپے آپ چاہیں تو ایک دن میں لاکھوں بار لائیں۔ ہم تو اتنا ہی لیتے ہیں جس میں اپنی بدنامی نہ ہو اور نوکری بنی رہے۔
حامد نے تعجب سے پوچھا، ”یہ لوگ چوری کراتے ہیں تو انہیں کوئی پکڑتا نہیں؟ “ نوری نے اس کی نا سمجھی پر رحم کھا کر کہا، ”ارے احمق! انہیں کون پکڑے گا، پکڑنے والے تو یہ خود ہیں لیکن اللہ انہیں سزا بھی خوب دیتا ہے۔ تھوڑے دن ہوئے ماموں کے گھر میں آگ لگ گئی۔ سارا مال متاع جل گیا۔ ایک برتن تک نہ بچا۔ کئی دن تک درخت کے سائے کے نیچے سوئے، اللہ قسم پھر نہ جانے کہاں سے قرض لائے تو برتن بھانڈے آئے۔“
بستی گھنی ہونے لگی۔ عید گاہ جانے والوں کے مجمعے نظر آنے لگے۔ ایک سے ایک زرق برق پوشاک پہنے ہوئے۔ کوئی تانگے پر سوار کوئی موٹر پر چلتے تھے تو کپڑوں سے عطر کی خوشبو اڑتی تھی۔
کسانوں کی یہ مختصر سی ٹولی اپنی بے سر و سامانی سے بے پرا اپنی بد حالی میں مگر صابر و شا کر چلی جاتی تھی۔ جس چیز کی طرف تاکتے تاکتے رہ جاتے اور پیچھے سے بار بار ہارن کی آواز ہونے پر بھی خبر نہ ہوتی تھی۔ محسن تو موٹر کے نیچے جاتے جاتے بچا۔
وہ عید گاہ نظر آئی۔ جماعت شروع ہو گئی ہے۔ املی کے گھنے درختوں کا سایہ ہے۔ نیچے کھلا ہوا پختہ فرش ہے۔ جس پر پھول دار کپڑا بچھا ہوا ہے اور نمازیوں کی قطاریں ایک کے پیچھے دوسرے خدا جانے کہاں تک چلی گئی ہیں۔ پختہ فرش کے نیچے پھول دار کپڑا بھی نہیں۔ کئی قطاریں کھڑی ہیں جو آتے جاتے ہیں پیچھے کھڑے ہوتے جاتے ہیں۔ آگے اب جگہ نہیں رہی۔ یہاں کوئی رتبہ اور عہدہ نہیں دیکھتا۔ اسلام کی نگاہ میں سب برابر ہیں۔ کسانوں نے بھی وضو کیا اور جماعت میں شامل ہو گئے۔ کتنی باقاعدہ نظم و ضبط والی جماعت ہے، لاکھوں آدمی ایک ساتھ جھکتے ہیں، ایک ساتھ دو زانو بیٹھ جاتے ہیں اور یہ عمل بار بار ہوتا ہے۔ ایسا معلوم ہو رہا ہے گویا بجلی کی لاکھوں بتیاں ایک ساتھ روشن ہو جائیں اور ایک ساتھ بجھ جائیں۔ کتنا احترام والااوررعب والا نظارہ ہے۔ جس کی ہم آہنگی اور وسعت اور تعداد دلوں پر ایک جھوم جانے والی کیفیت پیدا کر دیتی ہے۔ گویا بھائی چارے کا رشتہ ان تمام روحوں کوملائے ہوئے ہے۔
نماز ختم ہو گئی ہے لوگ آپس میں گلے مل رہے ہیں۔ کچھ لوگ محتاجوں اور فقیروں کو خیرات کر دے رہے ہیں۔ جو آج یہاں ہزاروں جمع ہو گئے ہیں۔ ہمارے کسانوں نے مٹھائی اور کھلونوں کی دکانوں پر رش کیا۔ بوڑھے بھی ان دلچسپیوں میں بچوں سے کم نہیں ہیں۔
یہ دیکھو جھولا ہے ایک پیسہ دے کر آسمان پر جاتے معلوم ہوں گے۔ کبھی زمین پر گرتے ہیں ،یہ چرخی ہے لکڑی کے گھوڑے، اونٹ، ہاتھی رسوں سے لٹکے ہوئے ہیں۔ ایک پیسہ دے کر بیٹھ جاؤ اور پچیس چکروں کا مزہ لو۔ محمود اور محسن دونوں جھولے پر بیٹھے ہیں۔ آذر اور سمیع گھوڑوں پر۔
ان کے بزرگ اتنے ہی بچکانہ شوق سے چرخی پر بیٹھے ہیں۔ حامد دور کھڑا ہے۔ تین ہی پیسے تو اس کے پاس ہیں۔ ذرا سا چکر کھانے کے لئے وہ اپنے خزانہ کا تیسرا حصہ نہیں خرچ کر سکتا۔ محسن کا باپ بار بار اسے چرخی پر بلاتا ہے لیکن وہ راضی نہیں ہوتا۔ بوڑھے کہتے ہیں اس لڑکے میں ابھی سے اپنا پرایا آ گیا ہے۔ حامد سوچتا ہے، کیوں کسی کا احسان لوں؟ غربت نے اسے ضرورت سے زیادہ حساس بنا دیا ہے۔ سب لو گ چرخی سے اترتے ہیں۔ کھلونوں کی خرید شروع ہوتی ہے۔ سپاہی اور گجریا اور راجہ رانی اور وکیل اور دھوبی اور بہشتی کسی فرق کے بغیر ران سے ران ملائے بیٹھے ہیں۔ دھوبی راجہ رانی کی بغل میں ہے اور بہشتی وکیل صاحب کی بغل میں۔ واہ کتنے خوبصورت…. بولا ہی چاہتے ہیں۔ محمود سپاہی پر لٹو ہو جاتا ہے۔ خاکی وردی اور پگڑی لال، کندھے پر بندوق، معلوم ہوتا ہے ابھی قواعد(پریڈ) کے لئے چلا آ رہا ہے۔ محسن کو بہشتی(مشک میں پانی لانے والا) پسند آیا۔ کمر جھکی ہوئی ہے اس پر مشک کا دہانہ ایک ہاتھ سے پکڑے ہوئے ہے۔ دوسرے ہاتھ میں رسی ہے، کتنا پر جوش چہرہ ہے، شاید کوئی گیت گا رہا ہے۔ مشک سے پانی ٹپکتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ نوری کو وکیل پسند ہے۔ کتنی عالمانہ صورت ہے، سیاہ چغہ نیچے سفید اچکن، اچکن کے سینہ کی جیب میں سنہری زنجیر، ایک ہاتھ میں قانون کی کتاب لئے ہوئے ہے۔ معلوم ہوتا ہے، ابھی کسی عدالت سے بحث کر کے چلے آ رہے ہیں۔ یہ سب دو دو پیسے کے کھلونے ہیں۔ حامد کے پاس کل تین پیسے ہیں۔ اگر دو کا ایک کھلونا لے لے تو پھر اور کیا لے گا؟ نہیں …. کھلونے فضول ہیں۔ کہیں ہاتھ سے گر پڑے تو چور چور ہو جائے۔ ذرا سا پانی پڑ جائے تو سارا رنگ دھل جائے۔ ان کھلونوں کو لے کر وہ کیا کرے گا، کس مصرف کے ہیں؟
محسن کہتا ہے، ”میرا بہشتی روز پانی دے جائے گا صبح شام۔“
نوری بولی، ”اور میرا وکیل روز مقدمے لڑے گا اور روز روپے لائے گا“
حامد کھلونوں کی مذمت کرتا ہے۔ مٹی کے ہی تو ہیں، گریں تو چکنا چور ہو جائیں، لیکن ہر چیز کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہا ہے اور چاہتا ہے کہ ذرا دیر کے لئے انہیں ہاتھ میں لے سکتا۔ یہ ایک زمینی دکان دار کی دکان ہے، طرح طرح کی ضروری چیزیں، ایک بچھی ہوئی چادر پر رکھی ہوئی ہیں۔ گیند، سیٹیاں، باجے، بھنورے، ربڑ کے کھلونے اور ہزاروں چیزیں۔ محسن ایک سیٹی لیتا ہے ،محمود گیند، نوری ربڑ کا بت جو چوں چوں کرتا ہے اور سمیع ایک خنجری(چھوٹی ڈفلی)۔ اسے وہ بجا بجا کر گائے گا۔ حامد کھڑا ہر ایک کو حسرت سے دیکھ رہا ہے۔ جب اس کا ساتھی کوئی چیز خرید لیتا ہے تو وہ بڑے شوق سے ایک بار اسے ہاتھ میں لے کر دیکھنے لگتا ہے، لیکن لڑکے اتنے دوست نواز نہیں ہوتے۔ خاص کر جب کہ ابھی دلچسپی تازہ ہے۔ بے چارہ یوں ہی مایوس ہو کر رہ جاتا ہے۔
کھلونوں کے بعد مٹھائیوں کا نمبر آیا، کسی نے ریوڑیاں لی ہیں، کسی نے گلاب جامن، کسی نے سوہن حلوہ۔ مزے سے کھا رہے ہیں۔ حامد ان کی برادری سے خارج ہے۔ کمبخت کی جیب میں تین پیسے تو ہیں، کیوں نہیں کچھ لے کر کھاتا۔ حریص نگاہوں سے سب کی طرف دیکھتا ہے۔
محسن نے کہا، ”حامد یہ ریوڑی لے جا کتنی خوشبودار ہیں۔“
حامد سمجھ گیا یہ محض شرارت کی وجہ سے کہہ رہا ہے۔ محسن اتنا سخی طبیعت کا نہیں تھا۔ پھر بھی وہ اس کے پاس گیا۔ محسن نے جیب سے دو تین ریوڑیاں نکالیں۔ حامد کی طرف بڑھائیں۔ حامد نے ہاتھ پھیلایا۔ محسن نے ہاتھ کھینچ لیا اور ریوڑیاں اپنے منھ میں رکھ لیں۔ محمود اور نوری اور سمیع خوب تالیاں بجا بجا کر ہنسنے لگے۔ حامد کھسیانہ ہو گیا۔ محسن نے کہا۔
”اچھا اب ضرور دیں گے۔ یہ لے جاؤ۔ اللہ قسم۔“
حامد نے کہا، ”رکھیے رکھیے…. کیا میرے پاس پیسے نہیں ہیں؟“
سمیع بولا، ”تین ہی پیسے تو ہیں، کیا کیا لو گے؟“
محمود بولا، ”تم اس سے مت بولو، حامد میرے پاس آؤ۔ یہ گلاب جامن لے لو“
حامد: ”مٹھائی کون سی بڑی نعمت ہے۔ کتاب میں اس کی برائیاں لکھی ہیں۔“
محسن: ”لیکن جی میں کہہ رہا ہوں کہ کچھ مل جائے تو کھا لیں۔ اپنے پیسے کیوں نہیں نکالتے؟“
محمود:” اس کی ہوشیاری میں سمجھتا ہوں۔ جب ہمارے سارے پیسے خرچ ہو جائیں گے، تب یہ مٹھائی لے گا اور ہمیں چڑا چڑا کر کھائے گا۔“
حلوائیوں کی دکانوں کے آگے کچھ دکانیں لوہے کی چیزوں کی تھیں کچھ تانبے اور ملمع کے زیورات کی۔ لڑکوں کے لئے یہاں دلچسپی کا کوئی سامان نہ تھا۔ حامد لوہے کی دکان پر ایک لمحہ کے لئے رک گیا۔ چمٹے رکھے ہوئے تھے۔ وہ چمٹا پناہ خرید لے گا۔ ماں کے پاس چمٹا نہیں ہے۔ توے سے روٹیاں اتارتی ہیں تو ہاتھ جل جاتا ہے۔ اگر وہ چمٹا لے جا کر اماں کو دے دے تو وہ کتنی خوش ہوں گی۔ پھر ان کی انگلیاں کبھی نہیں جلیں گی، گھر میں ایک کام کی چیز ہو جائے گی۔ کھلونوں سے کیا فائدہ۔ مفت میں پیسے خراب ہوتے ہیں۔ ذرا دیر ہی تو خوشی ہوتی ہے پھر تو انہیں کوئی آنکھ اٹھا کر کبھی نہیں دیکھتا۔ یا تو گھر پہنچتے پہنچتے ٹوٹ پھوٹ کر برباد ہو جائیں گے یا چھوٹے بچے جو عید گاہ نہیں جا سکتے ہیں ضد کر کے لے لیں گے اور توڑ ڈالیں گے۔ چمٹا کتنے فائدہ کی چیز ہے۔ روٹیاں توے سے اتار لو، چولہے سے آگ نکال کر دے دو۔ اماں کو فرصت کہاں ہے ،بازار آئیں اور اتنے پیسے کہاں ملتے ہیں۔ روز ہاتھ جلا لیتی ہیں۔
اس کے ساتھی آگے بڑھ گئے ہیں۔ سبیل پر سب کے سب پانی پی رہے ہیں۔ کتنے لالچی ہیں۔ سب نے اتنی مٹھائیاں لیں ،کسی نے مجھے ایک بھی نہ دی۔ اس پر کہتے ہیں میرے ساتھ کھیلو۔ میری تختی دھو لاؤ۔ اب اگر یہاں محسن نے کوئی کام کرنے کو کہا تو خبر لوں گا، کھائیں مٹھائی…. آپ ہی منہ سڑے گا، پھوڑے پھنسیاں نکلیں گی۔ آپ ہی زبان چٹوری ہو جائے گی، تب پیسے چرائیں گے اور مار کھائیں گے۔ میری زبان کیوں خراب ہو گی۔ اس نے پھر سوچا، اماں چمٹا دیکھتے ہی دوڑ کر میرے ہاتھ سے لے لیں گی اور کہیں گی۔ میرا بیٹا اپنی ماں کے لئے چمٹا لایا ہے، ہزاروں دعائیں دیں گی۔ پھر اسے پڑوسیوں کو دکھائیں گی۔ سارے گاؤں میں واہ واہ مچ جائے گی۔ ان لوگوں کے کھلونوں پر کون انہیں دعائیں دے گا۔ بزرگوں کی دعائیں سیدھی خدا کی بارگاہ میں پہنچتی ہیں اور فوراً قبول ہوتی ہیں۔ میرے پاس بہت سے پیسے نہیں ہیں۔ جب ہی تو محسن اور محمود یوں اکڑ دکھاتے ہیں۔ میں بھی ان کو اکڑ دکھاؤں گا۔ وہ کھلونے کھیلیں، مٹھائیاں کھائیں میں غریب سہی۔ کسی سے کچھ مانگنے تو نہیں جاتا۔ آخر ابا کبھی نہ کبھی آئیں گے ہی پھر ان لوگوں سے پوچھوں گا کتنے کھلونے لو گے؟ ایک ایک کو ایک ٹوکری دوں اور دکھا دوں کہ دوستوں کے ساتھ اس طرح سلوک کیا جاتا ہے۔ جتنے غریب لڑکے ہیں سب کو اچھے اچھے کرتے دلوا دوں گا اور کتابیں دے دوں گا، یہ نہیں کہ ایک پیسہ کی ریوڑیاں لیں تو چڑا چڑا کر کھانے لگیں۔
چمٹا دیکھ کر سب کے سب ہنسیں گے۔ احمق تو ہیں ہی سب۔ اس نے ڈرتے ڈرتے دکاندار سے پوچھا، ”یہ چمٹا بیچو گے؟“
دکاندار نے اس کی طرف دیکھا اور ساتھ کوئی آدمی نہ دیکھ کر کہا،” وہ تمہارے کام کا نہیں ہے۔“
”بکاؤ ہے یا نہیں؟“
”بکاؤ ہے جی اور یہاں کیوں لاد کر لائے ہیں۔“
”تو بتلاتے کیوں نہیں؟ کے پیسے کا دو گے؟“
”چھ پیسے لگے لگا۔“
حامد کا دل بیٹھ گیا۔ کلیجہ مضبوط کر کے بولا، ”تین پیسے لو گے؟ اور آگے بڑھا کہ دکاندار کی گھرکیاں نہ سنے، مگر دکاندار نے گھرکیاں نہ دیں۔“ چمٹا اس کی طرف بڑھا دیا اور پیسے لے لئے۔
حامد نے چمٹا کندھے پر رکھ لیا، گویا بندوق ہے اور شان سے اکڑتا ہوا اپنے رساتھیوں کے پاس آیا۔
محسن نے ہنستے ہوئے کہا، ”یہ چمٹا لایا ہے۔ احمق اسے کیا کرو گے؟“
حامد نے چمٹے کو زمین پر پٹک کر کہا، ”ذرا اپنا بہشتی زمین پر گرا دو، ساری پسلیاں چور چور ہو جائیں گی بچو کی۔“
محمود: ”تو یہ چمٹا کوئی کھلونا ہے؟“
حامد: ”کھلونا کیوں نہیں ہے؟ ابھی کندھے پر رکھا، بندوق ہو گیا۔ ہاتھ میں لے لیا فقیر کا چمٹا ہو گیا، چاہوں تو اس سے تمہاری ناک پکڑ لوں۔ ایک چمٹا دوں تو تم لوگوں کے سارے کھلونوں کی جان نکل جائے۔ تمہارے کھلونے کتنا ہی زور لگائیں، اس کا بال بیکا نہیں کر سکتے۔ میرا بہادر شیر ہے یہ چمٹا۔“
سمیع متاثر ہو کر بدلا، ”میری ڈفلی سے بدلو گے؟ دو آنے کی ہے۔“
حامد نے ڈفلی کی طرف حقارت سے دیکھ کر کہا، ”میراچمٹا چاہے تو تمہاری ڈفلی کا پیٹ پھاڑ ڈالے۔ بس ایک چمڑے کی جھلی لگا دی، ڈھب ڈھب بولنے لگی۔ ذرا سا پانی لگے تو ختم ہو جائے۔ میرا بہادر چمٹا تو آگ میں، پانی میں، آندھی میں، طوفان میں برابر ڈٹا رہے گا۔“
میلہ بہت دور پیچھے چھوٹ چکا تھا۔ دس بج رہے تھے۔ گھر پہنچنے کی جلدی تھی۔ اب چمٹا نہیں مل سکتا تھا۔ اب کسی کے پاس پیسے بھی تو نہیں رہے، حامد ہے بڑا ہوشیار۔ اب دو حصے ہو گئے، محمود، محسن اور نوری ایک طرف، حامد اکیلا و تنہا دوسری طرف۔ سمیع کسی کی طرف نہیں ہے۔ جس کی فتح دیکھے گا اس کی طرف ہو جائے گا۔ مقابلہ شروع ہو گیا۔ آج حامد کی زبان بڑی صفائی سے چل رہی ہے۔ تین کا اتحاد اس کے جوش سے پریشان ہو رہا ہے۔ تین کے پاس تعداد کی طاقت ہے، حامد کے پاس حق اور اخلاق، ایک طرف مٹی ربڑ اور لکڑی کی چیزیں۔ دوسری جانب اکیلا لوہا جو اس وقت اپنے آپ کو فولاد کہہ رہا ہے۔ وہ مضبوط تن ہے، لشکروں کو توڑتا ہے اگر کہیں شیر کی آواز کان میں آ جائے تو میاں بہشتی کے اوسان خطا ہو جائیں۔ میاں سپاہی بندوق چھوڑ کر بھاگیں۔ وکیل صاحب کا سارا قانون پیٹ میں سما جائے۔ چغے میں، منہ میں چھپا کر لیٹ جائیں۔ مگر یہ بہادر رستمِ ہند لپک کر شیر کی گردن پر سوار ہو جائے گا اور اس کی آنکھیں نکال لے گا۔
محسن نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر کہا، ”اچھا تمہاراچمٹا پانی تو نہیں بھر سکتا۔ حامد نے چمٹے کو سیدھا کر کے کہا کہ یہ بہشتی کو ایک ڈانٹ پلائے گا تو دوڑا ہوا پانی لا کر اس کے دروازے پر چھڑکنے لگے گا۔ جناب اس سے چاہے گھڑے مٹکے اور کونڈے بھر لو۔
محسن کا ناطقہ بند ہو گیا۔ نوری نے مدد پہنچائی، ”بچہ گرفتار ہو جائیں تو عدالت میں بندھے بندھے پھریں گے۔ تب تو ہمارے وکیل صاحب ہی پیروی کریں گے۔ بولئے جناب۔“
حامد کے پاس اس وار کا توڑ اتنا آسان نہ تھا، دفعتاًاس نے ذرا مہلت پا جانے کے ارادے سے پوچھا، ”اسے پکڑنے کون آئے گا؟“
محمود نے کہا، ”یہ سپاہی بندوق والا۔“
حامد نے منھ چڑا کر کہا۔” یہ بے چارے اس رستم ہند کو پکڑ لیں گے؟ اچھا لاؤ ابھی ذرا مقابلہ ہو جائے۔ اس کی صورت دیکھتے ہی بچہ کی ماں مر جائے گی، پکڑیں گے کیا بے چارے۔“
محسن نے تازہ دم ہو کر وار کیا، ”تمہارے چمٹے کا منھ روز آگ میں جلا کر ے گا۔“ حامد کے پاس جواب تیار تھا، ”آگ میں بہادر کودتے ہیں جناب۔ تمہارے یہ وکیل اور سپاہی اور بہشتی ڈرپوک ہیں۔ سب گھر میں گھس جائیں گے۔ آگ میں کودنا وہ کام ہے جو رستم ہی کر سکتا ہے۔“
نوری نے انتہائی جدت سے کام لیا، ”تمہارا چمٹا باورچی خانہ میں زمین پر پڑا رہے گا۔ میرا وکیل شان سے میز کرسی لگا کر بیٹھے گا۔“ اس جملہ نے مردوں میں بھی جان ڈال دی، سمیع بھی جیت گیا۔” بے شک بڑے معرکے کی بات کہی،چمٹے باورچی خانہ میں پڑا رہے گا۔“
حامد نے دھاندلی کی،” میرا دست پناہ باورچی خانہ میں رہے گا، وکیل صاحب کرسی پر بیٹھیں گے تو جا کر انہیں زمین پر پٹک دے گا اور سارا قانون ان کے پیٹ میں ڈال دے گا۔“
اس جواب میں بالکل جان نہ تھی، بالکل بے تکی سی بات تھی لیکن قانون پیٹ میں ڈالنے والی بات چھا گئی۔ تینوں سورما منھ تکتے رہ گئے۔ حامد نے میدان جیت لیا، گو تینوں کے پاس ابھی گیند ،سیٹی اور بت ذخیرہ تھے مگر ان مشین گنوں کے سامنے ان بزدلوں کو کون پوچھتا ہے۔ چمٹا رستم ہند ہے۔ اس میں کسی کو چوں چراں کی گنجائش نہیں۔
فاتح کو مفتوحوں سے خوشامد کا رویہ ملتا ہے۔ وہ حامد کو ملنے لگا اور سب نے تین تین آنے خرچ کئے اور کوئی کام کی چیز نہ لا سکے۔ حامد نے تین ہی پیسوں میں رنگ جما لیا۔ کھلونوں کا کیا اعتبار۔ دو ایک دن میں ٹوٹ پھوٹ جائیں گے۔ حامد کاچمٹا تو فاتح رہے گا۔ ہمیشہ صلح کی شرطیں طے ہونے لگیں۔
محسن نے کہا، ”ذرا اپنا چمٹا دو۔ ہم بھی تو دیکھیں۔ تم چاہو تو ہمارا وکیل دیکھ لو حامد! ہمیں اس میں کوئی اعتراض نہیں ہے۔“ وہ سخی طبعیت کا فاتح ہے۔چمٹا باری باری سے محمود، محسن، نور اور سمیع سب کے ہاتھوں میں گیا اور ان کے کھلونے باری باری حامد کے ہاتھ میں آئے۔ کتنے خوبصورت کھلونے ہیں، معلوم ہوتا ہے بولا ہی چاہتے ہیں۔ مگر ان کھلونوں کے لئے انہیں دعا کون دے گا؟ کون کون ان کھلونوں کو دیکھ کر اتنا خوش ہو گا جتنا اماں جان چمٹا کو دیکھ کر ہوں گی۔ اسے اپنے عمل پرہرگز پچھتاوا نہیں ہے۔ پھر اب چمٹا تو ہے اور سب کا بادشاہ۔ راستے میں محمود نے ایک پیسے کی ککڑیاں لیں۔ اس میں حامد کو بھی حصہ ملا حالانکہ وہ انکار کرتا رہا۔ محسن اور سمیع نے ایک ایک پیسے کے فالسے لئے، حامد کو خراج ملا۔ یہ سب رستم ہند کی برکت تھی۔
گیارہ بجے سارے گاؤں میں چہل پہل ہو گئی۔ میلے والے آ گئے۔ محسن کی چھوٹی بہن نے دوڑ کر بہشتی اس کے ہاتھ سے چھین لیا اور مارے خوشی کے جو اچھلی تو میاں بہشتی نیچے آ رہے اور عالمِ جاودانی کو سدھارے۔ اس پر بھائی بہن میں مار پیٹ ہوئی۔ دونوں خوب روئے۔ ان کی اماں جان یہ کہرام سن کر اور بگڑیں۔ دونوں کو اوپر سے دو دو چانٹے رسید کئے۔
میاں نوری کے وکیل صاحب کا حشر اس سے بھی بدتر ہوا۔ وکیل زمین پر یا طاق پرتو نہیں بیٹھ سکتا۔ اس کی پوزیشن کا لحاظ تو کرنا ہی ہو گا۔ دیوار میں دو کھونٹیاں گاڑی گئیں۔ ان پر لکڑی کا ایک پرانا پٹرا رکھا گیا۔ پٹرے پر سرخ رنگ کا ایک کپڑا بچھا دیا گیا جو منزلی قالین کا تھا۔ وکیل صاحب عالم بالا پہ جلوہ افروز ہوئے۔ یہیں سے قانونی بحث کریں گے۔ نوری ایک پنکھا لے کر جھلنے لگی۔ معلوم نہیں پنکھے کی ہوا سے یا پنکھے کی چوٹ سے وکیل صاحب عالم بالا سے دنیائے فانی میں آ رہے۔ اور ان کی مجسم خاکی کے پرزے ہوئے۔ پھر بڑے زور کا ماتم ہوا اور وکیل صاحب کی میت پارسی دستور کے مطابق کوڑے پر پھینک دی گئی تاکہ بے کار نہ جا کر چیلوں کوﺅں کے کام آ جائے۔
اب رہے میاں محمود کے سپاہی۔ وہ محترم اور رعب والی ہستی ہے۔ اپنے پیروں چلنے کی ذلت اسے گوارا نہیں۔ محمود نے اپنی بکری کا بچہ پکڑا اور اس پر سپاہی کو سوار کیا۔ محمود کی بہن ایک ہاتھ سے سپاہی کو پکڑے ہوئے تھی اور محمود بکری کے بچہ کا کان پکڑ کر اسے دروازے پر چلا رہا تھا اور اس کے دونوں بھائی سپاہی کی طرف سے نعرے لگاتے چلتے تھے۔ معلوم نہیں کیا ہوا، میاں سپاہی اپنے گھوڑے کی پیٹھ سے گر پڑے اور اپنی بندوق لئے زمین پر آ رہے۔ ایک ٹانگ ٹوٹ گئی۔ مگر کوئی بات نہیں، محمود ہوشیار ڈاکٹر ہے۔ ڈاکٹر نگم اور بھاٹیہ اس کی شاگردی کر سکتے ہیں اور یہ ٹوٹی ٹانگ آناً فاناً میں جوڑ د ے گا۔ صرف گولرکے درخت کا دودھ چاہئے۔ گولر کا دودھ آتا ہے۔ ٹانگ جوڑی جاتی ہے لیکن جوں ہی کھڑا ہوتا ہے، ٹانگ پھر الگ ہو جاتی ہے۔ آپریشن کا عمل ناکام ہو جاتا ہے۔ تب محمود اس کی دوسری ٹانگ بھی توڑ دیتا ہے۔ اب وہ آرام سے ایک جگہ بیٹھ سکتا ہے۔ ایک ٹانگ سے تو نہ چل سکتا تھا نہ بیٹھ سکتا تھا۔ اب وہ کونے میں بیٹھ کر آڑ میں شکار کھیلے گا۔
اب میاں حامد کا قصہ سنئے۔ امینہ اس کی آواز سنتے ہی دوڑی اور اسے گود میں اٹھا کر پیار کرنے لگی۔ دفعتاًاس کے ہاتھ میں چمٹا دیکھ کر چونک پڑی۔
”یہ چمٹا کہاں تھا بیٹا؟“
”میں نے مول لیا ہے، تین پیسے میں۔“
امینہ نے چھاتی پیٹ لی۔ ”یہ کیسا بے سمجھ لڑکا ہے کہ دوپہر ہو گئی۔ نہ کچھ کھایا نہ پیا۔ لایا کیا یہ چمٹا۔ سارے میلے میں تجھے اور کوئی چیز نہ ملی۔“
حامد نے خطاوارانہ انداز سے کہا، ”تمہاری انگلیاں توے سے جل جاتی تھیں کہ نہیں؟“
امینہ کا غصہ فوراً شفقت میں تبدیل ہو گیا۔ اور شفقت بھی وہ نہیں جو منہ پر بیان ہوتی ہے اور اپنی ساری تاثیر لفظوں میں بکھیر دیتی ہے۔ یہ بے زبان شفقت تھی۔ دردمیں ڈوبی ہوئی۔ اف کتنااپنی خواہش کو مارا ہے۔ کتنا دل کو مارا ہے۔ غریب نے اپنے بچکانہ شوق کو روکنے کے لئے کتنا برداشت کیا۔ جب دوسرے لڑکے کھلونے لے رہے ہوں گے، مٹھائیاں کھا رہے ہوں گے، اس کا دل کتنا لہراتا ہو گا۔ اتنی برداشت اس سے ہوئی۔ کیونکہ اپنی بوڑھی ماں کی یاد اسے وہاں بھی رہی۔ میرا لال میری کتنی فکر رکھتا ہے۔ اس کے دل میں ایک ایسا جذبہ پیدا ہوا کہ اس کے ہاتھ میں دنیا کی بادشاہت آ جائے اور وہ اسے حامد کے اوپر نثار کر دے۔
اور تب بڑی دلچسپ بات ہوئی۔ بڑھیا امینہ ننھی سی امینہ بن گئی۔ وہ رونے لگی۔ دامن پھیلا کر حامد کو دعائیں دیتی جاتی تھی اور آنکھوں سے آنسو کی بڑی بڑی بوندیں گراتی جاتی تھی۔ حامد اس کا راز کیا سمجھتا اور نہ شاید ہمارے بعض ناظرین ہی سمجھ سکیں گے۔