دوڑ کا عالمی چیمپئن
کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔
”آج میں اوّل آئی ہوں۔!“ ماہ رخ نے گھر میں داخل ہوتے ہی اعلان کیا۔
امی، باجی، شاہ رخ اور ماموں جان،سب کے چہرے کھل اٹھے۔ شاہ رخ نے کہا:
”ذرا جلدی سے اپنا بستہ کھول کر مٹھائی کا ڈبا تو نکالیے۔“
”واہ تمہارا خیال ہے کہ میں بستے میں مٹھائیاں لے کر آتی ہوں۔ پھر تو اسکول میں بھی مٹھائی کے بارے میں ہی پڑھائی ہوتی ہو گی۔ آج کس چیز کا پیریڈہے، گلاب جامن کا!“
”خیر مذاق چھوڑیے، یہ بتائیے کہ کس امتحان میں اول آنے کا اتفاق ہوا؟“ شاہ رخ نے پوچھا۔
”شاہ رخ صاحب، آپ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ میں الحمد للہ ہر امتحان میں اول آتی ہوں، لیکن آج تو ہمارے اسکول میں کھیلوں کے مقابلے تھے، میں دو سو میٹر کی دوڑ میں اول آئی ہوں۔ مجھے انعام بھی ملا ہے۔“
”بھئی یہ تو بہت اچھی خبر سنائی تم نے۔ اللہ کا کرم ہے کہ تم تعلیم کے ساتھ ساتھ کھیل میں بھی آگے ہو۔ ویسے تم نے دوسو میٹر کا فاصلہ کتنی دیر میں طے کیا؟“ماموں جان نے پوچھا۔
”میں نے یہ فاصلہ ایک منٹ تیرہ سیکنڈ میں طے کر لیا۔“ماہ رخ نے بتایا۔
”تمہیں معلوم ہے اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا جانور تخلیق فرمایا ہے جو چار سو میٹر کا فاصلہ صرف تیرہ سیکنڈ میں طے کر لیتا ہے۔“ماموں جان نے پوچھا۔
”ضرور وہ ہرن ہوگا۔“
”نہیں۔“
”خر گوش۔۔ نہیں نہیں،۔۔۔ اچھا میں سمجھ گئی، یہ یقینا چیتا ہوگا۔“
”ہاں، اب تم نے درست جواب دیا۔ وہی تو دنیا کا سب سے تیز دوڑنے والاجانور ہے۔“
”ماموں جان، مجھے۔۔۔۔۔“
”میں سمجھ گیا۔ پہلے تم نماز ادا کر کے کھانا کھا لو۔ کچھ آرام کرلو۔ اسکول سے ملنے والا کام مکمل کر لو۔ پھر رات میں اطمینان سے بیٹھیں گے۔“ماموں جان نے سمجھایا۔
”ٹھیک ہے ماموں جان۔“ماہ رخ نماز پڑھنے چلی گئی۔
٭……٭……٭
رات کو عشاء کی نماز اور کھانے کے بعد ماہ رخ ماموں جان کے کمرے میں پہنچ گئی۔ ماموں جان کچھ لکھ رہے تھے۔ انہوں نے قلم بند کر کے رکھ دیا اور کہنے لگے:
”آؤ بھئی ماہ رخ، آج دوڑ کے عالمی چیمپئن کی باتیں کریں لیکن صرف چارسو میٹر کی دوڑ کے چیمپئن کی باتیں۔!“
”چار سو میٹر ہی کیوں، ماموں جان؟“ ماہ رخ حیرانی سے بولی۔
”اس لیے کہ یہ تو درست ہے کہ یہ دنیا کا سب سے زیادہ تیز دوڑنے والا جانور ہے۔ اللہ نے اس کو ایسی صلاحیت دی ہے کہ یہ ایک سو دس کلو میٹر فی گھنٹے کی رفتار سے دوڑ سکتا ہے، لیکن اس رفتار سے یہ تقریباً چار سو میٹر تک کا فاصلہ ہی طے کر سکتا ہے۔ چیتا یہ فاصلہ صرف تیرہ سیکنڈ میں طے کر لیتا ہے۔ اس قدر تیز دوڑنے کی وجہ سے یہ تھک جاتا ہے اور پھر تقریباً بیس منٹ تک آرام کرتا ہے، لیکن مختصر وقت میں یہ فاصلہ طے کرنے کی صلاحیت، شکار کرنے میں، چیتے کے بہت کام آتی ہے۔“
”اب میں سمجھی ماموں جان، چیتے پاکستان میں بھی پائے جاتے ہیں؟“
”تقریباً ساٹھ سال پہلے تک، چیتے برصغیر پاک و ہند کے پہاڑی علاقوں میں موجود تھے لیکن اب چیتا پاکستان اور بھارت میں نہیں پایا جاتا۔ زیادہ تر چیتے افریقہ میں پائے جاتے ہیں۔ اسپین کے صحراء،الجزائر، لیبیا اور مصر میں بھی کچھ چیتے ملتے ہیں۔ روس، ایران، ترکستان میں بھی چیتوں کے کچھ آثارملے ہیں۔“
”ماموں جان، چیتے اور تیندوے میں کیا فرق ہے؟“
”دراصل بنیادی طور پر تو یہ بلیوں کا خاندان ہے لیکن ان کی الگ الگ قسمیں بن گئی ہیں۔ چیتا ان میں بالکل الگ ہے۔ یوں تو تیندوے، گلدار، وغیرہ سب ملتے جلتے ہیں لیکن چیتے کی پہچان یہ ہے کہ اس کے چہرے پر دو واضح دھاریں ہوتی ہیں۔ یہ دھاریاں اس کی آنکھوں سے شروع ہو کر اس کے منہ کے پاس ختم ہو جاتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے سیاہ آنسوؤں کی لکیر آنکھوں سے بہ رہی ہے۔ اس کے علاوہ چیتے کے جسم پر آدھے انچ قطر کے مخصوص دھبے ہوتے ہیں۔ تیندوے کی کھال پر دھبے ہوتے ہیں لیکن وہ چھوٹے چھوٹے پھولوں کی طرح ہوتے ہیں۔ ایک اور دلچسپ بات سنو، ہر چیتے کے جسم پر دھبوں کی ترتیب مختلف ہوتی ہے، بالکل اسی طرح جیسے، ہر انسان کی انگلیوں کے نشانات مختلف ہوتے ہیں۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے۔“
”ماموں جان، چیتا اس قدر تیز کیسے دوڑ لیتا ہے؟“
”اس کے کئی اسباب ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے چیتے کو لمبا اور پھر یرا جسم عطا کیا ہے۔ سر سے دم تک اس کی لمبائی چار سے پانچ فٹ ہوتی ہے۔ دو سے ڈھائی فٹ لمبی دم ہوتی ہے۔ یہ دم تیز دوڑنے میں چیتے کا توازن قائم رکھتی ہے۔ چیتے کی قسم کے تمام جانوروں میں صرف چیتا ایسا جانور ہے جس کے ناخنوں پر کھال چڑھی ہوئی نہیں ہوتی۔ آپ نے دیکھا ہوگا بلی غصے میں آ جائے تو اس کے ناخن، پنجوں سے باہر نکل آتے ہیں۔ چیتے کے ناخن اس کے پنجوں سے مستقل طور پر باہر نکلے رہتے ہیں۔ اس طرح چیتے کو تیز دوڑنے اور اچانک پلٹنے میں آسانی ہوتی ہے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چیتے کی سانس کی نالی اور پھیپھڑے دوسرے جانوروں کے مقابلے میں بڑے رکھے ہیں۔ اس طرح چیتے کے پھیپھڑوں میں زیادہ ہوا (آکسیجن) سما سکتی ہے جو اسے تیز دوڑنے میں مدد دیتی ہے۔ آرام کی حالت میں چیتا ایک منٹ میں سولہ بار سانس لیتا ہے لیکن دوڑ نے کی حالت میں یہ ایک منٹ میں ایک سو چھپن مرتبہ سانس لیتا ہے۔“
”واقعی یہ اللہ کی قدرت ہے۔“ ماہ رخ متاثر ہو کر بولی۔
”پھر یہ بھی ہے بیٹے کہ اللہ نے چیتے کو لچک دار ریڑھ کی ہڈی اور لمبی ٹانگیں عطا کی ہیں۔ ان کی مدد سے یہ اچانک بہت تیز دوڑ سکتا ہے اور اچانک رک بھی سکتا ہے۔ یہ اپنے پورے پیروں پر نہیں بلکہ اپنے پنجوں پر چلتا ہے۔ یہ دوڑتے ہوئے اپنے چاروں پیروں کو ایک جگہ سکیٹر بھی سکتا ہے۔“
”ماموں جان آپ تو بہت دلچسپ باتیں بتا رہے ہیں۔ کیا چیتا چھلانگ لگا سکتا ہے؟“
”ہاں، کیوں نہیں، چیتا چھلانگ بھی لگا سکتا ہے۔ ایسے واقعات ہوئے ہیں کہ کسی ہرن نے تئیس میٹر چوڑا نالہ چھلانگ لگا کر پار کر لیا، چیتے نے بھی چھلانگ لگا کر یہ نالہ پار کر لیا اور ہرن کو پکڑ لیا۔“
”چیتا صرف ہرن کا شکار کرتا ہے؟“
”نہیں، صرف ہرن نہیں بلکہ سانبھر، خرگوش، پرندے، گیدڑ وغیرہ کا بھی شکار کرتا ہے۔ کبھی کبھی شتر مرغ بھی پکڑ لیتا ہے۔ میں نے بتایا تھا کہ چیتا، شکار کے لیے بہت تیز دوڑتا ہے۔ جب یہ کسی جانور کو شکار کر لیتا ہے تو ہانپ رہا ہوتا ہے اور پندرہ بیس منٹ آرام کرتا ہے، پھر شکار کو کھانا شروع کرتا ہے۔ ایک وقت میں چیتا تقریباً تین کلوگرام گوشت کھا لیتا ہے۔ چیتا مرے ہوئے جانور نہیں کھاتا۔“
”چیتا درخت پر چڑھ جاتا ہے؟“
”چیتا، درخت پر چڑھنے میں ماہر نہیں، البتہ تیندوا، درخت پر چڑھنے کا ماہر ہے۔ چیتے کی دیکھنے کی صلاحیت بہت عمدہ ہوتی ہے۔ اللہ نے اسے سننے کی بھی اچھی صلاحیت دی ہے، لیکن اس کی سونگھنے کی صلاحیت بہت زیادہ اچھی نہیں ہوتی۔“
”ماموں جان، چیتے کا وزن کتنا ہوتا ہو گا؟“
”تقریباً چالیس سے پینسٹھ کلو گرام تک ہوتا ہے۔“
”چیتا بولتا بھی ہے؟“
”کیوں نہیں، لیکن چیتے کی آواز اپنی قسم کے دوسرے جانوروں سے مختلف ہوتی ہے۔ یہ بلی کی طرح کی آواز میں غراتا ہے، لیکن یہ آواز بلی کی آواز سے بلند ہوتی ہے۔ کبھی کبھی یہ پرندے کی طرح چہچہانے کی آواز بھی نکالتا ہے۔“
”ماموں جان چیتے کو پالا جا سکتا ہے؟“
”ہاں، اگر اسے سدھا لیا جائے تو پال بھی سکتے ہیں، لیکن یہ ذرا مشکل کام ہے، کیونکہ یہ ایک درندہ ہے۔ انسان کو اپنی حفاظت کا انتظام بھی کرنا پڑے گا، ویسے ٹیپو سلطان کے پاس سدھے ہوئے کئی چیتے تھے۔ وہ ان سے زور آزمائی کرتے تھے۔ اچھا بھئی، چیتے کی باتیں بہت ہو گئیں، اب تم جا کر سو جاؤ۔ خاصی رات ہوگئی ہے۔“
”ماموں جان، بہت بہت شکریہ، جزاک اللہ۔ آج بھی بڑا مزہ آیا۔آج تو میں خواب میں بھی شاید چیتے ہی دیکھتی رہوں گی۔ اچھا میں جا رہی ہوں،السلام علیکم!“
”وعلیکم السلام۔“ماموں جان نے جواب میں کہا۔